انتظار حسین کا ’نیا گھر‘

ڈاکٹر نغمہ نگار

گیسٹ فیکلٹی، قاضی نذرل نونی ورسٹی، آسنسول

Mob : 8240752399

E-mail : naghmanigar703@gmail.com

Intezar Hussain ka Naya Ghar by Dr. NAGHMA NIGAR

                انتظار حسین کا تذکرہ ’نیا گھر‘ (2013) ہند پاکستان کے تقسیم اور ہجرت کے تاریخی تناظر میں لکھا گیا ہے۔ انھوں نے ہندوستان سے ہجرت کرکے پاکستان منتقل ہونے والوں کی رہائش کی مشکلات واذیت کو آشکار کیا ہے۔ ساتھ ہی قدیم اقدار وروایات سے جدید تہذیب کی جانب مراجعت اورنئے ملک اور نئے ماحول کے در پیش مسائل کی عکاسی کی ہے۔ جہان آباد میں پشتینی حویلی کا چھوٹنا، نئے ملک میں کرایے کی مکانوں کی الجھنوں، نجی مکانوں کی تعمیر میں در پیش مسئلوں کا تفصیلی بیان موجود ہے۔ نیز تذکرہ مہاجروں کی شناخت کا بحران اور کرب بڑی شدت سے ابھارتا ہے۔

                تذکرے میں حکایت، مذہبی روایتوں، قدیم اساطیر اور دیو مالائی واقعات سے استفادہ کیا گیا ہے۔ تذکرہ ماضی کی یادوں اور تہذیبی معاشرتی رشتوں کے احساس پر مبنی ہے۔ یہاں انتظار حسین کا نقطۂ نظر بنیادی طور پر روحانی اور ذہنی ہے۔ انھوں نے انسان کے باطن میں سفر کیا ہے۔ اس کی روح کی گہرائیوں تک اتر کر عہد حاضر کی کشاکش، افسردگی کو فنی چابک دستی سے پیش کیا ہے۔ گوپی چند نارنگ لکھتے ہیں:

                ’’انتظار حسین کا بنیادی تجربہ ہجرت کا تجربہ ہے۔ تخلیقی اعتبار سے ہجرت کے احساس نے انتظار حسین کے یہاں ایک یاس انگیز داخلی فضا کی تشکیل کی ہے۔ ہجرت کا احساس انتظار حسین کے فن کا اہم ترین محرک ہے______‘‘

(بحوالہ۔ اردو افسانہ روایت اور مسائل۔ مرتبہ :گوپی چند نارنگ۔ صفحہ ۵۳۸، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی ۲۰۰۸)

                گویا انتظار حسین کے فکشن کا مرکزی سوال ہی ماضی کی بازیافت اور جڑوں کی تلاش ہے۔ ان کے یہاں تاریخ، مذہب، نسلی اثرات، دیومالا حکایتیں، داستانیں، عقائد وتوہمات ماضی کے معنوں میں لئے جاتے ہیں ان کے نزدیک آدمی بظاہر حال میں سانس لیتا نظر آتا ہے مگر در حقیقت اس کی جڑیں ماضی میں پیوست ہیں۔گوپی چند نارنگ نے صحیح کہا تھا کہ انتظار حسین کا بنیادی تصور یہ ہے کہ آدمی جتنا نظر آتا ہے صرف وہ اتنا نہیں۔ اس کے رشتے خارج سے زیادہ اس کے باطن میں پھیلے ہوئے ہیں۔ نیز یہ کہ معاشرتی حقیقت خود مختار حقیقت بینی ہے۔ وہ بہت سی غائب اور حاضر حقیقتوں کے گم شدہ اور نو آمدہ محور مل کے تال میل سے جنم لیتی ہے۔ انتظار صاحب کا خیال ہے کہ ا ن کی ذات کا کوئی حصہ کٹ کر ماضی میں رہ گیا ہے۔ اور موجودہ معاشرے کی کوئی تصویر اس وقت تک مکمل نہیں ہوسکتی جب تک ماضی کے کٹے ہوئے حصے کو تخیل کے راستے واپس لا کر ذات میں سمویا نہ جائے۔‘‘

(بحوالہ: اردو افسانہ روایت اور مسائل، مرتبہ گوپی چند نارنگ ، صفحہ ۵۳۸، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی، ۲۰۰۸)

                تذکرہ لکھنے کا محرک انتظار حسین بیان کرتے ہیں کہ ایک رات وہ ا پنے والد کوخواب میں دیکھتے ہیں کہ وہ سامنے بکھرے اوراق کو دیکھ کر پریشان ہیں۔ اور افسوس کے ساتھ فرمارہے ہیں کہ بزرگوں نے اپنے اپنے وقت میں حق ادا کیا۔ ہم سے حق ادا نہ ہوا۔تب انہوں نے مصمم ارادہ کیا کہ وہ خاندانی تذکرے میں بعد کے خاندانی حالات مع حالاتِ زمانہ کے ساتھ قلم بند کرکے پایۂ تکمیل کو پہنچائیں گے۔ (نیا گھر، انتظار حسین، صفحہ:۴، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی، ۲۰۱۳) یہ وہ زمانہ تھا جب آزادی کی لڑائی ہندو مسلمانوں نے ساتھ مل کر لڑی تھی۔ لیکن اب دونوں قوموں میں نفرت کی زبردست آگ سلگنے لگی تھی۔ اور ان کے خون سے ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب لہولہان ہوگئی تھی۔

                مصنف کے آباء و اجداد اپنے عہد کے نامور اور بارعب شخصیتوں میں شامل کیے جاتے تھے۔ ’گلستان محل‘ کے بعد ’چراغ دہلی‘ نے پانچ نسلوں کی آبیاری کی تھی۔ مصنف اپنے بزرگوں کی خوش نصیبی پر رشک کرتے ہوئے کہتا ہے کہ وہ جہاں پیدا ہوئے وہیں جنازہ نکلا۔ لیکن حالاتِ حاضرہ میں ہجرت کی وجہ سے اس خاندان کو برے دن دیکھنے پڑے۔ انہی ڈوڑی میں سکون کی موت بھی میسر نہیں آئی۔کہتے ہیں:

                ’’اب ہم پیدا کہاں ہوتے ہیں۔ مرتے کہاں جاکر ہیں۔ نال کس کو ٹھری میں گرٹی ہے، جنازہ کس ڈیوڑھی سے نکلتا ہے۔ آدمی اب ڈال سے ٹوٹا پتہ ہے کہ ہوا اسے اڑائے اڑائے پھرتی ہے۔ کہاں سے رولتی ہے کہاں جاکر ڈھیر کرتی ہے____‘‘(صفحہ : ۱۳)

                مصنف نے نئے شہر (پاکستان) میں آکر کتنے مکان بدلے۔ کس کس محلے میں جاکر رہے۔ لیکن کسی متروکہ مکان کا تالا نہیں توڑا۔ مصنف کا سوال یہ کہ نئی زمین مہاجر انسانوں کو قبول کرتی بھی ہے کہ نہیں؟

                نیا گھر کی ایک اہم کردار بوا جان ہیں جو حویلی کی زندگی کی پروردہ ہیں۔ پرانے آداب واخلاق پر سختی سے کاربند ہیں۔ بو جان نئی جگہ، نئی زمین، نئے گھر سے مطابقت کی کوشش میں ہلکان ہوجاتی ہیں۔ یکے بعد دیگرے کئی گھر بدلے گئے۔ بڑی مشکلوں سے نجی گھر بنانے کی سبیل پیدا ہوئی_____

                ____ایک تو کرائے کے مکان کی دقتوں کا احساس۔ پھر میں نے سوچا کہ شاید بو جان ٹھیک ہی کہتی ہیں کہ قدم جمانے کے لیے زمین کا اپنا کوئی ٹکڑا ہونا چاہیے۔ شاید میں بکھرا ہوا آدمی اسی وجہ سے ہوں کہ نگران ہوں۔ قدم جمانے اور سر چھپانے کے لیے کوئی کونہ مل جائے تو شاید اپنی زندگی میں بھی کوئی جماؤ پیدا ہوجائے____‘‘ (صفحہ:۳۳)

                تذکرہ یں دوسرا اہم کردار مصنف کی بیوی زبیدہ کا ہے جو نئی تہذیب اور نئے زمانے کے تقاضوں کے مطابق خود کو ڈھال لیتی ہے۔ وہ ایک وفا شعار بیوی کی طرح اپنے شوہر کا ہر مشکل میں ساتھ دیتی ہے۔ الغرض نئے مکان بننے کے مرحلے میں زبیدہ کی جمع پونجی کے نکلنے پر قرضوں کے لین دین کا سلسلہ شروع ہوا۔ چراغ حویلی کی یاد اور بوجان کی زبانی وہاں کی وضع داریاں رہ رہ کر مصنف کا دامن تھام لیتی ہیں۔ اس کے در ودیوار سے پرانے رشتے جو مصنف کی پیدائش سے قبل ہی قائم ہوچکے تھے، وہاں کی ڈولیاں وہاں کے جنازے سب اس کی آنکھوں کے آگے رقص کرتے ہیں۔ نئے گھر میں قدم رکھنے کے بعد خوشگواری کا احساس جاگنے لگتا ہے۔ وہاں کے در ودیورار سے نئے رشتے بننے لگتے ہیں۔ اس سلسلے میں پرندوں کا باب بے حد خوبصورت ہے۔ اسی دوران منحوس واقعہ منظر عام پر آتا ہے جب آشیانہ (نیا گھر) کی پچھلی دیوار کے نیچے تین نوجوانوں کو پھانسیاں دی جاتی ہیں۔ یہ واقعہ مصنف کی پریشانی کا آغاز ثابت ہوتا ہے۔ مصنف نئے گھر میں رہ کر انہی پرانی حویلی کے در ودیوار، متیوں، برجوں، دروازوں یہاں تک کہ پرانے وضع کے طاقوںکو بھی یاد کرتا ہے۔ جوا سیا ب نئے گھر میں میسر نہیں۔ جن کے مطابق زبیدہ اور مکان کا نقشہ بنانے والا بھی ہنسنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ یہ چیزیں اب جدید وضع قطع کے گھر سے میل نہیں کھاتیں۔ قرضوں کے بوجھ اور ان کے تقاضوں کی یلغار نے پرانی حویلی کی یاد کو وقتی طورپر دبادیا۔ قرضوں کی ادائیگی کی کوئی سبیل نہیں نکلتی۔ آخر قرضوں کے تقاضوں سے تنگ آکر زبیدہ بوجان کی ناراضگی کے باوجود گھر فروخت کرنے کے لیے اپنے شوہر پر دباؤ ڈالتی ہے۔

                بوجان جنہوں نے ساری زندگی حویلی میں شان سے حکمرانی کی۔ کیا بڑے کیا بچے جو ان کے رعب سے دبے دبے رہتے تھے ۔ اب وہی بوجان بدلتے وقت کے آگے بے بس ہیں۔ ان کی بس اتنی حسرت رہ کئی کہ ان کا جنازہ آشیانے کی چوکھٹ سے ہی نکلے۔ بو جان بہت ہی دنیا کو خیر باد کہہ دیتی ہیں۔ ان کی موت قدیم تہذیب کے ختم ہونے کا اشارہ ہے۔ بو جان جب تک زندہ رہیں اس بات سے افسردہ رہیں کہ ہجرت خون کے رشتے کو ختم کردیتے ہیں۔ بوجان کا جسم تو ہجرت کرکے یہان آگیا تھا۔ لیکن ان کی روح تو چراغ حویلی میں ہی رہ گئی تھی۔

                بوجان کی موت سے قبل شیریں کی آمد مصنف کو حیرت میں ڈال دیتی ہے در اصل شیریں مصنف کی چچا زاد بہن ہے۔ اس کے ساتھ مصنف بچپن اور نوجوانی کی یادیں جڑی تھیں۔ اور ان یادوں کا مرکز چراغ حویلی ہی ہے۔ بو جان کی تیمار داری کے دوران مصنف اور شیریں دونوں چراغ حویلی سے متعلق پرانی یادیں تازہ کرتے ہیں۔ اور بوجان کی وفات کے بعد مصنف آشیانے کو بیچنے کا ارادہ ترک کردیتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ آشیانے کی دیوڑھی سے ایک بزرگ کا جنازہ نکل چکا تھا۔ یہ بات چراغ حویلی کے اصول کے خلاف اور نہایت شرمناک تھی کہ گھر فروخت کیا جائے۔ بوجان کی دعا سے آشیانہ اب گلستان محل اور چراغ حویلی کا قائم مقام بن چکا تھا۔

                تذکرے کے بیچ بیچ میں مصنف نے اپنے آباء واجداد کاملکر پردادا، دادا ، پھوپھا، والدکا حسب ونسب، ان کا باوقار پیشہ اور خلقت سے ان کی فیض یابی کا ذکر احسن طریقے سے کیا ہے۔ اور ان کے بعد خود کے حالات تک قلم بند کرکے تذکرے کو مکمل کیا ہے۔ تذکرے میں بیچ بیچ میں قدیم اساطیر سے فائدہ اٹھا کر ان کا رشتہ حالات حاضرہ سے جوڑنے کی کامیاب سعی کی ہے۔ ایک ایک جزئیات کا انہوں نے بھر پور خیال رکھا۔ لکھتے ہیں____

                ____اب میری سمجھ میں آرہا تھا کہ کیوں میرے اجداد ایک عمر پر پہنچ کر تذکرہ لکھنے بیٹھ جایا کرتے تھے۔ یا تو بو جان کی سی فضائے یاد ہو۔ جہاں دیکھے ان دیکھے سب زمانے سدا بہار تھے کہ بو جان تو انہی ذات میں زمانوں کا سنگم تھیں کہ کتنے زمانے کہاں کہاں سے یہاں آکر ملتے تھے۔ اور خوش اسلوبی سے جدا ہوجاتے تھے۔ یا پھر آدمی تذکرہ لکھے نہیں تو یادیں بسر جائیں گی یا بکھر جائیں گی۔ اور آپس میں د ل مل جائیںگی۔‘‘ (صفحہ:۲۶۷)

                جب ہم بغور اس کتاب کا جائزہ لیتے ہیں، تو ہمارے ذہن میں یہ سوال گردش کرنے لگتا ہے کہ کیا واقعی ’’نیا گھر‘‘ صرف انتظار حسین کا تذکرہ ہے۔ یا اس تذکرے میں صرف نئے گھر کی تعمیر کی اذیت وکوفت کو آشکار کیا گیا ہے۔ در حقیقت یہ کتاب انتظار حسین کی تذکرہ ان کی آپ بیتی ہی نہیں مہاجر ہندوستانیوں کی جگ بیتی بھی ہے۔ نیا گھر در اصل قدیم اور جدید تہذیب کا سنگم ہے۔ پرانے اقدار وروایات اور نئے عہد کی مشکلات کو اپنے اندر سموئے ہوئے یہ تذکرہ ناسٹلجیائی کیفیت اور نقل مکانی کے المیات کو فنکارانہ سیاق وسباق میں پیش کرتا ہے۔ تذکرے کے منفرد ہونے کا انداز اس کے بیانیے یعنی فرد، اجتماع اور نقل مکانی میں ہی پوشیدہ نہیں بلکہ ان کے اسلوب کی سادگی وتازگی بے چیدہ اور مشکل وباریک احساس کو سہولت سے پیش کرنے پر قادر ہے۔ ان کا داستانوی اسلوب واظہار نوآبادیاتی مسائل کو بڑی ہنر مندی سے پیش کرتا ہے۔

٭٭٭

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.