پروفیسر حامدی کاشمیری فن اور شخصیت
ڈاکٹر مشتاق قادریؔ
ایسوسی ایٹ پروفیسر،شعبۂ اردو دہلی یونیورسٹی دہلی
………………………………
پروفیسر کا حامدی کا شمیری کا اسم گرامی حبیب اﷲ اور ادبی دنیا میں ان کا تخلص حامدی ؔکاشمیری ہے ۔ وہ سری نگر کے شمال میں بہوری کدل بازار مسجد کے قدیم علاقے میں پیدا ہوئے ان کی اسی سر زمین پر پرورش اور ابتدائی تعلیم و تر بیت ہوئی بعدازاں وہ برِ صغیر کے آسمان ادب پر سورج کے مانند طلوع ہوئے ۔
حامدیؔ کاشمیری کے والد بزرگوار خواجہ محمد صدیق بٹ تھے خضرمحمد بٹ کے والد کا نام خواجہ عبدالرحیم بٹ تھا ۔ عبدالرحیم بٹ کے بارے میں خاندان کے بزرگو ں سے معلوم ہوا کہ وہ صوفی منش بزرگ تھے ، درویشانہ زندگی بسر کر تے تھے ۔ وہ اپنے روحانی کشف وکمالات کی وجہ سے پائین علاقے میں ’’رحیم صاحب ‘‘ کے نام سے مشہور تھے ۔ ان کے گھر میں نیاز مندوں اور حاجت مندوں کا اجتماع رہا کر تا تھا ۔ وہ بہوری کدل میں ایک چھوٹے سے مکان میں رہتے تھے جو ان کا آبائی مکان تھا ۔ وہ درزی کا کام کر کے اپنے اہل وعیال کی پرورش کرتے تھے ۔ ان کی دوشادیاں ہوئی تھیں ۔ پہلی بیوی سے خواجہ خضر محمد بٹ اور دوسری بیوی سے محمد اسماعیل بٹ پیدا ہوئے ۔ عبدالرحیم کی تاریخ ِ پیدائش اور تاریخ وفات کے بارے میں معلوم نہ ہوسکا ۔
خواجہ خضر محمد بٹ ۱۸۴۹ ء میں پیدا ہوئے تھے ۔ ان کی شادی گورگڈی محلہ زینہ کدل کے ایک متمول گھرانے میں محمد صدیق بیگ کی بیٹی بیگم سے ہوئی تھی اور ان کے بطن سے خواجہ محمد صدیق کے علاوہ محمد سلطان بٹ ، غلام احمد بٹ اور غلام نبی بٹ نے جنم لیا ۔ خواجہ محمد صدیق عمر میں سب سے بڑے تھے ۔
خواجہ خضر محمد بٹ اپنے والد کی طرح قلندرانہ مزاج کے مالک تھے ۔ وہ صوم و صلوٰۃ کے پابند تھے اور مسجد گارڈ یار زینہ کدل کے مؤذن بھی تھے انہوں نے درزی کا اپنا آبائی پیشہ اختیار کیا ۔ وہ اکثر وقت فقراء کی صحبت میں گزارتے تھے ۔ ان کے پاس مشہور فقیر اور قلندرآتے تھے ۔ مزیدبراں انہوں نے کشمیر ی اور فارسی کے شعراء کے مشاعرے منعقد کئے ۔ وہ اکثر دوست احباب سے مل کر خوشی محسوس کر تے تھے ان کے احباب کا دائرہ وسیع تھا ۔ انہوں نے پرانے آبائی مکان کی جگہ نیا مکان بنوایا جواب بھی بہوری کدل میں موجود ہے ۔ خواجہ خضر محمد بٹ ۱۹۱۹ ء میں ستر برس کی عمر میں وفات پاگئے ۔ ان کی اہلیہ محسنہ بیگم ۱۹۲۴ ء میں انتقال کر گئیں ۔
خواجہ خضر محمد بٹ کے بڑے بیٹے خواجہ صدیق بٹ نے بھی اپنے آبائی پیشے کو اپنایا چونکہ اپنے والد خضر محمد بٹ کے انتقال کے بعد اس پورے خاندان کی کفالت کی ذمہ داری ان پر پڑی اس لیے انہوں نے کئی اور کام بھی کیے ۔ وہ بیدکی شاخوں سے بنی ٹوکریاں اور فرنیچر کی خرید و فروخت بھی کرتے تھے ۔ کچھ عرصے تک وہ پرانی لوئیاں خرید کر اننت ناگ میں گبے بنواتے تھے اور پھر ان گبوں کو بیچتے تھے ۔ ان کی شادی ۱۹۲۸ ء میں ( سکہ ڈافرخانقاہ سوختہ ) سری نگر کے ایک آسودہ حال گھرانے میں خورشید بیگم سے ہوئی اور ان سے ۹ بیٹے اور تین بیٹیاں پیدا ہوئیں جن میں سے چار بیٹے عالم ِ طفولیت میں ہی انتقال کرگئے ۔ پانچ بیٹے اور تین بیٹیاں حیات ہیں جن کے نام حبیب اﷲ( جو بعد میں حامدی ؔ کاشمیری کے نام سے مشہور ہوئے ) غلام حسن ، غلام محی الدین ، نظر احمد ، محمد شفیع ، ہاجرہ ، شمیمہ ، اور محمودہ ہیں ۔ حامدیؔ کاشمیری ان میں عمر کے لحاظ سے سب سے بڑے ہیں ۔
خواجہ محمد صدیق بٹ اپنے باپ داد ا کی مانند فطرتاً صوفی منش تھے ، وہ عبادت گزار ، نیک اور قلندر صفت انسان تھے ۔ وہ بازار مسجد بہوری کدل جس کے وہ متولی بھی تھے ، میں اذان دیا کر تے تھے ۔ وہ بلا معاوضہ اذان دیتے تھے ۔ مؤذن کا کام ان کے بھائی غلام احمد بھی انجام دیتے تھے ۔ محمد صدیق نے امیر کدل میں دریا ے جہلم کے کنارے بنڈ کے پاس ڈاک خانے کی گلی میں ایک دکان کرایہ پر لی تھی ۔ اور ولوورکس کا کاروبار کر تے تھے ۔ اس کاروبار میں خوب ترقی ہوئی اور اس کا معیار اعلیٰ ترین ہوگیا ۔ ، مگر ۱۹۴۷ ء میں تقسیم ِ ہند کے بعد یہ کاروبار رُوبہ زوال ہوگیا ۔ بچپن میں اس کام میں حامدیؔ کاشمیر ی صاحب نے والد کی مدد کی ۔
۱۹۲۷ ء میں ریاست کے حکمراں مہاراجہ ہری سنگھ نے لوگوں کو تعلیم دلوانے کے لیے جبری تعلیم رائج کی اس سے قبل خواجہ محمد صدیق بٹ نے اپنے چھوٹے بھائی غلام احمدبٹ کو اسلامیہ اسکول میں داخلہ دلوایا تھا ۔ انہوں نے وہاں سے میٹرک کا امتحان پاس کیا ۔ اس سے قبل ان کو مکتب میں درسِ قرآن کے لیے بھیج دیا گیا تھا جو کہ انہوں نے کچھ ہی عرصے میں مکمل کر لیا تھا ۔ انہوں نے میٹرک پاس کرنے کے بعد سرکاری ملازمت حاصل کر لی ۔ بعد میں وہ چیف اکاؤنٹیٹ کی حیثیت سے محکمہ ناظم تعلیمات سے ریٹائر ہوئے ۔ زندگی کے آخری ایام تک ان کا معمول تھا کہ نماز ِ فجر کے بعد خوش الحانی سے تلاوت ِ کلام پاک کرتے اور سب افراد خانہ ہمہ تن گوش ہوجاتے ۔ اس کے علاوہ سردیوں کی برف پوش راتوں میں نماز ِ عشاء کے بعد مختلف جنگ نامے اور بزمیں مثنویاں مثلاً ’’ گل ریز‘‘ کے علاوہ ’’ الف لیلیٰ ‘‘ اور ’’ کربل کھتاجیسی کہانیاں اور قصے دل نشیں لہجے میں سناتے اور سب اہل خانہ کمرے میں جمع ہوکر غور سے سنتے ۔ حامدیؔکاشمیری بھی کمسنی کے باوجود ان قصے کہانیوں کو پوری دل چسپی سے سنتے تھے ۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر برج پریمی رقمطراز ہیں :۔
’’ یہیں اسی مکان کے دروبام کے سائے میں جاڑے کی برفیلی اور تند اور طویل راتوں میں مقبول شاہ کرالہ واری کی مثنوی ’’ گل ریز ‘‘ لحن ِ داؤدی میں پڑی جاتی ، صوفیانہ موسیقی کی محفلیں منعقد ہوتیں اور یہیں حامدیؔ کے عمّ بزرگوار طویل سرمائی راتوں میں ’’الف لیلیٰ ‘‘ کی داستانیں سناکر بچوں میں تحیر اور استعجاب کے جذبے کی تہذیب کرتے ‘‘۔ ۱
خواجہ محمد صدیق بٹ آئے دن گھر میں کسی معروف مجذوب یا قلندر کی موجودگی میں موسیقی کی محفلیں منعقد کرواتے ۔ اورکئی دنوں تک یہ سلسلہ چلتا رہتا ۔ مریدوں اور حاجت مندوں کا گھر میں تانتا بندھا رہتا ۔ یہ سلسلہ تقریبا ً ۱۹۶۰ ء تک جاری رہا ۔ اپنے والد صاحب کی شخصیت کے بارے میں حامدی ؔ لکھتے ہیں :۔
’’والد صاحب لمبے قد کے خوب رُو اور تنو مند شخص تھے ۔ ان کا رنگ گورا تھا ۔ وہ کم گو تھے ۔ تاہم گفتگو میں عموما ً مزاح کا لطف پیدا کرتے تھے ۔ ‘‘۲
حامدی ؔکاشمیری کی والدہ محترمہ ان کے بڑے مشترک کنبے جس میں غلام نبی اور غلام احمد کا عیال بھی شامل تھا ، کی ذمّہ داریاں بڑی خوش اسلوبی سے نبھا تی تھیں ۔ وہ بہت زیرک اور معاملہ فہم خاتون تھیں ۔ خدا ترسی انسان دوستی اور امن پسندی ان کی فطرت میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی ۔ وہ کسی بھی نوع کے گھر یلو یا خارجی فساد یا تنازعہ کو پسند نہیں کر تی تھیں ۔ گھر امن اور شفقتوں کا گہوارہ تھا اتنے بڑے مشترک گھرانے کو جنت کانمونہ بنانے میں والدہ محترمہ کا خاص ہاتھ تھا ۔ حامدیؔ کاشمیری کی اہلیہ پروفیسر مصرہ مریم صاحبہ لکھتی ہیں :۔
’’ ان کا ایک بہت بڑا مشترکہ گھر تھا جو چند برس قبل ہی تقسیم ہوا ہے ۔ ا س میں ان کے والدین ، بہن بھائی دو چچا اور ان کے بیوی بچے سبھی شامل تھے ۔ میں جب اس گھرمیں آئی تو مجھے سب کا پیار ملا ۔ خاص طور سے ان کی والدہ کا جو ایک ذہین ، سمجھ دار اور سیدھی سادھی خاتون ہیں ۔ ‘‘ ۱
حامدی کاشمیری کی پیدائش سے پہلے ان کی والدہ محترمہ کے دو بیٹے بچپن میں ہی فوت ہوچکے تھے ۔ اس لیے وہ عموماً غمزدہ رہا کر تی تھیں اور رقیق القلب ہوگئی تھیں ۔ چرخہ کاتتے ہوئے اشک بار آنکھوں سے ’’شیخ العالم ‘‘ حبّہ خاتون ، رسول میرا ور محمود گامی کے مقبول ِ عام اشعار کو زیر ِ لب گنگنا یا کرتی تھیں ۔ ان کے آنسوؤں کی ضوبار تھر تھراہٹ اور لہجے کی الم ناکی حامدیؔ کے دل پر گہرا اثر کرتی اور وہ دیر تک نامعلوم اداسیوں میں ڈوب جاتے تھے ۔ ان کے بارے میں محترمہ مصرہ مریم لکھتی ہیں :۔
’’ میں جب اس گھر میں آئی تو مجھے سب کا پیار ملا خاص طور سے ان کی والدہ کا جو ایک ذہین ، سمجھ دار اور سیدھی سادھی خاتون ہیں ۔ محبت اور خلوص کی دیوی ، کشمیری شاعری کی رسیا ، میں نے اکثر انہیں تنہائی میں یا کام کرتے ہوئے حبّہ ؔخاتون ، رسول میرؔاوردوسرے شعراء کے اشعار زیرِ لب گنگنا تے ہوئے سنا ہے ۔ حامدی ؔ کے کانوں میں والدہ کی شیریں گنگناہٹ نے بچپن سے ہی رس گھولا ہے ۔ ‘‘ ۲
’’ بٹ ‘‘ کشمیر کی ایک قدیم الاصل ذات ہے ۔ طلوع ِ اسلام سے قبل ہی یہاں بٹ خاندان موجود تھا اور یہ خاندان انتہائی قدیم اور ذی احترام خاندانوں میں شمار ہوتا ہے ۔ یہاں کے غیر مسلموں میں آج بھی ’’ بٹ ‘‘خاندانوں کے لوگ کثرت سے موجود ہیں ۔ طلوعِ اسلام کے بعد دیگر خاندانوں کے علاوہ ’’ بٹ ‘‘ بھی مشرف بہ اسلام ہوئے اور انہوں نے اپنے خاندان کو برقرار رکھا۔ ’’ بٹ ‘‘ کی قدامت کی توثیق چھ سو سال قبل شیخ العالم نے بھی کی ہے ۔ پروفیسر حامدی ؔ کاشمیری کے آباؤاجداد ’’ بٹ ‘‘ خاندان سے تعلق رکھتے ہیں ۔ اس لیے کشمیر کی مٹی سے ان کا اور ان کے آباواجداد کا رشتہ قدیم ہے ۔
پروفیسر حامدیؔ کاشمیر ی ۲۹/جنوری ۱۹۳۲ ء میں بمقام بہوری کدل میں پیدا ہوئے اور وہیں والدین کی آغوش میں پرورش پائی ۔ ان کی پرورش اور تعلیم و تربیت میں ان کے چچاؤں کا بھی ہاتھ رہا ۔
جب حامدی ؔ صاحب کی عمر چار سال تھی تو ان کے چچا اور والد صاحب کی خواہش کے مطابق ان کو کلا شپورہ سری نگر کے پیر عبدالاحد شاہ کی دینی درسگاہ میں داخل کیا گیا ۔ اس درسگاہ میں قرآن شریف ناظرہ مکمل کرنے کے بعد ان کے چچا غلام نبی بٹ نے ان کو بہوری کدل کے گورنمنٹ پرائمری اسکول میں درجہ اوّل میں داخل کیا۔
حامدی کاشمیری کا بچپن اپنے والدین کے ساتھ مشترک خاندان میں بسر ہوا ۔والدین نے ان کو بچپن ہی سے دینی اور دنیوی تعلیم کی طرف راغب کیا ۔ ان کے والدتعلیم حاصل نہ کر سکے تھے مگر تعلیم کی اہمیت کو خوب سمجھتے تھے ۔ وہ مسجد میں جاتے وقت اپنے لخت ِ جگر کا ہاتھ پکڑکر ساتھ لے جاتے ۔ چنانچہ بچپن ہی سے اپنے شفیق والد کی صالح عادات کو دیکھ کر نیک کاموں کی طرف مائل ہوگئے اور مذہبی رجحان ان کی فطرت کا حصہ بن گیا ۔ ان کی شخصیت پر ان کے والد صاحب کا گہرا اثر نظر آتا ہے ۔ مصرہ مریم صاحبہ یوں رقمطراز ہیں۔
’’ ان کے والد صاحب ان کو بچپن میں صبح سویرے اٹھا کر اپنے ساتھ مسجد اور خانقاہوں میں لے جایا کر تے تھے ۔ ‘‘ ۱
برج پریمی لکھتے ہیں :۔
’’ یہیں اس مکان کی چہار دیواری میں اس نے اپنے صوفی منش والد کا پیار پایا جنہیں درویشوں اور قلندروں سے عشق تھا اور جو حبیب اﷲ کو کبھی کبھی انگلی پکڑ کر ان محفلوں میں لے جایا کر تے تھے ۔ ‘‘ ۲
حامدی ؔ کاشمیری کی طبیعت بچپن سے ہی دوچیزوں کی طرف راغب تھی ۔ (۱) روزہ نماز کی پابندی ۔ (۲) شعر گوئی ۔ وہ اپنا زیادہ وقت محلے کی مسجد میں گزارتے تھے ۔ امام مسجد مبارک شاہ صاحب ان پر نظر شفقت رکھتے تھے ۔ ان کے حامدی ؔ کاشمیری کے گھر والوں سے گھریلو مراسم تھے ۔ وہ حامدیؔ کاشمیری ان سے قرآن پاک کی تعلیم بھی حاصل کر تے رہے ۔ وہ مبارک شاہ صاحب کی خوش الحانی سے بھی متاثر تھے ۔ شاہ صاحب حافظِ کلام اﷲ تھے اور ان کے والد ماجد اسد شاہ صاحب کی نعتوں کی شوق سے سنتے تھے ۔ ان کی صحبت میں رہ کر وہ مسجد میں اذان بھی دیتے رہے ۔ بچپن میں ہی انہوں نے کشمیری زبان میں نعتیں لکھنا شروع کردیں جو میلا د شریف اور اور معراج النبیؐ کے موقع پر مسجد میں پیش کرتے ۔
بہوری کدل اسکول سے پرائمری پاس کرنے کے بعد انہوں نے سری پرتاپ مڈل اسکول شمس واری سری نگر میں چھٹی جماعت میں داخلہ لیا ۔ ساتویں جماعت اول درجے میں پاس کرنے کے بعد وہ چچا غلام احمد کے ’’ وڈ کا رونگ ‘‘ کے کار خانے جو شمس واری سری نگر کے بازار میں واقع تھا ، کی جانب متوجہ ہوئے ۔ یہ ایک بڑا کارخانہ تھا اور وہاں کئی شاگرد کام کرتے تھے ۔ اسکول سے چھٹی کے بعد حامدیؔ کاشمیری اس کارخانے پر جانے لگے ۔ اخروٹ کی لکڑی کی مختلف اشیا مثلا ً منقش سنگار بکس بنانے لگے ۔ بہت جلد اس کام میں مہارت حاصل کر لی اور جو بکس دوسرے شاگرد چار دن میں تیار کر تے تھے وہ دو دن میں ہی تیار کر لیتے ۔ ان کے چچا ان کے کام کو دیکھ کر نہایت خوش تھے کیونکہ یہ شام سے دیر رات تک کارخانے میں کام کر تے رہتے ۔ چچا غلام احمد بٹ کا کام دوسری جنگ عظیم کی وجہ سے چمک اٹھا۔ حامدی ؔ کاشمیری کو کام کا بھی معقول معاوضہ ملنے لگا ۔ ان کے چچا ان کا کمایا ہوا پیسہ ایک الگ کھاتے میں جمع کر تے تھے۔ کارخانے کی فضا نے ان کے دل ودماغ کو اس طرح اپنی طرف مبذول کیا کہ انہوں نے اسکول جانا عملا ً بند کر دیا ۔ اسی اثنا میں ان کے ایک ہم جماعت غلام محمد وانٹ نے ان کو اطلاع دی کہ سکول میں ساتویں جماعت میں فرسٹ آنے پر ان کے حق میں میرٹ اسکالر شب منظور ہوا ہے ۔ اور ماسٹر جی نے وہ اسکالر شپ وصول کرنے کو کہا ہے ۔ وہ دوسرے دن اسکول کے احاطے میں تفریح کے وقفے میں داخل ہوئے تو طلبہ کو آزادی اور خوشی سے کھیلتے ہوئے دیکھ کر ان کے دل میں یہ خواہش زور پکڑ گئی کہ دوبارہ اسکول جانا شروع کریں ۔ چنانچہ اگلے روز کارخانے کے بجائے اسکول کا رُخ کیا۔
مڈل پاس کرنے کے بعد ۱۹۴۵ ء میں انہوں نے مڈل اسکول سے ملحق ہی واقع ایس ۔ پی ۔ ہائی اسکول باغ دلاور خان میں داخلہ لیا۔ ۱۹۴۷ ء میں جب ان کا میٹرک کا امتحان ہونے والا تھا تو ہندوپاک تنازعے نے جنگ کی صورت اختیار کر لی اور زندگی کے معمولات متاثر ہوئے اور ان کا امتحان بھی ملتوی ہوگیا۔ پھر ۱۹۴۸ ء میں میٹرک کا امتحان ہوا اور وہ فرسٹ ڈویژن میں پاس ہوئے اور اسی سال ایس ۔پی کالج میں داخلہ لیا۔
۱۹۵۰ ء میں انٹر میڈیٹ اور ۱۹۵۲ ء میں بی ۔ اے کی ڈگری حاصل کی ۔ بی ۔ اے کی ڈگری کے ساتھ ہی انہوں نے فارسی آنر ز کی ڈگری بھی حاصل کی اور اوّل آئے ۔ بی ۔ اے میں گولڈ میڈل بھی حاصل کیا۔ کالج کی تعلیم مکمل کر کے وہ عملی زندگی میں داخل ہوئے ۔ کالج سے ان کو قلبی وابستگی رہی ، اس کا اظہار اپنی نظم ’’ سری پرتاپ کالج کے نام‘‘ میں کیا ہے ۔ یہ نظم ان کے اوّلین شعری مجموعہ ’’عُرس تمنا‘‘ میں شامل ہے ۔ا س نظم کے چند بند ملاحظہ فرمائیں
’’ تو ہے منارۂ تعلیم درس گاہِ عظیم
ترے وجود نے ہر سو بکھیردی تنویر
دلوں میں تو نے جگا یا وہ عزم آزادی
ہے ٹکڑے ٹکڑے گلوے حیات کی زنجیر
کیے ہیں تو نے وہ معمار ِ فکر وفن پیدا
جو کر رہے ہیں نئے ذہن وفکر کی تعمیر
ترے ہی فیض نے بخشا انہیں شعور ِ حیات
وہ اہل قوم جو تھے جہل وکمتری کے اسیر‘‘۱
حامدی اپنی نظم بہ عنوان ’’ سری پرتاپ کالج کے نام‘‘ مخاطب ہوکر کہتے ہیں کہ اے کالج تو تعلیم کا منارہ اور عظیم الشان درس گاہ ہے اور تیرے وجود نے چاروں طرف علم کی روشنی بکھیر دی ہے ۔ پھر دوسرے شعر میں کہتے ہیں کہ اے کالج ! تونے لوگوں کے دلوں میں آزادی کا جذبہ پیدا کیا اور آج زندگی
کی زنجیر شکستہ ہوچکی ہے ۔ پھر کہتے ہیں اے کالج ! تو نے وہ معمار اور فن کا ر پیدا کیے ہیں جو کہ نیا ذہن رکھتے ہیں اور فکر وفن کو تخلیق کر رہے ہیں ۔ اگلے شعر میں کہتے ہیں وہ اہل قوم جو جہالت اور کمتری کے اسیر تھے وہ تیری وجہ سے زندگی کا شعور پاچکے ہیں ۔ مندرجہ بالا اشعار سے معلوم ہوتا ہے کہ حامدیؔ اپنی درس گاہ سے کس قدر متاثر ہیں اور کالج کے زمانے سے ہی ان کا تعلیمی ، سماجی اور سیاسی شعور بیدار تھا۔
۱۹۵۴ ء میں انہوں نے جموں وکشمیر یونیورسٹی سے انگریزی میں ایم۔ اے اور ۱۹۵۸ ء میں پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے اردو کی ڈگریاں حاصل کیں ۔ ۱۹۵۹ ء میں سینٹرل انسٹی ٹیوٹ آف انگلش حیدرآباد ’’ جو اب سے انگریزی اور غیر ملکی زبانوں کی سینڑل یونی ورسٹی بن گئی ہے ‘‘تدریس کایک سالہ کورس بھی مکمل کیا۔ ۱۹۶۶ ء میں کشمیر یونیورسٹی سے پی ۔ ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ۔
حامدی ؔ کاشمیری کو گھر میں ایسا ماحول ملا جس میں ان کو اپنے ادبی ذوق کو پروان چڑھانے کے مواقع ملے۔ ان کے چچا غلام احمد بٹ کا رات گئے تک قصے کہانیاں اور داستانیں سنانا ، والدہ محترمہ کا چرخہ کاتتے ہوئے مشہور کشمیری شاعروں کے اشعار گنگنانا اور والد صاحب کا گھر میں شعر و موسیقی کی محفلیں منعقد کروانا ان کے لیے ایک ایسا سازگار ماحول ثابت ہوا کہ ان کی تخلیقی قوتیں شاعری کی صورت میں ا جاگر ہونے لگیں اور وہ آہستہ آہستہ ایک شاعر ، افسانہ نگار ، ناول نگار اور نقّاد بن کر سامنے آئے اور ادبی دنیا میں آفتاب ومہتاب بن کر جلوہ افروز ہوئے ۔ ان کا مشترک خاندان کئی افراد پر مشتمل تھا اور ان میں اتنا اتفاق اور محبت تھی کہ گھر کا پورا نظام ایک ہی آدمی کے ہاتھ میں ہوتا تھا ۔ اس طرح کا ماحول حامدی ؔ صاحب کو انسانی قدروں اور رشتوں کی پاکیز گی کا احساس دلاتا ہے اور اس ماحول میں حامدی کاشمیری کی ذہنی اور جذباتی زندگی کی تشکیل میں ان کی والدہ محترمہ خورشیدہ بیگم کا ہاتھ رہا ۔ ا ن کے خاندان اور گھر کے ماحول کے متعلق ڈاکٹر برج پریمی لکھتے ہیں :۔
’’ میں بہوری کدل کی تنگ وتاریک گلیاں نہیں بھولا ہوں جہاں حامدیؔ کا چھوٹا سا مکان تھا اور جہاں غربت اور ناداری کی آغوش میں اس نے تعلیم حاصل کی میں ا س کے ساتھ اس کے کمرے میں گھنٹوں بیٹھا ہوں ۔ مختلف موضوعات پر تبادلۂ خیال کر چکا ہوں ۔ حامدیؔ کا وہ غیر آرایشی کمرہ ان کا گوشۂ اماں تھا جہاں دیکھتے ہوئے نمکین چائے کے سماوار میں ابلتی ہوئی خوشبو دار چائے کی مہک سے وہ انسائر ہوتا تھا اور خوبصورت کہانیاں اور غزلیں لکھتا تھا ۔ ‘‘ ۱
اس اقتباس سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ حامدی کاشمیری کو گھر ہی میں ایک شاعرانہ اور صوفیانہ ماحول ملا جس نے ان کے تخلیقی شعور کو بیدار کیا ۔ اور انہیں تخلیقی کام کی طرف مائل کیا ۔ آج حامدیؔکاشمیری کا خاندان بالکل مختصر ہے ۔ مصر ہ مریم ان کی شریک حیات اور ان کے دو بچے ہیں ، صبا اور مسعود عالمگیر ۔
میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد جب وہ کالج کے علمی اور ادبی ماحول میں داخل ہوئے اور انہوں نے لائبریری میں بعض اردو رسائل کو دیکھا تو ان کے دل میں یہ خواہش مچلنے لگی کہ اردو میں شعر کہے جائیں ۔ کالج میگزین ’’ پرتاپ ‘‘ بزم ِ ادب کی نشستیں اور ریڈنگ روم کے اردو رسائل ان کے ذوق کو ممیز کر تے رہے ۔ بزمِ ادب کی نشستوں میں باقاعدگی سے غزلیں اور نظمیں پڑھتے رہے ۔ ان کی حوصلہ افزائی میں ٹی ۔ این ۔ بھان (لیکچرر انگریزی ) فدا محمد حسنین (لیکچرر تاریخ اور امین کامل (لیکچرر اردو ) کا ہاتھ رہا ۔ کالج میں تعلیم کے دوران وہ لڑیری کلب کے ممبر بھی رہے اور سکریٹری بھی۔ اس کے علاوہ لگاتار چار سال تک کالج میگزین کے ایڈیٹر بھی رہے ۔ کالج میں لیکچرر ہونے کے بعد وہ ’’ پرتاپ ‘‘ کے نگراں رہے ۔ اسی زمانے میں انہوں نے رسائل میں چند افسانے پڑھے اور ان کو افسانے لکھنے کا شوق پیدا ہوا ۔ اور یہیں سے ان کی ادبی زندگی کا آغاز ہوتا ہے ۔ چنانچہ ان کا پہلا افسانہ بہ عنوان ’’ ٹھوکر ‘‘ شعائیں ، دہلی میں توصیفی نوٹ کے ساتھ شائع ہوا ۔ اس کے بعد افسانہ نگاری کی مشق جاری رہی ۔ ان کے افسانے ’شاعر‘ ، ’آجکل ‘ ، ’ بیسویں صدی ‘،’ راہی ‘،’ شعائیں ‘ اور ’نقوش ِ لاہور وغیرہ میں چھپتے رہے ۔ انہوں نے افسانہ نگاری کے ساتھ ساتھ ناول نگاری میں بھی طبع آزمائی کی مگر وہ اس میدان میں کامیاب نہیں ہوسکے ۔ لہذا ۱۹۶۱ ء میں افسانہ ، ناول نگاری کو ترک کر کے مکمل طور پر شاعری پر توجہ کی اور غزل گوئی اور نظم نگاری میں ایک اہم مقام حاصل کیا ۔ اور تحقیق وتنقید پر توجہ مرکوز کی ۔
۱۹۶۶ ء میں ’’ اردو نظم اور یورپین اثرات ‘‘ کے موضوع پر پی ۔ ایچ ۔ ڈی کا مقالہ لکھا تو اس کے بعد انہوں نے تنقید نگاری کی طرف بھر پور توجہ کی اور اس میدان میں بھی نمایاں کامیابی حاصل کی ، اس وقت تک کئی افسانوی مجموعے ، ناول ، شعری مجموعے اورتنقید ی کتابیں منظر ِ عام پر آچکی ہیں ۔ جن کی تفصیل آگے تصنیفات وتالیفات میں آئے گی ۔ کالج میں زیر ِ تعلیم رہنے کے زمانے میں ہی وہ ادبی اور ثقافتی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہے ۔ مشاعروں اور ادبی جلسوں میں شرکت کر تے رہے اور مناظروں میں بھی حصہ لیتے تھے ۔ بزم ِ ادب کے رکن بھی رہے ۔ شعر وشاعری اور افسانہ نگاری میں کالج کے دور میں ہی خاصی شہرت حاصل کر چکے تھے ۔ بی ، اے ، کاامتحان اوّل درجے میں پاس کرکے یونیورسٹی میں داخلہ لیا، تو وہاں شعبۂ انگریزی سے وابستہ رہے اور ۱۹۵۲ ء میں انگریزی ادب میں ایم ۔ اے کی ڈگری حاصل کی ۔ ایم ۔ اے کا رزلٹ نکلنے کے تین دن بعد انہیں ایس ۔ پی ۔ کالج میں انگریزی کے لیکچرر کے عہدے پر عارضی طور پر فائز کیا گیا ۔ ۱۹۵۴ ء میں حامدیؔ کاشمیری ایس ۔ پی ۔ کالج کے شعبۂ انگریزی میں مستقل لیکچرر مقرر ہوگئے ۔
۱۹۵۹ ء میں وہ کلچرل اکاڈمی کے اسسٹنٹ سکریٹری بنائے گئے ۔ گورنمنٹ نے مشہور ترقی پسند شاعر علی جوّادو زیدی جو ریاست میں انفارمیشن آفیسر تھے اور پھر چیف منسٹر کے پرائیویٹ سکریٹری بن گئے ، کے ایما پر وہ کشمیر ڈویژن کے اسسٹنٹ سکریٹری بنائے گئے ۔ جموں کے لیے پروفیسر نیلمبر شرما اور لدّاخ کے اکبر لدّاخی اسسٹنٹ سکریٹری بنائے گئے ۔
۱۹۶۱ ء میں شعبۂ اردو کشمیر یونیورسٹی سے لیکچرر کی حیثیت سے منسلک ہوئے ۔ ۱۹۷۴ ء میں ریڈرمقرر ہوگئے ، ۱۹۷۸ ء میں پروفیسر کے عہدے پر تعینات ہوئے، ۱۹۸۸ء میں شعبۂ اردو میں ڈیپارٹمنٹ آف اسپیشل اسپیشل؟ اسسٹنس کے کواڈ نیٹر مقرر ہوئے اسی سال ڈین فیکلٹی آف آرٹس کا کام انجام دینا شروع کیا اس سے قبل ڈین فیکلٹی آف اور نیٹل لینگویجز کی حیثیت سے کام کر چکے تھے ۔ اگست ۱۹۹۰ ء میں کشمیر یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے عہدے پر فائز ہوئے اور دسمبر ۱۹۹۳ ء کو اس عہدے سے سبکدوش ہوگئے ۔
پروفیسر حامدی ؔ کاشمیری نے شاعری ، تنقید ، افسانوں اور ناولوں کے علاوہ ریڈیائی ڈرامے ، ٹی وی ڈرامے اور ریڈیائی غنا ئیے بھی لکھے ہیں ۔ مصر ہ مریم لکھتی ہیں :۔
’’ حامدی ؔ شروع میں مختلف موضوعات پر لکھتے رہے انہوں نے کہانیاں ، ناول ، ڈرامے ، تبصرے اور منظوم فیچر ز لکھے ،لیکن اب وہ زیادہ تر تنقید لکھتے ہیں ۔‘‘ ۱
شاعری اور تنقید ان کا خاص میدان رہا ہے ، انہوں نے کشمیری زبان میں بھی شاعری کی ہے اور تنقید لکھی ہے ، ان کی تصانیف مندرجہ ذیل ہیں :۔
۱۔ وادی کے پھول افسانے
۲۔سراب افسانے
۳۔ برف میں آگ افسانے
‘۴۔ بہاروں میں شعلے ناول
۵۔ پگھلتے خواب ناول
۶۔ اجنبی راستے ناول
‘۷۔ بلندیوں کے کواب ناول
۸۔مقبول شاہ کرالہ واری تنقید
۱۔ افتخار اما م صدیق ۔ ماہنامہ شاعر، گوشہ ۔س۲۳
۹۔ دلسوز کشمیری
۱۰۔ جدید اردو نظم اور یورپی اثرات تنقید
7۱۱۔ غالبؔ کے تخلیقی سرچشمے تنقید
۱۲۔ نئی حسیت اور عصری اردو شاعری تنقید
۱۳۔ اقبالؔ اور غالب تنقید
۱۴۔ ناصر ؔ کاظمی کی شاعری تنقید
۱۵-۔ کا رگہ شیشہ گری
۱۶۔ انتخاب غزلیاتِ میرؔ تنقید
۱۷ ۔ تفہیم وتنقید تنقید
۱۸۔ امکانات تنقید
۱۹۔ جدید شعری منظر نامہ تنقید
۲۰۔ معاصر ِ تنقید ایک نئے تناظر میں تنقید
۲۱۔ ریاست جموں وکشمیر میں اردو ادب تنقید
۲۲۔ انتخاب کلام میر شاعری
!۲۳۔ عروس ِ تمنا شاعری
۲۴۔ نایافت شاعری
۲۵۔ لاحرف شاعری
۲۶۔ شاخ ِ زعفران شاعری
۲۷۔ آئینہ ادراک ، اقبال کا مطالعہ تنقید
۲۸۔ حرفِ راز (اقبال کا مطالعہ) تنقید
۲۹۔ انجمن آرزو سفر نامہ
ان کی درجِ ذیل کتابیں زیر اشاعت ہیں :۔
۱۔ حضرت شیخ العالم کی تخلیقی شناخت ۔
۲۔ اردو نظم کی دریافت ۔
۳۔ اردو تنقید کا مجموعہ مرتب
۴۔ ایک شعری مجموعہ ۔
اس وقت تک ان کی ۲۹ کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں ۔
حامدی ؔ کاشمیری کئی رسالوں کے ساتھ منسلک رہے ۔ ۱۹۵۹ ء میں ریاستی کلچرل اکادمی کے اسسٹنٹ سکریٹری مقرر ہوئے ۔ ذیل کے رسالوں کے مدیر رہے ۔
۱۔ ’’ پرتاپ ‘‘
۲ ۔’’ بازیافت ‘‘ شعبہ ٔ اردو کشمیر یونیورسٹی ۔
۳۔’’ تعمیر ‘‘ سری نگر ۔ انفارمیشن ڈیپارٹمینٹ ۔
۴۔ ’’شیرازہ ‘‘ کلچرل اکادمی ، سری نگر ۔ کشمیر
۵۔’’ کشمیر میں اردو ادب ‘‘ کا پہلا شمارہ ( مرتب کلچرل اکادمی سری نگر کشمیر )
متعدد اداروں کے ممبر رہے ۔
۱۔ ترقی اردو بورڈ نئی دہلی ۔
۲۔ اردو مشاورتی کمیٹی ، این ۔ سی ۔ ری۔ آر ۔ ٹی ۔
۳۔ ساہتیہ اکادمی ، نئی دہلی ۔
۴۔ جنرل کونسل ساہتیہ اکادمی نئی دہلی ۔
۵۔ سنڈیکیٹ کشمیر یونیورسٹی ۔
۶۔ سنٹرل کونسل کشمیر یونیورسٹی ۔
۷۔ مشاورتی بورڈ ، دوردرشن سری نگر ۔
۸۔ کشمیر ی ڈکشنری بورڈ۔
۹۔ جنرل کونسل اور سنٹرل کونسل کلچرل اکاڈمی جموں وکشمیر ۔
۱۰ ۔ اردو مشاورتی کمیٹی کلچرل اکاڈمی جموں وکشمیر ۔
۱۱۔ کشمیر ی انتخابی بورڈ گیان پیٹھ ایوارڈ ۔
۱۲۔ اردو نصابی کمیٹی ۔ این ، سی ، ای ، آر ، ٹی ۔
۱۹۵۷ ء میں بھی انہوں نے قیصر قلندر کے ساتھ مل کر ادبی انجمن ’’ بزم اردو‘‘ سری نگر میں قائم کی ۔ ۱۹۸۹ ء میں ادبی انجمن ’’ صدف ‘‘ قائم کی ۔ انجمن ترقی اردو کی ریاستی شاخ کے سکریٹری بھی رہے ۔
حامدی ؔ کاشمیری کو متعدد انعامات اور اعزازات سے نواز ا گیا ہے ۔
حامدیؔ کاشمیری جس طرح بظاہر قد آور شخصیت کے مالک ہیں میں ایسے ہی ان کا ادبی قد بھی بلند ہے وہ شہرت کے ان کی شخصیت صدا بہار ہے وہ زندگی کی حقیقتوں کا گہرا شعور رکھتے ہیں وہ ان کے میں گہرائی اور گیرائی دونوں موجود ہیں ۔ جو دیکھا ۔ جو محسوس کیا اسے کی سحر کاری کے ساتھ لفظ بہ لفظ وپیکر میں سمو دیتے ہیں ۔
’’ عروس تمنا‘‘ ’’ بلندیوں کے خواب ‘‘ ’’ غالب ؔ کے تخلیقی سر چشمے ‘‘ ’’ اقبال اور غالب ؔ ‘‘ ’’ امکانات‘‘ ’’ بازیافت ‘‘ ’’ ناصر کاظمی کی شاعری‘‘ ’’ کار گہ شیشیہ گری ‘‘ (میر ؔکا مطالعہ) اور ’’ حرفِ راز‘‘ برریاستی کلچرل اکاڈمی اترپردیش ، بنگال اور بہار کی اور اکاڈمیوں نے انعامات سے نوازا ہے ۔۷ /اکتوبر ۱۹۸۹ ء میں ریاستی کلچرل اکاڈمی نے Meet the emiment contemhoraryپروگرام کے تحت براڈ وے ہوٹل سری نگر میں ان کے اعزاز میں ایک عالی شان ادبی تقریب کا اہتمام کیا اور انہیں خلعت سے نواز ا۔ جنوری ۱۹۸۶ ء میں حکومت ِ ہند کی طرف سے ادبی وفد کے رکن کی حیثیت سے پاکستان گئے اور کراچی ، لاہور ، راولپنڈی اور اسلام آباد کا دورہ کیا ۔ بھی ان کے ہمراہ تھیں ۔
حامدی کاشمیر ی ہمہ جہت شخصیت کے مالک ہیں وہ بیک وقت افسانہ نگار ، ناول نگار ، شاعر اور تنقید نگار کی حیثیت سے ادبی دنیا میں مشہور ہیں ۔ ان کی فکر میں جدّت اور جذبات میں شدّت ہے ۔ وہ زندگی کی حقیقتوں کا گہرا شعور رکھتے ہیں تاہم وہ تخیل پرست ہیں ۔ ان کے تخیل میں گہرائی اور گیرائی دونوں ہیں جو دیکھا یا محسوس کیا اسے تخیل کی سحرکاری کے لفظ وپیکر میں سمو تے گئے ۔ ان کے کلام میں سوز وگداز اور تخیل پسندی پائی جاتی ہے ۔ ان کا خمیر کشمیری ہے ۔ اس لئے ان کی رگ رگ سے کشمیریت ٹپکتی ہے اور کشمیر ی تہذیب وتمدن کے اچھے اور مؤثر امانت دار ہیں ۔ ان کی تخلیقات میں کشمیر کے پرفضا ء ماحول، کشمیر کی قدرتی خوبصورتی ، مناظر قدرت خوشنماپھولوں ، سایہ دار درختوں،سایوں اورسر سبز کو ہساروں کا ذکر بدرجہ اتم موجود ہے ۔ وہ کشمیر کے ان لوگوں کے حالات کو پیش کر تے ہیں جو مفلسی ، افلاس ، بے چارگی مایوسی ، غربت اور امیر لوگوں کے استحصال کا نشانہ بنے ہیں ۔ ان کے کلام پر علامہ اقبالؔ کی شاعری کا اثر جابجا نظر آتا ہے ۔ چند اشعار ذیل میں درج ہیں جو ان کی نظم ’’ اقبال ‘‘ سے لیے گئے ہیں ۔ اس نظم سے ان کی علامہ اقبال سے وابستگی اور ان کے کلام پر اس کے اثر کی نشاندہی ہوتی ہے ۔ :
’’ شاعرِ جذب دروں ، صاحب ِ اسرارِ خودی تیری آیات جنوں عظمت انسان کی میں ابن آدم کو سکھائے تو نے آدابِ حیات ہے تیرا قلب ونظر جلوہ گہ عزم ویقین ۔‘‘۱
حامدی کاشمیری ایک خاموش طبع اور خوش اخلاق انسان ہیں ۔ ان کی طبیعت کے اس پہلو سے متعلق اردو کے مشہور افسانہ نگار جو گندرپال یوں رقم طراز ہیں
’’ حامدیؔ کاشمیری صاحب کے چہرے پر ہمیشہ پہاڑی موسم کا سماں بندھا رہتا ہے ۔ ناراضگی میں بھی مسکراتے رہتے ہیں ۔ ‘‘۲
محترمہ مصرہ مریم ان کے اس پہلو کو اجاگر کرتی ہیں :
’’ حامدیؔ کی شخصیت کی میرے لئے کئی حیثیتیں ہیں وہ چہیتے شوہر ہیں ، میرے محبوب فن کار ، میرے عزیز دوست ، میرے شفیق اور غم گسار ، ایک فن کار کی حیثیت سے جب میں ان کو دیکھتی ہوں تو مجھے ان میںبظاہر شاعروں اور فن کاروں کی سی کوئی بات نظر نہیں آتی ہے ․․․․ سگریٹ نوشی یا شراب نوشی کی کی عادت ، چائے خانوں اور کافی ہاؤسوں میں وقت برباد کرنا ، ذاتی پروپیگنڈ ا کرنا ، اپنے عم عصروں سے رشک اور حسد کرنا، دشمنوں کے خلاف محاذ آرائی کرنا ، ان میں سے کوئی بات نہین ، بلکہ ان کی جوعادتیں ، اور خصائص ہیں وہ سب کی سب ان کے الٹ ہیں اس کے باوجود میری نگاہوں میں ہمیشہ ایک منفرد اور بلند قامت فن کار رہتے ہیں ۔ ‘‘ ۱
حامدی صاحب ایک سید ھے سادے انسان ہیں ۔ طبیعت میں سادگی اور ستھر اپن ہے اور انسان دوستی اور ہمدردی ان کا خاص وصف ہے ۔ اعلیٰ اورادنیٰ دونوں سے ایک جیسا برتاؤ کر تے ہیں ۔ زبان میں مٹھاس اور اندازِ کلام میں نہایت شائستگی اور نرمی ہے ۔ جو بھی ان سے ملا اس نے میں نے خود بھی ملاقات کے دوران ان کی یہ خوبیاں محسوس کیں ۔ حقیقت میں وہ ایک لائق ، شفیق اور مخلص انسان ہیں جو کہ کسی سے حسدبعض نہیں رکھتے ۔ نفرت کر ہی نہیں سکتے ۔ ہمیشہ اپنے کام سے سروکار رکھتے ہیں ۔ وہ گھریلو معاملات سے الگ تھلگ رہتے ہیں ۔ یہ سب معاملات ان کی شریکِ حیات انجام دیتی ہیں ۔ ایک فن کار کی یہیپہچان ہے کہ وہ گھریلو کاموں میں خود کو نہیں الجھاتا ۔ جب وہ تخلیقی بلندیوں پر پہنچ جاتا ہے تو یہ سب چیزیں ان کے لیے ضمنی رہ جاتی ہیں ۔ یہی بات ہمیں حامدیؔ کاشمیری کے ہاں بھی نظر آتی ہیں ۔ وہ دنیاوی کاموں میں نہیں الجھے اور اپنا وقت زیادہ تر پڑھنے لکھنے میں گزارا ۔ کم گوئی ان کی خاص عادت ہے ۔ کبھی غصے میں نہیں آتے ۔ بلکہ وہ صبر و تحمل کا پیکر ہیں چھوٹے بڑوں کے ساتھ ایک جیسا سلوک کر تے ہیں اور نہایت مہربانی سے پیش آتے ہیں ۔ان کی اس خوبی کے بارے میں محترمہ مصر ہ مریم لکھتی ہیں :
’’ کم گوئی حامدی ؔ کاشمیری کی عادت ہے ۔ چند ضروری باتیں کرلیتے ہیں اور بس ، گھر میں بھی غیر ضروری باتیں نہیں کر تے ہیں ۔ نہ کسی کی شکایت نہ مخالفت نہ غیبت نہ کسی پر تبصرہ نہ تنقید ، وہاں بات ہوتی ہے تو اپنے بارے میں ، اپنے گھر ، اپنے بچوں ، اپنے لکھنے پڑھنے کے بارے میں سب سنجیدگی کے ساتھ اپنا کام کرتے ہیں ۔ لیکن اس سنجیدگی کے ساتھ اپنا کام کرتے ہیں ۔ لیکن اس سنجیدہ فضا کو حامدی ؔ ہی اپنے زور دار قہقہوں سے توڑتے بھی ہیں ، ان میں مزاح اور شرارت بھی بہت ہے ۔ باتوں باتوں میں فقرے چست کرتے ہیں یا اچانک کوئی مزاحیہ بات کہہ جاتے ہیں ۔ یا فی البدیہہ مزاحیہ شعر کہتے ہیں ۔ یا کوئی ایسی حرکت کرتے ہیں کہ گھر زعفران زار بن جاتا ہے ۔ کہتے ہیں ’’ میں چاہتا ہوں کہ تم لوگ ہر وقت ہنستے رہو‘‘۔ بچوں سے تو بالکل ایک دوست کی طرح برتاؤ کرتے ہیں ۔ سختی اور درشتی ان کو چھوکر بھی نہیں گئی ہے ان کو غصہ بہت کم آتا ہے ۔ ‘‘ ۱
ان دنوں حامدی کاشمیری کا فی ضعیف ہوگئے ہیں ۔ ضعف کی وجہ سے ہاتھوں میں رعشہ اور جسم میں نقاہت اور چلنے پھرنے میں معذوریاں ہیں کہیں آنا جانا موقف ، جس کی وجہ سے کسی ادبی سرگرمی کے بارے میں سوچنا بھی محال ہے لیکن ا ن کے جو سابقہ کار ہائے نمایاں ہیں وہ انہیں اد ب کی دنیا میں زندہ وجاوید رکھنے میں کافی ہیں یہ پروردگار عالم سے دست بستہ دعا ہے کہ انہیں صحت کاملہ ، عاجلہ ، دائمہ ، اور ان کا سایہ ٔ عاطفت تادیر قائم ودائم رکھے۔
……………………….
ڈاکٹر مشتاق قادریؔ
ایسوسی ایٹ پروفیسر،
شعبۂ اردو دہلی یونیورسٹی دہلی
Leave a Reply
1 Comment on "پروفیسر حامدی کاشمیری فن اور شخصیت"
[…] پروفیسر حامدی کاشمیری فن اور شخصیت […]