اردو غزل کے روایتی کردار، نو آبادیاتی تناظر میں (دوسری اور آخری قسط)۔
محمد رؤف
شعبۂ اردو، گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج، سمن آباد، فیصل آباد
۔۔۔۔۔۔۔۔دوسری اور آخری قسط۔۔۔۔۔۔۔
جب یہی عاشق بدیسی معشوق (نوآبادکاری) سے مخاطبہ کرتا ہے تو اس کا لہجہ ، لفظیات اور انداز روایتی طرز سے جدا ہوتا ہے:
قتل عاشق کسی معشوق سے کچھ دور نہ تھا
پر ترے عہد سے آگے تو یہ دستور نہ تھا
(دیوان درد، ص ۲۴)
ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے
تمھی کہوں کہ یہ انداز گفت گو کیا ہے
(کلیات غالب، ص ۲۹۸)
عاشق ہوں پہ معشوق فریبی ہے مرا کام
مجنوں کو برا کہتی ہے لیلیٰ میرے آگے
(کلیات غالب، ص ۳۲۶)
جلوہ زار آتش دوزخ ہمارا دل سہی
فتنۂ شورِ قیامت کس کی آب و گل میں ہے
(کلیات غالب، ص ۲۷۳)
سمجھ سوچ کر دل دیا ہم نے ان کو
کوئی آفتِ ناگہانی نہیں ہے
(یادگار داغ، ص ۲۲۰)
اس طرح حسن و عشق کی نوع بہ نوع وارداتیں اور گھاتیں معاصر صورت حال کی معادل غیر روایتی اور نوتراشیدہ تلازمات کی صورت میں بھی سامنے آتی ہیں:
معرکہ گرم تو ہولینے دو خوں ریزی کا
پہلے تلوار کے نیچے ہم ھی جابیٹھیں گے
(کلیاتِ میر، ص 175)
برسے اگر شمشیر سروں پر منہ موڑیں زنہار نہیں
سیدھے جانے والے ادھر کے کس کے پھیرے پھرتے ہیں
(کلیات میر، ص 410)
میری ہستی فضائے حیرت آبادِ تمنا ہے
جسے کہتے ہیں نالہ وہ اسی عالم کا عنقا ہے
(کلیات غالب، ص 206)
یہ وہ طرز احساس ہے جو نوآبادیاتی صورت حال میں صنفِ غزل کا ایک توانا رجحان بن کر سامنے آیا۔ خودداری اور مزاحمت کاری کے یہی وہ منتشر انفرادی جذبے ہیں جو آگے چل کر تنظیم پاتے اور تحریک آزادی میں ڈھلتے نظر آتے ہیں۔ نیز یہی حسّیات بعد ازاں ظفر علی خاں اور علامہ اقبال جیسے شعرا کے اسلوب میں ظاہر ہوئیں۔
اس دور کی غزل کا تیسرا اساسی کردار رقیب یا غیر کا ہے جو اپنی سادہ تلازماتی صورت میں بہ آسانی استعمار کاروں کا قائم مقام سمجھا جاسکتا ہے۔ ان تلازمات میں بھی ہمیں کچھ ایسے کوڈز اور ایمائی نشانات مل جاتے ہیں جو ان کی غیر روایتی حیثیت واضح کردیتے ہیں:
غیروں سے التفات پہ ٹوکا تو یہ کہا
دنیا میں بات بھی نہ کریں کیا کسی سے ہم
(یا دگارِ داغ، ص 96)
آگے تو گل چیں تھے ہم اس حسن کے گلشن کے آہ
اب تو اس رشک چمن سے غیر پھل پانے لگا
(دیوانِ جہاں دار ، ص 63)
غیر نے ہم کو ذبح کیا، نے طاقت ہے نے یارا ہے
اس کتّے نے کرکے دلیری صیدِ حرم کو مارا ہے
(کلیاتِ میر، ص 171)
میرؔ نے اپنے اشعار میں متکلم کا صیغہ بہ کثرت استعمال کیا ہے۔ اردو غزل کی اپنے قارئین سے یہ خاموش مفاہمت رہی ہے کہ اس کا صیغۂ متکلم مختلف کرداروں کا قائم مقام ہوسکتا ہے۔ لہذا آخر الذکر شعر میں ’ہم‘ کی ضمیر ہندوستانی قوم کی ترجمان ہے اور ’اس کتے‘ کا ’صید حرم‘ کو مارنا اور پھر پہلے مصرعے میں ’ذبح‘ کا لفظ نیز ’طاقت ہے نے یارا ہے‘ کا نوحہ نوآبادیاتی معنویت کی بہ خوبی غمازی کررہا ہے۔ پروفیسر فتح محمد ملک (16) اور ڈاکٹر معین الدین عقیل (17) وغیرہ نے اسی تعبیر پر صاد کرتے ہوئے ’اس کتے‘ سے مراد بدیسی استعمار کار ہی لیا ہے۔ اس مضمون کو میرؔ کی ایک فارسی رباعی میں بھی بہ ادنیٰ تصرف یوں باندھا گیا ہے:
دیرے ست کہ غیر را تو بنواختہ ای
وزکیں بہ من اش دلیر تر ساختہ ای
اے ترک سیاہ چشم شرمت بادا
آہوئے حرم پیشِ سگ انداختہ ای
(دیوانِ میر (فارسی) ، ص 207)
واضح رہے کہ عام سگ یعنی کتے کے معنی انسلاکات میر کے ہاں اس قدر کریہہ نہیں۔ اپنی ایک مثنوی ’در تعریف مادہ سگ‘ میں وہ اسی جان ور کے لیے ’سگِ اصحابِ کہف کی خالہ‘ (کلیات میر، ص 797) کا مصرع موزوں کرتے ہیں۔ اسمائے ضمائر کے ساتھ ساتھ غزل کے اسمائی کردار بھی نو آبادیاتی فضا میں نئے معنوی آفاق روشن کرتے نظر آتے ہیں۔ چند اشعار دیکھیے:
غزالاں تم تو واقف ہو کہو مجنوں کے مرنے کی
دیوانہ مرگیا آخر کو ویرانے پہ کیا گزری (18)
یوں قتل سے بچوں کے وہ بدنام نہ ہوتا
افسوس کہ فرعون کو کالج کی نہ سوجھی
(کلیات اکبر، ص 67)
مرض پیدا کیے لاکھوں دوا سے
مسیحا ہے ہمار چارہ گر بھی
(یادگار داغ، ص 220)
واضح رہے کہ یہ تمام اشعار نو آبادیاتی سیاق اور تناظر میں ہی اپنا صحیح تر مفہوم حاصل کرپاتے ہیں۔ یہاں اگر اسمائی کرداروں کو غزل کے روایتی سیاق میں لیا جائے تو تفہیمی سطح پر ایک عجیب طرح کی ادبی لاقانونیت (Litrary Anarchy) نظر آنے لگے گی۔ ڈاکٹر طارق ہاشمی غزل کے اسمائی کرداروں کی معنوی جہات پر رائے دیتے ہوئے رقم طراز ہیں:
’غزل کے اسمائی کردار محبت کی تثلیث سے بھی تعلق رکھتے ہیں لیکن ان سے کہیں زیادہ معاشرے کے ہر نوع اور فرد کی نمائندگی کرتے ہیں۔ یہ کردار علامتیں بھی ہیں جو کسی انسانی طبقے، صنف یا مزاج سے وابستہ افراد کے اجتماع کا استعارہ بن کر ابھرتی ہیں۔‘‘ (19)
واضح رہے کہ شعرا نے مصلحت وقت کے پیش نظر غزل کے کرداروں کی اس قلبِ ماہیت کا خود بھی جابہ جا اشارہ کیا ہے تاکہ اس صنف کے روایتی نظامِ فکر و اقدار سے جدید عہد کی غزل کا بدلا ہوا طرز متناقض قرار دے کر رد نہ کردیا جائے:
صورت پرست ہوتے نہیں معنی آشنا
ہے گفتگو بتوں سے مرا مدعا کچھ اور
(کلیات میر، ص 268)
سرود و نغمۂ مطرب کی آوازیں تو دل کش ہیں
مگر میری زباں اس کے سوا کچھ اور کہتی ہے
(یادگار ِ داغ، ص 207)
حال پہلو بچا کے لکھا ہے
تاڑ جائے وہ نکتہ چیں نہ کیں
(مہتابِ داغ، ص 104)
شیخ و سید سے تو خالی نہیں ذکرِ شاعر
ذات سے ان کی مخاطب نہیں فکرِ شاعر
(کلیاتِ اکبر، ص 102)
ناقدین نے ان اشعار کی تشریح و تفسیر کرتے ہوئے ہندوستان کے سیاسی، سماجی اور تاریخی تناظر پر توجہ ضرور دی ہے مگر پھر بھی نوآبادیاتی صورتِ حال کو اس کے مقتدر کلامیے کے موثرات کے متناسب تعبیر و تصریح میں وہ اہمیت نہیں ملی جس کی یہ متقاضی ہے۔ اس تناظر میں مثال کے طور پر داغ دہلوی کے یہ اشعار کسی منّی بائی حجاب، اختر جان یا لاڈلی بیگم کے بہ جائے ولیم فریزر، میجر ہڈسن، مارسٹن بلیک یا جنرل ڈیوڈ کی کسی نہ کسی کارستانی کی چغلی کھانے لگیں گے۔ (20)
تعجب ہے کہ اس بیداد پر بھی
تجھے اچھا کہا سارے جہاں نے
(یادگار داغ، ص 493)
یا رحم آگیا اسے یا قتل ہوگئے
ہم سر جھکائے بیٹھے ہیں قاتل کے سامنے
(ص 244)
کہتے جاتے ہیں آپ سب کو برا
اور کہہ کر مکرتے جاتے ہیں
(ص 106)
کس کی طاقت ہے کرے کوئی برائی آپ کی
ساری دنیا آپ کی، ساری خدائی آپ کی
( ص 168)
نوآبادیاتی دورانیے کی غزلیہ روایت پر ناقدین نے اپنی آرا میں حسن و عشق کی سیاسی ایمائیت کی طرف ۔۔۔ اجمالی اور نظری انداز میں ہی صحیح ۔۔۔ اشارے ضرور کیے ہیں، مشتے از خروارے ملاحظہ ہوں:
(الف) ’’غزل کا بنیادی حوالہ حسن و عشق ہے۔ حیات وکائنات ، خدا اور انسان کے تعلق سے ساری باتیں اور زندگی کے سارے تجربے اسی حوالے سے غزل میں آتے ہیں ‘‘ (21)
(ب) ’’مصحفیؔ کے لیے غزل ان کے زندہ تجربوں اور مشاہدوں کے اظہار کا ذریعہ تھی جس میں حسن و عشق علامت کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔‘‘ ( 22)
(ج) ’’غالب سے پہلے غزل زیادہ تر حسن و عشق کی زبان میں حسن و عشق کی داستان تھی۔ غالب نے اسے حسن و عشق کی زبان میں ایک نئی شخصیت اور نئے ذہن کا ترجمان بنایا ۔‘‘ (23)
(د) ’’اکبرؔ نے غزل میں حسن و عشق کے تاثرات کو ماحول کا آئینہ دار بنایا‘‘۔ (24)
(س) ’’حسرت کا کلام مجاہد عاشق کا کلام معلوم ہوتا ہے جو عشق اور آزادی دونوں میں حوصلہ و امید کے ہتھیاروں سے آراستہ اور ولولۂ عمل سے مسلح ہے۔‘‘ (25)
ہندوستان میں یوں تو نوآبادیاتی دور 1857ء میں شروع ہوا مگر اس کا بالواسطہ اہتمام 1757 کی جنگ پلاسی سے ہی ہوچکا تھا جب کمپنی نے سراج الدولہ کو شکست دے کر بنگال کازرخیز علاقہ ہتھیالیا اور مغل شاہنشاہیت کی معاشی شہ رگ کاٹ دی۔ 1764 سے 1857 تک ہندوستان میں دوہری حکومت رہی۔
(1) لال قلعے کی نام نہاد حکومت (ب) کلکتہ کی حقیقی مقتدر حکومت
میر تقی میر نے اپنی سوانحی کتاب ’ذکر میر‘ میں فرنگی کے ہاتھوں میں کھیلتے اس وقت کے مغل فرماں روا شاہ عالم ثانی کو ’کٹھ پتلی حکمران‘ اور بادشاہ کے خطاب کو اس کے لیے ایک ’تہمت‘ قرار دیا ہے۔ (26) غزل گو شعرا نے اس دورنگی فضا کی ترجمانی کے لیے ایک ایمائی کردار کے پس منظر میں دوسرا کردار تخلیق کرکے اپنا اظہاری منہاج تراشا ہے:
کیا پتنگے کو شمع روئے میرؔ
اس کی شب کو بھی ہے سحر درپیش
(کلیات میر، ص 400)
سمندِ آسماں کب آپ سے دوڑے ہے اس پر تو
کسی کی ایڑ پر ہے ایڑ اور کوڑے پہ کوڑا ہے
(کلیات نظیر، ص 146)
چوں جمبش سپہر بہ فرمان داور است
بیدا نہ بود آنچہ بماز آسماں رسد
(کلیات غلابِ فارسی ، ص 36)
اور اکبرؔ نے انگریزوں کے خود اپنی سوسائٹی کے لیے انصاف دوست اور جمہوریت پسند ہونے جب کہ ہندوستان میں ظلم روا رکھنے جیسے دوہرے معیار پر احتجاج کرتے ہوئے کہا تھا:
عرش پر نورِ الٰہی جلوہ گر ہے ہم کو کیا
اہل دنیا کو تو فیض مہر انور چاہیے
(27)
اسی طرح اس دور کی غزل کے نباتیاتی اور حیواناتی کردار بھی نئے تناظر میں غیر روایتی معنویت کا سامان کیے ہوئے ملتے ہیں۔ مزید برآں اس عہد کی خمریات اگر بادہ و جام کی جدید معنوی جہات لیے ہوئے ہے تو حبسیات میں بھی معاصر صورت حال سے مطابقت پزیر ایک نیا ایمائی نظام ملتا ہے۔ یہاں صیّاد کی نوع بہ نوع گھاتیں بھی ہیں اور اسیرانِ قفس کی متنوع کیفیات بھی: کچھ پرندے قید ہوتے ہی پھڑ پھڑاکر مرجاتے ہیں، بعض منقار زیر پر کیے گم سم بیٹھے ہیں، ایسے بھی ہیں جو اسیری میں چہکنا سیکھ گیے ہیں، اور معدودے چند پرندے ایسے بھی کہ بہ قول غالب:
کریں قفس میں فراہم خس آشیاں کے لیے
(کلیات غالب، ص 286)
الغرض نو آبادیاتی دور میں جب استعمار کاروں نے اپنے مقتدر کلامیے سے مقامی نظامِ خیال پر دھاوا بولا تو استعمار زدہ قوم کے شعرا نے غزل کے کرداروں کی معنوی قلب ماہیت کرکے اسے جدید صورت حال میں اپنی کلامیاتی سرحدات کی حفاظت کے قابل بنایا اور حاکم و محکوم کے باہمی ثقافتی رشتوں کی اس طور پر ترجمانی کی کہ اس عہد کی تاریخ کا ہر پہلو اپنے پورے جزیات کے ساتھ اس صنف کے دامن میں سمٹ آیا ہے۔
حوالہ جات
16 ۔ فتح محمد ملک، پروفیسر : تعصبات ص 36
پروفیسر صاحب نے اس شعر کا دوسرا مصرعہ یوں لکھا ہے:
’’اس کتے نے کرکے دلیری صید حرم کو پھاڑا ہے‘‘
یہاں ’پھاڑا ہے‘ کا لفظ زیادہ بلیغ ہے۔ واضح رہے کہ یورپی استعمار کاروں کی رعایت سے میکر نے کتے کا مترادف انگریزی لفظ ’ڈاگ‘ بھی استعمال کیا ہے جو اردو شاعری میں غالباً پہلا انگریزی لفظ ہے:
لڑکے دلّی کے ترے ہاتھ میں کب آئے میرؔ
پیچھے ایک ایک کے سو سو پھرے ہیں ڈاگ لگے (کلیات میر، ص 341)
17 ۔ عقیل، معین الدین، ڈاکٹر: تحریک آزادی میں اردو کا حصہ ، لاہور مجلس ترقی ادب، 2008، ص 62
18۔ موزوںؔ ، رام نرائن، منقولہ: تذکرہ شعرائے اردو، مرتبہ: میر حسن، ص 150
19۔ طارق ہاشمی، ڈاکٹر: اردو غزل کے اسمائے ضمیر، مشمولہ : ادب و ثقافت، فیصل آباد، جنوری 2009، ص 11
20۔ ایضاً ، ص 14
21۔ جمیل جالبی، ڈاکٹر : تاریخ ادب اردو، ج 3، لاہور : مجلس ترقی ادب، 2008، ص 74
22۔ ایضاً ، ص 250
23۔ سرور، آل احمد: غالب کا ذہنی ارتقا، مشمولہ: احوال و نقد غالب، مرتبہ: محمد حیات خاں سیال، لاہور: نذر سنز، 1968، ص 311
24۔ نظیر، اصغر حسین خاں: اکبر الہ آبادی، لاہور : مکتبہ کارواں ، س ۔ ن ، ص 31
25۔ فخر الحق نوری، ڈاکٹر: آزادی کی گونج، لاہور، پولیمر پبلی کیشنز، 2002، ص 48
26۔ نثار احمد فاروقی (مترجم) : میر کی آپ بیتی، لاہور: مجلس ترقی ادب، س ۔ ن ، ص 252
27۔ اکبر الہ آبادی: نثر اکبر الٰہ آبادی، مرتبہ: ڈاکٹر خواجہ محمد ذکریا، لاہور: مجلس ترقی ادب، 2008، ص 12
دواوین
1۔ آتش، حیدر علی: کلیاتِ آتش، ج: اول، مرتبہ: سید مرتضیٰ حسین فاضل لکھنوی، لاہور: مجلس ترقی ادب ، 1972
2۔ اکبر الٰہ آبادی، کلیاتِ اکبر، لاہور: سنگ میل پبلی کیشنز، 2008
3۔ جہاں دار، مرزا جواں بخت: دیوانِ جہاں دار، مرتبہ: ڈاکٹر وحید قریشی ، لاہور، مجلس ترقی ادب 1966
4۔ حاتم، ظہور الدین: دیوان زادہ، مرتبہ: ڈاکٹر غلام حسین ذو الفقار، لاہور، مکتبہ خیابانِ ادب، 1975
5۔ داغ دہلوی: آفتابِ داغ، لاہور: نیا ادارہ ، 1961
6۔ داغ دہلوی: مہتابِ داغ، مرتبہ: سید سبطِ حسن، لاہور: مجلس ترقی ادب، 1962
…………………………….
نوٹ: اردو ریسرچ جرنل میں شائع مضامین کو بلا اجازت دوبارہ شائع کرنا منع ہے ایسا کرنا قانونا جرم ہے۔ (ادارہ)
Leave a Reply
1 Comment on "اردو غزل کے روایتی کردار، نو آبادیاتی تناظر میں (دوسری اور آخری قسط)۔"
[…] […]