ثانوی اور اعلیٰ ثانوی سطح کے اسکولی طالب علموں کا ماحولیات کے تئیں رویہ : ایک مطالعہ
آفتاب عالم
اسسٹنٹ پروفیسر
کالج آف ٹیچر ایجوکیشن، دربھنگہ
مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی، حیدرآباد
سونورجک
اسسٹنٹ پروفیسر
کالج آف ٹیچر ایجوکیشن، دربھنگہ
مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی، حیدرآباد
مقدمہ
عصر حاضر میں ماحول ایک اہم سنجیدہ اور پیچیدہ مسئلہ بن گیا ہے چونکہ انسان تیز رفتار ترقی اور اس میں آنے والے انقلاب نے انسانی ضروریات میں بے تحاشہ اضافہ کرتے جا رہے ۔زندگی میں عیش و آرام حاصل کرنے میں اس نے اپنے ماحول کو آلودہ کر دیا ہے۔ انسان قدرتی وسائل کی قلت کا اندیشہ پیدا ہو گیا ہے۔ آبادی میں بے تحاشہ اضافہ جنگلات کا کٹائو بڑھتی ہوئی آلودگی کے سبب قحط سالی ،سیلاب ،زلزلے،سونامی، زمین کا کھسکنا، بادل کا پھٹنا وغیرہ حادثات سننے اور دیکھنے کو ملتے ہیں۔ اس سے پوری دنیا میں حیاتیات اور ماحول کا توازن بگڑتا جارہا ہے۔ زمین کا درجہ حرارت بڑھتا جا رہا ہے، مٹی اپنی ذرخیزیت کھوتی جا رہی ہے،ہوایں لطیف سے کثیف ہوتی جا رہی ہیں، دریا اور سمندر آلودہ ہوتے جا رہے ہیں، نباتات و حیوانات سب غیر پائیدار ہوتے جا رہے ہیں۔
ان تمام خطرات سے نمٹنے کے لیے سماج اور طالب علموں میں ماحولیاتی بیداری کے لیے انفرادی اور اجتماعی ذمہ داری کا احساس بے حد ضروری ہے۔ ماحول کی خرابی اکثر اپنے اطراف کی فطری اشیاء کی تخریب کا نتیجہ ہوتی ہے ۔آج انہی فطری ذرائع کی حفاظت کے متعلق ہر طرف شور برپا ہے۔ اس طرح کی بیداری اور سوچ و فکر کو صرف ماحولیاتی تعلیم کے ذریعے ہی فروغ دیا جا سکتا ہے۔ لہذامذکورہ بالاحقائق کی روشنی میں محقق نے یہ محسوس کیا کہ اس تناظر میں تحقیق کی اہمیت کا حامل ہے۔
دنیا کے تقریبا ًتمام ممالک ماحولیاتی مسائل سے نبرد آزما ہیں۔ لیکن ترقی پذیر ممالک کو ہر دو قسم کے مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہاہے ۔معاشی اور ماحولیاتی ۔ماحولیاتی مسئلہ کی تین اہم پہلو ہیں۔
i ماحولیاتی آلو دگی
ii ماحولیاتی آلودگی کا انحطاط کا فقدان
iii ذرائع کا فقدان
ہوائی آلودگی ساری دنیا کے لیے مسئلہ بنی ہوئی ہے۔ فضا میںCO2 کا اضافہ جو کہ رکازی ایندھن کے جلنے سے کوئلہ ،پٹرول کے چلنے سے اور کارخانوں اور گاڑیوں سے خا رج شدہ دھویں کی وجہ سے ہے ۔گرین ہاؤس اثر کا باعث بنی ہوئی ہے۔ دوسرا خطرا کلوروفلورو کاربن کافضاء میں اضافہ‘‘ دو جہازوں اور اسپرے کے ذریعے سے ہوا ہے۔فضا کی اوزون پرت کے انحطاط کا باعث بنا ہے۔ اور یہ وہ مسائل ہیں ہے جو کسی ملک کی سرحد تک محدود نہیں۔ دور حاضر کا انسان ایکWorld of Crisis میں جی رہا ہے۔ ماحولیاتی مسائل ہر فرد کی توجہ اپنی جانب مبذول کروانا چاہتے ہیں وہ چاہتے ہیں مرد و خواتین ہوں یا نوجوان ہوں ہر ایک کا یہ فرض بن گیا ہے کہ وہ ماحول کی حفاظت کرے۔ نہ صرف فرد بلکہ سماج ،معاشرہ ،ریاست اور ملک سبھی حتیٰ کے ساری دنیا اس کے لیے کام کرے ۔ماحولیاتی مسائل سے آگاہی اور ان کا حل کرنے کی کوشش اور دراصل انقلاب تلاشہ ہے۔ ہندوستان میں سبز انقلاب صنعتی انقلاب کے بعد لیکن یہ بات خارج از بحث ہے کہ ابتدائی دور انقلابوں کے نتیجہ میں تیسرے انقلاب کی ضرورت محسوس کی گئی ہے ۔
ہندوستان میں ابتداء میں مسئلہ کے حل کے لیے حکومت کی مدد لی گئی۔چونکہ ہندوستان کی آبادی میں گزشتہ کئی دہوں سے مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اس کے لیے ہندوستان میں ماحولیاتی مسائل کا تعلق آبادی کے اضافے کے ساتھ جڑ گیا ہے۔ جسکی وجہ سے حکومت ہند کو چند سخت فیصلے لینے پڑے تھے لیکن چونکہ خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہ ہو سکا تھا اس لئے حکومت نے اس مسئلہ کے حل کے لیے فلسفیانہ انداز فکر اختیار کیا کہ تعلیم کے ذریعہ افراد کی ذہنی تربیت ممکن ہے۔ تب مختلف مضامین کے ساتھ ماحولیات کے اسباق کوجوڑاگیا جہاں اسکی گنجائش نکل سکتی تھی۔ لیکن بعد میں یہ فیصلہ ہوا کہ اسے ایک مکمل علیحدہ مضمون کے طور پر مدارس میں پڑھایا جائے۔
ماحول ((Envirenment
ماحولیات ایک عالمی اصطلاح ہے اس میں انسانی زندگی کے تمام پہلو شامل ے جو کہ انسانوں کے ساتھ دوسرے جانداروں کے لیے بھی ضروری ہے ماحولیات Ecology دراصل محولEnvironmentکے مجموعی نظام کا نام ہے۔ جس میں کائناتی نشونما طور پر فروغ پاتی ہے۔ لفظ Ecology کی ابتدا دو یونانی الفاظ “Oikas” اور “Logos” سے ہوئی جس سے مراد رہائشی اور مطالعہ ہے۔
آکسفورڈ انگلش ڈکشنری کے مطابق ’’ماحولیات حیاتیات کی وہ شاخ ہے جو اقسام اور ان کے ماحول کے درمیان باہمی تعلق کا مطالعہ کرتی ہے‘‘ اس کے علاوہ انگلش ڈکشنری نے ہی ماحولیات کو مجموعی طور پر تمام عوامی تعلقات کا مطالعہ بھی قرار دیا ہے۔
مختلف مفکرین نے ماحولیات کی مختلف تعریفیں کی ہیں
Krebs کے مطابق ماحولیات اجسام کی تقسیم و کثرت کو متعین کرنے والے باہمی تعلقات کا مطالعہ ہے۔
HerrاورOsolکے مطابق جمہوریہ سے مراد وہ خارجی حالات ہیں جو کسی نظام حیات یا اس کے حصوں کی سرگرمیوں اور ان پر ہونے والے اثرات کا احاطہ کرتے ہیں۔
چند سائنسدانوں میں جن میںOdum بھی شامل ہے’’ ماحولیات کو ماحولیاتی نظام کی ساکھ اور کارکردگی کا مطالعہ قرار دیا ہے‘‘۔
عام الفاظ میںماحولیات سے مراد زندہ اجسام کے رہن سہن کے اعداد کا مطالعہ ہیں یعنی ماحول کئی چیزوں سے مل کر بنتا ہے۔جس میں روشنی و حرارت، مٹی ،پانی شامل ہیں۔ارضی عوامل ہیں جیسے ہیں پیر پودے ،حیوانات اور نے جاندار وغیرہ بھی ماحول کے ضروری عناصر ہیں اس طرح ماحول مختلف اقسام کے حیاتی اور غیر حیاتی عوامل کے آپسی اشتراک اور ان کے درمیان قائم تال میل سے بنے حالات کا نام ہے سائنسدانوں کے خیال میں تمام عوامل دو بڑے درجوں میں تقسیم کئے جا سکتے ہیں۔
ٓٓٓٓآلودگی (Pollution)
آلودگی(Pollution) کا لفظ لاطینی زبان کے لفظ “Polluere” سے ماخوذ ہے جس کے معنی”Soilor Defile” گندگی یا آلودہ کے ہیں ۔اس طرح آلودگی کے معنی ’’گندگی ‘‘نجاست یا آلائش ہے۔
سائنسدانوں کے نزدیک ہوا، پانی اور مٹی میں ناپسندیدہ تبدیلی جس سے اس کے فزیکل، کیمیکل اور بائیولوجیکل کردار میں ایسی تبدیلی آئی جو جانداروں کے لیے نقصان دہ ہوں انسانوں کے لیے اسے آلودگی کہتے ہیں ۔Odumنے آلودگی کی تعریف اس طرح کی ہے’’ ہوا ،پانی اور مٹی کی طبعی،کیمیاوی اور حیاتیاتی اوصاف میں ایسی غیر ضروری تبدیلی کو جو انسانی زندگی صنعتی ،ترقی اور طرز رہائش اور تمدنی سرمائے کو نقصان کی حد تک متاثر کرتی ہوں آلودگی ہے۔
آلودگی پیدا کرنے والے اشیاء
(1) ڈپوزیٹیڈ میٹر (Deposited Matter)دھواں ، گرد وغیرہ۔
(2) گیسز(Gases)آکسائڈس آف نائٹروجن، سلفر ڈائی آکسائڈ، کاربن مونو آکسائڈ اور ہیلوجنس
(3) ایسیڈس ڈراپ لیٹس (Acid Droplets)سلفیورک ایسڈ، ناٹئرک ایسڈ وغیرہ وغیرہ۔
(4) فلورائڈس (Fluorides)
(5) میٹلس (Metals)مرکری، لیڈ، آئرن، زنک، ٹنگسٹن ، کرومیم وغیرہ وغیرہ۔
(6) ایگرو کیمکلس (Agrochemicals)بایوسائڈس اور فرٹیلایزرس وغیرہ۔
(7) کمپلیکس آرگنک سبسٹانس (Complex Orgainc Substances)بنزین ایتھراسٹک ، ایسڈ نیزپائرنس وغیرہ۔
(8) فوٹو کمیکل آکسی ڈینٹس (Photo Chemical Oxidents)اسموک، اوزون، Pan،نائٹروجن آکسائڈ، الڈی بائیڈس، ایتھی لین وغیرہ۔
(9) سولڈویسٹس (Solid Wastes)
(10) ریڈیوایکٹوواسٹس (Radio Active Wastes)
(11) شورشرابہ(Noise)
آلودگی کے اقسام :
(1) فضائی آلودگی :
صاف ہوا میں مندرجہ زیل مقدار میں گیس ملی ہوتی ہیں۔
نائٹروجن 78.84فیصد آکسیجن 20.9676فیصد
آرگن0.934فیصد کاربن ڈائی آکسائڈ0.314فیصد
میتھین 0.0002فیصد ہائڈروجن 0.0005فیصد اور دیگر گیس تھوڑی بہت۔
ہوا میں آلودگی کی وضہ خاص طور سے انڈستری (Industaries)،ترمل پاور اسٹیشن ، آٹو موبائل اور گھیلو ایندھن ہیں۔
فضائی آلودگی سے زمین کا درجہ حرارت بڑھ جاتا ہے۔بے موسم برسات ہوتی ہے اور کطرناک سیلاب بھی آتے ہیں۔کاربن مونو آکسائڈ کی مقدار اگر زیادہ ہو جائے تو صحت کے لئے بہت نقصاندہ ہے۔اس سے سانس لینا مشکل ہو جاتا ہے۔اور سر میں درد وغیرہ ہونے لگتا ہے۔فیکٹریوں کی وجہ سے تیزابی بارش کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
(2) پانی کی آلودگی (Water Pollution):
پانی کے بغیر زندگی کا تصور نا ممکن ہے، پانی زندگی ہے اور ہر جاندار کی اہم ضرورت ہے۔ ضروریات زندگی کے لئے وہی پانی استعمال ہوتا ہے جو آلودگی سے پاک صاف ہو۔پاک صاف پانی کا کوئی رنگ، بویا مزہ نہیں ہوتا یہ ٹھوس سیال اور گیس تینوں شکلیں اختیار کر سکتا ہے۔پانی ہائڈروجن پانی کی آلودگی سے مراد پسندیدہ اشیاء کی بڑی مقدار جیسے ٹھوس کے ذرات، حل شدہ نمکیات، صنعتی نا کارہ اشیاء، گرد و غبار اور حیاتیاتی اشیاء کا پانی میں پایا جانا ہے۔یعنی پانی کی طبعی ، کیمائی یا حیاتیاتی خواص میں وہ تبدیلی جس کا استعمال نقصاندہ ہو آبی آلودگی کہلاتا ہے۔ آبی آلودگی کی اہم وجوہات میں پیٹرول اور اس سے متعلقہ اشیاء ، یعنی تیل کے چشمے، صنعتی اور ان سے پیدا ہونے والا فضلہ ،بجلی کے پلانٹ ، زیر زیر زمین معدنیات، انسانی فضلہ سے جانے والی نالیاں، زراعت میں استعمال ہونے والی کیڑامار دوائیں، صابن و ڈٹرجنٹ اور انسانوں کا استعمال شدہ پانی ہیں۔
(3) زمینی آلودگی (Land/Soil Pollution):
زمینی آلودگی سے مراد قدرتی نوعیت میں تبدیلی یا اضافہ ہے۔جس سے صرف زمین کی ظاہری شکل بھدی اور گندی ہو جاتی ہے بلکہ اس سے انسانی ، حیوانی، نباتاتی زندگی اور سطح زمین و زیر زمینی پانی بھی متاثر ہوتا ہے۔
زمینی آلودگی کے ذرائے (Sources of Land Pollution):
زمین مندر جہ ذیل چیزوں سے آلودہ ہو جاتی ہے۔
گندگی ، فضلہ، کچرا، کورا کرکٹ، خصوصاً پلاسٹک اور پولی تھین وغیرہ کے امبار اسی طرح فضلہ کے لئے بنائے جانے والے گڑھے (Sweage Tanks)۔
کیمیائی کار خانوں ، کاغز کے کارخانوں ، کپڑے کے ملوں اور ریفائنری وغیرہ سے نکلنے والا صنعتی فضلہ اور تھر مل پلانٹس سے نکلنے والی راکھ (Fly Ash)وغیرہ فضا اور پانی کے ساتھ زمین کو بھی آلودہ کرتے ہیں۔
تحفظ ماحول(Conservation of Environment)
ماحول کو بحران سے تحفط کرنے کا مطلب ہے وسائل قدرت کا زیادہ سے زیادہ تحفظ اور کم سے کم استحصال ۔ماحولیاتی بحران کے دو پہلوہیں: اوّل آفات سمادی اور دوم انسانی بد اعمالیاں ۔آفات سمادی پرقدرت حاصل کرنا انسان کی قدرت سے باہر ہے۔ہاں انسان اپنی بداعمالیوں یعنی قدرتی وسائلانسان کے لیے آکسیجن نہایت ضروری ہے اور اگر آکسیجن نہیں ہوگی تو انسان بھی زندہ نہیں رہ سکے گا۔ ہم غذا کے طور پر جو کچھ بھی استعمال کرتے ہیں اس کے بنیادی عناصر زمین سے اگائی جاتے ہیں اسی طرح پانی، ہوا ،بادل ،بارش، ندی یا دریا ،سمندر گویا کائنات میں پھیلی یہ تمام اشکال ایک مخصوص عمل سے گزرنے کے بعد ہم تک پہنچتی ہے حیاتیاتی تنوع اسی مخصوص عمل کو برقرار رکھنے کا کام سرانجام دیتا ہے۔
ماحولیاتی سائنس دانوں کا اندازہ ہے کہ ہماری دنیا میں سے ہر روز 150 سے 200 نباتاتی اور حیواناتی انواع ختم ہورہی ہے ایک بار ایک نوع ختم ہوتی ہے تو ہمیشہ کے لئے ختم ہو جاتی ہے۔ سائنسداں کہتے ہیں کہ جس تیزی سے انواع ختمہورہی ہے معلوم کائناتی تاریخ میں اس کی نظیر صرف ڈائناسورس کے خاتمے کے دور میں ملتی ہے۔ اس سے ہزاروں لاکھوں برسوں سے انواع کو کوئی بڑا خطرہ نہیں تھا۔اب پھر تیزی سے انواع ضیاع شروع ہوگیا ہے۔
قدرتی اور بشریاتی عمل کی وجہ سے جانوروں اور پودوں کی نایاب اقسام ان کا قدرتی ماحول اور جغرافیائی محل وقوع شدید خطرے میں ہے درحقیقت اس کرہ ارض کے نظام کو ایک خاص ترتیب میں رکھنے کے لئے ہی جاندار ایک اہم کردار ادا کرتے ہیں اور اگر یہ ختم ہوگئے تو کرہ ارض کا نظام بھی شدید طور پر متاثر ہوگا۔
اللہ تعلیٰ نے اس دنیا میں کوئی چیز بے کار نہیں بنائی۔
(ربنا ما خلقت ھذا باطلا) آل عمران 19
نباتات اور حیوانات کی ہر نوع کے ذمہ اس دنیا کو چلانے کے لئے کوئی نہ کوئی اہم کام دیا گیا ہے۔ان انواع کا خاتمہ دراصل انکے ذمہ کئے گئے کاموں کا رک جانا ہوتا ہے جس کے نتیجہ میں انسان کے بشمول کائنات کی ہر مخلوق تکلیف کا شکار ہوتی ہے۔سمندروں میں مجود ننھے منے Plantkonsفضا میں موجود کاربن ڈائی آکسائڈ کے تناسب کو برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔سمندر کے درجہ حرارت کے بڑھ جانے سے ان کے ضیا ع کو گرین ہائوس گیسوں کے تناسب کو بڑھانے کا ایک اہم سبب مانا جاتا ہے۔ چوہے کھانے والے سانپوں اور مچھروں کے انڈے کھانے والے مینڈکوں کے بغیر انسانوں کی زندگی مشکل ہے۔یہ نہ ہوں تو طاعون اور ملیریاکی دوائیں (Medicines)آنا فانا انسان کا خاتمہ کر دیںگی۔بعض انواع کے کاموں کو ہم جانتے ہیں لیکن نباتات اور حیوانات اور خاص طور پر آنے والے جرثوموں کی کروڑوں قسمیں ہماری زندگی کی حفاظت اور بقا کے لئے اللہ کے حکم سے جو خاموش کام کر رہی ہیں ان کا ہمیں پتہ بھی نہیں ہے۔اس لئے ان کا ضیاع ہمارے لئے کیسی کیسی قیامیتیں برپا کر سکتا ہے، اس کا اندازہ بھی ہم نہیں لگا سکتے ہیں۔
حیاتیاتی تنوع کو یقینی بنانے کے لئے ضروری ہے کہ قدر زیادہ ممکن ہو سکے شجر کاری کی جائے، فیکٹریوں اور گھروں کی گندگی پانی میں نہ پھینکی جائے ، زہریلے دھوئیں کے اخراج پر کنٹرول کیا جائے۔
مسئلہ کے انتخاب کا جواز
اسکائنات میں انسان کو مرکزی حیشیت حاصل ہے۔وہ اس زمین پر اللہ کا خلیفہ ہے اس کی ضروریات کے پیش نظر دنیا کی ساری چیزوں کو اس کے زیر تصریف کر دیا گیا ہے۔اسن اشیاء میں جاندار بھی ہیں اور غیر جاندار بھی ۔ ایک جر ثو مہ سے لے کر سورج جیسی فلکی اجسام تک سبھی انسان کی خدمت و نفع رسانی کے لئے تخلیق کئے گئے ہیں۔شجر حجر، معدنیات ، ہوا، پانی، جنگلات، چرند، پرند، درند اور خود انسان بھی اس عظیم ماحول کا حصہ ہیں۔جب تک ماحول کے یہ اجزا فطری انداز میں ایک دوسرے سے روبہ عمل رہے اس وقت تک ماحول کا توازن ٹھیک ٹھاک رہا لیکن بڑھتی ہوئی آبادی اور سائنسی انکشافات کے غلط استعمال اور انسانی ہوس نے قدرت میں در اندازی شروع کر دی تو پھر یہیں سے ماحولیاتی پریشانیاں شروع ہو گئیں۔
دنیا بھر میں آج ماحولیات ایک گہری تشویش کا موضوع بنتا جا رہا ہے۔ جیسے جیسے ترقی کر رہے ہیں ویسے ویسے ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ ہماری زمین ہم ہم پر تنگ ہوتی جا رہی ہے اور ان سب کے لئے کوئی اور نہیں ہم خود ہی ذمہ دار ہیں۔ ہم نے اپنی ترقی کے لئے کارخانے لگائے، صنعتیں قائم کیں۔ طرح طرح کی ملیں چلائیں ، بت شک ان سے ہماری زندگی کی رفتار معیار میںقابل ذکر اضافہ ہوا لیکن ہم نے ان کے فوری و ظاہری فوائد کو ہی مدنظر رکھا اور اس کے پوشیدہدہ دور رس خطرات کو یکسر نظر انداز کر دیا۔ نتیجتاً اب جب یہ نقصانات اور خطرات سامنے آنے لگے ہیں تو ہمارے حواس فاختہ ہیں۔تو اس دھماکہ کہ خیز صورت حال نے محقق کو ماحولیاتی اصلاحات کے متعلق سوچنے پر مجبور کر دیا ۔اور وہ اس نتیجہ پر پہنچا کہ ماحولیات سے متعلق تمام تدبیر اور اقدامات بے فائدہ ثابت ہونگے۔جب تک عوام میں ماحولیات کے تئیں بیداری نہیں لائی جائینگی اور انکی فکر و سوچ اور رویہ میں تبدیلی نہیں لائی جائنگی خصوصاً زیر تربیت اساتذہ میں۔
کیونکہ زیر تربیت اساتذہ میں ماحولیاتی بیداری کے رویہ کے تعلق سے واقفیت ضروری ہے اگر ایسا نہ ہوا تو اس کے بہت منفی نتائج بر آمد ہوںگے۔
اس لئے محقق نے یہ ضروری سمجھا کہ زیر تربیت اساتذہ کے درمیان ماحولیاتی رویہ سے متعلق بیداری کا پتہ لگایا جائے اسر اس بات کا پتہ لگایا جائے ان کے رویہ کا تناسب مختلف درجات اور جنس کے اعتبار سے کیا ہے؟اس لئے محقق نت تحقیق کے لئے اس عنوان کا انتخاب کیا۔
مسئلہ کی اہمیت و افادیت
دور حاضر کی تیز رفتار ترقی اور اس میں آنے والے انقالابات نیانسانی ضروریات کو بڑھادیا ہے۔اور ابن آدم کے قدرتی وسائل کے بے دردی بے حسی وغیرمنطقی استعمال کے ذریعہ فطرت کو زبر دست نقصان پہنچا ہے، اس کے نتیجہ میں اوزون پرت میں شگاف کلورو فلورو کاربنس کا فضا میں اضافہ اور اس کے نتیجہ میں قحط سالی ، سیلاب، زلزلے ، زمین کھسکنے کے واقعات وبائیں ہیں۔ان حالات مٰن ضروری ہو جاتا ہے کہ ان مسائل کو سمجھا جائے اور سماج ان سے نہ صرف واقفیت حاصل کرے بلکہ اس میں ماحولیاتی تحفظ کے متعلق احساس و ذمہ داری پیدا ہو۔
یہ ایک ناقابل انکار حقیقیت ہے کہ ماحول کی خرابی اکثر اپنے اطراف کی اشیاء کی تخریب کا نتیجہ ہوتی ہے۔آج انہیں فطری ذرائع کی حفاظت کے متعلق ہر طرف شور برپا رہا ہے۔ لیکن اس کا کوئی معقول حل منظر عام نہیں آیا۔یہ تبھی ممکن ہے جب کہ ہم متلعقہ مسائل کے تئیں ایک مناسب سوچ و فکر اور مکمل بیداری پیدا کریں اور اس طرح کی بیداری اور سوچ و فکر کو صرف ماحولیاتی تعلیم کے ذریعہ فروغ دیا جا سکتا ہے۔تعلیم سماج کا ایک اہم آلہ ہے جو کہ زندگی کے
مختلف پہلوؤں میں آب حیات کا کام کرتی ہے۔معلومات، بیداری ، مہارتیں ، اقدار و افقار تعلیہم سے حاصل ہوتی ہیں کہ زندگی کے اعلیٰ معیاری کی طرف رہنمائی کرتی ہیں۔رسمی وغیر رسمی دونوں طرح کے نظام تعلیم میں موحول کی حفاظت کے سلسلے میں لوگوں کو ایسی معیاری زندگی کی تعلیم فراہم کرنا جو ماحولیاتی تعلیم پر مرتب ہو نہایت ضروری ہے۔
حالیہ برسوں میں ماحول کی تیزی سے بدلتی ہوئی رفتار ، بے تحاشہ آبادی طاقت کے ذرائع انکا استعمال وغیرہ نے دنیا کے لئے مسائل کی ایک زنجیر بنا دی ہے۔اس طرح ماحول کی خرابی اور بحران ایک سنجیدہ مسئلہ بن گیا ہے۔اس سے نہ صرف لوگوں کے سکون و اطمینان کو ہی خطرہ ہے بلکہ انکی صحت و زندگی پر بھی مضر اثرات مرتب کرتا ہے۔لہٰذا مزکورہ بالا حقائق کی روشنی میں محقق نے یہ محسوس کیا کہ اس تناظر میں سابقہ تحقیقی کاموں خلیجیں واقع ہیں موجودہ مقالہ ان خلیجوں کو پر کرنے کی ایک کوشش ہے۔لہٰذا یہ مطالعہ اہمیت کا حامل ہے۔
مطالعہ کے مقاصد
(1) ثانوی اور اعلیٰ ثانوی سطح کے طالب علموں کے درمیان ماحولیات کے تئیں رویہ کا تقابل کرنا۔
(2) ثانوی اور اعلیٰ ثانوی سطح کے لڑکے اور لڑکیوں کے درمیان ماحولیات کے تئیں رویہ کا جائزہ لینا ۔
(3) ثانوی اور اعلیٰ ثانوی سطح کے لڑکیوں کے درمیان ماحولیات کے تئیں رویے کا تقابل کرنا۔
مفروضات
(1) ثانوی اور اعلیٰ ثانوی سطح کے طالب علموں کے درمیان ماحالیات کے تئیں رویہ میں کوئی معنی خیز فرق نہیں ہوگا۔
(2) ثانوی اور اعلیٰ ثانوی سطح کے لڑکے اور لڑکیوں کے درمیان ماحولیاتی رویہ میں بھی کوئی معنی خیز فرق نہیں ہوگا۔
(3) ثانوی اور اعلیٰ ثانوی سطح کے لڑکیوں کے درمیان بھی ماحولیات کے تئیں رویے میں بھی کائی معنی خیز فرق نہیں ہوگا۔
طریقہ کار (Methodology)
کسی بھی تحقیق کا دار مدار اس کے لئے اپنائے جانے والے طریقہ کار پر ہوتا ہے۔ طریقہ کار جتنا اچھا ہوگا تحقیق کے نتائج بھی اتنے ہی اچھے اور بہتر ہوںگے۔ اس سے طریقہ کار کی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔ تعلیمی تحقیق میں کئی طرح کے طریقہ کار کا استعمال کیا جاتا ہے۔ مگر غالباًان تمام طریقوں میں جس طریقہ کار کو زیادہ استعمال کیا جاتا ہے وہ دوسرے طریقہ ہے۔
سروے طریقہ کار ہے جس میں مختلف نوعیت کی تکنیک اور عملی اقدامات استعمال کئے جاتے ہین۔ان تکنیکوں اور عملی اقدامات کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ معلوم کیا جائے کہ زیر مطالعہ مظہر (Phonomenon)کی موجودہ صورت حال (Status)کیا ہے؟ حاصل معلومات کا تجزیہ کر کے صورت حال کو بہتر بنانے کی تجاویز بھی پیش کی جاتی ہیں۔
زیر مطالعہ تحقیق کو انجام دینے کے لئے محقق نے ’’بیانیہ سروے‘‘ کا طریقہ استعمال کیا ہے۔
نمونہ (Sampling)
اس تحقیق کے لئے محقق نے Statified Random Sampling Techniqueکا استعمال کیا ہے جو کہ کم آبادی والے علاقہ او ر کم وقت میں کی جانے والی تحقیق کے لئے معاون ثابت ہوتی ہے۔
محاصلات (Findings)
محاصلات کے ذریعے کسی بھی مسلہ پر کئے گئے کام کی صورت حال اچھی طرح واضح ہو جاتی ہے۔حاصل شدہ معطیات کے مقاصد اور مقاصد کے تحت قائم کیے گئے مفروضات کا تجزیہ اور تشریح کرکے محقق اپنی محاصلات کو بیان کرتا ہے۔
چنانچہ اس مطالعہ کے تحت حاصل شدہ معطیات کا تجزیہ و تشریح مقاصد و مفروضات کی روشنی میں کرنے کے بعد جو
نتائج (Findings ) حاصل ہوئے ہے وہ مندرجہ ذیل ہیں۔
.1مقصد: ثانوی اور اعلیٰ ثانوی سطح کے طلبہ کے درمیان Attitude Environmental کا تقابل کرنا
.1 مفروضہ : ثانوی اور اعلیٰ ثانوی سطح کے طلباء کے درمیان Attitude Environmental میں کوئی معنی خیز فرق نہیں ہوگا-
.1 نتیجہ : ثانوی اور اعلیٰ ثانوی سطح کے طلباء کہ Attitude Environmental میں معنی خیز پایا گیا-
.2 مقصد: اعلیٰ ثانوی سطح قی لڑکے اور لڑکیوں کے Attitude Environmental کا تقابل کرنا
.2 مفروضا : اعلیٰ ثانوی سطح کے لڑکے اور لڑکیوں کے Attitude Environmental کوئی معنی خیز فرق نہیں ہوگا-
.2 نتیجہ : اعلیٰ ثانوی سطح کے لڑکے اور لڑکیوں کے Attitude Environmental میں کوئی معنی خیز فرق نہیں پایا گیا-
.3 مقصد : ثانوی سطح کے لڑکے اور لڑکیوں کے Attitude Environmental کا تقابل کرنا
.3 مفروضہ : ثانوی سطح کے لڑکے اور لڑکیوں کے Attitude Environmental میں کوئی معنی خیز فرق نہیں ہوگا
.3 نتیجہ : ثانوی سطح کے لڑکے اور لڑکیوں کے Attitude Environmental میں کوئی معنی خیز فرق نہیں پایا گیا
.4 مقصد : علی ثانوی سطح کے لڑکے اور ثانوی سطح کے لڑکوں کے Attitude Environmental کا تقابل کرنا
.4 مفروضہ : اعلیٰ ثانوی سطح کے لڑکے اور ثانوی سطح کے لڑکوں کے Attitude Environmental میں کوئی معنی خیز فرق نہیں ہوگا
.4 نتیجہ : اعلیٰ ثانوی سطح کے لڑکے اور ثانوی سطح کے لڑکوں کے Attitude Environmental میں معنی خیز فرق پایا گیا
مقصد : اعلیٰ ثانوی سطح کی لڑکیوں اور ثانوی سطح کی لڑکیوں کے Attitude Environmental کا تقابل کرنا
.5 مفروضہ : اعلیٰ ثانوی سطح کی لڑکیوں اور ثانوی سطح کی لڑکیوں کے Attitude Environmental میں کوئی معنی خیز فرق نہیں ہوگا
.5 نتیجہ : اعلیٰ ثانوی سطح کی لڑکیوں اور ثانوی سطح کے لڑکیوں کے Attitude Environmental
میں کوئی معنی خیز فرق پایا گیا
مشورے (Suggestions for Further Studies)
موجودہ تحقیق میں نالندا ضلع کہ بہار شریف میں ثانوی اور اعلیٰ ثانوی سطح کے اسکولی طلبہ کے ماحولیاتی رویوں کا پتہ لگانے کی ایک کوشش کی گئی ہے اس تحقیق کے محاصلات میں مزید تحقیق کے لئے راہ ہموار کی ہے دراصل کوئی تحقیق مکمل نہیں ہوتی اور یہ بات بھی صحیح ہے کہ ایک مسئلہ کہ حل سے دوسرے کتنے
مسائل پیدا ہوتے ہیں یہ بات بھی ہمارے علم میں ہے کہ کوئی بھی تحقیق صحیح طور پر سچ ثابت نہیں ہوتی کیونکہ دنیا میں ہمیشہ تبدیلی آتی رہتی ہے ۔اس لیے ہر میدان میں تحقیق کی ضرورت ہوتی ہے متعلقہ میدان میں بھی مزید تحقیق کی جاسکتی ہیں۔
(1) فلسفیانہ طرز پرethics environmental اور ماحولیاتی اقدار پر مطالعہ مختلف سطحوں کے طلبہ کے مابین کیا جا سکتا ہے۔
(2) مطالعہ چونکہ صرف نالندا ضلع کی بہار شریف کے ثانوی اور اعلیٰ ثانوی سطح کے اسکولی طلبہ تک ہی محدود ہے اس میں دوسری جگہوں کے نمونہ (sample) کو لے کر تقابلی مطالعہ بھی کیا جا سکتا ہے۔
(3) ماحولیاتی تعلیم کے نصاب اور اس کے تدوین پر تحقیق کی جا سکتی ہے۔
(4) یونیسکو کی طرف سے متعین کردہ ماحولیاتی تعلیم کے مقاصد کو بنیاد بنا کر تحقیق کی جا سکتی ہے۔
اختتامیہ
زیر تحقیق مطالعہ سے ہم اس نتیجہ پر پہنچے کے ماحولیات آج پوری دنیا کا ایک اہم مسئلہ ہے۔دور حاضر میں دنیا کی تیز رفتار صنعتی ترقی ٹیکنالوجی میں اضافہ افراد کی شہروں کو منتقلی کی وجہ سے ماحولیات کا انحطاط ہوا ہے اور اس کا اثر ماحولیاتی نظام پر پڑا ہے اور کرہ زمین کے ماحولیاتی نظام میں تبدیلی آئی ہے حیاتی اور غیر حیاتی کے غیر منصفانہ استعمال کی وجہ سیماحولیاتی توازن دن بدن تغیر کا شکار ہو رہا ہے۔
اس تناظر میں ہماری یہ ذمہ داری بن جاتی ہے کہ سماج کو ماحولیاتی نظام اور اس کے تعلق سے واقف کرایا جائے اور اس میں شعور بیدار کیا جائے خصوصا طلبہ میں اس کے لیے وہ مستقبل کے معمار ہوں گے جو کمرہ جماعت میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں ڈاکٹر سروپلی رادھا کرشنن کے بقول :-
“The Future of Nations is being shaped in its classroom”
’’کسی بھی قوم کی تعمیر اس کے کمرہ جماعت میں ہوتی ہے‘‘۔
تعلیم افراد کے طرز عمل میں تبدیلی پیدا کرنے کا اہم ذریعہ ہے سماج اور ماحولیات کے درمیان کا رشتہ ایک براندیش سطح پر ہے اس لیے اب فیصلہ کن گھڑی آگئی ہے کہ سماج کو ماحولیاتی مسائل کے بارے میں بتایا جائے کہ کس طرح بڑھتی ہوئی ماحولیاتی آلودگی گھٹتی ہوئی اوزون پرت بڑھتا ہوا درجہ حرارت کم ہوتی ہوئی زمینی پانی کی سطح کثرت آبادی سے
پیدا شدہ مسائل اور کم ہوتے جنگلات سے نقصانات غائب ہوتی ھوئی جانوروں کی اہمیت اور فضا میں بلند ہوتے زہریلے دھویں کی ضرور رسانیات پر کس طرح قابو پایا جاسکتا ہے۔
موجودہ مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اعلیٰ ثانوی سطح کے طلباء کاماحولیاتی شعور بہتر ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ نالندا ضلع کے بہار شریف کے تعلیمی پروگراموں اور نصاب کی وجہ سے طلباء میں ماحولیاتی تحفظ کے تئیں ان کا انداز فکر مثبت ہے۔
ثانوی طلبہ میں جنس کے اعتبار سے لڑکیوں کا ماحولیاتی رویہ لڑکوں کے ماحولیاتی رویے سے قدرے بہتر تو ہے لیکن ان دونوں میں کوئی معنی خیز فرق نہیں ہے ۔اختلاف جماعت کے اعتبار سے اعلیٰ ثانوی میں فرق پایا گیا اس کی وجہ یہ ہے کہ اعلیٰ ثانوی کے طلباء میٹرک کے بعد تعلیم حاصل کر رہے ہیں اس لیے ان کا ماحولیاتی رویہ کے طلباء کے جو کہ آٹھویں اور نہم درجہ کے بعد تعلیم حاصل کر رہے ہیں سے زیادہ ہے۔
اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ رسمی تعلیم طلباء کے ماحولیاتی شعور اور رویوں میں اضافہ کرتی ہے اور سماج میں مثبت تبدیلی لاتی ہے اور مدرسہ کے ذریعے طلباء باہر کے حالات سے بھی جانکاری حاصل کرتے ہیں طلباء میں ماحولیاتی مسائل کے متعلق اعداد و شمار اس بات کا ثبوت ہے کہ طلباء مسائل کو صرف
پڑھتے ہی نہیں بلکہ رسمی تعلیمی نظام کے ذریعیعملی طور پر حاصل کر رہے ہیں اور چونکہ ان کا میڈیا سے بھی رابطہ قائم ہے اس لئے کتابیں اخبار رسالے ایل اور ٹی وی سے بھی رابطہ قائم ہے اس لئے کتابیں اخبار رسالے ایل اور ٹی وی سے بھی ان کے ماحولیاتی شعور اور رویوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔
بہرحال ماحولیاتی تحفظ کو ہماری زندگی کا اہم حصہ ہونا چاہیے جس طرح ہم کہتے ہیں کہ “Prevention is better than cure” اسی طرح ماحولیات کا تحفظ ماحولیاتی آلودگی کے بعد اس کی صفائی سے زیادہ فائدہ بخش ہے ماحولیاتی نظام کے نقصان سے پہلے اسے بچا لینا زیادہ سود مند ہوگا ہم انفرادی طور پر بھی ماحولیاتی تحفظ اور مینجمنٹ میںبہت اہم رول ادا کرسکتے ہیں قدرتی وسائل کے بیدریغ استعمال کو کم کر سکتے ہیں ماس میڈیا کے ذریعے افراد میں شعور پیدا کر سکتے ہیں۔
ضمیمہ میں طلبہ کے بنائے ہوئے چند ماحولیاتی پروجیکٹ ا سلوگنس اور Essay شامل کئے گئے ہیں۔ جن سے یہ
ثابت ہوتا ہے کہ ان کا رویہ ماحولیات کے تعلق سے مثبت ہے۔
حوالہ جات
عبدالقیوم (۲۰۰۶) ماحولیاتی سایٔنس ،نصاب پبلیشر، حیدراباد۔
احمد امیر ٹی (۱۹۹۷) ماحولیات، اسپین پرنٹر، بنگلور۔
اہوجا رام (۲۰۰۲) Research Methods، راوت پبلیکشنز، رایٔپور۔
اعظم شاہ خان (۱۹۹۸) سایٔنس اور زندگی، جے ، اے، اوفیشیٹ پریس۔
بیسٹ جون ڈبلو (۲۰۰۶) Research Methodologise in Education پرینس ہال، نٔی دہلی۔
بھٹ کے، این (۲۰۰۸) Pollution, Environment and Health Emerging Issues راوت پبلیکشن ، جے پور۔
غوپسے این، سی، اور شرما سی، بی Polution of Ganga River آشیش پبلیکشن ، نٔی دہلی۔
ہیمانشو وسیسٹ اے (۲۰۰۲) Sollution Environmental Education Problems and جے پور کتاب اینکلیو۔
کمبوج این، ایس ( ۱۹۹۹) Central of Noise Pollution, دیپ اینڈ دیپ پبلیکشن ، نٔی دہلی۔
Aftab Alam Sonu Rajak
Assistant Professor Assistant Professor
College of Teacher Education, Darbhanga College of Teacher Education, Darbhanga
Maulana Azad National Urdu University Maulana Azad National Urdu University
aftabalameflu@gmail.com
Leave a Reply
Be the First to Comment!