ابن کنول کا افسانہ ’’بند راستے ‘‘کا تنقیدی مطالعہ

ابن کنول کا افسانہ ’’بند راستے ‘‘کا تنقیدی مطالعہ

وجے کمار۔ریسرچ اسکالر شعبہ اردو جموں یونیورسٹی ،جموں و کشمیر

                                                                                                7889315716/dharvijay1994@gmail.com                                                                                                ابن کنول کا اصلی نام ناصرمحمود کمال تھا ۔اردو ادب کی دُینا میں ابن کنول کے نام سے مشہور ہوئے ۔اُن کے والد کا نام قاضی شمس الحسن کنول ڈبائیوی تھا جو اپنے عہد کے نامور شاعر تھے ۔ابن کنول ۱۵۔اکتوبر ۱۹۵۷؁ء کو بہجوئی ضلع مرادآباد میں پیدا ہوئے اور ۱۱ فروری ۲۰۲۳؁ء کو جہاں فانی سے کوچ کیا ۔اُن کی پرورش علمی اور ادبی ماحول میں ہوئی یہی وجہ ہے کہ شعر و ادب سے اُن کا لگائو بچپن سے تھا۔  ابن کنول بیک وقت ایک اچھے افسانہ نگار ،خاکہ نگار،انشائیہ نگار ،ڈراما نویس ،محقق،نقاد اور شاعر تھے ۔اُن کے ادبی ذوق و شوق کو فروغ دینے میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی ادبی فضا کا اہم رول رہا ہے ۔ایم ۔اے کی تعلیم کے دوران ہی ’’انجمن اردوئے معلی‘‘کے سکریٹری رہے اور اُسی دوران اپنے ادبی سفر کا آغاز شعر گوئی سے کیا اور ساتھ میں افسانے بھی لکھنے لگے ۔۱۹۷۴؁ء میں اُن کا پہلا باقاعدہ افسانہ ’’اپنے ملے اجنبی کی طرح ‘‘رسالہ آفتابِ سحر میں شائع ہوا تھا ۔ابن کنول کی بہت سی تخلیقات اور تصنیفات اب تک شائع ہو کر منظر عام پر آچکی ہیں جن میں افسانوی مجموعے تیسری دنیا کے لوگ ،۱۹۸۴؁ء،بند راستے ۲۰۰۰؁ء اور پچاس افسانے ۲۰۱۴؁ء اہم ہیں ۔خاکوں کا مجموعہ ’’کچھ شگفتگی کچھ سنجیدگی ‘‘۲۰۲۰؁ء،انشائیوں کا مجموعہ ’’بساط نشاط ِدل ‘‘۲۰۲۱؁ء،ڈراموں کا مجموعہ’’بزم داغ ‘‘۲۰۲۰؁ء،سفر ناموں کا مجموعہ ’’چار گھونٹ‘‘۲۰۲۲؁ء۔اہمیت رکھتے ہیں ۔ان کتابوں کے علاوہ انھوں نے بہت سی تحقیقی اور تنقیدی کتابیں بھی لکھی ہیں ۔ناول ’’ریاض دلربا‘‘ کو مرتب کر کے شائع کرنا اُن کا ایک اہم تحقیقی کارنامہ مانا جاتا ہے جسے انھوں نے اردو کا پہلا ناول بھی قرار دیا ہے ۔جبکہ عصر حاضر کے بہت سے ناقدین اور محققین نے اس کو فن کے اعتبار سے ناول ماننے سے ہی انکار کیا ہے ۔

 زیرِنظر مضمون ابن کنول کے افسانہ ’’بند راستے ‘‘پر مرکوز ہے ۔بند راستے کے نام سے اُن کا ایک افسانوی مجموعہ بھی ہے ۔جو  ۲۰۰۰؁ء میں ہم قلم پبلی کیشنز دہلی سے شائع ہوا تھا ۔اس مجموعے میں کل چھبیس 26))افسانے شامل ہیں ۔ابن کنول کے افسانوں کے موضوعات زیادہ تر فسادات ،تقسیم ِملک کا کرب ،ہندو مسلم کا تفرقہ ،مشترکہ تہذیب اور کہیں کہیں ہندوستانی تہذیب و تمدن اورمعاشرت کے ساتھ ساتھ توہم پرستی اور مذہب کی اندھی تقلید پر بھی افسانے دیکھنے کو ملتے ہیں ۔اُن کے بیشتر افسانے حقیقت نگاری کے بالکل قریب پائے جاتے ہیں ۔بر صغیر کے مسائل پر اُن کی گہری نظر تھی یہی وجہ ہے کہ اُن کی تخلیقات میں بھی بر صغیر میں ہونے والی ہر ردو بدل کی جھلک کسی نہ کسی روپ میں دیکھنے کو ملتی ہے ۔

                افسانہ ’’بند راستے ‘‘ کا موضوع دو پیار کرنے والوں کی کہانی ہے ۔جو ہجرت کی وجہ سے ایک دوسرے سے الگ ہو گئے اورپھر اُن کے دلوں کے راستے ہمیشہ کے لئے بند ہو گئے ۔یہاں تک کہ ہیرو اپنی محبوبہ کو حاصل کرنے کے لئے پاکستان سے ہندوستان بھی آ جاتا ہے مگر یہاں یاس اور نا اُمیدی کے سوا اس کو کچھ ہاتھ نہیں آتا ۔افسانہ ’’بند راستے ‘‘ کا پلاٹ کچھ یوں ہے ۔خالد اس افسانے کا مرکزی کردار ہے جو رحیم گڑھ کا رہنے والا ہوتا ہے ۔مگر ماں کے انتقال کے بعد اپنے والد کے ساتھ لاہور چلا جاتا ہے ۔کچھ عرصہ کے بعد ہندوستان اور پاکستان کے درمیان جنگ شروع ہو جاتی ہے اور تمام سرحدی راستے بند کر دیے جاتے ہیں ۔خالد اپنے مقرر کئے گئے وقت پر ہندوستان نہیں پہنچ پاتا ہے اور اُس کی محبوبہ شازیہ کی شادی ایک ادھیڑ عمر کے شخض سے کر دی جاتی ہے ۔جب سرکار کی طرف سے ہندوستان اور پاکستان کا راستہ کھولنے کا اعلان کیا جاتا ہے تو خالد پہلا کام یہی کرتا ہے کہ وہ ہندوستان جانے کے لئے ویزامنظور کروا لیتا ہے ۔جب لاہور سے ہندوستان کے لئے روانہ ہوتا ہے تو اُسے اپنا بچپن یاد آنے لگتا ہے ۔یہاں مصنف نے فلیش بیک تکنیک کا استعمال کیاہے ۔اُسے یاد آتا ہے کہ کس طرح سے اُس کی خالہ بی ایک روز سیکھر پور سے رحیم گڑھ آتی ہے اور اُس کے ساتھ پھول جیسی لڑکی شازیہ بھی تھی ۔جس کے ساتھ پہلی ہی نظر میں اُس کو پیار ہو گیا تھا ۔  بقول مصنف ،وقت آگے بڑھا معصوم کلیوں نے چٹکنا شروع کیا ۔یہاں تک کہ خالد کی ماںاور شازیہ کی ماں نے رشتہ بھی مقرر کرلیا صرف خالد کا باپ اس رشتے کے خلاف تھا ۔وہ اس لئے خلاف تھا کیونکہ شازیہ کا باپ اُس کے خلاف الیکشن میں کھڑاہوا تھا ۔حالانکہ لوگوں کے سمجھانے پر بعد میں اُس نے خالد کے باپ کی ہی حمائت کی تھی مگر رنجش برقرار رہی ۔دوسری اہم وجہ یہ تھی کہ خالد کا باپ اُس کو اپنے برابر کا زمیندار نہیں مانتا تھا ۔کچھ ہی عرصہ بعد خالد کی ماں کا انتقال ہو گیا اور خالد کاباپ اُس کو اپنے ساتھ لاہو ر لے گیا تا کہ مملکت اسلامیہ میں وہ امن ،سکون اور آزادی سے اپنی زندگی بسر کریں مگر ہوا کچھ اُلٹا جس کا اُن کو گمان تک نہ تھا۔خالد پاکستان جانے سے پہلے اپنی خالہ بی اور محبوبہ شازیہ سے ملنے ضرور گیا تھا اور اُن کو یقین دلایا تھا کہ وہ جلد واپس لوٹے گا اور شازیہ سے ہی شادی کرے گا ۔جب خالدلاہور سے رحیم گڑھ اسٹیشن پر پہنچا اور وہاں رکشے والے سے رحیم گڑھ پہنچانے کو بولا ایک نے تو جگہ کانام جاننے تک سے انکار کر دیا اور چچا قاضی محمد حسین کی ڈیوڑھی کا نام سن کر بتایا کہ ’’ہماری سمجھ میں نہیں آیا صاحب کون قاضی محمود حسین ـ؟کس محلے میں رہتے ہیں۔‘‘اُس نے نا امید ہو کر دوسرے رکشے والے کو کسی طرح راضی کیا جس نے اُسے اپنے گھر کے قریب پہنچا دیا ۔   ’’وہ اپنی حویلی کو پہچان گیا تھا ۔خوش خوش دل کی تیز دھڑکن کے ساتھ وہ اندر کی طرف بڑھا۔لیکن راستے میں ایک آدمی نے روک کر پوچھا ’’کس سے ملنا ہے بابو جی؟۔

 اُس نے پوچھنے والے کو تعجب سے دیکھا ۔ارے کون ہو تم پوچھنے والے ؟یہ میرا گھر ہے چچا ،میاں کہاں ہیں ؟۔

  کہاں سے آئے صاحب!کون چچا میاں ؟کس کا گھر؟یہ تو لالہ کشوری لال کا گودام ہے ‘‘۔

   (بند راستے۔ص۔۱۳۷)

 اس اقتباس سے واضع ہو جاتا ہے کہ لوگ تقسیم کے وقت ہجرت کر کے دوسرے ملک اپنے روشن مستقبل کی اُمید لے کر گئے توتھے ۔کچھ تو وہاں پہنچ ہی نہیں پائے ،جو پہنچے بھی وہ بھی واپس نہیں آسکے یا آنے ہی نہیں دیا جانے لگا ۔اگر کچھ لوگ آبھی گئے تو اپنی جدی وراثت اور جنم بھومی پر حق جتانے سے وہ محروم ہو گئے تھے۔وہاں دوسرے لوگ اُن کی جائیداد پر قابض ہو گئے تھے ۔اپنے ہی گھر میں خود کو اجنبی پا کر خالد ایک گلی سے نکل کرایک پُرانی مسجد کے صحن میں داخل ہوا وہاں پر موجود نا بینا مولوی سے ملاقات کی جس سے اُس نے بچپن میں قرآن سیکھا تھا۔مولوی نے خالد کو بتایا کہ اُس کے چچا محمود حسین نے اپنا گھر نیلام کیا ہے اور اب شہر میں بس گیا ہے نابینا مولوی سے بات چیت کے دوران خالد نے اُسے بتایا کہ

’’مولوی صاحب میں تو کہیں کا نہیں رہا ۔پاکستان میں یہاں سے گئے ہوئے مسلمانوں کی بڑی بُری حالت ہے ۔نوکری بھی بڑی مشکل سے ملتی ہے ۔یہاں بھی سب کچھ لُٹ گیا۔‘‘   (بند راستے ۔ص۔۱۳۸)

مولوی صاحب سے رخصت لینے کے بعد خالد شازیہ کے گائوں سکھیر پور جاتا ہے ۔وہاں اپنی خالہ بی سے ملاقات کرتا ہے ۔خالہ اپنی بہن کی آخری نشانی کو گلے سے لگاتی ہے اور جذباتی ہو کر اس سے لپٹ کر رونے لگتی ہے ۔باتوں باتوں میں ہی شازیہ کا ذکر چھڑجاتا ہے ۔شازیہ خالد کا نام سنتے ہی رسوئی گھر سے باہر نکل کر میلے کچلے کپڑوں کو جھاڑ کر اپنے بچپن کے محبوب کے دیدار کے لئے بناوٹی مسکان بنا کر خالد کے سامنے حاضر ہو جاتی ہے۔خالد اسے سچی محبت کی یقین دہائی دلانا چاہتا ہے مگر سب بے سود ۔                                                                               ’’شازیہ تم خاموش کیوں ہو ۔میں اب بھی تمہارا ہوں ۔صرف تمہارا۔میں تمہیں اپنے ساتھ لے جائوں گا۔‘‘                               ’’تم نے بہت دیر کر دی خالد !شازیہ نے اُس کے ہاتھوں کو الگ کرتے ہوئے کپکپاتے ہونٹوں سے کہا اور چہرے کو ہاتھوں میں چُھپا کر باورچی خانے کے گندے دھویں میں گھس گئی۔‘‘                  (بند راستے ۔ص ۔۱۴۱۔۱۴۰)

                جب خالد نے مُڑ کر دیکھا تو ایک ادھیڑ عمر کا شخص گھر میں داخل ہو رہا تھا ۔بچے اُسے دیکھتے ہی ابو ،ابو، کی آواز لگا کر اُس کی طرف دوڑنے لگے ۔خالد دیکھتا ہی رہ گیا ۔اُسے لگا جیسے ہندوستان اور پاکستان کے راستے ایک بار پھر سے ہمیشہ کے لئے بند ہو گئے اور وہ پاکستان میں اپنے گھر گیا۔   افسانہ اس پُر سوز انجام پر پہنچ کر قاری کو سوچنے پر مجبور کرتا ہے ۔اس افسانے میں مصنف نے مہاجرین اور شرنارتھیوں کی ذہنی کیفیات اور نفسیاتی کشمکش کو پیش کیا ہے ۔ کس طرح سے انسان اپنے ہی گھر میں اپنے رشتہ داروں اور یار دوستوں کے لئے اجنبی ہو جاتا ہے ۔جس جگہ پر اُس کا بچپن بیتا ہو ،جہاں اُس کی پرورش ہوئی ہو وہاں ہی دو منٹ بھی رکنے نہیں دیا جاتا ۔جس بھی گلی سے گزرتا ہے ہر شخص شک کی نگاہ سے دیکھنے لگتا ہے کہ کہیں کوئی جاسوس تو نہیں ہے ۔اس سے بڑھ کر اور کیا بد نصیبی ہو سکتی ہے کس طرح دو پیار کرنے والوں کی محبت ہجرت کی بھنیٹ چڑھ گئی اور اُن کے ملنے کے راستے ہمیشہ کے لئے بند ہو گئے۔وہ دل جو ہمیشہ ایک دوسرے کے لئے دھڑکا کرتے تھے سرحدی تنائو نے دونوں کو ہمیشہ کے لئے جُدا کر دیا ۔ایک ہی نسل سے تعلق رکھنے کے باوجود لوگ ایک دوسرے کو پہچان بھی نہیں پاتے ہیں ۔کس طرح ایک سرحدی لکیر نے لوگوں کو ہمیشہ کے لئے جدا کر کے رکھا ۔

                یہ افسانہ فن کے لحاظ سے بھی اہمیت کا حامل ہے ۔اس افسانے میں پیش کئے گئے مناظر ٹی وی سکرین کی طرح قاری کی آنکھوں کے سامنے نمودار ہو جاتے ہیں جس سے پتہ چلتا ہے کہ ابن کنول کو منظر کشی میں کتنی مہارت حاصل تھی ۔افسانہ بند راستے میں عام فہم اور سلیس زبان کا استعمال کیا گیا ہے ۔مبالغہ اور غلو سے بڑی حد تک احتیاط برتی گئی ہے ۔سچ تو یہ ہے کہ افسانہ حقیت نگاری کے قریب نظر آتا ہے ۔اس افسانہ کے ذریعے ہجرت کے مضر اثرات کی بھر پور عکاسی دیکھنے کو ملتی ہے ۔یہ افسانہ ختم ہونے کے بعد بھی قاری کے ذہن میں سفر جاری رکھتا ہے اور یہی ایک کامیاب افسانے کی پہچان ہے ۔

  Vijay kumar

Research Scholar

Department of urdu University of Jammu 180006(j$k)

 Ph no 7889315716

   Email.dharvijay1994@gmail.com                                                                                                              ****

Leave a Reply

Be the First to Comment!

Notify of
avatar
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.