سرسید ؒ اور اقبالؒ (اشتراک و اختلاف کے مسائل)۔
محمد یاسین گنائی
ریسرچ اسکالر: شعبہ اُردو ، دیوی ا ہلیہ ووشوودھیالیہ اندور (ایم۔پی)
……………………………………………
دنیا میں ہر کسی کام کا آغاز اﷲ تعالیٰ نے اپنے نرالے انداز سے انجام دیا ہے اور یہ سلسلہ اشتراک واختلاف کے میدان میں بھی رہا۔حضرت آدمؑ کی تخلیق ہی سے اشتراک و اختلاف کا آغاز ہوا۔حضرت آدمؑ کی تخلیق سے پہلے تمام جنات وفرشتے اﷲ تعالیٰ کے سامنے برابر تھے لیکن جونہی جنات کے سردار عزاذیل نے حضرت آدمؑ کے سامنے سجدہ تعظیم کرنے سے انکار کیا تو وہ شیطانِ لعین کے خطاب سے سرفراز کیے گئے اورقیامت تک اُس کے گلے میں لعنت کا توق ڈال دیا گیا۔اس طرح جنات میں اشتراک کے باوجود ایک قسم کا اختلاف پیدا ہوا۔اشتراک کے معنی ہیں دو چیزوں میں مماثلت ہونا جبکہ اختلاف کے معنی ہیں دو چیزوں میں فرق ہونا۔ایمانِ کامل والوں کے لئے تمام ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر وں پر ایمان لانا ضروری ہے مگر حضرت محمدؐ پیغمبروں کے سردار ہیں، تمام آسمانی کُتب اﷲ تعالیٰ نے نازل کی مگر قرآن مجید کی حفاظت کا ذمہ خود اﷲ تعالیٰ نے اپنے ذمے لیا ہے،تمام نیک اور پرہیز گار مومن انسان جنت میں ہوں گے مگر سب سے اعلیٰ مقام پر حضرت محمدؐ سرفراز ہوں گے،تمام کافر اور گنہگار وں کوگجہنم میں ڈال دیاجائے گا مگرشیطان جہنم کے سب سے جوف ناک طبقے (وععل )میں ہوگا۔یہی وجہ ہے کہ ایک خدا،ایک قرآن،ایک دینِ اسلام،ایک اُمت ہونے کے باوجود بھی مسلمان آپس میں اختلاف رکھتے ہیں۔جس کی طرف علامہ اقبالؔ نے اس شعر میں اشارہ کیا ہے
حرمِ پاک بھی،اﷲ بھی،قرآن بھی ایک کیا بڑی بات تھی ہوتے جا مسلمان بھی ایک
بہرحال دنیا کی تمام چیزوں میں اشتراک ہونے کے باوجود اختلاف کا ہونا قانونِ الٰہی ہے۔دنیا میں جتنی زبانیں ہیں ان میں بھی اشتراک واختلاف پایا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ اردو زبان کے آغاز کے بارے میں بے شمار نظریات ہیں جو آپس میں اختلاف رکھتے ہیں اورکون سا نظریہ صحیح ہے یہ ابھی تک طے نہیں پایاہے بہرحال ان نظریات سے یہاں ہمیں کوئی سروکار نہیں ہے البتہ اردوزبان کی عظمت کے بارے میں ابوالکلام آزاد نے کیا خوب کہا ہے
احمدِ پاک کی خاطر تھا خدا کو منظور ورنہ قرآن بھی اُترتا بزبانِ اُردو
اردو زبان وادب میں اشتراک واختلاف کا یہ مسئلہ ابتدا سے ہی چلا آرہا ہے۔ اور اس کی بنیاد باضابطہ طور پر علامہ شبلی نعمانیؒ نے اپنی شہرہ آفاق کتاب ’’ موازنہ انیس ودبیر‘‘ لکھکر ڈالی، جس میں انہوں نے اردو کے دو ہم عصر مرثیہ گوشعراء’’انیسؔو دبیرؔ ‘‘ کی زندگی اور کلام میں اشتراک و اختلاف پر مدلل انداز میں روشنی ڈالی ہے۔ اس کے بعد ہر کسی نے اس میدان میں طبع آزمائی کی۔اسی سلسلے کی ایک کڑی کے طور پر میں ایسے دو حضرات جنہوں نے اپنے اپنے دور میں ایک الگ الگ دبستا ن کی حیثیت حاصل کرلی تھی، ان کی زندگی ، ادبی خدمات اور دیگر معاملات میں اشتراک و اختلاف کے نکات تلاش کرنے کی کوشش کروں گا۔کیونکہ جدید دور میں اس کی شدت سے ضرورت محسوس ہورہی ہے اور اگر ایسا نہ کیا جائے تو ان دونوں رہنماوں کے نام پر یونیورسٹی،اکادمی،لائبریری اور دیگر ادارے ہونے کے باوجود بھی عدم توجہی کا میدان تیار کیا جارہا ہے جس کی طرف ان دونوں کے اُستاد مرزا غالبؔ نے کیا خواب کہا تھا
یہ دنیا مطلب کی ہے تُم کس مخلص کی بات کرتے ہو غالبؔ
لوگ جنازہ پڑھنے آتے ہیں وہ بھی اپنے ثواب کی خاطر
بہرحال ہم اپنے موضوع کی طرف بڑھتے ہیں۔سرسید احمد خان انیسویں صدی کی ایک ہمہ جہت شخصیت ہیں۔وہ ایک روشن ضمیر قائد،سیاست دان، مضمون نگار ، بے باک صحافی،ہندوستانی مسلمانوں کے رہبر، علی گڑھ یونیورسٹی کے بانی ،مصنف ومنصف ،جدیداردو نثر کے بانی اور مورخ کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں ۔وہی علامہ اقبالؔ بیسوی صدی کے ایک معروف شاعر ،،مصنّف،،قانون دان،سیاستدان، رہبر عالم ِانسانیت واُمتِ مسلمہ ،مسلم صوفی اور تحریکِ آزادی کشمیر کے علمبرداروں میں سے ایک ہیں۔ ان دونوں میں اشتراک واختلاف کے مسائل تلاش کرنا،نہ کسی کو اعلیٰ اور نہ خداناخواستہ کسی کو کم تر ثابت کرنے کی غرض سے کیا جارہا ہے۔بلکہ یہ تقابلی مطالعہ نہ صرف ان دونوں کی زندگی اور ادبی خدمات پر ایک نئے انداز سے پر روشنی ڈالے گیا بلکہ یہ اردو نظم و نثر اور انیسوی و بیسوی صدی کا تقابلی مطالعہ بھی ثابت ہوگا۔انیسویں اور بیسوی صدی کی ان دو عظیم شخصیتوں کی زندگی،ادبی خدمات،مذہبی رُجحان وغیرہ میں اشتراک واختلاف تلاش کرنے کے لیے ہم ان پر سلسلہ وار اور ترتیب وار انداز میں روشنی ڈالیں گے۔ جس سے ان دونوں حضرات کی زندگی کے نمائندہ پہلوں میں اشتراک واختلاف کے مسائل قاری کے سامنے لانے کی آمید کی جاسکتی ہیں ۔
دنیا کی تما م عظیم شخصیتوں کی عظمت ورفت کے پیچھے اُن کے خاندان کا بڑا ہاتھ رہتاہے اور یہ اثر سرسید احمد خان اور علامہ اقبال کی زندگی پر بھی پڑا۔ سرسید احمد خان ۱۷ اکتوبر ۱۸۱۷ء کوایک مہذب ودینی خاندان میں دہلی میں پیدا ہوئے۔ جبکہ علامہ اقبال ایک صوفی ومتقی اور مذہبی گھرانے میں ۹ نومبر ۱۸۷۷ ء کو سیالکورٹ پیدا ہوئے۔ یعنی دونوں کی پیدائش میں ساٹھ سال کا فرق ہے۔ اگر ان دونوں حضرات کے خاندان پر ایک تحقیقی نظر ڈالیں، توان میں اشتراک واختلاف پایا جاتا ہے ۔دونوں کے خاندان ہندوستان کے اصل باشندے نہیں تھے بلکہ وہ دوسرے علاقوں سے ہجرت کر کے یہاں آئے تھے۔سرسیدکے مورث اعلیٰ ہرات سے شاہ جہاں آباد آئے تھے اور علامہ اقبال ؔکے آباو اجداد کشمیر سے آکر سیالکورٹ میں آباد ہوگئے تھے جو سپر گوت کے برہمن آج سے ڈھائی سو سال پہلے مسلمان ہوگئے تھے۔ جس کے بارے میں پروفیسر چمن لعل سپرو کہتے ہیں کہ سپرو ’سہ اور پرو سے بنا ہے جس کا مطلب تین زبانوں کا جاننے والا۔اقبال کا خاندان تین زبانوں سنسکرت،عربی اور فارسی کے عالم تھے۔ اسی لیے تین زبانوں کے عالم کو سہ پرو کہا جاتا ہے جو بعد میں سپرو مشہور ہوگیا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ علامہ اقبال ؔ کا خاندان نوآموز مسلمان ہیں جن کو ڈھائی سو سال پہلے مسلمان ہونے کا شرف حاصل ہوا تھا لیکن سرسید کے والد سید متقی کا ۳۵ واسطوں سے نسب حضرت محمدؐ سے ملتا ہے۔ اور ان کے ننیہال کا تعلق خواجہ میر درد ؔکے خاندان سے ملتا ہے۔ جس سے دونوں خاندانوں میں ہجرت کے لحاظ سے اشتراک کے باوجود اسلام قبول کرنے کے سلسلے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔
دوسرا پہلو یہ ہے کہ اچھی تربیت سے ہی انسان ،انسان کہلاتا ہے اور اس میں مومن کے صفات پیدا ہوتے ہیں۔سرسید اور اقبال کی تربیت میں ان کے خاندان کے ہر فرد نے بخوبی اپنا فرض ادا کیا ہے ۔ سرسید کا خاندان علم ِتصوف اور انتظام ِ حکومت میں ہمیشہ نامور رہا ہے۔جبکہ اقبالؔ کی ترتیب بھی ایسے خاندان میں ہوئی ہیں جن کا مزاق عارفانہ رہا ہے اور وہ نہایت مذہبی اور اعتقاد والے لوگ تھے۔سرسید کی تربیب میں ان کے نانا’جن کواکبر شاہ ثانی کے دور میں ایران کا سفیر بنا کر بھیجا گیا‘اُن کا بڑا ہاتھ رہا اور سرسید نے اپنے نانا خواجہ فرید الدین احمد خان کی سوانح حیات’’ سیرۃ فریدیہ‘‘ کے نام سے لکھکر اپنے نانا کی تربیب وپرورش کی حق ادائی کردی۔سرسید نے آداب زندگی کے تمام رموز ان کی صحبت میں بیٹھ کر سیکھے ہیں۔ایک جگہ لکھتے ہیں کہ’ کھانے کے وقت سب کو خیال رکھنا پڑتا تھا کہ کوئی چیز گرنے نہ پائے،ہاتھ کھانے میں زیادہ نہ بھرے اور نوالا چبانے کی آواز مُنہ سے نہ نکلے‘۔ سرسید کے نانا خواجہ فرید الدین نے جب پہلی بار اپنے پوتے کو دیکھا تو کہا’ یہ تو ہمارے گھر میں جاٹ پیدا ہوا ہے‘ ۔سرسید کے دادا سید ہادی فارسی میں شاعری کرتے تھے اور صاحب دیوان تھے۔ انہوں نے بھی اپنے پوتے کی اچھی تربیت میں خاصی دلچسپی لی۔ سرسیدکے والد میر متقی بڑے نیک ، دیندار اور زاہد تھے۔وہ میاں جی کہلاتے تھے۔ تصوف کی طرف رجحان تھا۔محی الدین ابنِ عربی سے بہت متاثر تھے اور ان کی تصانیف کا توجہ سے مطالعہ کرتے تھے۔ان کو حضرت شاہ غلام علی ؒ سے ’جن کی خانقاہ دہلی میں مشہور ہے‘ بعیت تھی ۔ سرسید پروالد کا یہ اثر رہا کہ ان پر بھی تصوف اور معرفت کے اثرات نمایاں ہونے لگے۔وہی اقبال کے والد شیخ نور محمد صوفیانہ خیالات کے مالک تھے۔ اورقادریہ سلسلے میں بیعت تھے اور سلطان العارفین قاضی سلطان محمود دربار آوان شریف کے مرید تھے۔اقبالؔ بھی بچپن ہی میں سلسلہ قادریہ میں بیعت ہوگئے تھے۔اس طرح دونوں کی تربیب میں والد کی سرپرستی کا بڑا ہاتھ نظر آتا ہے۔
ہر جاندار کی تربیت میں ان کی والدہ کا سب سے بڑا ہاتھ ہوتا ہے۔سرسید اور اقبال کی تربیت میں بھی ان کی والدہ کا سب کا بڑا ہاتھ رہا ہے۔سرسید کی والدہ عزیز النسا بیگم ایک مہذب اور تعلیم یافتہ خاتوں تھی۔ ان میں قدرتی قابلیت معمولی عورتوں سے بہت زیادہ تھی۔انہوں نے اپنے بیٹے کی تربیب مذہبی طور طریقے سے کی۔وہ صرف قرآن مجید پڑھی ہوئی تھیں مگر اولاد کی تربیت کا ان میں خدا داد ملکہ تھا۔سرسید کہتے ہیں کہ’ جب میں اُ ن کو سبق سناتا یا نئے سبق کا مطالعہ ان کے پاس بیٹھ کر کرتا تو ان کے پاس ایک لکڑی ہوتی تھی مگر اس لکڑی سے کبھی مجھے مارا نہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بچپن ہی سے سرسید کی تربیت میں ان کی والدہ نے قابلِ دید سرپرستی کی۔ سرسید اپنی والدہ کے بارے میں لکھتے ہیں :
’’میری والدہ کیسی اعلیٰ خیال اور نیک صفات اور عمدہ اخلاق ،دانشمند اور دور اندیش،فرشتہ صفت بی بی تھیں
اور ایسی ماں کا ایک بیٹے پر جس کی اُس نے تربیت کی ہو کیا اثر پرتا ہے‘‘ (ثُریا،ص :۳۰)
دوسری طرف جب ہم علامہ اقبال کی تربیت پر نظر ڈالتے ہیں تو وہاں بھی یہی معاملہ نظر آتا ہے ۔علامہ اقبالؔ کے والدین شیخ نور محمد اور والدہ امام بی بی نے اقبالؔ کو مرد ِکامل بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ان کی ترتیب نے علامہ اقبالؔ کو لازوال شاعر بنایا۔جنہوں نے اپنی پوری زندگی دینِ اسلام کی اشاعت کے لئے وقف کر دی۔اقبالؔ کی سیرت وشخصیت،اس کے علم وفضل اور اخلاق کو بڑھانے اور پروان چڑھانے میں ان کے والدین کا اہم رول رہا ہیں۔والدین کی تربیت ہی سے علامہ اقبالؔ اسلام اور اس کے پیغام کے بارے میں نہایت شدیدلایمان تھے۔اور رسولؐ کے ساتھ ان کی محبت شفقت اور ان کاا خلاص انتہا درجہ کا تھا۔اس لئے ان کے نزدیک اسلام ہی ایک ایسا زندہ جاوید دین ہے کہ اس کے بغیر انسانیت فلاح وسعادت کے بامِ عروج تک پہنچ ہی نہیں سکتی۔اقبالؔ کے نزدیک آہ سحر گاہی زندگی کا بہت ہی اہم سرمایہ رہا ہے۔اقبالؔ صبح سویرے میں اٹھنے کا بہت ہی اہتمام رکھتے تھے جس کی تربیب والد صاحب نے کی تھی۔
زمستانی ہوا میں گرچہ تھی شمشیر کی تیزی نہ چھوٹے مجھ سے لندن میں بھی آدابِ سحر خیزی
شیخ نور محمد نے اپنے بچوں کو اردو فارسی اور انگریزی تعلیم دلوائی۔ علامہ اقبالؔ نے اپنے والد شیخ نور محمد کی صحبتوں سے فیض اُٹھانے کا ذکر بہت فخر کے ساتھ کیا ہے۔ایک خط میں لکھتے ہیں:
’’ ہزار کتب خانے ایک طرف اور باپ کی نگاہ شفقت ایک طرف ،اسی واسطے تو جب کبھی موقع ملتا ہے،
ان کی خدمت میں حاضر ہوتا ہوں اور پہاڑ پر جانے کے بجائے ان کی گرمی صحبت میں مستفید ہوتا ہوں‘‘ ( نورالحسن: ۰۸)
اقبال کی تربیت میں ان کی والدہ امام بی بی جن کو احترام سے بی جی کہا جاتا تھا کا برا ہاتھ ہے۔یہ کوئی تعلیم یافتہ خاتوں نہیں تھی مگر اولاد کی پرورش کا سلیقہ انھیں خوب آتا تھا۔اقبال کی تربیت بی جی نے اس انداز سے کی کہ ان کے دل میں ملک و ملت کی خدمت کے لیے ایسا جذبہ پیدا ہوا جو تادمِ مرگ برقرار رہا۔ ماں کی اس تربیت کو اقبال نے نظم’’ والدہ مرحوم کی یاد میں‘‘ لکھکر انہیں خراجِ عقیدت کے ساتھ انھیں لافانی بنا دیا۔ماں کی یاد نے انھیں کیسا بے قرار کردیا تھا اس کا اندازہ ان اشعار سے لگایا جاسکتا ہے
کس کو اب ہوگا وطن میں آہ میرا انتظار کون میرا خط نہ آنے سے رہے گا بے قرار
خاکِ مرقد پہ تری لے کر یہ فریاد آوں اب دعا ئے نیم شب میں کس کو میں یاد آوں گا۔
ان دونوں کا اس بات میں بھی اشتراک رہا ہے کہ دونوں کو حضرت موسیٰ کی طرح حضرت ہارونؑ جیسا نیک ،متقی اور مددگار بھائی نصیب ہوا۔سرسید کی تعلیم و تربیت میں ان کے بھائی سید محمد کا بڑا ہاتھ ہے۔ وہ مذہبی انسان تھے،نماز اور قرآن کریم کی تلاوت کے پابند تھے۔انہوں نے سرسید کو اعلیٰ تعلیم دلانے اور ایک عظیم صحافی بننے میں اہم کردار ادا کیاہے اور اسی تربیب کا اثر تھا کہ جب ۱۸۴۵ء میں ان کے بڑے بھائی کا انتقال ہوا تو سرسید بالکل ملاّبن گئے ،یہاں تک کہ داڑھی بھی بڑھائی جو تاعمر ان کے چہرے پر نور پرور ثابت ہوئی۔اقبال کی تعلیم وتربیت میں بھی ان کے بڑے بھائی شیخ عطا محمد کی شخصیت اہم ہے وہ اقبال سے اٹھارہ برس بڑے تھے۔ انہوں نے اقبال کے تعلیمی معارف برداشت کیے اور انھیں اعلیٰ تعلیم کے لیے انگلستان بھیجا۔ ’’التجائے مسافر‘‘ میں اقبال نے اپنے بڑے بھائی کے بارے میں یہ اشعار کہے ہیں
وہ میرا یوسف ثانی، وہ شمع محفل عشق ہوئی ہے جن کی اخوت قرارِ جان مجھکو
جلائے جس کی محبت نے دفتر من وتو ہوائے عیش میں بالا،کیا جواں مجھکو
ریاضِ دہر میں مانندِ گل رہے خنداں کہ ہے عزیز تر ازجاں وہ جانِ جاں مجھکو
یہاں پر ایک بات کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے کہ دونوں کو نیک اور متقی بھائی نصیب ہوئے مگر سرسید کے بھائی کاانتقال،
سرسید کی وفات سے پہلے ہوتا ہے جس کا اُن کو قلق ہوا اوراس حادثے کے بعد سرسید نے ہمیشہ کے لیے داڈھی رکھنے کا اہتمام کیااور دوسری طرف اقبالؔ کے بھائی کا انتقال،اقبالؔ کی وفات کے بعد ہوا جس کا اقبالؔکے بھائی کو بڑا دکھ ہوا۔ مگر اقبال نے کبھی داڈھی کا اہتمام نہیں جس کی وجہ سے کچھ لوگ اُن کے عشقِ نبیؐ پر تنقید کرتے ہیں۔سرسید کی بہن صفیتہ النساء کے عالمانہ ذوق کا اثر بھی پڑا ۔ لیکن اقبال کی کوئی بہن نہیں تھی اس وجہ سے وہ اس نعمت سے ہمیشہ محروم رہے مگر اس بات میں کسی اختاف کی کوئی گنجائش نہیں ہیں۔
استاد ایک ایسی نعمت ہے جو مٹی کو سونا بنا دیتی ہیں۔سرسید کی تربیب میں ان کے اُستادِ محترم حضرت شاہ غلام علی صاحب،مولوی حمید الدین، حکیم حیدر خان اور ناظرہ پڑھانے والی اُستانی کا بھی حصّہ رہا ہے۔وہی اقبال کی تربیت میں ان کے استاد سید میر حسن کی چھاپ بہت گہری ہے۔شاہ صاحب لباس،خوراک،رہن سہن غرض ہر معاملے میں سادگی پسند، خوش گفتار ،شستہ اردو زبان میں گفتگو کرنے والے ،بے حد دیندار،عبادت گزار،قرآن کریم سے خاص شغف اور تصوف کی طرف مائل تھے۔اقبال نے اپنے استاد کی ان تمام خوبیوں سے فیض اٹھایا۔ اور سر کا خطاب لینے سے پہلے استاد کو شمس لعلما کے خطاب سے سرفراز کرایا۔ نظم ’’ التجائے مسافر‘‘ میں اپنے محترم استاد کے بارے میں فرماتے ہیں
وہ شمع بار کہ خاندان مرتقوی رہے گا مثل حرم جس کا آستان مجھکو
نفس سے جس کے کھلی میری آرزو کی کلی بنایا جس کی مروت نے نکتہ دان مجھکو
دعا جس کی مروت خداوند آسمان وزمین کرے پھر اس کی زیارت سے شا دمان مجھکو
ان دونوں کی تربیت کس مذہبی ماحول،حلال کمائی اور ایمانداری سے ہوئی اس کا احاطہ ہم نے اوپر کیا مگر مزید وضاحت ان باتوں سے ہوسکتی ہیں۔کہ جب سرسید احمد نے۱۸۷۵ء کی بغاوت میں انگریزوں کی جان بچائی تو اس کے عوض میں انگریزوں نے ایک لاکھ مال گزاری کا تعلقہ جاگیر میں دینا چاہا مگر آپ نے انکار کردیا۔اس کے علاوہ انہوں نے محمڈن اینگلو اورینٹل کالج کے بانی ہونے کے باوجود اس بات سے انکار کیا کہ کالج میں ان کے نام کا کوئی کتبہ نشانِ خصوصیت کے ساتھ قائم کیا جائے۔اس کے برعکس انہوں نے کہا کہ دروازے کی پیشانی پر کُتبہ ان الفاظ میں لگایا جائے۔
’’قوم نے قومی بھلائی کے لئے یہ کالج بنایا ہے ‘‘۔
طفلی ودامانِ مادر خوش ب ہشتے بودہ است چوں بپائے خود رواں گشتیم سرگرداں شدیم
دوسری طرف اقبال کی تربیت کسی انداز سے ہوئی اس کا اندازہ اس بات سے لگا یا جاسکتا ہے۔کہ جب اقبالؔ کے والد شیخ نور محمد نے شادی کے بعد ڈپٹی وزیر بلگرامی کے ہاں کپڑے سینے کی ملازمت اختیار کی تھی۔لیکن بعدمیں ان کی بیوی یعنی اقبالؔ کی والدہ نے اس ملازمت کو چھوڑنے کی تلقین کی۔کیونکہ ان کے خیال میں بلگرامی کی آمدانی کا بیشتر حصّہ حلال نہیں تھا۔ اسی طرح جب اقبال اسمبلی کا لیکشن لڑ رہے تھے تو کچھ لوگوں نے برادری کی عصبیت سے فائدہ اُٹھانے کی بات کی۔اس موقعے پر ان کے جذبات کیا تھے۔ملا خط کیجیے:
’’ جو لوگ مجھے کشمیری سمجھ کر پرچیاں (ووٹ) دینے کے آرزو مند ہوں،وہ پرچیاں نہ دیں۔جو لوگ فرقہ بندی کی بنا پر میری امداد کے خواہاں ہوں،وہ اس امداد سے بعد خوشی دست کش ہوجائیں۔میں مسلمان ہوں اور کلمہ گو کا خادم ہوں،مسلمان کی نمائندگی کرنا چاہتا ہوں۔جو شخص میری اس حقیقت کو پسند کرئے،وہ میری امداد کرئے۔میں اسلام کے سوا کسی دوسرے رشتے کا معتقد نہیں۔( مظلوم اقبال)
اس موازنہ سے ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ سرسید اور اقبال کی تربیت جو ہر لحاظ سے مذہبی انداز میں ہوئی ہیں اور جس میں خاص کردار ان کے والدین،بھائی اور اساتذہ کا ہاتھ رہا ہے اور جو دونوں میں اشتراک کی ایک کڑی ہے۔اس شاندار وموزوں تربیت کے اثر سے ہی دونوں نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور دینِ اسلام کی سرفرازی کے لئے ہر وقت تیار رہتے تھے۔سرسید نے اپنے اوپر احسان کرنے والوں یا تربیت کرنے والوں کا حق کوئی کتاب یا خط یا مقالہ لکھکر کیا کیونکہ وہ نثر کے بادشاہ تھے جبکہ اقبالؔ نے یہی کام اپنی شاعری سے انجام دیا۔ گویا اچھی تربیت ہی انسان کو انسان بنادیتی ہیں اور اس کی کمی سے انسان حیوان میں کوئی فرق نہیں رہتا ہے۔
سرسید اور اقبال کی زندگی میں ایک بڑا انقلاب سفرِ یورپ کے بعد آیا۔سرسید احمد خان ۱۸۶۹ء میں اپنے بیٹے مسٹر محمود کے ساتھ ولایت گئے، جہاں اہل یورپ کے طرز معاشرت اور اخلاق واعادات اور نیز ان کے سیاسی اور تعلیمی انتظامات کا مطالعہ خوب کیا۔اس زمانے میں سر ولیم میور کی کتاب’’لائف آف محمدؐ‘‘ کا ایک دلیرانہ اور دندانِ شکن جواب دیا۔ اس سفر سے ان پر یہ اثر پڑا کہ انہوں نے اکسفورڈ کے طرز پر ایک یونیورسٹی ہندوستان میں قائم کرنے کا ارادہ کیا جو ان کی وفات کے بعد ۱۹۲۰ء میں علی گڑھ مُسلم یونیورسٹی کی شکل میں منظر عام پر آئی اور دوسرا انہوں نے اسپکٹیٹراور ٹیٹلر کے معیار کا ایک رسالہ ہندوستانی مسلمانوں کی اصلاح اور رہبری کے لئے جاری کرنے کا مُصمم ارادہ کیا جو ’’ تہذیب الاخلاق‘‘ کی شکل میں ۱۸۷۰ ء میں جاری کیا گیا۔اس طرح دیکھا جاسکتا ہے کہ سرسید نے یورپ کی تقلید میں یہ دونوں کارخیر کئے۔جس کی اکبر الہ آبادی اور دوسرے لوگوں نے کھل کر مخالفت کی ۔
اس کے مقابلے میں اقبال نے یورپی تہذیب کی تقلید سے اپنے آپ کو نہ صرف بچایا بلکہ اس کی مخالفت کی۔۱۹۰۴ء میں پروفیسر آ رنلڈاپنی
ملازمت سے سبکدوش ہوکر ولایت چلے گئے۔ستمبر ۱۹۰۵ء میں اقبال بھی یورپ روانہ ہوگئے۔ اقبال انگلستان پہنچ کرکیمبرج یونیورسٹی میں داخل ہوگئے اور فلسفہ کی تعلیم حاصل کرنے لگے۔ آپ نے ایران کے فلسفہ کے متعلق ایک کتاب’’ایران میں مابعدالطبیعات کا ارتقاء‘‘ لکھی۔ جس پر جرمنی کی میونخ یونیورسٹی نے آپ کو ۱۹۰۷ء میں پی ایچ ڈی کی ڈگری عطاکی۔جرمنی سے واپس آکر آپ نے لندن میں بیرسٹری کا امتحان پاس کیا۔ اقبال نے یورپ پہنچ کر ایک ایسی دنیا دیکھی جو ان کے لئے بالکل نئی تھی۔یورپ والوں کی تہذیب میں ان کو خوبیاں بھی نظر آئیں اور برائیاں بھی۔ان کی ظاہری بھڑک تو آنکھوں کو چکا چوند کردیتی تھی مگر جب شاعر نے ٹٹولا تو اندر سے کھوکھلا پایا۔ یورپ کو قریب سے دیکھا تو مغربی اقوام کا ملمع اُتر گیا۔ان کی مادہ پرستی اور وطنیت کے ممددو تصور سے انھیں نفرت ہوگئی۔ان کی استعماری قوتیں اس وقت آپس میں دست و گریباں تھیں اور ان کے ہاتھوں سے امنِ عالم کی بربادی کے آثار نمایاں تھے۔ یورپ کے قیام کے دوران انھیں میک ٹیگرٹ،وائٹ ہیڈ،براون نکلس، سروجنی نائیڈو اور عطیہ فیضی سے ملاقات ہوئی۔ وہاں انہوں نے اسلامی تصوف،یورپ پراسلامی تہذیب کے اثرات،اسلام میں جمہوریت کا تصور جیسے مسائل پر روشنی ڈالی ۔۱۹۰۸ء میں ولایت سے ہندوستان واپس آئے۔ایک خط میں لکھا ہے کہ ’’ یورپ کی آب وہوا نے مجھے مسلمان کردیا‘‘۔ (نقوی،ص:۲۴)۱۹۳۱ میں اقبال کو دوسری اور ۱۹۳۲ء میں تیسری گول میز کانفرنس میں شرکت کی غرض سے انگلستان جانے کا موقع ملا۔ وہ مسلمانوں کے نمائندہ کی حیثیت سے نامزد کیے گئے تھے۔جس سے انھیں ملک کے مدبرین کے ساتھ مل کر کام کرنے اور انگلستان کے سیاست دانوں سے تبادلہ خیال کرنے کا موقع ملا۔ جس کے بعد انہوں نے اپنی شاعر میں مغرب کی حقیقت کھل کر سامنے لائی
فساد قلب ونظر ہے فرنگ کی تہذیب کہ روح اس مدنیت کی رہ سکی نہ عفیف
یہاں مرض کا سبب ہے غلامی وتقلید وہاں مرض کا سبب ہے نظام جمہور
دیارِ مغرب کے رہنے والوں خدا کی بستی دُکان نہیں ہے
کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو وہ شیر پھر ہوشیا ر ہوگا
اس طرح دونوں صاحبوں کے یورپ کے سفر کے جائزے سے جہاں اس بات میں اشتراک ہے کہ دونوں نے یورپ کا سفر کیا ہے مگر اختلاف اس لحاظ سے ہے کہ سرسید نے یورپ کی تقلید میں اپنی تحریک کو آگے بڑھایا ۔مگر اقبال نے یورپی تہذیب،معاشرت،ترقی وغیرہ کی مخالفت اپنی تحریروں ،شاعری اور تقاریر میں نہایت موثر انداز میں کی۔
سرسید احمد خان کی شادی۱۹ سال کی عمر میں یعنی ۱۸۳۶ ء میں پاکیزہ بیگم عرف مبارک بیگم سے ہوئی۔ ان کی بیوی نقیب الاولیا خاندان کی بیٹی تھی ۔وہ نہ صرف ایک معزز و علم پرور گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں بلکہ خود بھی پڑھی لکھی تھیں اور تاحیات وہ کبھی شوہر کے علمی اور اصلاحی کاموں میں مزاحم نہیں ہوئی۔ ان سے سرسید کے تین بچے تھے جن کا نام سید حامد ،سید محمود اور امینہ تھے۔ سرسید کی بیوی کا انتقال ۱۹۶۱ ء میں ہوا۔ بیوی کے انتقال کے بعد دوستوں نے دوسری شادی کے لئے اسرار کیا مگر سرسید نے انکار کیا ۔ دوسری طرف اقبال نے تین تین شادیاں کی۔ان کی شادی ۴ مئی ۱۸۹۳ کو گجرات کے ایک رئیس کشمیری گھرانے میں ہوئی۔اس وقت ان کی عمر سولہ برس تھی اور ان کی بیگم کریم بی ان سے تین برس بڑی تھیں۔اقبال کی بعض تحریروں سے پتہ چلتا ہے کہ وہ اس شادی کے لیے رضا مند نہیں تھے اور اس وجہ سے کبھی اس شادی سے خوش نہ رہ سکے اور بات طلاق تک پہنچ چکی تھی۔ان کے بطن سے دو بچے پیدا ہوئے تھے۔جن میں سے آفتاب کی پرورش خود اقبال نے ہی کی۔ اقبال نے دوسری شادی کا ارادہ سردار بیگم سے کیا جو لاہور کے وکٹوریہ گرلز اسکول میں زیر تعلیم تھیں۔ان سے نکاح ہوگیا مگر رخصتی اس وجہ سے رک گئی کہ اقبال کو گمنام خطوط سے سردار بیگم کی بدچلنی کا پتہ چلا۔تین سال بعد اقبال نے لدھیانہ کے ایک کشمیری گھرانے کی لڑکی مختار بیگم سے شادی کی اور اسی سال یعنی ۱۹۱۳ء میں یہ بات ثابت ہوئی کہ سردار بیگم پر لگائے گئے الزامات بے بنیاد تھے۔اقبال نے مختار بیگم سے اس کا تذکرہ کیا اور آخر طے پایا کہ انھیں بھی لاہور بلایا جائے اسطرح علامہ کی یہ دونوں بیویاں لاہور میں ایک ساتھ رہنے لگتی ہے۔سردار بیگم کے بطن سے جاوید اقبال اور منیرہ بیگم پیدا ہوئے اور مختار بیگم زچگی کی حالت میں ۱۹۲۴ء میں انتقال کرگئی۔ اس کے بعد ۱۹۳۵ میں سردار بیگم کا انتقال ہوگیا۔ گویاسرسید اور اقبال کی ازدواجی کا جائز ہ لینے کے بعد یہی پتہ چلتا ہے کہ سرسید نے ایک ہی بیوی کے ساتھ وفا کرکے سکون و آرام کی زندگی بسر کی ۔اور اقبال نے تین تین شادیاں کرکے اپنی زندگی کو تکلیف میں ڈالا۔ اقبالؔ کی ازدواجی زندگی کا زمانہ ۱۹۰۹ء سے ۱۹۲۱ء تک بحران کا زمانہ تھا۔اس زمانے کی اندرونی کشمکش اور اضطراب کا اندازہ عطیہ فیضی کے نام لکھے گئے خطوط سے لگا یا جاسکتا ہے۔جس میں انھوں نے شدید ذہنی کوفت اور مایوسی کے نتیجے میں سپیرا بن جانے،خودکشی کرلینے اور شراب نوشی میں پناہ لینے کا ارادہ کیا لیکن پھر تمام معاملات اﷲ تعالیٰ کے سپرد کر دینے کا یقین غالب آیا اور پانچ سال بعد یہ مشکلات آسان ہوئے۔ اس طرح ازدواجی زندگی کے معاملے میں اختلاف کا پہلو نظر آتا ہے۔
سرسید احمد خان اور علامہ اقبال نے اردو زبان و ادب ،مسلمانوں،انسانیت اور عالم امن کی شانتی کے لیے ایسے ایسے کارنامے انجام دیے کی ان کے بدلے میں ان کو وقتاً فوقتاً انعامات ،اعزازات،خطابات اور القاب سے نوازا گیا۔سرسید کو بہادر شاہ ظفر نے ۱۸۴۲ء میں جوادالدولہ عارف جنگ کے خطاب سے نوازہ۔اس کے بعد ۲ اگست ۱۸۶۹ء میں ان کو سی۔ایس۔آئی کا خطاب ملا۔۱۸۸۸ ء میں ان کو سر کے خطاب سے سرفراز کیا گیا ۔۱۸۸۹ء میں ان کو انڈنبرا یونیورسٹی نے ڈاکٹر آف لا کی اعزازی ڈگری عطاکی۔دوسری طرف اقبال کو حکومت ہند نے ۱۹۲۳ء میں سر کے خطاب سے نوازا لیکن انہوں تب تک یہ خطاب قبول نہیں کی جب تک اپنے استاد محترم مولوی میر حسن کو شمس العلماء کا خطاب نہ دلوایا۔اس پر گورنر نے ان کی تصانیف کے نام دریافت کئے تو اقبال نے جواب دیا کہ ان کی زندہ جاوید تصنیف میں خود ہوں۔اس کے بعد اقبال کو علی گڑھ یونیورسٹی نے ۱۹۲۹ء میں،پنجاب یونیورسٹی نے ۱۹۳۳ء میں،الہ آباد یونیورسٹی نے ۱۹۳۷ء میں ڈی لٹ کی اعزازی ڈگریوں سے نوازا۔ان کو شاعرِ مشرق،شاعرِ اسلام،ترجمانِ حقیقت اور امامِ العصر کے القاب سے بھی نوازا جا چکاہے۔اس ضمن میں بھی ان دونوں حضرات میں اشتراک پایا جاتا ہے کہ دونوں کو انگریزی حکومت نے سر کے خطاب سے نوازا اگرچہ بیچ میں پینتیس کا وقفہ بھی گزراہے۔
سرسید احمد خان اور علامہ اقبال کا اگرچہ ادبی لحاظ سے میدان الگ الگ ہے مگر پھر بھی اس میں اشتراک و اختلاف کا پہلوں نظر آتا ہے۔ہماری نثر اور شاعری پر سرسید کا احسان ہے کہ ان کی توجہ اور کوشش سے دونوں نے نئی زندگی پائی اور نئی منزلوں کی طرف قدم اٹھایا۔سرسید اول رواجِ عام سے شاعری کے میدان میں آئے اور آہیؔ تخلص اختیار کیا۔شاعری میں انہوں نے ایک چھوٹی سی مثنوی لکھی جس کا ایک مصرعہ یہ ہے
نام میرا تھا کام ان کا تھا
لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کو شاعری سے مناسبت نہ تھی اور چار سال تک شاعری میں طبع آزمائی کے بعد اس کو خیر باد کہا۔لیکن ان کی یہ کوشش جاری رہی کہ کوئی شاعری سے قوم کو بیدار کرنے کاکام لے۔مولانا حالیؔ نے سرسید کی فرمائش پر مسدّس مدوجزر اسلام لکھ کر یہ خدمت انجام دی۔سرسید کی شاعری میں بھی نثر کا اثر غالب نظر آتا ہے۔ دوسری طرف علامہ اقبال ہماری زبان کے فلسفی شاعر ہیں۔انھوں نے اپنے فلسفے سے ملت اسلام کے درد کی دوا کی۔ان شاعری میں چاہیے غزل ہو یا نظم،رباعی ہو یا مثنوی ہر جگہ ان کا فلسفیانہ،پیغمبرانہ اور اصلاحی پہلوں نظر آتا ہے۔ان کے چار اردو شعری مجموعوں سے ان شاعرانہ عظمت کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ اور اگر صر ف بانگِ درا کی بات کریں تو یہ دنیا میں سب سے زیادہ شائع ہونے والی کتابوں میں سے ایک ہے۔اس لئے شاعری کے میدان میں سرسید اور اقبال کا دور دور تک بھی موازنہ نہیں کیا جاسکتا ہے۔اقبال نے آل احمد سرور کوایک خط میں نصحیت کی تھی جس سے ہیں ان کی شاعری کی حقیقت اور مغز کا آسانی سے پتہ چلے گا۔ملا خط ہو خط کے الفاظ:
’’ میرے کلام پر ناقدانہ نظر دالنے سے پہلے حقائق اسلامیہ کے مطالعہ کریں تو ممکن ہے کہ آپ انہی نتائج تک پہنچیں گے جن تک میں پہنچتا ہوں۔‘‘ ( اقبال نامہ)
سرسید احمد خان جدیداردو نثر کے بانی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ نثر کی دنیا میں انھوں نے خود اپنی تحریروں سے انقلاب پیدا کردیا۔انھوں نے مدعا نگاری کی بنیاد ڈالی۔نثر میں وضاحت،صراحت اور قطعیت کی اہمیت واضح کی اور اردو نثر کو تصنع،فضول عبارت آرائی،لفاظی اور مبالغہ آرائی سے نجات دلائی۔اردو نثر میں ان کا تصانیف کی تعداد کثیر ہیں جن میں آثارالصنادید،سلسلتہ الملوک،اسباب بغاوت ہند،تاریخ سرکشِ ضلع بجنور،خطباتِ احمدیہ،تفسرالقران قابل ذکر ہیں۔دوسری طرف اقبال کی نثری تخلیقات کا جائزہ لینے سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی نثری تحریریں بھی فکری وفنی محاسن سے مالا مال ہیں۔ان میں عصری اسلوب کی بہترین خوبیاں موجود ہیں۔انہوں نے جس وقت لکھنا شروع کیا تھا اس وقت سرسید تحریک کے اثرات اردو نثر کی روایت پر چھائے ہوئے تھے۔سنجیدگی،تعقل، افادیت اور عدم جذباتیت اس اسلوب کی بنیادی خصوصیات تھیں۔اقبال نے سرسید تحریک کا اثر قبول کرتے ہوئے علمی موضوعات کو سنجیدہ انداز میں پیش کرنے کا تجربہ کیا لیکن نثر میں خشکی اور پھیکاپن نہیں پیدا ہونے دیا۔ان کے شاعرانہ مزاج اور رومانی فطرت نے سرسید کے اسلوب میں تھوڑا سا رومانی رنگ بھر کرایک نیا اسلوب پیش کیا۔ شاعری کے مقابلے میں ان کی اردو اور انگریزی نثر کی کتابوں کی تعداد پندرہ بنتی ہیں۔جن میں’’علم الاقتصاد،انگریزی خطبات،پی۔ایچ۔ڈی کا مقالہ،اردو ،مضامین اور خطبات،بیانات کا ایک مجموعہ، انگریزی مضامین اور خطبات و بیانات کا ایک مجموعہ شامل ہیں۔ان کی نثر سے ان کے متعدد تحریری منصوبوں کا انکشاف ہوتا ہے ۔مقدمہ القران میں وہ اپنے مطالعہ قرآن کے نتائج بیان کرنا چاہتے تھے ۔اس بارے میں لکھتے ہیں: ’’ کچھ مدت کے لیے مقدمہ القران کے لیے اپنے آپ کو وقف کردوں گا۔باقی اب زندگی میں مجھکو کوئی دلچسپی نہیں رہی۔‘‘ (مظلوم اقبال)
ڈاکٹر عبادت بریلوی علامہ اقبال کے نثری اسلوب کے مختلف پہلووں پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’اس نثرمیں بڑی زندگی ہے،بڑا زور ہے،بڑی ہی جولانی ہے۔اس میں خاصی بلند آہنگی کا احساس ہوتا ہے
یہ بہت ہی رواں دواں قسم کی نثر ہے۔اس میں بلا کی روانی ہے،غضب کا بہاو ہے۔‘‘ (اعظمی،ص: ۴۶۱)
جب منشی پریم چند نے اپنے افسانوں کا مجموعہ’’ پریم پچیسی‘‘ لکھا تو اس پر علامہ اقبالؔ نے یہ رائے دی’’ آپ نے اس کتاب کی اشاعت سے اردو لٹریچر میں ایک نہایت قابل قدر اضافہ کیا ہے۔ان کہانیوں سے معلوم ہوتا ہے کہ مصنف انسانی فطرت کے اسرار سے خوب واقف ہے اور اپنے مشاہدات کو ایک دل کش زبان میں ادا کرسکتا ہے‘‘۔(انوارِ اقبالؔ) دونوں کی نثر ی خدمات سے یہ پتہ چلتا ہے کہ ہم اقبال کی نثر کو سرسید کی نثر کے مدمقابل نہیں رکھ سکتے ہیں۔ایک تو اقبال نے سرسید کی تقلید کی ہے دوسرا وہ اس میدان میں سرسید کے شاگرد کے شاگرد تھے۔ مگر اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا ہے اقبال شناسی میں ان کی نثر کو بالائے طاق رکھنے کی وجہ ان کی نثر خدمات سامنے نہیں آسکی ہیں۔جو بظاہر ان کے مقالات،خطوط،نظریات وغیرہ نہایت کارآمد نظر آتی ہیں۔سرسید اور اقبال نے خطوط نگاری میں بھی طبع آزمائی کی ہیں۔ ان کے خطوط کا جائزہ لینے کے بعد یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس میدان میں یہ دونوں مرزا غالب کے شاگرد نظر آتے ہیں۔ان مکاتیب کی عبارت سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں کا انداز ایک جیسا ہے اور خطوط نگاری میں یہ دونوں اشتراکیت رکھتے ہیں۔ سرسید ایک منفرد مکتوب نگار بھی ہیں۔مکاتب ِسرسید میں سوائے ذاتی باتوں کے تمام باتیں جگ بیتی اور جگ کے لیے ہیں۔ مولوی محمد حسین آزاد کو ایک خط میں لکھتے ہیں:
’’ اس بات کے کہنے سے مجھے معاف کیجیے کہ یہ خیال آپ کا کہ قرآن میں کوئی مضمون علمی نہیں،
خالص فصاحت اس کا معجزہ ہے، درست نہیں ہے۔قرآن علم ونیچر اور فصاحت سب سے محمود ہے۔
اور مجموع من حیثیت المجموع معجزہ ہے‘‘۔(عبدالحق،ص:۲۲۹)
دوسری طرف علامہ اقبال نے بھی مکتوب نگاری میں طبع آزمائی کی اور ماہرینِ اقبالیات کے مطابق ان کے مکاتیب کی تعداد تیرہ سو سے تجاوز کرتی ہے۔انہوں نے اپنے تمام احباب کے نام مکتوب لکھے ہیں اور اُن کے مکاتیب کا جواب باقاعدگی سے دیتے تھے۔ان کے نزدیک حُسن آفرینی ایک ثانوی حیثیت رکھتی ہے۔اسی لئے ایک خط میں یوں رقم کرتے ہیں:۔
’’ اگر لٹریری اصول یہ ہوکہ حسن حُسن ہے خواہ اس کے نتائج مفید ہوں،
خواہ مضر تو خواجہ حافظؔ دنیا کے بہترین شعراء میں سے ہیں‘‘۔ ( نحوی،ص:۱۹۷)
سرسید اور اقبال سیاست کے میدان میں بھی اشتراک واختلاف رکھتے ہیں۔سرسید کا سیاسی موقف بالکل واضح تھا وہ چاہتے تھے کہ مسلمان سیاست میں قطعی طور پر حصّہ نہ لیں اور تعلیم وتعلم میں اپنا پورا زور صرف کریں۔کیونکہ ان کا خیال تھا کہ مسلمان جوشیلے ہوتے ہیں اور جوش میں آکر تمام فیصلے کرتے ہیں اور جوش کی وجہ سے ہی ۱۸۵۷ء کے بعد انگریزوں کے سخت ظلم کا شکار بنے۔
سرسید سیاست کے تمام نشیب فراز سے بخوبی واقف تھے اور یہی وجہ ہے کہ انہوں نے انڈین نیشنل کانگریس کی مخالف کی جس سے سب لوگوں کو تعجب ہوا مگر چاچا نہرو نے انہیں دور اندیش اور دانش مند قرار دیا ۔انہوں نے اگر چہ دوقومی نظریہ کومسترد کیا مگر آخری دور میں صرف مسلمانوں کی بات کی۔دوسری طرف اقبال عملی سیاست کے خارزار سے دور ہی رہنا چاہتے تھے مگر احباب کی خواہش کو مدِ نظر رکھتے ہوئے انہوں اس میدان میں بھی کامیابی حاصل کی۔
یہ عقدہ ہائے سیاست تجھے مبارک ہو کہ فیضِ عشق سے ناخن مرا ہے سینہ خراش
۱۹۲۶ء میں انہوں نے لاہور کے حلقہ سے کونسل کا امیدوار ہونا منظور کیا اور الیکشن میں کامیابی حاصل کی۔انھوں نے بحیثیت رُکن کونسل مسلمانوں کی تعلیم،شراب نوشی کی مخالفت، زمین کوسرکاری ملکیت کے بجائے عوام کا حق بتایا۔۱۹۳۰ء میں مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس جو الہ آباد میں ہوا تھا انہوں پاکستان کا نظریہ پیش کیا۔کیونکہ سرسید کی طرح انہیں بھی یقین ہو چکا تھا کہ ہندو اور مسلمان ایک ساتھ ایک ہی ملک میں زیادہ دیر امن کے ساتھ نہیں رہ سکتے ہیں۔دونوں سیاست کے میدان میں ایک جیسا نظریہ رکھتے تھے اور یہی اشتراک ان کے ہندو مسلم اتحاد میں بھی پایا جاتا ہے۔ہر ذی شعور انسان کی طرح سرسید اور اقبال نے بھی ہندو مُسلم بھائی چارے اور اتحاد و اتفاق کی تعلیم دی ہے۔سرسید کے اندر قومی ملی ہمدردی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔چنانچہ وہ پوری عمر ملک وقوم کی بھلائی اور اصلاح وترقی کیلئے کوشاں رہے۔۱۸۷۷ء میں ہندومسلم رابط کے عنوان سے ایک مضمون میں انھوں نے لکھا ہے کہ:
’’میں نے بار بار کہا ہے اور پھر کہتا ہوں کہ ہندوستان ایک دلہن کی مانند ہے ۔
جس کی خوبصورت اور رسیلی دو آنکھیں ہندو و مسلمان ہیں۔اگر دونوں ااپس میں نفاق رکھیں گے۔
تو وہ ہماری دلہن بھینگی ہوجائے گی اور اگر ایک دوسرے کو برباد کریں گے تو وہ کافی بن جائے گئی‘‘۔ ( آل احمد،ص: ۱۵)
ہندو مُسلم اتحاد کے بارے میں ان کے نظریات اور نیت اس حد تک صاف تھی کہ انہوں نے کہا کہ ہندو ہونا یا مسلمان ہونا انسان کا اندرونی خیال یا عقیدہ ہے جس کا بیرونی معاملات اور آپس کے برتاو سے کچھ تعلق نہیں۔یہی وجہ ہے کہ کے۔ایم پانیکر اور اچاریہ نریندردیو سرسید کی قومی یکجہتی کے بارے میں لکھتے ہیں کہ سرسید ہندوستانی قومیت کا حامی،ہندو مسلمان یکجہتی کا قائل اور سچا محب وطن تھا۔سرسید کی طرح ہی اقبال نے بھی قومی یکجہتی اور حب الوطنی کے گیت گائے ہیں۔ان کا قومی اور وطنی شعور اولاً معائب ومشکلات اور معائب وتنزل کے عناصر لئے ہوئے ہوتا تھا لیکن جب وطن میں اتحاد و اتفاق کی کمی نظر آتی ہے تو فرماتے ہیں
مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا ہندی ہیں ہم وطن ہے ہندوستان ہمارا
پھر ان کا وطنی شعور آہستہ آہستہ اتقا ء کی منزلیں طے کرتا ہے یہاں تک کہ ان کو وطن کا ہر ذرہ دیوتا نظر آتا ہے
اپنوں سے بیر رکھنا تو نے بتوں سے سیکھا پتھر کی مورتی میں سمجھا ہے تو خدا ہے
خاکِ وطن کا مجھکو ہر ذرہ دیوتا ہے
ان کی حب الوطنی کے بارے میں عبدالسلام ندوی لکھتے ہیں:
’’ انہوں نے ہندومسلم اتحاد اور جذبہ وطنیت پر نہایت پُر جوش اور پُر اثر نظمیں لکھیں جن میں ترانہ ہندی،
ہندوستانی بچوں کا قومی گیت،نیاشولہ اور صدائے درد اپنی سادگی ،اختصار اور جوش کی وجہ سے نہایت
مقبول ہوئیں اور ان کی وجہ سے انھوں نے ہندووں اور مسلمانوں میں یکساں شہرت حاصل کی‘‘۔ ( اعظمیٰ،ص: ۴۴۳)
ان کی نظر میں جذبہ حب الوطنی سے محرومی انسان کی بدنصیبی ہے لیکن وطن پرستی ایسی وبا ہے جس نے دنیا کو چھوٹے چھوٹے خطوں میں تقسیم کردیا ہے اور مہذب انسان کا اس سے دور رہنا ضروری ہے۔غرض نسلی امتیاز اور ملک پرستی کو وہ بدترین لعنت خیال کرنے لگے۔ گویا اس میدان میں اشتراک ہونے کے باوجود بھی اختلاف کی کڑیاں نظر آتی ہیں۔
سرسید اور اقبال کا زمانہ الگ الگ ضرور رہا ہے مگر دونوں کو ایک ہی قسم کا ماحول نصیب ہوا ۔ دونوں نے انگریزی سامراج میں اپنی زندگی بسر کی،اورتعلیم کے بارے میں دونوں کا تصور انگریزی تعلیم کے حق میں تھا۔ سرسید کا سب سے بڑا کارنامہ ان کا تعلیمی واسلامی مشن تھا۔جسے وہ ہر قیمت پر پورا کرنا چاہتے تھے۔وہ چاہتے تھے کہ مسلمانوں کو انگریزی تعلیم حاصل کرنا چاہیے۔کیونکہ جدید تعلیم انگریزوں سے مصالحت ،سیاسی حقوق کے حصول اور ان کی شخصیتوں کی تعمیر میں معاون ہوسکتی تھی۔لکھتے ہیں کہ:
’’ہندوستانیوں کو اس درجہ تعلیم دی جائے کہ ان کو اپنے حقوق حاصل کرنے کی قدرت ہوجائے‘‘ (ثُریا،ص: ۳۰۱)
ان کا تصورِ تعلیم بہت صاف ستھرا تھا۔تعلیم کے ذریعہ وہ مسلمانوں کی ہر طرح کی ترقی کے خواہاں تھے۔ وہ دینی علوم کے فروغ کے بھی خواہش مند تھے۔غرض ان کا تصور تعلیم بہت وسیع اور خالص مسلمانوں کی ترقی پر مبنی تھا ۔چونکہ سرسید کے یہاں جو کچھ تھا اخلاص ہی اخلاص تھا ۔ایک جگہ لکھتے ہیں کہ وہ دن دور نہیں کہ ہر ضلع سے ایک شخص کا کونسل میں داخل ہونا ضروری ہوگا وہ دن آوے گا کہ تم خود ہی قانون بناو گے اور خود ہی اس پر عمل کرو گے۔ علی گڑھ یونیورسٹی ان کے تصورِ تعلیم کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔جہاں تک عوامی زندگی کا تعلق ہے کسی دوسرے تعلیمی ادارے نے اتنے سرگرم اور ماہرین ِفن تیار نہیں کیے۔پروفیسر عبدالغفور کا خیال ہے کہ :
’’ انہوں نے(سرسید) تعلیم کو بھی محض کتابی سطح سے اُٹھا کر اکتسابی اور کرداری بلندیوں تک پہنچا دیا‘‘۔ (سیدعبداﷲ،ص:۶۷)
دوسری طرف اقبال ہر فرد کے لیے ایسی تعلیم کے خواہش مند تھے جس میں عمل کا جذبہ، خودی کااحساس اور انسان میں شاہین صفت خوبیاں پیدا کرنے کی طاقت ہو۔ان کے تصورِ تعلیم کی مثالیں جگہ جگہ ان کی شاعری میں نظر آتی ہے
خدا تجھے کسی طوفان سے آشنا کردے کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں
تجھے کتاب سے ممکن نہیں فراغ کہ تو کتاب خواں ہے مگر صاحب کتاب نہیں
دنیا ہے روایات کے پھندوں میں گرفتار کیا مدرسہ،کیا مدرسے والوں کی تگ ودوا
ان باتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ تصورِ تعلیم کے سلسلے میں دونوں کے نظریات میں اشتراک ہے اور وہ دونوں اعلیٰ تعلیم کے ساتھ ساتھ مذہبی اور جدید انگریزی تعلیم کے خواہاں تھے۔
مادری زبان ہو یا مذہبی زبان یا وہ زبان جس کی وجہ سے ہمیں عزت و وقار نصیب ہو۔ اُس کی حفاظت کرنا اور اس کی ترویج وفروغ کیلئے کام کرنا انسان کا فرض ہے اور اردو داں حضرات نے یہ کام بخوبی انجام دیا ہے اور اس کام میں سرسید اور اقبال نے بھی احسن طریقے سے اپنی خدمات انجام دی۔سرسید نے اردو زبان و ادب کی جو خدمات انجام دی ہیں اس سے کسی کو انکار نہیں ہوسکتا۔ انہوں نے اپنی تحریروں و تقاریر سے اردو زبان کی حفاظت کی۔وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے ۱۸۶۷ء میں حکومت کو اردو یونیورسٹی کے قیام کے لئے عرض داشت بھیجی تھی اور اسی سال ہندووں نے جب تمام سرکاری دفاتر اور عدالتوں سے اردو کو خارج کرنے اور اس کے بجائے ہندو بھاشا رائج کرنے کو کوشش کی تھی تو سرسید نے نہ صرف اس کی سخت مخالفت کی بلکہ اس حادثے کے بعد صرف ہندوستان کے مسلمانوں کی فلاح و بہبود کیلئے کام کرنے لگے کیونکہ ان کو یقین ہوگیا تھا کہ اب یہ دو قومیں کسی کام میں دل سے شریک نہ ہوسکیں گی۔اس پر شیکسپیر نے کہا تھا کہ اگر آپ کی یہ پیشن گوئی صحیح ہوئی تو نہایت افسوس ہے۔سرسید نے جواب دیا کہ مجھے بھی نہایت افسوس ہے مگر اپنی پیشن گوئی پر مجھے پورا یقین ہے۔ دوسری طرف علامہ اقبال نے بھی اپنی شاعری ، تقاریر،خطبات اور خطوط سے اردو زبان کی ترویج وحفاظت کی۔اس کا اندازہ عبدالقادر سروری کے اس خیال سے بخوبی لگا یا جاسکتا ہے :
’’ اردو زبان کی جو خدمت اقبال کی شاعری انجام دیتی ہے وہ نہایت مہتم بالشان ہے۔میرؔ اور غا لبؔ کو چھوڑ کر
اردو میں سوائے اقبالؔ کے کوئی شاعر ایسا نہیں ملے گا جس نے زبان پر اتنا گہرا اثر ڈالا ہو‘‘۔ ( یوسف سلیم،ص:۴۳)
سرسید احمد کا مذہبی مطالعہ بہت وسیع تھا۔ان کا خیال تھا کہ دینِ اسلام حضورؐ کی حیات میں ہر اعتبا ر سے مکمل ہوگیا تھا اب اس میں کسی قسم کا مذہبی اضافہ نہ صرف غلط بلکہ کُفر ہے۔ان کو بچپن ہی سے مذہبی تعلیم کی طرف رغبت تھی جب انہوں نے ایک اُستانی سے قرآن کا ناظرہ پڑھا۔ان کے اسلامی نظریات پر اگر چہ کفر کے فتوے لگے ہوں مگر اس بات سے بھی کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ جتنا کا م دین اسلام کے حق میں انہوں نے کیا ،فتویٰ دینے صادر کرنے والے مولوی اس کے آس پاس بھی نہیں بٹکتے ہیں۔ان کے مذہبی مطالعے اور دینی رجحان کے بارے میں میں شوکت سبزواری لکھتے ہیں: ’’ عربی متبحر عالم اور اسلامی علوم وفنون کے ماہر نہ تھے ان کا مذہبی مطالعہ بہت محدود تھا‘‘۔ (اعظمیٰ،ص:۴۹۰)
ہم سبزواری کے اس خیال سے انکار نہیں کرسکتے مگر آج دنیا میں تقریباً۲۵ فی صدی آبادی مسلمانوں کی ہے اور ہر زور یہودی اور دوسرے غیر مُسلم حضرت محمدؐ کی شان میں خستاخی کرتے رہتے ہیں مگر کسی میں ہمت نہیں ہوتی ہیں کہ ان کی اس غلط بیانی کا جواب دے۔لیکن سرسید وہ مجاہدِ اسلام تھے کہ جب ولیم میور نے اپنی کتاب’’ لائف آف محمدؐ‘‘ میں حضرت محمدؐ کی شان میں گستاخی کی تو سرسید نے لندن میں بیٹھ کر ’’ خطباتِ احمدیہ‘‘ میں اس کا دندانِ شکن جواب دیا۔جس کے بارے میں وہ لکھتے ہیں کہ اگر میری یہ کتاب تیار ہوگئی تو میں لندن آنا دس حج کے برابر اور باعث اپنی نجات کا سمجھوں گا۔یہی وجہ ہے کہ سرسید تحریک کے سب سے بڑے مخالف اکبر الہ آبادی کو بھی یہ لہنا پڑا کہ ہماری باتیں ہی باتیں،سرسید کام کرتا تھا۔ اتنا ہی نہیں ان کو حضرت محمدؐ سے اتنی محبت،عقیدت اور عشق تھا کہ لکھتے ہیں کہ میں نے مصمم ارادہ کیا کہ آنحضرت ؐ کی سیرت میں جیسا کہ پہلے ارادہ تھا کتاب لکھ دی جائے۔اگر تمام روپیہ خرچ ہوجائے اور میں فقیر بھیک مانگنے کے لائق ہوجاوں تو بلا سے۔ ان کی تفسیر القرآن سب سے زیادہ قابلِ اعتراض ٹھہری کیونکہ اس میں بعض مقامات پر انہوں نے جن خیالات کا اظہار کیا وہ نہ صرف جمہور علماء امت کے خلاف ہے۔ بلکہ ان کی والدہ کی عقیدت مندی کے بھی خلاف تھے ۔ان کی والدہ کا عقیدہ تھا کہ قرآن پڑھ کر یا فاتحہ دلا کر کھانا تقسیم کرنے کا ثواب مُردے کو پہنچتا ہے مگر سرسید ان دونوں باتوں کے قائل نہیں تھے۔ معجزات کے بارے میں ان کا نقط نظر سرے سے ہی غلط اور غلط فکر کا نتیجہ ہے۔جس کا ذکر داکٹر اسرار احمد نے بھی اپنی تفسر القرآن میں کیا ہے۔ان کے مذہبی افکار چاہیے قابل اعتراض ہوں مگر ان کی مذہبی حمیت اور قومی غیرت کے بے پایاں احساس کی ان کے عہد میں اور اس کے بعد سواے اقبال کے کوئی نہیں کرسکتا ہے۔ان کی مذہبی خدمات کے بارے میں ان کا رفیق و شفیق شبلی نعمانی لکھتے ہیں:
زمانہ جانتا ہے کہ مجھکو سرسید کے مذہبی مسائل سے سخت اختلاف تھا اور
میں ان کے بہت سے عقائد و خیالات کو بالکل غلط سمجھتا تھا ۔تاہم اس سے مجھکو کبھی انکار نہ ہو سکا
کہ ان مسائل کو سرسید نے جس طرح اردو زبان میں ادا کیا کوئی شخص ادا نہیں کرسکتا‘‘ ( آل احمد،ص: ۲۵)
عبدالحلیم شرر نے انیسویں صدی کے تمام انقلابات کا عمرانیاتی جائزہ لینے کے بعد سرسید کو اس صدی کا سب سے بڑا محافظ ِاسلام قرار دیا ہے۔جب ہم علامہ اقبال کے مذہبی افکار پر نظر ڈالتے ہیں تو سرتاسر نور ہی نور نظر آیا ہے ۔انہوں نے چار سال کی عمر سے ہی قرآن کے رموز و اسرار سے واقفیت حاصل کی تھی۔یہی وجہ کہ انہوں نے طالب علمی کے زمانے ہی میں اپنے اسلامی مطالعہ کی طرف اس انداز میں اشارہ کیا
موتی سمجھ کے شانِ کریمی نے چُن لیے قطرے جوتھے مرے عرقِ انفعال کے
بچپن میں ہی وا لد محترم شیخ نورمحمد نے نصحیت کی کہ’’ بیٹا کلام پاک یہ سمجھ کر پڑھا کرو کہ اﷲ تعالیٰ تم سے ہی مخاطب ہے اور یہ تم پر ہی نازل ہواہے‘‘ (نقوی،ص:۱۱)اس نصحیت کا یہ اثر ہوا کہ ان کی شاعری سر تا سر کلام اﷲ کی تفسیر بن گئی۔جس کا اندازہ اس شعر سے لگایا جاسکتا ہے
وہ زمانے میں معزز تھے مُسلماں ہوکر اور ہم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہوکر
اقبال کے دینی رجحانات اور مذہنی افکار کا اندازہ ہم ان کے اس خیال سے لگا سکتے ہیں۔ایک جگہ خود لکھتے ہیں کہ:
’’ میں جو اپنی گذشتہ زندگی پر نظر ڈالتا ہوں مجھے بہت افسوس ہوتا ہے کہ میں نے اپنی عمر یورپ کا فلسفہ پڑھنے میں گنوائی۔خدا تعالیٰ نے مجھکو قوائے دماغی بہت اچھے عطا فرمائے تھے اگر یہی قوا دینی علوم پڑھنے میں صرف ہوتے تو آج خدا کے رسولؐ کی میں کوئی خدمت کرسکتا اور جب مجھے خیال آتا ہے کہ والد مکرم مجھے علوم دینی ہی پڑھانا چاہتے تھے تو مجھے اور بھی قلق ہوتا ہے کہ باوجود اس کے کہ صحیح راہ معلوم بھی تھی،تو بھی وقت کے حالات نے ا س راہ پر چلنے نہ دیا۔بہرحال جو کچھ خدا کے علم میں تھا ہوا اور مجھ سے بھی جوہوسکتا،میں نے کیا۔لیکن دل چاہتا ہے کہ جو کچھ ہوا،اس سے بڑھ کر ہونا چاہیے تھا اور زندگی تمام وکمال نبیؐ کی خدمت میں بسر ہونی چاہیے تھی۔‘‘ ( مظلوم اقبالؔ)
مثنوی رموزِ بے خودی میں انھوں نے دعویٰ کیا ہے کہ میری شاعری کا کوئی حرف قرانِ حکیم سے باہر نہیں،اگر باہر ہوتو روزِ محشر مجھے ذلت و رسوائی کے سوا کچھ ہاتھ نہ آئے اور میری شاعری وجود میں آنے سے پہلے ہی فنا ہوجائے۔ اقبالؔ کی شاعری نے خواب وغفلت میں پڑی ہوئی قوم کو بیدار کیا۔اور ان کے دلوں میں ایمان و یقین کی چنگاری پیدا کردی۔ ان کے پاس اسلام کی دعوت اور قرآن کا پیغام تھا۔اسی تربیت نے اقبالؔ کو مضبوط عقیدہ،قوی ایمان،تعلیمِ فکر اور بلند مقام عطا کیا اور جس نے اقبالؔ کو اقبالؔ بنایا۔مرحوم علی بخش کا بیان ہے کہ قرآن مجید کی تلاوت کے دوران ان کی حالت دگرگوں ہوجاتی اور میں آنسونوں سے تر قرآن کے اوراق کو دھوپ میں سکھاتا تھا۔وہ دنیا اور دنیا کے ہر مسئلے کو قرآن کی عینک سے دیکھتے تھے۔مسلمانوں میں ایک حلقہ ایسا بھی رہا ہے جو ہر چیز کو سائنس کی کسوٹی پر رکھ کر پرکھتے ہیں جن میں سرسید احمد بھی شامل تھے۔سرسید تو معجزات کو تسلیم ہی نہیں کرتے تھے ۔مگر معجزات کے بارے میں اقبال کا ایمان کتنا پختہ تھا اس کے بارے میں مولانا ابوالاعلیٰ مودودی لکھتے ہیں کہ اقبال نے اپنے سارے تفلست اور اپنی تمام عقلیت کو رسول عربیؐ کے قدموں میں ایک متاحِ حقیر کی طرح نذر کرکے رکھ دیا تھا۔
ایک مرتبہ ایک صاحب نے اقبال کے سامنے بڑے اچنبھے کے انداز میں آس حدیث کس ذکر کیا جس مین بیان ہوا ہے کہ رسولؐ اصحابِ ثلاثہ کے ساتھ احد پر تشریف رکھتے تھے۔اتنے میں احد لرزنے لگا اور حضور ؐ نے فرمایہ کہ ٹحہرجا،تیرے اوپر ایک نبیؐ،ایک صڈیق،اور دو شہیدوں کے سوا کوئی نہیں ہے اس پر پہاڑ ساکن ہوگیا۔اس پر اوقبال نے حدیث سنتے ہی کہا اس میں اچھنبے کی کون سی بات ہے میں اس کو بالکل مادی حقیقت سمجھتا ہوں‘‘۔( نقوی،ص: ۳۹)
اقبال عشق رسولؐ سے سرشار تھے۔کہیں حضور کا ذکر یا نام ِمبارک آجاتا تو ان کی آنکھیں اشکبار ہوجاتی تھیں۔ ان کی عقیدت اور عشق ِ نبیؐ کا اندازہ اسبات سے لگا یا جاسکتا ہے کہ:’’ کیمبرج کے زمانہ طالب علمی میں کسی نے سوال کیا کہ اﷲ نے سارے پیغمبر ایشیا ہی میں کیوں بھیجے۔اقبال نے جواب دیا کہ پہلے پہلے ہی دن سے اﷲ میاں اور شیطان نے اپنے اپنے مورچے جمالیے۔اﷲ میاں نے ایشیا کو پسند کیا اور شیطان نے یورپ کو۔اس پر ان صاحب نے کہا کہ شیطان نے بھی اپنے پیغمبر بھیجے ہوں گے آخر وہ کیا ہوئے۔اقبال نے جواب دیا یہ تمہارے میکیاولی اور دوسرے سیاست داں آخر کیا تھے ؟ شیطان کے پیغمبر ہی تو تھے‘‘۔ ( نورالحسن،ص:۳۸)
غرض دونوں حضرات مذہبی تعلیمات،محافظِ اسلام،قرآنی تعلیمات،عشق رسولؐ وغیرہ میں اشتراک رکھتے ہیں مگر اسلام جس کی بنیاد ہی غیب اور معجزات پر ہے اس میں میں دونوں کے نظریات میں واضح اختلاف ہے۔اور اختلاف بھی اس قسم کا ایک پر کفر کے فتوے لگے اور دوسرا حکیم الامت، شاعرِ مشرق،شاعرِ اسلام،ترجمانِ حقیقت اور امامِ العصر کے القاب سے سرفراز ہوئے ۔
سرسید اور اقبال کا اس میں اشتراک ہے کہ دونوں پر کفر کا فتویٰ لگایا گیا ہے۔درحقیقت یہ کفر وارتداو کے فتوے نہیں ہیں بلکہ دونوں کے اعلیٰ درجہ کے مسلمان ہونے کے وثیقے ہیں۔یہ تمغے انھیں لوگوں کو نصیب ہوئے ہیں جو دنیا میں مخالفت کے خوف سے کبھی حق بات کہنے سے نہیں چوکے۔امام غزالی اپنے ایک رسالہ میں لکھتے ہیں کہ:
’’ جس شخص پر لوگ حسد نہ کریں اس کو حقیر جاں! اور جس کو کافر اور گمراہ نہ کہیں اُس کو ناچیز سمجھ‘‘۔ ( الطاف حسین،ص:۵۵۸)
امام غزالی کے اس خیال میں اس وجہ سے بھی صداقت نظر آتی ہیں کہ دنیا کے بیشتر عظیم ،متقی ،پرہیز گار،اور مومن لوگوں پر کفر کا فتویٰ لگایا گیاہے جن میں جنید بغدادیؒ،امام ابو حنیفہؒ،امام شافعیؒ، امام احمد بن حنبلؒ،امام مالکؒ،عبدالقادر جیلانیؒ،ابن اعرابیؒ، مولانا جامیؒ، منصور حلاجؒ، مولانا شبلیؒ،مولانا حمید الدینؒ،امام غزالیؒ،شیخ احمد سرہندیؒ،شاہ ولی اﷲؒ، شاہ اسماعیلؒ،سرسید احمد خانؒ، علامہ اقبالؒ، ابوالکلام آزاد،علی محمد جناح وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ اس لحاظ سے تو سرسید احمد جنت کے اعلیٰ طبقات میں جگی رکھتے ہیں۔ سرسید احمد نے جتنے زیادہ اصلاحی اور ادبی خدمات انجام دیے اُن سے زیادہ تعداد میں اُن کفر کے فتووں کی بارش کردی گئی۔ ایک جگہ لکھتے ہیں کہ میں نے مذہب کی صداقت دریافت کرنے کے لیے یہ اصول قرار دیا ہے کہ وہ فطرت ِ انسانی کے مطابق ہے یا نہیں۔انہوں نے اسلام کو سائنٹفک مذہب قرار دیا جس میں کوئی شک نہیں ہے مگر انہوں نے فرشتوں،معراج،جنت جہنم،حضرت عیسیٰ ؑ کی ولادت،معجزات وغیرہ کو یا تو خواب قراد دیا یا سرے سے ہی انکار کردیا۔ جس کی وجہ سے مولوی امداد العلی نے سرسید کے لئے کفر وارتداد کے فتوے حاصل کرنے کیلئے حج بیت اﷲ کا ارادہ کیا اور مکہ معظمہ میں جاکر مذاہب اربعہ کے مفتیوں ( شیخ عبدالرحمٰن بن شیخ عبداﷲ سراج مفتی حنفیہ،احمد بن زین دھلان مفتی شافیعہ،محمد بن عبداﷲ بن حمید مفتی حنابلہ اور حسین بن ابراہیم مفتی مالکیہ ) کے سامنے سرسید کے نظریاتِ اسلام پیش کئے۔اس کے بعد مولانا علی بخش خان بھی مدینہ منورہ گئے اور اسی قسم کا نظریہ شیخ محمد امین بانی مفتی احناف کی خدمت میں پیش کیا۔ اس طرح یہ لوگ سرسید پر کفر کا فتویٰ لگانے میں کامیاب ہوئے۔ ان کفرکے فتووں کے بارے میں سرسید اور شبلی نے اپنے جوابات یوں پیش کئے۔شبلی نعمانیؒ نے لکھا ہے:
’’ ایک طرف تو ہمارے مولوی مسلمانوں کو کافر بنانے میں مصروف ہیں اور اس کام میں وہ کوشش کرتے ہیں،
جو صحابہ کافروں مسلمان بنانے میں کیا کرتے تھے۔دوسری طرف یورپ کی علمی فیاضیوں کا بادل عالم پر
آب ِحیات برسا رہا ہے‘‘ ( عبداﷲ ،ص: ۳۳۶)
سرسید نے تہذیب الاخلاق میں اپنے تکفیر کے فتووں کا جواب یوں دیا:
’’جو صاحب ہماری تکفیر کا فتویٰ لینے کو مکّہ معظمہ تشریف لے گئے تھے اور ہماری تکفیر کی بدولت ان کو حج اکبر نصیب ہوا۔
ان کے لائے ہوئے فتووں کو دیکھنے کے ہم بھی مشتاق ہیں۔سبحان اﷲ ! ہمارا کفر بھی کیا کفر ہے
کہ کسی کو حاجی اور کسی کو کا فر اور کسی کا مسلمان بنایا ہے‘‘۔(آل احمد،ص: ۲۵)
دوسری طرف علامہ اقبالؒ پر لاہور کے بریلوی عالموں نے کفر کا فتویٰ لگایا تھا۔بقول محمدالدین تاثیر:
’’ شکوہ لکھا گیا تو اس انداز پر سینکڑوں نظمیں لکھی گئیں،مولویوں نے تکفیر کے فتوے لگائے اور
شاعروں نے شکوہ کے جواب لکھے لیکن شکوہ کا درست جواب خود اقبال ہی نے لکھا‘‘
شکوہ کے علاوہ جب انہوں نے خودی کا تصور پیش کیا اس پر بھی مولویوں نے ان پر کفر کے فتوے جاری کئے۔ اس طرح کفر کا فتویٰ حاصل کرنے میں بھی یہ آپس میں اشتراک رکھتے ہیں۔
سرسید اور علامہ اقبال دونوں مسلمانوں کے دو عظیم رہبر ثابت ہوئے ہیں۔سرسید نے اُس وقت ہندوستان کے مسلمانوں کی رہبری کی جب ۱۸۵۷ء کی ناکام بغاوت کے بعد وہ انگریزوں کے ظلم کا خصوصی طور پر شکار بن گئے تھے۔انہوں نے ان مظلوم مسلمانوں کو صحیح راستہ دکھانے کے لئے نہ صرف تقاریر کا انتظام کیا بلکہ متعدد تصانیف وتالیفات بھی منظر عام پر لائی۔آثارالصنادید سے مسلمانون کی عظمت بیان کرکے غافل وگمراہ مسلمانوں کی رہبری کی۔جب اس سے زیادہ کام نہ چلا تو رسالہ ’’تہذیب الاخلاق‘‘ اور ’’ سائنٹفک سوسائٹی گزٹ‘‘ جاری کئے ۔وہ خود ایک جگہ اس اخبار کے بارے میں لکھتے ہیں کہ:
’’ہندوستان کے مسلمانوں کوکامل درجہ کی (Civilization) یعنی تہذیب اختیار کرنے پر راغب کیا جائے
تاکہ جس حقارت سے مہذب قومیں ان کو دیکھتی ہیں وہ رفع ہوں
اور وہ بھی دنیا میں معزز و مہذب قومیں کہلائیں‘‘۔(ثُریا،ص:۲۴۶)
ہندوستان کے مسلمانوں کی تعلیمی،سماجی،معاشرتی واخلاقی ہر قسم کی ترقی کا شرف سرسید کے سر ہے۔یہ ماننا پڑے گا کہ ۱۸۵۷ء کاغدر ہندوستانی مسلمانوں کے لئے ایک سخت آزمائش تھی۔اگر سرسید نہ اُٹھتے تو ہندوستان کے مسلمانوں کا وہی حال ہوتا جو اسپین کا ہوا تھا۔ انہوں نے مسلمانوں کو جدید تعلیم دینے کے لئے اسکول قائم کئے جن میں ایک اسکول نے علی گڑھ یونیورسٹی کی شکل اختیار کرلی۔جب ان بے حس مسلمانوں کے کان نثر سے پک گئے تو مولانا حالیؔ سے ’’مسدّس حالیؔ‘‘ لکھواکر ان کو سونچنے پر مجبور کیا۔محمد علی جوہر سرسید احمد خان سے مخاطب ہوکر کہتے ہیں
لکھایا تھا تمہیں نے قوم کو یہ شور وشر سارا جو اس کی انتہا ہم ہیں تو اسکی ابتداء تم ہو
دوسری طرف اقبال نے ایک افاقی شاعر کی حیثیت سے دنیا کے مسلمانوں کے مسائل کی طرف توجہ کی۔جو خدمات سرسید نے ہندوستان کے مسلمانوں کی آزادی اور بھلائی کے لئے انجام دئے۔علامہ اقبال نے وہی خدمات کشمیر کے مسلمانوں کی آزادی کے خاطر انجام دئے۔انہوں نے ان مردہ جسم مسلمانوں کے اندر آزادی کا جوش پیدا کرنے کے لئے اپنی شاعری ،مقالات،خطوط اورمضامین کا سہارا لیا۔ ایک مجاہد کی طرح عملی میدان میں بھی قدم رکھا۔۲۷ اپریل ۱۹۳۱ء کو دوسری گول میز کانفرنس کے دوران علامہ اقبالؔ لندن پہنچ گئے۔علامہ نے انڈر سیکریٹری آف سٹیٹ سے ملاقات کے دوران کشمیر کے حوالے سے اپنی تشویش کا اظہار یوں کیا:
’’سرینگر میں بچوں کو بڑی بے رحمی سے قتل کیا جارہا ہے۔سرینگر کی تقریباً ہر گلی میں
ان پر گولیاں چلائی جارہی ہے اور ڈوگرہ پولیس کے ہاتھوں عورتوں کی بے حرمتی
ہورہی ہے، اس سلسلے میں ہمارے پاس پورپ کی تین مختلف قوموں سے تعلق رکھنے
والے اشخاص کی شہادتیں موجود ہیں جو اخبارات میں شائع ہوچکی ہیں۔۔۔‘‘( بدرالدین،ص:۱۱۱۔۱۱۰)
وہ تحریک ِحریت کشمیر، مجلس کشمیری مسلمانانِ لاہور اور آل انڈیا مسلم کشمیری کانفرنس لاہور کی کاروائیوں میں بڑی سرگرمی سے شریک ہوتے تھے۔اپنے شعری مجموعوں کی کھل کر کشمیر کے مظلوموں کی حمایت و رہبری کی۔
جو سامنے تھا مری قوم کی بُری حالت امڈ گیا میری آنکھوں سے خون کا سیحوں
ہندوستان میں آئے ہیں کشمیر چھوڑ کر بُلبُل نے آشیانہ بنایا ہے چمن سے دورے
ان کے دل میں دنیا کے تمام مسلمانوں کے لئے ہمدردی تھی جو ایک مومن کی نشانی تھی۔جب اطالیہ نے ترکی سے طرابلیس چھین لیا اور پھر بلقان کی عیسائی ریاستوں نے جو مدت سے ترکی کی ماتحت تھیں بغاوت کردی۔اقبال کی طبعیت پر ان واقعات کا بہت اثر ہوا۔چنانچہ انہوں نے اس زمانے میں نظم ’’شکواہ‘‘ لکھی ۔پہلے پہل انہوں نے اس نظم کو انجمن حمایت اسلام لاہور کے جلسے میں پڑھا تو ان کی درد میں ڈوبی ہوئی آواز سامعین کے دلوں میں اس طرح نشتر گھنگھولنے لگی کہ وہ اپنے گریباں چاک کرنے لگے۔
مشکلیں امتِ مرحوم کی آسان کردے مورِ بے مایہ کو ہمدوشِ سلیماں کردے
جنسِ نایاب محبت کو پھر ارزاں کردے ہند کے دیر نشینوں کو مسلماں کردے
اقبال کا دل ہمیشہ مسلمانوں کے لئے دھڑکتا تھا جب قسطسطنیہ پر انگریزوں کا قبضہ ہوا تو انہوں نے نظم ’’ خضرِراہ‘‘ لکھکر اپنے مسلمان بھائیوں کے نام یہ پیغام دیا
توڑ ڈالیں فطرتِ انساں نے زنجیریں تمام دوریٔ جنت سے روتی چشمِ آدم کب تلک
تا خلافت کی بنا دنیا میں پھر ہو اُستوار لا کہیں سے ڈھونڈ کر اسلاف کا قلب وجگر
اور جب قسطسطنیہ پر مصطفیٰ کمال پاشا نے قبضہ کر لیا تو انہوں نے نظم ’’ طلوعِ اسلام ‘‘ لکھکر اپنے خوشی وجذبات کا اظہار یوں کیا
مسلماں کو مسلماں کردیا طوفانِ مغرب نے تلاطم ہائے دریا ہی سے ہے گوہر کی سیرابی
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
انہوں نے مسلمانوں کویہ نصحیت کی ہے کہ اگر تمہارے علماء اور صوفیا تمہارے اندر جہاد فی سبیل اﷲ کا جذبہ پیدا نہ کرسکیں یا اگر تمہارے دلوں میں یہ ولولہ پیدا نہ کرسکے تو بہر صورت دین کی اس دنیا میں کوئی قدر منزلت قائم نہیں رہ سکتی ۔رہبرہ کے اس میدان میں جو پیغمبرانہ پیشہ ہے اس میں ان دونوں حضرات میں اشتراک کا پہلو ہونے کے باوجود کسی حد تک اختلاف نظر آتا ہے۔کیونکہ سرسید نے صرف ہندوستان اور ہندوستان کے مسلمانوں کی رہبری کی جبکہ اقبال دنیا کے تمام مسلمانوں اور مظلوموں کی رہبری کرنا اپنا اخلاقی و دینی فرض سمجھتے تھے۔
سرسید احمد خان کا انتقال ۲۸ مارچ ۱۸۹۸ء میں ۸۱ برس کی عمر میں ہوا،جبکہ اقبال کا انتقال۲۱ اپریل ۱۹۳۸ ء کو سیالکورٹ میں ۵۳سال کی عمر میں ہوا۔ یعنی دونوں کے انتقال میں ٹھیک چالیس سال کا فرق ہے مگر ان دونوں کے انتقال کے بعد یہ بات مشترک تھی کہ سرسید کے جنازے میں اس قدر لوگ تھے کہ اس نوعیت کا ازدھام اس سے پہلے علی گڑھ میں کسی نے نہ دیکھا ہوگا۔دوسری طرف اقبال کے انتقال کی خبر سن کر تمام بازار،اسکول ،دفاتر بند ہوگئے اور ان کے جنازے کے ساتھ کوئی پچاس ہزارسے زیادہ آدمی تھے۔سرسید کے انتقال پر عام لوگوں کے علاوہ ان کے رفیقوں،صحافیوں،اساتذہ اور حکومت نے بھی عظمت کے گیت گائے اور مختلف تاریخیں لکھیں گئی۔پایونیر میں لکھا گیا کہ’’ سرسید جو ایک دور اندیش مدّبر ہونے کی وجہ سے تعلیم کا نہایت سرگرم حامی تھا اُس کے انتقال کے ساتھ اُس نہایت مفید آور اور نہایت زبردست پولٹکل طاقت کا خاتمہ ہوگیا ہے‘‘۔ (الطاف حسین،ص: ۲۸۷)سرسید کے رفیق اور استادِ محترم پروفیسر آرنلڈ نے لاہور میں ایک جلسے سے خطاب کے دوران کہا کہ’’ وہ ایک ہی وقت میں اسلام کا محقق،علم کا حامی،قوم کا سوشل رفارمر،پولٹیشن،مصنف اور مضمون نگار تھے‘‘۔ ( الطاف حسین،ص: ۲۹۰)لارڈ لٹن نے ان کی وفات پر لکھا ہے کہ سرسید احمد خان کی موت کسی ایک شخص کی موت نہیں بلکہ ایک عہد کا خاتمہ تھا۔ان کی زندگی کا ساتھ ہندوستانی مسلمانوں کی تاریخ کا ایک باب ختم ہوگیا۔مولانا حالیؔ نے اپنی عقیدت کے پھول شعرانہ انداز میں اس طرح نچھاور کیے
ترے احسان رہ رہ کر سدا یاد آئیں گے ان کو کریں گے ذکر مجلس میں اور دہرائیں گے ان کودوسری طرف اقبال کے انتقال پر فانی دنیا سے متعلق بے شمار اشعار طبع کئے گئے۔ اس کی شروعات خود اقبال نے مرنے چند دن پہلے اُس وقت کی جب اقبال کی حالت بگڑنے لگنی تو ان کے بھائی عطا محمد نے دو چار کلمات تسلی کے لئے کہنے شروع کئے تھے تو اقبال نے کہا کہ بھائی میں مسلمان ہوں اور موت سے نہیں ڈرتا اور پھر یہ شعر پڑھا
نشان مردِمومن باتو گویم چوں مرگ آمد تبسم گویم
اس کے علاوہ شعراء نے متعدد اشعار موزوں کیے جن کو اقبال کے انتقال کے باب میں رکھا جاسکتا ہے۔ ملاخط ہو چند اشعار
جس کے آوازوں سے لذت گیر اب تک گوش ہے وہ جرس کیا اب ہمیشہ کے لئے خاموش ہے
تم ہو اک زندہ و جاوید روایت کے چراغ تم کوئی شام کا سورج ہو جو ڈھل جاؤ گے۔
ان دونوں کے انتقال میں دو باتوں کا اختلاف بھی پایا جاتا ہے۔ایک یہ کہ سرسید کا انتقال بغیر کسی لمبی اور تکلیف دہ بیماری کے ہوا جبکہ اقبال کا انتقال چار سال سے زائد لمبی اور تکلیف دہ بیماری کے بعد ہوا۔دوسرا یہ کہ سرسید کے ہمدرد و مہربان بھائی کا انتقال ان کے انتقال سے پہلا ہوا اور اقبال کے بھائی کا انتقال ان کے انتقال کے بعد ہوا۔
مختصراً ہم اختتام کی طرف بڑھتے ہیں کہ سرسید اور اقبال کی زندگی اور ادبی خدمات میں بہت کچھ اشتراک پایا جاتا ہے اور اشتراک کے باوجود کہی کہی اس میں اختلاف کا پہلو میں نظر آتا ہے۔اس اشتراک کا جب تحقیقی جائزہ لیا جاتا ہے تو ایسا لگتا ہے کہ ان دونوں کی ملاقات کہی نہ کہی ہوچکی تھی۔ تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ اقبال کے استادِ محترم شاہ نصیر حسن کی صحبت وتربیت سے اقبال کو دو چیزیں نصیب ہوئی تھی ۔ایک شاعری کا شوق وذوق اور دوسرا سرسید کے خیالات ونظریات سے ہم آہنگی۔شاہ میر حسن جدید انگریزی تعلیم کے زبر دست حامی اور سرسید کے ہم نوا تھے۔مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کے اجلاسوں میں وہ پابندی سے شریک ہوتے تھے۔اور ناممکن ہے کہ وہ اپنے شاگردوں سے سرسید اور ان کے تعلیمی مشن کا ذکر نہ کرتے ہوں۔اقبال کے دل میں سرسید کا احترام شاہ صاحب کی گفتگو سے ہی پیدا ہوا ہوگا۔اور یہ بھی ناممکن نہیں کہ استاد کے اس تعلق سے اقبال اور سرسید کی ملاقات بھی ہوئی ہو کیونکہ یہ دونوں (اقبال اور سرسید) بیس بائیس سال تک ایک دوسر ے کے ہم عصر رہ چکے ہیں۔سرسید اور اقبال کی ملاقات چاہیے ظاہری طور پر نہ ہوئی ہو، مگر باطنی طور پر ان دونوں کو عاشق و معشوق کی طرح مرنے کے بعد ملاقات کا شرف حاصل ہوا ۔ہوا یوں کہ اقبال اپنی عمر کے آخری ایام میں گلے کی تکلیف کے علاج کے سلسلے میں بھوپال گئے۔ایک د ن اقبال بھوپال کے شیش محل میں سوئے ہوئے تھے کہ وہ خواب میں سرسید کودیکھتے ہیں جس کا ذکر انہوں نے پروفیسر صلاح الدین محمد الیاس برنی کے نام ۳۱ جون ۱۹۳۶ء کو ایک خط میں کیا تھاا کہ۳۱ اپریل کی رات تین بجے کے قریب (میں اس شب بھوپال میں تھا) میں نے سرسید کو خواب میں دیکھا۔
پوچھتے ہیں تم کب سے بیمار ہو؟ میں نے عرض کیا کہ دو سال سے اوپر مدت گذر گئی۔کہنے لگے حضور رسالت مآب ؐ کی خدمت میں عرض کرو! میری آنکھ اسی وقت کھل گئی اورعرض داشت کے چند شعر جواب طویل ہوگئی ہے میری زبان پر جاری ہوگئے۔انشا اﷲ ایک مثنوی فارسی’’ پس چہ باید کرو اے اقوام مشرق‘‘ نام کے ساتھ یہ عرض داشت شائع ہوگئی۔۳۱ اپریل کی صبح سے میری آواز میں کچھ تبدیلی شروع ہوئی۔ان پہلے کی نسبت آواز صاف اور اس میں وہ رنگ عود کررہا ہے جو انسانی آواز کا حصّہ ہے۔ یہ خواب مختلف و متضاد باتوں کی طرف انسان کو سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔
بہرحال ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ اگر غالبؔ نہ ہوتے تو سرسید بھی نہ ہوتے اور اگر سرسید نہ ہوتے تو اقبالؔ بھی نہ ہوتے۔اگر ان تینوں حضرات کو اردو زبان وادب سے الگ کرددیا جائے تو اردو زبان وادب کی کوئی وُقت و و سعت باقی نہیں رہے گی۔اس لیاقت ،شجاعت اور صفات کے لوگ صدیوں میں صرف ایک پیدا ہوا کرتے ہیں اور یہ اردو کی خوش قسمتی ہیں کہ اٹھارویں،اُنیسویں اور بیسویں صدی ان حضرات کے نام کی جاچکی ہیں۔الغرض سرسید اور اقبال اپنی اپنی جگہ ایک وسیع و بسیت دبستان کی حیثیت رکھتے ہیں اور ان حضرات کے بارے میں جتنا بھی لکھا جائے تو بھی ان کی خدمات کا احسان چکانا مشکل ہے۔سرسید کی ادبی خدمات کو فروغ دینے میں علی گڑھ یونیورسٹی گرم جوشی سے اپنی خدمات انجام دے رہی ہیں مگر ضرورت اس بات کی ہے کہ ان کے نام پر سرسید اکادمی ہونی چاہیے اور ان کے نام سے ہی کوئی وظیفہ غیر معمولی قابلیت رکھنے والے طلبا یا انتہائی درجے کے غریبوں طلبہ کو دیا جانا چاہئے جس سے سرسید کا یہ خواب بھی پورا ہو جائیگا کہ مسلمان تعلیم یافتہ ہوکر اپنے فرائض و حقوق کو پہنچانے۔دوسری طرف علامہ اقبال یونیورسٹی اور اقبال انسٹی ٹیوٹ ،اقبال لائبریری اور اقبال اکادمی کو بھی ایسا ہی کوئی کام انجام دینا چاہئے۔جس سے اقبال کی تعلیمات سے زیادہ سے زیادہ لوگ واقف ہوجائیں۔کیونکہ اب بھی موقعہ ہے کہ ہم اپنی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مساجد سے باہر نکل کو ان دو عظیم مرتبت شخصیتوں کی قوم کی رہبری،امُت و اسلام کی بقاکے لیے جددجہد،عشقِ نبیؐ اور تحریک ِآزادیہندوستان،تحریک ِ آزادیِ کشمیرمیں ادا کیے گئے ان کے کردار کی بھرپور عظمت بیان کرے۔
حوالہ جات
۱) ثُریا، حُسین ،سرسید احمد خان اور اُن کا عہد، علی گڑھ ، ایجوکیشنل بُک ہاوس، ایڈیشن ۲۰۰۶ء، ص:۳۰،۳۰۱،۲۴۶،
۲) نورالحسن ،نقوی،اقبال: شاعر و مفکر، علی گڑھ ، ایجوکیشنل بُک ہاوس ، ایڈیشن ۲۰۰۶ء ،ص:۰۸،۳۸،
۳) نقوی،نورالحسن،اقبال: فن اور فلسفہ، علی گڑھ ، ایجوکیشنل بُک ہاوس ، ایڈیشن ۲۰۱۰ء ،ص:۲۴،۱۱،
۴)اعظمی ، ڈاکٹر فخر الاسلام اور ڈاکٹر محمد الیاس، مرتبہ ،شعورِ فن ، اعظم گڑھ ،شبلی نیشنل کالج ۲۰۰۴ء ،ص: ۴۶۱،۴۴۳،۴۹۰،
۵) عبدالحق،بابائے اُردو ، مرتبہ، مُطالعہ سرسید احمد خان،علی گڑھ ،ایجوکیشنل بُک ہاوس،۲۰۰۸ء،ص:۲۲۹
۶) آل احمد، سرورؔ، مرتبہ،انتخاب مضامین سرسیّد،علی گڑھ ،ایجوکیشنل بُک ہاوس،۲۰۰۷ء،ص:۱۵،۲۵،
۷)سید عبداﷲ،ڈاکٹر ،سرسید احمد خان اور ان کے نامور رفقا کی اردو نثر کا فنی اور فکری جائزہ، علی گڑھ ،ایجوکیشنل بُک ہاوس،۲۰۰۶ء ص: ۶۷ ، ۳۳۶،
۸) یوسف سلیم،پروفیسرچستی،مرتبہ،بانگِ درا مع شرح،نئی دہلی،اعتقاد پبلشنگ ہاوس،اشاعت دوم ستمبر ۲۰۰۷ء،ص:۴۳
۹) الطاف حُسین،مولانا حالیؔ،حیاتِ جاوید، نئی دہلی،قومی کونسل برائے فروغِ اردو زبان، پانچواں ایڈیشن،۲۰۰۴،ص:۵۵۸،۲۸۷،۲۹۰
۱۰) بدرالدین ، ڈاکٹر بٹ ، مرتبہ ،جامعہ کشمیر اور اقبالیات، کشمیر یونیورسٹی، اقبال انسٹی ٹیوٹ آف کلچر اینڈ فلاسفی ، فروری۲۰۰۹ء،صفحات:۱۱۰۔۱۱۱
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
POSTAL ADDRESS:
BABHARA, TEHSILE AND DISTRICT: PULWAMA,J&K
POST OFFICE: TIKEN BATPORA
PINCODE: 192301
EMAIL ID- myganie123@gmail.com
Ph.No. 9858990927\8491014500
Leave a Reply
Be the First to Comment!