’’بنگال کے اردو تذکرے‘‘ ایک تجزیاتی مطالعہ
ڈاکــٹـرشفیع الرّحمٰن
شعبہ اردو، مٹیابرج کالج، کولکتہ، مغربی بنگال
Bengal ke Urdu tazkare… by Dr Shafiur Rahman
تذکرہ عربی زبان کا لفظ ہے، جس کے لفظی معنی ذکرکرنے کے ہیں اس لفظ کو عام بول چال کی زبان میں استعمال کیاجاتا ہے ۔ جب دو آدمی آپس میں محوِ گفتگو ہوتے ہیں اور جب تیسرے شخص کا ذکر آتا ہے تو ہم یہ کہہ کر گزر جاتے ہیں کہ فلاں مقام پر تمہارا ذکر ہو رہا تھا۔ تذکرہ کے معنی یاد کرنے کے ہیں لیکن ادبی تناظر میں اس کا ایک نیا معنوی گوشہ سامنے آتا ہے یعنی یہ لفظ ایک اصطلاح یا نثری صنف کی شکل میں سامنے آتاہے اور تذکرہ اس تفصیلی تحریر یا کتاب کو کہاجاتا ہے جس میں شاعروں کے مختصر حالات اور نمونۂ کلام کا اندراج ہو۔
یہ بات مانی ہوئی ہے کہ انسان میں تنقیدی شعور روزِ اول سے پایا جاتا ہے جس کی بنا پر وہ کسی چیز کو پسند یا ناپسند کرتا ہے۔ اس کا مظاہرہ روزمرہ کی زندگی میں بھی ہوتا ہے اور شعروادب میں بھی ۔ قلم کار کا تنقیدی شعور ا س کی ادبی تخلیق و تحریر میں نکھار لاتا ہے۔ جس شاعر یا ادیب کے اندر جتنا بہترتنقیدی شعور ہوگا اس کی تخلیق کامعیار اتنا بلند ہوگا۔ تذکرے میں بھی کچھ ایسا ہی ہے ۔ اردو شاعروں کے کئی تذکرے لکھے گئے ہیں۔
تذکرہ نگاری کی روایت بہت پرانی ہے غالباً یونان سے عربی و فارسی میں آئی ہے۔ مولانا عبدالحلیم شرر نے اپنے ادبی مجلہ ’’دل گداز‘‘ میں لکھا ہے کہ ’’یونان میں شعری گلدستوں کا رواج تھا ‘‘ اور روایت یونانی علوم کے ترجمے کے ساتھ ساتھ عربی زبان تک پہنچی اور عربی زبان میں اسے پھلنے پھولنے کا جب موقع ملا تو عرب میں شہروں کے بھی تذکرے تحریر کیے گئے۔فقہاء، شعراء، صوفیا، اکابرِ علم اور اصحاب فن کے چرچے المحدثین، تذکرۂ متعلمین، طبقاتِ صوفیا وغیرہ تذکرے کے متعلق اشارہ کرتی ہیں اور ان کتاب کے مطالعے سے ان کی معنویت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ تذکرہ ایک ایسا ذریعہ ہے جو علم و فن کے مختلف خزانوں کو اپنے دامن میں پناہ دیتا ہے بلکہ عام شخصیتوں کے کارناموں کو بھی یاد گار بناتا ہے۔
اردو میں تذکرہ نگاری کی روایت تقریباً چار سو سال پر محیط ہے ۔ دکن، دہلی، لکھنؤ، رام پور، عظیم آباد اور کلکتہ تذکرہ نگاری کے اہم مراکز تھے۔ جب تک تذکرہ نگاری کے مراکز شمالی ہند میں تھے، اس کی زبان فارسی تھی۔۱۸۰۰ء میں جب فورٹ ولیم کالج قائم ہوااورکلکتہ بھی اردو کا گہوا رہ بن گیا تو فارسی کی جگہ اردو میں تذکرہ نگاری کا باضابطہ آغاز ہوا۔ تذکرہ نگاری کے حوالے سے ایک انقلابی اور تاریخی اقدام تھا۔ فورٹ ولیم کالج کے زیر اثر ایک ایسا رجحان پیدا ہواکہ کئی اہم تذکرے کلکتہ اور اطراف میں لکھے گئے اور اردو میں تذکرہ نگاری کا رجحان بنگال سے ہندستان کے دوسرے مراکز میں پھیلا۔ یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر رئیس انور نے بنگال میں جو تذکرے رقم کئے گئے تھے ان تذکروں کا جائزہ لیتے ہوئے اردو ادب کو ’’بنگال کے اردو تذکرے‘‘جیسی ایک منفرد کتاب عطا کی ، جس سے اردو ادب کا دامن وسیع ہوتا نظر آتا ہے ۔ اس کتاب میں جن تذکرہ نگاروں اور ان کے تذکروں کا ذکر ہے۔ وہ اس طرح ہیں: (۱) اردو شاعروں کے تذکرے (۱۸۸۰ء تک) (۲) حیدر بخش حیدریؔ (۳) تذکرہ گلشن ہند (حیدری)، (۴) مرزا علی لطفؔ ، (۵) تذکرہ گلشن ہند (لطفؔ)، (۶) بینی نرائن ، (۷) تذکرہ دیوان جہاں (۸) جنم جی مترارمانؔ (۹) منتخب التذکرہ-ایک مطالعہ (۱۰) التذکرہ (۱۱) تذکرہ نسخۂ دلکشا (۱۲) عبدالغفور نساخؔ (۱۳) تذکرہ قطعہ منتخب (۱۴) تذکرہ سخن شعراء۔
پروفیسر شاہ مقبول احمد نے اپنی کتاب ’’تشریحات و اشارات ‘‘ میں ڈاکٹر رئیس انور کی تحریری صلاحیت، ناقدانہ شعور اور تحقیقی بصیرت کا واضح لفظوں میں اعتراف کیاہے۔ اس سلسلے کا ایک اقتباس دیکھئے:
’’تذکرۂ نسخۂ دلکشا(۱۸۵۴ء) کی ترتیب و اشاعت بھی اسی سلسلہ کا ایک اہم قابل فخر علمی کارنامہ ہے جس کے لئے عزیزی رئیس انور رحمن، ایم اے گولڈ مڈلسٹ، ریسرچ اسکالر شعبۂ اردو کلکتہ یونیورسٹی مستحق صد مبارک ہیں۔ عزیزی موصوف نے اپنی غیر معمولی جستجو و تلاش ، طلب علم اور جذبۂ تحقیق کے ذریعہ شائقین ادب کی ایک دیرینہ تمنا بوجوہ احسن پوری کردی۔‘‘ (ص:۱۴۶-۱۴۵)
’’بنگال کے اردو تذکرے ‘‘ میں ڈاکٹر رئیس انور اس کتاب کو منصہ شہود پر لانے کی غرض و غایت، بیان کرتے ہوئے یوں رقم طراز ہیں:
’’اس کتاب میں بنگال کے جن تذکروں کا میں نے تجزیہ کیا ہے ان کے مؤلفوں کی حیات اور خدمات پر بھی اختصار سے روشنی ڈالی ہے۔ تذکروں کے متعلق میرے جو مطبوعہ مضامین یا مرتبہ تذکروں کے مقدمے تھے ۔ ان میں چند مضامین یا مقدمے جامع اور کارآمد تھے اور کتاب کی معنویت میں اضافہ کرسکتے تھے، انہیں نئے مضامین کے ساتھ شامل کردیا ہے۔ یوں تو ان پرکسی قدر نظرثانی کی ہے، پھر بھی بعض جگہ تضاد اور تکرار موجود ہے ۔ بسا اوقات میں نے بیان کے کچھ بعینہ حصے رہنے دئیے ہیں تاکہ میرے مطالعہ اور تجزیے کی ارتقائی صورت سامنے آسکے۔‘‘ (پیش گفتار، ص:۵)
انہوں نے کس طرح دیدہ ریزی اور جانفشانی سے تذکروں کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔تحقیقی و تنقیدی طریقۂ کار واضح کیا ہے ۔ یہ سب ان کے تنقیدی اور تحقیقی ذہن و مزاج کا اشاریہ ہے۔ ان کی تحریروں میں صاف نظرآتا ہے کہ وہ الجھی ہوئی گتھیوں کو کس طرح سلجھاتے ہیں اور سلیقے سے باتوں کو پیش کرتے ہیں کہ باتیں دل میں اتر جاتی ہیں اور قاری کو آگے مطالعے کے لیے اکساتی ہیں یوں تو اردو ادب میں اردو تذکروں پر تحقیقی و تنقیدی مواد کی کوئی کمی نہیں ہے لیکن بنگال کے تذکروں کو عموماً نظر انداز کیا گیا۔ اگر کسی نے لکھا بھی ہے تو بڑی رواروی میں لکھا ہے اور فاش غلطیاں کی ہیں۔ غالباً یہی سبب ہے کہ پروفیسر رئیس انور نے اس جانب توجہ مبذول کی اور کتابی صورت میں ایک اہم کام انجام دیا ہے۔
اس کتاب کا پہلا مضمون ’’اردو شاعروں کے تذکرے‘‘ ۱۸۸۰ء تک ’’تذکرہ نگاری کا ایک خوب صورت اور بسیط منظر نامہ سامنے لاتا ہے ۔ اس سے یہ بات آشکار ہوتی ہے کہ محمد تقی میرکے’’نکات الشعرا‘‘افضل بیگ قاقشال اورنگ آبادی کے ’’تحفۃ الشعرا‘‘ اور خواجہ حمید خان حمید اورنگ آبادی کے ’’گلشن گفتار‘‘ تینوں تذکرے۱۷۵۲ء/۱۱۶۵ھ میں لکھے گئے مگر داخلی حقائق سے ثابت ہوتا ہے کہ ’’نکات الشعرا‘‘ اردو شاعروں کا پہلا تذکرہ ہے ۔ اس سلسلے میں ایک اقتباس متذکرہ مضمون سے ملاحظہ فرمائیں:
’’اردو شعرا کے تمام تذکروں کی کوئی مکمل فہرست بنانا نہایت ہی دشوار گزار کام ہے ۔ اس سلسلے میں سب سے پہلا سوال یہ اٹھتا ہے کہ فہرست کا آغاز کہاں سے ہو یعنی اردو کا سب سے پہلا تذکرہ کسے تسلیم کیاجائے۔ چھان بین سے اب تک جتنے تذکرے منظر عام پر آچکے ہیں، ان میں محمد تقی میرکے ’’نکات الشعرا‘‘ افضل بیگ قاقشالؔ اورنگ آبادی کے ’’تحفۃ الشعرا‘‘ اور خواجہ حمید خان حمید اورنگ آبادی کے ’’گلشن گفتار ‘‘ کو قدامت حاصل ہے۔ یہ تینوں تذکرے ۱۱۶۵ھ/۱۷۵۲ء میں لکھے گئے مگر ان کے علاوہ کچھ ایسے تذکروں کے نام ملتے ہیں جو ان کے آس پاس یا ان سے پہلے تالیف ہوئے ۔‘‘ (ص:۹)
اس سلسلے کا ایک اور اقتباس ملاحظہ کریں:
’’اسی کے ساتھ مولانا عرشیؔ یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ نکات الشعرا‘‘۱۱۶۵ھ/۱۷۵۲ء میں، ریختہ گویاں۱۱۶۶ھ/۱۷۵۳ء اور مخرن نکات‘‘۱۱۶۸ھ/۱۷۵۵ء میں مکمل ہوا۔ ان کی اس تحقیق سے ’’نکات الشعرا‘‘ کی قدامت اور اولیت پر کوئی اثر نہیں پڑتا ہے کیونکہ کسی بھی کتاب کی قدامت کا فیصلہ اس کے سال تکمیل کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔ مسئلہ کے حل ہونے کے بعد ’’تحفۃ الشعرا‘‘ اور گلشن گفتار‘‘ کا معاملہ سامنے آتا ہے کیوں کہ ان کے اور ’’نکات الشعرا‘‘ کے سنین تالیف ایک ہی ہیں۔‘‘
———
’’گلشن گفتار ‘‘ کے جائزے سے پتا چلتا ہے کہ یہ ایک علاقائی تذکرہ ہے اور دکنی شاعروں کے ذکر سے پُر ہے۔ اس کے برخلاف ’’تحفۃ الشعرا‘‘ اصل میں فارسی گو شعرا کا تذکرہ ہے جس میں ضمنی طورپر ایسے شاعروں کا ذکر ہے جو فارسی کے ساتھ ساتھ اردو میں بھی شاعری کرتے تھے۔ ان دونوں تذکروں کے برعکس ’’نکات الشعرا‘‘ میں میرؔ نے اپنے اہم ہمعصر اور پیش رو اردو شاعروں کا بالاختصار ذکر کیا ہے اورنمونۂ کلام بھی پیش کیا ہے، لہٰذا اس میں دو رائیں نہیں کہ ’’نکات الشعرا‘‘ اپنے موضوع اور مواد کے لحاظ سے اردو شاعروں کا پہلا باضابطہ تذکرہ ہے جو اب تک کی تحقیق کے مطابق منظر عام پر آسکا ہے۔‘‘ (ص:۱۰)
’’نکات الشعرا‘‘ سے لے کر ’’آب حیات ‘‘ تک تقریباً۵۷؍تذکرے لکھے گئے۔ ’’آب حیات ‘‘کے بعد اگر دیکھاجائے تو تذکرے کی روایت کا بول بالا ختم ہوتا ہوا نظر آتا ہے اور اس کی جگہ مغرب کے زیر اثر تنقید اورسوانح نگاری لے لیتی ہے۔ ’’آب حیات ‘‘ اپنے مواد اور مباحث کے لحاظ سے قدیم طرز کے تذکروں سے بالکل مختلف ہے ۔ اس تذکرے میں اردو کی تاریخ، لسانی مسائل، مختلف ادوارکی خصوصیات اور شعرا کی شخصیت کے کلام پر رائے زنی کا معاملہ کم و بیش وہی ہے جو تاریخ، تنقید اور سوانح میں برتا جاتا ہے اور بیشتر اردو زبان وادب کے ناقدین نے ’’آب حیات‘‘ کو اردو ادب کی پہلی تاریخی و تنقیدی کتاب تسلیم کیا ہے ۔ ’’آب حیات ‘‘ کے بعد بھی تذکرے لکھے گئے مگر ان کا انداز عموماً بدل گیا ہے۔ اکثر تذکروں پر ’’آب حیات‘‘ کا واضح اثر دیکھا جا سکتا ہے۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر رئیس انور نے ابتدا سے ’’آب حیات ‘‘ تک کے تذکروں کی فہرست مرتب کی ہے۔
مختلف عہد میںلکھے گئے تذکروں کے ذریعے مخصوص زمانے کے شعرا کے مطالعے ان کے ذاتی حالات اور عصری ماحول کی بازیافت میں بہت کچھ مددملتی ہے۔ اس حوالے سے بنگال میں لکھے جانے والے تذکروں سے اس وقت کی پوری اردو دنیا بالخصوص بنگال کی ادبی اور لسانی جگمگاہٹ کا بھرپور اندازہ ہوتا ہے۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر رئیس انور نے سب سے پہلے بنگال میں لکھا جانے والا تذکرہ نسخۂ دلکشا، مرتب کرکے۱۹۷۹ء میں شائع کیاتھا۔ اس کے بعد کئی تذکروں پر تحقیقی مقالے لکھ کر ’’ہماری زبان ‘‘ نئی دہلی، ’’خدا بخش لائبریری جرنل‘‘ پٹنہ، ’’نیادور‘‘ لکھنؤاور ’’زبان و ادب ‘‘ پٹنہ، اردو اکاڈمی لکھنؤ وغیرہ میں چھپوایا۔اسی دوران واحد بنگالی تذکرہ نگار جنم جی مترارمانؔ کی حیات و خدمات پر ایک تحقیقی کتاب لکھ کر۱۹۸۵ء میں چھپوائی پھر بنگال کا ایک اور تذکرہ’’منتخب التذکرہ‘‘ مرتب کرکے۱۹۸۹ء میں چھپوا دیا۔ کم و بیش پچھلے چالیس سال سے وہ مسلسل بنگال کے تذکروں اور تاریخ پر تحقیقی کام کررہے ہیں، اسی کا نتیجہ یہ مفصل کتاب ہے ۔ اس میں بنگال کے ہر مطبوعہ تذکرے کے مختلف ایڈیشن پر بھی نظر ڈالی گئی۔ دیکھئے تذکرہ ’’گلشن ہند‘‘ مؤلفہ لطفؔ کے سلسلے میں کتنی عرق ریزی سے لکھتے ہیں:
’’اتر پردیش اردو اکاڈمی نے۱۹۰۶ء والے مطبوعہ نسخے کا عکس۱۹۸۶ء میں لکھنؤ سے شائع کیا تھا۔جس میں اکاڈمی کے چیئرمین محمد رضا انصاری کا لکھا ہوا پیش لفظ بھی ہے لیکن۱۹۰۶ء والے ایڈیشن میں مولوی عبدالحق کا جو مقدمہ تھا اسے شامل نہیں کیاگیا ہے۔‘‘
———
’’گلزارابراہیم‘‘ میں معروف، نیم معروف اور غیر معروف شاعروں کے اندراج میں کسی طرح کی طبقہ بندی نہیں کی گئی ہے جب کہ لطفؔ نے گل کرسٹ کی مرضی کے مطابق اس تذکرے کے تین سو بیس شاعروں میں سے صرف اڑسٹھ شاعروں کو منتخب کیا۔‘‘ (ص:۵۰-۴۶)
مرزاعلی لطف نے پہلی بار اردو زبان میں ’’گلشن ہند‘‘ کے نام سے تذکرہ رقم کیا یہ تذکرہ ابراہیم خان خلیل کے ’’گلزار ابراہیم‘‘ کا ترجمہ تلخیص اور اضافہ ہے۔ ان امور کی کتاب میں خاص طورپر نشان دہی کی گئی ہے۔ ڈاکٹر رئیس انور نے اس بات کی کوشش کی ہے کہ تذکروں کی بعض اصطلاحات کا بہ نظر غائر جائزہ لیاجائے ۔ انہوں نے اپنے مضمون بینی نرائن ’’تذکرہ دیوان جہاں‘‘ میں نمائندہ اصطلاحات کی وضاحت کی ہے ۔ اس میں کسی قسم کے شک کی گنجائش نہیں ہے کہ ڈاکٹر رئیس انور نے تجزیاتی اور استدلالی انداز میں بینی نرائن کے تذکرے کی تفہیم و توضیح کی ہے۔ یہ نہایت عمدہ ، کارآمد اور مستحسن کوشش ہے ۔ کلاسیکی شعریات سے استناد حاصل کیا ہے۔ انہوں نے بینی نرائن کے تذکرے کا بڑی گہرائی سے مطالعہ کیا ہے اور اس میں شامل مواد کا بہترین تجزیہ کرکے اس غلط فہمی کو دور کرنے کی سعی کی ہے کہ ’’دیوان جہاں‘‘ تذکرہ نہیں۔ گلدستہ یا بیاض ہے۔ اس سلسلے میں ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیں:
’’تذکروں کے ابتدائی دو سو اٹھہتر( ۲۷۸) صفحوں میں شاعروں کے تراجم اورکلام کا اندراج ہوا ہے۔ اس کے بعد آٹھ صفحوں میں رباعیات کی سرخی لگا کر۲۳؍رباعیوں کے ساتھ ۳۳قطعات اور ایک غزل کے دو شعر رباعی سمجھ کر شامل کئے گئے ہیں۔’’مطلعات‘‘ کے ذیل میں سینتالیس(۴۷) صفحوں پر۴۱۵مطلعے نیز چھ مفرد شعر اور چار مطلعے دوبارہ نقل ہوئے ہیں۔ اس کے بعد ’’فردیات‘‘ کے عنوان کے تحت چار صفحوں میں انتالیس مفرد اشعار درج ہیں۔ اخیر میں تیرہ صفحوں میں۲۵ جولائی ۱۸۱۵ء کو فورٹ ولیم کالج میں ہونے والے طرحی مشاعرے(۳۱) کی روداد ہے۔ اس میں شریک ہونے والے آٹھ شاعروں کی دس وہ غزلیں شامل ہیں جو انہوں نے مشاعرے میں پڑھی تھیں۔ آٹھ شاعروں کا اندراج تذکرے کے طرز پر حرف تہجی کے لحاظ سے ہوا ہے۔ اس طرح چاروں ضمیمے کل اکہتر (۷۱) صفحوں پر محیط ہیں۔ ان حقائق و شواہد سے نتیجہ نکلتا ہے کہ ادیبوں /محققوں نے ’’دیوان جہاں‘‘ کے اندرجات اور متن کا ٹھیک سے محاسبہ نہیں کیا اور اسے ’’بیاض‘‘ یا ’’گلدستہ‘‘ وغیرہ قرار دے دیا۔ (ص:۶۸)
جہاں تک تذکرے میں سوانحی، تاریخی اور تنقیدی کمیوں کا سوال ہے تو اس طرح کی مثالیں دوسرے تذکرہ نگاروں کے یہاں بھی ملتی ہیں۔ یہ سب اس دور کے ناپختہ تنقیدی رجحان کا اثر ہے۔ محقق کا اصل کام یہ ہے کہ موجود مواد کا جائزہ اسی دور کے رجحان اور طریقے کی روشنی میں پیش کرے جس دور میں وہ چیز وجود میں آئی ہو۔ اس مرحلے میں ڈاکٹر رئیس انور کامیاب نظر آتے ہیں۔ وہ بڑی بے باکی اور دیانت داری کے ساتھ تذکروں کی خوبیوں اور خامیوں پر روشنی ڈالتے ہیں۔
’’جنم جی مترارمانؔ‘‘ اس کتاب کا ایک اہم مضمون ہے جو اپنی جانب توجہ مبذول کرائے بغیر نہیں رہتا ہے ۔ اس مضمون کا سب سے اہم وصف یہ ہے کہ ’’جنم جی مترارمانؔ‘‘ نے دو تذکرے لکھے ’’منتخب التذکرہ‘‘ اور ’’نسخۂ دلکشا‘‘ ۱۲۶۸ھ/۱۸۵۲ء میں تقریباً مکمل ہوا۔ جنم جی مترارمانؔ نے اردو کی جانب اس وقت توجہ مبذول کی جب پورے ہندستان میں اردو زبان بولی اور سمجھی جاتی تھی مگر شرفا کے ذہن پر فارسی زبان کا رعب قائم تھا۔ ایسے عالم میں جنم جی مترارمان نے اردو میں دو تذکرے لکھے۔ ’’جنم جی مترارمانؔ‘‘ نے اپنے تذکرہ ’’نسخۂ دلکشا ‘‘ کے دیباچے میں اس نکتے کی بڑی بے باکی کے ساتھ وضاحت کی ہے۔ان کے تذکرے کے مطالعہ سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ انہیں اردو زبان سے کتنی الفت تھی اس تذکرے میں انہوں نے اردو شعراء و ادباء کے ساتھ ساتھ اردو شاعرات کا بھی ذکر کیا ہے۔ اس ضمن میں ڈاکٹر رئیس انور لکھتے ہیں:
’’جنم جی مترارمانؔ‘‘ وہ واحد بنگالی ہندو ہیں جنہوں نے اردو شاعر ی کرنے کے ساتھ ساتھ تذکرہ نگاری کے ذریعہ تاریخ ادب کا اولین نقش اور بنیادی ماخذ پیش کرنے کی کامیاب کوشش کی۔ انہوں نے شعرائے اردو کے دو تذکرے ’’منتخب التذکرہ ‘‘ اور ’’نسخۂ دلکشا‘‘ تالیف کیے لیکن ان کی حیات اور خدمات کا کوئی قابل قدر محاسبہ عرصے تک نہیں ہوا۔قدیم تذکروں میں بھی ان کا ذکر خال خال ہی ملتا ہے۔ بعض جگہ جومعلومات فراہم کی گئی ہیں وہ اتنی تشنہ اور مختصر ہیں کہ ان سے ارمانؔ کی زندگی اورکام پر کوئی خاص روشنی نہیں پڑتی ہے۔‘‘ (صفحہ:۷۶)
اقتباس سے صاف ظاہر ہے کہ ڈاکٹر رئیس انور تذکرہ ’’نسخۂ دلکشا‘‘ میں شامل ۶۷۷شعراء اور۲۳شاعرات کے متعلق دوسرے تذکروں کی ورق گردانی کی ہے اور چھان پھٹک کے بعد اس پر لکھا ہے۔ ادبی ریاضت ، جانفشانی اور باریک بینی کو دیکھتے ہوئے ڈاکٹر خلیق انجم،ڈاکٹر سیفی پریمی، مولانا ضیاء الدین اصلاحی، رام لعل نابھومی وغیرہ نے اپنی قیمتی اور بیش بہا آراء دی ہیں اور ان کی تحقیقی بصیرت کو سراہا ہے۔ ڈاکٹر خلیق انجم کی رائے ہے :
’’رئیس انور نے ابتدا میں ارمان کے مختصر سوانح لکھے ہیں اور تذکرے کا تحقیقی اور تنقیدی مطالعہ کیا ہے۔اردو محققین کے لئے یہ ایک بیش بہا تحفہ ہے،جس کے لئے ہم رئیس انور کے شکر گزار ہیں۔‘‘
(مطبوعہ’’ہماری زبان، دہلی، یکم مئی،۱۹۸۰ء)
ڈاکٹر سیفی پریمی کی یہ نتیجہ خیز تحریر دیکھئے:
’’رئیس انور نے تذکرہ ’’نسخۂ دلکشا‘‘ کو باضابطہ مرتب کرکے شائع کیا ہے۔ مرتب کی توجہ، محنت، تقابلی مطالعہ اورمعلومات کی فراہمی اور متن کی صحت کا اہتمام ایسی چیزیں بھی ہیں جن سے قاری کو فیض پہنچتا ہے ، اردو ادب کا وزن ووقار بڑھتا ہے۔‘‘
( مطبوعہ، ماہنامہ’’ کتاب نما‘‘ نئی دہلی، جون۱۹۸۰ء)
اسی نہج پر مولانا ضیاء الدین اصلاحی کے یہ زریں الفاظ بھی ہیں:
’’… رئیس انور تلاش و تحقیق کا اچھا ذوق رکھتے ہیں۔ زیر نظر تذکرہ کے شروع میں ان کے قلم سے ایک مفید مقدمہ بھی ہے، اس میں ارمان کے اب تک دستیاب حالات اور زیر نظر تذکرہ کے متعلق ضروری معلومات سلیقہ سے تحریر کی گئی ہیں۔ اس کی اشاعت پر مرتب تحسین کے مستحق ہیں۔‘‘
(ماہنامہ ’’معارف ‘‘ اعظم گڑھ، مارچ ،۱۹۸۰ء)
مذکورہ بالا سب رائیں ’’نسخہ دلکشا‘‘ کے متعلق ہیں۔ ڈاکٹر رئیس انور نے جب ارمان کا دوسرا تذکرہ’’ منتخب التذکرہ‘‘تعلیقہ و حاشیہ کے ساتھ شائع کیا تو دوسرے اہم ادیبوں کے علاوہ رام لعل نابھومی نے بھی عمدہ تبصرہ کیا ۔دیکھئے ان کے چند جملے:
’’ڈاکٹر رئیس انور نے کمال محنت سے ’’منتخب التذکرہ‘‘ پر بھرپور مقدمہ لکھا ہے اور کتاب کا تندہی سے احاطہ کیا ہے۔ تصحیح و تحشیہ کے ذریعے کوشش کی ہے کہ یہ تذکرہ تاریخ ادب کا ماخذ بن سکے۔‘‘
(’’ہماری زبان ‘‘ یکم مئی۱۹۹۰ء)
یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ ڈاکٹر رئیس انور ہر کام بڑی جانفشانی ، دیدہ ریزی، منطقی انداز اور سائنسی طریقۂ کارسے انجام دیتے ہیں۔ ان کے کام کا انداز دیگر قلم کاروں سے ذرا مختلف ہے اسی بنا پر وہ انفرادیت کے حامل ہیں۔ یہ روایت شکنی کرتے ہیں۔ اپنے لئے خود ایک ناآشنا مگر روشن راہ نکالتے ہیں۔
بنگال کی سطح پر اردو میں تذکرہ نگاری کی روایت کو بڑھاوا دینے والوں کی فہرست میں ایک نمایاں نام عبدالغفور نساخ کا بھی ہے۔ انہوں نے اردو ادب کودو اہم تذکرے دئیے۔ ان تذکروں کے نام کچھ اس طرح ہیں۔’’سُخن شعرا‘‘ اور ’’تذکرہ قطعۂ منتخب‘‘۔ ’’سُخن شعرا‘‘ نساخ کا ایک اہم تذکرہ ہے اس تذکرے میں۲۴۴۶شعرا ء اور۳۹شاعرات کے تراجم اور منتخب کلام درج ہیں۔ یہ تذکرہ انیسویں صدی کا ایک اہم تذکرہ ہے۔
گارسادتاسی کے تذکرہ ’’تاریخ ادب ہندوستانی‘‘ کے بعد اگر کسی تذکرے میں شعراء و شاعرات کی بڑی تعداد موجود ہے تو وہ سُخن شعرا ہی ہے۔ ’’سُخن شعرا‘‘ میں کوئی فہرست شعراء نہیں ہے مگر تعداد سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں دو ہزار چار سو چھیالیس شعراء اور انتالیس شاعرات کے تراجم اورکلام کے نمونے موجود ہیں۔ تذکرہ ’’سُخن شعرا‘‘ پرڈاکٹر رئیس انور تحقیقی نظر ڈالی ہے ۔ ان کا تجزیاتی اور تحقیقی انداز اس اقتباس سے عیاں ہے:
’’سُخن شعرا‘‘ میں کوئی فہرست نہیں ہے۔ شمار کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں دوہزار چار سو چھیالیس شعرا اور انتالیس شاعرات کے تراجم اورکلام کے نمونے ہیں۔ شاعروں کی ترتیب تخلص کی رعایت سے حروف تہجی کے مطابق ہے۔ ہر نئے حرف کی ابتداء سے پہلے عنوان لگائے گئے ہیں:مثال’’ ردیف الف’’حرف ہائے موحدہ‘‘ حرف جیم فارسی وغیرہ‘‘
اس سلسلے کا ایک اور اقتباس دیکھیں:
’’یہ حقیقت ہے کہ ’’سُخن شعرا‘‘انیسویں صدی میں شاعروں کا اردو میں لکھا جانے والا آخری ضخیم تذکرہ ہے۔ اس میں بنگال کے ایسے بے شمار شاعروں کو شامل کیاگیا ہے جنہیں اکثر تذکرہ نگاروں نے نظر انداز کردیا ہے۔ اس میں نساخ کے کئی دوست اور شاگرد بھی ہیں۔ فورٹ ولیم کالج والے کلکتہ، واجد علی شاہ والے مٹیابرج(موجودہ کلکتہ کا ایک حصہ) اور حوارین ٹیپو سلطان والے ٹالی گنج(موجودہ کلکتہ کا حصہ) کے شعری ماحول کی بھی نمائندگی ہوئی ہے۔ بالخصوص مٹیابرج اور ٹالی گنج کی اس نئی فضاء کا اندازہ ہوتا ہے۔ جہاں لٹے پٹے جلاوطن افراد نے ادبی محفلیں آباد کررکھی تھیں۔‘‘
ڈاکٹر رئیس انور میں یہ خوبی بدرجہ اتم موجود ہے، وہ تذکروں کا جائزہ لیتے ہوئے بالکل صاف اورکھری باتیں کرتے ہیں۔ تذکرے میں جو خامیاں یا اچھائیاں ہوتی ہیں انہیں پوری طرح واضح کردیتے ہیں۔ بعض تذکروں کے متعلق کئی قلم کاروں نے جو گمراہ کن باتیں لکھی ہیں۔ ان کا موصوف نے مدلل انداز سے ازالہ کیا ہے اور تذکرے کے داخلی خارجی کوائف بیان کئے ہیں۔مثلاً جنم جی مترارمانؔ کے ’’منتخب التذکرہ‘‘‘ کے متعلق کئی طرح کی غلط فہمیاں تھیں۔ ہندوستان میں بھی اور سرحد پار بھی۔ ڈاکٹر رئیس انور نے بڑی محنت اور دقت نظر سے نہ صرف وہ تذکرہ شائع کیا بلکہ اس کے متعلق اور دوسرے اندراجات پر بڑی عالمانہ گفتگو کی ہے۔ لسانی پہلوئوں اور قدیم املا پر نہایت اہم نکتے پیش کیے ہیں۔
٭٭٭
Leave a Reply
Be the First to Comment!