قصۂ آدم ؑ___ تلمیحات اقبال کے تناظر میں  

 زاہد ظفر

ریسرچ اسکالر ،شعبۂ اردو،کشمیر یونیورسٹی۔

           ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

            اقبال کی شاعری بیک وقت فن بھی ہے اور فلسفہ بھی۔اقبال کی شاعری کا سارا زور ایسے پیام اور اصلاح کی ترویج و ترسیل پر ہے جس کا منبع قرآن‘ حدیث اور اسلامی سوچ و فکر ہے۔اقبال محض تفنن طبع کے لیے شاعری نہیں کرتے بلکہ چند واضح مقاصد کی گرہ گشائی کے لیے انھوں نے شاعری کو ذریعہ بنایا۔بقولِ سید صادق علی:

’’اقبال نے اپنی شاعری کے ذریعے اُمّت مسلمہ کو بیدار کیا۔مسلمانوں کو اپنی ذات کو سمجھنے کا شعور دیا۔خلافت اﷲ کے منصب جلیل پر فائز ہونے کے لیے مسلمانوں کو اپنے اندر قوتِ حیدریؓ، فقر بوذریؓ اور صدق سلمانیؓ پیدا کرنے کی تلقین کی اور اسے وہ رموز و آداب سیکھائے کہ ان پر چل پروہ حقیقت میں اس منصب کا سزاوار ہوسکتا ہے۔‘‘ 1

            اقبا ل کے کلام کی ایک اہم خصوصیت تلمیحا ت کا نادربرتاؤ ہے۔اقبال نے تلمیحات سے جو کام لیاہے ،وہ فنی اور تخلیقی اعتبار سے ایک ایسا کارنامہ ہے جو انہیں دوسرے شعراء سے ممتاز کرتا ہے۔اس صنعت کی بدولت انہوں نے اپنے کلا م کو بے پناہ معنویت اور خیال افروزی کی صفت سے متصف کیا ہے۔اس مقصد کے حصول کے لیے اقبال نے قرآن ،احادیث،تاریخ اسلام،تاریخ مذاہب عالم،مشرقی و مغربی ادبیات،سیاسیات،فلسفہ اور تصوف سے متعلقات سے بھر پور کام لیا ہے اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے علم و عمل کے جلیل و جمیل پھول لیکر اپنے گلدستۂ کلام کے لیے اپنی ضرورت کا ذہنی سامان منتخب کر کے اقبال نے اپنی فنکارانہ عظمت کا ثبوت دیا ہے۔اقبال کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے کئی تلمیحات کو نئے پہلوؤں اور نئی معنویت کے ساتھ اپنے کلام کا جزو بنایا ہے۔قصۂ آدم و ہوا ہو یا قصۂ موسی وخضر ہو،شریں فرہاد کا عشقیہ قصہ ہو یا لیلہٰ مجنوں کا،تاریخی واقعات ہو فلسفی تلمیحات، انہوں نے ہر تلمیح اور ہر قصے سے نئے مفاہیم پیدا کئے ہیں۔دوسری تلمیحات کی طرح اقبال نے تلمیحِ آدم کا استعمال بھی خوب کیا ہے اور اس قصے سے نئے معانی و مطالب پیدا کئے ہیں۔جو کہ ان سے پیشتر شعراء کے یہاں نا پید ہیں۔

            حضرت آدم ؑکی تخلیق مٹی سے ہوئی ہے جیسا کہ قرآن مجید میں ذکرہے ــ:ـ’’میں نے پیدا کیا انسان کو مٹی سے جس سے آواز نکلتی ہے۔ کالے رنگ کی گیلی مٹی سے صورت کی تشکیل کی گئی‘‘۔ حضرت آدم ؑ ہی وہ پہلے انسان ہیں جنھوں نے اس کائناتِ ارضی پر پہلا قدم رکھا۔

            قرآن مجید اور محققین کا بیان ہے کہ آدم کا دل بہلانے کے لئے اﷲ تعالیٰ نے ان کے بائیں پسلی کی ایک ہڈی سے حوا کی تخلیق کی۔ اﷲ کی طرف سے ہدایت ہوئی کہ جنت میں رہو مگر ایک درخت (شجر ممنوعہ) کا پھل نہ کھائے۔ شیطان کے ورغلانے پر دونوں اس درخت کا پھل کھاتے ہیں۔ اﷲ ان سے خفا ہوجاتے ہیں اور دونوں کو زمین کی طرف پھینکا جاتا ہے۔ کافی عرصہ تک آدم حوا سے الگ ہوکر مل جاتے ہیں اور مل کر زندگی بسر کرتے ہیں۔ نسلِ انسانی کا سلسلہ آدم سے شروع ہوا اور اس لحاظ سے ان کو ابوالبشر یعنی انسانوں کا باپ کہا جاتا ہے۔

            حضرت آدمؑ کی پیدائش، حوا کے ساتھ جنت میں قیام، ابلیس کا سجدہ کرنے سے مکرنا اور شیطان کے بہکاؤے سے شجرممنوعہ کو کھانا اور پھرجنت سے آدم وحوا کا اخراج اس تلمیح کے جزئیات ہیں۔کلامِ اقبال میں اس تلمیح کے جزئیات کئی جگہوں پر ملتے ہیں۔

            آدم کے حوالے سے اقبال کی تین باضابطہ نظمیں موجود ہیں’’سرگذشت آدم‘‘، ’’فرشتے آدم کو جنّت سے رخصت کرتے ہیں‘‘، ’’روح ارضی آدم کا استقبال کرتی ہے‘‘۔ان نظموں میں آدم ونسل آدم کی عظمت و عروج وزوال کو اقبال نے نہایت خلاقانہ اور مفکرانہ انداز میں قلمبند کیا ہے،اس کے علاوہ نظم و غزل میں بھی آدم کو بطورِتلمیح متفرق اشعار میں استعمال کیا ہے۔کہیں کہیں تو علامہ نے اس تلمیح میں ایک نئی معنوی وسعت پیدا کی ہے۔آدم ؑ کی حکم عدولی کو ایک نئی جہت اور اسے عظمت کا نیا پیکر عطا کیاہے۔مثلاََ یہ شعر ملاحظّہ کریں ؂

لگی نہ میری طبیعت ریاضِ جنّت میں

پیا شعور کا جب جامِ آتشیں میں نے

اقبال اس شعرمیں جہاں تعصب و تفرقہ کی تہہ میں پوشیدہ شیطنت کو بے نقاب کرتے ہیں اور اسے ایک شیطانی عمل قرار دیتے ہیں وہیں اس بات کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں کہ صرف ریاض جنّت میں ہی نہیں بلکہ اس کائناتِ ارضی پر بھی انسان کی حکم عدولی اور خیر اور صراط ِمستقیم سے انحراف سے قعرِ مذلت میں ڈالنے کے لئے کافی ہے کیونکہ حضرت آدم ؑ کا پستی کی جانب مراجعت اور بہشتی زندگی سے اخراج کا اصل سبب غیر اﷲ بھروسہ اور احکامِ خداوندی سے انحراف ہی ہے اور جب جب یہ عمل دہرایا جائے گا ا س کے نتائج زودوبدیر یہی نکلیں گے۔

گر کبھی خلوت میسّر ہو تو پوچھ اﷲ سے

قصۂ آدم کو رنگیں کر گیا کس کا

مذکورہ بالا شعر نظم ’’جبرئیل و ابلیس ‘‘ سے ماخوذ ہے مجموعی طور پراس نظم کو سبھی ناقدین نے اقبال کی بہترین نظموں شمار کیا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی بتانے کی کوشش کی ہے کہ اقبال نے اس نظم میں آدم سے زیادہ ابلیس کے قائل نظر آتے ہیں۔لیکن یہ غلط ہے اور محض قیاس۔اس ضمن میں ڈاکٹر رضی الرحمن رقمطراز ہیں:

’’ آدم کے برخلاف ابلیس کی حمایت میں زورِ قلم کرنا بعید از قیاس ہی ہے۔یہاں تو محض علاّمہ نے ابلیس کی دریدہ دینی کو نمایاں کیا ہے کیو نکہ ابلیس نے کوئی فی سبیل اﷲ شہادت حاصل نہیں کی تھی بلکہ اس کے لہو کی چھینٹوں نے تو ازلی و ابدی فتنہ کو جنم دیا۔ آدم ؑ کے قصّہ میں جو رنگینی پیدا ہو ئی وہ صرف ناحق خون کی وجہ سے اور وہ بھی آدم کے خون سے ہی جس میں نہ تو خیر کا عنصر ہے اور نہ ہی عظمت کی کوئی نشانی اس میں پائی جاتی ہے بلکہ ایک مستقل عذاب ہے جس میں بشر کو مخاصمتِ بے جا کی وجہ سے ڈال دیا گیا اور اس پرمستزاد یہ ہے کہ آپ (ابلیس)فخر کئے جاتے ہیں اور اسے وجۂ امتیاز بنائے ہوئے ہیں۔ جبکہ آپ تو ہمیشہ کے لئے راندۂ درگاہ ہوگئے۔خود تو عذابِ دائمی میں گرفتار ہوئے ہی تمام ارض و سما کو بھی اس کے گھیرے میں لے لیا۔‘‘2

عروج آدم خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں

کہ یہ ٹوٹا ہوا تارا مہہ کامل نہ بن جائے

            آدم کی تلمیح کے حوالے سے اقبال کا مذکورہ بالا شعر اقبا ل کے ترفع خیال اور عظمت بشر کے عین مطابق ہے۔ یہ شعر رومانی اور مادی دونوں اعتبار سے عظمت ِ آدم کی فضیلت کو ظاہر کرتا ہے۔خاکی، خاکستری کمترین یا نا چیز نہیں ہے حالانکہ لفظی اعتبار سے مفہوم یہی نکلتا ہے لیکن صفت میں خاکی ہونے کے باوجود اس کی بڑائی اظہر من اشمّس ہے۔بقولِ ڈاکٹر رضی الرحمن:

’’خاک میں چمک نہیں ہوتی اسی کے ساتھ اس کی جگہ زمین یا پستی ہے اور اس کے بر عکس انجم کا تصور زمین سے نہیں بلندی سے ہے اس کے علاوہ اس میں روشنی ہی روشنی ہوتی ۔لہٰذادونوں میں کوئی مطابقت یا ہم آہنگی نہیں اور یہی وہ کمال ہے جو خاکی یعنی بشر کو ممتاز کرتی ہے کیونکہ اس کی سرشت میں جہاں خاک ہے وہیں روحانی اعتبار سے وہ افضل تر بھی اور یہی وہ شٔے ہے جو اسے اشرف بناتی ہے اور یہی اس کے عروجِ روحانی و مادّی کا سبب بھی ہے۔‘‘ 3

باغِ بہشت سے مجھے حکمِ سفر دیا تھا کیوں

کارِ جہاں دراز ہے اب میرا انتطار کر

            اردو کی پوری شعری روایت میں غالبؔ کے علاوہ اقبالؔ نے ہی اس لب و لہجہ میں گفتگو کی ہے۔یہی اقبال کا کمال اور امتیاز ہے۔ایک طرح کا انفعالی اور قنوجی رویہ جو اردو شعرا ء کا وطیرۂ خاص رہا ہے۔اقبال بشر کو اس سے آزادی دلاتے نظر آتے ہیں۔احساس گناہ کے نیچے آدم کا دبادبا ہونا اور ہمیشہ گلوگیر اور سینہ کوبی پر آماد نظر آنا اور خاکم بدہن اور غبار بر سر ہونا اس سے وہ نجات دلاتے نظر آتے ہیں۔ بقولِ ڈاکٹر رضی ارحمن:

’’عظمتِ آدم یا بشر کی جس انداز سے حدی خوانی اقبال نے کی ہے وہ انہی کا حصہ ہے اور جو اس کے سوا کہیں نظر نہیں آتا۔ بہشت کی یہ محدود اور پابند دنیا اور زندگی سے نکل کر کائنات ارضی کی وسیع تر اور آزاد فضا میں اپنے تمام تر تخلیقی جوہر کے ساتھ سانس لینا ہے۔ اس طرح اقبال نے ہبوطِ آدم کے تمام تر واقعہ اور مفہوم کو یکسر بدل دیاہے‘‘۔ 4

            اس طرح اقبال نے تلمیح ِ آدم کو ایک نئی جہت بخشی ہے۔ا س طرح کا انداز دوسری قسم کی تلمیحات میں بھی ملتا ہے۔تلمیحات کے تعلق اور ان کے استعمال میں یقینا اقبال نے ایک نئی دنیا پیدا کی ہے۔

حوالہ جات:

1۔         صادق سید علی، اقبا ل کی شعری زبان ایک مطالعہ،(نازش بک سنٹر،۱۹۹۴)،ص۹

2۔         مظہراحمد،نجمہ رحمانی،تلمیحات،(ایم ۔آر۔پبلیکشنز،نئی دہلی،۲۰۰۷)،ص۳۶

3۔         ایضاََ ،ص۳۷

4۔         ایضاََ، ص۳۸

………………

Zahid Zaffar

ُPh.D scholar, Deptt. of urdu, kashmir university, srinagar.

contact:9906505004, E-mail:zahiddkkhan@gmail.com

Leave a Reply

1 Comment on "قصۂ آدم ؑ___ تلمیحات اقبال کے تناظر میں  "

Notify of
avatar
Sort by:   newest | oldest | most voted
trackback

[…] قصۂ آدم ؑ___ تلمیحات اقبال کے تناظر میں   […]

wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.