ڈاکٹر راہی فدائی -تخلیقی اظہار کا ایک معتبر نام

Click here for PDF file

Click here for PDF file

ڈاکٹر محمد انظر ندوی

 ………………………………….

             حضرت ڈاکٹر راہی فدائی مد ظلہ العالی سے میری پہلی ملاقات جنوری ۲۰۰۶ء میں انسٹیٹیوٹ آف ہائر لرننگ، بنگلور میں اس وقت ہوئی جب آپ وہاں بحیثیتِ اعزازی صدرشعبۂ تحقیق و ترجمہ میں اپنی گرانقدر خدمات انجام دے رہے تھے، آپ نے وہاں اس موقعہ پر شعبہ کے تحت چلنے والے اسلامک انسائیکلو پیڈیا پروجیکٹ کے لئے میرا مفصل انٹرویو لیا اور پیڈیا پروجیکٹ کے لئے میری تقرری کا راستہ ہموار کیا ۔ میں نے تقریبا ایک سال حضرت والا کی زیر سرپرستی پیڈیا پروجیکٹ کے لئے بنگلور میں تحقیق و ترجمہ کی خدمت انجام دی۔ اس اثنا میں، حضرت والا سے علمی اور فکری استفادہ جاری رہا ۔

             حضرت ڈاکٹر راہی فدائی کا نام ظہیر احمد باقوی ہے ، قلمی نام راہی فدائی اور تخلص راہی ہے ، آپ شہر کڈپہ ، آندھرا پردیش کے متوطن ہیں اور فی الحال کئی سال سے بنگلور میں مقیم ہیں، آپ نے ۹ نومبر ۱۹۴۹ء کو اس دنیائے آب و گل میں اپنی آنکھیں کھولیں ۔آپ کے والد محترم الحاج ٹی ۔ یوسف نائک وظیفہ یاب تحصیل دار (وفات ۱۹۹۲ء) نے انگریزی تعلیم سے آپ کا دامن چھڑا کر ابتدائی دینی تعلیم کے لئے حضرت علامہ سید شاہ محمد یعقوب صاحب بغدادی باقوی (۲۰۰۰ء) کے حوالہ کردیا، علامہ بغدادی عربی فارسی اور اردو کے ماہر تھے، مولانا رومیؒ اور علامہ اقبالؒ ان کے پسندیدہ شاعر تھے ، ڈاکٹر راہی فدائی کے ذوقِ شعری کے ابتدائی نقوش کڈپہ کے ادبی ماحول اور علامہ بغدادی کی نورانی صحبتوں کے مرہونِ منت ہیں ، حفظِ قرآن مجید اور عربی و فارسی کی دو سالہ تعلیم کے بعد علامہ نے راہی کو اُمّ المدارس مدرسہ باقیات صالحات ، ویلّور میں ۱۹۶۷ ۔ ۱۹۶۸ء کے تعلیمی سال کے دوران شریک کرادیا، جہاں شیخ التفسیر علامہ سید شاہ عبد الجبار قادری باقوی (وفات ۲۰۰۳ء) ، علامہ محمد جعفر حسین باقوی فیضی صدیقی (وفات ۲۰۱۰ء) ، علامہ رئیس الإسلام باقوی (وفات ۲۰۱۲ء) ، علامہ فدوی باقوی (وفات ۱۹۹۳ء) وغیرہ اساتذۂ کرام کی زیر سرپرستی راہی کے ذہن و دل کے کھلے آنگن میں علم و ادب کا شوق پروان چڑھتا رہا ۔۱۹۷۲ء میں نصاب تحصیل (مولوی عالم) سے اور ۱۹۷۴ء میں نصاب مطوّل (مولوی فاضل) سے فارغ ہوگئے تو ان کے مشفق اساتذہ نے انہیں مادر علمی ہی میں تدریسی خدمات پر مامور کردیا ۔فرائض منصبی کی ادائیگی کے ساتھ راہی کی ادبی کاوشیں بھی جاری رہیں ۔ (۱)

             آپ نے میسور یونیورسیٹی سے ایم اے (اردو) کیا،مدراس یونیورسٹی سے ادیب فاضل اور افضل العلماء کی ڈگری لی، جب کہ جامعہ اردو، علی گڑھ سے ادیب کامل اور گورنمنٹ آف مدراس کی طرف سے پنڈت ٹریننگ مکمل کی ۔ ایس وی یونیورسٹی (تروپتی ) سے ’’ ویلور کے مدارس کی ادبی خدمات ‘‘ پر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔

            آپ نے اردو شاعری کے فن کو بحیثیت فن حضرت علامہ فدوی باقوی علیہ الرحمۃ سے حاصل کیا ، آپ نے ۱۹۷۴ء سے ۲۰۰۵ء تک جامعہ باقیات صالحات (ویلّور)، جامعۃ العلوم الثنائیۃ (کڈپہ) اور جامعہ ضیاء الباقیات (کڈپہ) میں درس و تدریس کے فرائض انجام دئے ۔ ۲۰۰۶ء سے ۲۰۰۹ء تک انسٹیٹیوٹ آف ہائر لرننگ (بنگلور) میں شعبۂ تحقیق و ترجمہ سے بحیثیت اعزازی صدر وابستہ رہے ۔ آپ دوسال یعنی ۱۹۸۴ء سے ۱۹۸۶ء تک مدراس یونیورسٹی میں ممبر آف سنڈیکیٹ بھی رہے ، فی الحال آپ کل ہند رابطہ ادب اسلامی ، کرناٹک شاخ کے نائب صدر ہیں ۔

            آپ نے تحقیق کے میدان میں کئی عمدہ تخلیقات پیش کی ہیں اور وہ یہ ہیں : باقیات ایک جہاں (نثری تالیف ۔ ۱۹۸۰ء / ۲۰۱۳ء)، تجزیہ (۱۹۸۸ء)، مسلکِ باقیات (۱۹۹۱ء)، اکتسابِ نظر (۱۹۹۱ء)، کڈپہ میں اردو (۱۹۹۲ / ۲۰۱۳ء)، اوراقِ جاویداں (مکاتیبِ مشاہیر ۔۱۹۹۴ء)، مدرسہ باقیات کے علمی و ادبی کارنامے (۱۹۹۷ء)، ویلّور تاریخ کے آئینہ میں (۱۹۹۷ /۲۰۱۰ء)، دار العلوم لطیفیہ کا ادبی منظر نامہ (۱۹۹۷ء)، جوئے شیر (۲۰۰۰ء)، قلمروِ فکر (۲۰۰۶ء)، قدیم ہندوستان میں علومِ دین کے سرچشمے (۲۰۰۹ء)، استشہاد (۲۰۱۲ء)، مدرکات (نثری کتاب ۔ ۲۰۱۳ء)، نقوش بلند فکر (مرتبہ ۔۲۰۰۵ء)، چہرہ چہرہ روشن (مرتبہ ۔ ۲۰۰۶ء)، حیدرآباد کا شعر و ادب (علیم صبا نویدی (چنئ) کے مضامین کی ترتیب و تہذیب ۔ ۲۰۱۲ء)،تصنیف (شعری مجموعہ ۔ ۱۹۸۱ء)، استعجاب (شعری تصنیف ۔ ۲۰۱۲ء)۔ بلاشبہ راہی فدائی صاحب کی ان کتابوں نے علمی و ادبی حلقوں میں شرف قبولیت حاصل کی ہے ۔

            حضرت راہی فدائی نے اپنی زندگی کی تقریبا چونسٹھ بہاریں دیکھ لی ہیں، ان بہاروں میں انہوں نے اپنے تخلیقی کارواں کو مستقل اور بے تکان انداز میں ہم دوش سفر رکھا، چنانچہ اﷲ رب العزت کے فضل و کرم سے مختلف اداروں کی طرف سے انہیں اعزاز و اکرام سے نوازا گیا۔ ان کی مختلف کتابوں پر اردو اکیڈمی آندھراپردیش سے انہیں ایوارڈس حاصل ہوئے، مجموعی خدمات کے سلسلہ میں آل انڈیا میر اکیڈمی لکھنوء سے ’’امتیازِ میر ایوارڈ‘‘ سے ۱۹۹۷ء میں انہیں نوازا گیا ، کرناٹک اردو اکیڈمی بنگلور نے آپ کو ۲۰۰۸ء میں مجموعی خدمات برائے غزل ایوارڈ عنایت کیا، اردو کلچرل اینڈ لٹریری ایسوسی ایشن کڈپہ نے ۲۰۱۱ء میں آپ کو سرسید ایوارڈ برائے مجموعی خدمات سے سرفراز کیا، کوئمبتور سے الطاف حسین حالی ایوارڈ بھی آپ کی خدمت میں پیش کیا گیا، ۲۰۰۱ء میں انٹرنیشنل میان آف دی ایئر ایوارڈ کے مستحق قرار پائے ، ۲۰۱۰ء میں نعتیہ شعری خدمات کے ضمن میں حمد و نعت اکیڈمی دہلی نے حضرت حسّان ایوارڈ سے اعزاز بخشا، ۲۰۱۳ء میں اسی نعتیہ شعری خدمات کے زیر عنوان حیدرآباد کے ادارہ الأنصار نے آپ کو الأنصار ایوارڈ سے سرفراز کیا، تحقیق و تدقیق کے عنوان پر ۲۰۱۳ء میں ٹاملناڈو اردو پبلیکیشن( چنائی ) نے آپ کو علامہ باقر آگاہ ایوارڈ عطا کیا ، نیز جشنِ جمہوریۂ ہند کے پر مسرت موقعہ پر مجموعی ادبی خدمات کے عوض ’’ گورنر آف کرناٹک ایوارڈ ‘‘ سے ریاست کرناٹک نے آپ کو سرفراز کیا ۔

            ڈاکٹر راہی فدائی کی ادبی اور شعری خدمات ہمہ جہت ہیں ، دریا کی روانی کی طرح آپ کا تخلیقی عمل ابھی بھی رواں دواں ہے ، آپ کی تہہ دار شخصیت سے کئی ریسرچ اسکالرز نے پردہ اٹھانے کی کوشش کی ہے ، چنانچہ اس ضمن میں ایس ایوب احمد باقوی نے ڈاکٹر بی آر امبیڈکر بہار یونیورسٹی مظفر پور ۔ بہار سے ۱۹۹۸ء میں ’’ ڈاکٹر راہی فدائی فن اور شخصیت‘‘ کے زیر عنوان اپنی پی ایچ ڈی کے مقالہ پر ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ، جب کہ ایک دوسرے اور تیسرے ریسرچ اسکالر نے ایس وی یونیورسٹی تروپتی میں ’’ڈاکٹر راہی فدائی بحیثیت شاعر ‘‘ اور ’’ڈاکٹر راہی فدائی بحیثیت نثر نگار‘‘ کے زیر عنوان ایم فل کا مقالہ تیار کیا ۔

            حضرت ڈاکٹر راہی فدائی نہ صرف کہنہ مشق ناقد، نابغۂ روزگار محقق، علوم اسلامیہ کے غواص اور شعر و ادب کے جوہری اور تخلیق نگار ہیں بلکہ وہ اسلامی تہذیب کے امین و رازداں بھی ہیں ، وہ باوقار اور محتاط رویہ کے مالک، خود دار اور خود کفیل مزاج کے حامل انسان ہیں ، اسلامی رواداریوں اور اصولوں کے پابند، پکے اور سچے اسکالر، ممتاز عالم دین اور چراغ مصطفوی کے علم بردار ہیں ۔ حضرت راہی فدائی کی طبیعت میں بردباری، مزاج میں تحمل اور گفتار و کردار میں مستقل مزاجی پائی جاتی ہے ، وہ اہل علم اور اہل تصوف کے قدر داں ہیں ، انہیں علمی ، سماجی اور مذہبی شخصیتوں سے تعلق خاطر رکھنے کا غیر معمولی شوق بھی ہے ۔

            ڈاکٹر راہی فدائی جہاں بلند پایہ عظیم المرتبت ادبی حلقے کے ممدوح ہیں ، وہیں عوام الناس میں بھی آپ کی علمی صلاحیتوں کا بول بالا ہے ، چوٹی کے ادباء و شعراء اور عوام کے ہر طبقہ سے آپ کا تعلق اور ربط و ضبط ہے ۔آپ باذوق، خوش پوشاک، خوش گفتار، متواضع، ملنسار، چاق وچوبند اور ہشاش بشاش شخصیت کے حامل ہیں ۔ بڑوں کا احترام اور چھوٹوں پر شفقت آپ کا طرّۂ امتیاز ہے ، آپ امت مسلمہ کی نوجوان نسل کو اٹھتے اور آگے بڑھتے ہوئے دیکھنا پسند فرماتے ہیں ، ان کی دلجوئی اور حوصلہ افزائی کرنے اور انہیں صحیح و درست مشورہ دینے میں کوئی دقیقہ فرو گذاشت نہیں کرتے ہیں ، ان کی کمیوں اور کوتاہیوں پر انہیں بروقت خوش اسلوبی سے متنبہ کرتے ہیں ۔ نوجوانوں کی اس قدر عزت و حوصلہ افزائی ان کی کشادہ قلبی اور اعلی ظرفی کی غماز ہے ۔ بلاشبہ راہی فدائی کی یہ وہ صفات حمیدہ ہیں جو انہیں بہت سے اہل علم ، اہل قلم او رارباب فکر و دانش سے ممتاز کرتی ہیں اور ان کی تہذیبی اقدار کو جولانی اور رعنائی بخشتی ہیں ۔

                                                            ہے تر ا فضل ، ورنہ راہیؔ کو

                                                            نعمتوں کا کہاں ہے حق ربی ّ

            آپ کی علمی دینی فکری اور ادبی خدمات یقینا بے لوث ہیں ، صداقت اورواقعیت پسندی کا رجحان ان کے لازوال کارناموں میں اس طرح رچ بس گیا ہے کہ ان میں کہیں کوئی کھوٹ ، ریاکاری اور دکھاوا نہیں، وہ نام و نمود اور اپنی ستائش کے جذبہ سے بہت دور ہیں ۔

            حضرت راہی فدائی دور حاضر کے عظیم المرتبت شعراء میں چنندہ شاعر ہیں ۔ مولانا سید شاہ محمد جمیل الدین قادری شرفی(سجّادہ نشیں شرفی چمن، حیدرآباد)(۲) حضرت راہی سے اپنی پہلی ملاقات کا حال بیان کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں کہ : ’’ اکثر محافل میں خصوصاراجی صدیقی، حسن فیاض، حضرت کاوش بدری، حضرت سید مرتضی حسین، حیات مدراسی اور علیم صبا نویدی جیسی مدراس کی ادبی دنیا کی معرکۃ الآراء ہستیوں کے لبوں پر ڈاکٹر راہی فدائی کے ذکر کے جھرنے پھوٹتے رہتے اور مجھے احساس ہوتا کہ حضرت کی ملاقات مجھ سے تو نہایت روکھی سوکھی رہی اور لوگ ان کی مداحی میں ہمیشہ لب تر ہیں ‘‘۔(۳)

            جنوبی ہند کی مشہور زمانہ دینی دانش گاہ جامعۃ الباقیات الصالحات عربی کالج ، ویلور کے گل سرسبد حضرت ڈاکٹر راہی فدائی مضبوط اور فعال قلم کے مالک ہیں ، وہ شعر و ادب کی دنیا میں یگانۂ روزگار ہیں ،بیسیوں موضوعات پر آپ کے رشحات قلم تحقیقی و تنقیدی تبصروں سے مالا مال ہوکر منصہ شہود پر آچکے ہیں ۔آپ نے بقول پروفیسر محمد علی اثر ’’ بیک وقت تنقید، تحقیق، علوم اسلامیہ اور شاعری کے دوائر اربعہ میں یکساں تبحر ، مہارت اور فنی بصیرت کے ساتھ ادبی جولانی دکھائی ہے ‘‘ ۔(۴)

            تاریخ گوئی کا فن دراصل سمندر کو قطرہ قطرہ کوزے میں سمونے کا فن ہے ، تاریخ گوئی کا یہ ہنر انتہائی مشکل ہونے کے باوجود بہت ہی مفید اس لئے ہے کہ اس کے توسط سے موجودہ واقعات و حالات کا تحفظ ، گزرے ہوئے کل کے سانحات و ساعات کا تعین اور مستقبل کے حادثاتی لمحات کا تشکل ممکن ہوتا ہے ، جس سے تاریخ و تحقیق کے باذوق طالب علم کے لئے صحیح و مدلل معلومات کی فراہمی سہل ہوجاتی ہے ۔ تاریخ گوئی کی تعریف اور تفصیل بیان کرتے ہوئے عصر حاضر کے ماہر فن حضرت علامہ اشرف سعودی باقوی (ولادت ۱۹۴۰ء) (۵) رقم طراز ہیں :

            ’’ تاریخ ایسے مناسب لفظ یا الفاظ میں کسی واقعے کو بیان کرنے کا نام ہے جن کے اعداد و حروف سے سن مطلوبہ حاصل ہو، یہ بیان نظم و نثر دونوں میں ہوتا ہے ، نظم میں اکثر جزوِ مصرع یا کامل مصرع حصول مقصد کے لئے کافی ہوتا ہے ، لیکن کبھی کبھی تکمیل مقصد کے لئے اس سے زیادہ کی بھی ضرورت پیش آتی ہے ، تاریخ بہت مشکل ، دقیق، مختلف الأقسام اور طویل الذیل فن ہے ‘‘ ۔ (۶)

            اردو شعرا ء وادباء نے اس فن میں اپنی طباعی و خلاقی کا مظاہرہ اس طور پر کیا کہ اردو کا خزانۂ ادب تاریخ گوئی کے عمدہ و تابندہ لعل و گہر سے بہرہ ور ہوگیا ۔ علم جفر کے اس گنجینۂ علم و ادب کا ایک معتد بہ حصہ اور تاریخ گوئی کا بیش بہا حلقہ علمائے جامعہ باقیات صالحات ویلور کی ادبی خدمات کی صورت میں تاریخ کے صفحات میں ثبت ہیں ۔حضرت ڈاکٹر راہی فدائی بھی جامعہ باقیات صالحات ویلور کے گل سرسبد ہیں ، چنانچہ ان کے علمی و ادبی کارنامے بھی تاریخ کے تابندہ اوراق پر نقش ہیں ۔ ڈاکٹر راہی فدائی کو شعر و ادب اور تاریخ گوئی سے غیر معمولی تعلق خاطر رہا ہے ، چنانچہ انہوں نے فن شاعری و تاریخ گوئی میں علامہ فدوی باقوی (۷) سے اکتساب فیض کیا اور خود کو تاریخ گو شعراء کی صف میں شامل کیا ۔

            ڈاکٹر راہی فدائی کے مشفق مربی و محسن و مرشد حضرت علامہ سید عبد الجبار قادری باقوی کا انتقال ۲۲ ربیع الأول ۱۴۲۲ھ مطابق ۲۳ جون ۲۰۰۳ء بروز دوشنبہ بمقام ویلور ہوا ۔ راہی فدائی صاحب نے تعزیتی نظم کے ذریعہ اپنے شیخ کے امتیازات کو بیان کرتے ہوئے عقیدت پیش کیا ہے اور نظم کے اختتامی دو شعروں میں بالترتیب سن عیسوی اور سن ہجری کی تخریج کی ہے ۔ نظم کے اشعار درج ذیل ہیں ؂

                                                قدوۂ دین و نازشِ اخیار

   اور علامۂ فرشتہ شعار

                                                شیخ تفسیر و زبدۃ العلما

مرشدِ وقت ، صاحبِ اسرار

                                                ماہر فقہ اور شیخ حدیث

فخرِ ابرار و منبعِ انوار

                                                جو ہیں چشم و چراغ آل رسول

جن کا نامِ گرامی دیں کا وقار

                                                نائب شاہِ مرسلاں تھے آپ

سید شاہ حضرت جار

                                                یوم دوشنبہ جون کی تئیس

دے گئے داغِ ہجر وقت نہار

                                                مصرعِ سالِ رحلت شیخی

میں نے چاہا بہ رحمتِ غفار

                                                یہ ندا آئی بر سرِ ہاتف

’’باغ جنت ہوا ہے جائے قرار‘‘

                                                             ۵                                 ۲۰۰۳ء = ۱۹۹۸+۵

                                                آس کے ساتھ قبر پر راہی

    ’’بارشِ نور برسے لیل و نہار

                                                            ۶۱                                 ۱۴۲۴ھ = ۱۳۶۳+۶۱        (۸)

            اُمّ المدارس مدرسہ باقیات صالحات، ویلور ہندوستان کا سب سے قدیم باقاعدہ مدرسہ ہے ، جس کا قیام ۱۲۷۹ھ مطابق ۱۸۶۲ء میں اعلی حضرت مولانا شاہ عبد الوہاب قادری قدس سرہ کے ہاتھوں ہوا تھا ، ماشاء اﷲ اس کی عمر عزیز ڈیڑھ سو سال سے زائد ہوچکی ہے ۔اس نے اپنی ڈیڑھ سو سالہ زندگی میں ہزاروں علماء وفضلاء اور ادباء و شعراء کو جنم دیا، جن کی بڑی تعداد گمنام ہے ۔ اسی مناسبت سے مدرسہ کے ذمہ داروں نے فیصلہ کیا کہ اس قدیم و عظیم دینی درسگاہ کا ’’جشن اک صد و پنجاہ سال‘‘ منایا جائے ۔ حضرت راہی فدائی نے اس جشن کے سلسلہ میں ایک طویل نظم کہی ہے جس کے چند منتخب شعر یدیۂ قارئین کئے جارہے ہیں ؂

                                    تو نہیں فتنوں کا گاہک باقیات صالحات

  معتدل ہے تیرا مسلک باقیاتِ صالحات

                                    تیرے در پر شوق سے وارفتگانِ علم و فن

        با ادب دیتے ہیں دستک باقیاتِ صالحات

                                    تیری عظمت، تیری رفعت، قامتِ زیبا ترا

                آسماں تیرے قدم تک باقیات صالحات

                                    فضل رب، فیض شہ دیں ، زائد از پنجاہ و صد

                عمر تیری ہے بلا شک باقیاتِ صالحات

                                    بام و در ہیں ضوفشاں جشنِ طرب سے راہیاؔ

             ’’ وَاہ وَہ ، ہو صد مبارک باقیاتِ صالحات

                                                                                                            (چودہ سو پینتیس) ۳۵ھ ۱۴ (۹)

            حضرت راہی دین و ادب اور اردو زبان کی خدمت میں ہمہ دم مصروف رہتے ہیں ، باضابطہ یا بے ضابطہ انداز میں علمی اور شعری محفلوں کے انعقاد کے حوالہ سے وہ اپنی ذات و کردار میں ایک بہت بڑی انجمن ہیں ، یقینا علم و فن کی بقا و ترویج کا سامان مہیا کرنے کی غرض سے مختصر سے مختصر عرصے میں طرحی شعری محفلوں کا انعقاد حضرت راہی کا ایک عظیم کارنامہ ہے ۔ ان کا طرحی کلام نہایت اعلی مضامین اور قافیوں سے مزین ہوتا ہے ، نیز غیر معمولی فکری پرواز اور زبان و ادب کا اعلی نمونہ ان کے طرحی کلام کی خاصیت ہے ۔ طرحی مشاعروں میں راہی فدائی کی کہی ہوئی نعتوں کے بعض اشعار ملاحظہ ہوں ؂

                                                            شریعت ختم ہے تم پر ، طریقت ختم ہے تم پر

                                                            مقامِ قرب رب کی ہربات ختم ہے تم پر

                                                            عشق نبی ! حیات ہے زنداں ترے بغیر

                                                            کب ہو سکا ہے گھر پہ چراغاں ترے بغیر

            آپ مشاعروں کی عظیم محفلوں سے کسی قدر فاصلہ بنائے رکھتے ہیں ۔ حضرت مولانا سید شاہ محمد جمیل الدین قادری شرفی کے بقول حضرت راہی فدائی ’’ اک طور سے اپنے آپ کو پیش کرتے ہوئے جھجھک اور شرم محسوس کرتے ہیں، آپ کی شعری صلاحیت بعض اوقات حواس کی فہم سے آگے نکل ہوئی ہوتی ہے اور شاید اس کا خود انہیں بھی احساس رہتا ہو ۔ اس لئے کبھی کبھی اپنے آپ کو عوام الناس میں لانے سے گریز کرتے ہیں، عوام الناس پر اپنے اعلی علمی فکر کی اڑان کے خاموش اثرات کو دیکھ نہیں سکتے، شاید اسی لئے ان سے سامنا کرنے سے انجانیت برتتے ہیں ‘‘ ۔(۱۰)

            راہی فدائی جس طرح خوش طبیعت ، خوش مذاق اور خوش پوشاک انسان ہیں، اسی طرح وہ خوش بیان، خوش فکر اور قادر الکلام شاعر ہیں، وہ جس طرح اپنے پیراہن کو فطری نیرنگی اور جمال عطا کرتے ہیں اسی طرح وہ اپنی شعری صلاحیتوں کو بوقلمونی اور جاویدانی سے بہرہ ور فرماتے ہیں۔ پروفیسر محمد علی اثر رقم طراز ہیں: ’’ انہوں نے اردو شاعری کی کلاسیکی روایات سے اپنا تخلیقی رشتہ استوار رکھتے ہوئے فکر کی ندرت، لہجہ کی تازگی اور نئے طرز احساس کے ذریعہ عصر حاضر کے شعراء میں اپنی ایک منفرد شناخت بنائی ہے ‘‘۔ (۱۱) ڈاکٹر راہی فدائی اردو شاعری میں بنیادی طور پر غزل کے شیدائی اور فدائی ہیں، ان کی غزل جہاں نت نئی تراکیب، نوع بنوع قافیہ و ردیف اور انوکھے مضامین کی آئینہ دار ہے ، وہیں وہ اپنے ماحول کی تہذیبی، تمدنی اور تاریخی اقدار کی صداقتوں کا سرچشمہ بھی ؂

اے مرے دل ، کس لئے شرما گیا

 حق زباں پر اتفاقاً آگیا

مکاں اک بس ہے ، صد کی کیا ضرورت

                                وقت کے صیقل گرو ، اتنی نہ تم سختی کرو

                                            ٹوٹ نہ جائے کہیں یہ ، زنگ آلود آئینہ

                                                  راہیاؔ مور و مگس ہیں مؤدب کس قدر

                                                 آپ کیوں ہیں بے ادب ، استفادہ کیجئے

       غزل ہی کے سلسلہ کی ایک کڑی ڈاکٹر راہی فدائی کی کلیاتِ غزل ’’ فَبِھَا ‘‘ کے نام سے معنون ہے ، اس مجموعۂ اشعار کے شاعر شعر و ادب کی راہ پر گامزن ہیں ، اس راہ میں دل و جان کا تقاضا ہوتا ہے کہ تمام جذبے اس صنف پر فدا کئے جائیں ، فدائیت کی راہ میں فکر و نظر کی یہ ارزانی خود ہی اس مجموعہ کے مقام کا تعین کرتی ہے کہ ؂

 اسی کی ذات کا مطلع ہے روئے حسن مآب

اسی کے نور کا سکہ یہ مہر یہ مہتاب

 اسی کے حرف و نوا ، نقش بھی اسی کے ہیں

اسی کے نام سے کھلتی ہے جسم و جاں کی کتاب

  یہ خیر و شر بھی یہ جذبات بھی اسی کے ہیں

اسی کی رحمت کامل کا عکس روز حساب

                                    یہ دل کی جھولی توکل سے بھر گئی راہیؔ

ہمارے کام نہ آئیں گے ظاہری اسباب

اور نعت کا یہ مقطع کہ ؂

                                    دعوی مع الدلیل ہے راہی ؔ، حدیث پاک

اسلوب ہائے دلکش و ممتاز

 حمد و نعت کا یہ اسلوب ، یہ آہنگ اپنی جدت اور خیالات کی ندرت کا خود ہی شاہد ہے ۔۔ ۔۔۔ مجموعہ میں سیکڑوں غزلیں ہیں اور ہر غزل جذبات ہی نہیں ، ردیف ، وزن اور بحر کے لحاظ سے اپنی انفرادیت کے اظہار میں سر خرو ہے ۔(۱۲)

            ڈاکٹر راہی فدائی اپنی غزلوں میں نئی نئی زمینیں تخلیق کرنے اور ان میں فکری جولانیاں پیدا کرنے میں مہارت رکھتے ہیں ، ان کی غزلوں میں طنزیہ لب و لہجہ کا استعمال بھی خوب ہوا ہے ، وہ اپنی طنزیہ نگاری میں کہیں حشرات الأرض کا اور کہیں جانوروں کا ذکر استعاراتی طور پر کرتے ہیں ۔ علیم صبا نویدی نے اپنے ایک مضمون بعنوان ’’ راہی فدائی ۔۔۔ جدید اردو غزل کا معتبر نام‘‘ میں راہی فدائی کی غزل پر گفتگو کرتے ہوئے تحریر فرمایا ہے : ’’راہی کی شاعری کا ایک اور اہم ترین کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنی طنزیہ نگاری میں کہیں حشرات الأرض کا اور کہیں جانوروں کا ذکر استعاراتی طور پر کیا ہے ، جو اردو ادب کی تاریخ میں نہ صرف اضافہ کی حیثیت رکھتا ہے بلکہ اس طرح کے اشعار کہنے کی اولیت کا سہرا بھی انہیں کے سر جاتا ہے ۔ جس کا اعتراف بر صغیر کے عظیم نقاد و شاعر شمس الرحمن فاروقی نے بھی کیا ہے ، چنانچہ راہی کی کلیات غزل ’’ فَبِھَا ‘‘ میں بچھو، اژدہا، الّواور چیل وغیرہ ردیفوں والی غزلیں راہی کی ایک خاص پہچان بن کر منصہ شہود پر آئی ہیں ۔خصوصا بچھو والی ردیف کی غزل میں شاعرانہ تخیل ایک نئے ڈھنگ سے اپنا کرشمہ دکھا رہا ہے ۔ بچھو کے نام کے ساتھ نشتر زہر کا تعلق لازمی ہے ، کبھی کبھی انسان بچھو سے زیادہ مضر ثابت ہوتا ہے ، بلکہ اپنے ہی کرتوت سے وہ بچھو سے بھی گیا گذرا بن جاتا ہے ؂

                                                            انسان نہ ڈر بچھو

                                                            چھت پر سے اتر بچھو

                                                            تکمیل ہوس ناگن

                                                 ترغیب نظر بچھو                                                                                                                                                     کہتی ہے یہ تنہائی

                                                            ہیں شمس و قمر بچھو

                                                            اپنوں سے ہوا خالی

                                                            لگتا ہے یہ گھر بچھو ‘‘ (۱۳)

            راہی فدائی ایک جید عالم دین اور اسلامی علوم کے معتبر اور ماہر اسکالر اور عربی و فارسی زبان و ادب کے استاد رہے ہیں، چنانچہ غزل گوئی اور تخلیقی عمل کے دوران عربی اور فارسی الفاظ تانتا باندھے آپ کی غزل کے دربار میں دست بستہ کھڑے رہتے ہیں ۔ حضرت مولانا سید شاہ محمد جمیل الدین قادری شرفی لکھتے ہیں: ’’حضرت راہی فدائی کی شاعری پڑھ کر ان کے افکار پر الفاظ کے کمال کا گمان ہوتا ہے اور کبھی ذہن رسا کے حسن پر ۔ذہن رسا جب حسن تک پہنچ جاتا ہے تو خود بخود الفاظ میں باریکی ، تازگی اور نزاکت پیدا ہوجاتی ہے ۔ حضرت راہی فدائی کا کلام ذہن رسا کا حسن اور الفاظ کے کمال کا آئینہ ’’مہبطِ انوار ‘‘ بن گیا ہے ۔ اس کا ایک ایک لفظ خلوص کی سچائی اور ذہن رسا کی علامت ہے ؂

                                                            فکر راہی کو پر و بال عطا کر شاہا

                                                            علم و فن تیرے ہیں، قرطا س و قلم تیرے ہیں        (۱۴)

            ڈاکٹر راہی فدائی کے دو اردو شراکتی شعری مجموعے ’’ لہجے ‘‘ (۱۹۷۴ء) اور ’’ انتسﷲ‘‘ (۱۹۷۸ء) ہیں ۔ جب کہ بارہ اردو شعری مجموعے خود ان کی اپنی تخلیق ہیں اور وہ یہ ہیں : تصنیف (۱۹۸۱ء)، انامل (۱۹۸۷ء)، ترقیم (۱۹۹۰ء)، مصداق (۱۹۹۳ء)، أیّھاالناس (۱۹۹۸ء)، نبراس (۲۰۰۳ء)، یا صاحب الجمال (منظوم سیرت )( ۲۰۰۷ء)، فَبِھَا (کلیاتِ غزل ۔ ۲۰۰۸ء)، مہبطِ انوار (نعتیہ مجموعہ ۔ ۲۰۰۹ء)، استدراک (۲۰۱۱ء)، استعجاب (۲۰۱۲ء)اور ناعت و منعوت (۲۰۱۴ء)۔

            بلا شبہ یہ بارہ اردو شعری مجموعے ڈاکٹر راہی فدائی کی روانی ٔ طبع اور ادق پسندی کے غماز ہیں ، چنانچہ ان کی ادق پسندی کی مثال دیتے ہوئے ملک کے ممتاز دانشور و نقاد، آسمان ادب کے سب سے روشن مینار، عالم گیر شہرت یافتہ ادیب پروفیسر شمس الرحمن فاروقی نے انہیں ٹیڑھی زمینوں اور اجنبی لہجے کا شاعر کہا ہے ۔تاہم لفظیات میں ادق پسندی کے باوجود حضرت راہی فدائی کا حوصلہ مندانہ قلم پروفیسر شمس الرحمن فاروقی سے داد و تحسین حاصل کرنے میں کامیاب ہوچکا ہے ، کیوں کہ راہی کی لفظیات بظاہر ایک حد تک ادق ہیں ، مگر شعری جامہ میں وہ فہم و ادراک پر کوئی زیادہ جبر نہیں ڈالتے ۔

             ترجمان غالب و اقبال جناب مضطر مجاز (حیدرآباد) نے ادارہ الأنصار حیدرآباد کے زیر اہتمام شاعر ادیب نقاد اور نعت نگار علامہ ڈاکٹر راہی فدائی کی نعتیہ کلیات ’’ ناعت و منعوت‘‘ کی اردو مسکن، خِلوَت حیدرآباد میں منعقدہ رسم اجراء تقریب میں اپنے صدارتی خطاب کے دوران کہا کہ ’’ راہی فدائی کی غزلیہ شاعری کے برخلاف ان کی نعتیہ شاعری زیادہ آسان اور رواں ہے ، عالم دین اور عربی داں ہونے کے سبب ان کی شاعری میں عربی اور فارسی تراکیب کا کثرت سے در آنا فطری ہے ، انہوں نے ’’ ناعِت و منعوت‘‘ کے اچھوتے نام سے ایک خوبصورت نعتیہ مجموعہ اردو والوں کو دیا ہے ‘‘۔

            میں اپنے اس مضمون کو جناب علیم صبا نویدی (مدراس) کے ایک آخری اقتباس پر ختم کرتاہوں جسے انہوں نے اپنے مضمون ’’ راہی فدائی ۔۔ جدید اردو غزل کا معتبر نام ‘‘ میں سپرد قرطاس کیا ہے ، وہ لکھتے ہیں : ’’ مجموعی طور پر راہی فدائی کے آسمانِ شاعری کے آفتاب سے نکلتی ہوئی توانا ، جدید تر شعاعیں بھر پور تمازت کے ساتھ جب دور دور تک پھیلتی ہیں تو فکر و احساس ، جذبہ اور تخیل کی کونپلیں تازہ دم ہو کر سانسیں لینے لگتی ہیں اور ان سانسوں سے نکلتی ہوئی خوشبو غزل کی کائنات کو نہ صرف معطر بنادیتی ہے بلکہ ذہن و دل کے نہاں خانے میں بصیرت کے نت نئے چراغ بھی جلا دیتی ہے ‘‘ ۔(۱۵)

حواشی:

۱ ۔ راہی فدائی: فن تاریخ گوئی میں علمائے باقیات کا حصہ ، قسط دوم ، معارف فروری ۲۰۱۴ء، ص ۱۲۶ ۔ ۱۲۷۔

۲ ۔ حضرت سید شاہ جمیل الدین شرفی قادری ملک کے ممتاز و منفرد نعت گو شاعر ہیں ، آپ نے ہندوستان میں جدید نعت گوئی کی نہ صرف آبیاری کی بلکہ برصغیر میں پہلی مرتبہ آپ نے ہی بطریق حکایتِ حال حضور پرنور صلی اﷲ علیہ وسلم کی زبانی نعتیں کہی ہیں ، گویا کہ سرورِ عالم صلی اﷲ علیہ وسلم بذاتِ خود اپنی تعریف و توصیف فرمارہے ہیں ۔(ڈاکٹر راہی فدائی: حضرت جمیل شرفی کی نعت میں تخلیقی اظہار کے نئے رنگ، مجموعہ مقالاتِ نعت از مرتب قاضی اسد ثنائی، الأنصار پیلی کیشنز، ریاست نگر، حیدرآباد۔ جنوری ۲۰۱۴ء، ص ۲۶۱)۔

۳ ۔ مولانا سید شاہ محمد جمیل الدین قادری شرفی : راہی ٔ مہبطِ انوار، مقدمہ بر’’ ناعت و منعوت‘‘ از ڈاکٹر راہی فدائی، الأنصار پبلی کیشنز، ریاست نگر، حیدرآباد، سال اشاعت ۲۰۱۴ء، ص ۲۱ ۔ ۲۲۔

۴ ۔ پروفیسر محمد علی اثر : پیش گفتار بر’’ ناعت و منعوت‘‘ از ڈاکٹر راہی فدائی ، ص ۳۰۔

۵ ۔ آپ یعنی علامہ اشرف سعودی باقوی ، حضرت علامہ حافظ شاہ ابو السعود احمد باقوی (وفات ۱۹۹۶ء) کے فرزند ہیں ، مدرسہ باقیات صالحات میں تعلیم حاصل کی ، ۱۳۸۱ھ میں دیوبند گئے ، دو سال تک آپ نے وہاں کسب فیض کیا ۔ دار العلوم سبیل الرشاد بنگلور میں شیخ الحدیث و مفتی شریعت کے منصب اعلی پر فائز ہوئے ، والد کے انتقال کے بعد مدرسہ کے اہتمام اور صوبہ کرناٹک کی امارت شرعیہ کی ذمہ داری بھی انجام دے رہے ہیں ، وہ بیک وقت بلند پایہ محدث و مفسر ، مایہ ناز مفتی و فقیہ ، درد مندمصلح و خطیب ہونے کے باوجود سخنور و شاعر اور مقتدر ادیب وانشا پرداز بھی ہیں، ہمارے ملک کے تاریخ گو شعراء میں علامہ اشرف سعودی کا مقام و مرتبہ بہت بلند ہے ۔(ڈاکٹر راہی فدائی : فن تاریخ گوئی میں علمائے باقیات کا حصہ(قسط دوم)معارف اعظم گڈھ، ۱۹۴ / ۱، فروری ۲۰۱۴ء ، ص۱۱۷)۔

۶ ۔ ماخوذ از نفیر ویلور ۱۴۱۳ھ ، ص ۲۱ / مضمون ’’ تاریخی قطعے ‘‘ بحوالہ ڈاکٹر راہی فدائی : فن تاریخ گوئی میں علمائے باقیات کا حصہ، معارف اعظم گڈھ، ۱۹۳ / ۱، جنوری ۲۰۱۴ء ، ص ۳۸)

۷ ۔ علامہ فدوی باقوی یعنی علامہ ابو الافتخار ایس کے نثار احمد فدوی باقوی (۱۳۴۷ ۔ ۱۴۱۴ھ) خانوادۂ شاہ مدار علیہ الرحمۃ کے چشم و چراغ تھے ، ان کے اسلاف میں کثرت سے علماء و صلحاء گزرے ہیں ، ان کے والد بزرگوار مولانا شاہ ابو الکمال باقوی ندوی (وفات ۱۳۹۱ھ) تھے ، ڈاکٹر راہی فدائی کے بقول علامہ فدوی باقوی کے مقابلہ کا کوئی استاذ سخن جنوب کیا شمال میں بھی ملنا مشکل ہے ، انہیں اردو اور فارسی ادبیات کے ساتھ تمل اور ملیالم زبانوں پر بھی عبور حاصل تھا ، سیرتِ طیبہ پر مشتمل صدہا رباعیات ان کے ہیں، عمدہ غزلیں اور اثر انگیز نظمیں بھی ہیں ، فن تاریخ گوئی میں بھی قدرت و مہارت تامہ حاصل تھی ۔ (ڈاکٹر راہی فدائی : فن تاریخ گوئی میں علمائے باقیات کا حصہ(قسط دوم)معارف اعظم گڈھ، ۱۹۴ / ۱، فروری ۲۰۱۴ء ، ص۱۱۷)۔

۸ ۔ ڈاکٹر راہی فدائی : فن تاریخ گوئی میں علمائے باقیات کا حصہ(قسط دوم)معارف اعظم گڈھ، ۱۹۴ / ۱، فروری ۲۰۱۴ء ، ص ۱۲۷ ۔ ۱۲۸۔

۹ ۔ ڈاکٹر راہی فدائی : فن تاریخ گوئی میں علمائے باقیات کا حصہ(قسط دوم)معارف اعظم گڈھ، ۱۹۴ / ۱، فروری ۲۰۱۴ء ، ص۱۲۹۔

۱۰ ۔ مولانا سید شاہ محمد جمیل الدین قادری شرفی : راہی ٔ مہبطِ انوار بر’’ ناعت و منعوت‘‘ ، ص ۲۴ ۔ ۲۵۔

۱۱ ۔ پروفیسر محمد علی اثر : پیشِ گفتار بر ’’ناعت و منعوت‘‘، ص ۳۰ ۔

۱۲ ۔ مولانا عمیر صدیق ندوی: تبصرہ بر کلیاتِ غزل ’ فَبِھَا ‘از ڈاکٹر راہی فدائی، معارف اعظم گڈھ ، مئی ۲۰۱۴ء ۔

۱۳ ۔ علیم صبا نویدی : راہی فدائی ۔۔۔ جدید اردو غزل کا معتبر نام، روزنامہ سیاست (ادبی و ثقافتی ایڈیشن)، حیدرآباد ، ہفتہ ۲۲ مارچ ۲۰۱۴ء۔

۱۴ ۔ محمد جمیل قادری شرفی: راہی ٔ مہبطِ انوار بر ’’ناعت و منعوت‘‘، ص ۲۵ ۔۲۶ ۔

۱۵ ۔ علیم صبا نویدی : راہی فدائی ۔۔۔ جدید اردو غزل کا معتبر نام، روزنامہ سیاست (ادبی و ثقافتی ایڈیشن)، حیدرآباد ، ہفتہ ۲۲ مارچ ۲۰۱۴ء۔

……………………………………

نوٹ: اردو ریسرچ جرنل میں شائع مضامین کو بلا اجازت دوبارہ شائع کرنا منع ہے ایسا کرنا قانونا جرم ہے۔ (ادارہ)

 Dr. Mohammad Anzar,

Staff Quarter No. 115,

EFL University Campus, EFL University,

O. U. Road, Hyderabad – 500 007, Telangana State.

Cell N0. 09959725371, E-mail: itsanzar@gmail.com

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.