شاکر صد یقی بحیثیت تلمیذ اقبالؒ (مکتوبات اقبالؔ کے حوالے سے ایک جا ئزہ)
ملک طارق زیدیؔ
شعبۂ اردو کشمیر یونیورسٹی، سری نگر، جمو اور کشمیر
فون نمبر : ۔ 9596469623
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اقبالؔ کے مکتوب الیہ عام طورپر عُلماء ‘فضلاء ‘ فلسفی کے متلا شی ‘ سیاستدان اور شعر و ادب سے شغف رکھنے والوں کی کا فی تعداد رہی ہے۔ اقبال ؔ سے اگر کوئی شخص یا شخصیت کسی علمی‘ سیاسی یا ادبی معا ملے کے بارے میں کچھ معلومات حاصل کر نا چا ہتی تھی تو وہ نہ صرف ان کو تشفی بخش جواب دیتے تھے بلکہ ان کو مختلف بنیادی ما خذوں کی طرف اشارہ بھی کر تے تھے۔ اس طرح اقبال ؔ کے یہاں غالب ؔ کی طرح مکتوبات کا کافی ذخیرہ جمع ہوا ہے۔ غالب ؔ نے جس طرح اپنے دور کے سیاسی و علمی شخصیات سے خط و کتابت کی ہے اور اپنے دور کے مسائل کو بخوبی بیان کیا ہے اسی طرح اقبال ؔ نے بھی اپنے دور کے سیاسی و علمی شخصیات سے خط و کتابت کی۔
اقبال ؔ کا حلقۂ احباب بہت و سیع تھا۔ اس میں سیاسی و مذہبی شخصیات ‘ ادیب و شاعر ‘ زمیندار و جا گیر دار اور طالب علم بھی ہیں۔یعنی اس میں اُن کے خادم علی بخش تک سیکڑوں مکتوب الیہ کے نام آتے ہیں۔ غرض اقبال ؔ کو ہر طرح کے لوگوں کے ساتھ مراسلت ومکا تیب رہی ہے۔ اس سلسلے میں محمد امین اند رابی لکھتے ہیں۔
’’اقبالؔ کے احباب کا دا ئرہ بہت ہی اسیع تھا…………………….اقبال کے دستیاب خطو ط
کی تعداد تقر یبٔا تیرہ سو (۱۳۰۰) تک پہنچی ہے۔ اسی طرح اُُن کے مکتوب الیہ کی تعداد بھی تقر یبٔا
ڈیڑھ سو (۱۵۰) ہے ‘ جن میں ہر طرح کے لوگ ہیں ‘ ادنیٰ بھی اعلیٰ بھی ‘ ادیب بھی شاعر بھی ہیں ‘
زمیندار اور جاگیر دار بھی ہیں ‘ اسا تذہ اور طالب علم بھی ہیں۔ وہ لوگ بھی ہیں جنہیں اقبال ؔ کے
ساتھ اُٹھنے بیٹھنے کا شرف بھی حاصل تھا “
اقبال ؔ نے اپنے ہم عصر کو نہ صرف فکری سطح پر متا ثر کیا ہے بلکہ اُن کے فنّی انفراد نے بھی اپنے عصر پر دُوررس اثرات مرتب کئے ہیں۔ اُنھوں نے اپنے دور کواس حد تک متاثر کیا کہ وہ ان کی لے سے لے ملا نے میں ہی اپنی عا فیت سمجھنے لگا۔اقبال ؔ کے معا صر ین اُن کی ند رت بیانی ‘گہری فکر اور فنی ارتکاز کو اس طرح اپنا نے لگے جس طرح اُن کے اُستاد فصیح الملک داغ ؔ دہلوی کے رنگ نے نہ صرف پورے منظر نامے کو رنگ لیا ‘ بلکہ اُن کے معا صر ین نے بھی اُن کے لب و لہجے کو اپنانے میں ہی اپنی عافیت سمجھی۔ اقبال ؔ کی شخصیت کیو نکہ کثیر الجہات ہے ،اس وجہ سے اُن کے مدا حین اور عقیدت مندو ں کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے۔ انہیں مدّا حین اور عقیدت مندوں میں ایک منفرد نام شاکر صدیقی ؔکا بھی ہے۔شاکرصدیقی کو شعر کہنے کا بڑا شوق تھا ۔’’مخزن ‘‘ کے دورِ ثانی کے معاون مدیر سر دار کیسرا سنگھ کے ایما ء پر انھوں نے ۱۹۱۲ ء میں اقبال ؔ سے اپنے کلام پر اصلاح لینے کے لئے خط و کتابت شر وع کی۔ اقبال ؔ نے اگر چہ حسب عادت اصلاح دینے سے انکار کیا لیکن شاکر صد یقی ؔ کے بار بار استقلال کے باعث اقبال ؔ نے انہیں جگہ جگہ کئی مفید مشورے دئے ہیں ۔ شاکر صدیقی ؔ کے نام اقبال ؔ کے دس (۱۰) خطوط شامِل ہیں۔ یہ خطوط پہلی دفعہ ’’ بشیر احمد ڈا ر‘‘کا مر تب کر دہ مجمو عہ ’’ انوارِ اقبال ؔ ‘‘ میں شامل کئے گئے ہیں۔ اس کے بعد یہ خطوط ’’سید مظفر حسین بر نی ‘‘ نے’’انوار اقبال ‘‘ کے حوالے سے ہی ’’کلیات مکا تیب اقبال ؔ ‘‘ میں شامل کئے۔
شاکر صد یقی ؔ کو چونکہ اقبال ؔ سے بے حد محبت و عقیدت تھی۔اس لئے اقبال ؔ سے اصلاح سخن کی خواہش رکھنے والوں میں اُن کا نام بڑ ی اہمیت کا حامل ہے وہ اقبال ؔ کی شا عری میں مو جود کیف و اثر ’ رنگا رنگی ‘ گہرا ئی اور گیرائی سے زبر دست متا ثر تھے۔ اور اُن سے بعض پہلو ؤں میں طبعی منا سبت بھی رکھتے تھے۔ اقبال ؔ اگر چہ تلّا مذہ کی روا یت کے پر وردہ ہیں مگر انھوں نے اپنی ذہنی مناسبت نہ ہو نے کی بنا پر اس روا یت کی طرف زیادہ تو جہ نہ دی۔ پھر بھی بعض شعر ادب کے متلا شی اُن کی طرف متوجہ ہو ئے تھے جن میں شاعر صد یقی ؔ کا نام کا فی اہمیت رکھتا ہے۔ اقبال ؔ کے دور میں اگر چہ تخلیقی پیا س بُجھا نے کے لئے اردو شاعری کے روا یتی د بستان سے تعلق رکھنے والے بھی مو جود تھے لیکن اس کے با و جود شا کر صد یقی ؔ نے اپنے طبعی رحجان کے تحت اقبال ؔ کے اندازِ فکر اور نظر یۂ فن کو اپنا نے کی کما حقۂ کو شش کی ہے۔ انھوں نے اقبال کی صحبت میں ہی اپنے فکر و فن کو پر وان چڑ ھا نے کو تر جیح دی ہے۔ وہ کلام اقبال سے اِس حد تک متا ثر تھے کہ وہ اپنے اشعار میں اقبال کے رنگ کونہ صرف اپنا نے کی کو شش کر تے بلکہ اپنے اشعار پر اقبالؔ سے با ضا بطہ طور پر اصلاح بھی لیے تھے۔ اقبال ؔ نے جگہ جگہ اُ نہیں مُفید مشو رے دیئے ہیں جن پر عمل کر نے کے بعد ہی ایک سخن سنح کمال فن حاصل کر سکتا ہے۔ ’محا ورہ بندی ‘ حشوو ز وائد اور زبان کی درستی کے بارے میں اقبالؔ نے انہیں کئی مشو رے دیئے ہیں۔ اس کے علا وہ انھوں نے کئی اشعار میں مو جودہ فنّی استقام کو نشان زد کر نے کے بعد اس کی تو جیہ بھی کی ہے۔ کلیات مکا تیب اقبال ؔ (جلد اوّل) میں اقبال شا کر صد یقی کو ایک خط میں لکھتے ہیں۔
’’ آپ کی نظم اچھی ہے مگر اس میں بہت سے نقا ئص ہیں میں نے ان پر نشان کر دیے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ الفاظ حشو سے پر ہیزکر ناچا ہیے۔ آپ کی نظم میں بہت سے الفاظ حشو ہیں۔ محا ورہ کی درستی کا بھی خیال ضرو ریہے۔ ’’ سودا ‘‘ سر میں ہو تا ہے نہ دل میں۔علیٰ ہذا القیاس عہد کو یا وعدہ کو با لا ئے طاق رکھتے ہیں نہ با لا ئے باموغیرہ اسی طرح مر کب کی عنا ن ہو تی ہے نہ زمام ۔ بیت سے الفاظ مثلا ً : ’’چونکہ ‘‘ ’’تعاقب ‘‘ وغیرہ اشعارکے لئے مو زوں نہیں ہیں ان سے احتراز اولیٰ ہے۔
ہے خو شی تجھ کو کمال ……کے دوسرے مصر ع میں ’’ہر‘‘ کی ’’ہ‘‘ تقطیع میں گر تی ہے۔ سب سے بڑا نقص یہ ہے کہ نظم طویل ہے ‘‘
شعر میں اضافت کی حالت میں ’’نون ‘‘ کا اعلان درست نہیں ہے۔ اس کی طرف اقبال ؔ شا کر صدیقی ؔ کو اس طر ح متو جہ کر تے ہیں:
’’اضا فت کی حالت میں اعلان نون غلط ہے کبھی نہ کر نا چا ہیے۔ طول ہر گز نہ ہو نا چا ہیے میں نے پہلے بھی آپ کو لکھا تھا ‘‘
شا کر صدیقیؔ ایک خط میں اقبال ؔ کو پو چھتے ہیں کہ ’’اشک ندامت ‘‘ کو ’’کوہ نور ‘‘ سے تشبیہ دینا درست ہے یا نہیں۔ جس کو اقبال ؔ درست نہیں مانتے ہیں اور اس کا جواب ’’کلیات مکا تیب اقبال ‘‘ جلد سوم میں اس طرح لکھتے ہیں۔ ’’ میری را ئے میں یہ استعارہ درست نہیں ‘‘ شاکر صدیقی ؔ کو ایک مبتدی کی طرح اردو فنِ شا عری سے زیادہ وا قفیت نہیں تھی۔ ان کی طبیعت میں اگر چہ شاعری کا ملکہ فطری تھا لیکن اس کے با وجود انہیں فن عر وض سے بہت کم واقفیت تھی۔ اس لئے وہ چا ہتے تھے اقبال ؔ ان کے کلام پر اصلاح دیں تاکہ فن عر وض اور شعر کی نزا کتوں اور باریکیوں سے بھی آگا ہ ہو جائیں۔ شاکر صدیقی کے نام اقبال ؔ کے ایک خط میں فنی معلومات کے بارے میں واضح اشارے ملتے ہیں۔ شاکر صدیقیؔ نے اپنے اُس خط کے ساتھ ایک نظم ’ہرن منارہ ‘‘ بغر ض اصلا ح یہ خط انھوں نے ۲۳اکتوبر ۱۹۱۵ ء کو بھیجا جس کا جواب اقبال ؔ نے اس طرح دیا:
’’ میں نے آپ کے اشعار کی خامیوں پر نشان لگا دیئے ہیں۔ان پر مفصّل لکھنے کی فر صت نہیں۔ ترا کیب و الفاظ کی ساخت و انتخاب محض ذوق پر منحصر ہے۔ اور ایک حد تک زبان فارسی کے علم پرآپ فارسی زبان کی کتا بیں خصو صًا اشعار پڑھا کر یں۔ مثلاً دیوان بیدل ؔ ‘ نظیرؔ نیشا پوری ‘ صائب ؔ ‘ جلال ؔ اسیر ‘ عر فی ؔ ‘ غز ا لیؔ مشہدی ‘ طالب ؔ آملی وغیرہ ۔ ان کی مز ا ولت سے مذاق ِصحیح خود بخود پیدا ہو گا اور زبان کے محا ورات سے بھی واقفیت پیدا ہو گی۔ عروض کی طرف خیال لازم ہے۔ اس نظم کا پہلا مصر ع ہی بہ اعتبارِ عروض غلط ہے۔ زنجیر‘ فقیر‘ و زیرعسکری ‘ روکشی ‘ تفسیر ‘ خوانِ مسلم کا خوشہ چین وغیرہ۔ (دو لفظ پڑ ھے نہیں گئے) پست اور خلاف محاورہ ہیں۔خوان کا خواشہ چین نہیں کہتے ‘ خر من کا خو شہ چین ہوتا ‘ خوان کا زلّہ ربا کہتے ہیں ’’ ہے ‘‘ کے ’’ ی ‘‘ کو طول دینا بُرا معلوم ہوتا ہے۔۔۔۔’’ آہ ‘‘ میں ’’ہ ‘‘ کی آواز کو چھو ٹا کر نا یوں بُرا ہے۔ ایک ہی مصرع اردو میں چار اضا فتیں بُری معلوم ہوتی ہیں۔ اس سے فارسی والے بھی محتر زہیں۔‘‘
متذ کرہ بالا خط سے صاف انداذہ ہوتا ہے کہ شاکر صدیقی ؔ شعر و سخن کے لئے مو زون طبیعت رکھتے تھے اقبال ؔ کی صحبت نے ان کی شا عری میں ایک نئی قو ت اور معنو یت عطا کی اور اقبال ؔ کی صحبت میں وہ فنی با ریکیوں سے بھی کما حقہ ٔ واقف ہو گئے۔
علامہ اقبال ؔ کو اردو زبان کے ساتھ ساتھ فارسی زبان پر بھی دسترس حاصل تھا۔ انھوں نے اپنے مفہوم کو واضح کر نے کے لئے بہت سی جدید تراکیب وا ضح کی ہیں جن کی بدولت اردو زبان میں وسعت پیدا ہو گئی۔اردو ترا کیب کے ساتھ ساتھ انھوں نے اپنی نظمو ں میں فارسی ترا کیب بھی بکثرت استعمال کی ہیں۔ چو نکہ شاکر صد یقی ؔ نے اقبال ؔ سے اصلاح سخن کے لئے براہِ راست رابطہ کیا ہے۔ وہ اپنا کلام اقبال ؔ کو بغر ضِ اصلا ح بھیجتے تھے۔ اور اقبال ان کے کلام پر وقتًا فو قتًا اصلاح بھی دیتے تھے اور انہیں مفید مشوروں سے بھی نوازتے تھے آپ ملا حظہ کیجئے:
“الفاظ کے اعتبار سے اس نظم میں کوئی غلطی نہیں ہیں معانی کے اتبار سے البتہ بعد شعر قابل اعتراض ہیں معلوم ہوتا ہے جو فارسی ترکیبیں آپ استعمال کرتے ہیں ان کا مطلب اچھی طرح سے نہیں سمجھتے”
اس طرح شاکر صدیقی ان چند شعراء میں شمار ہو تے ہیں جنہیں اقبالؔ نے اصلاح سخن سے نوازا ہے۔ اس لحاظ سے شاکر صدیقیؔ کو اقبالؔ کے حقیقی معنوں میں شاگرد ہونے کا شرف حاصل ہے۔ اگر تحقیق بسیار کے بعد اقبالؔ کے اورتلّا مذہ نکل آئے۔ تب بھی اُن میں شکر صدیقی کا مقام سب سے بلند ہوگا۔
Leave a Reply
Be the First to Comment!