کلام ِ اقبال کی پیروڈی
ڈاکٹرعبدالحلیم انصاری(محمد حلیم)
شعبہء اردو، رانی گنج گرلس کالج(مغربی بنگال)
موبائل۔9093949554
Kalame-Iqbal ki pairodi by Dr. Abdul Halim Ansari
ہزل اور ہجو کی طرح پیروڈی بھی طنزیہ اور مزاحیہ شاعری کی ایک صنف ہے۔اس میں کسی مشہور نظم یا شعر یا غزل کی طنزیہ و مزاحیہ نقل پیش کی جاتی ہے۔جس نظم یا شعر کی پیروڈی کی جائے اس کا مشہور ہونا شرط ہے کیونکہ پیروڈی سے پوری طرح محظوظ تب ہی ہوا جا سکتا ہے جب اصل نظم یا شعر ذہن میں ہو۔پیروڈی انگریزی سے اردو میں آئی ہے اور یہ تضمین سے ملتی جلتی ہے۔پیروڈی اور تضمین میں یہ فرق ہے کہ تضمین میں غزل کے شعر کے کسی مصرعے پر تضمین نگار اپنا مصرع لگا کراسے نئے معنی عطا کرتا ہے یا پھر غزل کے مصرعوں میں مصرعے بڑھا کراسے نظم کی شکل دیتا ہے اور تضمین ہمیشہ سنجیدہ ہوتا ہے جبکہ پیروڈی میں کسی شعرکے کسی مصرعے پر کوئی طنزیہ و مزاحیہ مصرع لگا کر اسے مزاحیہ شکل دے دی جاتی ہے یا کسی مشہور سنجیدہ نظم کی زمین میں مزاحیہ نظم اس طرح سے کہی جاتی ہے کہ اصل نظم کے الفاظ وتراکیب بھی موجود رہتے ہیں۔Chambers’ Dictionary میں پیروڈی کو Satirical immitation کہا گیا ہے یعنی طنزیہ یا مضحکہ خیز نقل۔اس کی مزید تعریف اس طرح کی گئی ہے۔
A piece of literature,or acting or other performance that mocks its original by grotesque exxageration or by combining the dignified with the low or the familiar.
’’ پیروڈی ایسی ادبی تخلیق،یا اداکاری یا فن کا کوئی مظاہرہ ہے جو مبالغہ آرائی یا ارفع و اعلیٰ مضمون یا اسلوب میں عامیانہ یا اسفل مضمون کی آمیزش سے اصل تخلیق کی نقالی کرے۔‘‘
پیروڈی میں ارفع و اعلیٰ مضامین کے لئے استعمال یا اختیار کئے گئے اسلوب اور لفظیات کو استعمال کرتے ہوئے اس میں عامیانہ اور مزاحیہ مضامین پیش کئے جاتے ہیں جیسے کسی مسخرے کو بادشاہ کا لباس پہنا دیا جائے۔
اردو میں پیروڈی مزاحیہ شاعروں کی محبوب صنف رہی ہے۔اردو کے تقریباً تمام بڑے شاعروں کی مشہور نظموں اور مشہور اشعار کی پیروڈی کی گئی ہے۔میرؔ،غالبؔ،احمد فراز ؔو دیگر شاعروں کی مشہورشعری تخلیقات کی دلچسپ پیروڈیاں مزاحیہ شاعروں نے کی ہیں جن میں معاشرے کی خامیوں اور برائیوں پر نشتر زنی کی گئی ہے۔اقبالؔ چونکہ اردو کے مقبول ترین شاعروں میں سے ایک ہیں اور انکی کئی نظمیں اور بہت سے اشعار زبان زدِ خاص و عام ہیں اور چند اشعار تو ضرب المثل بن چکے ہیں۔اس لئے مزاح گو شعراء نے اقبالؔ کو خصوصی طور پر پیروڈی کا نشانہ بنایا ہے۔ذیل میں کلامِ اقبالؔ پر کی گئی چند پیروڈیوں کو پیش کرتا ہوں۔
اقبالؔ کی ایک مشہور نظم ہے جس کے اشعار مندرجہ ذیل ہیں
ــاٹھو مری دنیا کے غریبوں کا جگا دو
کاخِ امراء کے در و دیوار گرادو
گرمائو غریبوں کا لہو سوز یقین سے
کنجشک فرد مایہ کو شاہین سے لڑادو
طنز و مزاح کے ایک مشہور شاعر مجیدؔ لاہوری نے ان اشعار کی پیروڈی یوں کی ہے۔
ــاٹھو مری دنیا کے غریبوں کا جگا دو
کاخِ امراء کے در و دیوار سجادو
گرمائو غریبوں کا لہووسیکی و رم سے
کنجشک فرد مایہ کو شاہین سے لڑادو
اسرارؔ جامعی بھی اردو کے ایک مشہور مزاح گو شاعر ہیں۔وہ اپنی ذہانت اور ذکاوت کے لئے اردو کی مزاحیہ شاعری میں ممتاز مقام رکھتے ہیں۔ انکی پیدائش بہار کے گیا میں ہوئی مگر وہ ایک عرصے سے دلّی میں مقیم ہیں۔بہار اردو اکاڈمی نے انہیں یہ کہہ کر مالی تعاون دینے سے انکار کر دیا کہ تم میں اب بہاریوں والی کوئی بات نہیں رہ گئی اور دہلی اردو اکاڈمی نے انہیں بہاری سمجھ کر ایک عرصے تک انہیں اپنی عنایتوں سے محروم رکھا۔با لآخر دلّی اردو اکاڈمی نے انہیں دہلوی تسلیم کر لیا اور انہیں ایوارڈ سے نوازا۔
اسرارؔ جامعی نے بھی اقبالؔ کے اشعار اور نظموں کی پیروڈی کی ہے۔مثال کے طور علامہ اقبالؔ کا مشور شعرہے۔
سبق پھر پڑھ صداقت کا،شجاعت کا عدالت کا
لیا جائیگا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا
اسرارؔ جامعی اس طرح اس شعر کی پیروڈی کرتے ہیں۔
سبق پڑھ لے شرار ت کا،خباثت کا رزالت کا
لیا جائیگا تجھ سے کام دنیا میں سیاست کا
اقبالؔ کی مشہور نظم ہے ’’ مجھے ہے حکم اذاں لا الہٰ اِللہ ‘‘ جوانکے فلسفہء خودی پر مبنی ہے اسرارؔ صاحب نے اس نظم کی پیروڈی یوں کی ہے۔
خودی کا سر ہے کہاں ہائے ہائے یا اللہ
خودی کا پیر ہے کہاں ہائے ہائے یا اللہ
خودی کی آگ پہ پانی چھڑک دیا سب نے
دھواں دھواں ہے سماں ہائے ہائے یا اللہ
خودی کو بیچ کے مرغا وہ روز کھاتا ہے
بہار ہو کہ خزاں ہائے ہائے یا اللہ
خودی کے بدلے خباثت ہے جن کے سینوں میں
انہیں کو حکمِ اذاں ہائے ہائے یا اللہ
خودی کا ذکر تھا اسرار ؔ جن کتابوں میں
وہ سب ہیں زیبِ دکاں ہائے ہائے یا اللہ
اقبالؔ کی ایک مشہور نظم ’’ شکوہ جواب شکوہ ‘‘ ہے جس پر کئی مزاح گو شاعروں نے زور آزمائی کی ہے۔اسرارؔ جامعی نے بھی اس نظم کی پیروڈی میں ایک گھر داماد کا قصّہء درد لکھا ہے۔
طنز سے کہتا ہے ہر شخص چڑی مار ہو تم
اپنی سسرال کے دربان چڑی مار ہو تم
پھبتی کستا ہے کوئی مرغ گرفتار ہو تم
کوئی کہتا ہے کہ بیگم کے نمک خوار ہو تم
رشک ہے قسمت دامادپہ دیوانوں کو
بات کرنے کا سلیقہ نہیں نادانوں کو
قبلہ کہتے ہیں کہ سگریٹ تو جا کر لا دو
ساس کہتی ہے کہ آلو و چقندر لادو
سالاکہتا ہے کہ اچھا سا کلنڈر لا دو
سالی کہتی ہے کہ جمپر مرا دھو کر لا دو
میں آیا تھا کہ ہر دم یہاں دلشاد رہوں
گھر کا نوکر نہ بنوں صورتِ داماد رہوں
اردو کے ایک اور مشہور مزاحیہ شاعرپا پولرؔ میرٹھی ہیں۔ انہوں نے بھی اقبالؔ کے کلام پر ہاتھ صاف کیا ہے۔ان کا ایک مشہور شعر ہے۔
اچھا ہے دل کے ساتھ رہے پاسبان ِعقل
لیکن کبھی کبھی اسے تنہا چھوڑدے
پاپوؔلر صاحب نے اس کی پیروڈی یوں کی ہے۔
غصّے میں آ کے میں نے کہا اپنی ساس سے
کچھ دیر میری بیوی کو تنہا بھی چھوڑ دے
بیٹی کے ساتھ ماں مجھے تسلیم ہے ضرور
لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے
نشتر ؔ امروہوی بھی مزاح گوئی میں اپنا الگ مقام رکھتے ہیں اور انہوں نے کامیاب پیروڈیاں بھی کہی ہیں۔علامہ اقبال ؔ کی نظم ’’ شکوہ جواب شکوہ ‘‘ پر انہوں نے بھی زور آزمائی کی ہے۔آئیے دیکھیں کہ وہ کیا کہتے ہیں ۔وہ بیوی کے ستم کے شکار ایک شوہر کی داستانِ درد یوں پیش کرتے ہیں۔
کیوں غلط کام کروں فرض فراموش رہوں
کیوں نہ فرض اپنا ادا کر کے سبکدوش رہوں
طعنے دنیا کی سنوں اور ہمہ تن گوش رہوں
ہمنوا میں کوئی بدھو ہوں کہ خاموش رہوں
جرا ت آموز مری تابِ سخن ہے مجھکو
شکوہ بیگم سے ہی خاکم بدہن نہیں ہے مجھکو
ہے بجا خدمتِ ازواج میں مشہور ہیں ہم
صرف صورت سے نہیں دل سے بھی رنجور ہیں ہم
اپنے ہی گھر میں بہت بیکس و مجبور ہیں ہم
حقِ محنت نہ ملے جس کو وہ مزدر ہیں ہم
اب ذرا شکوہ ء ارباب وفا بھی سُن لے
بنا پیسوں کے ملازم کا گِلہ بھی سُن لے
اقبال فردوسی بھی مزاحیہ شاعر ہیں ٹھیٹر سے رشتہ ہے ایک بزنیس مین ہیں اور مزاحیہ شاعری کا ان کو شوق ہے۔انہوں نے بھی اقبالؔ کی نظم ’’ شکوہ جواب شکوہ ‘‘ کی پیروڈی ’’ شکوہ بیوی سے ‘‘ کے عنوان سے لکھی ہے۔پیش ہیں ان کے کچھ بند۔
مستقل مار سہوںدرد فراموش رہوں
لب کشائی نہ کروں محوِغم ِدوش رہوں
اس کی بکواس سنوں اور ہمہ تن گوش رہوں
اس ستم پر میں بھلا کس لئے خاموش رہوں
جس کا شوہر ہوں بہت اس سے جلن ہے مجھکو
شکوہ بیوی سے ہی خا کم بدہن ہے مجھکو
پیار کرتا تھا مکرّمؔ تجھے سبحانیؔ بھی
پھر بھی لے آئی تھیں کچھ رشتے تری نانی بھی
نیک لڑکا تھا ہر اک شکل تھی نورانی بھی
اور اسی بھیڑ میں اک لڑکا تھا افغانی بھی
پر ترے گھر سے تری ڈولی اُٹھائی کس نے
وصل کی رات بتا سیج سجائی کس نے
قید جب تک رہی ماں باپ میں چا چائوں میں
خشکیوں میں کبھی ڈھونڈا کبھی دریائوں میں
کبھی گلشن کبھی تپتے صحرائوں میں
دیں صدائیں کبھی دلّی کبھی گُڑگائوں میں
بھیڑ جب ٹوٹ پڑی عشق کے بیماروں کی
عقد پھر کرنا پڑا چھائوں میں تلواروں کی
اردو کے ممتا زطنزو مزاح نگار شاعر رضا نقوی واہیؔ نے بھی اقبالؔ کی مشہور نظم ’’ یا رب دل مسلم کو وہ زندہ تمنا دے ‘‘ پر پیرویڈی کی ہے۔ذیل میں انکی پیروڈی بہ عنوان ’’ نئے لیڈر کی دعا ‘‘ پیش ہے۔
بھگوان مرے دل کو وہ زندہ تمنا دے
جو حرص کو بھڑکا دے اور جیب کو گرما دے
وادیء سیاست کے اس ذرے کو چمکا دے
اس خادم ادنیٰ کو اک کرسی اعلیٰ دے
اوروں کا جو حصّہ ہے مجھکو وہی داتا دے
محروم بتاشاہوں تو پوری و حلوا دے
ہاں مرغ مسلم دے ہاں گرم پراٹھا دے
سوکھی ہوئی آنتوں کو فوراً ہی جو چکنا دے
تحریر میں چشتی دے تقریر میں گرمی دے
جنتا کو جو پھُسلائے اور قوم کو بہکا دے
کرسئی وزارت پر اک جست میں چڑھ جائوں
تدبیر کو پھرتی دے تقدیر کو جھٹکا دے
سکھلا دے مجھے داتا وہ راز جہاں بانی
قطرے جو دریا لے دریا کو جو قطرہ دے
مفلس کی لنگوٹی تک باتوں میں اتر والوں
احسان کے پردے میں چوری کا سلیقہ دے
قاتل کی طبیعت کو بسمل کی ادا سکھلا
خوں ریزی کے جذبے کو ہمدردی کا پردہ دے
تھوڑی سی جو غیرت ہے وہ بھی ذرا ہے باقی
احساس محبت کو اس دل سے نکلوا دے
القصہ مرے مالک تجھ سے یہ گزارش ہے
مرغی وہ عنایت ہو سونے کا جو انڈا دے
کلامِ اقبال ؔ پر پیروڈی کے مندرجہ بالا نمونوں سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اقبالؔ کی نظمیں اور انکے اشعار مزاحیہ شاعروں کو پیروڈی کے لئے منا سب مواد فراہم کرتے ہیں ۔اقبال ؔ کے کچھ مصرعے اتنے آفاقی ہیں کہ ان پر گرہ لگا کر اس میں کوئی بھی عصری مضمون باندھنا نسبتاً آسان ہے۔’’ شکوہ جواب شکوہ ‘‘ کا اسلوب اور لفظیات بھی مزاحیہ شاعروں کو پیروڈی کے لئے آسان بنیاد فراہم کرتی ہے اس لئے کئی شعراء نے پیروڈی کے لئے اس کا استعمال کیا ہے۔
***
Leave a Reply
Be the First to Comment!