جگن ناتھ آزادؔ کی غزلیہ شاعری

 جمیل احمد

ریسرچ اسکالر،شعبہ  فارسی اردو، ویر کنور سنگھ یونی ورسٹی آرہ، بہار

 jameelmic@gmail.com

موبائل: 7055514422

 …………………………………………………………….

پروفیسر جگن ناتھ آزادؔ کا شمار ماہر اقبالیات میں ہوتا ہے ۔وہ ایک بہترین غزل گو ہیں ۔ جگن ناتھ آزادؔ نے چند ہی برسوں میں وہ شہرت و مقبولیت حاصل کر لی جو برسوں بعد دوسرے شعرا کونصیب ہوتی ہے۔

عروس شعر و سخن سے آزاد ؔکی شناسائی کوئی نئی نہیں ہے۔ یہ ان سے ایک نسل پہلے ہی ان کے گھر میں آ چکی تھی اور بڑے حسن و خوبی کے ساتھ زندگی بسر کر رہی تھی۔ جب جگن ناتھ پیدا ہوئے اور ہوش سنبھالا تو خود کو اس کی گود میں پایا ،جس نے بڑے سلیقے سے ان کی تربیت کی اور اپنے فن کے جوہر ایک ایک کر کے ان کی شخصیت میں پیوست کرتی گئی۔ اگرچہ جگن ناتھ کی طبیعت شروع سے ہی شعر گوئی کی طرف مائل تھی اور یہ برابر کچھ نہ کچھ کہتے رہے۔

شعر میں جذبہ انسانیت کا اظہار کوئی نئی بات نہیں۔ بہت پہلے کہا گیا ہے ’’درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو‘‘ اور یہ کہ ’’آدمیت احترامِ آدمی‘‘ ہے۔ مگر جگن ناتھ آزادؔ نے جس طرح سے اس کو بیان کیا ہے اس دور مادیت میں یہ انہیں کا حصہ ہے۔ اس دور پر آشوب میں جب کہ ادب میں عام اخلاقی گراوٹ پائی جاتی ہے اور اعلیٰ انسانی جذبات و پاکیزہ خیالات تقریباً مفقود ہیں۔ آگ، انگارہ، خاک و خون، شور و شرابہ، شہوت پرستی اور عریانی کا دور دورہ ہے۔ اتنی بلند آہنگی ہے کہ یہ کہنا کہ ’’گر چکا ہے آدمی پندار میں، کردار میں‘‘ اور یہ کہ:

اشرف المخلوقات ہے یا ہے کوئی کرمِ حقیر

بک رہا ہے کس طرح سے آدمیت کا ضمیر

کہا جاتا ہے کہ شاعری بغیر درد کے ناممکن ہے۔ یعنی کہ جب تک کسی شاعر کو کوئی خاص غم نہ ہو کوئی درد یا درد کی کسک نہ ہو، وہ شاعری نہیں کر سکتا اور غالباً یہی وجہ ہے کہ ہر شاعر کو کچھ نہ کچھ غم ضرور لاحق ہوا کرتا ہے۔ اگلے زمانے کے شعرا کو غم جاناں کا آزار تھا۔ وہاں آج کل کے شعراء کو غم دوراں لاحق ہوا کرتا ہے۔

اس میں شک نہیں کہ یہ دونوں غم اپنی جگہ ویسے ہی جانسوز ہیں۔ لیکن جب تک ایک انسان میں انسانیت نہ ہو۔ انسان کے لئے دل میں ہمدردی نہ ہو۔ تمام غموں کا رجحان خود غرضی اور نفس پرستی کی طرف ہو جاتا ہے۔ ان تمام غموں کی اول منزل غم انسانیت ہے جس کے دل میں انسانیت کا غم ہوگا، جو انسان سے بحیثیت انسان محبت کرتا ہے، وہی ان غموں کو بھی صحیح معنوں میں محسوس کر سکے گا۔ آزاد کا غم یہی ہے اور جس طرح ہر شاعر کو اس کا غم عزیز ہوتا ہے ،اسی طرح جگن ناتھ آزادؔ کو بھی ان کا غم عزیز ہے۔ وہ انسانیت کے سمندر میں جس قدر ممکن ہے چاہے ایک قطرہ یا اس سے کم ہی کیوں نہ ہو، اضافہ کرنا اپنا فرض سمجھتاہے۔ آزاد کا یہی وہ اونچا آدرش اور نصب العین ہے جو اسے عہد حاضر کے دوسرے شعراء سے ممتاز کرتا ہے۔ جگن ناتھ آزادؔ کا یہی فن ہے جس نے اسے اتنے کم عرصہ میں عوام و خواص کے درمیان مقبول و محبوب بنا دیا ہے۔

اپنی شاعری کے بارے میں جگن ناتھ آزادکہتے ہیں کہ ان ؔ کی بہت خواہش تھی کہ وہ ایک کامیاب شاعر بنیں۔ عیسیٰ خیل(پاکستان) میں قیام کے دوران ایک مرتبہ ان کے والد بزرگوارتلوک چند محرومؔ نے دیوان غالب کھول کر ان کے سامنے رکھا اور مندرجہ ذیل غزل پڑھنے کو کہا:

کوئی امید بر نہیں آتی

/کوئی صورت نظر نہیں آتی

‹اور جگن ناتھ آزادؔ نے یہ غزل پڑھی۔ اس پر محرومؔ صاحب نے فرمایا کہ ’’جگن! اب تم پاس ہو گئے ہو‘‘۔ اصرار کرنے پر ان کے والد نے بتایا کہ دیکھنا چاہتا تھا کہ تم صحیح اور موزوں پڑھ سکتے ہو یا نہیں۔ تم نے بالکل صحیح غزل سنائی ہے۔ اور دوسرا واقعہ یوں بتاتے ہیں کہ عیسیٰ خیل سے تبادلے کے بعد کلور کوٹ جانے کے لئے کالا باغ کے مقام پر دریائے سندھ کو عبور کرنا پڑا۔ ہماری کشتی روانہ ہی ہوئی تھی کہ پہاڑ پر بنے ہوئے مکانوں کو دیکھ والد محترم نے ایک مصرعہ موزوں کیا:

’’پہاڑوں کے اوپر بنے ہیں مکان‘‘

پھر مجھ سے کہنے لگے، اس پر دوسرا مصرعہ تم لگاؤ۔ میں نے زندگی میں پہلی دفعہ یہ مصرعہ لگایا:

’’عجب ان کی صورت عجب ان کی شان‘‘

والد نے تصحیح کرتے ہوئے کہا کہ ’’صورت‘‘ کی جگہ ’’شوکت‘‘ کہو۔

گویا جگن ناتھ آزادؔ کی طبیعت شروع سے ہی موزوں و شاعرانہ تھی، سات آٹھ برس کی عمر میں جب آزادؔ کلور کوٹ میں مقیم تھے، موزوں اشعار کہہ لیا کرتے تھے۔ مگر سچ پوچھئے تو ان کی شاعری کی ابتداء راولپنڈی سے ہی ہوئی۔

حضرت عبدالحمید عدمؔ ان کی تعلیم کے زمانے میں راولپنڈی ہی میں مقیم تھے۔ یہ جناب حضرت جگن ناتھ آزادؔ کے والد تلوک چند محرومؔ کے خاص دوستوں میں سے تھے۔ عدمؔ صاحب کا بیشتر وقت محرومؔ صاحب کے ساتھ ہی ان کے گھر پر گزرتا۔ جگن ناتھ آزادؔ صاحب کے دل و دماغ میں جو ذوق ادب اور شوق مطالعہ پیدا ہوا تھا اس میں حضرت عدمؔ صاحب کی کوشش نے نمایاں رول ادا کیا تھا۔ لیکن جگن ناتھ آزادؔ کے کلام کے مطالعے سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ جگن ناتھ آزادؔ کی شاعری عدمؔ کے اسلوب سخن سے متاثر نہیں ہوئی بلکہ آزادؔ نے اپنے لئے بالکل ہی ایک الگ راستہ اختیار کیا۔ آزادؔ نے اپنے خون جگر کی آمیزش سے اپنی شاعری کو نکھارا اور سنوارا۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ تین سال کی مدت میں عدمؔ صاحب اور محرومؔ صاحب کی ملاقاتوں کے ذریعہ سے آزادؔ کو ہندوستان کے شاعرانہ ماحول سے کسی حد تک آگاہی حاصل ہو چکی تھی۔

جگن ناتھ آزادؔ ابھی تک ادبی محفلوں سے دور ہی رہتے تھے۔ جناب عبدالعزیز فطرتؔ کے اصرار پر انہوں نے شہر کی ادبی محفلوں میں شرکت شروع کی۔

جناب فطرتؔ راولپنڈی کی ادبی سرگرمیوں کی جان تھے۔ ان کے ساتھ مل کر جگن ناتھ آزادؔ نے ادبی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کرحصہ لیا۔ آپ نے اپنے کالج میں بزم ادب کی بنیاد ڈالی اور اس کے تحت متعدد ادبی اجلاس منعقد کئے۔ اس زمانے میں یہ اپنے کالج کی میگزین کے ایڈیٹر بھی تھے۔ اس میں ان کی غزلیں شائع ہوتی تھیں۔ اس کے علاوہ ’’ادبی دنیا‘‘ لاہور، ’’زمانہ‘‘ کانپور میں کلام شائع ہونا شروع ہو گیا تھا۔

راولپنڈی کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لئے جب لاہور آئے تو ان کی ادبی پرواز کے لئے کھلی فضا میسر ہوئی۔ خطہ مینو سواد لاہور ہمیشہ سے ادب کا مرکز رہا ہے۔ لاہور پہنچنے کے بعد جگن ناتھ آزادؔ صاحب نے دیکھا کہ یہاں ہر فرد ایک انجمن ہے اور ہر گوشہ ایک بساط ادب۔ یہاں آ کر آپ نے مولانا تاجورؔ نجیب آبادی سے فیض حاصل کیا۔ تاجورؔ صاحب کے متعلق جگن ناتھ آزادؔ اپنی طویل نظم ’’وطن میں اجنبی‘‘ میں کہتے ہیں:

اے رہنمائے قافلہ شعرا لسلام

اے زندہ دار ولولہ شعر السلام

مجھ میں ہے تجھ سے حوصلہ شعرالسلام

آساں تجھی سے مرحلہ شعرالسلام

غنچے کو اک نگاہ محبت سے پھول کر

آزادؔ کا سلام عقیدت قبول کر

اس کے علاوہ جگن ناتھ آزادؔ پر علامہ اقبالؔ کا بہت اثر ہوا۔ اس کا انہوں نے کئی موقعوں پر اعتراف بھی کیا۔ آزاد صاحب نے ’’تاجور پر چند لمحے‘‘ کے عنوان سے جو نظم کہی ہے اس میں روح تاجور کی آواز یہ کہتی ہے:

فیض گر تو نے اٹھایا ہے مرے افکار سے

دل ترا وابستہ ہے اقبال کے افکار سے

اے پسر یہ ہے ترے حق میں دعائے تاجور

فکر ہو تیری مضاف دہر میں سینہ سپر

تا قیامت دل ترا تاثیر کا مسکن رہے

ہاتھ میں اقبال کے افکار کا دامن رہے

روشنی اقبال کے افکار کی، اشعار کی

ہر گھڑی ہو رہنما، تیرے دلِ بیدار کی

گلشن لاہور کے پھولوں کی اے رنگیں بہار

گلستان ہند کی تجھ کو فضا ہو سوگوار

جگن ناتھ آزادؔ کی شاعری کے دو خصوصی دور ہیں۔ پہلا دور 1947 تک کا لاہور میں قیام، جہاں کا چپہ چپہ دبستان تھا، اور جہاں کی فضا، جوہر قابل کے لئے ہر اعتبار سے سازگار تھی۔ آزادؔ صاحب کی اس دور کی شاعری بھرپور اثر رکھتی ہے۔ مضامین کی شوخی و رعنائی، طرز ادا کی جدت اور زبان کی شیرنی سے اس دور کی شاعری بھرپور ہے۔

تجھے کیا بتاؤں ہمدم کہ قفس میں کیا کشش تھی

یہ بجا مری نظر سے نہ پرے تھا آشیانہ

یہ بجھی بجھی فضائیں، یہ گھنا گھنا سا عالم

مری نطق چھیڑ کوئی طرب آفریں ترانہ

قفس کی دلکشی میں تو کمی کوئی نہیں لیکن

نہ آئے گی قفس میں رہ کے یاد آشیاں کب تک

خزاں آئی گلستاں میں تو ہم سمجھے بہار آئی

نگاہ شوق آخر یہ تری خوش فہمیاں کب تک

علم ہے کیف بے ثبات، عشق کی گرمی حیات

زیست کی یہ حقیقتیں دل کے قریب آ کے دیکھ

ممکن نہیں کہ بزم طرب پھر سجا سکوں

اب یہ بھی ہے بہت کہ تمہیں یاد آ سکوں

یہ کیا طلسم ہے کہ جلوہ گاہ سے

نزدیک آ سکوں نہ کہیں دور جا سکوں

جگن ناتھ آزاد کی شاعری کا دوسرا دور 1947 کے بعد کا ہے۔ آزاد صاحب تقسیم ہند کے بعد ہجرت کے سیلاب میں بہتے بہاتے لاہور سے دہلی آئے۔ اس دوران بے بسی اور پریشانی رفیق غربت رہی۔ ایک طرف وطن کی محبت دامن دل کو اپنی طرف کھینچ رہی تھی اور دوسری طرف اجنبی ماحول کا تصور سوہان روح بنا ہوا تھا۔ ان تمام پریشانیوں کے بعد دہلی کی اس اجنبی فضا میں سانس لینے لگے تو قدرے دل و دماغ ٹھکانے لگا۔ مگر اب یہاں شعر و سخن کی مانوس فضا کہاں تھی۔ ہر گھڑی ہنگامی کیفیتیں اور بے سر و سامانیاں پیش نظر تھیں۔ تھوڑے دنوں کے بعد اس سازگار ماحول نے اسے اپنا بنا لیا اور پھر یہ اس سے گھل مل گئے۔ پھر بھی ان کے دل و دماغ پر اس ہجرت اور پریشانی کا بے حد اثر تھا۔ اس کا ان کی شاعری پر بھی اثر پڑا۔ اب یہاں جذبات کی شورش اور طبیعت کی گداز کی جگہ فکر اور سوجھ بوجھ نے لے لی۔ انسان کی شاعری اس کے تاثرات کی آئینہ دار ہے۔ اس لئے اس دور کی شاعری میں مفکرانہ مضامین آ گئے۔ اور طرز بیان میں بھی سنجیدگی آ گئی۔ آزادی حاصل کرنے کے بعد ہجرت کا ہنگامہ پیدا ہوا۔ جگن ناتھ آزادؔ اس سے متاثر ہو کر کہتے ہیں:

نہ پوچھو جب بہار آئی تو دیوانوں پہ کیا گزری

ذرا دیکھو تو اس موسم میں فرزانوں پہ کیا گزری

کہو دیر و حرم والو یہ تم نے کیا فسوں پھونکا

خدا کے گھر پہ کیا گزری صنم خانوں پہ کیا گزری

جہاں نور سحر کے بھی قدم جمنے نہ پائے تھے

بتائے کون آخر ان شبستانوں پہ کیا گزری

جگن ناتھ آزادؔ اپنے وطن کو یاد کر کے کہتے ہیں:

وطن سے دوریٔ منزل کا یہ سوال نہیں

وہ بے وطن ہوں کہ جس کا نہیں ہے کوئی وطن

کنار سندھ پہ ہم جس کو چھوڑ آئے ہیں

وہ تجھ میں بات کہاں اے دیار گنگ و جمن

ان تمام ہنگاموں کے باوجود جگن ناتھ آزادؔ ہر دور میں انسانیت کے علمبردار رہے آزادؔ نہ ہندو ہیں نہ مسلمان، ان تمام تعصبات سے الگ وہ ایک انسان ہیں صرف انسان۔

کہتے ہیں کہ شعر الہامی ہوتا ہے جو الہام نہیں وہ شعر نہیں۔ ’’آتے ہیں غیب سے یہ مضامین خیال میں‘‘۔ اس میں شک نہیں کہ اس بیان میں کچھ صداقت ضرور ہے۔ مگر اتنا بھی نہیں جتنا کہ لوگ روایتی طور پر سمجھ لیتے ہیں۔ جگن ناتھ آزادؔ غالباً پہلے شاعر ہیں جنہوں نے اس نظریہ سے ہٹ کر سوچا۔ اور ذہن شاعر پر ’’نزول‘‘ شعر کے متعلق ایک سچی بات بتلائی کہ ’’اب میں شعر کہنے کے لئے آسمانی برکت کا منتظر نہیں رہتا بلکہ اب جو کچھ سنتا ہوں، دیکھتا ہوں، محسوس کرتا ہوں، اس سے متاثر ہو کر شعر کہتا ہوں‘‘۔ میں اس بات کا قائل نہیں کہ آزاد کا مشاہدہ زندگی اور مطالعہ نفس انسانی بہت گہرا ہے اور وہ اشیاء کی روح میں ڈوب کر اور انسانی زندگی کا خورد بینی سے مطالعہ کرتے ہیں۔ اور نظمیں کہتے ہیں۔ بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ آزاد کی شاعری ایک سیدھی سادی پرمقصد شاعری ہے جس میں فلسفیانہ موشگافیاں اور باریک نکتے تو کم مگر اعلیٰ انسانی جذبات و خیالات زیادہ ہیں۔ باریکی و خورد بینی و تعمق و تفکر کی جگہ اخلاقیات کے سیدھے سادے اصول اور شور و ہنگامہ کے بجائے نرمی اور سکون ہے۔ جب کو ئی کام انسان اپنی طبیعت کے خلاف ہوتے دیکھتا ہے تو غم و غصہ کا اظہار کرتا ہے اور جو کچھ اس کے جی میں آئے کہہ گزرتا ہے۔ شاعر کا بھی یہی حال ہے۔ جب وہ اپنے ماحول سے بیزار ہوتا ہے تو اپنے غم و غصہ کا اظہار کرتا ہے اور اس میں اول فول بک جاتا ہے۔ لیکن عظمت تو اسی میں ہے کہ سب کچھ محسوس کرنے کے بعد بھی انسان صبر و ضبط سے کام لے، اور غصہ میں اتنا پاگل نہ ہو جائے کہ پست و رکیک باتیں کرنے لگے اوراپنی حیثیت کا بھی خیال نہ کرے ۔ جگن ناتھ آزادؔ کی عظمت اور فضیلت یہی ہے کہ وہ پیشانی پر بل ڈال کر شعر نہیں کہتے بلکہ غم و غصہ پی کر ایک مفکرانہ سنجیدگی کے ساتھ شعر کہتے ہیں۔ یہی ان کی عظمت کی دلیل ہے۔

جگن ناتھ آزادؔ نے اشتراکی سیاسی مسلک سے الگ رہ کر اپنی شاعری کو حالات کے مطابق ترقی دی ہے، جو بہت کم لوگوں کے بس کی بات تھی، کیونکہ پچھلا دور سیاسی ہلچل اور سیاسی انقلاب کا دور تھا۔ اس شاعر یا ادیب کو سند دی جاتی تھی جو کانگریس، مسلم لیگ یا اشتراکیت کا ہمنوا ہوتا تھا۔ جگن ناتھ آزادؔ چاہتے تو ان پر بھی یہ سیاسی راہیں کھل جاتیں۔ مگر انہوں نے ادب میں توازن اور اعتدال کوبرقرار رکھا۔ انہوں نے فن کی ان خصوصیات کو اجاگر کیا جن سے اس دور کی ترقی پسند شاعری کا دامن خالی تھا۔ اس لئے وہ اعتماد و یقین کے ساتھ اہل نظر کو مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں:

اے اہل نظر! ایک نظر مری غزل بھی

ممکن ہے کہ میرا ہو انداز بیاں کچھ اور

جگن ناتھ آزاد ’’غم دوراں‘‘ اور ’’جمال رخ جاناں‘‘ دونوں سے اپنی شاعری کو سنوارتے ہیں۔ انہوں نے اس حقیقت کو جان لیا ہے کہ ایک شاعر کے لئے یہ دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ اور ان میں سے کسی ایک کو ترک کرنا شاعری کی موت ہے۔ اس موضوع پر ان کا ایک بہترین شعر:

میں شکوۂ طراز غم دوراں تھا کہ مجھ کو

ناگاہ جمال رخ جاناں نظر آیا

جگن ناتھ آزادؔ کبھی بھی زندگی کے حقائق کو نظر انداز نہیں کرتے بلکہ ان سے اپنا رشتہ قائم رکھتے ہیں۔ عورت ان کے یہاں ثانوی حیثیت رکھتی ہے۔ اس کے بجائے ان کی شاعری میں سنجیدہ اور متین عشق پایا جاتا ہے۔ عشق کے بارے میں وہ اپنی رائے کا اظہار یوں کرتے ہیں:

دل ہر قدم پہ ترے سہارے کا منتظر

دنیا تمام دل کا سہارا لئے ہوئے

عشق کی تشریح ہر دور میں اس دور کے حالات کے مطابق کی گئی ہے۔ اقبالؔ کا عشق اور اس سے قبل کے عشق کی تشریحات ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ اقبالؔ کے یہاں عشق ’’فرہاد کا تیشہ‘‘، ’’شاہین کا تجسّس‘‘، ’’چیتے کا جگر‘‘ اور ’’مرد مومن کی شان‘‘ ہے۔ جگن ناتھ آزادؔ کو بھی اس قسم کے عشق نے ’’خلش‘‘ عطا کی ہے اور وہ اس خلش میں ایک لذت، ایک لطف محسوس کرتے ہیں:

کانٹے پھر آشیاں کے لئے چن رہا ہوں میں

دل کو مرے خلش نے کچھ ایسا مزہ دیا

انہوں نے اپنے جذبات کی ترجمانی کے لئے نظم پر غزل کو ترجیح دی اور غزل میں ان کے شاعرانہ اوصاف کی پوری عکاسی پائی جاتی ہے۔ وہ غزل میں غزل کی تمام خصوصیات کو مدنظر رکھتے ہیں۔ مثلاً غزل کی زبان، غزل کے محاورے، غزل کی اصلاحات، غزل کا انداز، غزل کا لب و لہجہ، غزل اک آہنگ وغیرہ، لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ ان کا سیاسی شعور بیدار نہیں ہے۔ وہ سیاسی مضامین کو بھی قلم بند کرتے ہیں۔ لیکن ایسا کرتے ہوئے اس کا خیال ضرور رکھتے ہیں کہ تغزل کا رنگ باقی رہے، ورنہ غزل اپنا حسن کھو دے گی۔جگن ناتھ آزادؔ کے یہاں تغزل کا رنگ کتنا نمایاں ہے:

اﷲ رے بے خودی کہ ترے گھر کے آس پاس

ہر در پہ دی صدا ترے در کے خیال میں

ملتے نہیں ہو گرچہ رگِ جاں سے ہو قریب

آوارہ ہو گیا ہوں تمہارے سراغ میں

جو فسانے ہیں زمانے کی زباں پر ان میں

اب ترا نام بھی آتا ہے مرے نام کے ساتھ

ترے قریب سے گزرا ہوں اس طرح کہ مجھے

خبر بھی ہو نہ سکی میں کہاں سے گزرا ہوں

جگن ناتھ آزادؔ جہاں اس طرح کا شعر کہہ کر ماضی سے اپنا رشتہ قائم رکھتے ہیں اور ادب کی پرانی قدروں کا ساتھ دیتے ہیں، وہاں زندگی کے جدید تقاضوں کی طرف سے بھی غافل نہیں رہتے ہیں۔ اقتصادی بدحالی سے دوسروں کی طرح وہ بھی متاثر ہوتے ہیں۔ انہیں بھی ہر طرف ایک بحرانی ماحول نظر آتا ہے جس میں ہر کوئی پریشان ہے۔ وہ کہتے ہیں:

یہ بزم جہاں بھی ہے عجب بزم کہ اس میں

جو بھی نظر آیا وہ پریشاں نظر آیا

یہ صحیح ہے کہ کبھی کبھی وہ اپنے گرد و پیش سے بے نیاز ہو گئے ہیں لیکن فوراً ہی اس نے ان کا دل دکھا اور جیسے وہ چونک پڑے۔ انہوں نے محسوس کیا کہ زندگی کے حقائق کے سلسلے میں بے نیازی ممکن نہیں ہے۔ ان حقائق کا سامنا کرنا ہے۔ جیسے ان کا یہ شعر:

میں ہو چلا تھا کچھ غم دوراں سے بے نیاز

اچھا ہوا کہ تو نے مرا دل دکھا دیا

عشق کے ساتھ ہر دور میں غم کی بھی الگ تشریح کی گئی۔ یہ غم، مایوسی اور ناکامی کے معنی میں استعمال کیا جاتا تھا۔ لیکن اقبالؔ کے دور سے اس کے معنی اور مطلب بدل گئے۔ اب غم ہمت، جوش نمود، بیباکی، خود داری، بلند حوصلہ اور ایسے دوسرے الفاظ کے معنی میں بولا اور سمجھاجاتا ہے۔ جگن ناتھ آزادؔ بھی غم کو انہیں معنوں میں استعمال کرتے ہیں:

میں ہر غمِ جہاں سے گزرتا چلا گیا

اک ترے غم نے کتنا بڑا آسرا دیا

جگن ناتھ آزادؔ اپنی شروع کی غزلوں یعنی ’’بیکراں‘‘، ’’وطن میں اجنبی‘‘ اور ’’ستاروں سے ذروں تک‘‘ کی غزلوں میں ایک طرح کی فکری بو قلمونی کے ساتھ آگے بڑھتے ہوئے دکھائی دئیے ہیں۔ کہیں رومانی سپردگی، کہیں عجز، شوق کی نیاز مندی، کہیں تمکین انا، اور کہیں عشق کی خود اعتمادی ان کے اشعار میں بڑے طمطراق کے ساتھ نمایاں ہوتی ہیں۔ اور وہ اس دور کی معنوی تہہ داری اور معقولیت کے جوہر اپنی غزلوں میں پیش کرتے ہیں۔ جس دور کی سربراہی کا سہرہ خواجہ الطاف حسین حالیؔ اور علامہ اقبالؔ کے سر جاتا ہے۔ ذیل کے اشعار اس صورت حال کے نمائندہ اشعار ہیں جس میں احساس کا بنیادی خمیر جذبے کے آہنگ کے ساتھ فکریات سے بھی انصاف کرتا ہوا تسلیم کیا جا سکتا ہے:

گلشن بھی ترے اور بہاریں بھی تری ہیں

آزادؔ کا حصہ ہے فقط زخم نظارہ

سانسوں کے ساتھ ساتھ اڑا جا رہا ہوں میں

لحظہ بہ لحظہ ترے قریب آ رہا ہوں میں

کچھ جیت کا احساس ہے کچھ ہار کا احساس

معلوم نہیں اصل میں ہارا ہوں کہ جیتا

کوئی احساس کو آواز تو دیتا ہے مگر

کون ہے اور کہاں ہے مجھے معلوم نہیں

کیا جانیئے آزادؔ مرا عشق جنوں خیز

جینے کا سہارا ہے کہ مرنے کا بہانہ

دشت میں آ کے اب یہ عالم ہے

اپنا گھر ہے مقام دور دراز

تری جستجو میں مری آرزو نے

بہت رنگ بدلے بہت روپ دھارے

تہذیب کہنہ مری شرافت پہ ناز کر

دھوکا دیا ہے دوست نے شرما رہا ہوں میں

ہمیں نے اے محبت قدر پہچانی ہے کچھ تیری

تجھے طوفاں، تجھے کشتی، تجھے ساحل سمجھتے ہیں

 جگن ناتھ آزادؔ غزل میں روایت کے پرستار ہیں لیکن اس رویے کو انہوں نے اپنی پختہ کاری کا پیمانہ تصور کر کے ہی آگے بڑھنے کی کوشش کی ہے۔ ان کے اس رویے کا بالواسطہ اعتراف ان اشعار میں ملاحظہ ہو:

شعر کا انداز اے آزادؔ اپنا ہے مرا

ہوں میں عاشق لہجہ غالبؔ کا، طرز میرؔ کا

پرانے دور کا دامن نہ ہاتھ سے نکلے

نقوش ابھی نہیں واضح نئے زمانے کے

رومیؔ و اقبالؔ خود ہوتے ہیں مجھ سے ہم کلام

کیوں نہ ہو محبوب مجھ کو مری تنہائی بہت

چنانچہ روایت کی پختہ بنیادوں پر ان کے تخلیقی وجدان کے تانے بانے کئی صورتوں میں عیاں ہوئے ہیں۔ ہر اچھے شاعر کی طرح انہوں نے اپنے شعری اظہار میں طنز و تعریض یا مزاح سے بھی کام لیا ہے۔ کیونکہ شاعری اگر زندگی کی تنقید ہے تو معاشرے کی کم و کاشت، ظاہرداری، ذہنی تحفظات، نیز تعصبات پر ناقدانہ نظر کا فریضہ شاعر پر خود بخود عائد ہو جاتا ہے جسے ادا کرنے میں جگن ناتھ آزاد کی تخلیقی اور فنی روش انفرادی طور پر بروئے کار آتی ہے۔ یہ اشعار نمونے کے طور پر پیش ہیں:

آغاز بہاراں دیکھ لیا، انجام بہاراں روشن ہے

تدبیر گلستاں کے صدقے تقدیر گلستاں روشن ہے

خدا جانے گریں گی کب من و تو کی یہ دیواریں

یہ اِس کا جام ہے ساقی یہ اُس کا جام ہے ساقی

داخل ہوئی ہے ایک نئے دور میں حیات

اب ہم ہیں اور خواب پریشاں نئے نئے

نظر ان کی، زباں ان کی، میں کس کو معتبر سمجھوں

نظر کچھ اور کہتی ہے زباں کچھ اور کہتی ہے

اس دور میں حیات بسر کر رہا ہوں میں

آزادؔ جس کو آنکھ ملی ہے نظر نہیں

زندگی بھر ہم فریب دوستی کھاتے رہے

زندگی بھر ہم وفاؤں کا صلہ پاتے رہے

فنون علم کا گرداب وہ گرداب ہے جس میں

کبھی کشتی نہیں ملتی کبھی ساحل نہیں ملتا

بٹھایا ہے امارت نے انہیں مسند پہ آج

صدر صاحب سوچ میں ہیں اب کہ فرمائیں تو کیا

شعر میں نعرے لگا کر تو نے بازی جیت لی

اور میں لہجہ کی نرمی آزماتا رہ گیا

بجا کہ شعر ترا تجربے پہ مبنی ہے

مگر یہ تجربہ تیرا ہے یا کتاب کا ہے

شاعر ترے کلام میں فن بھی ہے فکر بھی

لیکن یہ فاصلہ جو ہے فکر اور فن کے بیچ

تمہارے شہر کا اب کے سفر عجیب لگا

جو گھر کو لوٹ کے آئے تو گھر عجیب لگا

جو سنگ باریٔ احباب ہو قبول کرو

زباں درازی یاراں سے دل لگائے ہوئے

غزل کا شاعر اپنے ضمیر سے حسن و عشق کا شاعر ہوتا ہے اور حسن و عشق کا معاملہ لازمی طور پر شاعر کے جمالیاتی شعور سے وابستہ رہتا ہے۔ جگن ناتھ آزادکو مشاہدات کی ایک وسیع دنیا سے واسطہ رہا ہے، اپنے جمالیاتی شعور کو بڑے اچھوتے انداز میں انہون نے پیش کیا ہے ، جیسے کہ یہ اشعار:

غنچہ، غنچہ پھر نہیں رہتا ہے گل بننے کے بعد

لعل جاناں پل میں غنچہ پل میں گل بن جائے ہے

ٹھہر گئی ہے جہاں بس وہیں ٹھہر گئی

نگاہ کر ہی نہ پائی ترے بدن کا طواف

جس کی طرف آنکھ اٹھانا بھی ہے آزادؔ محال

بات کیا ہے کہ اسی سمت برابر دیکھوں

تجھ کو میں اک زمانہ سے چھپا کر دیکھوں

یوں ترے حسن دلآویز کا منظر دیکھوں

مآل کشتی قلب و نظر خدا جانے

یہ موج نکہت گل بہ خرام رنگ چمن

منزل کی راہ میں یہ ہجوم نشاط و کیف

ڈرتا ہوں روک لے نہ کوئی مرحلہ مجھے

رومیؔ، اقبالؔ اور فارسی کے متعدد شعراء سے متاثر ہونے والے جگن ناتھ آزادؔ نے جہاں ان حضرات کی فکریاتی صلاحیت کو اپنے لئے مشعل راہ تسلیم کیا ہے، وہاں اپنے منفرد لہجے اور برجستہ اسلوب نیز قادرالکلامی سے انہوں نے فکریات کے اچھے خاصے تیور اجاگر کئے ہیں۔ ذیل کے اشعار میں معنویت کی تہہ داری، ذات و صفات کے گلشن رنگ و رموز کی خوشہ چینی، عقل و عشق کی آویزش، دل و دماغ کی سپردگی، نیز تصوف کی دور اندیشیاں غور سے دیکھنے کا تقاضا کرتی ہیں۔

کل ہر اک پردے پہ جلوہ کا گماں تھا آزادؔ

آج آزاد ہر اک جلوہ ہے پردے کی طرح

خزانہ مسرت کا دل میں ہے پنہاں

یہ دولت نہ ڈھونڈھ اے مسرت کی جویا

مرے جذب دل بس یہی راز پا لے

زمیں کے نہ انوار ہاتھوں سے چھوئیں

میں نے پوچھا کہ زندگی کیا ہے

ہاتھ سے گر کے جام ٹوٹ گیا

عشق نے عقل کو یہ کہہ کے اجازت دی ہے

اب ترا ذوق تگ و تاز جہاں تک پہنچے

ہے بس ایک لمحہ نگاہ پر محیط

نہ ابد ہے نہ ازل ہے یارو

ہو سکے تو جائزہ اک بار لے تدبیر کا

رونے والے اس طرح ماتم نہ کر تقدیر کا

کس لئے حیران ہے اے دل دیکھ کر پتھر کا بت

یہ نہیں بت کی یہ دست با ہنر کی بات ہے

ابتداء یہ تھی کہ میں تھا اور دعویٰ علم کا

انتہا یہ ہے کہ اس دعوے پہ شرمایا بہت

سرکتے لمحوں کی شمشیر بے نیام کو دیکھ

ملی ہے آنکھ تو یلغار صبح و شام کو دیکھ

زندگی اک آئینہ ہے جس کا پس منظر ہے زنگ

تو فقط منظر کو دیکھ آزادؔ پس منظر نہ دیکھ

دار فنا میں کن کو حیات ابد ملی

آزادؔ انہیں فقط جنہیں مرنے کا شوق تھا

جگن ناتھ آزادؔ اپنے آفاقی رویے کے تحت زندگی کے نفسیاتی حقیقتوں کے شاعر ہیں اور ان حقیقتوں کی ترجمانی انہوں نے بڑے ہی برجستہ شعری منطق کے ساتھ کی ہے جن میں شعریت اور تغزل کا جادو گویا ان کے فن پاروں میں سر چڑھ کر بولتا ہے۔ اس نوعیت کی چند مرغوب و مانوس اشعار ذیل میں درج ہیں:

کیا کہوں چاندنی راتوں کی خموشی کا فسوں

لمحے لمحے میں اک آواز نہاں ہوتی ہے

جانے کیا شئے ہے کہ بنتی ہے کبھی دل میں شرر

بن کے پانی کبھی آنکھوں سے رواں ہوتی ہے

کام ہے نالہ و فریاد ہوس کاروں کا

عشق والوں کی فغاں ضبط فغاں ہوتی ہے

ذرا میری پریشانی کا تو مجھ سے بیاں سن لے

پھر اس کے بعد کوئی بھی پریشانی نہیں ہوگی

وہ اک تڑپ کہ جس سے عبارت ہے زندگی

کچھ سنگ در میں کچھ مرے سودائے سر میں ہے

کبھی نغمہ، کبھی نالہ، کبھی خاموشیٔ پیہم

تری یادوں کے صدقے دل کا اک عالم نہیں ہوتا

آج خوشبوئے گلستاں جو گلستاں سے چلی

وہ جو تھا اک دل برباد بہت یاد آیا

میں گرمِ سفر تھا مجھے کچھ اور نہ رہا یاد

نقش کف پا یاد نہ منزل کا پتہ یاد

اﷲ رے بے خودی شوق کا عالم

کوچے میں ترے آ کے ترا گھر نہ رہا یاد

بیکراں رات کے سناٹے میں

تو مجھے یاد بہت یاد آیا

میں عمر بھر غم دوراں سے ایک بار ملا

پھر اس کے بعد کبھی تجھ کو منھ دکھا نہ سکا

ساقیٔ میخانہ تجھ سے تشنگی کی کیا کہوں

زندگی صحرا رفیق و شوق دریا آشنا

جس طرح اک اعترافِ جرم کی تصویر ہو

اس طرح خاموش ترے روبرو بیٹھا ہوں میں

آوارہ نہ پھر اے دل صحرا و بیاباں میں

آباد ہے اک دنیا دامن سے گریباں تک

جگن ناتھ آزادؔ نے اپنی زندگی حتی الوسیع کامیابی کے ساتھ گزاری۔ ہر کامیابی زندگی کی تہہ میں جہاں شخصی کردار کی خوبیاں، خدا داد صلاحیتیں، محنت و مشقت کے وسیلے اور خود زندگی کے تئیں نظریاتی رویے کام کرتے ہیں۔ وہیں زندگی کی مجموعی تصویر کی تکمیل کے لئے طرح طرح کی کمزوریاں، تجرباتی رد عمل، ناسٹلجیا، ذہنی تعصبات و تحفظات بھی در آتے ہیں۔ اور شاعر چونکہ غیر معمولی احساس اور جذبات کا مجسمہ ہوتا ہے، اپنی آزاد خیالی کو کشادہ روی سے نہیں روک سکتا۔ اور صنف غزل جس کی نیم وحشی نوعیت ہر شعر میں الگ الگ موضوع کو مکمل طور پر نظم کر دینے کی اجازت دیتی ہے،جگن ناتھ آزادکاطرزاظہاریہی ہے۔ لہٰذا جب وہ زندگی کے تئیں اپنے رجائی رویے کو راہ دیتے ہیں تو فرماتے ہیں:

اے مجھے بھول کر بھی یاد نہ کرنے والے

دن تو کیا ہجر میں راتیں بھی مری بیت گئیں

مری تقدیر کانٹے چن رہی ہے

بہار بوستاں ہے اور میں ہوں

مری منزل ہے جادۂ منزل

میری منزل مری حیات نہ پوچھ

تو رہ نہ سکی پھول میں اے پھول کی خوشبو

کانٹوں میں رہے ہم اور پریشاں نہ رہے ہم

جسم بھی تھک چکا، روح بھی تھک چکی، راستہ کیا خبر کتنا تاریک ہو

اپنی یادوں کے بجھتے دیوں سے کہو ٹمٹماتے رہیں جھلملاتے رہیں

کیا خبر کیا حقیقت ہے کیا خواب ہے میں تو یہ راز سمجھا ہوں بس اس قدر

خواب کی طرح سے آپ آتے رہیخواب کی طرح سے آپ آتے رہے

جگن ناتھ آزاد ؔسماجی تعلقات، مراسم اور روابط کا ذکر کرتے ہیں تو بڑے پراسرار انداز میں بڑے پتے کی بات کہہ جاتے ہیں۔ تجربات و مشاہدات کی فراوانی ان اشعار کی تہہ میں کارفرما ہے:

نطق بے باک زمانے میں بڑی شئے ہے مگر

وقت کچھ اور ہی بے باک ہے خاموش رہو

سکونِ دل جوانِ بیش و کم میں ڈھونڈھنے والے

یہاں ہر چیز ملتی ہے سکونِ دل نہیں ملتا

نگاہوں سے نگاہیں بارہا آزادؔ ملتی ہیں

مگر یہ دور ہے ایسا کہ دل سے دل نہیں ملتا

خبر کیا کہ وہ بات پہنچے کہاں تک

جو دل سے چلے اور آئے زباں تک

میری یہی خطا ہے بس اے اہل بتکدہ

شمع حرم کا نور بھی مری نظر میں ہے

اپنے آبائی وطن پاکستان کا جب انہیں خیال آتا ہے اور جب وہ اس وطن میں اجنبی کی طرح تشریف لے جاتے ہیں تو سیاست کی تنگ دامانیوں سے کی پروا کئے بغیر محبت کی بے لوث فضا ان کا خیر مقدم کرتی ہے۔ چنانچہ گھر آتے ہی ناسٹلجیا کا احساس ان کے دل کے سوتوں سے گویا پھوٹ پڑتا ہے۔

وطن نے تجھ کو بلایا تو کیا ہوا آزاد

دیارِ غیر میں تو اپنے احترام کو دیکھ

کیا خبر کیا بات اس کے کفر میں پوشیدہ ہے

ایک کافر کیوں حرم والوں کو یاد آیا بہت

اپنی خاطر خواہ زندگی اور اپنی ہر کامیابی کی تہہ میں صلاحیتوں کی کارفرمائی، نیز اپنی عمر بھر کی جدوجہد کے برگ ثمر پر جب جگن ناتھ آزادؔ کی نظر پڑتی ہے تو اپنی انا، احساسِ خود داری، نرگسیت کے اظہار سے بھی نہیں رکتے کیوں نہ ہو یہ ان کی متاع استحقاق ہے جو اجتہاد کے کوکھ سے براہ راست پیدا ہوئی ہے۔

ہونٹ تر کرنے میں اپنی آبرو کا تھا خیال

یوں تو آنے کو مرے رستے میں دریا آ گیا

غزل سوز دروں کی آنچ سے لفظوں میں ڈھلتی ہے

فقط رنگینی حسن بیاں سے کچھ نہیں ہوتا

ہمیں پہ ختم ہے عصر رواں تری غزل خوانی

یہاں جب ہم نہیں ہوں گے غزل نہیں ہوگی

دنیا ترے قرطاس پہ کیا چھوڑ گئے ہم

اک حسن بیاں، حسن ادا چھوڑ گئے ہم

ماحول کی ظلمات میں جس راہ سے گزرے

قندیل محبت کی ضیاء چھوڑ گئے ہم

ادب کی فضاؤں میں بھی رجحانات، تحریکوں اور تغیر کی ہوائیں، بڑے بڑے روایت پسندوں اور پرانی وضع قطع کے ادیبوں کو چھونے سے باز نہیں آتیں۔ یوں کہئے کہ ایک طرح صحت مند ابن الوقتی ہی ایک پختہ کار ادیب کے عصری وقار اور فنی تازگی کی ضامن بن کر اس کی تخلیقی جوہر کے لئے تازیانہ بن جاتی ہے۔ چنانچہ جگن ناتھ آزادؔ کے یہاں ان کی جواں فکری بدلتے ہوئے میلانات کی ڈور تھام کر عصری حیثیت سے ہمکنار ہوتی، رموز و علائم اور ایمائیت کے آلات کار سے جدیدیت کے شعری پیکر اجاگر کرنے کی مرتکب رہی ہے۔ یہ اشعار اس صورت حال کا اشارہ فراہم کرتے ہیں:

ذکر عصر جدید سن مجھ سے

مجھ سے عصر کہن کی بات نہ پوچھ

ہر سمت مسائل کے جو کانٹے ہوں تو ان سے

کس طرح میں دامان تغزل کو بچا لوں

خود ہے کہیں خیال کہیں ہے نظر کہیں

کچھ اس طرح وجود بشر کا بکھر گیا

ہر قدم پہ طے شدہ رستے کو مڑ مڑ کر نہ دیکھ

صبح فردا کے مسافر میل کا پتھر نہ دیکھ

یہ بات چیت میں اتنا تپاک کا عالم

کبھی کبھی تو بڑا خوف سا لگے ہے مجھے

کیا گلہ غیروں کا خود ہی سانحہ لے کر چلے

پتھروں کے شہر میں ہم آئینہ لے کر چلے

لب زمانہ بہ مہر سکوت کیا کہنا

مرے تمام سوالوں نے خودکشی کر لی

دیکھ کر کہ نہیں کوئی چاہنے والا

نہ جانے کتنے خیالوں نے خودکشی کر لی

نہ جانے کتنی رسوائی مری بازار میں ہوتی

خدا کا شکر ہے بے چہرگی نے آبرو رکھ لی

غزل گو کی حیثیت سے جگن ناتھ آزاد ؔکا بھی اپنا مقام ہے۔ آزاد کی غزلیات کی ورق گردانی سے ان کے آہنگ، انداز،الفاظ اور خیالات کااندازہ ہوتاہے ۔ مثال کے طور پر یہ غزل دیکھیں:

کبھی بلندیٔ ذوق نظر تک آ پہنچی

کبھی حیات غم بال و پر تک آ پہنچی

فغاں کہ مل کے بھی ہم تم اسے نہ روک سکے

شب و صال حدودِ سحر تک آ پہنچی

نظر سے بڑھ کے زباں تک کہیں نہ آ جائے

جہانِ دل کی کہانی نظر تک آ پہنچی

ابھی تو دل میں ہے خوابیدہ حسرت پرواز

یہی ہوس جو کبھی بال و پر تک آ پہنچی

نظر کی بات تو کچھ اور ہے مگر کیوں کر

تری شبیہ دل بے خبر تک آ پہنچی

بھنک رہی ہے ابھی تک تو آرزو دل میں

اگر کبھی یہ تری رہ گزر تک آ پہنچی

پوری غزل کا کلیدی خیال ذوق نظر اور آرزوئے دل ہے۔ یعنی حیات و کائنات پر شاعرانہ منظر، تخیل کا رُخ ایک ہی جانب ہے۔ معیار زندگی سے متعلق خیالات و تصورات جذبات سے منور ہو کر ’’از دل خیزد‘‘ سے لے کر ’’بر دل ریزد‘‘ تک زمان و مکان تک محیط ہو کر کرن کرن نظر آنے لگتے ہیں۔ مطلع میں ذوق نظر کی آرزو کبھی بلندی سے ہمکنار ہوتی ہے اور کبھی غمِ بال و پر سے مجروح ہو اٹھتی ہے۔ یہ وہ کہانی ہے جو دل سے نظر تک محیط ہے، کبھی یہ حسرت پرواز ہے تو کبھی ہوس بال و پر تک پہنچتی ہے۔ ابھی دل ہی میں ہے مگر اس کی تگ و تاز محبوب یعنی مقاصد حیات کے حصول کی ’’رہ گزر‘‘ تک بھی پہنچ سکتی ہے۔ غرض اس غزل کا ایک ایک شعر جداگانہ حیثیت کا حامل بھی ہے اور ایک دوسرے سے جڑا ہوا بھی ہے۔

جگن ناتھ آزاد کے کلام میں وہ ادبی روایت جس کواسد اﷲ خاں غالبؔ،علامہ اقبالؔ، پنڈت برج نارائن چکبستؔ، حسرت موہانی اور جوشؔ ملیح آبادی نے آگے بڑھایا رچی بسی ہے۔ الگ الگ شخصیت اور طرز اظہار کے باوجود یہ ایک گداز طبیعت، درد مند دل، حساس شخصیت کا کلام ہے۔ ایک محبت کرنے والے عالی ظرف دوست کی گفتگو ہے جو بہت سی باتیں چشم سخن گو اور جنبش ابرو سے کہہ جاتا ہے۔ وہ جسے بلاغت کہتے ہیں۔ جگن ناتھ آزاد ؔکے کلام میں اس کا وفور ہے۔ یعنی دل و دماغ دونوں کا نور ہے۔ اس ہیجانی دور میں صحیح ادبی توازن کو برقرار رکھنا بڑی شاعرانہ عظمت کی نشانی ہے۔

آزادؔ کے کلام کے چند اشعار دیکھئے:

جب جوش جنوں ہو گرم سفر وہ بند و سلال کیا جانے

طوفان جب اپنی موج میں ہو پابندیٔ ساحل کیا جانے

جب برق میں ضو ہے شمع میں لو پارے میں تڑپ کوندے میں لپک

پابند طلسم دیر و حرم وہ درد ترا دل کیا جانے

وہ عزم ہے جو لے آتا ہے قدموں تک کھینچ کے منزل کو

اس راز کو رہبر کیا سمجھے، اس بھید کو منزل کیا جانے

—–

یوں آمدِ فصلِ بہاری کو گلزار میں رقصاں دیکھیں گے

اے شاخ فرومایہ تجھ کو ہر سمت گل افشاں دیکھیں گے

ظلمت کی ہر اک موج کہن سورج کی کرن بن جائے گی

اے شام الم اک روز تجھے ہم صبح درخشاں دیکھیں گے

اے راز محبت بول ذرا یہ عقدہ نازک کھول ذرا

انسان سے آخر کب تک ہم انساں کو گریزاں دیکھیں گے

اس وقت جو اپنی فکر میں ہے، اس وقت جو اپنے عزم میں ہے

اس طرح کی اک تصویر تری اے عالم امکاں دیکھیں گے

—–

اک بار اگر قفس کی ہوا راس آ گئی

اے خود فریب پھر ہوس بال و پر کہاں

مانا چمن میں حکم زباں بندیوں کے ہیں

راز جنوں کو فاش کریں ہم مگر کہاں

داغ ہے دل کا کسی روز چمک اٹھے گا

یہ کوئی درد نہیں ہے کہ دکھا بھی نہ سکوں

صدمہ ہجر ترا ایک قیامت ہے مگر

نہیں احساں کسی کا اکہ ٹھا بھی نہ سکوں گا

جگن ناتھ آزاد کے کلام میں یاد وطن اور ہجر و فراق کی ٹیس جا بہ جا بکھری پڑی ہیں۔ اور غزلوں میں اس کی واضح مثالیں موجود ہیں۔ ’’بیکراں‘‘ کی ایک غزل کے چند اشعارپیش ہیں :

ترتیب نشیمن کیا ہوگی، آئین گلستاں کیا ہوگا

آغاز بہاراں کچھ تو بتا انجام بہاراں کیا ہوگا

اندازۂ طوفاں ہوتا ہے طوفاں کے قریب آ جانے سے

ساحل پہ بسیرا کرنے سے اندازۂ طوفاں کیا ہوگا

ماحول کی گرد سے کچھ ایسا دھندلایا حال کا آئینہ

کچھ اس میں نظر آتا ہی نہیں مستقبل انساں کیا ہوگا

فضا کو دیکھ کے ذوق نظر یہ کیا گزری

نہ پوچھئے ہوس بال و پر کیا گزری

تمہیں کچھ اس کی خبر بھی ہے اے چمن والو

سحر کے بعد نسیم سحر کیا گزری

درد حیات ترے فسانے کہاں گئے

دل جن سے زندہ تھا وہ ترانے کہاں گئے

جن کے طفیل باغ و بہاراں تھی زندگی

وہ دوست وہ حبیب نہ جانے کہاں گئے

آزادؔکے ایک اور غزل کے یہ اشعار پیش ہیں:

پھر بھی کم تھا گرچہ تیری ذات سے پایا بہت

تو ہوا رخصت تو ہم کو یہ خیال آیا بہت

سیم و زر کیا شئے ہے یہ لعل و گہر کیا چیز ہیں

آنکھ بینا ہو تو علم و فن کا سرمایہ بہت

کیا خبر کیا بات اس کے کفر میں پوشیدہ تھی

ایک کافر کیوں حرم والوں کی یاد آیا بہت

گھر سے اک ویرانیٔ دل لے کے نکلا تھا مگر

کارواں یادوں کے میں دل میں بسا لایا بہت

دیر ہی کی روشنی میرے لئے کافی نہ تھی

میں حرم کا نور بھی دل میں بسا لایا بہت

یوں اے آزادؔ تیرے شعر کے سو رنگ ہیں

مجھ کو لیکن یہ تیرا لہجہ پسند آیا بہت

کیا گلہ غیروں کا خود ہی سانحہ لے کر چلے

پتھروں کے شہر میں ہم آئینہ لے کر چلے

ہم ہیں اور ان میں ازل کے روز جو حائل رہا

ہم وہی روز ابد تک فاصلہ لے کر چلے

باوجود کسمپرسی دل کہیں تنہا نہ تھا

ہر جگہ یادوں کا ہم اک قافلہ لے کر چلے

ان دنوں کچھ جادہ و منزل کا عالم اور ہے

جس کو چلنا ہو فقیروں کی دعا لے کر چلے

کس متاع شوق کی ہم جستجو کرتے رہے

زندگی بھر زندگی کی آرزو کرتے رہے

جب حریفوں کی زباں تھی شعلہ گفتاری میں غرق

ہم تغزل کی زباں میں گفتگو کرتے رہے

اور ہوں گے جن کو ہوگا چاک دامانی پہ ناز

ہم جنوں میں چاک دامن کو رفو کرتے رہے

اصل میں ہم تھے تمہارے ساتھ محو گفتگو

جب خود اپنے آپ سے ہم گفتگو کرتے رہے

کوئی یہ آزادؔ سے پوچھے کہ اپنے دل سے دور

تم کہاں جا کر تلاش رنگ و بو کرتے رہے

اپنے گرد و پیش سے، سیاسی صورت حال سے نیز اقتصادیات سے کوئی شخص بھی علیحدہ نہیں رہ سکتا۔ کسی نہ کسی طور پر اس کی وابستگی ناگزیر ہو جاتی ہے۔

 جگن ناتھ آزادؔ جیسا فنکار گرد و پیش سے کیوں کر بے نیاز رہ سکتا ہے۔ جیسے ان تمام حالات سے متاثر ہو کر یون گویا ہوئے:

مرا ظاہر گرد سے دھندلا ہو گیا ہے دوستو

تم مرے دل میں تو جھانکو، میں سراپا نور ہوں

نہیں اس سے تعلق آسماں تیرا ہے یا میرا

فقط یہ پوچھنا ہے خاکداں تیرا ہے یا میرا

دار فنا میں کس کو حیاتِ ابد ملی

آزاد انہیں فقط جنہیں مرنے کا شوق تھا

بیٹھا تو ہوں بہتے ہوئے دریا کے کنارے

پوچھو نہ مگر مجھ سے مری پیاس کا عالم

دور تکریم ہنر ہے مگر اے دوست نہ پوچھ

کہ ہنر مند ہوئے آج ہراساں کتنے

ہمارے ساتھ جو دنیا منافقانہ چلی

ہم اس کے ساتھ بانداز دوستانہ چلے

تم کہ مری محفل آرائی سے دھوکہ کھا گئے

کس طرح تم کو بتاؤں کس طرح تنہا ہوں میں

حالات گرد و پیش جو کچھ بھی ہوں اور جس طرح تبدیلی و تغیر اپنے اثرات مرتب کر رہے ہوں، روانیٔ آب اور داستان حسن و عشق میں کوئی فرق ظہور پذیر نہیں ہوتا۔ جگن ناتھ آزادؔ کے یہاں یہ داستان بغایت سنجیدگی دل کشی اور زیبائی کے ساتھ زبان شعر سے ادا ہوئی۔ جیسے یہ اشعار:

میں جس کو ڈھونڈھ رہا ہوں ابھی ملا تو نہیں

مگر ملے گا کسی دن کوئی خدا تو نہیں

عمل کے دیکھنے والو، عمل کے دنیا میں

فقط خیال نے جادو جگائے ہیں کیا کیا

جن کے جلوے لوٹ کر واپس نہ آئیں گے کبھی

کیوں نگاہوں میں وہ بام و در لئے پھرتا ہوں میں

رشتۂ درد سے پائندہ نہیں رشتہ کوئی

مری اس بات کو سینے سے لگائے رکھنا

تم ہوئے دور تو آنکھوں نے یہ فن سیکھ لیا

خشک دریاؤں میں طوفان اٹھائے رکھنا

میں جسے سمجھتا تھا دریا وہ بھی نکلا تشنہ لب

اب کسے جا کر سنائیں پیاس کا افسانہ ہم

ان کا ایک اور شعر ملاحظہ فرمائیے جس میں زبان کے لطف کے ساتھ جذبات اور حسن کی فراوانی ملے گی:

اﷲ رے وہ رُخ، وہ نظر، وہ قدِ موزوں

ڈوبا ہوا مستی میں گلستاں نظر آیا

جگن ناتھ آزاد ؔکی شاعری میں حقیقت بیانی، واقعات نگاری، سماجی شعور، زبان کی چاشنی، جذبات کی فراوانی اور ادب کو زندگی کے داخلی اور خارجی پہلو سے قریب لانے کی امنگ ہوتی ہے۔ جیسے یہ اشعار:

آنسو شب فرقت سر مژگاں نظر آیا

بارات کی ظلمت میں چراغاں نظر آیا

دیار دوست سے گزرا تو ہوں مگر آزادؔ

عجیب بے خبری میں وہاں سے گزرا ہوں

کہیں مذاق نظر کو قرار مل نہ سکا

کبھی چمن سے کبھی کہکشاں سے گزرا ہوں

بلبل کو کیا خبر تھی چمن ہے بھی یا نہیں

خود ہی شمیم گل نے چمن کا پتہ دیا

آنکھوں کو شغل گریہ دیا دل کو سوز درد

اے ذوق شعر تو نے مجھے اور کیا دیا

پہلے اک آرزو پھر اسی آرزو کا خوں

ذوق نظر نے اس کے سوا اور کیا دیا

دیکھے کوئی جو دیدۂ بینا لئے ہوئے

ذرے ہیں آفتاب کی دنیا لئے ہوئے

رستہ تو جگمگا ہی اٹھا دل کے داغ سے

منزل بھی پا ہی لوں گا کبھی اس چراغ سے

واعظ کبھی ہم لوگ فرشتہ نہ بنیں گے

ہم خاک نشیں اور ہیں وہ عرش فغاں اور

آزادؔ کے کلام کے مطالعہ کے بعد جو تصویر ان کی سیرت کردار اور شخصیت کی ابھر کر سامنے آتی ہے۔ وہ ایک شریف، دردمند، وسیع النظر، اور وسیع القلب انسان کی ہے۔ ان کی گفتگو کسی تشنگی اور پیاس کا پتا دیتی ہے جو اپنی شدت کی وجہ سے کرب کی حد تک پہنچ گئی ہے اور پڑھنے والوں کو یہ محسوس کراتی ہے کہ وہ ایک اچھے سماج، اچھی حکومت اور اچھے انسانوں کے علاوہ فکری بلندی، سرور و انبساط اور خوشحالی کے بھی متلاشی ہیں۔ تلاش کا یہ انداز ان کی تمام شاعری میں پھیلا ہوا ہے:

اب یہی سرگرم تلاشِ منزل جانا نہ ہم

چھوڑ آئے ہیں حدودِ کعبہ و میخانہ ہم

Leave a Reply

2 Comments on "جگن ناتھ آزادؔ کی غزلیہ شاعری"

Notify of
avatar
Sort by:   newest | oldest | most voted
trackback

[…] جگن ناتھ آزادؔ کی غزلیہ شاعری […]

trackback

[…] جگن ناتھ آزادؔ کی غزلیہ شاعری […]

wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.