اردو میں ریڈیو ڈراما، آغاز و ارتقاء

Click here for PDF file

Click here for PDF file

محمد کامل

………………………….

            ریڈیو ڈراما جسے ریڈیو پلے،ریڈیائی ڈراما، نشری ڈراما، حتی کہ اسے یک بابی اور ایک ایکٹ ڈراماکے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ان سب کا مطلب صرف یہ کہ وہ ڈراما جو ریڈیو کے ذریعے لوگوں کے گوش گزار کیا جاتا ہے۔ رفعت سروش ریڈیو ڈراما سے متعلق اپنے مضمون ’’ریڈیو ڈراما نگاری کا فن‘‘ میں لکھتے ہیں:

            ’’ریڈیائی ڈرامہ اپنی الگ حیثیت رکھتا ہے۔ اسٹیج کے ڈرامے سے بالکل مختلف فنی اعتبار سے دونوں کے میدان الگ الگ ہیں ریڈیو آواز کی دنیا ہے۔ آواز صرف انسانوں کی آواز۔سازوں کی آواز۔ موسم کی آواز۔ پانی کی آواز۔ ہوا کی آواز۔بجلی کی آواز۔ بھیڑ بھڑ کی آواز۔ خاموشی اور سنّاٹے کی آواز۔ آواز صرف آواز۔ آوازوں کے اتار چڑھاؤ اور پیچ و خم سے ہی ریڈیائی ڈرامہ مرتب کیا جاتا ہے۔ ‘‘ ۱؂

            ریڈیوڈرا ما کی شروعات کے سلسلے میں کہا جاتا ہے کہ ۱۹۲۷ء میں جب انڈین براڈ کاسٹنگ کمپنی کا قیام ہوا،اسی کے بعد سے ریڈیو کے ذریعے ڈرامے نشر ہونا شروع ہوئے۔ ڈاکٹر محمد شکیل اختر لکھتے ہیں:

            ’’ہندوستان میں انڈین براڈ کاسٹنگ کمپنی کے قیام سے با قاعدہ ریڈیو ڈرامے کی نشریات کا آغاز ہوا۔ ۱۰ جنوری ۱۹۲۸ء سے پابندی سے ریڈیو ڈراما نشر کیا جارہا ہے۔ اس دور میں ڈرامے لگ بھگ دو تین گھنٹے کے ہوتے تھے، جس میں تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد وقفہ ہوتا تھا۔ یہ ڈرامے اسٹیج کی طرح مقبول تھے۔ اس میں موسیقی زیادہ استعمال ہوتی تھی۔ بمبئی میں تھیٹر کی روایت کافی مستحکم تھی اور زبان کا مسئلہ تھا، اس لیے جولائی ۱۹۳۰ء تک ڈرامے پر کوئی خاص توجہ نہیں دی گئی، لیکن آہستہ آہستہ ریڈیو ڈراما عوام میں مقبول ہونے لگا اور اس کی مانگ بھی بڑھتی گئی۔ ۱۹۳۴ء میں بمبئی سے ۷ گجراتی ڈرامے، ایک مراٹھی ڈراما اور سات ہندوستانی زبان میں ڈرامے نشر کیے گئے، ۱۹۳۸ء میں یہ تعداد بڑھ کر اور زیادہ ہوگئی۔‘‘ ۲؂

            بہر حال اردو ریڈیو ڈرامے کی شروعات دہلی میں ریڈیوکے قیام کے ساتھ ہوا۔ تحقیق کے مطابق اردو کا پہلاریڈیو ڈراما ’’من توش‘‘ کو مانا جاتا ہے۔ ڈاکٹر شکیل اختر لکھتے ہیں:

            آل انڈیا ریڈیو نئی دہلی کے میوزیم میں سب سے قدیم ریڈیو ڈرامہ’’ منتوش‘‘ کا مسودہ نمائش کے لیے رکھا گیا ہے جس پر تاریخ نشر ۳ جنوری ۱۹۳۶ء درج ہے۔ اس ڈرامہ کو کیشرو چندر چٹر جی نے لکھا تھا اور حکیم شجاع الدین نے ریڈیو کا آہنگ بخشا تھا۔ اس کی اسکرپٹ اردو زبان میں ہے۔‘‘ ۳؂

            یہاں ایک بات کھٹکتی ہے وہ یہ کہ شکیل اختر نے ’’من توش‘‘ کے مصنف کا نام ’’کیشرو چندر چٹر جی ‘‘ لکھا ہے۔ جبکہ زبیر شاداب اپنی کتاب ’’ریڈیو نشریات‘‘ میں مصنف کے نام میں چھیرو داس چٹرجی کا ذکر کیا ہے۔آخر نام میں اختلاف کیوں؟ اندازہ تو یہ ہوتا ہے کہ دونوں نام ایک ہی شخص کے ہیں۔مگر سوال یہ اٹھتا ہے کہ اصل نام کیا ہے؟ کیشرو چندر چٹرجی جو کہ چھیروداس چٹرجی میں تبدیل ہو گیا یاپھر چھیرو داس چٹرجی جو کہ کیشرو چندر چٹرجی میں تبدیل ہو گیا۔اٰل انڈیا ریڈیو کے میوزیم میں جا کر میں نے دیکھا ہے،ڈراما ہاتھ سے لکھا ہوا اس کے پہلے صفحہ پر نیلے روشنائی سے’’ منتوش از بابو کشیرو چندر چٹرجی‘‘ تحریر ہے۔ ا س طرح ریڈیائی ڈرامے کی روایت ۱۹۳۶ء سے شروع ہوتی ہے۔آغاز میں اس میدان میں بہت سے ایسے لوگ ہیں جو اسٹیج ڈرامے لکھ رہے تھے، وہ ریڈیائی ڈرامے کی طرف متوجہ ہوئے۔سب سے پہلا نام سیّد ذوالفقار علی بخاری کا آتا ہے، جنھوں نے ڈرامے تو نہیں لکھے مگر ڈرامے کو ریڈیو سے جوڑنے میں اہم کردار نبھایا ہے۔ وہ دہلی میں ریڈیو اسٹیشن کے قیام کے ساتھ ہی اس سے جڑ گئے تھے، اس لیے وہ ریڈیو کے تکنیک سے بخوبی واقف تھے۔ انھوں نے اس دور کے ادیبوں ، دانشوروں اور ڈراما لکھنے والوں کو ریڈیو کے تکنیک سے روشناس کرایا اور ریڈیو ڈرامے لکھنے پر آمادہ کیا۔ ڈاکٹر کمال احمد صدیقی لکھتے ہیں ـ:

’’ذوالفقار، اسٹیج ڈراموں کے ماہر ہونے کے باوجود اسٹیج ڈراموں کی تکنیک کو ریڈیو سے الگ رکھ ، جدید ریڈیو ڈراموں کے موجد بنے۔ اردو میں ریڈیو کی اس صنف میں پہل کرنے کا نام انھیں کا رہے گا۔‘‘ ۴؂

            ڈراما نگاروں میں سیّد امتیاز علی تاج، سعادت حسن منٹو، کرشن چندر ، راجندر سنگھ بیدی، عصمت چغتائی، سیّد عابد علی عابد اور مرزا ادیب قابل ذکر ہیں۔سعادت حسن منٹو نے تقریباً ایک سو ڈرامے لکھے جو ریڈیو سے نشر ہو چکے ہیں۔ منٹو کے ریڈیائی ڈراموں کے مجموعے: آؤ، تین عورتیں ، کروٹ اور نیلی رگیں قابل ذکر ہیں۔کرشن چندر کے ریڈیائی ڈراموں کا مجموعہ ’’دروازہ‘‘ آزادی سے پہلے لاہور سے شائع ہو چکا ہے۔ اس میں چھ۶ ڈرامے شامل ہیں، (۱)ایک شام (۲) دروازہ (۳) حجامت(۴) بیکاری (۵) نیل کنٹھ (۶)سرائے کے باہر۔ ان کے علاوہ بھی کرشن چندر نے متعدد ریڈیائی ڈرامے لکھے ہیں جو ریڈیو سے نشر ہو چکے ہیں۔ بیدی کے ریڈیائی ڈراموں کا پہلا مجموعہ ’’ بے جان چیزیں‘‘ ۱۹۴۳ء میں ادارہ پنچ دریا ، نسبت روڈ لاہور سے شائع ہو ا اس میں چھ۶ ڈرامے شامل ہیں ۔ دوسرا مجموعہ ’’ سات کھیل‘‘ ۱۹۸۱ء میں مکتبہ جامعہ سے شائع ہوا ہے۔عصمت چغتائی نے بھی ریڈیو کے لیے ڈرامے لکھے ہیں۔ ان کے ڈراموں کا مجموعہ’’ شیطان‘‘ شائع ہو چکا ہے جس میں چھ۶ ریڈیائی ڈرامے شامل ہیں۔ مرزا ادیب نے بے شمار یک بابی ڈرامے لکھے ہیں اور یہ ڈرامے ریڈیو سے نشر بھی ہو چکے ہیں۔ ڈراموں کے مجموعے : آنسو اور ستارے، لہو اور قالین اور ستون قابل ذکر ہیں۔

            اردو ریڈیائی ڈراموں کے شروعاتی دور میں دیگر زبانوں مثلاً فرانسیسی، روسی اور بنگالی ڈراموں کے ترجمے کیے گئے اور انھیں ریڈیو کے ذریعے نشر کیا گیا ہے۔ مترجمین میں حکیم احمد شجاع، سیّد عابد علی عابد، فضل الحق قریشی، محمد حنیف، نور الٰہی و محمد عمر، امتیاج علی تاج اورسیّد انصار ناصری شامل ہیں۔سیّد عابد علی عابد نے انگریزی اور بنگالی ڈراموں کا کثرت سے ترجمہ کیا۔ ٹیگور کے ڈرامے ’’مالن‘‘ ، ’’دیوا پانی‘‘،’’قربانی‘‘اور’’ سنیاسی‘‘کے تراجم کیے جو ریڈیو سے نشر بھی ہوئے۔فضل الحق قریشی کے ریڈیائی ڈراموں کا مجموعہ ’’ریڈیو ڈرامے‘‘ ۱۹۳۸ء میں شائع ہوا۔ اس کے علاوہ انھوں نے مولیئر کے ڈرامے کی بنیاد پر ’’تعلیم زدہ بیوی‘‘ لکھا جو بہت مقبول ہوا۔ محمد عمر و نور الٰہی نے بہت سے ڈراموں کا ترجمہ کیا اور انھیں ریڈیو سے نشر بھی کرایا۔ ان کا ڈراما ’’بلیدان‘‘ ایک جرمن المیہ قصے سے ماخوذ ہے۔ اسی طرح ’’پورس‘‘،’’ تخت طاؤس‘‘، ’’سایہ‘‘، ’’ظاہر و باطن‘‘ اور’’زبردست‘‘ ریڈیو سے نشر ہو چکے ہیں۔امتیاج علی تاج نے بہت سے ڈراموں کے تراجم پیش کیے۔ ریڈیو پاکستان کے لیے ریڈیائی سیریئل کی شروعات کی جس میں ’’حریم قلب‘‘، ’’ان کے ابّا ہنسائیں یا رلائیں‘‘، ’’بیگم صاحبہ کی بلّی‘‘ اور ’’ٹیلی فون پر‘‘ قابل ذکر ہیں۔انصار ناصری نے فرانسیسی، جرمن اور انگریزی کے بہت سے ڈراموں کے ترجمے کیے، جن میں آسکر وائیلڈ کے ’’سلومی‘‘ کا ترجمہ ’’سلمیٰ‘‘ بہت مشہور ہوا۔ اس کے علاوہ ان کا طبع زاد ڈراما ’’لاڈلا بیٹا‘‘ کامیاب ریڈیائی ڈراموں میں شمار کیا جاتا ہے۔

            آزادی کے بعد ملک دو حصوں میں تقسیم ہو گیا۔ اس طرح پاکستان اور ہندوستان دونو ں جگہ ریڈیائی ڈراما نگاری کی متوازی تاریخ سامنے آتی ہے۔ قدیم ڈراما نگاروں کے ساتھ کچھ نئے لوگ اس قافلہ میں شامل ہوئے۔ پاکستان میں انتظار حسین، حاجرہ مسرور، بانو قدسیہ ،عشرت رحمانی، شوکت تھانوی اور جاوید اقبال اہم ہیں۔ اسی طرح ہندوستان میں سلام مچھلی شہری، اوپیندر ناتھ اشک، کرتار سنگھ دگّل، رفعت سروش، عمیق حنفی، محمد حسن اور شمیم حنفی قابل ذکر ہیں۔انتظار حسین آل انڈیا ریڈیو لکھنو میں ملازم تھے۔ تقسیم ملک کے بعد پاکستان چلے گئے۔ ان کے ریڈیائی ڈراموں کا مجموعہ ’’دل سے قریب‘‘ ۱۹۴۷ء میں شائع ہوا۔ اس کے علاوہ ان کے ریڈیائی ڈراموں میں ’’خرد کا نام جنوں‘‘ اور ’’سائبان کے نیچے‘‘ بہت مقبول ہوئے۔عشرت رحمانی کے یک بابی ڈراموں کے مجموعے ’’دکھیا سنسار‘‘ ، ’’پریم سنسار‘‘اور انوکھا سنسار شائع ہو چکے ہیں جو ریڈیو سے نشر بھی ہوئے۔شوکت تھانوی ریڈیو پاکستان لاہور میں ملازمت کرتے تھے۔وہ ۱۹۶۳ء تک ریڈیو پاکستان سے جڑے رہے۔ ان کے بہت سے ریڈیائی ڈرامے نشر ہوئے اور ان کے مجموعے شائع ہوئے جن میں منشی جی، سنی سنائی، غالب کے ڈرامے، قاضی جی، کھی کھی اور ’’مجھے خرید لو‘‘ کا ذکر ہے۔جاوید اقبال ریڈیو کے بہترین ڈراما نگار ہیں۔آپ کے ڈرامے: دارالسلام، پہلو، گردش، لٹھا، آقا اور مگر مچھ کے بوٹ مقبول ڈراموں میں شمار کیے جاتے ہیں۔اوپندر ناتھ اشک کا مقبول ڈراما ’’پاپی‘‘ لاہور اسٹیشن سے متعدد بار نشر ہو چکا ہے۔ آپ دلّی ریڈیو اسٹیشن میں ملازم تھے۔ آپ کے ریڈیائی ڈراموں کے مجموعے : دیوتاؤ ں کی چھاؤں میں ، چرواہے، پکّا گانا، پردہ اٹھاؤ پردہ گراؤ، اندھی گلی اورصاحب کو زکام ہے شائع ہو چکے ہیں۔کر تار سنگھ دگّل آل انڈیا ریڈیو میں اسٹیشن ڈائرکٹر رہ چکے ہیں۔ ان کے ڈراموں کا مجموعہ ’’اوپر کی منزل‘‘ شائع ہوا جس میں پانچ ڈرامے شامل ہیں۔رفعت سروش ایک عرصہ تک ریڈیو سے وابستہ رہے ہیں۔ پرو ڈیوسر رہنے کے ساتھ متعدد ریڈیائی ڈرامے لکھے ہیں۔ ان کے ریڈیائی ڈراموں کے دو مجموعے ’’ڈگر پنگھٹ کی‘‘ اور ’’زندگی اک سفر‘‘ شائع ہوچکے ہیں۔محمد حسن نے اسٹیج، ریڈیو اور ٹی وی تینوں کے لیے ڈرامے لکھے ہیں۔ ان کے ریڈیائی ڈراموں کا مجموعہ ’’ پیسہ اور پرچھائیں‘‘ بڑی اہمیت رکھتا ہے۔شمیم حنفی ایک اچھے شاعر، نقاد اور ڈراما نگار ہیں۔ ریڈیائی ڈراما نگاری میں ایک بلند مقام رکھتے ہیں۔ ان کے ریڈیائی ڈراموں کے چار مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ مٹی کا بلاوا، مجھے گھر یاد آتا ہے، زندگی کی طرف اور بازار میں نیند۔

            آج جبکہ ٹیلی ویژن ڈرامے اور فلموں کا دور دورہ ہے۔ریڈیو کے پرائمری چینلوں کی جگہ ایف․ ایم․ ریڈیو کا چلن زیادہ ہو چلا ہے،ابھی اس کے ذریعے کم از کم اردو کے ریڈیو ڈرامے پیش نہیں کیے جا سکے ہیں۔پھر بھی اٰل انڈیا ریڈیو کے اردو سروس اور دیگر مختلف شہروں کے ریڈیواسٹیشنوں سے اردو ڈرامے پیش کیے جاتے ہیں، جو سامعین کے دلچسپی کا مظہر ہے۔ موجودہ دور میں اردو کے ریڈیائی ڈراما نگاروں میں ریوتی شرن شرماـ-ـــــــــــــدہلی ،زبیر رضوی- دہلی، علی محمد لون -سری نگر، اقبال مجید- بھوپال اور نثار نسیم – سری نگر قابل ذکر ہیں۔

حوالے:

۱؂ اردو اور عوامی ذرائع ابلاغ، مرتبین: محمد شاہد حسین، اظہار عثمانی(ص:۱۶۵)

۲؂ اردو میں نشریاتی ادب، ڈاکٹر محمد شکیل اختر (ص:۲۷۳)

۳ ؂ اردو میں نشریاتی ادب، ڈاکٹر محمد شکیل اختر (ص:۱۵۹)

۴؂ اردو ریڈیو اور ٹیلی ویژن میں ترسیل و ابلاغ کی زبان، ڈاکٹر کمال احمد صدیقی (ص:۴۴۲)

…………………………………

محمد کامل، ریسرچ اسکالر

شعبہ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی۔

موبائل نمبر۔8750991664

kamil.flahi@gmail.com

Leave a Reply

1 Comment on "اردو میں ریڈیو ڈراما، آغاز و ارتقاء"

Notify of
avatar
Sort by:   newest | oldest | most voted
trackback

[…] اردو میں ریڈیو ڈراما، آغاز و ارتقاء […]

wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.