مولانا ابوالکلام آزاد کی صحافتی خدمات ہفت روزہ ’پیغام‘کے حوالے سے
نازیہ ممتاز
…………………..
مولانا ابولکلام آزاد غیر معمولی ذہن و دماغ کے حامل انسان تھے۔ان کی عمر بارہ ،تیرہ سال کی تھی جب انھوں نے ’’المصباح‘‘نامی ماہنامہ جاری کیا۔ گویا کہ مولانا آزاد کی صحافتی زندگی کا آغاز ان کے بچپنے ہی میں ہوگیا تھا۔ ان کی ابتدائی نثری تحریر اسی ماہنامہ میں شامل مضمون کو سمجھا جاتا ہے۔یہ رسالہ عید کے موقع پر نکلا تھا،لہذا اس میں مضامین کی نوعیت بھی اسی مناسبت سے تھی۔اس ماہنامہ سے ان کے شوق کا یقیناً اندازہ کیا جا سکتا ہے۔مولانا آزاد کی صحافتی زندگی کا آغاز اگرچہ ماہنامہ “المصباح” سے ہوالیکن ان کی صلاحیت کا نکھار’’لسان الصدق‘‘میں نظر آتا ہے۔مولانا آزاد ایک ذمہ دار مدیر کی طرح زبان وادب کی خدمت کے ساتھ ساتھ ملک و قوم کی خدمت کا بھی جذبہ رکھتے تھے۔1907تک آتے آتے وہ کئی ماہنامہ رسالے اور اخبارات کے مدیر یا معاون مدیر کے طور پر کام کرتے کرتے اس میدان میں منجھ گئے تھے۔ لیکن ان کی شہرت /13جولائی1912 کو ’’الہلال‘‘جیسا ہفت روزہ اخبار نکالنے سے ہوئی۔یہ ہفتہ وار کم مدت میں سارے ہندوستان کے اردو داں طبقہ میں مقبول ہو گیا۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جیسی شہرت ومقبولیت’’الہلال‘‘کو ملی،ویسی اردو کے کسی شاید ہی کسی اخبار کو نصیب ہوئی ہوگی۔اس کی مقبولیت کی وجہ ہی سے انگریزوں نے اس کی ضمانت ضبط کر لی تھی۔بالآخر اسے بند کرنا پڑا۔لیکن مولانا آزاد ہار ماننے والوں میں سے نہیں تھے۔ اس سے ان کے ارادے اور بھی مضبوط ہو گئے۔لہذا/12نومبر 1915کو دوسرے نام(البلاغ)کے نام سے دوبارہ شائع کیا۔ابھی چند ہی ماہ نکلا تھا کہ مارچ1916میں مولانا کو بنگال چھوڑ دینے کا حکم ہوا۔بہار کے علاوہ سارے صوبے نے اپنے یہاں داخلے پر پابندی عائدؤ کر دی تھی۔چنانچہ مولانا رانچی چلے گئے۔اور کچھ ہی مہینوں بعد انھیں نظر بند کر دیا گیا۔تقریباًتین سال بعد نظر بندی سے رہا کئے گئے ۔اور یہ 1919کے بالکل آخری ایام تھے۔رہائی کے دو سال کے اندر ہی انھوں نے کانگریس کی رکنیت قبول کرنے کے ساتھ ساتھ ہفتہ وار ’’پیغام‘‘کو بھی جاری کیا۔یہ ہفتہ وار’’پیغام‘‘/23ستمبر1921کوپہلی بار شائع ہوا۔
ہفتہ وار پیغام رپن لین،کلکتہ سے شائع ہوتا تھا۔اور اس کے صفحہ ٔ اول پرقرآن کی آیت کا یہ حصہ ’’ھذا بلاغ للناس‘‘لکھا ہوتا تھا۔اس کے اڈیٹر عبدالرزاق ملیح آبادی تھے۔مولانا ابوالکلام آزاد اس کے نگراں تھے۔ پہلے شمارے کے علاوہ کسی بھی شمارے میں ’’زیر نگرانی مولانا ابولکلام آزاد‘‘نہیں لکھا گیا۔ البتہ اس جگہ پر اگلے شمارے سے ’’اس میں مولانا ابوالکلام کی تحریرات بالالتزام شائع ہوتی رہیں گی‘‘ اور کچھ شمارے میں ’’اس میں‘‘ کے بجائے ’’جس میں‘‘ بھی لکھا ہوا ہے لیکن ’’زیر نگرانی‘‘ کہیں نہیں لکھا ہے۔ پہلے شمارے کے علاوہ دوسرا شمارہ تیسرے اور چوتھے شمارے کے ساتھ 30ستمبر تا 14 اکتوبر 1921کو شائع ہوا۔ اس ہفتہ وار پیغام کو شائع کرنے کا مقصد جو ابو الکلام آزاد نے پہلے شمارے کے تیسرے اور چوتھے صفحے پر بیان کیا ہے وہ درج ذیل ہے:
1۔ اس رسالے کی اشاعت سے بالفعل صرف یہ مقصد ہے کہ موجودہ تحریک کے لیے تبلیغ و ہدایت کا ایک باقاعدہ سلسلہ قائم ہو جائے۔ پس اصل موضوع رسالہ کا یہی ہے۔ البتہ گاہ گاہ علمی و مذہبی مضامین کے لیے بھی گنجائش نکالی جائے گی۔ تفسیر قرآن کے بعض مناسب و مباحث حصے بھی شائع ہوتے رہیں گے۔
2۔ احباب کرام کو چاہیے کہ حالت سے زیادہ توقع نہ رکھیں۔ اور سر دست ان امیدوں کے ساتھ پیغام کو نہ دیکھیں جو الہلال کے لیے مخصوص تھیں۔ جس وقت تک موجودہ حالت جاری ہے ، میں صرف اتنا ہی کر سکتا ہوں کہ ہر نمبر کے لیے بقدر ضرورت کچھ نہ کچھ مواد مہیا کرتا ہوں۔
3۔ رسالہ میں مقالہ اور مختارات کے علاوہ اس استقناء اور استفسارات کے ابواب بھی بالالتزام رہیں گے اور ان کے نیچے تمام ضروری سوالات کے جوابات درج ہوتے رہیں گے جو اس وقت خطوط کے ذریعہ مستفسرین تک ہی محدود رہتے ہیں۔
4۔ ہر تحریر کا ایک موضوع اور مقصد ہوتا ہے اور اس کا اسلوب، اندازِ بیان اسی کے مطابق اختیار کیا جاتا ہے۔ اس رسالے کا مقصد صرف تبلیغ ہے، انشاء و ادب نہیں ہے۔ پس جس قدر مضامین نکلیں گے نہایت صاف سہل، اور آسان زبان میں ہوں گے۔ اس کے اوراق سے الہلال کے لٹریچر کی توقع صحیح نہ ہوگی۔
ان چند مقاصد کے پیش نظر یہ رسالہ جاری ہوا تھا۔ اس کے کل تیرہ شمارے منظر عام پر آئے تھے۔ 16 دسمبر 1921کو اس رسالے کا آخری شمارہ منظر عام پر آیا۔ اس کے بعد یہ بند ہو گیا۔ اس کے بند ہوجانے کے پیچھے جو دو بنیادی وجہیں سامنے آتی ہیں ان میں سے ایک 10دسمبر1921کو مولانا ابوالکلام آزاد کی گرفتاری اور دوسرے مدیر پیغام ’’عبد الرزاق ملیح آبادی‘‘ کو دوسال کی سزا کا اعلان۔ ظاہر ہے جو دو اہم قوت اس رسالے کو اپنے دم پر نکال رہے تھے ، انھیں ہی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا گیا تو اس کا بند ہو جانا ہی ممکن تھا۔اس رسالے میں ’’پیغام‘‘ عنوان کے تحت مولانا ابو الکلام آزاد کی تحریریں یقیناً ان کی ہمت کی واضح مثال تھیں۔ پہلے شمارے میں اس عنوان کے تحت انھوں نے اغراض و مقاصد کو بیان کیا تھا اور آخری شمارے میں مولانا ابو الکلام آزاد کے کاغذات سے جو تحریر دستیاب ہوئی تھی، اسے ’’پیغام‘‘ کے تحت اسی طرح شائع کر دیا گیا۔ اس تحریر کے ابتدائی چند جملے ملاحظہ ہوں:
’’آج 8دسمبر سنہ 1921کی صبح ہے، کل شام کو مجھے قابل وثوق ذرائع سے اطلاع مل گئی کہ گورنمنٹ بنگال نے ویسرائے کے مشورہ کے بعد میری اور مسٹر سی- آر- داس کی گرفتاری کا فیصلہ کر لیا ہے، میری نسبت گورنمنٹ بنگال کا ارداہ یہ ہے کہ اگر میں گیارہ تک کلکتہ سے باہر نہ گیا تو مجھے گرفتار کر لے گی، لیکن اگر میں بدایوں کے جلسۂ جمعیۃ العلماء کے لیے چلا گیا تو اس کے سر سے بلا ٹل جائے گی۔ اور مسٹر داس گرفتار کر لیے جائیں گے۔ ‘‘ (پیغام، شمارہ نمبر 13، ص4)
درج بالا اقتباس سے اندازہ ہوتا ہے کہ انگر یز حکومت کو اس بات کا خدشہ تھا کہ مولانا ابوالکلام کو یا تو بنگال سے باہر کر دیا جائے یا پھر گرفتار کر لیا جائے۔دونوں ہی صورتوں میں اسے اپنی حکومت کی مضبوطی نظر آرہی تھی۔اور اسی کے پیش نظر یہ فیصلہ کیا گیا تھا ۔ با لآخر انگریز انھیں گرفتار کرنے میں تو کامیاب ہو گئے ،لیکن اس کا نجام اتنا سنگین بر آمد ہوگا ،اس اندازہ بھی انگریزوں نے نہیں کیا تھا۔کیونکہ انگریزوں نے جسے اپنی مضبوطی اور ہندوستانیوں کی کمزوری سمجھا تھا،وہ الٹا پڑ گیا۔اور ان کی مضبوطی ہی ان کی کمزوری بن گئی۔
مولانا ابوالکلام نے آزادی ہند کے لیے کیا کچھ نہیں کیا۔اس جذبے کو کیا کہیں گے کہ انہیں یہ خبر مل چکی ہے کہ اب گرفتار کر لیا جائے گا۔ایسی حالت میں انھو ں نے جس ہمت کا مظاہرہ کیا اس کا اندازہ درج ذیل اقتبا س سے کیا جا سکتا ہے:
’’مسلمانوں میں خاص طور پر التجا کروں گا ،کہ اپنے اسلامی شرف کو یاد رکھیں ،اور آزمائش کی اس فیصلہ کن گھڑی میں اپنے تمام ہندوستانی بھائیوں سے آگے نکل جائیں ۔اگر وہ پیچھے رہے تو ان کا وجود چالیس کروڑ مسلمانان عالم کے لیے شرم و ذلت کا ایک دائمی حصہ ہوگا۔ میں مسلمانوں سے خاص طور پر دو باتیں اور بھی کروں گا،ایک یہ کہ اپنے ہندو بھائیوں کے ساتھ پوری طرح متفق رہیں ،اور اگر ان میں سے کسی ایک بھائی یا کسی ایک جماعت سے کوئی نادانی کی بات بھی ہو جائے تو اسے بخش دیں اور اپنی جانب سے کبھی کوئی ایسی بات نہ کریں ،جس سے اس مبارک اتفاق کو صد مہ پہنچے۔دوسری بات یہ ہے، کہ مہاتما گاندھی پر پو ری طرح اعتماد رکھیں اور جب تک وہ کوئی ایسی بات نہ چاہیں(اور وہ کبھی نہ چاہیں)جو اسلام کے خلاف ہے،اس وقت تک پوری سچائی اور مضبوطی کے ساتھ ان کے مشوروں پر کاربند رہیں ۔‘‘ (ایضاً۔ص5-8)
درج بالا اقتباس سے مولانا آزاد کی ہندوستانیوں بالخصوص مسلمانوں سے جس درد اور یگانگت کا اظہار یہاں کیا گیا ہے اس سے زیادہ دردناک صورت حال تقسیم ملک کے وقت ہوئی تھی اور ان کا وہی درد جامع مسجد سے دی گئی تقریر میں دیکھا جا سکتا ہے۔ ظاہر ہے کہ پیغام سے پہلے مولانا آزاد نے جتنے بھی اخبارات ورسائل نکالے یا وابستہ رہے، اس وقت تک وہ سیاست سے واستبہ نہیں تھے۔ اس لیے اس کے ’’پیغام‘‘ کے مقاصد میں انھوں نے ذکر کیا تھا کہ اس میں البلاغ کا سا لٹریچر نہیں دیکھنے کو ملے گا۔ ظاہر ہے کہ البلاغ سے پیغام تک میں صورت بہت حد تک بدل چکی تھی۔ ویسے پیغام میں مولانا آزاد کی جو بھی تحریریں شامل ہیں ،اسے پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ مولانا آزاد نے ہندو مسلم اتحاد پر کس قدر زور دیا تھا۔ کیوں کہ اوپر دیے گئے اقتباس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مسلمانوں سے انھوں نے جو باتیں بطور خاص کہی تھیں، اس میں پہلی بات ہی یہ تھی کہ ’’اپنے ہندو بھائیوں سے پوری طرح متفق رہیں۔‘‘ اور دوسری بات ’’مہاتما گاندی کا پوری طرح اعتماد کریں۔‘‘ ظاہر ہے کہ یہ ایک ایسا پیغام تھا جسے وقتی طور پر تو برتا گیا لیکن دھیرے دھیرے اتحاد و اتفاق کو سیاسی لوگوں نے جس طرح سے کمزور کیا ہے، وہ کسی سے مخفی نہیں۔ اور یہ سلسلہ اتنا مضبوط ہو گیا ہے کہ بسا اوقات ایسا لگتا ہے کہ جسے مولانا آزاد نے ’’اپنے ہندو بھائیوں‘‘ سے خطاب کیا تھا، اب وہ بھائی نہ رہ کر دشمن کی سی صورت اختیار کر چکے ہیں۔ ہندو مسلم دونوں میں جس طرح سے نا اتفاقی پیدا ہوئی ہے ، اس صورت میں ایسے ہی نتیجے کی امید تھی۔ پیغام کے تعلق سے ابو سلمان شاہ جہاں پوری نے لکھا ہے:
’’پیغام اگر چہ بند ہوگیا اور شاید اس وقت اس کی بندش پر کسی نے افسوس نہ کیا ہو اور مورخ کی آنکھ سے اس کے غم میں کوئی آنسو نہ ٹپکا ہو لیکن آج اس کے مقصد اجرا اور مضامین پر نظر پڑتی ہے تو اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ایک عظیم الشان صحیفہ تھا اور آج وہ قومی تاریخ کے ایک دور اور تحریک خلافت اور ترک موالات کے حوالے سے قومی و ملی تاریخ کا بہت بڑا ماخذ ہے۔ قومی تاریخ میں تین ماہ کی مدت کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی لیکن کبھی ایک دن میں برسوں میں پھیلی ہوئی تاریخ پر بھاری ہوتا ہے۔ پیغام کے تین ماہ تو بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ تحریک خلافت اور ترک موالات نے ہماری تاریخ پر بڑے گہرے اور دور رس اثرات ڈالے۔ تحریک خلافت سے قومی تاریخ کے ایک نئے دور کا آغاز ہوتا ہے۔ اس دور کے تاریخ سازوں میں پیغام کا حصہ ہے۔‘‘
(مولانا ابوالکلام آزاد کی صحافت، ابو سلمان شاہ جہاں پوری، ادارۂ تصنیف و تحقیق، پاکستان، 1989،ص159)
درج بالا اقتباس سے اندازہ ہوتا ہے کہ پیغام بظاہر تین مہینے تک ظاری روشنی دی،لیکن اس روشنی سے لوگ فائدہ اتھانے والے لوگ اب تک فائدہ اٹھارہے ہیں۔پیغام کے لئے مولانا آزاد نے جو اصول بنایا تھا اس پر وہ قائم بھی رہا۔کیونکہ ہر تحریر کا ایک موضوع اور مقصد ہوتا تھا۔اور اس کااسلوب اسی کے مطابق اختیار کیا جاتا تھا۔چونکہ اس رسالے کا مقصد صرف تبلیغ تھا،انشاء اور ادب نہیں۔اور پیغام کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ اڈیتر کے سامنے یہی اصول اہے ہوں گے۔کیونکہ اس کے مضامین صف اور سہل زبان میں ہی ہیں۔چونکہ مولانا آزاد دور اندیش تھے،اور وقت کے حالات پر ان کی گہتی نگاہ تھی،اس لئے وہ سمجھ گئے تھے کی موجودہ زمانے میں کون سی چیز اور کون سا اسلوب زیادہ مفید ہے۔اور پیغام اسی اصول کا ترجمان تھا۔پیغام صرف پیغام نہ تھا،بلکہ اس کے مضامین کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ اپنے اندر کس طرح کا مواد سمیٹے ہوئے ہے۔اور مولانا آزاد کا بے خوف کام کرنا ،اور اپنی جرأ ت کا مظاہرہ کرنا،پیغام میں شامل مولانا آزاد کے مضامین سے اندازہ ہوتاہے۔چند مہینے نکلنے والا یہ رسالہ ،تقریبا ایک صدی گزرنے کے پاس ہے،آج بھی اس کی اہمیت اور مولانا آزادکا بے خوف لکھنے کا انداز لوگوں کو اپنی جانب توجہ کرائے ہوئے ہے۔اور کسی بھی رسالے یا اخبار کی سب سے بڑی کامیابی یہی ہے کہ اپنا اثر دیر تک قائم رکھے۔مولانا آزاد کا یہ’’پیغام‘‘اس کی دلیل ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Leave a Reply
2 Comments on "مولانا ابوالکلام آزاد کی صحافتی خدمات ہفت روزہ ’پیغام‘کے حوالے سے"
very fine!
[…] […]