حیات اللہ انصاری کے افسانے : ایک جائزہ
سید احمد
…………
حیات اللہ انصاری کی شخصیت جامع صفات کی حامل ہے ۔ وہ ایک ممتاز ناول نویس بھی ہیں اور ایک جید صحافی بھی ۔ ناقد ہونے کے ساتھ ماہرِ تعلیم بھی ہیں ۔ تحریکِ اردو کے قائد اور محبِ وطن بھی ہیں۔ گاندھیائی فکر کے حامل ایک دور اندیش قومی رہنما بھی ہیں اور سب سے بڑھ کر ایک اچھے افسانہ نگار بھی ہیں.حیات اللہ انصاری کو شروع سے ہی افسانوی ادب سے دلچسپی رہی اور یہ سلسلہ آخر وقت تک برقرار رہا۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ان کی صحافتی زندگی نے انھیں افسانہ نویسی کی طرف لگن اور یکسوئی کے ساتھ کام کرنے کا موقع فراہم کیا۔ حیات اللہ انصاری کا زمانہ کرشن چندر اور راجندر سنگھ بیدی کا زمانہ ہے۔ یہی وہ دور تھا جس میں علی عباس حسینی، مجنوں گورکھپوری اور نیاز فتح پوری وغیرہ بھی افسانوی ادب کے افق پر روشنیاں بکھیر رہے تھے۔ اس زمانے میں حیات اللہ انصاری نے ایک افسانہ ’بڈھا سود خور، لکھا جو کہ اپنے روایتی ڈگر سے ہٹ کے تھا اورحقیقت پسندی کا عکاس تھا۔ اس
افسانے کی اشاعت ’جامعہ، کے جون1930کے شمارے میں ہوئی۔ یہ ان کا پہلا مطبوعہ افسانہ تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب جامعہ جیسے معیاری اور اعلی درجے کے رسالے میں صرف انھیں تحریروں کو جگہ ملتی تھی جو کہ روش عام سے الگ ہوں اور ترقی پسندانہ خیالات کے حامل ہوں۔ حیات اللہ انصاری کے اس افسانے میں وہ تمام عناصر موجود تھے، جو صرف جوش جوانی کے آئیڈیالزم کا ہی نتیجہ نہیں تھے بلکہ یہ افسانہ سماجی و سیاسی صورت حال کا نشان اور پتہ بھی دیتا تھا۔ حیات اللہ انصاری کو فرنگی محل کی درسگاہ سے مولویت کی سند حاصل کرنے کے بعد بھی انھیں دستار بند نہیں ہونے دیا۔ ورنہ وہ کسی درسگاہ نظامیہ کا حصہ بن کر رہ جاتے۔ ان کا یہ افسانہ اپنی طرز کا پہلا افسانہ تھا جو مارکس کی حقیقت پسندی کو اپنے اندر سموئے ہوئے تھا۔ انسان کی قدر و قیمت اور زندگی کی حقیقت پسندی حیات اللہ انصاری کے افسانوں کی بنیادی پہچان ہیں۔ یہ دونوں چیزیں ان کے افسانوں میں بدرجہ اتم پائی جاتی ہیں۔ ایک جگہ ڈاکٹر صادق لکھتے ہیں:
’’حیات اللہ انصاری کا پہلا ہی افسانہ انسان اور انسان کے استحصال کی جو دردناک تصویر پیش کرتا ہے۔ وہ بے لاگ حقیقت نگاری کی ایک مثال ہے۔ فنی لحاظ سے کمزور ہونے کے باوجود “بڈھا سودخور” قاری کے ذہنی استحصال کے خلاف ایک خاموش جلوس کی کیفیت پیدا کردیتا ہے ۔ ان کے بعد ان کے چند افسانے انوکھی مصیبت، ڈھائی سیر آٹااورکمزور پودہ شائع ہوئے اور ادبی حلقوں میں کافی سراہے گئے بالخصوص ڈھائی سیر آٹا کی حقیقت نگاری ہی اپنے آپ میں ایک قوی شے تھی جس نے اسے اردو کا اولین مارکسی افسانہ کہلوایا‘‘۔(۱)
یہ بات الگ ہے کہ مارکس کے اثرات کو اس وقت کے اردو افسانہ نگار قبول نہ کرسکے تھے۔ یہ وہ دور تھا جس میں پریم چند کی حقیقت پسندی کو ایک بڑی طاقت تصور کیا جاتا تھا۔ اس پر گاندھی جی کے فلسفے کا بھی اثر صاف طور پر نظر آتا ہے۔اس وقت کے سیاسی انتشار سے افسانہ نگار بھی بچ نہ سکے چنانچہ حیات اللہ انصای پر یہ اثرات واضح طور پر نظر آتے ہیں۔
ان کا پہلا افسانہ ’’ بڈھا سود خور‘‘ ہے ۔جو، جون ۱۹۳۰ء میں رسالہ ’جامعہ‘ میں شائع ہوا۔ اس افسانے کے ساتھ ہی انھوں نے اپنی ایک علیحدہ پہچان بنالی۔افسانہ نگاری کے شروعاتی دور ہی سے ان کے اندر باغیانہ انداز پایا جاتا ہے ۔ زندگی کی سچائیوں اور حقیقتوں کو پیش کرتے وقت ان کے سامنے پریم چندر کاآدرش وادی نقطۂ نظر اور اخلاقی حسیت توضرور تھا مگر پریم چند کی سمجھوتے بازی سے انھوں نے خود کو ہمیشہ الگ رکھا۔ انھوں نے فرانسیسی اور روسی حقیقت نگاری کے دبستانوں کو ملا کر ایک نئے اسلوب کی بنیاد ڈالی۔
حیات اللہ انصاری کا پہلا افسانوی مجموعہ ’’بھرے بازار میں‘‘ کے نام سے ۱۹۳۵ء میں شائع ہوا۔ دوسرا مجموعہ ۱۹۳۹ء میں ’’انوکھی مصیبت‘‘ کے نام سے اور تیسرا مجموعہ ’’شکستہ کنگورے‘‘ کے نام سے اکتوبر ۱۹۵۵ء میں اور ان کا چوتھا افسانوی مجموعہ ’’ٹھکانہ‘‘ ہے جو دسمبر ۱۹۹۱ء میں دہلی سے شائع ہوا۔
حیات اللہ انصاری کا افسانہ ’’آخری کوشش‘‘ کا شمار اردو کے بہترین افسانوں میں ہوتا ہے ۔ اس افسانے کا مرکزی کردارگھسیٹے ہے۔ جو ایک غریب کسان طبقے سے تعلق رکھتا ہے۔ ایسا کسان جو بڑے بڑے کسانو ں اور زمین داروں کی زمینوں پر کام کرکے اپنے گھر کی روزی روٹی چلاتا ہے۔ گھسیٹے نے بچپن میں ایک خواب دیکھا تھا اور خواب کی تکمیل کے لیے گھر سے بھاگ کر کلکتہ آتا ہے۔ ان خوابوں کے لیے جو ہر کسان کے اندر چھپے ہوئے ہوتے ہیں۔ ایک جوڑی اچھے بیلوں کی، ایک چھپر پڑا ہوا گھر، اور کھیتی کے لیے زمین ۔ پچیس سالوں کی ایک طویل مدت گزارنے کے بعد ناکام ونامراد وطن واپس آتا ہے۔ کلکتہ جاتے وقت اس کے یہ خواب ایک بھر پور زندگی کے تھے۔ جن کے پورا ہونے کا اسے یقین تھا۔ مگر پچیس برس کے بعد بھی وہ خواب ویسے کے ویسے ہی رہتے ہیں۔ اپنی ناکامی کو ساتھ لیے ہوئے کلکتہ کے تلخ تجربے کے ساتھ گھر کے سکون کی تلاش میں جب گھر پہنچتا ہے تواسے گھر کا نقشہ ہی کچھ اور نظر آتا ہے ۔ بھائی فقیرا وقت سے پہلے بوڑھا ہوچکا تھا۔ ماں تھی تو ضرور مگر ہوش وحواس سے بیگانہ، دور چیتھڑوں کے ایک ڈھیر کی طرح گھر ماں اور فقیرے کی حالت دیکھ کر اپنے تصورات کی دنیا سے نکل کر حقیقت کی دنیا میں واپس آتا ہے تو اس کی زندگی کڑی دھوپ میں کھڑی ہوئی دیکھائی دیتی ہے ۔ کلکتہ سے واپسی کے بعد اس کے دل میں گھر ، ماں اور بھائی کے لیے جو محبت تھی اس کو گھر کے افلاس نے بالکل معدوم کردیا اور اس محبت کی جگہ چڑچڑے پن اور خود غرضی نے لے لی۔
غریبی اور مایوسی انسان کو کس حد تک پہنچادیتی ہے اس کی ایک مثال گھسیٹے کی ہے کہ وہ اپنی ماں سے بھی بھیک منگواتا ہے ۔ اور اس کام میں اپنے بھائی فقیرا کو بھی ساجھی دار بناتا ہے۔ فقیرا جب اس کے لیے تیار نہیں ہوتا ہے تو وہ بڑی مکاری اور چالاکی کے ساتھ اس کی دُکھتی ہوئی رگ پر ہاتھ رکھتا ہے:
ہاں تمہارا سادی بیاہ کرنا ہے، روپیہ دیکھ کر سبھی لڑکی دینے کو راضی ہوجاتے ہیں ۔ اور نہیں تو پھر اپنی برادری میں نہ سہی کسی اور میں سہی ، ارے ہاں اس طرح تو کہیں بھی نہیں کرسکتے۔ اور پھر یہ اماں کے لیے بھی اچھا ہے ۔ جب پیسے ہوں گے تو ان کو بھی خوب کھانے کو ملے گا‘‘۔ (۲)
فقیرا بھی زندگی کے مصائب سے پریشان ہے ۔ اس کا دل بھی گھر بسانے کو کرتا ہے۔ اس کا دل بھی اچھی چیزوں کی خواہش رکھتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ اس کو یہ بھی پتہ ہوتا ہے کہ غریبوں کے لیے کوئی ارمان پالنا کسی جرم سے کم نہیں۔ مگر گھسیٹے کے روزانہ پٹی پڑھاتے رہنے سے اس کے دل کے سوئے ہوئے ارمان جگنے لگتے ہیں اور وہ بھی گھسیٹے کے فیصلے کے سامنے سر خم کردیتا ہے۔ اس سے پیٹ تو ضرور بھرجاتا ہے۔ لیکن پیٹ بھرنے کے بعد اس کے اندر کا چُھپا ہوا خود غرض انسان سر اٹھاتا ہے کیوں کہ ماں سے بھیک منگوانے سے اس کے اندر کا ضمیر تو پہلے ہی مرچکا تھا۔ اس خود غرـضی کے ہاتھوں وہ اپنے بھائی کا قتل بھی کردیتا ہے اور دونوں بٹوارے کو لے کر جھگڑ رہے ہوتے ہیں۔ اور اِدھر ماں منہ موڑ کر اس دنیا سے جا چکی ہوتی ہے۔
جہاں ایک طرف گھسیٹے اور فقیرے کے کردار کے ذریعہ یہ دکھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ انسان اس قدر پستی میں جاسکتا ہے اور اخلاق سے گری ہوئی حرکت بھی کر سکتا ہے۔ وہیں دوسری طرف غربت اور افلاس سے لڑتے لڑتے تھک چکنے والے بازؤں کو بھی دکھایا گیا ہے۔ ’’آخری کوشش‘‘ کا شمار اردو کے چند بہترین افسانوں میں کیا جاتا ہے کیوں کہ اس میں گہرائی اور معنویت بھی ہے اور انسان کے بنیادی مسائل کا عرفان بھی ہے۔ حیات اللہ انصاری کو کہانی لکھنے پر پوری دسترس حاصل ہے ۔ وہ اندھی تقلید کرتے ہوئے نظر نہیں آتے۔ ان کے نفسیاتی مشاہدے نے ان کے افسانوں کو ایک بلندی عطا کی ہے۔
حیات اللہ انصاری کا ایک اہم افسانہ ’’شکستہ کنگورے‘‘ بھی ہے۔ اس افسانے کا مرکزی کردار ’’منیر‘‘ ہے۔ اور کہانی اسی کے ارد گرد گھومتی ہے۔ منیر زوال پذیر جاگیردارانہ طبقے سے تعلق رکھتا ہے۔ اور اس کا ایک فرد ہے۔ ا س کے اندر ایک ولولہ ہے ۔ جوش ہے کہ محل کے پرانے شان وشوکت ، اس کے عروج اور رونق کو دوبارہ لانا ہے۔ اس محل کی کھوئی ہوئی عظمت کو دوبارہ لانے کی خواہش وہی عظمت جو منیر کے والد کی طبیعت کی خرابی اور پھر موت اور کارندوں کی غداری کے سبب کھوچکی ہے۔ اس کو دوبارہ حاصل کرنے کی کوشش اور دادا اور ماں کے خوابوں کو پورا کرنے کا وہ واحد ذریعہ ہے۔ منیر اپنی تعلیم مکمل کرکے شہر سے گھر لوٹتا ہے۔ اُدھر دادا جی اس کو ایک بڑا افسر بنتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔ مگر ہوتا یہ ہے کہ جب وہ گاؤں میں آکر کسانوں کی پریشانیوں اور مصیبتوں کو دیکھتا ہے تو وہ پھر اپنا ارادہ بدل دیتا ہے۔ کسانوں اور مزدوروں کے لیے بہت کچھ کرنے کی خواہش اس کے دل میں سر ابھارنے لگتی ہے ۔ اس طرح منیر دودھارے میں پھنس جاتا ہے ۔ ایک طرف کسان اور غریب لوگ ہوتے ہیں کہ ان کی معصومیت اور جاہلیت کی وجہ سے بڑے زمیندار اس کو لوٹتے رہتے ہیں اور دوسری طرف دادا جی کا خواب! اس سلسلے کا ایک اقتباس ملاحظہ ہو:
’’ دادا میاں کی یہ کبھی کبھی کی ٹھنڈی آہیں منیر کے سینے میں جاکر زبردست ارادوں کی شکل اختیار کرلیتی تھیں کہ جیسے بھی بنے اپنی گزشتہ شان وشوکت واپس لاؤں گا اگر اس پھاٹک پر پھر ہاتھی نہ جھوما تو زندگی کس کام کی۔ یہ عروج تو اپنا حق ہے‘‘۔ (۳)
’’آخری کوشش ‘‘ میں جہاں ایک طرف شہر اور دیہات کی کشمکش کو بیان کیاگیا ہے ، وہیں ’’شکستہ کنگورے‘‘ میں اس عہدکے جاگیردارانہ ماحول کو پیش کیا گیا ہے۔ جو آزادی کے آس پاس اپنی آخری سانسیں گن رہا تھا ۔ ’’شکستہ کنگورے‘‘ کے کردار اپنے شاندار ماضی کو دوبارہ پانے کی خواہاں ہیں وہ شاندار ماضی وہ عروج جو کبھی ان کا تھا۔
حیات اللہ انصاری کا افسانہ ’’ڈھائی سیرآٹا‘‘ سماج کے طبقاتی اونچ نیچ اور معاشی بے اعتدالیوں کی ایک زندہ مثال ہے۔ ’’ڈھائی سیر آٹا‘‘ کا مرکزی کردار ’’مولا‘‘ ہے ۔ جوکہ ایک بے حد غریب مزدور ہے۔ ڈھائی سیر آٹا کو پڑھنے کے بعد ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ صرف مولا کے گھر کی کہانی نہیں ہے۔ بلکہ ان تمام محنت کش مزدوروں کی کہانی ہے جن کو دن رات محنت کرنے کے بعد بھی پیٹ بھر کھانا میسر نہیں ہوتا۔ دوسری طرف سماج کا ایک ایسا بھی طبقہ ہے جس کے نزدیک صرف پیٹ بھرنا اہم نہیں ہے بلکہ ذائقہ معنی رکھتا ہے۔
’’بارہ برس کے بعد‘‘ اس افسانہ میں افسانہ نگار نے عورت اور مرد کے تعلق سے سماج اور لوگوں کے اندر جو دوہرے سلوک کی روایت قائم ہے ۔ اس کو یہاں اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس افسانے میں اس زمانے کی تہذیبی فضا کو پیش کیا گیا ہے۔ جب تھیٹر میں کام کرنے والوں کو سماج عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھتا تھا۔
حیات اللہ انصاری کا ایک اہم افسانہ ’’بھرے بازار میں‘‘ ہے۔ اس افسانے کا مرکزی کردار ’’رکھی ‘‘ ہے جو سماج کے نچلے طبقے سے تعلق رکھتی ہے۔ اس کا جسم ہی اس کی کل پونجی ہے اور یہی روزی روٹی کا ذریعہ بھی ہے۔ وہ مزدوروں اوردیگر چھوٹے موٹے کام کرنے والوں کے بیچ اپنے جسم کو بیچ کر اپنی زندگی کی گاڑی جیسے تیسے چلارہی ہے۔ اس کی پوری زندگی سڑک کے کنارے گزری ہے ۔ مگر ادھر زچگی اور چیچک کی بیماری میں مسلسل بارہ روز تک پڑے رہنے کے سبب وہ بے حد کمزور ہوچکی ہے ، اپنے آپ کو بے کمزور اور گندہ محسوس کرتی ہے اوراس کے دل میں نہانے کی خواہش پیدا ہوتی ہے اورجب وہ نہانے کے لیے کارپوریشن کے بڑے غسل خانے میں جاتی ہے۔ تو عورتیں اسے وہاں سے بھگادیتی ہیںاور جب دوسوگز دوری پر لگے نل پر نہانے کی کوشش کرتی ہے تو مردوں کے احتجاج کا سامنا کرنا پڑتاہے ۔ اس طرح وہ ایک جگہ سے دوسری جگہ جاتی ہے۔ مگر کہیں بھی کامیابی حاصل نہیں ہوتی ہے ۔ کہیں لوگ اسے بیمار سمجھ کر بھگا دیتے ہیں اور جب وہ کنارے لگے ہوئے نل پر نہانے جاتی ہے تو لوگ وہاں سے اس کو اس لیے بھگا دیتے ہیں کہ اس سے بے حیائی ہوتی ہے۔ آخر میں وہ ہمت کرکے دریا کی طرف چل پڑتی ہے ، کمزوری کی وجہ سے اس سے چلا نہیں جاتا۔ دریا کی طرف جاتے وقت اس کو راستے میں ایک تال ملتا ہے۔ وہ اس میں اتر جاتی ہے ۔ حالاں کہ اس کو تال میں اترتے ہوئے دیکھ کر آس پاس کے لوگ بہت شور مچاتے ہیں۔ مگر وہ اس کی پرواہ کیے بغیر سینہ تان کر کھڑی ہوجاتی ہے اور اپنے بدن کے میل رگڑتے ہوئے لوگوں سے کہتی ہے بگاڑلو جوکچھ بگاڑنا ہے میرا۔ ابھی بھی لوگوں کی نظریں اس کے بدن کے نشیب وفرازکو گھورے جارہے ہیں ۔ لیکن جیسے ہی رکھی بدن سے چپکی ہوئی بھیگی ساڑی کو ہٹا کر میل کو چھڑانے لگتی ہے ۔ لوگوں کی گھورتی ہوئی نگاہیں خود بہ خود جھکتی چلی جاتی ہیں۔ اس کہانی کے ذریعہ حیات اللہ انصاری نے سماج کے باطن کو ننگا کردیا ہے۔
دراصل کہانی کا مرکزی خیال نہانے کی کوشش پر مبنی ہے۔ غسل کو یہاں علامت کے طورپر پیش کیا گیا ہے ۔ غسل کے بعد انسان صاف ستھرا اور پاک ہوجاتا ہے اور ’’رکھی‘‘ بھی پاک ہونا چاہتی ہے۔ لیکن سماج اورسماج کے نام نہاد شرفا اس کام میں رکاوٹ بنتے ہیں ۔ لیکن جب وہ اس سماج نما لباس کو جووہ اپنے بدن پر اوڑھے ہوئے تھی اتار کر اپنے بدن سے الگ کرتی ہے تو کھوکھلا سماج عریاں ہوجاتا ہے اور سماج کے نام نہاد شرفا اس کے اس شدید ردعمل سے سہم جاتے ہیں۔ اورعورت کا یہ جذباتی ردعمل اس کہانی کے پڑھنے والے قاری کے لیے فکر کا ایک تازیانہ ہے۔
افسانہ ’’بہت ہی باعزت‘‘ میں افسانہ نگار نے ’’چچاجان‘‘ کے کردار کے ذریعہ سماج کے ان اشخاص پر زبردست چوٹ پہنچائی ہے جو اپنے کالے کارناموں کو جھوٹی مذہبیت کی آڑ میں چھپالیتے ہیں۔ اور سماج کے ان لوگوں پر بھی طنز کیا ہے جو اپنے مفاد کی خاطر ایسے لوگوں کی تعریفیں کرتے ہیں۔ چچا جان کے کردار میں کچھ ایسی عجیب وغریب چیزیں یکجا ہوگئی ہیں کہ یہ پتہ نہیں چل پاتا کہ کیا وہ واقعی نیکی کررہے ہیں یا اپنی برائیوں کی پردہ پوشی کے لیے وہ نیکیاںکرنے کے لیے مجبور ہیں۔ اس افسانے کا ذکر ایک جگہ محمد حسن صاحب یو ںکرتے ہیں:
’’ چچا جان یوں تو ایک خاکہ سا معلوم ہوتا ہے مگر اس افسانے میں چچا جان کی کھوکھلی شخصیت ہی کو بے نقاب نہیں کیاگیا ہے بلکہ پورے سماج پر زبردست چوٹ کی گئی ہے جو صرف ان لوگوں کو برگزیدہ سمجھتا ہے جن سے ذاتی مفاد حاصل ہوتے ہیں گو ان سے عظیم تر قومی اور انسانی مفاد کو نقصان ہی کیوں نہ پہنچتا ہو۔ تکنیک کا لُطف یہ ہے کہ خود بیان کرنے والا چچا جان کی شخصیت کا ذکر نہایت ادب واحترام سے کرتا ہے اور اپنے بیان کے طنز سے بے خبر ہے اور چچا جان کی سماج دشمن سنگین نوعیتوں سے بے خبر ‘‘۔ (۴)
حیات اللہ انصاری کے افسانوں میں پلاٹ کو کافی اہمیت حاصل ہوتی ہے اور وہ کرداروں کو واقعات سے باندھے رکھتے ہیں گویا ان کے افسانوں میں پلاٹ کو کرداروں پر برتری حاصل ہوتی ہے ’’ آخری کوشش ‘‘ کا ’گھسیٹے‘ ، ’’ڈھائی سیر آٹا‘‘ کا ’مولا‘ یا پھر ’’شکستہ کنگورے‘‘ کا ’منیر‘۔ یہ سارے کے سارے کردار واقعات سے بندھے ہوئے نظر آتے ہیں۔
حیات اللہ انصاری اپنے کرداروں پر اور اندازِ بیان پر مسلسل نظر رکھتے ہیں۔ ان کے افسانے کسی ایک ہی جز پر نہیں ٹکے رہتے۔ بلکہ ان کی نگاہ میں افسانے کا ہر پہلو رہتا ہے۔ افسانہ ’’آخری کوشش‘‘ میں افسانہ نگار ابتدا سے آخر تک کرداروں کے ساتھ ہی رہتا ہے ، اس میں ایک خیال دوسرے خیال ہر حاوی ہوتا چلاجاتا ہے ، کہانی میں کوئی ایسی چیز نظر آتی ہے جس سے ماضی کا خیال آجاتا ہے۔ مگر پھر کردار فوراً ہی حال میں آجاتے ہیں۔ کردار ماضی اور حال کے بیچ کڑی کی طرح جڑے ہوتے ہیں۔ ’’آخری کوشش‘‘ میں کھسیٹے کے ساتھ ساتھ قاری بھی شامل ہوجاتا ہے۔ اوراس کی تمام نفسیات میں داخل ہوکر زندگی کو اس کی آنکھوں سے دیکھنے لگتا ہے۔ اس افسانے کی تکنیکی خاصیت یہ ہے کہ یہ افسانہ کرداروں کی پوری زندگی کا احاطہ کیے ہوئے ہوتا ہے ، یوں اختتامیہ جملے کے ساتھ کرداروں کی زندگی کی کہانی شروع ہونے کے ساتھ جلد ہی ایک حیرت انگیز موڑ پر ختم ہوجاتی ہے ۔ بیان کی شدت ، اسلوب اور تکنیک کی جدت نے اس افسانے کو بہترین افسانہ بنادیا ہے۔
حیات اللہ انصاری کو جزئیات نگاری پر بھی مہارت حاصل ہے ۔ افسانہ ’’آخری کوشش ‘‘ میں جزئیات نگاری کے ساتھ تشبیہات واستعارات کے نادر نمونے ملتے ہیں ۔ ان کے مشاہدے کی گہرائی کا اندازہ اس اقتباس سے لگایا جاسکتا ہے،
’’ یہاں چیتھڑوں کے انبار میں دفن ایک انسانی پنچرپڑا ہوا تھا ۔ جس پر مرجھائی ہوئی بد رنگ گندی کھال ڈھیلے کپڑوں کی طرح جھول رہی تھی ۔ سر کے بال بیمار بکری کی دم کے نیچے کے بالوں کی طرح میل کچیل میں لتھڑ کر نمدے کی طرح جم گیے تھے۔ آنکھیں دھول میں سوندی کوڑیوں کی طرح بے رنگ ، اپنے ویران حلقوں میں ڈگرڈگر کررہی تھیں۔ ان کے کوئے کیچڑ اور آنسوؤں میں لت پت تھے ، گال کی جگہ ایک پتلی سی کھال رہ گئی تھی جو دانتوں کے غائب ہونے سے کئی تہوں میں ہوکر جبڑوں کے نیچے آگئی تھی ۔ گال کے اوپر کی ہڈیوں پر کچھ پھولاپن سا تھا۔ یہ گوشت ہو یا ورم! جیسے روتے روتے روتے ورم آگیا ہو۔ گردن اتنی سوکھی تھی کہ ایک ایک رگ نظر آرہی تھی ۔ ننگے سینے پر چھاتیاں لٹک رہی تھیںجیسے بھینچی ہوئی الٹی بنڈی کی خالی جیبیں۔ چہرے کی ایک ایک جھری سخت گھناؤنی مصیبتوں کی مہر تھی جسے دیکھ کر بے اختیار دھاڑیں مارمار کر رونے کو جی چاہتا تھا‘‘۔ (۵)
انھیں زبان پر عبور حاصل ہے ۔ بول چال اور محاوراتی زبان کا استعمال بڑے ہی خوبصورت انداز کے ساتھ کرتے ہیں نہ کوئی لفظ زیادہ لگتا ہے اور نہ کم ۔ زبان سیدھی سادھی ہوتی ہے جس میں نازک خیالی بھی پائی جاتی ہے اور گہری فلسفیانہ باتیں بھی اور سب سے بڑی چیز یہ کہ ان کی تحریروں میں اختصار پایاجاتاہے۔
انصاری صاحب اسلوب کی چاشنی کے ذریعے سے افسانوں میں نئے نئے خیالات لاتے ہیں۔ ان کا نرم اور متین لہجہ ان کے افسانوں کی بنیادی پہچان ہے ۔ ڈاکٹر محمد حسن ایک جگہ لکھتے ہیں:
’’ بلند آہنگی کے ساتھ ساتھ نرم آواز اور لطافتِ فکر کوبرتنے والے افسانہ نگار بھی موجودتھے۔ گو ان کے افسانوں میں شعلے اور ان کے جملوں میں آتش فشانی نہیں تھی۔ یہ لوگ وہ تھے جو چیخوف سے قریب تھے۔ ان میں سرِ فہرست راجندرسنگھ بیدی، اور حیات اللہ انصاری کے نام ہیں۔دونوں تیکھی بات کو نرم اور لطیف لہجے میں کہتے تھے۔ ماتھے پر شکن ڈالے بغیر منہ کا مزہ خراب کیے بغیر ان کا فن شفیق چارہ گر کا فن تھا۔ جس میں جراح کے نشتر کی کاٹ نہیں تھی۔ خطیب کے لہجے کی گھن گرج نہیں تھی۔ معنی کے گلے کا سوز تھا۔ اس کے دل کی دردمندی تھی ان کے بلیغ ترین مفہوم اشاروں میں ادا ہوتے تھے‘‘۔ (۶)
وقار عظیم حیات اللہ انصاری کے فن کی خوبی ایک جگہ یو ںبیان کرتے ہیں:
’’ حیات اللہ انصاری کے فن میں مشاہدہ ، تخیل، اور فکر کا عمل یکساں ہیں۔ اس فن میں ان تینوں چیزوں کی برابر اہمیت ہے۔ ان کا علم، ان کا فلسفہ اور ان کی بلندیٔ فکر ان کے انداز میںگھُل مل گئی ہے۔ اس کا دانستہ اظہار کہیں بھی نہیں لیکن اس کا یقینی اثر ہر جگہ موجود ہے ۔ ان کی کہی ہوئی کوئی بات سطحی نہیں معلوم ہوتی اور بظاہر ایک ہنسی کی بات کے پردے میں کوئی گہری حقیقت موجود ہوتی ہے۔‘‘(۷)
حیات اللہ انصاری کے افسانے اپنے فن، تکنیک ، موضوع اور اسلوب کے لحاظ سے اردو کے افسانوی ادب میں گراں قدر سرمایہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کے موضوعات میں زبردست تنوع پایاجاتا ہے۔ جذبات نگاری اور حقیقت نگاری ان کے افسانوں کی ایک اہم پہچان ہے۔ ان کے افسانے نادر تشبیہات واستعارات سے مزین نظر آتے ہیں۔ ان کی جدتِ طبع نے افسانہ نگاری کو بامِ عروج تک پہنچادیا ہے۔
حواشی وحوالے:
1۔ڈاکٹر صادق، ترقی پسند تحریک اور اردو افسانہ، اردو مجلس دہلی، اشاعت اول، 1981، ص169-170
2۔حیات اللہ انصاری ، بھرے بازار میں اور دیگر منتخب افسانے، مرتبہ شہاب قدوائی ، الحمرا پبلشنگ، اسلام آباد، ۲۰۰۳ء ص 346
3۔حیات اللہ انصاری، شکستہ کنگورے، آزاد کتاب گھر، دہلی، باراول ، اکتوبر۱۹۵۵ء ، ص 8
4۔محمد حسن،جدید اردو ادب، غضنفر اکیڈمی ، کراچی ، پاکستان، جولائی ۱۹۷۴ء ، ص 36-35
5۔حیات اللہ انصاری ، بھرے بازار میں اور دیگر منتخب افسانے، مرتبہ شہاب قدوائی ، الحمرا پبلشنگ، اسلام آباد، ۲۰۰۳ء ص 339
6۔محمد حسن،جدید اردو ادب، غضنفر اکیڈمی ، کراچی ، پاکستان، جولائی ۱۹۷۴ء ، ص 17
7۔وقار عظیم، نیا افسانہ، ایجوکیشنل بک ہاؤس، علی گڑھ۱۹۸۲ء ، ص 110
…………………………………
Syed Ahmad
Room No. 161, Sabarmati Hostel, JNU, New Delhi
Email: syedjnu@gmail.com, Mobile: 9013945482
Leave a Reply
1 Comment on "حیات اللہ انصاری کے افسانے : ایک جائزہ"
[…] حیات اللہ انصاری کے افسانے : ایک جائزہ← […]