علامہ شبلی کے علمی کمالات تعلیم وتعلم کے تناظر میں

 ڈاکٹر عمیر منظر

 اسسٹنٹ پروفیسر ،شعبۂ اردو، مولانا آزاد نیشنل اردو یونی ورسٹی لکھنؤ کیمپس،   فون نمبر:08004050865

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

علم و ادب کے استعارے کے طور پر جن شخصیات کا نام لیا جاتا ہے ان میں ایک نمایاں نام علامہ شبلی نعمانی (۱۸۵۷۔۱۹۴۱)کا ہے ۔مایہ ناز اسکالر کے ماسوا ان کی تعلیمی خدمات اور ہندستان جیسے کثیر مذہبی،ثقافتی اور لسانی تناظر میں مدارس کے نصاب کی اصلاحیں ان کا تاریخ سازکارنامہ ہے ۔یہ ارباب مدارس کی بدقسمتی ہی کہی جائے گی کہ انھوں نے نصاب سے متعلق شبلی کی جن اصلاحوں کو ماننے سے انکار کردیا ایک صدی بعد وہ انھیں چیزوں کو دوبارہ نصاب میں شامل کرنے پر مجبور ہیں ۔شبلی کے علمی کمالات کا ایک روشن پہلو ندوۃ العلماء کی تعلیمی سرگرمیاں اور نصاب تعلیم کی وہ اصلاحیں ہیں کہ جن کواگر شامل رہنے دیا جاتا تو مدارس اسلامیہ اس علمی کم مائیگی کے احساس سے دوچار نہیں ہوتے جن کا ذکر اب ہر طرف کیا جاتا ہے ۔شبلی نے ندوہ نصاب میں انگریزی زبان ،بھاکااور جدید سائنس کا اضافہ کیا تھا ،نیز شبلی نے کتاب کے بجائے فن کی تعلیم پر زور دیا تھا ۔شبلی کی یہ ساری کوششیں اسی وقت بار آور ثابت ہوئیں جب وہ ندوۃ العلماء کے معتمد تعلیم مقرر کیے گئے ۔۱۹۰۵سے ۱۹۱۳تک کا یہ زمانہ ندوہ کی تعلیمی ترقی اور شبلی کے علمی کمالات کانہایت روشن مگر کشمکش بھرا دور تھا۔

علامہ شبلی تحریک ندوۃ العلما میں پہلے دن سے شامل تھے اس کے مختلف اجلاس میں نہایت سرگرم حصہ لیااور ندوہ کی توسیع و استحکام کے لیے سفر بھی کیے ۔ان دنوں مدارس کو اسلام کا قلعہ کہا جاتا ہے ۔شبلی اسے حفاظت و اشاعت اسلام کا مرکز بنانا چاہتے تھے اور اسی لیے ایک ایسے نصاب کے لیے سرگرم عمل تھے جس میں دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ انگریزی،سنسکرت اور جدید سائنس کی باقاعدہ تعلیم شامل تھی اور اسی لیے انھوں نے اسے نصاب کا حصہ بنایا ۔عہد شبلی میں مدارس اسلامیہ کے نصابات میں درس نظامی کی وہ کتابیں شامل تھیں جو نئے زمانے کے چیلنجز سے نہ صرف مقابلے کی قوت رکھتی تھیں، بلکہ شبلی کی دور رس نگاہوں نے دیکھ لیا تھا کہ قدیم وجدید کے امتزاج سے تیار کیاہوا نصا ب ہی نئے چیلنجز کا مقابلہ کرسکتا ہے۔ اسی لیے شبلی نے نصاب تعلیم پر نہ صرف بہت اصرار کیا بلکہ ایک ایسا نصاب بھی تیار کیا جوزمانہ کی ضرورتوں کے عین مطابق تھا ۔شبلی کا بڑا کمال یہ بھی ہے کہ انھوں نے کتابوں کے بجائے فن پڑھانے پر زور دیا ،تاکہ پڑھنے والا اس فن کا ماہر بن جائے ۔ شبلی کی ایک تجویز یہ بھی تھی کہ عربی کی آخری جماعتوں میں کسی ایک موضوع پر طلبہ کے اندر اختصاص کی تربیت دی جائے ۔

برطانوی استعمار کی چیرہ دستیوں اور مستشرقین کی پھیلائی ہوئی گمراہیوں سے شبلی نعمانی سے زیادہ کون واقف ہوسکتا تھا ۔ان گمراہیوں کے تدارک اور مستقبل کی پیش بندی کے لیے ہی انھوں نے انگریزی زبان کی تعلیم پر زیادہ زور دیا ۔سنسکر ت اور بھاکا کی تعلیم اس لیے ضروری تھی کہ ہم اپنے برادران وطن کو سمجھ سکیں،ان کے مذہب اور تہذیبی و ثقافتی قدروں سے واقف ہوسکیں۔ظاہر ہے اس کے لیے سنسکرت جاننا ضروری تھا ۔داعیان اسلام کے لیے تو یہ اور ضروری تھا۔اسی خیال کے پیش نظر شبلی مدارس کو حفاظت واشاعت اسلام کا مرکز سمجھتے تھے ۔

شبلی کے سامنے آریائی سماج کے مناظرے تھے ۔شبلی سے پہلے کے اکابرین ملت اورخود شبلی نے جس طرح ان مناظروں میں سرگرم حصہ لیاوہ اپنی مثال آپ ہے ۔انھیں مناظروں کی بدولت شبلی نے اس بات کی شدید ضرورت محسوس کی کہ برادران وطن کے مذاہب اور ان کے تہذیبی اور ثقافتی رویوں کو سمجھا جائے، جس کے لیے ان کی زبان جاننا ضروری تھا ۔اگر شبلی کی یہ کوشش پوری طرح کامیاب ہوجاتی تو عین ممکن تھا کہ ہندستان جیسے کثیر مذہبی اور لسانی ملک میں بہت سی غلط فہمیاں دور ہوجاتیں ۔مناظرے، مکالمے کی شکل اختیار کرلیتے اور بعید نہیں تھا کہ اخوت ویگانگت کی ایک فضا قائم ہوتی۔یہی وہ عوامل تھے جس کی وجہ سے شبلی نے بھاکا اور سنسکرت کی تعلیم پر زیادہ اصرار کیا ۔

علامہ شبلی کے سوانح نگار سید سلیمان ندوی نے علامہ شبلی کی فکر کو ’’انقلابی فکر ‘‘سے تعبیرکیاہے۔ انھوں نے لکھا ہے کہ شبلی کے معاصر علماغور و فکر اور مجتہدانہ فکر وبصیرت کے اعتبار سے بہت پیچھے تھے ۔شبلی کی انقلابی فکر اور عملی کوششوں نے انھیں ممتاز رکھا ۔جدید و قدیم دونوں تعلیمی سلسلوں کے نزدیک شبلی روشن خیال مولوی قرار پائے۔حالانکہ بات صرف اتنی تھی کہ شبلی نئی تعلیم کو پسند کرتے تھے مگر قدیم تعلیم کے سخت حامی تھے ،ان کے نزدیک جدیدو قدیم دونوں کی اہمیت مسلم تھی ۔وہ اتنے ادنی خیال کے مالک نہیں تھے کہ اپنے تہذیبی اور ثقافتی ورثوں کو بھول جائیں اور نہ اتنے قدامت پسند کہ علم و ادب کے تازہ جھونکوں کا استقبال نہ کرسکیں ۔وہ علی گڑھ میں اپنی اسی سج دھج کے ساتھ رہے، علی گڑھ اور ندوہ کے درمیان ایک تعلیمی پل تعمیر کرنا چاہتے تھے ،مگر بوجوہ یہ ممکن نہ ہوسکا ۔ علی گڑھ سے تمام تر وابستگی اورتعلق کے باجود نئی تعلیم کے جو ثمرات انھوں نے وہاں دیکھے اس کا برملا اظہار ایک خط میں کیا ۔مولوی محمد سمیع کو انھوں نے ۱۸۸۳ء میں لکھا :

معلوم ہواکہ انگریزی خواں فرقہ نہایت مہمل فرقہ ہے ،مذہب کو جانے دو ،خیالات کی وسعت ،سچی آزادی ،بلند ہمتی،ترقی کا جوش برائے نام نہیں،یہاں ان چیزوں کا ذکر تک نہیں آتا،بس خالی کوٹ پتلون کی نمائش گاہ ہے ۔(مکاتیب شبلی حصہ اول ص : ۵۹)

 ندوہ میں ایک مدت تک تعلیمی کوششوں میں سرگرم رہنے کے بعد وہاں جو کچھ دیکھنے کو ملا اس کا اندازہ ایم مہدی حسن کے نام اس خط سے ہوتاہے ۔۸مئی ۱۹۰۹ء کو شبلی لکھتے ہیں :

اب کی متعصب مولویوں سے پالی لڑنی پڑی، جلسۂ انتظامیہ میں نائب سکریٹری ندوہ نے جو اپنے آپ کو سکریٹری کہتے اور لکھتے ہیں ، تجویز پیش کی کہ شبلی کو الگ کردیا جائے، یعنی اس کا عہدہ ہی تو ڑ ڈالا جائے، یاران ِ قدیم علی گڈھ نے طعنہ دیا کہ ’’اور مولویوں میں گھسو‘‘ میں نے کہا میں نے یہ سمجھ کر میدان میں قدم رکھا تھا، بہر حال یہ لوگ نہ ہوتے تو ندوہ کی حاجت ہی کیا تھی۔(مکاتیب شبلی ،سید سلیمان ندوی جلد دوم ص: ۲۲۲)

ندوہ کے نصاب میں شبلی نے انگریزی کو شامل کیا ۔شبلی برطانوی استعمار کے اثرات اوراسلام کے بارے میں مستشرقین کے پروپیگنڈے سے اچھی طرح واقف تھے ۔انھیں اندازہ ہوگیا تھا کہ آیندہ تعلیم کا مدار کیا ہوگا ۔سو برس بعد اب اگر دیکھا جائے تو ایک عام آدمی یہ کہہ سکتا ہے شبلی کا اندازہ حرف بہ حرف درست ثابت ہوا ۔سید سلیمان ندوی سے شبلی نے کہا تھا :

اب نئے تعلیم یافتوں کی مذہبی واقفیت کا مدار انگریزوں کی کتابوں اور اسلامی کتابوں کے ترجموں پر رہ جائے گا ،اس وقت ہمارے مذہبی علوم کی کیا حالت ہوگی ،اب بھی دیکھو،جب غیر مذہبی تعلیم یافتوں کو قرآن پاک کے سمجھنے کا شوق ہوتا ہے تو وہ اپنی پیاس کو سیل کے انگریزی ترجمہ سے بجھاتے ہیں ،فقہ اسلامی کا مدار ہدایہ کے انگریزی ترجمہ پر رہ گیا ہے ۔کیایہ کام ہمارے علماکا نہیں ہے ۔(حیات شبلی ص:۱۳۔۱۴)

انگریزی کی یہ تعلیم ندوہ میں صرف میٹرک کے مساوی رکھی گئی تھی۔شبلی نے مولانا حبیب الرحمن خاں شروانی کو ایک خط میں لکھا تھا :

ایک ہمارے روشن خیال شروانی ہیں ،جن کو اپناامام کہتا ہوں ،ان کا یہ حال ہے کہ انگریزی کے نام سے ان کو لرزہ آتا ہے ،بڑی مشکل سے مسلمانوں کے پھسلانے کو تجویز پر راضی ہوئے تو عمل درآمد میں حیران ہیں ،حالانکہ تمام طالب العلموں کو انگریزی پڑھانا مقصود نہیں ،نہ میرایہ خیال ہے،صرف اس قدر مقصود ہے کہ دوچار لڑکے انگریزی بھی پڑھیں ۔(مکاتیب شبلی حصہ اول ص:۱۲۶)

 اتنی انگریزی بھی حاملان جبہ و ستار کو گراں گزری حالانکہ ایک مختصر سے وقفے کے دوران اس معمولی انگریزی تعلیم کے جو اثرات سامنے آئے وہ غیر معمولی ہیں۔سید سلیمان ندوی نے لکھا ہے کہ:

 میری معمولی انگریزی تعلیم ندوہ ہی کی رہین منت ہے ۔اس کا فیض ہے کہ میں ۱۹۱۰میں انگریزی اسکولوں کی ریڈروں سے صیغہ اغلاط تاریخی کی رپورٹ پیش کرسکا،ارض القرآن لکھ سکااور یورپین مواد سے اپنی تصنیفات میں فائدہ اٹھا سکا اور ۱۹۲۰میں یورپ جاکر کچھ کام کرسکا۔مولانا عبدالباری صاحب ندوی نے اسی کی بنا پر جدید فلسفہ کی متعدد کتابیں ترجمہ کیں اورعقل ونقل پرسورت کی ایجوکیشنل کانفرنس علی گڑھ کے اجلاس میں رسالہ لکھ کر پیش کیا جو اہل عقل و نقل دونوں کے لیے یکساں مرکزتوجہ ہے پھر معجزات کے انکار اور وقوع پر وہ مبسوط رسالہ لکھا جو سیرت النبی ﷺکے حصہ سوم کا ایک جزہے اور یورپ کے مشہور فلسفیوں ہیوم اور برکلے کی تصنیفات کو اردو میں منتقل کیا اور دارالترجمہ حیدراباد کے لیے جدید نفسیات و اخلاقیات کی ضخیم کتابیں اردو میں ترجمہ کیں ۔اور جامعہ عثمانیہ میں فلسفہ جدیدہ کے پروفیسر ہوسکے …پروفیسر مظفرالدین ندوی نے یہاں سے نکل کر ایم اے تک تعلیم حاصل کی اور اس وقت سے انگریزی میں علمی اور مذہبی مضامین لکھ رہیں اور بعض تصنیفات انگریزی میں لکھ کر شائع کیے اور نٹشے کے فلسفہ پر ایک کتاب لکھی ۔(حیات شبلی ص:۳۳۵)

یہ تجربات ابتدائی چند برسوں کی کوششوں کا نتیجہ تھے۔ اگر یہ سلسلہ باقاعدہ جاری رہتاتو آج مدارس کی صورت حال بالکل مختلف ہوتی ۔عین ممکن تھا کہ اس کے اثرات سے پوری علمی دنیا فائدہ اٹھاتی ۔ہم اکثر اپنے بارے میں غیروں کی سازشوں کا ذکر کرتے ہیں اور رونا روتے ہیں مگر نہیں معلوم یہاں کون سی سازش کارفرما تھی ۔ایک مدت تک ہم انگریزی زبان کے بارے میں فیصلہ ہی نہیں کرسکے حالانکہ شبلی نے ایک دنیا دیکھی تھی اور غالباً اسی کا نتیجہ تھا کہ انھوں نے نصاب تعلیم خصوصاًانگریزی زبان کے بارے میں اس وقت جو فیصلہ کیا تھا اس کے خوشگوار اثرات سامنے آئے ۔اب تو انگریزی زبان نہ صرف ناگزیر بن چکی ہے ۔بلکہ چپراسی کی معمولی نوکری کے لیے بھی انگریزی کی لیاقت ضروری ہے ۔

 ہندی اور سنسکرت کی تعلیم کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی رہا ۔شبلی تو یہ چاہتے تھے کہ ہمارے طلبہ ان زبانوں کو سیکھ کر آریوں کامقابلہ کریں اور جگہ جگہ جس طرح اسلام پر بے جا اعتراضات کیے جارہے ہیں ان کا جواب دیں ۔ندوۃ العلما میں اس کے لیے باقاعدہ ایک پنڈت کو مقرر کیا گیا اور چند طالب علموں کو ہندی اور سنسکرت کی تعلیم دلائی ۔یہ کوشش بھی کامیاب نہ ہوسکی۔ کیونکہ علامہ شبلی کے بعد یہ شعبہ بھی ٹوٹ گیا ۔ہندی اور سنکرت کی چند برسوں کی تعلیم کے نتائج کا کچھ اندازہ مولانا آزاد کی ایک تحریر سے کیا جاسکتا ہے ۔

۱۹۱۰ء میں ندوہ کا سالانہ اجلاس دہلی میں منعقد ہوا تھا ،اس میں مولانا آزاد شریک تھے انھوں نے جوکچھ وہاں دیکھا اپنے اسلوب خاص میں اسے تحریر فرمادیا۔اسے ندوہ کی ابتدائی کامیابیوں کا دستاویزی ثبوت بھی کہا جاسکتا ہے ۔اس اجلاس میں ندوہ کے طلبہ بھی شریک تھے ۔دوروزہ اجلاس کے دوسرے روزجب شبلی نے اپنی رپورٹ پیش کرنے کے بعد کہا کہ’’ اجلاس جس طرح چاہے طلبا کی ادبی قابلیت کا امتحان لے سکتا ہے ‘‘ ۔اس موقع پر طلبہ نے عربی، انگریزی اور بھاکا میں تقریر کی اور عربی تحریر بھی پیش کی ۔رپورٹ کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ طلبہ کی کوششوں کو نہ صرف سراہا گیا، بلکہ جلسۂ گاہ آفرین و تحسین کی صداؤں سے گونج اٹھا۔ہندی کے طالب علم سید امداد حسین نے جب ہندی میں تقریر ختم کی تو دیگر عمائدین کے ساتھ شبلی بھی خوشی اور مسرت کے جذبے سے سرشار ہوکر اپنی عبا اس طالب علم پر ڈال دی ۔ مولانا آزاد لکھتے ہیں :

سید امداد حسین نے اول اردو آمیز بھاکا میں تقریرکی، جس طرح آج کل آریا سماج کے مشنری عموماً اردو میں وعظ کہتے ہیں ۔لیکن لوگوں نے خواہش کی کہ وہ خالص بھاکا زبان کی تقریر کا نمونہ دیکھنا چاہتے ہیں ۔چنانچہ اسلام کے عقائد و تعلیم پر اس نے نری بھاکا میں تقریر شروع کردی اس جوش مسرت و انبساط ،حیرت وتعجب اور متصل نعرہ ہائے تحسین کی کسی طرح لفظوں میں تصویر نہیں کھینچی جاسکتی ،جس سے اس وقت تمام جلسہ معمور تھا ۔اس کی روانی وفصاحت ،بیساختگی اور بے تکلفی پھر مذہبی اصطلاحات کا بہ کثرت صحیح استعمال اور سب سے زیادہ لب ولہجے اور مخارج و تلفظ کی ہر جگہ صحت ۔وہ جب تقریر کرکے بیٹھ گیا تو جلسے کے وسط سے ایک صاحب نے کھڑے ہوکر کہاکہ بعض لوگ اس طالب علم کی زبانی قرآن مجید کا ایک آدھ رکوع بھی سننا چاہتے ہیں ۔

…سید امداد حسین نے سورہ رحمن کا پہلا رکوع اپنے موثر اور جگر دوز لہجے میں تلاوت کررہا تھا اور میں یہ سوچ رہا تھا کہ یہ آواز کہا ں سے آرہی ۔کیا یہ صاعقہ عصر آواز جو ہمارے دلوں کو دونیم اور آنکھوں کو دجلہ ریز کررہی ہے ،وہی صداے جاں نواز ہے جو کبھی ریگستان عرب کے ٹیلوں اور تودہ ہائے ریگ پر بجلی بن کر چمکی ،کبھی غار حرا کی تاریکی میں تجلی حق بن کر نوافشاں ہوئی ،کبھی فاراں کے قلعہ ہائے بلند پر ابر رحمت بن کر برسی کبھی مشرق و مغرب کے ظلمت کدے پر آفتاب بن کر طلوع ہوئی اور اب ایک لٹے ہوئے کارواں اور برباد شدہ قافلے کے لیے رہنمائی کاسہارا اور امید کی روشنی ہے ۔(مضامین الندوہ ص:۲۸۶۔۲۸۵)

مولانا آزاد کی ان تحریروں سے اندازہ کیا جاسکتاہے کہ علامہ شبلی کی چند سالہ کوششوں سے وہاں کیا نتائج برآمد ہورہے تھے۔اور وہ کن خطوط پر نئی نسل کو تیار کرنا چاہتے تھے ۔معاملہ صرف انگریزی ، سنسکرت اور ہندی زبان کانہیں تھا بلکہ طلبا نے عربی زبان میں بھی تقریر و تحریرکا مظاہرہ کرکے لوگوں کو حیرت میں ڈال دیا تھا ۔اس اجلاس میں شیخ عبدالحق بغداد ازہری جو کہ علی گڑھ میں اسسٹنٹ پروفیسر تھے۔ ندوہ کے طلبا کی عربی تقریرو تحریر کے مظاہرہ کو دیکھ کر کہا تھا کہ :

طلباکی عربی تحریرو تقریر نے جاہلیت عرب کے سوق عکاظ کا سماں پیدا کردیا تھا جس کو میں کبھی فراموش نہیں کرسکتا ۔ (مضامین الندوہ ص:۲۸۷)

یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ندوہ کے اس نئے نصاب نے طلبا کی ہمہ جہت تعلیمی ترقی کے مواقع فراہم کیے تھے ۔ شبلی کی یہ کوششیں باورکراتی ہیں کہ وہ واقعتا ایک علمی مملکت آباد کرنے کے شدید آرزو مند تھے ۔مدارس کے نصاب کے تئیں جو بھی انقلاب آفریں قدم اٹھایا جائے گا اس میں شبلی کے ان اقدامات کی بازگشت ضرور ہوگی ۔ان عصری مضامین کے ساتھ ساتھ انھوں نے سائنس کی ایک ابتدائی کتاب ’’الدروس الاولیۃ فی الفلسفۃ الطبیعۃ ‘‘شامل نصاب کی تھی۔یہ کتاب الن جیکسن کی عربی تصنیف ہے جو کہ ایک عیسائی اسکالر تھا ۔۱۸۹۲میں اس کتاب کا دوسرا ایڈیشن بیروت سے شائع ہوا ۔یہی ایڈیشن عام طور پر ہندستان میں دستیاب ہے ۔یہ کتاب بھی شبلی کی تلاش ہے ۔ندوہ میں اس کتاب کو پڑھانے کے لیے مولانا حمید الدین فراہی کو شبلی نے منتخب کیا تھا مگر انھوں نے خاطر خواہ وقت نہیں دیا جس سے شبلی ناراض بھی ہوگئے تھے ۔یہ ساری تفصیل مولانا فراہی کے نام شبلی کے خطوط میں دیکھی جاسکتی ہے ۔بعد میں اسے مرزا ہادی رسوا نے پڑھایا مگر یہ سلسلہ بھی تادیر قائم نہیں رہ سکا ۔کتاب کے ابواب پر نظر ڈالی جائے توواضح ہوجاتا ہے کہ سائنس کے ابتدائی دنوں میں جس کتاب کا انتخاب شبلی نے کیا تھا اگر اس کو بتدریج جاری رکھا گیا ہوتا تو آج یہ دوئی نہ ہوتی ۔یہ کتاب دس ابواب پر مشتمل ہے ۔کتاب کی سب سے اہم خوبی یہ ہے کہ اس میں اس زمانے کے مروج سائنسی موضوعات اور ایجادات کا احاطہ کیا گیا ہے۔

کتاب میں فن آلات سازی سے لے کر برقی توانائی تک کے مباحث ہیں۔حرکت ،میکانیات ،ماء جاریہ اور ساکن ،سمعیات،بصریات اور حرارت کے ابواب قائم کیے گئے ہیں نیز ان ابواب کے تحت ان موضوعات کی دیگر جزئیات کا ذیلی عناوین کے تحت احاطہ کیا گیا ہے ۔سائنس کی یہ ابتدائی کتاب ہر لحاظ سے طلبہ کے لیے مفید اور اہم ثابت ہوئی ۔شبلی نے ہندستان کے علاوہ دیگر ملکوں کے کالجز ،مدارس اور یونی ورسٹیزکو نہ صرف دیکھا تھا۔بلکہ وہاں کے نصابات پر ان کی گہری نگاہ تھی ۔روم و مصر اور شام کے سفر کے دوران انھوں نے بعض فوجی اور سائنسی کالجز کا بھی معائنہ کیا تھا ۔اپنے سفرنامے میں انھوں نے’’ مکتب حربیہ ‘‘کے تحت لکھا تھا کہ:

اس کالج میں حربی علوم کے علاوہ طبیعات ،کیمیاریاضی اور بالخصوص طب کے تمام شعبوں کی تعلیم اس حد تک ہوتی ہے کہ ہم اس کو اصطلاحی تعلیم کے دائرہ سے باہر نہیں کہہ سکتے ۔(سفرنامہ روم و مصر و شام ص:۵۳)

تعلیم اور نصاب تعلیم سے متعلق شبلی وسیع تجربہ اور معلومات رکھتے تھے ۔کتابوں سے ان کا عشق غیر معمولی تھا ۔نادرونایاب کتابوں سے ان کی باخبری قابل رشک ہے۔ ہندستان میں جب انھیں ایک درسگاہ کی تعمیر و ترقی کا موقع ملا تو انھوں نے ان تجربات کا خاطر خواہ فائدہ اٹھانے کی سعی کی ۔ندوہ کو وہ اپنے تمام تجربوں اور امنگوں کے حاصل کے طور پر بنانا چاہتے تھے اور اسی لیے وہ ہر طرف سے یکسو ہوکر یہاں آئے تھے۔ایک مختصر عرصہ میں انھوں نے یہاں جو کچھ کیا وہ علم و ادب کا ایک سنہرا باب ہے ۔تحریک ندوۃ العلماء سے ہی الندوہ کابھی ظہور ہوا تھا ،جس نے علمی دنیا کوصرف افکار و خیالات اور نئے علوم ہی نہیں دیے، بلکہ مولاناابو الکلام آزاد،سید سلیمان ندوی اور مولانا عبدالسلام ندوی جیسے لوگوں کو متعارف بھی کرایا، جو بعد کے دنوں میں دانشوری اور علم و کمال کے مجموعہ کے طور پر دیکھے گئے ۔جامعہ ازہر کے نصاب،اساتذہ اور طلبہ پر جو سخت تنقید شبلی نے کی ہے اس کی کوئی مثال اس سے پہلے نہیں ملتی ۔ شبلی علمی کمالات کا مجموعہ تھے، ندوہ کی زندگی ان کمالات کا صرف ایک حصہ ہے ،اس سے پہلے علی گڑھ اور پھر عمر کے آخری زمانے میں شبلی اکیڈمی کا قیام شبلی کے علمی کمالا ت کاایک اور مظہر ہے ۔

کتابیات :

حیات شبلی مولانا سید سلیما ن ندوی شبلی اکیڈمی ،اعظم گڑھ ۲۰۰۸

سفرنامہ مصرو روم و شام ،شبلی نعمانی شبلی اکیڈمی ،اعظم گڑھ ۲۰۰۸

مضامین الندوہ ،مولانا ابولکلام آزاد ۔ڈاکٹر ابو سلمان شاہ جہاں پوری( ترتیب و تدوین )پورب اکادمی ،اسلام آبادی ،پاکستان ۲۰۰۷

مکاتیب شبلی حصہ اول ،دوم سید سلیمان ندوی (مرتب)شبلی اکیڈمی ،اعظم گڑھ ۔ ۲۰۱۰۔۱۹۷۱

Leave a Reply

1 Comment on "علامہ شبلی کے علمی کمالات تعلیم وتعلم کے تناظر میں"

Notify of
avatar
Sort by:   newest | oldest | most voted
trackback

[…] علامہ شبلی کے علمی کمالات تعلیم وتعلم کے تناظر میں          […]

wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.