ابنِ صفی کی تکنیک
محمدمقیم
………………………..
یہ بات بجا طور پر بار بار دہرائی جاتی ہے کہ اردو تنقید نے ابن صفی کے جاسوسی ناولوں کے ساتھ نامناسب طرز عمل اختیار کر رکھا ہے۔ ادھر گذشتہ چند برسوں میں مطالعۂ ابن صفی کی جو فضا قائم ہوئی ہے اسے مد نظر رکھا جائے تو یہ گلہ کسی حد تک رفع ہوجانا چاہیے تھا۔ لیکن صورت حال یہ ہے کہ اس تعلق سے اردو ادب کے چند بڑے ناموں نے قلم ضرور اٹھایا ہے
لیکن اہل قلم کا رویہ اکثر و بیشتر مربیانہ اور سرپرستانہ قسم کا ہے۔ تخلیقات ابن صفی کو جواز بخشنے کے لیے جس نوع کی سفارشات سامنے آئی ہیں ’’انتخابی بیان بازی‘‘ قبیل کی چیزیں معلوم ہوتی ہیں۔ البتہ ڈاکٹر خالد جاوید اس رویے سے مستثنیٰ ہیں۔ کچھ تعجب نہیں کہ آئندہ سطور میں استاد محترم ڈاکٹر خالد جاوید کا نام بار بار حوالے کے طور پر آئے کیوں کہ موصوف نے ابن صفی تنقید کے حوالے سے ’’ابن صفی چند معروضات‘‘ نامی مضمون میں ابن صفی کی تخلیقات کے حوالے سے معروضات کو سنجیدگی سے قائم کرنے کے علاوہ فکرانگیز سوالات پر بھی برانگیخت کیا ہے۔ نیز اردو فکشن کے کرداروں یا کسی ایک کردار پر کی جانے والی شاہکار گفتگو کا ذکر کیا جائے تو کہنا بے جا نہ ہوگا کہ عبداللہ حسین کے ناول ’’اداس نسلیں‘‘ کے کردار ’نعیم‘ پر شمیم حنفی کے جائزے کے بعد ڈاکٹر خالد جاوید نے ’عمران‘‘ کا جیسا تجزیہ کیا ہے شاید ہی فکشن کے کسی اور کردار کا ایسا مطالعہ کیا گیا ہو۔ یعنی کسی کردار کا ایسا تجزیاتی مطالعہ جو تاثرات، لفاظی اور عبارت آرائی سے مبرا ہو۔ اسی لیے میں سمجھتا ہوں کہ حالات مایوس کن نہیں ہیں کیوں کہ گذشتہ تین چار برسوں میں ابن صفی کی تخلیقات اور ان کے کرداروں کے حوالے سے جس قسم کے فکر انگیز خیالات کا اظہار ہوا ہے اور جو تراجم سامنے آئے ہیں وہ کسی مقبول ادب لکھنے والے کا حصہ نہیں بلکہ تخلیقیت کی ہر سطح پر کشش رکھنے والے ادیب کا حق ہیں۔
ابن صفی، فکشن کی جس روایت کے تربیت یافتہ تھے اور جس عہد میں لکھ رہے تھے، تکنیک کی سطح پر ان کے یہاں کسی پیچیدگی کی تلاش لایعنی ہوسکتی ہے اور اس بات کا تعین بھی نہیں کیا جاسکتا کہ تکنیک کے حوالے سے ابن صفی کو ادب العالیہ کے تخلیق کرنے والوں میں سمجھا جائے یا مقبول عام ادب۔ کہا جاتا ہے کہ ابن صفی کی تحریریں قاری کا ذہن ڈسٹرب نہیں کرتیں اس لیے ان کا شمار پاپولر لٹریچر میں کیا جاتا ہے۔ گویا یہ ’ڈسٹرب‘ کرنے کا عمل ہی ادب العالیہ اور مقبول عام ادب کے بیچ خط فاصل ہے۔ حالاں کہ ابن صفی کے تعلق سے ڈسٹرب نہ کرنے والی بات ہی محل نظر ہے لیکن غور کرنے کی بات یہ ہے کہ مفروضہ خط فاصل والی کسوٹی پر ادب العالیہ کا کتنا سرمایہ کھرا اترے گا۔ یوں بھی ڈسٹرب کا تعامل انفرادی ذوق پر مبنی ہے۔ رہی بات موضوعات کی تو ادب العالیہ ہو یا مقبول عام ادب، ہر دو کی شناخت میں موضوع ہمارا کوئی تعاون نہیں کرسکتا۔ یوں بھی موضوع ابن صفی کا مسئلہ کبھی رہا ہی نہیں کیوں کہ ان کا بیانیہ خیر و شر کا رزمیہ ہے۔ بقول ڈاکٹر خالد جاوید:
ابن صفی نے دراصل زندگی بھر ایک ہی ناول لکھا ہے۔ یا شاید دو ناول لکھے ہوں ۰۰۰ ان کی تحریریں دراصل ایک ’’مہا کاویہ‘‘ یا ایک مہابیانیہ ہیں جو لگاتار پچیس سال تک قسط وار شائع ہوتی رہی ہیں۰۰۰ یہ ناول دراصل ایک بڑے اور طویل ناول کے مختلف ابواب ہیں جو کسی نہ کسی طرح ایک دوسرے سے منسلک ہیں۔ ۱
جیسا کہ میں نے عرض کیا تھا کہ ابن صفی کی تکنیک روایتی قسم کی تھی، لیکن تھوڑا توقف سے کام لیتے ہوئے اس بات پر غور کیا جائے کہ بالکل ظاہری سطح پر فکشن کی روایتی تکنیک کیا ہے؟ اس سوال کے جواب میں کہا جاسکتا ہے کہ اس کی بنیاد پلاٹ کے اس تصور پر ہے جس میں ابتدا، وسط اور انتہا کی ترکیب شامل ہو۔ یہ ترکیب، تجسس، تصادم، تہہ داری اور تحلیل کے عناصر سے تشکیل پاتی ہے۔ یہاں تجسس کا مطلب یہ لیا جاتا ہے کہ اب کیا ہوگا؟ یا اب کیا ہونے والا ہے؟ گویا یہ عنصر پلاٹ کی روایتی ترکیب کے لیے روح کی حیثیت رکھتا ہے۔ اور یہ سب کچھ قاری کی دلچسپی کو قائم رکھنے کے لیے ہے۔
ابن صفی کی تکنیک کے حوالے سے فی الحال ہم اسی تجسس کے عنصر پر توجہ دیں گے۔ ہمارا سوال یہ ہے کہ تجسس کا روایتی تصور ابن صفی کے فکشن میں کس حد تک فعال ہے اور اس کی اہمیت کتنی ہے؟ پہلے سوال کے جواب میں کہا جاسکتا ہے کہ اب کیا ہوگا یا اب کیا ہونے والا ہے؟ ایسی، خلش قاری کے ذہن میں سر ضرور اُبھارتی ہے لیکن ابن صفی کے فکشن میں اس خلش کی اہمیت اس لیے نہیں ہے کہ ان کی تحریروں میں پلاٹ کی دلچسپی مزاح کے سہارے قائم ہوتی ہے۔ نہ صرف پلاٹ کی دلچسپی بلکہ کہانی بھی اکثر مزاح کے ذریعہ ہی آگے بڑھتی ہے۔ مزاح ابن صفی کے بیانیے میں اس قدر غالب رہتا ہے کہ جزئیات نگاری نہ ہونے کے باوجود جہاں کہیں فروعات سے کام لیا گیا ہے، فروعات نگاری مزاح ہی کی شکل میں سامنے آتی ہے۔ بہ لفظ دیگر فروعات نگاری اور حس مزاح ایک دوسرے میں تحلیل ہوجاتے ہیں۔ عمران کے حوالے سے مزاح نے باقاعدہ ایک فلسفے کا رنگ لے لیا جسے فلسفۂ حماقت کا نام دیا جاسکتا ہے یعنی حماقت کی دانشمندی۔ ڈاکٹر خالد جاوید مزاحیہ کردار ملا نصرالدین کے حوالے اس فلسفے کی توضیح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
حماقت کس طرح دانشمندی میں اور دانشمندی کس طرح حماقت میں منقلب ہوجاتی ہے، غور کرنے کے لائق ہے۔ ۲
ابن صفی کے جاسوسی ادب سیریز کی تمام اقساط میں بیانیاتی تکنیک کے حوالے سے یہ بات بڑی اہمیت کی حامل ہے کہ، مصنف بالکنایہ، اصل مصنف اور بیان کنندہ کے درمیان فاصلہ بہت کم ہوتا ہے۔ اتنا کم کہ ان کی علاحدہ علاحدہ شناخت مشکل ہوجاتی ہے۔ اس کی وجہ سے مصنف بالکنایہ اور قاری بالکنایہ کے درمیان ابلاغ و ترسیل کے روابط اس قدر گہرے ہوجاتے ہیں کہ بیان کنندہ کی ہر بات کا اعتبار کرنا پڑتا ہے، خواہ بیان کتنا ہی محیرالعقول اور ناقابلِ یقین کیوں نہ ہو۔ آج بھی ہم ابن صفی کے ناولوں پر گفتگو کرتے ہیں، ان کے ادبی مقام کے تعین کی بات کرتے ہیں تو اس کا سیدھا سا مطلب یہی نکلتا ہے کہ ان کی تخلیقات میں کچھ تو ایسا ہے جو انھیں ’محلِ بحث‘ بنائے ہوئے ہے۔ بعض کا خیال ہے کہ اس کی وجہ جاسوسی دنیا کی پراسرار حکایت اور لمحہ بہ لمحہ، لفظ بہ لفظ بڑھتا ہوا تجسس، وقوعہ در وقوعہ پنپتی ہوئی سریت، گولیوں کی آوازیں، دھماکے اور چمکتا ہوا خنجر، ایکشن، تشدد وغیرہ وہ مسالے یا فارمولے ہیں جو جاسوسی ادب کو قبول عام بخشتے ہیں اور شاید انھی مسالوں یا فارمولوں کی بنا پر جاسوسی ادب کو پاپولر لٹریچر کے خانے میں ڈال دیا جاتا ہے۔ لیکن جس شخص نے ابن صفی کے جاسوسی ناولوں میں سے ایک ناول کا مطالعہ بھی کیا ہو، وہ ان میں سے کسی بات سے اتفاق نہیں کرسکتا۔ یہ بات صرف اتفاق اور اختلاف کی حد تک نہیں رہ جاتی بلکہ عمران، فریدی حمید اور انور رشیدہ سیریز کے حوالے سے مذکورہ خیال ہی مضحکہ خیز ہے۔
ایک خیال یہ بھی ہے کہ ابن صفی کی زبان بہت اچھی ہے جس کی وجہ سے آج بھی ان کے لاتعداد قاری ہیں اور اہلِ مکتب آسانی سے ان کی زبان کو نظر انداز نہیں کرسکتے۔ بات میں کچھ صداقت تو ضرور ہے لیکن چند سوال بھی پیدا ہوتے ہیں، یعنی کون سی زبان؟
۱۔ وہ زبان جسے کوثروتسنیم کی دھلی ہوئی؍ نستعلیق زبان کہا جاتا ہے۔
۲۔ صرف و نحو کے حساب سے کیل کانٹے درست کی ہوئی زبان۔
۳۔ زبان مخصوص بہ افسانہ نگار۔
۴۔ زبان مخصوص بہ افسانہ یعنی فکشن۔
اول الذکر دو کو ہم آسانی سے مسترد کرسکتے ہیں کیوں کہ اس میں ابن صفی کی کوئی انفرادیت نہیں اور اس قسم کی زبان لکھنے والے ابن صفی سے بہتر اور بھی لوگ ہیں۔ ہم غور کریں گے زبان مخصوص بہ افسانہ نگار اور زبان مخصوص بہ افسانہ کے پہلو پر۔ اگر یہ کہا جائے کہ ابن صفی نے تقریباً ۲۵۰ ناول لکھے اور زبان سب کی ایک ہے تو ہم اس زبان کو مخصوص بہ افسانہ نگار کہہ سکتے ہیں۔ لیکن خالد جاوید صاحب کے اس خیال کو کلی طور پر تسلیم کرلیا جائے کہ ابن صفی زندگی بھر ایک ہی ناول لکھتے رہے یا شاید دو، تو یہی زبان مخصوص بہ افسانہ بھی کہلائے گی۔ اس خیال کو اس بات سے بھی تقویت ملتی ہے کہ جاسوسی ادب کے علاوہ دیگر نگارشات میں یہ زبان مفقود ہے۔ اگر زبان مخصوص بہ افسانہ نگار ہوتی تو دیگر تحریروں میں بھی اپنا وجود رکھتی، وہ زبان جو جاسوسی ادب کا طرۂ امتیاز ہے۔ مثال کے طور پر تزک دو پیازی، پرنس چلی، معزز کھوپڑی، بلدران کی ملکہ، شمال کا فتنہ اور اسی قسم کی دوسری تحریروں میں وہ زبان نہیں ملتی جو ابن صفی کے حوالے سے اکثر معرضِ بحث رہی ہے۔ البتہ ہم اس بات کو کلی طور پر مسترد نہیں کرسکتے کہ جاسوسی ادب کے حوالے سے بھی ابن صفی کی زبان کا بڑا حصہ مخصوص بہ افسانہ نگار ہے۔ اور اسی سے ابن صفی کے اسلوب کی تشکیل ہوتی ہے۔ یہ زبان ایسے مواقع پر متشکل ہوتی ہے جہاں ابن صفی کو فروعات نگاری، سراپا نگاری اور جنس کے بیان کا بھر پور موقع مل سکتا تھا لیکن ابن صفی اپنے خاص اسلوب اور زبان کے ذریعے کفایت شعاری کو برقرار رکھتے ہیں۔ یعنی ابن صفی ایسے موقعوں پر ماحول اور گردوپیش کو طول دینے کے بجاے بیان کو اس طرح مرتب کرتے ہیں کہ پورا بیان جدلیاتی ہوجاتا ہے۔ مثلاً
باہر لان پر سورج کی پہلی کرن گلابی رنگ کی پچکاری ماررہی تھی اور رکھوالی کے السیشن اس انداز میں زبانیں نکالے ہانپ رہے تھے جیسے انھی کی محنت نے سورج طلوع ہونے میں مدد دی ہو۔ ۳
ایک اور اقتباس ملاحظہ کریں:
اوپری منزل میں رہائشی کمرے تھے جہاں کم حیثیت والے غیر ملکی سیاح قیام کرتے تھے اور کم مایہ ہپی عورتیں انھی کمروں میں مقامی آدمیوں سے اپنے دوسرے دن کے اخراجات وصول کرتی تھیں۔ ۴
یہاں میں ایک بار پھر اس امر پر توجہ دلانا چاہوں گا کہ مندرجہ بالا دونوں اقتباسات میں کسی قسم کی مزاحیہ صورت حال نہیں لیکن مزاح کا عنصر ابن صفی کی تحریروں کا نہ صرف جزو لاینفک ہے بلکہ عمل تنفس ہے۔ ابن صفی کے یہاں چونکانے کا عمل تجسس، سریت یا واقعہ کے ذریعے نہیں پیدا ہوتا بلکہ مزاح کے ذریعے ہوتا ہے۔
ابن صفی کی تکنیک کے تشکیلی عناصر کی کھوج میں ’’مکالمہ نگاری‘‘ کا سراغ بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ ابن صفی کی مکالمہ نگاری عموماً چھوٹے چھوٹے فقروں اور جملوں پر مبنی ہوتی ہے۔ ان کے یہاں مکالموں ہی کے ذریعے مزاح کا ظہور ہوتا ہے اور ابن صفی کی مزاح نگاری اپنے شباب پر ہوتی ہے۔ بالخصوص عمران سیریز کے حوالے سے۔ ابن صفی نے طویل مکالموں سے بھی کام لیا ہے لیکن یہ عام طور پر بیانیہ کے اس مقام پر استعمال کیے جاتے ہیں جہاں مقصدیت کا اظہار کرنا ہو۔ عام طور پر ایسے مکالمے فریدی کے ہوا کرتے ہیں جو کہانی کے اختتام پر ظاہر ہو کر پورے بیانیے کو سمیٹ دیتا ہے۔ یا کبھی کبھی کسی غیر مستقل کردار کے مکالمے بھی خاصے طویل ہوجاتے ہیں۔ ایسے مکالمے ابن صفی کے مقصدی اور افادی نقطۂ نظر کی مجبوری ہیں، ورنہ چھوٹے اور برجستہ مکالموں کے مقابل طویل مکالمے زیادہ قوی نہیں معلوم ہوتے۔ البتہ طویل مکالموں کا سب سے توانا پہلو یہ ہے کہ انھی مکالموں میں بڑے بڑے نظریات، فلسفیانہ خیالات، دانشورانہ تفکرات اور مسلمہ اصول و نظریات پر تنقید کی جاتی ہے اور مختلف آئیڈیالوجی کے تعلق سے تشکیک کا رویہ اپنایا جاتا ہے۔ لہٰذا کہا جاسکتا ہے کہ ابن صفی کا بیانیہ ’’مکالموں‘‘ سے تشکیل پاتا ہے۔ اگر اردو فکشن میں بیانیہ کی تشکیل میں مکالموں کو مہارت سے استعمال کرنے والوں کی فہرست سازی کی جائے تو ابن صفی سرِ فہرست ہوں گے۔ نیز کسی تحریری بیانیے میں مکالموں سے زیادہ سے زیادہ کام کس طرح لیا جاسکتا ہے: اس ضمن میں بھی ابن صفی ہی سے رہنمائی حاصل کی جاسکتی ہے۔ ابن صفی کی مکالمہ نگاری کے بارے میں ڈاکٹر خالد جاوید لکھتے ہیں:
مکالمے کے تو وہ بادشاہ ہیں میرے ناقص خیال میں ابن صفی جس قسم کا چست مکالمہ لکھتے ہیں وہ منٹو کے علاوہ اور کہیں نظر نہیں آتا۔ بے حد چست مکالمے اور برجستگی ان کی تحریروں کی ایسی خوبی ہے جسے کوئی بھی محسوس کرسکتا ہے۔ ۵
اور یہ بالکل صحیح بات ہے کہ برجستہ اور چست مکالمے ہی نہیں لفظی کفایت شعاری میں بھی ابن صفی اور منٹو کا ہمسر نہیں ملے گا۔ ان کے بعد اگر کسی کا نام لیا جائے تو وہ نام ’راجندر سنگھ بیدی‘ ہے۔
کسی بیانیے میں مکالمے کا عنصر غالب ہونے کی صورت میں، کردار بیانیے کا جزولاینفک ہوتے ہیں۔ عمدہ مکالمے، عمدہ کردار کو وجود بخشتے ہیں۔ کردار کی تہہ داری اور معنوی امکانات اس وقت زیادہ توانا معلوم ہوتے ہیں جب کردار کے بارے میں کوئی رائے، راوی کے بیان کے بجاے مکالموں اور کہانی میں کردار کے تفاعل کے ذریعے قائم کی جاتی ہے۔ ابن صفی کے کرداروں کے حوالے سے یہ بات خصوصیت کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ راوی کے بیانات پر کم ہی انحصار کرنا پڑتا ہے۔ خود ابن صفی کو بجا طور پر اپنے کرداروں کی توانائی اور انفرادیت کا احساس تھا۔ یہی احساس ان سے مغربی جاسوسی کرداروں شرلاک ہومز، واٹسن، ڈوپن اور جیمس بانڈ کو مضحک کہلواتا ہے۔ ڈاکٹر خالد جاوید نے ان مغربی کرداروں سے ابن صفی کے کرداروں کے تقابل کو مضحکہ خیز قرار دے کر ان کے امتیازات کی طرف اہم اور معنی خیز اشارہ کیا ہے۔ ۶ ابن صفی کی کردار نگاری میں جو تنوع ہے اسے موٹے طور پر تین زمروں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔
۱۔ مستقل مگر مثبت کردار ۲۔ مستقل مگر منفی کردار ۳۔ عارضی کردار
ابن صفی کے مستقل کرداروں کو عام طور پر اسٹیریو ٹائپ یعنی اکہرا کردار سمجھا جاتا ہے۔ جب کہ اصل معاملہ یہ ہے کہ ابنِ صفی کے مستقل کرداروں کو اکہرا، غیر پیچیدہ اور زوال آمادہ سمجھنا ایک فاش غلطی ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو عمران، فریدی، حمید، قاسم، روشی، جولیا، غزالہ، لیڈی انسپکٹر ریکھا، انور، رشیدہ، نیلم، جوزف، سلیمان، تھریسیا، سنگ ہی، طارق، کیپٹن فیاض وغیرہ ہمارے حافظے کا حصہ کبھی نہ بن پاتے۔ حالاں کہ حافظے کا حصہ بننے کے لیے کرداروں کا پیچیدہ ہونا شرط نہیں۔ ابن صفی کا شاید ہی کوئی کردار اکہرا ہو۔ ابن صفی کا کمال یہی ہے کہ انھوں نے اپنے کرداروں کی پیچیدگی کو تھال میں سجا کر پروسا نہیں اس لیے وہ بظاہر اکہرے معلوم پڑتے ہیں۔ ابن صفی کے سارے اہم مشرقی کرداروں کی پرورش نوآبادیاتی مشرق میں ہوئی ہے اور وہ اسی کے نمائندہ ہیں۔ اس کے برعکس مغربی کرداروں کی اپج استعماری اذہان کی غماز ہے۔ عمران، روشی، جولیانافٹز واٹر اور تھریسیا کے مابین رشتوں کی پیچیدگی اور ان کے رویوں کی تفہیم سے ہی یہ گرہ کھل جائے گی۔ عمران سے روشی، جولیا اور تھریسیا کا جو رشتہ ہے اس کی عقدہ کشائی اور تجزیے کے لیے جو غور و فکر درکار ہے اسے پیدا کرنے والا مصنف معمولی یا محض مقبول نہیں ہوسکتا۔ابن صفی نے بارہا علم نفسیات اور ماہرِ نفسیات قسم کے لوگوں کا مذاق اڑایا ہے لیکن خود ابن صفی کو نفسیات سے گہرا شغف ہے ان کے بیشتر کرداروں کی پیچیدگی نفسیات کے مرکزے میں ہی کھلتی ہے۔ لہٰذا حمید اس کلیے سے مستثنیٰ نہیں، حمید کا کھلنڈرا پن اور اس کی بذلہ سنجی ابن صفی کے فلسفۂ حماقت کا ایک ایسا چکرویو ہے جس کی وجہ سے قاری اس مغالطے میں مبتلا ہوجاتا ہے کہ فریدی- حمید سیریز کا ہیرو فریدی ہے اور حمید محض ایک ضمنی کردار ہے۔ اس حوالے سے ڈاکٹر خالد جاوید نے بڑے پتے کی بات کہی ہے، لکھتے ہیں:
۰۰۰فریدی حمید کے سلسلے کے ناولوں میں مرکزی کردار اصل معنی میں ’حمید کا ہی بن جاتا ہے۔ حمید جو یوں تو فریدی کا ماتحت ہے مگر وہ REASONING MACHINE ہرگز نہیں ہے۔ ان تمام ناولوں میں کہانی کا ارتقا حمید ہی کے ذریعے ہوتا ہے۔ کوئی نہ کوئی عجیب واقعہ، یا صورت حال جس سے حمید دوچار ہوتا ہے اور پھر اسی کے ذریعے کہانی آگے بڑھتی ہے۔ پلاٹ میں پیچ و خم پرتے ہیں۔ حمید سے اکثر لغزشیں ہوتی ہیں۔ حماقتیں ہوتی ہیں اور یہی وہ خوبصورت اور سحر انگیز ماحول ہے جسے ابن صفی انتہائی فنکارانہ انداز میں تخلیق کرتے ہیں۔ اس ماحول میں ان کے بیانیے کے جوہر کھلتے ہیں۔ ۷
حمید کے کردار کے بارے میں یہ مختصر مگر جامع گفتگو ہے۔ جب قاری اس چکرویو کے بھید کو پالیتا ہے تو یہ اسرار کھلتا ہے کہ ناول میں حمید کا تفاعل محض پھکڑپن تک محدود نہیں بلکہ حمید اپنے قہقہوں اور اپنی کھلنڈرانہ سرشت کے لیے فلسفیانہ جواز رکھتا ہے۔ وہ یہ بھی نہیں کہتا کہ اس کی یہ سرشت فطری ہے لیکن اس کے نزدیک قہقہہ، بے نیازی اور کھلنڈرا پن زندہ رہنے کے لیے ضروری ہے:
زندہ رہنے کے لیے اپنی کھال پر کتنی تہیں چڑھانی پڑتی ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ روح کی کراہ قہقہوں سے بھی جھانکتی رہے۔ ۸
یہی وجہ ہے کہ حمید خود کو کھلنڈرا اور لاابالی ظاہر کرتا ہے، اپنے داخلی کرب کو اپنی بظاہر لایعنی باتوں اور بکواس کے ذریعے خارج میں لاتا ہے۔ اس نے جان بوجھ کر فراریت کی راہ اپنائی ہے کیوں کہ وہ انسانیت پر بھروسہ کرنا چاہتا ہے زندگی کو خوبصورت محسوس کرنا چاہتا ہے۔ ورنہ کائنات اور انسان میں پوشیدہ گندگی کے ڈھوروں سے وہ بھی واقف ہے۔ لہٰذا ایک موقعے پر وہ فریدی سے کہتا ہے:
فریدی صاحب! یہ دنیا محض فلسفہ اور منطق ہی نہیں ہے۔ کبھی ریاضی کے بندھنوں سے نکل کر حمید خاں کی دنیا میں بھی آئیے۔ اگر آپ جھنجھلا کر اپنی آنکھیں نہ پھوڑلیں کان نہ اکھاڑ ڈالیں تو میرا ذمہ۔ ۹
اور حمید خاں کی دنیا میں ایک دوست دوسرے دوست کی بیوی سے عشق کرتا ہے۔ اس وقت سے جب عاشق ۱۵ سال کا اور معشوق ۱۲ سال کا تھا۔ سیدھے سادے دوست کی بیوی شوہر کو الّو سمجھتی ہے۔ اتنا ہی نہیں خود حمید نے بھی شہناز نامی لڑکی سے عشق کیا اور شادی بھی کرلیتا لیکن ایک وکیل دوست شہناز کو لے اُڑا۔ شہناز نے بھی وکیل کو ترجیح دی یہ سوچ کر کہ وہ وکیل کے ساتھ زیادہ خوش رہ سکتی ہے۔ اور اب حمید خاں لڑکیوں میں بیٹھ کر غپیں مارنے کے شائق ہیں، عشق کرنے کے نہیں۔ اور کیا ہے حمید خاں کی دنیا میں:
’’ایک ایسی عورت کو بھی جانتا ہوں جو اپنے سوتیلے بھانجے سے عشق کرتی ہے۔‘‘
’’کیا فضول بک رہے ہو!‘‘ فریدی بڑبڑایا۔
’’ایک سوتیلی… ‘‘
’’اب چانٹا ماردوں گا!‘‘ فریدی اٹھتا ہوا بولا۔‘‘ ۱۰
ساجد حمید کی باتیں محض تفریح لگتی ہیں۔ کیا حقیقتاً ایسا ہی ہے جیسا نظر آتا ہے۔ نہیں! حمید کی نظروں میں بھی میرؔ کے مطابق دنیا توہم کا کارخانہ ہے اور اس بات سے واقف بھی ہے کہ یہاں وہی ہے جو اعتبار کیا۔ وہم، یقین، گمان اور حقائق کی آویزش حمید کو کبھی کبھار اُداس کردیتی ہے اور وہ جھنجھلاہٹ کا شکار ہوجاتا ہے۔حمید جنگِ عظیم کے دوران ملٹری کی سیکرٹ سروس میں سارجنٹ کے عہدے پر رہ چکا ہے۔ وہ شاعر بننا چاہتاتھا لیکن فوج میں جانا پڑا اور اس کے بعد فریدی کے محکمے میں فریدی کا ماتحت۔ دونوں ہی جگہوں پروہ جس انسانیت سے دوچار ہوا اور جس کائنات کا مشاہدہ کیا وہ شاعر حمید کے تخیل سے بہت مختلف تھی۔ اسے یقین نہیں کہ کھلونے بنانے والا جاپان بھی استعماریت کی ہوڑ میں لگ کر ایک تباہ کن جنگ میں شریک ہوگیا ہے۔ حمید نے فریدی کے شانہ بشانہ، اور کبھی چارا بن کر سنگین جرائم اور خوفناک مجرموں کو کچلا تھا۔ لیکن وہ بعض چھوٹے چھوٹے معاشرتی اور گھناونے جرائم سے اس قدر متاثر ہوتا ہے کہ کڑھتا ہے۔ مگر کب تک کڑھتا رہے لہٰذا اس نے ان جرائم کو تفریح کا نام دیا ہے۔ حمید اداس تو ہوسکتا ہے لیکن سنجیدہ نہیں۔ حمید کی سنجیدگی بھی مضحکہ خیزی کی نذر ہوجاتی ہے۔ کئی لوگ اس بات کے متلاشی ہیں کہ حمید کن موقعوں پر سنجیدہ ہوتا ہے اور کچھ اس بات کے متمنی ہیں کہ کاش!! حمید کسی موقعے پر سنجیدہ نظر آئے—— ایسی ہی ایک خواہش کے جواب میں فریدی، نیلم سے کہتا ہے:
تمھاری خواہش مناسب نہیں ہے۔ اگر حمید سنجیدہ ہوگیا تو اس کی ذہانت کسی ویرانے کی دلدل بن جائے گی۔ وہ ایک قدم بھی نہ چل سکے گا۔ ۱۱
فریدی کے نزدیک حمید کی زندگی کا انحصار ہی بکواس پر ہے۔ مندرجہ بالا اقتباس در اصل حمید کے بارے میں فریدی کی اسی رائے کی توجیہ ہے۔ حمید کا خیال ہے کہ ساری غلط فہمیاں راوی نے پھیلائی ہیں اور عذر یہ پیش کیا ہے کہ زیبِ داستان کے لیے کچھ تو ہونا چاہییے۔ بہر حال حمید کا راوی بیان کرتا ہے:
حمید کے بارے میں یہ کہنا قطعی غلط ہوگا کہ وہ ہمیشہ ہی کھلنڈرے پن کے موڈ میں رہتا تھا لیکن موڈی تو بہر حال تھا۔ ابھی ہنس رہا ہے … قہقہے لگا رہا ہے … دوسروں کی پگڑی اچھال رہا ہے اور خود بھی تماشہ بن رہا ہے لیکن کوئی نہیں کہہ سکتا کہ اسی ہنگامہ سرمستی میں کب اس کے ذہن کے کسی تاریک گوشے سے اداسی کی ایک ہلکی سی لہر شعور میں رینگ آئے اور وہ یک بیک اس طرح خاموش ہوجائے جیسے گھنٹوں سے ہونٹ سیئے بیٹھا رہا ہو۔ ۱۲
فریدی کے تعلق سے ایک کسک یہ اٹھتی ہے کہ کیا فریدی کوئی بے روح انسان ہے جس کی زندگی میں نہ کوئی تفریح ہے نہ تماشا۔ اس ضمن میں کہا جاسکتا ہے کہ فریدی نے اپنی تفریح کے سامان ہی اور کیے ہیں۔ لیکن حمید کی موجودگی پر غور کیا جانا چاہیے، میرا خیال ہے حمید کے وجود کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ اس کی فقرے بازیاں، جھلّاہٹیں اور جھلاہٹ میں کی جانے والی حرکتوں کے ذریعے فریدی کی روح کو غذا ملتی رہے۔ اس مختصر تحریر میں کردار نگاری کے حوالے سے گفتگو کا محور حمید اس لیے ہے، کہ عام طور پر ابن صفی کے ناولوں کو ہیروازم اور آئیڈیلزم کے سیاق میں دیکھا گیا ہے۔ اس سیاق میں فریدی-حمید سیریز کا ہیرو فریدی قرار پایا۔ جب کہ واقعہ یہ ہے کہ اس سیریز میں سب سے زیادہ متحرک اور تفاعلی کردار فریدی نہیں حمید ہے۔ اب اگر ہیرو بمعنی مرکزی کردار لیا جائے تو سب سے اہم مرکزی کردار حمید ہے نہ کہ فریدی۔ حمید کے بغیر نہ تو کہانی آگے بڑھتی ہے اور نہ ہی کوئی تغیر ہوتا ہے۔ ہیرو اور ہیروازم کو مغربی اصطلاح کے تناظر میں دیکھا جائے تو عمران اور حمید دونوں ہی اس سے ماورا ہیں۔ ڈاکٹر خالد جاوید نے عمران کے کردار کو ایک قسم کا ’’اینٹی ہیرو‘‘ قرار دیا ہے۔ ۱۳ میرے نزدیک حمید اس ’’اینٹی ہیرو‘‘ کی ارتقا پذیر شکل ہے۔
ابن صفی کی تکنیک پر گفتگو کا ماحصل یہ ہے کہ ان کے یہاں پلاٹ کے روایتی تصور میں بھی جدت طرازی نمایاں ہے۔ انھوں نے مزاح کو پلاٹ کا نعم البدل بنا دیا ہے۔ ابن صفی کے یہاں پلاٹ میں دلچسپی دو چیزوں سے وجود میں آتی ہے: مزاح اور زبان۔ بیانیہ کے عناصر ترکیبی میں مکالمہ نگاری اور کردار نگاری کا غیر معمولی حصہ ہے۔ ان دو عوامل کے علاوہ جو امر ابن صفی کے ناولوں کو ’’محلِ بحث‘‘ بناتا ہے وہ یہ ہے کہ گوناگوں فلسفوں اور نظریوں کے تعلق سے تشکیک کا پہلو اپنے آپ میں اس بات کی پوری قوت رکھتا ہے کہ، پس نوآبادیاتی تہذیب میں استعماری ڈسکورس کے اثرات کے مقابل ابن صفی کی تخلیقات کو ایک متبادل بیانیے کے طور پر پیش کرسکے۔ نہ صرف برصغیر کے حوالے سے بلکہ بسا اوقات پورے مشرق کا نمائندہ بن کر۔
حوالے:
۱۔ جاوید، ڈاکٹر خالد، ۲۰۰۷، ابن صفی: چند معروضات، مشمولہ: اردو میں پاپولر لٹریچر روایت اور اہمیت، مرتبین:ارتضیٰ کریم، اظہار عثمانی، اردو اکادمی ، دہلی، ۲۰۰۷، ص: ۹۳
۲۔ ————–، ۲۰۱۴، ابن صفی کا عمران: ایک جائزہ، مشمولہ: ابن صفی (شخصیت اور فن کے آئینے میں)، ترتیب: خالد محمود و خالد جاوید، اردو اکادمی، دہلی، ۲۰۱۴، ص: ۱۳۹
۳۔ صفی، ابن، ۱۵ ستمبر ۱۹۵۷، رائفل کا نغمہ، ج: ۳۴، مرتبہ: عارف اقبال، فرید بکڈپو، دہلی، ۲۰۰۹، ص: ۳۱۱
۴۔——–، ۲۰ اپریل ۱۹۷۶، بے چارہ شہہ زور، ج:۵۲، مرتبہ: عارف اقبال، فرید بکڈپو، دہلی، ۲۰۱۱، ص: ۲۳۸
۵۔ جاوید، ۲۰۰۷، ص: ۹۹
۶۔ —-، ۲۰۱۴، ص: ۱۳۸
۷۔ —–، ۲۰۰۷، ص: ۹۹
۸۔ صفی، ابن، ۲۱ مارچ ۱۹۵۹، الٹی تصویر، ج: ۴۰، مرتبہ: عارف اقبال، فرید بکڈپو، دہلی، ص: ۱۰۹
۹۔ ——–، ۱۵ جولائی ۱۹۵۴، مونچھ مونڈنے والی، ج: ۱۸، مرتبہ: عارف اقبال، فرید بکڈپو، دہلی، ۲۰۰۷، ص: ۹۱
۱۰۔ ——–، ایضاً
۱۱۔——–، ۱۳ جنوری ۱۹۵۸، لاش کا بلاوا، ج: ۵، مرتبہ: عارف اقبال، فرید بکڈپو، دہلی، ص: ۷۷
۱۲۔——–، ۴ دسمبر ۱۹۵۹، فرہاد ۵۹، ج: ۴۰، مرتبہ: عارف اقبال، فرید بکڈپو، دہلی، ص: ۴۴۱
۱۳۔ جاوید، ۲۰۰۷، ص: ۱۰۶
……………………………….
Leave a Reply
1 Comment on "ابنِ صفی کی تکنیک"
[…] ابنِ صفی کی تکنیک← […]