(دو ہم تخلص یگانۂ رُوزگار (محمد حسین آزاد اور ابو الکلام آزاداُسلوبیاتی جائزہ
محمد رفیق الاسلام،
لیکچرر شعبۂ اُردو،
گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کا لج،بہاول پور، پاکستان۔
……..
تخلص کی روایت فارسی کی دین ہے۔جسے اہلِ اُردو نے خوش اسلوبی سے گلے لگایا اورمعدودے چند شعرا کو چھوڑ کر باقی ہر شاعر نے تخلص ضرور اختیار کیا ۔کچھ شعرا کے تخلص ہی اتنے معروف ہوئے کہ اُن کے اصل نام گوشۂ گم نامی میں چلے گئے۔ہمارے ہاں دو ایسی شخصیات بھی گزری ہیں جو شاعر تھے اور اتفاقاً اُنہوں نے تخلص بھی ایک ہی اختیار کیا مگر اُن دونوں کی پہچان شاعری سے زیادہ نثر میں ہوئی۔اُنہوں نے اُردو نثر کو اپنے منفرد اسالیب کا وہ نمونہ پیش کیا جو قابلِ قدر بھی ہے اور قابلِ تقلید بھی۔ہمارے اِس مضمون کی پہلی شخصیت مولانا محمد حسین آزادہیں۔
مولانا محمد حسین آزاد کا شمار اُردو ادب کے عناصر خمسہ میں ہوتا ہے۔ اُردو زبان و ادب کی تاریخ اُن کے ذکر سے کبھی تہی نہیں ہو سکتی۔ اُنہوں نے زبان و اَدب کی آبیاری اپنے گل رنگ قلم سے کی۔ اُن کے اُسلوب میں تازگی، زندگی اور متحرک تصاویر کا امتزاج اُسے اور زیادہ دل کش اور خوش انداز بنا دیتا ہے۔بقول ڈاکٹر محمد صادق :
“آزاد کا اسلوب بعینہ ان کی طبیعت کا آئینہ دار ہے ہم اُن کی بحیثیت انسان جتنی خصوصیات دیکھتے ہیں، وہ سب اُن کے اُسلوب میں بھی موجود ہیں۔ خواہ ہم اُن کی شخصیت سے اُسلوب کی طرف آئیں یا اُسلوب سے شخصیت کی طرف جائیں، بات ایک ہی ہے۔ دونوں سے ایک ہی نتیجہ نکلتا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ آزاد، طبعاً جذباتی تھے اور اعلیٰ تخیل سے بہرہ ور، یہ دونوں خصوصیتیں اُن کے اُسلوب میں منعکس ہیں۔”۱
محمد حسین آزاد نے اُردو میں متعدد کتابیں یادگار چھوڑی ہیں۔ ان میں آب حیات، نیرنگِ خیال، درباراکبری، قصص ہند، سخن دانِ فارس اور نگار ستان فارس خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ یہ کتابیں موضوعات کے اختلافات کے باوجود ایک خاص لڑی میں پروئی ہوئی ہیں۔ یہ لڑی آزاد کی انشاء پردازی کا مخصوص اسلوب ہے جسے بحیثیت مجموعی افسانوی اسلوب کہہ سکتے ہیں۔ شاعروں کا تذکرہ ہو یا زبان و ادب کی تاریخ کا جائزہ، مو ٔرخانہ تحریر یں ہوں یا لسانی بحثیں، سب پر ان کی انشاء پردازی کی چھاپ ملے گی۔مہدی افادی، آزاد کے اُسلوب سے متعلق لکھتے ہیں:
“سرسید سے معقولات کو الگ کر لیجیے تو کچھ نہیں رہتے۔ نذیر احمد بغیرمذہب کے لقمہ نہیں توڑ سکتے۔ شبلی سے تاریخ لے لیجیے تو قریب قریب کورے رہ جائیں گے۔ حالی بھی جہاں تک نثر کا تعلق ہے سوانح نگاری کے بغیر چل نہیں سکتے۔ لیکن آقائے اُردو پروفیسر آزاد صرف انشاء پرداز ہیں جن کو کسی دوسرے سہارے کی ضرورت نہیں۔”۲
آزاد کی طبیعت دورُخی ہے۔ وہ زیادہ تر رومانیت کی دنیا میں آباد رہتے ہیں ان کے ذہن میں قرونِ وسطی کا مثالی تصور پوری طرح رچا ہوا ہے۔ لیکن جوں جوں وقت گزرتا گیا اس بنیادی رومانیت پر تنقیدی رُجحان جو نئے ماحول کی پیداوار تھا، غالب آگیا۔ اس دو روئی کا نتیجہ یہ ہے کہ آزاد ایک سطح پر قائم نہیں رہ سکے۔ وہ دو دنیاؤں میں ڈانواں ڈول رہتے ہیں۔ کبھی رومانی کبھی تنقیدی۔ ابھی شعور کے زیر انتظام پرانے نظام سے آمادہ پیکار، ابھی احساسات کا پلا بھاری ہونے پر ماضی کی خواب نما دنیا سے کسیف اندوز۔ڈاکٹر سید عبداﷲ کے نزدیک آزاد نے اپنے اُسلوب کی بنیاد سب سے الگ ڈالی ہے۔ اُنہوں نے اپنے لیے وہ مقام منتخب کیا ہے کہ جس کو اُن سے پہلے کوئی حاصل نہ کر سکا اور اُن کے بعد والوں نے بھی پیروی کی مگر اُن کے انداز تک نہ پہنچ سکے۔ وہ لکھتے ہیں:
“یہ روایتیں اور رسمیں کچھ تو قدیم مذاق سے تعلق رکھتی تھیں اور کچھ اس جدید مذاق سے جو سر سید اور شبلی و حالی وغیرہ کے ذریعے انیسویں صدی کے نصف ثانی میں عام ہو کر پسندیدہ عام و خاص ہو چکا تھا۔ مگر آزاد ان سب سے جدا روش پر قائم رہے اور نہ صرف انشاء پردازی کے اُسلوب میں بلکہ سوچنے اور فکر کرنے کے انداز میں بھی اپنے سب معاصروں سے الگ اور جدا جدا ہی چلے اور اس طرح ایک خاص قسم کا ادب اُردو زبان اور ملک و قوم کو دے گئے، جو اپنے زمانے سے منقطع تو نہیں مگر اپنے زمانے سے اپنے امتیازی اوصاف کی وجہ سے جدا اور ممتاز ضرور ہے۔”۳
آزاد کے اُسلوب کی ایک خصوصیت ماضی سے والہانہ محبت ہے۔ ماضی کی بڑائی اور اچھائی ان کے لیے جزو ِایمان ہے۔ اس کا رنگ روپ، اس کے ملبوسات، اس کی دوستیاں، دل داریاں، رفاقتیں ہمیشہ ان کے دل و دماغ پر چھائی رہتی ہیں۔ جس انداز سے وہ ماضی کا والہانہ محبت کے ساتھ ذکر کرتے ہیں وہ اُردو میں اپنی مثال آپ ہے۔ جب وہ پرانے اُستادوں کا ذکر کرتے ہیں تو الفاظ ان کے منہ میں رس گھولتے جاتے ہیں، وہ نئی دنیا جس میں اُن کی جڑیں ماضی میں پیوست تھیں۔ تسکین دینے سے قاصر رہی۔ یہی بھر پور احساس تھا جس نے نگاہوں سے اوجھل دنیا کو طلسمی رنگ دے دیا۔آزاد اپنے الفاظ میں اس کا اظہار کچھ اس طرح سے کرتے ہیں:
“میرے دوستو! پرانے وقتوں کی دوستیاں، کچھ اور ہی دوستیاں تھیں۔آج تمہارے روشنی کے زمانے میں ان کی کیفیت بیان کرنے کو لفظ نہیں ملتے، جن سے ان خیالوں کا دلوں میں عکس جماؤں۔”۴
آزاد کی بہترین تحریروں میں ایسی غنائیت ہے جو براہ راست ان کی شدت جذبات سے پیدا ہوتی ہے۔ ان کی تصنیفات اس طرح اُن کے پسینے سے اُبھرتی ہیں جس طرح شاعری۔ اُنہیں بس اتنی سی بات درکار ہوتی ہے کہ کوئی چیز بڑے ہی جذب و کیف کے ساتھ ان کے دل میں راہ پیدا کرلے اور اس کی پُر بہار فضا میں کافی دیر رچی بسی رہے۔ پھر ان کی تخلیقی صلاحیتیں باقی لوازم خود ہی فراہم کر لیتی ہیں۔ بعینہ اسی طرح جیسے زرخیز زمین میں ببج۔” آب حیاتــ” بالکل ایسی ہی تصنیف ہے۔ و ہ ان کی عمیق یادوں سے ابھری ہے۔ اُنہوں نے ماضی کی باتوں اور ماضی کے لوگوں پر اس قدر توجہ کی کہ وہ جملہ اشیاء اور اشخاص ان کی ذات کا جزو بن گئے۔’’سخن دان فارس” میں بھی ان کی تخلیقی قوتیں انتہائی عروج پر ہیں جس کی وجہ ایران کا وسیع اور دل آویز پس منظر ہے۔ موسموں کی رنگا رنگ جلوہ آرائی، شان دار ماضی جس کی جھلک اس کے آثارِ کہن میں نظر آتی ہے، شہروں میں زندگی کی دل فریب وضع اور گہما گہمی، خانہ بدوشوں کی قدیم آزاد زندگی جس نے قدرت کے بوقلموں مشاہدات سے اپنا دامن بھر لیا ہے اور اس کی بدولت اپنے ہمراہ کو ہ و صحرا میں گردش کرنے والوں کے سینوں میں معلومات کے بے شمار انمول خزانے جمع کردیے ہیں۔ آزاد کی خوبی یہ ہے کہ اُس نے تما م مناظر کو تصاویر کی صورت میں منقش کر دیا ہے اور اب یہ تصاویر اوراق پر گردش کرتی ہوئی ہمیں واضح نظر آتی ہیں۔ بقول ڈاکٹر محمد صادق:
“آزاد کے اُسلوب کی نمایاں خصوصیت اس کی محوس وضع ہے۔ وہ اپنے موضوع کو مسلسل تصاویر کی شکل میں دیکھتے ہیں۔ خیالات ان کے سامنے محاکات و مجازات کے لباس میں آراستہ و پیراستہ نظرآتے ہیں۔ وہ واقعات کو بیان نہیں کرتے، چشم تصور سے اُن کا مشاہدہ کرتے ہیں اور جو کچھ دیکھتے ہیں۔ اسے زندگی کے کیف و رنگ اور حرکات و سکنات میں پیش کر دیتے ہیں ــ”۵
آزاد کا مزاج، محض اُن کے اندازِ نظر اور اُسلوب بیان ہی پر اثر انداز نہیں ہوتا بلکہ مواد کے انتخاب پر بھی اثر ڈالتا ہے۔ اُنہیں حسی مشاہدات سے دلی رغبت ہے اس لیے وہ افکاریا تحریکات کی بجائے افراد اور اُن کی سر گرمیوں سے زیادہ دل چسپی رکھتے ہیں وہ موضوعات میں انتخاب کے قائل ہیں اور اُن کے شعری احساس کو حرکت میں لاتے ہیں۔ وہ ایسی ہی چیزوں پر قلم اٹھاتے ہیں جو نظر فریب، پر شکوہ، اندوہ ناک اور رقت انگریز ہوں۔ یعنی وہ تمام امور جن پر ملکہ شعری عمل کر سکے۔ اس لیے اُن کا انداز شاعروں کے انداز سے مشابہت رکھتا ہے۔تبھی تو رام بابو سکینہ نے لکھا تھا:
“آزاد نثر میں شاعری کرتے ہیں اور شاعری میں نثر لکھتے ہیں۔”۶
یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ آزاد کے ہاں رنگا رنگی، چاشنی اور خوب صورتی اُن کے اُسلوب ہی کی وجہ سے ہے۔ اگر اُنہیں اُسلوب پر ست قلم کار کہا جائے تو بے جانہ ہوگا۔ آزاد کے ہاں اُن کا منفرد اور اچھوتا اُسلوب ہی سب کچھ ہے جو اُنہیں اُردو ادب میں ایک خاص مقام پر ٹھہراتا ہے۔ لیکن ہمارے ناقدین اور مؤر خین اُنہیں انشاء پرداز قرارد یتے ہیں جو کہ تعریف کی بجائے تنقیص کا پہلو لیے ہوئے ہے۔ڈاکٹر سید عبداﷲ لکھتے ہیں:
“آزاد کی عظمت کا مینار ان کے نادر اور منفرد اُسلوب کی بدولت ہمیشہ سر بلند رہے گا اور اس معاملے میں یکتائی کا جو فخر اُن کو حاصل ہے اُن سے کبھی چھینا نہیں جا سکتا۔ اگرچہ بعض اوقات آزاد کی یہ یکتائی ان کے لیے وجۂ مصیبت بھی بن جاتی ہے اور تحسین کے پردے میں کچھ تنقیص کا رنگ یوں اُبھرتا ہے کہ آزاد کو انشاء پرداز کہہ کر ان کی تصانیف کے علمی وقار کو نحم ترثابت کر نے کی کوشش کی جاتی ہے۔”۷
آزاد کا ذہن فارسی میں رچا ہوا ہے۔ اُن کے طرزِ تحریر پر فارسی صرف و نحو کی گہری چھاپ ہے۔ منجملہ دیگر امور کے اُن کے ہاں فارسی انداز میں “کہ” کا ستعمال بھی نمایاں ہے ۔ اُن کے نثری اُسلوب کی نمایاں خصوصیات بھرپور توانائی اور تخیلی وضع ہیں۔ وہ جیسے بھی چاہیں سادہ، پرکار، پرشکوہ، پر جوش یا محاکاتی عبارت لکھ سکتے ہیں اور بسا اوقات خوبی و رعنائی کے غیر معمولی مقامات تک پہنچ جاتے ہیں۔ آزاد نے اپنی نثر کو مقفیٰ اور مسجع بنانے کی شعوری کوشش نہیں کی بلکہ لاشعوری طور پر قافیہ آرائی کرتے چلے جاتے ہیں۔ اُن کی قافیہ بندی سے متعلق ڈاکٹر فرمان فتح پوری یوں لکھتے ہیں:
“عبارت کہیں کہیں مقفیٰ و مسجع ہے لیکن پتہ نہیں چلتا کہ قافیہ پیمائی یامسجع کی دانستہ کوشش کی جارہی ہے۔ لفظی و معنوی صنعتوں اور تشبیہات و استعارات سے اکثر کام لیا گیا ہے۔ لیکن اس کثرت کے باوجود عبارت کی دل کشی اور روانی پر کوئی حرف نہیں آیا۔ صناعی اور جس کاری کے باوجود زور و اثر میں فرق نہیں آیا بلکہ تمثیلی پیرا یہء بیان اور بھی دل کش ہو گیا ہے۔”۸
آزاد زبان کے معاملے میں خاصی احتیاط برتنے کے قائل ہیں وہ عام بول چال کی زبان استعمال کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود ایسی زبان استعمال کرتے ہیں کہ جو شخص نثر کے زیر و بم کا شعور رکھتا ہو اس کو پڑھ کر پکار اُٹھتا ہے کہ یہ عبارت ایک شاہکار ہے۔ ان کے ہاں الفاظ کا استعمال نہ کم ہے نہ بیش، ہر لفظ بر محل اور برجستہ، لب ولہجہ دھیما، لیکن اس کے پیچھے ایک زبردست قوت کا احساس ہوتا ہے۔ ایسی بے تحاشا قوت نہیں کہ جو آپے سے باہر ہو جائے، جیسا کہ جوش و ہیجان کے لمحات میں اکثر ہوا کرتا ہے بلکہ ایسی توانائی جو نظم و ضبط سے پیدا ہوتی ہے۔ ایسے موقع پر آزاد بات کی روح کھینچ لاتے ہیں اور اسے چند الفاظ میں ہمارے سامنے پیش کردیتے ہیں۔ یہ اُسلوب صرف اور صرف محمد حسین آزاد کا خاصا ہے جس میں وہ منفرد ہیں اُن سے قبل ایسا اُسلوب کسی نے پیش نہیں کیا۔طارق سعید، آزاد کی اس انفرادیت کا تذکرہ یوں کرتے ہیں:
“اُردو اسالیب نثر کے ارتقاء میں محمدؐ حسین آزاد بھی اس لحاظ سے غالب، وجہی، سرور اور سرسید سے کم نہیں ہیں کیوں کہ انہوں نے بھی ارتقائے اُسلوب میں اجتہادی قوت اور اختر اعی ندرت کا ثبوت فراہم کیا ہے اور اُسلوب جلیل کی تخلیق کی ہے۔”۹
آزاد کا تخیل بیانیہ نثر میں بھی بے تکلفی اور بر جستگی سے داخل ہو جاتا ہے اور بہت بہتر انداز میں اثر پیدا کرتا ہے۔ بیانیہ قوت، یعنی جو چیزیں یا واقعات بیان کیے جائیں ان میں پوری واقعیت آجائے۔ آزاد کا اس پیرائیہ اظہار میں کوئی حریف نہیں اس کے علاوہ لفظی موشگافیاں جوصنائع بدائع کہلاتی ہیں پرانے ادیبوں کا سرمایہ تھیں۔ وہ ان کے ساتھ اس طرح کھیلتے ہیں جس طرح بازی گر گیندوں سے کھیلتے ہیں۔عام اُصول کے طور پر کہا جاسکتا ہے کہ اگر یہ لوازم قاری کی توجہ کو منحرف کر دیں اور خیال کے سیدھے سادے، براہ راست اظہار میں سدراہ ہوں تو معیوب ہیں اور ان کی ادب میں کوئی جگہ نہیں۔ اس کے برعکس اگر فطری اور بے ساختہ ہوں توان سے مسرت آمیز تعجب پیدا ہوتا ہے۔ آزاد کا اُسلوب ، شاعرانہ اور تاثراتی ہے۔ آزاد کے اُسلوب میں تلازمے کا پورا پورا خیال رکھا گیا ہے۔ آزاد نے الفاظ کے انتخاب میں خاص سلیقہ برت کرتاثیر پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کے بیان میں سوز بھی ہے اور تاثیر بھی۔ آزاد نے مبالغے سے بھی احتراز کیا ہے۔ اثر پیدا کرنے کے لیے مبالٖغے سے گریز کرنا ضروری تھا۔آزاد کے تاثراتی اُسلوب پر ڈاکٹر اسلم فرخی نے مدلل، عالمانہ اور بسیط نظر ڈالی ہے وہ لکھتے ہیں:
“آزاد کا اسلوب شعریت میں ڈوبا ہوا ہے بلکہ یہ کہنا بجا ہے کہ انہوں نے نظم کو نثر میں لکھ دیا ہے۔ وہ عموماً ایسے الفاظ اور تراکیب استعمال کرتے ہیں جو نثر کی بجائے نظم میں زیادہ موزوں معلوم ہوتے ہیں۔ آزاد پے درپے تصویریں بناتے چلے جاتے ہیں۔ تشبیہوں اور استعاروں کا جال بچھا دیتے ہیں اور الفاظ بھی چھانٹ کر ایسے لاتے ہیں جن کا مقصد تصاویر کو زیادہ موثر اور TARKLIMEبنانا ہوتا ہے۔”۱۰
ان تمام خصوصیات کے باوجود آزاد کے ہاں حد سے بڑھی ہوئی لطافت اور رنگینی ہے۔ رنگینی، شگفتگی، بے ساختگی، برجستگی، نازک خیالی، خوش مزاجی، تشبیہ، استعارہ اور تلازمہ کے باوجود آزاد کا اُسلوب صرف جمال ہی جمال ہے۔ اس میں کوئی بھلائی شان نہیں پائی جاتی۔ اس میں زندگی کی کڑک اور گرج نہیں۔ وہ ہمارے تخیل میں شفق رنگ دریچے وا کرتے چلے جاتے ہیں لیکن ہمارے ذہن کو کچھ نہیں دیتے۔ نثر نگار ہمیشہ ابلاغ کے لیے وضاحت، تشریح اور تجزیے سے کام لیتا ہے۔ لیکن آزاد ہمیشہ مصوری اور محاکات سے کام لیتے ہیں۔ مناسبتیں تلاش کرتے ہیں۔ لفظوں کے طوطا مینا بناتے ہیں اور ذہن کو نفس مضمون سے دور لے جاتے ہیں۔ تخیل کی رومیں بہنا ان کا مزاج بن گیا ہے۔ وہ ہر جگہ اس کا سہارا لیتے ہیں اور قاری کو ذہنی طور پر تشنہ چھوڑ دیتے ہیں۔ اُن کی اس خامی کا تذکرہ ڈاکٹر محمد صادق یوں کرتے ہیں:
” آزاد کی اکثر بے اعتدالیاں استعارے کے استعمال کا نتیجہ ہیں۔ استعارہ تخیل کی زبان ہے اور عام طور پر نثر کے ساتھ مناسبت نہیں رکھتا۔ اس کے برعکس تشبیہ اس سے زیادہ منطقی چیز ہے۔ تا وقتیکہ اس کو حس سے زیادہ نہ پھیلایا جائے یہ بیان میں وضاحت پیدا کرتی ہے ۔ آزاد تشبیوں کے استعمال میں ناکام ثابت ہوتے ہیں تو اس لیے نہیں کہ یہ تشبہیں بہت شاعرانہ ہوتی ہیں، بلکہ بے ہنگم ہوتی ہیں۔ یہ ایسے تلازمات کا سلسلہ چھیڑ دیتی ہیں جو ذہن کو نفسِ مضمون سے دور لے جاتے ہیں۔”۱۱
تخیل کی جادو گری آزاد کے ہاں ہر موضوع سے نبرد آزما ہے۔ ہر جگہ رنگینی اپنے جلوے دکھاتی نظر آتی ہے۔ مگر آزاد نے کہیں کہیں رنگینی کو چھوڑکر سادگی بھی اختیار کی ہے اور براہ راست تصویر کشی سے بھی کام لیا ہے۔ کہیں کہیں انہوں نے موقع کی مناسبت سے بھی اُسلوب اختیار کیا ہے لیکن اس کی مثالیں ان کے ہاں کم نظر آتی ہیں۔ بحیثیت مجموعی اُن کے ہاں رنگینی کو غلبہ حاصل ہے اس کی وجہ سے اُن کے ہاں یکسانیت نظر آتی ہے۔ ایک ہی کیفیت ہر جگہ جاری و ساری ملتی ہے۔
شاعرانہ انداز کی وجہ سے آزاد کا اُسلوب احساسات اور تخیل سے متعلق ہو کر رہ گیا ہے خود ان کا تخیل بڑا زندہ، متحرک، جاندار اور شوخ تھا۔ اس شوخ اور زندہ تخیل کی وجہ سے آزاد کے یہاں تصاویر کا ایک سلسلہ ملتا ہے وہ مجرد خیال کے قائل نہیں۔ تشریح، تحلیل اور استد لال سے کام نہیں لیتے بلکہ اپنی بات کو موثر بنانے کے لیے تصویروں کا سلسلہ شرو ع کردیتے ہیں ۔آزاد اس رمز سے واقف تھے کہ لفظی تصویریں صرف بیان کی جادوگری سے فروغ نہیں پاتیں بلکہ بیان کے ساتھ ساتھ ذہن اور جذبات کی حرکت کا اظہار بھی ضروری ہے آزاد نے تصویر گری کے اس فن میں اس بات کا بہت خیال رکھا ہے۔سید عابد علی عابد آزاد کی اس تصورگری پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
“جو شخص شعوری طور پر کلمات کی جوہری تابنا کی کو آہنگ اور نغمے کے بلند مقام تک پہنچاتا ہے، وہ مولانا محمد حسین آزاد ہے، جس کی نثر، نظم کو شرمندہ کرتی ہے۔”۱۲
بے ساختگی اور برجستگی کے ساتھ ساتھ آزاد شگفتگی اور ظرافت کے بھی قائل ہیں زندگی بھر ذہنی نا آسودگی میں مبتلا رہنے والے مولانا محمد حسین آزاد اپنی تحریروں میں ایک بھر پور اور جواں ذہن شخصیت کے روپ میں سامنے آتے ہیں۔ اگرچہ آزاد کے حالات نے اُن کو بے یقینی کی کیفیت کا شکار کر دیا تھا مگر اُن کی تحریروں میں شگفتگی اور خوش مزاجی نمایاں نظر آتی ہیں اور یہی عناصر مل کر آزاد کے جلیل اُسلوب کی تخلیق کرتے ہیں کہ جن کے بلند مقام پر وہ خود مسند آرا نظر آتے ہیں اور اس ضمن میں اُن کا دوسرا کوئی حریف نہیں ۔
ہمارے اِس مضمون کی دوسری شخصیت مولانا ابو الکلام آزادہیں۔مولانا آزاداُردو ادب اور ہندوستان کے وہ رجل عظیم تھے کہ شاید صدیاں، اُن کا ثانی پیدا نہ کر سکیں۔ جوشِ خطابت اور انانیتی اُسلوب اُن کی خاص پہچان تھے۔ اُن کا اصل نام محی الدین تھا، ابوالکلام کنیت اختیار کی اور آزاد تخلص رکھا اور زندگی بھر آزادی کے خواباں رہے۔ اس کے لیے جیل کی صعوبتیں برداشت کیں اور چکی کی مشقیں بھی جھیلیں مگر اپنے مقصد، نصب العین اورر عقیدہ سے ہر گز منحرف نہ ہوئے۔اُن کی شخصیت اور ادبی زندگی پر ڈاکٹر فرمان فتح پوری یوں تبصرہ کرتے ہیں:
” مولانا ابو الکلام آزاد کے سیاسی و مذہبی افکار سے خواہ کتناہی اختلاف کیوں نہ کیا جائے لیکن اُن کی علمی و ادبی حیثیت میں اختلاف کی گنجائش نہیں ہے۔ ہر چند کہ اُن کی زندگی کا زیادہ حصہ کانگریسی سیاست کی نظر ہو گیا اور ابتدائی زندگی کے سوا، کبھی پورے شغف و انہماک کے ساتھ وہ لکھنے پڑھنے کی طرف رجوع نہ ہو سکے، اُن کی ساری تحریریں صعوبت زنداں کی یاد گار ہیں اور ۱۹۳۰۔۳۱ء سے پہلے وجود میں آئی ہیں پھر بھی اُن کی تحریروں کا کوئی حصہ ایسا نہیں ہے کہ اُردو زبان و ادب کی تاریخ میں اہمیت نہ رکھتا ہو، تذکرہ، غبارِ خاطراور ترجمان القرآن، تینوں تصانیف نہ صرف یہ کہ خاص طرز فکر کی ترجمان ہیں بلکہ اُردو انشاء پردازی کی تاریخ میں بھی اُن کی اہمیت ہمیشہ تسلیم کی جائے گی۔”۱۳
مولانا ابو الکلام آزاد کی عظمت کا ایک زمانہ قائل ہے۔ اگرچہ اُن کی سیاسی مصروفیات نے اُنہیں زیادہ لکھنے کا موقع نہ دیا مگر جس قدر بھی اُنہوں نے لکھا عمدہ لکھا اور ادب میں خاص مقام حاصل کیا۔ وہ اگرچہ رومانوی طرز تحریر کے حامل تھے مگر اُن کے ہاں مشرقیت اپنے اعلیٰ اقدار کے ساتھ موجود تھی اُن کی شخصیت عرب اور ہند کے بہترین امتزاج کی مثال تھی۔ اُن کی شخصیت سے متعلق علی عباس حسینی لکھتے ہیں:
“وہ عرب اور ہند کے امتزاج کی بہترین مثال تھے اور ان دونوں ممالک کے احسن صفات کا ایک اعلیٰ نمونہ، ان میں عرب کی بلاغت و لطافت تھی، ہند کی وضاحت و شیریں مقالی، ان میں خودداری و استقامت مغربی ایشیاء کی تھی تو درویشی اور دل ریشی مشرقی ایشیاء کی، ان کی محبوب ترین شے آزادی تھی۔ ملک و وطن کی آزادی، ذہن و فکر کی آزادی، قول و فعل کی آزادی، وہ انسانیت پر غیر فطری قیود بڑھانے کے خلاف تھے۔ سوائے ان پابندیوں کے جو انسان کو ایک بہتر، برتر اور بلند تر شخصیت میں تبدیل کر دیں۔”۱۴
دین و مذہب مولانا کے قلم کا خصوصی موضوع رہا ۔سال با سال تک الہلال اور البلاغ کے ذریعے قرآن و حدیث فہمی کا درس دیتے رہے۔ اُن کا یہ صحافتی دور، یاد گاردور کے طور پر گنا جاتا ہے۔ اس دور میں نثر کے میدان میں صرف اور صرف ابوالکلام کا طوطی بولتا تھا۔ اُن کی تحریروں کے حوالے دیے جاتے اوراُنہیں پڑھنے کے لیے الہلال اور البلاغ خریدے جاتے تھے۔وجہ اس کی یہ تھی کہ عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ خشکی، مذہبی تحریروں کا لازمی جزو ہے مگر مولانا کا قلم اس علت سے کوسوں کیا منزلوں دور رہا۔ یہاں تک کہ جن فقہی عنوانات پر مولانا نے قلم اٹھایا ہے انہیں بھی گل و گلزار بنا کے چھوڑا ہے۔ ایسے عظیم لوگ صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ اُن کی شخصیت سے متعلق ڈاکٹر سید عبداﷲ یوں رقم طراز ہیں:
“ابو الکلام آزاد، کبارِ رجال میں ایک تھے۔ ان کی ذات یا شخصیت کو ایک ولایت یا اقلیم معنی کہا جا سکتا ہے۔ اور ظاہر ہے کہ اقلیم عناصر گونا گوں اور الوانِ مختلفہ کا مجموعہ ہی ہو گی، جس کی رنگارنگی اور بو قلمونی ہی اس کاسب سے بڑا وصف اور جس کے تنوع کی نیزنگی ہی اس کی اہم ترین خصوصیت قرار پائے گی۔”۱۵
مولانا کو قدرت نے بے پناہ خوبیوں سے نوازا تھا۔ وہ جری مجاہد، بے بدل خطیب، فقید المثال صحافی، پر جوش مبلغ، صاحب فکر عالم اور صاحب اُسلوب قلم کار تھے۔ وہ ہر قسم کے مضمون کو مکمل رنگینی اور بہتر انداز میں لکھنے پر قادر تھے۔ اُن کا قلم رواں تھا وہ جس موضوع کو چاہتے مکمل خوش اُسلوبی سے لکھ سکتے تھے۔ یہی اُن کی شخصیت کی سب سے بڑی خوبی تھی۔مولانا عبدالماجد دریا آبادی اُن کے متعلق تحریر فرماتے ہیں:
ـ”قادر الکلا م کا لفظ ہمارے ہاں شاعروں ہی کے لیے استعمال ہوتا ہے، نثر نگاروں میں کسی پر اس کا اطلاق اگر پوری طرح ہو سکتا ہے تو وہ ابو الکلام کی ذات ہے۔ مضمون خوشی کا ہو یا غم کا۔ داستان رزم کی ہو یا بزم کی ، موضوع علمی ہو یا شعری، عنوان سیاسی ہو یا فلسفیانہ، یہ سدا بہار قلم ہر انداز ِ بیان، ہر اُسلوب ِ نگارش اور ہر پروازپر یکساں قادر ہے۔”۱۶
مولانا آزاد اور اُن کے ہم عصروں کی دل چسپیوں کے دائرے میں علم، ادب، مذہب، سیاست غرض کہ ہر شے شامل تھی۔ وہ حیات و کائنات کے تمام معاملات سے عمومی دل چسپی رکھتے ہیں جو اُن کے عہد کے علم یا بیدار تخیل کی دست رس میں ہیں۔ اُن میں سے ہر ایک خصوصی طور پر کسی ایک میدان کا تربیت یافتہ ہے مگر مجموعی طور پر وہ سارے موضوعات کو ایک نظامِ فکر کے تحت سمجھنا اور سمجھانا چاہتے ہیں ادب بھی ان میں سے ایک ہے۔ اس قسم کے دانشوروں کو عموماً ادب میں مضمون ہی کی صف راس آئی ہے اور مولانا آزاد کے ہاں بھی قوی رُجحان یہی ہے بعض ناقدین نے تو اُن کی مضمون نگاری کو انشائیہ نگاری قرار دیا ہے۔ مولانا آزاد اور اُن کے ہم عصروں نے غیر افسانوی نثر کے ادبی حسن کو دریافت کیا۔ اس قسم کی نثر دو متخالف اور متوازی خطوط پر چلتی ہے۔ ایک طرف مولانا آزاد کی رنگین، مرصع اور آراستہ نثر ہے تو دوسری طرف خواجہ حسن نظامی اور عبدالماجد دریا آبادی کی نثر جو دہلی کے روز مرہ یا اودھ کی بولی سے رس لیتی ہیں۔ یہ سب لوگ صحافت سے وابستہ رہے ہیں اور اُن کا تخاطب بھی پڑھے لکھوں میں نسبتاً زیادہ با ذوق لوگوں کی طرف ہے۔ سیاست سے بھی دل چسپی سب کو ہے، مگر کوئی بھی مولانا آزاد کی طرح سر گرم اور فعال نہیں۔عبد القادر سروری کے نزدیک مولانا آزاد کا یہ خود ساختہ طرزِ زیست اور اُسلوب سب پر تفوق رکھتا ہے۔وہ لکھتے ہیں:
“اُردو انشاء پردازی کو مولانا نے ایک عالمانہ بلند آہنگی اور علمی سنجیدگی عطا کی، آزاد کا اُسلوب ان کا اپنا مخصوص اُسلوب تھا۔ جسے خود انہوں نے نشوو نما دیا تھا۔ یہ اُسلوب ایک جادو ہے، جو پڑھنے والے کی آنکھوں کے راستے سے دل و دماغ پر چھا جاتا ہے اسی لیے ایسے اشخاص بھی جو ان کے اندازِ فکر کے ہم نوا نہیں ہیں۔ اُن کے اندرزِ بیان، اُن کی انوکھی تشبہیوں اور استعاروں اور ان کے الفاظ کی علمیت اور جملوں کے کلاسیکی انداز کی رومیں بہے چلے جاتے ہیں”۱۷
سیاست سے عملی طور پر تعلق رکھنے والے اشخاص کے متعلق عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ عوا م سے ربط ضبط زیادہ رکھیں گے اور ان کے مخاطبوں میں کم پڑھے لکھے یا بے پڑھے لکھے لوگوں کی تعداد زیادہ ہو گی۔ اس لیے اُن کا طرزِ گفتگو اس طرح کا ہو گا کہ عام لوگ با آسانی سمجھ سکیں۔ مگر مولانا آزاد کی زبان اور اندازِ بیان سے یہ اندازہ نہیں ہوتا کہ وہ عوام سے مخاطب ہیں۔ اتفاق سے اس دور کی ایک عجیب خصوصیت ہی یہ ہے کہ گاندھی کے علاوہ کوئی بھی رہنما، اپنی زبان، اپنے رکھ رکھاؤ، اپنے رویے اور حلیے کے اعتبار سے عوام سے قریب نظر نہیں آتا۔رہنماؤں کا احساس، وقار اور ان کی انا نیت سے اُن کے طبقاتی مزاج کی نشان دہی ہوتی ہے جو اُن کی پیروی کرنے والے عوام سے بالکل الگ ہے۔ انا نیت صرف سیاسی رہنماؤں ہی میں نہیں ہوتی بلکہ سب ادیبوں میں پائی جاتی ہے اور مولانا آزاد میں تو انانیت سب سے زیادہ ہے اس لیے ان کے اُسلوب کو انا نیتی اُسلوب قرار دیا گیا ہے۔ اُن کی انا نیت پر تبصرہ کرتے ہوئے طارق سعید لکھتے ہیں:
“یہ وہ فن کار ہیں جن کی انانیت کی مقدار اضافی ہونے کی جگہ ایک مطلق نوعیت کی حامل ہے۔ ان کی انانیت خود اُنہیں جتنی بڑی دکھائی دی، دنیا نے بھی اسے اتنا ہی بڑا دیکھا۔ بیسویں صدی کے آغاز سے آج تک شاید زمانے کا کوئی مصنف اس خود اعتمادی کے ساتھ “میں” نہیں بول سکا، جس طرح یہ عجیب مبلغ جسے اُردو ” مولانا ابوالکلام آزاد” کے نام سے یاد کرتی ہے۔ بولتا رہا اور دنیا اس کی انانیت کا فسانہ عالم محویت میں سنتی رہی۔”۱۸
ترجمان القرآن جیسی کتاب کا لکھنے والا اپنے ذہن ، اپنے علم اور اپنی قوت پر غیر معمولی اعتماد کیے بغیر نہیں رہ سکتا تھا پھر مسلم سیاست پر نظر ڈالیے تو پتہ چلتا ہے کہ مولانا جس نقطہ نظر کے حامی تھے اُسے مقبول بنانا کس قدر دشوار تھا۔ ایسے لوگ بہت کم تھے جو ہدف ملامت بننے کے باوجود اپنے عقائد کو منوانے کے لیے سرگرم فکر و عمل ہوں ۔ مخالفوں کے ہجوم میں تنہا کھڑا رہنا شاید ان کی انا کو کچھ زیادہ ہی تسکین پہنچاتا تھا۔ غبارِ خاطر کے خطوط کا ہر لفظ اس بات پرمُصرہے کہ میں وہ نہیں ہوں جیسے دوسرے ہوتے ہیں اُسے وہ ہر طرح سے منوانے کی کوشش کرتے ہیں۔ استدلال کے ذریعے بھی اُسلوب کے ساتھ بھی اُنہیں اپنے اندازِ بیان پر پورا قابو ہے وہ کسی بھی لمحے پھوٹ پڑنے ، چیخ اُٹھنے اور تلملا جانے پر آمادہ نظر نہیں آتے ۔ جذباتی اُبال کو وہ طنز و مزاح سے رام کرتے ہیں اور اساتذہ کے اشعار کے ذریعے خوش گوار بنانے کی کوشش کرتے ہیں ان کو اپنی ذات کے انوکھے پن کا شدید احساس ہے ۔ نثر میں آراستگی اور صنعت گری کے ذریعے بھی وہ اپنی شخصیت کا اظہار کرتے ہیں وہ دراصل عوام کی علمی، ادبی ، مذہبی رہنمائی کرنے والے دانش وروں کو مخاطب کرتے ہیں اور عوام کو مرعوب و مبہوت کرتے ہیں ۔ وہ فکر کی پیچیدگی کو زبان کی سادگی کے ذریعے سہل اور عام فہم بنانے کیک کوشش نہیں کرتے بلکہ بیان کی رنگینی کے ذریعے اہلِ مذاق کے لیے دل کش اور نشہ آور بنا دیتے ہیں ۔
اس عہد کی تحریروں سے اندازہ وہتا ہے کہ اُردو زبان و ادب میں فارسی کی آمیزش کا عمل اب پورا ہو چکا تھا۔ اگرچہ فارسی سے مرعوبیت اب بھی تھی مگر فارسی کا اقتدار تیزی کے ساتھ کم ہوتا جا رہا تھا۔ فارسی اب بھی نصاب کا جزو تھی،گھروں میں پڑھی اور پڑھائی جاتی تھی۔ فارسی ادب کے اعلیٰ نمونے اب بھی اُردو والوں کے لیے مثالی حیثیت رکھتے تھے ۔ ایرانی اثرات کہ جن کا سلسلہ وسطی دور میں شروع ہوا تھا اب اُردو ادب میں امتزاج کے طفیل عمل سے گزرنے کے بعد اس کے رگ و پے میں سرایت کر چکے تھے ۔ فارسی زبان و ادب سے گہرے ربط و ضبط کا اظہار اس دور میں ہمیں مولانا آزاد ہی کی نثر میں نظر آتا ہے ۔ مولانا نے اپنی نثر کے لیے عربی اور فارسی زبان و ادب سے جو خوشہ چینی کی ہے اُس نے ان کی نثر میں اعلیٰ شان اور رفعت پیدا کر دی ہے جو اُن کے دیگر ہم عصروں کو حاصل نہ ہو سکی۔ اس لیے تو علی عباس حسینی لکھتے ہیں :
ـ’’اُردو کو انہوں نے ایک خاص اُسلوب دیا ۔ انہوں نے اسے آیتوں ، حدیثوں، ضرب الامثال اور عربی ا قوال سے مرصع کیا ۔ انہوں نے اسے عربی زبان جیسا وقار و جلال عطا فرمایا۔ جو بلندی و رفعت مولانا کی طرزِ نگارش نے ہمارے ادب کو عطا کی ، اور جن خزانوں کا ان کے قلم گہر بار نے اس میں اضافہ کیا ہے ، وہ دوسری صورتوں میں ناممکن تھے ۔ جب تک یہ زبان باقی ہے ۔ مولانا کی تصنیفات اس کے ادب کا ایک جلیل القدر حصہ تسلیم کی جائیں گیــ‘‘۱۹
مولانا ابو الکلام آزاد نے اُردو اُسلوب میں جو جدت کی، وہ غالبؔ کی طرح خود رو یا غیر شعوری نہیں تھی اگرچہ یہ بات درست ہے کہ انہوں نے فطری طور پر زمانی اطوار کو اپنے اندر جذب کیا مگر اس کے پس پشت اُ ن کی علمی تربیت و قابلیت تھی۔ ہمیں علم ہے کہ آزاد ؔ عربی اور فارسی کے عالم ہونے کے ساتھ ساتھ انگریزی اور فرانسیسی سے بھی واقفیت رکھتے تھے۔ کم از کم اس حد تک کہ ان زبانوں کے ادب کا براہِ راست مطالعہ کافی تھی ۔ان کے اُسلوب کے مطالعے سے اس واقعے میں کوئی شک نہیں رہ جاتا کہ وہ فرانسیسی ا ور انگریزی ذہن اور طرز سے کافی متاثر تھے ۔ بلاشبہ ان مغربی اثرات کو اپنے گہرے مشرقی مزاج و کردار میں گوندھ کر اُنہوں نے اپنی شخصیت تخلیق کی تھی۔ اپنے دور کے مغرب سے انہوں نے اندیشہ ناکی، بے باقی اور بے پناہی حاصل کی تھی ۔ مولانا ابوالکلام آزاد کے اسلوب تحریر میں مگرمغرب کے رومانوی اثرات کا شائبہ نظر آتا ہے لیکن اُنہیں کلی طور پر رومانیت پسند نہیں کہا جا سکتا اس حوالے سے ڈاکٹر سید عبداﷲ کچھ یوں رائے کا اظہار کرتے ہیں:
ـ’’ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو ابو الکلام کے ذوق و مزاح میں مغرب کے رومانیوں کے بعض خصائص موجود ہیں ۔ مگر ان کو رومانیوں کی صف میں شامل نہیں کرنا چاہیے جو ہر قید سے آزاد ہوتے ہیں ۔ ان کے اور رومانیوں کے انداز ِ مزاح اور تربیت میں ہزار اختلافات نظر آتے ہیں۔ احتیاطاً یہ صحیح ہے کہ علی العموم ایک خاص قسم کا رومانی انداز ابو الکلام کے یہاں بھی موجود ہے جس کے لیے اگر کسی اپنی اصطلاح کا استعمال ناگزیر ہو تو اسے جذب و جنون کے نام سے یاد کیا جا سکتا ہے ــ‘‘۲۰
مولانا ابو الکلام آزاد کو قدرت نے ایسا دماغ عطا فرمایا تھا کہ جس منزل میں انہوں نے قدم رکھا کامیاب ہوتے گئے۔ جس خاک کے ذرہ کو ہاتھ لگایارشک ماہتاب بنا دیا ۔جس سوسائٹی میں شرکت کی اس کو شرف و مجد کا گہوارا بنا دیا ۔سیاسیات میں وہ اپنی نظر آپ تھے ۔ ان کی حریت رائے کو کوئی قوت مغلوب نہ کر سکی ۔ قوم و ملک کے وہ سب سے زیادہ نبض شناس تھے ۔آزادیٔ وطن کی خاطر اُن کو مصائب و آلام کے تلخ جام پینا پڑے مگر اُن کی پیشانی پر بل نہ آئے۔ سیاست کے لیے خطابت ضروری چیز ہوتی ہے۔ اُنہوں نے بھی خطابت کا سہارا لیا اور اُسے کامیابی سے نبھایا، یہی خطابت اُن کی تحریراور اُن کے اُسلوب کا جزو بھی بن گئی پھر انہوں نے خطیبانہ اُسلوب کا وہ نادر نمونہ پیش کیا کہ اُردو اَدب جس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔ مولانا کے خطیبانہ اُسلوب کے متعلق طارق سعید لکھتے ہیں:
“اُردو نثر کے خطیبانہ اُسلوب کی تخلیق کا سہرا بھی غالب ہی کے سر ہے۔ لیکن اس اسلوب کے تمام و کمال عناصر کا ظہور ابوالکلام آزاد کے ہاتھوں ہوا۔ بلکہ خطیبانہ اُسلوب جو افلاطون اور ارسطو سے شرو ع ہو کر لان جائی نس کی تنقید علویت پر اختتام پذیر ہوتا ہے۔وہ اُردو میں تنہا ابوالکلام آزاد کی ملکیت خاص ہے۔ اس لحاظ سے ان کا کوئی ہم سر یا ثانی نہیں۔ ابوالکلام آزاد کے خطیبانہ اُسلوب کے ترکیبی اجزا محمد حسین آزاد اور شبلی نعمانی میں بدرجہ ا تم موجود ہیں اور یہ فن کار ابوالکلام سے پہلے گزرے ہیں۔ لیکن ابوالکلام کے الہلامی دور کا خطیبانہ طرزِ نگارش ان فن کاروں میں ناپید ہے۔”۲۱
مولانا ابوالکلام آزاد کی نثر کی بڑی خوبی جوش و اثر ہے۔ ان کا لفظ لفظ جوش میں ڈوبا ہو ا ہوتا ہے اور ساتھ ہی واقعات کی تصویر بھی نگاہوں کے سامنے کھینچ جاتی ہے جہاد کا ذکر کریں گے تو محسوس ہو گا کہ مجاہدین کی تلواریں واقعی بے نیام ہیں۔ ان کے گھوڑوں کی ٹاپوں سے زمین کی طنا بیں لرز رہی ہیں۔ تکبیر کے نعروں سے میدان جنگ میں گونج پیدا ہو گئی ہے، باطل کا پرچم سرنگوں ہو گیا ہے اور حق کی فتح ہورہی ہے۔ کسی تحریک کے لیے ابھاریں گے تو اندازِ نگارش اس درجہ پر جوش اور موثر ہو گا کہ پڑھنے والے کو یقین ہو جائے گا کہ کونین کی فلاح و بہبود کا دارو مدار اسی طریق کے شمول و اشتراک میں ہے۔ دعوت تحریک کے ضمن میں ایسے پرجوش الفاظ لاتے ہیں کہ ساکن سے ساکن دماغ اور پتھر سے پتھر دل میں بھی حرکت پیدا ہو جاتی ہے۔ ان کا انداز تحریر دلوں کو دہلا نے اور کپکپانے والا ہوتا ہے یوں لگتا ہے جیسے اُن کی خواہش ہو کہ کائنات کا ہر ایک ذرہ جوش سے معمور ہو جائے اور دنیا کا ہر تغافل آمیز سکون حرکت میں تبدیل ہو جائے۔ یہ بالکل درست ہے کہ اُن کے مضامین ہنگامہ خیز ہوتے ہیں لیکن اُن کے ہاں ہنگامہ تخریبی نہیں بلکہ تعمیری ہے۔
مولانا کا مطالعہ اس قدر وسیع ہے کہ لفظ اُن کے سامنے ہاتھ جوڑے نظر آتے ہیں۔ ایک متوسط قابلیت کا انسان اُن کے علم کا اندازہ نہیں کر سکتا۔ ابو الکلام نے علم کی تحصیل کسی ڈگری اور فضلیت کے لیے نہیں کی بلکہ علم کو علم سمجھ کر اورعلم ہی کے لیے حاصل کیاہے۔ یہی سبب ہے کہ وہ اکثر ایسی گہری اور جامع باتیں کر جاتے ہیں جس کی طرف عوام تو کیا خواص کا بھی ذہن منتقل نہیں ہو سکتا۔ ان کا مقصد تحریرنمود و نمائش اور تمنائے شہرت نہیں ہوتا بلکہ وہ ہر لفظ سے ایک عملی ہنگامہ پیدا کرنا چاہتے ہیں کہ حرکت و عمل سے قومیت کی تعمیر کر سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ اُن کا اُسلوب ِ تحریر یکساں نہیں رہتا بلکہ موقع کی مناسبت سے تبدیل ہوتا رہتا ہے۔پروفیسر ملک زادہ منظور احمد اس حوالے سے تحریر فرماتے ہیں:
“مولانا ابوالکلام آزاد کا اسلوب اپنے موضوع کے اعتبار سے بدلتا رہا ہے اور ان کے یہاں ایک سے زیادہ اسالیب ملتے ہیں۔ وہ ہر معمولی واقعہ میں اپنے لیے کوئی نہ کوئی امتیاز کا پہلو نکال لیتے ہیں اور وہ اپنے قلم اور زبان سے کسی ایسی عمومیت کا ذکر کرنا پسند نہیں کرتے جو قاضی عبدالغفار کے الفاظ میں ـ”سرفرازِ عقلیت” کے سانچے میں ڈھل سکے۔ عالم خوند میری کی یہ رائے کہ فلاں کا ایغویا ان کسی ایک برتر شخصیت کے کامل اتباع کاروادار نہیں ہو سکتا تھا اور وہ خود کوئی نیا راستہ تراشیں اس کے لیے ممکن نہیں تھا، صیحح نہیں ہے۔”۲۲
مولانا ابوالکلام آزاد کے قلم نے اُردو ادب کو اتنا کچھ دیا ہے کہ آنے والی کتنی ہی نسلوں کے لیے وہ خزانہ خالی نہ ہو گا۔ مولانا کی مستقل اور مکمل تصانیف کم سہی مگر مولانا نے جو کچھ رسائل اور کتابوں و خطبات میں لکھ کر چھوڑا ہے، وہ بہت ہے ۔یہ صیحح ہے کہ اُنہوں نے جو کچھ لکھا، اُس کا ہر مضمون حتیٰ کہ ایک مضمون کا ہر پیرا گراف اپنی جگہ ایک مستقل تصنیف معلوم ہوتا ہے۔ اس لیے ہمیں کسی جگہ بھی ادھورے پن کا احساس نہیں ہونے پاتا اور ہر شہ پارہ اپنی جگہ مکمل نظر آتا ہے۔ یہ بھی اُن کے طرزِ نگارش اور فکر کی پختگی کا کمال ہے۔
مولانا ابوالکلام آزاد کے افکار و نظریات، اُن کے اُسلوب تحریر اور اُن کے مضامین و تصانیف میں سموئے ہوئے خیالات کو سمجھنے اور پرکھنے کے لیے یہ ادراک ضروری ہے کہ مولانا پرتین مختلف ادوار گزرے ہیں اور تین پُر خطروادیوں سے انہوں نے اپنا فکری اور فنی سفر طے کیا ہے دور اوّل تقلیدِ سر سید کا دور تھا۔ دوسرا دور تشکیک و الحاد کا دور تھا۔ تیسرا دور مراجعت کا دور تھا جو خالص دینی یعنی قرآنی دعوت و تبلیغ کادور تھا جس نے جلد ہی مولانا میں آزادی کے جذبے کو پروان چڑھایا اور یہاں سے آگے بڑھتے ہوئے وہ مشترکہ قومی سیاسی جدوجہد کا حصہ بن گئے۔
مولانا کے ہاں ہمیں تقلید سے زیادہ تجدید نظر آتی ہے۔ اگرچہ اُن کے دورِ اول میں ہمیں سر سید کے اثرات نظر آتے ہیں مگر وہ اتنے گہرے نہیں بلکہ اُن میں بھی یکتائی اور انفرادیت کا رنگ نمایاں ہے۔ حقیقت میں اگر یہ کہا جائے کہ مولانا ابوالکلام آزاد بیسویں صدی کے اُردو نثری اُسلوب کے مجدد تھے تو بے جا نہ ہوگا۔
حوالہ جات
۱۔محمد صادق ،ڈاکٹر: محمد حسین آزاد۔احوال و آثار،مجلس ترقی ادب لاہور،نومبر ۱۹۷۶ء،ص۱۶۹
۲۔مہدی آفادی:افاداتِ مہدی،نول کشور پریس لکھنؤ،۱۹۶۹ء،ص۲۵
۳۔سید عبد اﷲ،ڈاکٹر:وجہی سے عبد الحق تک،سنگ میل پبلی کیشنز لاہور،۱۹۹۶ء،ص۲۲۲
۴۔محمد حسین آزاد:آبِ حیات،جہانگیر بکس لاہور،۱۹۸۸ء،ص۱۸
۵۔محمد صادق ،ڈاکٹر: محمد حسین آزاد۔احوال و آثار،ص۱۶۹
۶۔رام بابو سکسینہ،تاریخ ادبِ اُردومترجم محمد عسکری،مجلس ترقی ادب لاہور،۱۹۸۶ء،ص۲۰۳
۷۔سید عبد اﷲ،ڈاکٹر:وجہی سے عبد الحق تک،ص۲۲۴
۸۔فرمان فتح پوری ،ڈاکٹر:تحقیق و تنقید ،الوقار پبلی کیشنز لاہور،۲۰۰۶ء،ص۱۴۹
۹۔طارق سعید: اسلوب اور اسلوبیات،نگارشات لاہور،۱۹۹۸ء،ص۳۸۵
۱۰۔اسلم فرخی،ڈاکٹر: محمد حسین آزاد(جلد اوّل)،انجمن ترقی اُردو کراچی،۱۹۶۷ء،ص۳۲۴
۱۱۔محمد صادق ،ڈاکٹر: محمد حسین آزاد۔احوال و آثار،ص۱۷۶،۱۷۷
۱۲۔عابد، سید عابد علی: اُسلوب،سنگ میل پبلی کیشنز لاہور،۲۰۰۱ء،ص۲۲۱
۱۳۔فرمان فتح پوری ،ڈاکٹر:ادب اور ادبیات،الوقار پبلی کیشنز لاہور،۲۰۱۰ء،ص۲۰۳
۱۴۔علی عباس حسینی : تبصرہ مشمولہ ابو الکلام آزاد ۔ادبی و شخصی مطالعہ مرتبہ افضل حق قریشی ،الفیصل ناشران لاہور، جون ۱۹۹۲ء،ص۵۵۲
۱۵۔سید عبد اﷲ،ڈاکٹر:وجہی سے عبد الحق تک،ص۲۲۷
۱۶۔عبد الماجد دریا آبادی : ابو الکلام آزاد کی ادبی تخلیقات مشمولہ ابو الکلام آزاد ۔ادبی و شخصی مطالعہ مرتبہ افضل حق قریشی ،ص۵۵۴
۱۷۔عبد القادر سروری:تبصرہ مشمولہ ابو الکلام آزاد ۔ادبی و شخصی مطالعہ،ص۶۲۵
۱۸۔طارق سعید :اسلوبیاتی تنقید،ایجوکیشنل بک ہاؤس علی گڑھ،۱۹۹۳ء،ص۲۲۵
۱۹۔علی عباس حسینی : تبصرہ مشمولہ ابو الکلام آزاد ۔ادبی و شخصی مطالعہ مرتبہ افضل حق قریشی ،ص۵۵۲
۲۰۔سید عبد اﷲ،ڈاکٹر:وجہی سے عبد الحق تک،ص۲۲۷
۲۱۔طارق سعید: اسلوب اور اسلوبیات،۳۸۳
۲۲۔منظور احمد،ملک زادہ:دیباچہ اسلوب اور اسلوبیات،ص۱۱
………………………………..
نوٹ: اردو ریسرچ جرنل میں شائع مضامین کو بلا اجازت دوبارہ شائع کرنا منع ہے ایسا کرنا قانونا جرم ہے۔ (ادارہ)
محمد رفیق الاسلام
لیکچرر شعبۂ اُردو
گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کا لج،بہاول پور
E.Mail: Rafiqulislambwp@gmail.com
***Cell No:+923366728
Leave a Reply
Be the First to Comment!