ترقی پسند ادبی تحریک کا آزادی کی جدوجہد میں حصّہ

Click here for PDF file

Click here for PDF file

ڈاکٹر وسیم انور

…………………………………….

  دنیا میں جہاں بھی انقلاب رونما ہوا، وہاں کے شعرو ادب نے اس میں نمایاں رول اداکیا ہے۔ خواہ امریکہ کی جنگ آزادی ہو یا انقلاب فرانس یا یونان کا معرکہ حریت یا انقلابِ روس، ہرجگہ اس نے اپنے دیرپا اور گہرے نقوش چھوڑے ہیں۔ اس طرح اگرہم ہندوستان کی جدو جہد آزادی میں اردو شاعری کے کردار کا مطالعہ کریں تویہ حقیقت واضح ہوگی کہ اردو شاعری ہرگام، ہرڈگر اور ہرموڑ پر آزادی کی نقیب رہی ہے۔ اردو شاعری نے جس جوش وخروش اور گھن گرج کے ساتھ تحریک آزادی میں حصّہ لیاوہ عدیم المثال ہے۔

            ہندوستان میں انگریزوں کے بڑھتے ہوئے عمل و دخل اور ان کی سامراجی چالوں، سیاسی عیاریوں، معاشی استحصال اور ثقافتی یلغار کے دوررس منفی اثرات کو اردو شاعری نے محسوس کرکے ان کے خلاف کبھی دھیمے لہجے میں اور کبھی بلند آہنگی کے ساتھ صدائے احتجاج بلند کی اور انگریزی غلامی کی زنجیروں کو توڑنے اور ملک وقوم کے پیروں میں پڑی بیڑیوں کو کاٹنے کے لئے برابرآواز اٹھائی اور سوتوں کوجگاکر عزم واستقلال اور جہد وعمل کی دعوت دی۔

            یہ اردو شاعری کے لئے قابل فخر بات ہے کہ جنگ آزادی کے ہرمرحلے پر وہ پیش پیش رہی ہے، اور اس نے اپنی تمام تر اصناف حتٰی کہ غزلوں کے ذریعہ بھی مجاہدوں اور سورماؤں کے دلوں کو گرمایا، ان کی ہمت بندھائی اور ان کاحوصلہ بلند کیا۔ اردو کے قدیم وجدید سبھی شعراء کے یہاں یہ رجحان نظر آتاہے۔

            انگریزی اقتدار کے بعد ملک کے مایوس کن حالات کے زیر اثر غالب کے لہجے میں بھی حزن و ملال کا زیروبم سنا جاسکتاہے۔ مولانا حالی اور مولانا شبلی کے کلام کا خاصہ حصہ جنگ آزادی کے لئے وقف ہے۔ اکبر الہ آبادی نے مغربی تہذیب کی تردید کے لئے طنز ومزاح کو اپنایا۔ چکبست، درگاسہائے سرور اور تلوک چندمحروم کی نظموں نے اہلِ وطن میں حب الوطنی کے جذبات بیدار کئے۔ مولانا حسرت موہانی اور مولانا ظفر علی خاں نے غیر ملکی اقتدار کو کھلے عام چیلنج کیا اور جنگِ آزادی کے سپاہیوں کے خون کی گردش تیز کی۔ علامہ اقبال نے حب الوطنی کے جذبات کو گہرائی وگیرائی عطاکی۔ انہوں نے قومی اتحاد، فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور ملک وقوم کی آزادی کے تصورات کو فلسفیانہ اساس فراہم کرتے ہوئے پورے ایشیا ء میں آزادی اور خودداری وبیداری کی ایک لہر دوڑادی ۔

            جوش ملیح آبادی کی نظموں نے بھی تحریک آزادی کی رفتار کو تیز کیا اور ان کی انقلابی نظمیں مقبول ہوئیں۔ اس پس منظر میں ترقی پسندوں کی نسل سامنے آئی ۔

            ۱۹۳۵ء میں لندن میں ’’ہندوستانی ترقی پسند مصنفین کی انجمن‘‘ وجود میں آئی، جس کے مینی فیسٹو میں کہاگیا کہ ادیب کوظلم وجبرغلامی اور سامراجی اقتدار کے خلاف آواز اٹھانی چاہیے۔ آزادی اور اتحاد کے جذبہ کو پیدا کرنا چاہیے۔ محنت کش عوام اور مزدوروں کی طرف داری کرنی چاہیے۔ قدیم توہم پرستی اور مذہبی منافرت کو ترک کرنا چاہیے۔ ماضی کی عظیم تہذیب سے انسان دوستی، حق پرستی اور صلح جوئی کو حاصل کرلینا چاہیے۔ اور جوباتیں زندگی سے فرار سکھاتی ہیں انہیں چھوڑ دینا چاہیے۔

            انجمن ترقی پسند مصنفین کے مقاصد میں سے ایک مقصد یہ بھی تھاکہ’’رجعت پسند رجحانات کے خلاف جدوجہد کرکے اہل ملک کی آزادی کی کوشش کرنا‘‘۔ ۱؂؂ لہٰذا اس ضمن میں ترقی پسند ادیبوں اور نقادوں نے اہم رول اداکیا۔

            ترقی پسند مصنفین کی انجمن کے ایک ممتاز رکن ڈاکٹر اخترحسین رائے پوری نے جدوجہد آزادی میں عملی حصہ لینے کے لئے ترقی پسندوں کو دعوت دیتے ہوئے کہا:

’’اگرہم ترقی پسند ہیں اور ہمارا ادب اپنے فرض کا پابندہے تو ہمیں اس جنگ میں عملی حصہ لیناہے۔ ہماری دعائیں یا بد دعائیں کچھ بنا بگاڑ نہیں سکتیں‘‘۔۲؂

            ۱۹۳۶ء میں ترقی پسند مصنفین کی پہلی کل ہند کانفرنس منعقد ہوئی جس میں پریم چند نے اپنے تاریخی خطبۂ صدارت میں فرمایا کہ :

’’ہماری کسوٹی پر وہ ادب کھرا اترے گا جس میں تفکر ہو،آزادی کا جذبہ ہو، حسن کا جوہر ہو، تعمیر کی روح ہو، زندگی کی حقیقتوں کی روشنی ہو، جوہم میں حرکت، ہنگامہ اور بے چینی پیدا کرے، سلائے نہیں کیونکہ اب زیادہ سونا موت کی علامت ہے۔۳؂

            اسی کانفرنس میں مولانا حسرت موہانی نے اپنی تقریر میں ترقی پسند ادیبوں سے واضح طورپر کہاکہ ہمارے ادب کوجدو جہد آزادی کی تحریک کا ترجمان ہوناچاہیے:

’’ہمارے ادب کو قومی آزادی کی تحریک کی ترجمانی کرنی چاہیے۔ اسے سامراجیوں اور ظلم کرنے والے امیروں کی مخالفت کرنا چاہیے۔ اسے مزدوروں اور کسانوں اور تمام مظلوم انسانوں کی طرف داری اور حمایت کرنا چاہیے۔ اس میں عوام کے دکھ سکھ، انکی بہترین خواہشوں اور تمناؤں کا اظہار اس طرح کرنا چاہیے جس سے ان کی انقلابی قوت میں اضافہ ہو اور وہ متحد ومنظم ہوکر اپنی جدوجہد کو کامیاب بناسکیں۔۴؂

            الہ آباد کی دوسری کانفرنس (مارچ ۱۹۳۸ء) میں پنڈت جواہرلال نہرو نے بڑی بے لاگ تقریر کرتے ہوئے ادب اور سیاست کے مابین فرق کی وضاحت کی اور پھر ادیب اور سماج دونوں کے باہمی تعلق پر روشنی ڈالتے ہوئے کہاکہ ادیب کو اپنے دور کے سماج کا نمائندہ ہونا چاہیے۔ اپنی تقریر کے آخر میں انہوں نے یورپ کے ترقی پسند مصنفین کی انجمنوں کی مثال دیتے ہوئے کہا وہاں عوامی بیداری پیدا کرنے میں اور انقلابات لانے میں ایسی انجمنوں اور مصنفوں کا بڑا ہاتھ رہاہے:

’’آنے والے انقلاب کے لئے ملک کو تیار کرنا، اس کی ذمہ داری ادیب پر ہوتی ہے۔ آپ! لوگوں کے مسئلوں کو حل کیجئے، ان کو راستہ بتائیے لیکن آپ کی بات آرٹ کے ذریعہ ہونی چاہیے۔ نہ کہ منطق کے ذریعہ۔ آپ کی بات ان کے دل میں اترجانی چاہیے۔ ہندوستان میں ادیبوں نے بڑا اثر کیاہے۔ مثلاً بنگال میں ٹیگور نے، لیکن ابھی تک ایسے ادیب کم پیدا ہوئے جو ملک کو زیادہ آگے لے جاسکیں۔انجمن ترقی پسند مصنفین کاقیام ایک بڑی ضرورت کوپورا کرتا ہے اور اس سے ہمیں بڑی امیدیں ہیں ۔۵؂

            انجمن ترقی پسند مصنفین کے ایماپر سبط حسن نے مارچ ۱۹۴۰ء میں ادارۂ’’نیا ادب‘‘لکھنؤ سے آزادی کی نظمیں کے عنوان سے ایک مجموعہ مرتب کرکے شائع کیا۔ جس میں غالب سے لے کر ۱۹۴۰ء تک کے شعراء کی ایسی نظمیں شامل تھیں جن سے قومی بیداری اور جدوجہدِآزادی کو تقویت ملے۔ اس مجموعے کادیباچہ رفیع احمد قدوائی نے لکھا۔ جس میں انہوں نے آزادی کے تصور کا ارتقاء اور اردو شاعری میں آزادی کے تصور سے بحث کرتے ہوئے آخر میں اس مجموعے کا تعارف کراتے ہوئے کہا:

’’آزادی کی نظموں کا زیر نظر مجموعہ صرف نظموں کا مجموعہ نہیں ہے بلکہ احساسِ غلامی کے ارتقاء کی تاریخ ہے اور مجھے خوشی ہے کہ مرتب نے انتخاب کی بنیاد قومی زندگی کی حقیقتوں پر رکھی ہے۔ اس انتخاب سے اس دعویٰ کی بھی تائید ہوتی ہے کہ ادب اور زندگی میں چولی دامن، کا ساتھ ہے۔ اگر ان نظموں کو غور سے پڑھاگیا تونہ صرف آزادی کے تصور کا تدریجی ارتقاء واضح ہوجائے گا بلکہ یہ بھی معلوم ہوجائے گا کہ آج کس منزل پر ہیں، ہمارے رجحانات کیا ہیں اور ہماری آئندہ منزل کیا ہوگی ۔۶؂

            قدوائی صاحب نے اس مجموعے کی اشاعت کوایک قومی خدمت قرار دیا لیکن برطانوی حکومت اس کی اشاعت کوبرداشت نہ کرسکی اور فوراً اس مجموعے کوضبط کرلیاگیا۔

            دوسری اور تیسری کانفرنس کی درمیانی مدّت میں انجمن تنظیمی لحاظ سے تعطل کاشکار رہی۔ اس دوران سجادظہیر اور بہت سے ترقی پسندوں کو جیلوں میں ڈال دیا گیا۔ جب دو سال بعد سجاد ظہیر جیل سے رہا ہوئے تو بین الاقوامی سیاسی صورت حال ایک خطرناک موڑ سے گزرہی تھی۔ دوسری جنگ عظیم کا آسیب چاروں طرف مسلط تھا۔ اس صورت حال میں جنگ کے متعلق اپنی پالیسی طے کرنے کے لئے۱۹۴۲ء میں انجمن کی تیسری کل ہند کانفرنس کا انعقاد دہلی میں کیا گیا۔ جس میں ایک اہم قرارداد پیش کی گئی کہ ہم ترقی پسند اتحادی اقوام کے ساتھ ہیں اور فاشزم کی مخالفت کرتے ہیں۔ اس خیال کے ساتھ ہی ساتھ اپنی قرارداد میں یہ بھی کہا:

’’ہم برطانوی سامراج کے اس روّیے کی مذمت کرتے ہیں کہ وہ ان نازک حالات میں ہمارے وطن کوآزادی دینے کے لئے تیارنہیں۔‘‘۷؂

            تیسری کل ہند کانفرنس کے بعد جنگ سے متعلق انجمن کی پالیسی واضح طور پر سامنے آگئی جس کی رو سے جوش اور ساغر نظامی نے اپنے مشترکہ بیانات اخبارات میں شائع کرائے جن میں کہا گیا تھا کہ عملی سیاست سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ہے لیکن ہم ایک سیاسی عقیدہ رکھتے ہیں۔ ایک سوشلسٹ نظامِ حکومت کا قیام اور ہندوستان کی مکمل آزادی ہمارا منتہائے خیال ہے۔ ہر ہندوستانی کا فرض ہے کہ وہ فاشزم کے خلاف لڑی جانے والی جنگ کی حمایت کرتے ہوئے اپنے ملک کی حفاظت کرے۔ آخرمیں انہوں نے کہا:

’’آج ہم دوہری مصیبت میں گرفتار ہیں۔ ایک طرف تو گرگ باراں دیدہ چور ہے جوہمارے گھر کے اندر چھپا ہوانہیں دندناتا پھررہا ہے اوردوسری طرف ایک خوں آشام ڈاکو ہے جوہمارا دروازہ کھٹکھٹا رہاہے۔ ہمارافرض ہے کہ ہم چور کو باہر نکال دیں اور ڈاکو کو اندر نہ آنے دیں جس کے واسطے قابلِ تسخیر اتحاد کی ضرورت ہے۔ اگرہم اس آدرش پر کاربند ہوجائیں گے تو بہت جلد ایک ایسی صبح سعادت طلوع ہوگی جس کی پہلی کرن کی روشنی میں ہم سب انتہائی مسرت آمیز حیرانی کے ساتھ دیکھیں گے کہ چور تو گھر کی کوٹھری میں مرا ہوا پڑا ہے اورڈاکو گلی کی نالی میں غرق ہے۔۸؂

            اسی دور میں فاشزم کی مخالفت میں اسرارالحق مجاز کا بھی ایک بیان شائع ہوا۔ اس موضوع پر مجاز، مخدوم اور اخترانصاری وغیر ہ نے منظومات اور کرشن چندر، خواجہ احمدعباس اور سردار جعفری وغیرہ نے افسانے اور ڈرامے لکھے ۔

            ۱۹۴۳ء میں انجمن ترقی پسند مصنفین کی چوتھی کل ہند کانفرنس بمبئی میں منعقدہوئی۔ جس میں ہندوستان کی مختلف زبانوں کے قلم کار شریک ہوئے۔ کانفرنس میں منظور کیاگیا کہ ایسے نازک اور آزمائشی حالات میں ہندوستانی ترقی پسند مصنفین کا فرض ہے کہ وہ ملک وقوم کی حفاظت کریں، ان کی ذہنی اور اخلاقی حالت کو سنبھالیں تاکہ آزادی کی منزل قریب تر آتی جائے۔ ہندوستانی تہذیب وتمدن کی حفاظت و ترقی بھی ہو تاکہ ملک وقوم متحد، مضبوط اور آزاد ہوکر ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکیں۔

            انجمن کی تیسری اور چوتھی کل ہند کانفرنس کا زمانہ ہندوستان کی جدوجہد آزادی کی تاریخ میں بڑی اہمیت رکھتاہے۔ جب ہندوستان چھوڑ وتحریک شروع ہوئی تو تمام اہم کانگریسی لیڈروں کولمبے عرصے کے لئے گرفتار کرلیاگیا۔ دوسری طرف جاپانی فوجیں ہند کی سرحد تک آچکی تھیں۔ جس کے باعث ملک ایک عجیب کرب اور بے چینی کے دور سے گزررہا تھا۔ پہلے کمیونسٹ لیڈر جنگ عظیم کی مخالفت میں تھے، لیکن روس کے جنگ میں شامل ہوتے ہی انہوں نے اس جنگ کی حمایت کرنا شروع کردیا اور سامراجی حکومت کے مددگار بن گئے۔ جس کے نتیجے میں انہیں آزادی کی تحریک سے علیحدگی اختیار کرنا پڑی۔ اور ترقی پسند اس جنگ کو قومی جنگ قرار دینے لگے۔ علی جواد زیدی کے مطابق:

’’جس عالمگیر جنگ میں ہندوستان کو زبردستی اور اس کی مرضی کے خلاف جھونک دیا گیا تھا۔ اس جنگ کو ہمارے بعض ترقی پسند ادیبوں نے ’’قومی اورعوامی جنگ‘‘ کہنا شروع کیا۔ جس جنگ میں ہندوستان کو ہمیشہ سے زیادہ مجبور وغلام بنایا گیا تھا اس کے بارے میں ہمارا’’ترقی پسند‘‘شاعر یہ گانے لگا کہ یہ جنگ ہے جنگ آزادی ۔‘‘۹؂

            انجمن ترقی پسند مصنفین کے اس عمل کو کچھ قلم کاروں نے پسند نہیں کیا۔ ہندی کے ایک انقلابی ادیب من منتھ ناتھ گپتا نے جنگ کے متعلق کمیونسٹ پارٹی کے اس فیصلہ کی مخالفت کرتے ہوئے لکھا:

’’ترقی پسند ادب کوئی بندر نہیں کہ کوئی پارٹی اپنی تھیس بدلنے کے ساتھ ہی اسے جیسا چاہے ویسا نچائے۔‘‘ ۱۰؂

            اردو شاعری کی تاریخ میں اس نقطے پر بڑی الجھن اور عجیب غلط فہمیاں پیدا ہوتی ہیں۔ لیکن اس تبدیلی کا سچائی سے جائزہ لیا جائے تو ساری غلط فہمیاں دور ہوسکتی ہیں۔ تبدیلی یہ تھی کہ پہلے ہٹلر کی فوجیں نشے میں چور یوروپی حکمرانوں کو شکست پر شکست دیتی چلی آرہی تھیں۔ اب تک یہ جنگ سرمایہ دار ملکوں اور فاشزم کے درمیان تھی۔ یہ دونوں طاقتیں استحصال کرنے والی شہنشایت اور سامراج کی علامتیں تھیں۔ سامراج کچھ جمہوری اصول لئے ہوئے اور فاشزم شہنشایت کا ایک سب سے بُرا روپ تھا۔ بہر حال ہندوستانیوں کے لئے دونوں طاقتیں ایک جیسی ہی تھیں۔ ہٹلر کے ساتھ کچھ ہمدردی اس لئے تھی کہ اس نے ان کو للکارا تھا جو ایشیائی عوام کی زندگیاں تلخ کئے ہوئے تھے۔ اس ہمدردی کا دوسرا پہلو یہ بھی تھا کہ سبھاش چندر بوس کو آزادہندفوج کی تشکیل میں ہٹلر اور اس کے حلیفوں نے مدد دی تھی اور ہندوستان کی آزادی سے ہمدردی کا اظہار کیاتھا۔

            لیکن اس جنگ میں روس کی شمولیت نے ایک دوسری فضاپیداکردی چونکہ روس دنیا کی وہ پہلی حکومت تھی جو روندے اور کچلے ہوئے عوام کی نمائندگی کررہی تھی۔ اور ایشیائی عوام کو بیدار کرنے اور سنوارنے کے ٹھوس راستے دکھارہی تھی۔ اس لئے ہندوستانی سیاسی اور ادبی رہنماؤں نے اپنی تقریر و تحریر کے ذریعے روسی عوام سے شدید ہمدردی کا اظہار کیا۔

            آزادی کی جدوجہد اس لئے ملتوی کرنا پڑی کیونکہ انگریز اس جنگ میں روس کے حلیف بن گئے تھے اور اس وقت روس کی حفاظت اورفاشزم کا انسداد وقت کی سب سے بڑی ضرورت تھی۔ اس لئے ترقی پسند شعراء نے اس وقت کی سب سے بڑی ضرورت کی ترجمانی کی ۔

            ترقی پسند اردو شعراء نے روس اور روسیوں کاتعاون اس لئے کیاکہ وہ روس کو ایشیائی بیداری کا سب سے بڑاعلمبردار اور اپنے حقوق کا محافظ سمجھتے تھے۔ اور اسی لئے ان کی تخلیقات ایشیائی بیداری کی جدوجہد کاایک اہم ترین حصّہ ہے ۔

            ۳مئی ۱۹۴۵ء کو روس کی فتحیاب فوجیں برلن میں داخل ہوئیں اس فتح کا اردو شعراء نے شاندار خیرمقدم کیا۔ اور روس کی فتح میں دنیا کی مظلوم انسانیت کے خواب کی تعبیر دیکھی۔ جنگ کے خاتمے کے بعد ایشیائی ملکوں میں بیداری کی ایک نئی لہر دوڑ گئی جس نے آزادی کی جدو جہد کو تیز کیا۔ انجمن ترقی پسند مصنفین کے سکریڑی علی سردار جعفری نے نئے مقاصد پیش کئے ــ:

’’روس کی یہ فتح جسے کیفی نے عالم کی فتح قرار دیاہے، عالم کی فتح صرف اس حد تک ہے کہ سرخ فوج نے فاشزم کو شکست دے کردنیا کی شہنشایت کا سرکچل دیا۔ لیکن ابھی سانپ زندہ ہے فاشزم ختم ہوگیا لیکن سرمایہ داری اور شہنشایت جس نے فاشزم کو جنم دیا تھا ابھی باقی ہے اور کون کہ سکتا ہے کہ بیسوا اب بچے جننے کے قابل نہیں رہ گئی ہے، یہ سعادت ہندوستان اور چین کے حصّے میں آتی ہے کہ وہ اس عوامی قوت سے جو روس کی پشت پناہ تھی ایشیاء میں شہنشایت کا خاتمہ کردیں کیونکہ روس کی فتح نے شہنشایت کو کمزور اور ہمارے ہاتھو کو مضبوط کردیا ہے۔‘‘۱۱؂

            جنگ عظیم کے ختم ہوتے ہی آزادی کی تحریک نے پھر شدت اختیار کرلی۔ تلنگانہ تحریک اور جہازیوں کی بغاوت نے انگریزوں کے چھکے چھڑا دیئے۔ ترقی پسندوں نے ان تحریکوں کی حمایت کرتے ہوئے ان موضوعات پر نظمیں لکھیں۔ آزادی کی تحریک لمحہ بہ لمحہ اپنی منزل کی طرف بڑھتی جارہی تھی۔حکومت برطانیہ کو بھی یقین کامل ہوگیا کہ اب اور زیادہ ہندوستان کو غلام نہیں رکھا جاسکتا اس لئے اعلان کیا گیا کہ ۱۹۴۷ء میں حکومت ہندوستانیوں کے سپرد کردی جائے گی ۔

            جب مسلم لیگ اور کانگریس کا کسی طرح کوئی سمجھوتہ نہ ہوسکا تو ملک کو ہندوستان اورپاکستان میں تقسیم کردیا گیا۔ ترقی پسند ادب میں اس پورے دور کی تصویر نظر آتی ہے۔ پھر وہ دِن آیا جس کا سبھی کو دو سو برس سے انتظار تھا یعنی ۱۵؍اگست ۱۹۴۷ء اور ملک آزادہوگیا۔

            ترقی پسند اس آزادی سے زیادہ خوش نہیں ہوئے کیونکہ وہ اس آزادی کو مکمل آزادی تسلیم نہیں کرتے تھے۔ پھر بھی آزادی کے جشن میں شریک ہوئے۔ اسلام بیگ چنگیزی کے مطابق:

’’اگرچہ ہندوستان کی آزادی بڑی مجروح آزادی تھی۔ فتنہ فساد ترشی وتلخی اور باہمی منافرت میں ڈوبی ہوئی، الجھنوں اور سیاہیوں میں گرفتار، ہندوستان میں برطانوی مفادات کی حفاظت کے وعدوں میں دبی ہوئی، سینے پر خون کی لکیر کھینچے ہوئے اور آنکھوں میں بہمیت اور درندگی کے ان مناظر پر خون کے آنسو بہاتی ہوئی جن سے انگریزی سیاست اور ڈپلومیسی کا شکار ہندوستان آزادی کا خیر مقدم کررہا تھا لیکن اس کے باوجود ہمارے شعراء نے اس کاخیر مقدم کیا، اس لئے کہ اس طرح دوسوسالہ اس دورِ غلامی کا اختتام ہورہا تھا جس نے ہم سب کی زندگیاں تلخ کر رکھی تھیں۔‘‘۱۲؂

            بحیثیت مجموعی ترقی پسند ادیبوں نے جنگ آزادی کے مختلف مراحل میں اپنے اصول ونظریات کی بناپر جد وجہدآزادی میں حصّہ لیتے ہوئے ہندوستان پر قابض برطانوی سامراج کوچیلنج کیا وہ گرفتار کرلیے گئے، انکی نظمیں ضبط کرلی گئیں پھر بھی وہ آزادی کے متوالوں،

 مجاہدوں اور سورماؤں کے دلوں کو اپنے فکروعمل سے گرما تے رہے۔ اس طرح ترقی پسند ادب نے ہندوستان کی جدوجہد آزادی میں نمایاں رول اداکیا۔ بقول علی جوادزیدی :

’’لیکن اتنا بالکل واضح ہے کہ جنگ آزادی کے ہر اہم موڑ پر اردو ادب نے ترقی پسند عناصر کا ساتھ دیا، اردو ادب بھی جنگ آزادی کاایک اہم سپاہی ہے۔‘‘۱۳؂

حواشی :

 ۱؂         بحوالہ : اردو میں ترقی پسند ادبی تحریک -خلیل الرحمن اعظمی،ص ۴۱

۲؂           ادب اور انقلاب․اخترحسین رائے پوری،ص۸۷

۳؂          بحوالہ : اردو میں ترقی پسند تحریک -خلیل الرحمن اعظمی،ص ۴۵

۴؂         بحوالہ : اردو میں ترقی پسند ادبی تحریک-خلیل الرحمن اعظمی،ص ۴۶

۵؂          بحوالہ : اردو میں ترقی پسند تحریک -خلیل الرحمن اعظمی،ص ۵۴-۵۵

۶؂           آزادی کی نظمیں – سبط حسن،ص ۱۹-۲۰

۷؂؂          روشنائی -سجادظہیر،ص۳۴۳

۸؂          بحوالہ :اردو میں ترقی پسند ادبی تحریک -خلیل الرحمن اعظمی،ص ۶۶

۹؂          بحوالہ : ترقی پسند تحریک اور اردو افسانہ -ڈاکٹر صادق ،ص۸۴

۱۰؂         بحوالہ : ترقی پسند ادب :ایک جائزہ – ہنسراج رہبر،ص ۱۷۴

۱۱؂         دیباچہ :سرخ ستارہ – سردارجعفری،ص ۱۷

۱۲؂         ایشیائی بیداری اور اردو شعراء- اسلام بیگ چنگیزی،ص ۱۳۶-۱۳۷

۱۳؂         تعمیری ادب – علی جوادزیدی،ص۱۱۰

– – – – – – –

(نوٹ: اردو ریسرچ جرنل میں شائع مضامین کو بلا اجازت دوبارہ شائع کرنا منع ہے ایسا کرنا قانونا جرم ہے۔ (ادارہ

ڈاکٹر وسیم انور

اسسٹنٹ پروفیسر

 شعبہء اردو فارسی

 ڈاکٹرہری سنگھ گور یونی ورسٹی ،ساگر ( ایم پی)۴۷۰۰۰۳

 ٭٭Mob:093013160

 wsmnwr@gmail.com

Leave a Reply

1 Comment on "ترقی پسند ادبی تحریک کا آزادی کی جدوجہد میں حصّہ"

Notify of
avatar
Sort by:   newest | oldest | most voted
trackback

[…] 77. ترقی پسند ادبی تحریک کا آزادی کی جدوجہد میں حصّہ […]

wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.