ابن صفی: سوانحی اشارے اور مزاح نگاری

محمد عثمان احمد

۹۰۱۵۷۳۲۲۴۹

ریسرچ اسکالر، شعبۂ اردو

جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اسرار احمدناروی معروف بہ ابن صفی کی پیدائش اپریل ۱۹۲۸میں قصبہ نارہ ضلع الہ آباد میں ہوئی۔ ابن صفی کے متعلق مضمون لکھنے والوں اور ان کے خاندان کے لوگوں نے ان کی تاریخِ ولادت ۲۶جولائی ۱۹۲۸تحریر کی ہے یہاں تک کہ ان کی قبر کے کَتبے پر بھی ۲۶جولائی ۱۹۲۸درج ہے۔ لیکن ان کے تحریر کردہ مضمون بعنوان ’’ بقلم خود‘‘ میں ابن صفی نے اپنی تاریخ پیدائش اپریل ۱۹۲۸درج کی ہے۔ ۱ ؂لہٰذا یہ بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ ابن صفی کی پیدائش اپریل ۱۹۲۸کو ہوئی لیکن حتمی طور پر یہ نہیں کہا جا سکتاکہ ماہ اپریل کی کونسی تاریخ رہی ہوگی۔

ابن صفی کے والد کا نام صفی اﷲ اور والدہ کا نام نذیرہ بی بی تھا۔ابن صفی کائستھ نـژاد مسلمان تھے ان کے جداعلیٰ راجہ شیشردیال سنگھ مشرف بہ اسلام ہوکر با باعبدالنبی کے نام سے مشہور ہوئے۔ ۲؂ ابن صفی اپنے جدااعلی کے اسلام قبول کرنے کے متعلق دوستوں میں فخریہ کہا کرتے تھے بقول پروفیسر مجاور حسین:

تم لوگ اتفاقی مسلمان ہو ہم لوگ اختیاری مسلمان ہیں۔ ہمارے اباواجداد نے سوچ سمجھ کر اسلام قبول کیا۔ ۳؂

 ابن صفی نے پرائمری تعلیم قصبہ نارہ سے حاصل کی ،سیکنڈری کی تعلیم کے لیے الٰہ آباد آگئے ۔ انھوں نے ڈی اے وی اسکول الٰہ آباد سے میٹرک پاس کیا۔ ۴؂ انٹرمیڈیٹ کی تعلیم ایونگ کرسچن کالج الٰہ آباد سے حاصل کی۔ ۵؂ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی غرص سے ۱۹۴۷میں الٰہ آباد یونیورسٹی میں بی۔اے میں داخلہ لے لیالیکن وہ الٰہ آباد یونیورسٹی سے بی ،اے مکمل نہ کر سکے کیونکہ ان دنوں ملک میں حالات ناگفتہ بہ تھے ۔یونیورسٹی میں بھی ایک طالب علم کے ساتھ خنجر زنی کا واقعہ پیش آیا تھا چنانچہ ان کے بزرگوں نے انھیں یونیورسٹی جانے سے روک دیا۔۱۹۵۱میں ابن صفی نے آگرہ یونیورسٹی سے بی اے مکمل کیا۔ ۶؂

ابن صفی کو بچپن سے مطالعے کا شوق تھا ان کے گھر میں داستان اور ناولوں کی بہت کتابیں موجود تھیں لیکن ابن صفی کو ان کتابوں کو پڑھنے کی اجازت نہ تھی۔ ۷؂ وہ چوری سے کوئی کتاب اٹھا لیتے اور گھر والوں سے کھیل کا بہانہ کرکے چھت پر جاکر، کتاب کے مطالعے میں مشغول ہو جاتے ۔ یہ چوری کب تک چلتی آخر ایک دن پکڑے گئے۔ ۸؂ ابن صفی کو داستان اور ناولوں کا مطالعہ کرنے میں کوئی روک ٹوک نہ رہی چنانچہ ،سات آٹھ سال کی عمر میں طلسم ہوش ربا کی ساتوں جلدیں پڑھ ڈالیں۔ ۹؂ الٰہ آباد کی تعلیم کے دوران ابن صفی نے ایک دوست کے گھر ،رائیڈر ہیگرڈ کی کتابوں (ترجمہ شدہ)کا مطالعہ کیا اب ان کے ذہن میں طلسم ہوش ربا اور رائیڈر ہیگرڈ دونوں نے اس طرح تسلط جما یاکہ آخرکار انھوں نے بھی ــ’’ناکام آرزو‘‘ نام کی ایک کہانی لکھ دی ایک کہانی لکھ دی اور ہفت روزہ ’’شاہد‘‘ بمبئی میں چھپنے کے لیے بھیج دیا ۔ جناب عادل رشید اس جریدے کے ایڈیٹر تھے۔ ۱۰ ؂ وقتاً فوقتاً ہفت روزہ شاہدمیں ابن صفی کی کہانیاں شائع ہوتی رہیں ان میں زیادہ تر کہانیاں رومانی ہوتی تھیں۔ میٹرک تک پہنچتے پہنچتے انھوں نے شاعری میں اسرار تخلص کے ساتھ طبع آزمائی کی۔

ابن صفی۱۹۴۸میں عباس حسینی کے ادارہ’ نکہت ‘سے وابستہ ہو گئے۔ اس ادارے سے نکلنے والے رسالہ’ نکہت‘ کی حصۂ نظم کی ادارت ابن صفی اورحصۂ نثر کی مجاورحسین رضوی عرف ابن سعید نے سنبھالی۔ ۱۱؂ اسی دوران ابن صفی نے طغرل فرقان کے قلمی نام سے طنزیہ ومزاحیہ نثر کا سلسلہ شروع کیا۔ اس قلمی نام سے انھوں نے پیروڈیاں بھی لکھیں۔ ان میں سے ایک آب حیات کی طرز پر لکھی ہوئی پیروڈی ’’آب وفات‘‘ اہمیت کی حامل ہے۔ سنہ ۱۹۵۲میں ابن صفی نے فریدی اور حمید کے کردار کو لے کر پہلا جاسوسی ناول ’ دلیر مجرم ‘شائع کرایا۔ اس کی ابتدا ایک مباحثے سے ہوئی جس میں یہ مفروضہ قائم کیا گیا کہ اردو میں صرف جنسی کہانیاں ہی مارکیٹ بناسکتی ہے ابن صفی نے مفروضے کی تردید کے لیے ایک جاسوسی ماہ نامے کی داغ بیل ڈالی اور ماہ ایک جاسوسی ناول مذکورہ ماہ نامے کے لیے لکھتے رہے۔ ۱۲؂

اگست ۱۹۵۲میں ابن صفی پاکستان ہجرت کر گئے ،ان دنوں وہ فریدی حمید سریز کا آٹھواں ناول’مصنوعی ناک‘ تحریر کر رہے تھے، انھوں نے پاکستان کا سفر پانی کے جہاز سے کیا اور دوران ِ سفرناول’مصنوعی ناک ‘مکمل ہوگیا۔ پاکستان ہجرت کرکے ابن صفی راولپنڈی پہنچے وہاں چند روزہ قیام کے بعد کراچی چلے گئے۔ کراچی میں ان دنوں مہاجروں کی ایک بستی لالوکھیت بہت تیزی سے آباد ہورہی تھی۔ ۱۳؂ ابن صفی نے لالوکھیت میں قیام کیا یہیں ابن صفی نے۱۹۵۳میں ایک مضمون بعنوان ’لالوکھیت کا خلیفہ‘ تحریر کیا۔اسی سال ابن صفی کی شادی ام سلمٰی نامی خاتون سے ہوئی ۔لالو کھیت کی رہائش کے دوران ابن صفی نے اگست ۱۹۵۵میں عمران سریز کا آغاز کیا۔عمران سریز کا پہلا ناول ’’خوفناک عمارت‘‘ ہے۔

۱۹۵۸میں ابن صفی لالوکھیت سے کراچی کے علاقہ ناظم آبادمیں منتقل ہو گئے اور تا حیات ناظم آباد والے مکان میں رہائش اختیارکی۔۱۹۶۱میں ابن صفی کو ’’ شیزوفرینیا‘‘ نامی بیماری ہو گئی۔ جس کی گرفت میں مسلسل تین سال رہے ۔ اس بات کی وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے کہ جب شیزوفرینیا کے مرض نے ابن صفی پر حملہ کیا اس وقت تک ابن صفی ۸۸ناول فریدی حمید سریز کے اور ۴۱ناول عمران سریز کے لکھ چکے تھے۔ تین سال اس بیماری میں مبتلا رہ کر ابن صفی ۱۹۶۳میں حکیم اقبال حسین کے علاج کے دوران اچانک شفایاب ہو گئے۔۱۹۶۳میں ان کا ناول ’دیڑھ متوالے ‘ شائع ہوا تو ابن صفی نے انتساب حکیم اقبال حسین کے نام کیا۔ ۱۴؂ مرض سے نجات پا کر ان کا قلم پھر رواں ہو گیا اور وہ پہلے کی سی آب و تاب سے ناول لکھنے لگے،تاآنکہ اجل نے اپنا شکنجہ نہ کس لیا۔۲۶جولائی ۱۹۸۰کو ابن صفی نے ملک الموت کی ہمراہی میں عدم کی راہ لی۔

ابن صفی کا جب انتقال ہوا اس وقت عمران سریز کا ناول ’’ آخری آدمی‘‘ زیرِ تحریرتھا اور صرف ڈھائی صفحے ہی لکھ پائے تھے کہ اجل نے آلیا۔یہ ناول ان کی وفات کے تین ماہ بعد شائع ہوا۔ اس ناول کو ابن صفی کی دوسری بیوی فرحت آرا نے مکمل کیا تھا۔جس نے ابن صفی کے ناولوں کا بغور مطالعہ کیا ہوگا ،جو ان کے نثری اسلوب سے بخوبی واقف ہوگا ،وہ ڈھائی صفحے کے بعداس بات کا اندازہ لگا سکتا ہے کہ یہ تحریر ابن صفی کی نہیں ہے۔زیر گفتگو ناول کے تعلق سے دوسری اہم بات یہ ہے کہ، اس ناول اور عمران سریز کا ناول بعنوان ’’ پھر وہی آواز‘‘ کی کہانی میں بہت مماثلت ہے، جبکہ ابن صفی کا یہ نمایاں وصف ہے کہ وہ کبھی کسی ناول کی کہانی کو نہیں دوہرا تے تھے۔ ۱۵؂کیونکہ میرا مقصد ابن صفی کی مزاح نگاری پر گفتگو کرنا ہے اس لیے مختصر سوانحی کوائف پر مبنی ان بنیادی باتوں کو ابن صفی کے ایک مصرعے پر ختم کرتا ہوں ع

مدتوں ذہن میں گونجوں گا سوالوں کی طرح

ابنِ صفی ایک ایسے ادیب کانام ہے جو مقبولیت کی انتہا پر مستوی ہے۔ اپنی موت کے تقریباً ۳۴برس بعد بھی شہرت و قبولیت کے بے کنار پر اسی آب و تاب سے موجود ہے یا شاید اس سے بھی زیادہ۔ ابن صفی کا جاسوسی ادب محض پر اسرار، حیرت زا، تحیر افروز اور تجسس و استعجاب پر محیط نہیں بلکہ ان کے جاسوسی ناولوں میں بدن دریدہ زمانے کی نبض مدھم مدھم، ہولے ہولے ایسے دبے پاؤں سے چلتی ہے جیسے بیمار کی رات۔ آپ خواہ کتنے ہی تھکے قدموں اور بوجھل ذہن سے تفنن طبع کی خاطر کسی اِکسیر کی آس، میں ان کے جاسوسی ناولوں کا مطالعہ کریں، حیات انسانی کے تاریک پہلوؤں اور زخم خوردہ انسانیت سے تصادم طۓ ہے۔ فرق بس اتنا ہے کہ ابن صفی مزاح کے زور پر اس کی ہیبت کم کردیتے ہیں۔ لیکن یہ ایک ایسا عنصر ہے کہ سرسری مطالعہ کرنے والے بھی محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتے۔ ایک تو انتہائی دلچسپ و دلکش، سلیس و شگفتہ نثری اسلوب اس پر ستم ظریف مزاح نگاری!! —————- یہی تو وہ بات ہے کہ ابن صفی عام لکھنے والوں سے ممتاز ہیں۔ ابن صفی کی مزاح نگاری کے بارے میں کچھ کہا جائے اس سے پہلے ان کے ناولوں سے چند اقتباسات ملاحظہ کیجیے:

’’یہ کیا ہو رہا ہے …..؟‘‘ عمران دہاڑا۔

’’سالا چڑاتا ہے مجھے …..!‘‘

بندر اُچھل کر عمران کی گود میں جا چڑھا۔

’’کیا چڑاتا ہے …..؟‘‘

’’مرچا دکھاتا ہے ….. اور باتھ روم کی طرف اشارہ کرتا ہے!‘‘

’’ہائیں ….!‘‘ عمران نے کہا اور کسی سوچ میں پڑگیا۔ پھر بندر کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرتا ہوا بولا۔ ’’فلسفی بھی معلوم ہوتا ہے…… تو سمجھا اس اشارے کا مطلب……؟‘‘

’’کیسا اشارہ…..؟‘‘

’’یہی مرچ اور باتھ روم والا اشارہ!‘‘

’’میں کیا سمجھوں!‘‘ سلیمان کاٹ کھانے والے لہجے میں بولا۔

’’اس کا مطلب ہے کہ مرچ ہی کی وجہ سے تم لوگوں کو ٹھنڈے پانی کی ضرورت پیش آتی ہے ورنہ تم لوگ بھی کاغذ ہی استعمال کرتے ہوتے ….!‘‘

(شوگر بینک، ص: ۴۳-۴۲)

’’اوہ!‘‘ یک بیک ظفرو چونک کر بولا۔ ’’تم مجھے کہاں لے جارہے ہو؟‘‘

’’رانا پیلیس!‘‘

’’کیوں؟‘‘

’’تمہیں چائے پلا کر دو چار غزلیں سناؤں گا۔ پچھلی رات بھی ایک تازہ غزل ہوئی ہے۔ پیٹ میں درد ہورہا ہے جب تک کوئی سنے گا نہیں، بدہضمی میں مبتلا رہوں گا۔ آج کل سامعین کہاں ملتے ہیں مجبوراً ریوالور کے زور پر مہیا کرتا ہوں، غزل تو الگ رہی تمہیں دوہے بھی سننے پڑیں گے!‘‘ (زہریلی تصویر، ص: ۲۳۵)

’’مگر کتابوں کو سونگھ کر تو ان کے بارے میں کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ مطالعے کے لیے وقت چاہیے اور میں آج کل عدیم الفرصت ہوں۔‘‘

’’ہمارے ہاں تو کتابوں کو ترازو میں تول کر سال کی بہترین کتابیں منتخب کی جاتی ہیں اور ان پر انعامات دیئے جاتے ہیں۔ عموماً سب سے زیادہ ضخیم کتاب کا مصنف انعام پاتا ہے۔ اگر کوئی اﷲ کا بندہ اعتراض کر بیٹھے تو کہہ دیا جاتا ہے۔ اماں اتنی موٹی کتاب لکھ دی ہے، بے چارے نے، کہیں نہ کہیں تو کوئی قابل انعام بات قلم سے نکل ہی گئی ہوگی۔ آپ اس ترقی کے دور میں مطالعہ لیے پھرتے ہیں ….. لاحول ولا قوۃ……‘‘ (بلی چیختی ہے، ص: ۲۲۸)

ابن صفی کی مزاح نگاری کے بارے میں پروفیسر فین تھیسن کہتے ہیں کہ طنز و مزاح ابن صفی کا ایک ایسا کارنامہ ہے جو دنیاے جاسوسی میں کسی اور کے یہاں نہیں ملتا۔ ابن صفی کے یہاں طنزومزاح کارنامہ کیوں کر ہوا؟ اس پر روشنی ڈالتے ہوئے موصوف نے لکھا ہے کہ مزاح اور سسپنس کو یکجا کرنا ہی بڑا کارنامہ ہے۔ کیوں کہ عموماً لوگ مزاح لکھتے ہیں تو اس میں سسپنس نہیں ہوتا یعنی سسپنس اور مزاح کا ایک ساتھ ہونا ہی شاندار کارنامہ ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ بات ابن صفی کی انفرادیت پر دال ہے، خواہ سری ادب کے حوالے سے خواہ طنز و مزاح کے حوالے سے۔ اور ان سب سے بھی بالاتر جو بات ابن صفی کی مزاح نگاری میں ہے؛ بالخصوص جاسوسی ادب کے حوالے سے، کیوں کہ جاسوسی ادب کی تخلیقات میں ابن صفی کی حس مزاح اپنے شباب پر ہوتی ہے، وہ یہ ہے کہ ابن صفی کا فن محض تفریحی نہیں، ان کا مقصد صرف ہنسی ٹھٹھول نہیں۔ ابن صفی کے یہاں سماجی ابتری کے جملہ پہلو، معاشی نابرابری، معاشرتی عدم مساوات، معاصر دانشورانہ اور ادبی رویے وغیرہ سے کماحقہ واقفیت کی پتہ ملتا ہے۔ بات سے بات پیدا کرتے چلے جاتے ہیں اور اچانک ہی کوئی ایسی بات کہہ گذرتے ہیں کہ قاری کو بے ساختہ ہنسی آجاتی ہے، ساتھ ہی فکر کو مہمیز بھی کرتی ہے۔ کہنے کو تو آپ انھیں مقبول ادب کا لکھاری کہہ کر حاشیے پر ڈال دیجیے لیکن ان کی تحریریں آپ کو کچوکے لگاتی رہیں گی کہ محض بازار ڈیمانڈ پر لکھنے والا تمام شعبہ ہاے علم و فن کے رائج الوقت نظریات و تصورات سے اتنی واقفیت کیسے رکھ سکتا ہے کہ نہ صرف علم رکھتا ہے بلکہ ان پر تنقید بھی کرتا ہے:

’’گوڈون کی پولیٹیکل جسٹس پڑھی ہے آپ نے؟‘‘

’’پڑھی ہے …..‘‘ لڑکی برا سا منہ بنا کر بولی …… ’’لیکن گوڈون بھی مخلص نہیں تھا۔ اگر وہ عورت اور مرد کے تعلقات پر کسی قسم کی پابندی کا قائل نہیں تھا تو اس نے شیلی پر دعویٰ کیوں دائر کیا تھا۔ اگر وہ مخلص ہوتا تو شیلی سے اس لیے ناراض نہ ہوجاتا کہ وہ اس کی لڑکی میری گوڈون کو بھگا لے گیا تھا …..‘‘

’’ٹھیک کہتی ہیں آپ…….‘‘ حمید سر ہلا کر بولا۔ …. میں آپ سے متفق ہوں۔‘‘ ’’گوڈون کا یہ کارنامہ ……..‘‘ لڑکی نے کہا …..’’اس وقت کا ہے جب وہ باپ نہیں بنا تھا۔ پولیٹیکل جسٹس جنسی جھلاہٹ کا نتیجہ معلوم ہوتی ہے۔ اس میں خلوص نہیں…..‘‘ (مونچھ مونڈنے والی، ص:۹۶-۹۵)

مجھے نہیں لگتا کہ اس اقتباس پر مزید کچھ تبصرہ کرنے کی ضرورت ہے البتہ اتنا ضرور کہوں گا کہ ہم ادب سے فکر، خیال، ذہن اور شعور کو مہمیز کرنے یعنی قاری کی ذہنی تربیت کی جو توقع رکھتے ہیں وہ سب کچھ اس اقتباس میں موجود ہے۔ لیکن یہ عناصر فوری طور پر محسوس نہیں کیے جاتے کیوں کہ ان سب کا اظہار مکالموں کے ذریعے بڑی خاموشی کے ساتھ کیا گیا ہے۔ قاری کے ذہن پر سوار ہونے کی کوشش نہیں کی گئی ہے، اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ رائج العصر دانشورانہ رویوں اور نظریات کا مضحکہ علت و معلول کی روشنی میں اڑایا گیا ہے، اس لیے ہماری دانشورانہ ادبی تنقید جو تقلید محض کی راہ پر چلتی ہے اور وقت کا ساتھ دینے میں یقین رکھتی ہے، ایسی تحریروں کی نہ تو حوصلہ افزائی کرسکتی ہے اور نہ ہی جرح و تعدیل۔سچ تو یہ ہے کہ ہماری ادبی تنقید ابن صفی کی تحریروں سے مکالمہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔

’’اچھا بوجھیے تو کیا ہے؟—–‘‘ عمران نے ایک ہاتھ اپنی پیشانی پر رسید کر کے دوسرا گال پر رسید کیا۔

’’کیا مطلب؟‘‘

’’اتنی معمولی سی پہیلی نہیں بوجھ سکتیں؟‘‘

’’یہ پہیلی ہے کوئی! …….!‘‘ وہ ہنس کر بولی …….’’ایک ہاتھ پیشانی پر مارا اور دوسرا گال پر۔‘‘

’’سمبولک پوئٹری کی طرح۔‘‘

’’خدا کی پناہ۔ تو لٹریچر میں بھی دخل ہے، جناب کو!‘‘

’’میلارمے کو پڑھ پڑھ کر اس حال کو پہنچا ہوں۔ اردو میں میرا جی سے سرِ جوے بار ملاقات ہوئی تھی۔‘‘

’’میرا جی آج تک میری سمجھ میں نہیں آیا۔‘‘

’’عورتوں کی سمجھ میں نہ آئے تو بہتر ہے ورنہ پھنکنیاں اور دست پناہ سنبھال کر دوڑ پڑیں گی، اس کی قبر کی طرف۔‘‘

(گیت اور خون، ص: ۵۱-۵۰)

’’یار پتہ نہیں کیوں ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے تم سب کسی ایک ہی استاد سے غزل کہلواتے ہو ….. مشاعروں میں سنتا ہوں ….رسالوں میں پڑھتا ہوں …… سبھوں کا ایک ہی رنگ نظر آتا ہے۔ خدا بھلا کرے فیض صاحب کا کہ انھوں نے اپنے بعد پھر کوئی اوریجنل شاعر پیدا ہی نہ ہونے دیا۔ صرف دو تین اس بھیڑ سے الگ معلوم ہوتے ہیں جیسے جمیل الدین عالی اور جعفر طاہر وغیرہ …. آگے رہے اﷲ کا نام ……!‘‘

’’اچھا …..!‘‘ شاعر صاحب نے جھلا کر کہا۔ ’’سردار جعفری کے متعلق کیا خیال ہے!‘‘

’’پتھر توڑتے ہیں…….!‘‘ (ڈیڑھ متوالے، ص: ۱۸۷)

ابن صفی نے عورتوں کو بھی مزاح کا موضوع بنایا ہے۔ اس حوالے سے عوام الناس میں مشہور خیالات و تصورات ہی کو عموماً قلم بند کیا ہے لیکن اس ندرت اور برجستگی کے ساتھ کہ واہ کہے بنا نہیں رہا جاتا۔ یہاں یہ اعتراض کیا جاسکتا ہے کہ ابن صفی نے بھی صنف نازک کو پدرسری سماج کے نقطۂ نظر سے دیکھا ہے۔ لیکن یہ اعتراض زیادہ وزن نہیں رکھتا کیوں کہ ابن صفی نے طنز و تضحیک کا نشانہ صرف عورتوں کو نہیں بنایا اور نہ ہی وہ اس تعلق سے کسی تعصب کا شکار ہیں۔ ابن صفی تو خود کو بھی طنز و تضحیک کا تختۂ مشق بناتے رہتے تھے۔ کنفیوشس،فرائڈ، ملارمے، گوڈون، فیض، میرا جی اور سردار جعفری تک کو نہیں چھوڑا اور ان سب کے بارے میں اپنی رائے محفوظ رکھی۔ البتہ خواتین کے حوالے سے ان کا زاویۂ فکر و نظر مردانہ ہے، ظاہر ہے یہ کوئی معیوب بات نہیں۔ چند اقتباسات پر میں اس گفتگو کو ختم کرتا ہوں۔ اقتباسات ملاحظہ فرمائیں:

’’کنفیوشس نے کہا تھا کہ جب دو عورتیں بیک وقت تمھیں دلچسپ سمجھنے لگیں تو کسی بوڑھی عورت کو تلاش کرو۔ جو ان کے بیان کی تصدیق کرسکے۔‘‘ (الفانسے، ص: ۱۳۶)

’’لیکن تم اپنے باس کو کچھ نہیں بتاؤ گی …..اچھی لڑکی….!‘‘

’’نہیں بتاؤں گی ….مگر…..!‘‘

’’کچھ نہیں …. ایسا کر کے تم اپنے ملک و قوم کے لیے بھی ایک بڑا کارنامہ انجام دو گی …. عورتیں پیٹ کی ہلکی ہوتی ہیں نا …..اس لیے اتنی سی بات کو بھی کارنامہ ہی کہنا پڑتا ہے!‘‘ (ڈیڑھ متوالے، ص: ۲۲۹)

۰۰۰تیسرا سائنٹفک ثبوت یہ ہے کہ مرد ایک اور ایک دو نہیں ہوسکتا مگر عورت ایک اور ایک تین ہوجاتی ہے ….. چار ہوجاتی ہیں …… پانچ ہوجاتی ہیں اور علی ہذالقیاس اس میں تو ایک درجن اور ڈیڑھ درجن ہوجانے والی عورتوں کو انعامات ملتے ہیں۔ خطابات ملتے ہیں۔ اس لیے جناب …. عورت مرد سے برتر ہے۔‘‘ (آہنی دروازہ، ص: ۱۵۰)

برتر وہی ہے جو بے وقوف ہو۔ جتنا بے وقوف اتنا ہی برتر۔ پہلے مرد عورت پر حکومت کرتا تھا …… طاقت سے …… اب بے وقوف یعنی برتر بنا کر حکومت کرتا ہے۔ برتر بنا کر حکومت کرنے میں اسے دہرا فائدہ ہے یعنی عورت پر دہری ذمہ داریاں عائد ہوجاتی ہیں۔ وہ انھیں خود سے برتر بنا کر گھروں کی چار دیواریوں سے نکال لاتا ہے انھیں اپنے دوش بدوش کام کرنے کا موقع دیتا ہے۔ رہ گئے چار دیواریوں والے فرائض، تو عورت انھیں عادتاً انجام دیتی ہے۔ یعنی مرد عورتوں کے دوش بدوش بچوں کو دودھ نہیں پلاتا۔ عورتوں کے دوش بدوش گھر کی صفائی نہیں کرتا۔ بچوں کے کپڑے نہیں دھوتا۔ اس وقت وہ پلنگ پر لیٹ کر ٹانگوں کو سمیٹ کر تاش کھیلنے لگتا ہے۔ سبحان اﷲ ….. عورت اسی لیے مرد سے برتر ہے کہ اس نے دہری ذمے داریاں سمیٹ رکھی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مردعوں کے مقابلے میں عورتیں نہ تو گنجی ہوتی ہیں اور نہ توندیں رکھتی ہیں۔‘‘ (آہنی دروازہ، ص: ۱۵۱-۱۵۰)

الغرض ابن صفی کی مزاح نگاری میں روزمرہ کے سلگتے ہوئے مسائل اور ان کے حل بھی پائے جاتے ہیں۔ قوم و ملت کی صفوں میں اتحاد و اتفاق کی تلقین، گردوپیش سے باخبر اور چوکنا رہنے کا سلیقہ، دانشورانہ تنبیہہ اور افکار و نظریات کی معلومات کے علاوہ زندگی کو اپنے طور پر برتنے کا سلیقہ ان کی ترجیحات میں شامل ہیں۔ اور یہ تمام ترجیحات ان کی تحریروں میں مزاح اور حماقت کے جلو میں جلوہ گر ہوتی ہیں۔ شاید اسی لیے ڈاکٹر خالد جاوید نے ابن صفی کی تحریروں میں حماقت کے دانشوری میں منقلب ہوجانے والی بات کہی ہے۔

حوالے:

۱۔ صفی، ابن، ۲۰۱۴، بقلم خود، مشمولہ: میں نے لکھنا کیسے شروع کیا، مرتب: عارف اقبال، فرید بک ڈپو، دہلی، اشاعت اول، ص:۲۳

۲۔اشرف، راشد، ۲۰۱۳، ابن صفی شخصیت اور فن، بزم تخلیقی ادب، کراچی، ص: ۱۷

 ۳۔اقبال ، عارف، ۲۰۱۳، تشریحی حواشی ’’ابن صفی ایک نظر میں‘‘، مشمولہ: ابن صفی مشن اور ادبی کارنامہ، اردو بک ریویو، دہلی، ص: ۳۰

۴۔ اشرف، ۲۰۱۳، ص: ۴۰

۵۔ صفی، ابن، ۲۰۱۴،ص:۲۵

۶۔ ————-، ص: ۲۶

۷۔——-، ۲۰۱۳، ص: ۷۳۶

۸۔ ————-، ص: ۷۳۷

۹۔ ایضاً

۱۰۔صفی،ابن،۲۰۱۴، ص:۱۶تا ۷۱

۱۱۔اشرف، ۲۰۱۳، ص: ۴۰

۱۲۔ صفی، ابن،۲۰۱۴، ص: ۱۸

۱۳۔ اشرف، ۲۰۱۳، ص: ۲۱

۱۴۔ ایضاً، ص: ۵۵

۱۵۔ ایضاً، ص: ۳۷

Leave a Reply

2 Comments on "ابن صفی: سوانحی اشارے اور مزاح نگاری"

Notify of
avatar
Sort by:   newest | oldest | most voted
trackback

[…] ابن صفی: سوانحی اشارے اور مزاح نگاری […]

trackback

[…] reference is cited by other researchers and writers as well. Mohammad Usman Ahmad in the Urdu Research Journal (2016) notes, “Most of the writers on Ibn-e-Safi have recorded his date of birth as 26th July 1928. Not […]

wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.