مکتوب نگاری اور رسالہ نقوش کا کردار
ڈاکٹر بسمینہ سراج صدر شعبہ اُردو
شہید بینظیر بھٹو خواتین یونیورسٹی پشاور
فون نمبر03025407163
03339092162
Email – drbismina@gmail.com
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
In the 20th century, many literary journals shone on the horizone of Literature and faded away.The role and contribution of journals can not be denied in the spread of Urdu literature .These journals published letters along with Urdu prose and poetry.Naqoosh was a renowned journal which was published in 1948 .This journal served the literature in every field .It bridged the classic and contemporary traditions .It published 148 volumes in a span of more than 50 years.During this time the journal published 5 voliums of letters of renowned scholars from the subcontinent.
اُردو زبان میں ادبی رسائل انیسویں صدی عیسوی میں شائع ہونے شروع ہوگئے تھے اردو اخبارات کا دائرہ چونکہ خبروں تک محدود تھا اس لیے تخلیقی اور تنقیدی ادب کی اشاعت کے لیے ادبی رسائل کا اجرا ناگزیرتھا ۔بیسویں صدی عیسوی میں متعدد ادبی رسائل ادب کے اُفق پر بھر پورچمکے اور پھرآہستہ آہستہ ڈوب گئے ۔ادبی رسائل اپنے عہد کے تخلیقی سفر کی اہم ترین دستاویزات شمار ہوتے ہیں جہاں وہ ایک طرف اہل قلم کو اپنے آپ کو منوانے کا موقعہ دیتے ہیں وہاں ناقدین،مورخین اورمخققین کے ذوق کی تسکین کا کام بھی کرتے ہیں ، بلکہ ان رسائل کے ذریعے ایسے لکھنے والے بھی منظر عام پر آئے جن پر اُردو ادب بجا طور پر فخر کر سکتا ہے۔پرانے اور کہنہ مشق ادیبوں کے ساتھ ساتھ نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کی گئی۔
ایسے ہی لاجواب ،منفرد اور ادب دوست رسالوں میں ایک نام رسالہ نقوش لاہور کا ہے ۔ اس رسالے کا اجراء مارچ ۱۹۴۸ ء میں ہوا۔(۱)
اور’’ زندگی آمیز اور زندگی آموز ادب کا ترجمان‘‘ کے الفاظ اس کی پیشانی پر درج تھے۔ نقوش کو اپنی زندگی میں مختلف مدیر وں کی سرپرستی حاصل رہی اسی لحاظ سے اس کے ادوار کا تعین کیا جا سکتا ہے جو چار ادوار پر مشتمل ہے ۔
پہلا دور ۔ مارچ ۱۹۴۸ ء تا اپریل ۱۹۵۰ ء احمد ندیم قاسمی اور ہاجرہ مسرور کی زیر ادارت صرف ابتدائی دس شمارے شائع ہوئے ۔ دونوں ابتدائی مدیر ترقی پسند تحریک سے وابستہ تھے اس وابستگی کا اظہار نقوش کے ابتدائی شماروں کی تحریروں میں نظر آنے لگا اور اسے سیاسی سرگرمیوں کی پاداش میں چھ ماہ کی جبری پابندی کا سامنا بھی کرنا پڑا۔(۲)
دوسرا دور ۔ مئی ۱۹۵۰ ء تا مارچ ۱۹۵۱ ء سید وقار عظیم کے زیرادارت صرف آٹھ شمارے منظر عام پر آئے۔ سید صاحب نے رسالے کو سیاست سے نکال کر زندگی کے ساتھ اس کا تعلق جوڑ دیا۔ اس مختصر سے دور میں نقوش نے بڑے بڑے کام کیے ۔
’’ وقار عظیم صاحب نے اس مختصر سے دور میں نقوش کی کایا پلٹ دی ۔اب اس میں ایسے ادیبوں کو جگہ دی گئی جو جمالیاتی قدروں کی پاسبانی کرتے تھے اور ادب کی روایتوں کے امین تھے ۔ان کے عہد ادارت میں جو مقالات چھپے ان میں سے نیاز فتح پوری کا اندلس میں آثار علمیہ، نصیرالدین ہاشمی کا قدیم اُردو کی رزمیہ مثنویاں ،ممتاز شیریں کا اُردو ناول ،صوفی تبسم کا اُردو شاعری کی طرف پیش قدمی ہیں۔ ۱۹۵۱ میں ایک ناولٹ نمبر بھی پیش کیا جس میں انتظار حسین کا ناولٹ ا ﷲ کے نام پر ،اے حمید کا جہاں برف گرتی ہے ،اشفاق احمد کا مہمان بہار ،شوکت تھانوی کا سسرال،اور سعادت حسن منٹو کا کٹاری شایع ہوئے ‘‘ (۳)
تیسرا دور ۔ اپریل ۱۹۵۱ ء تا ستمبر ۱۹۸۶ ء رسالے کے مالک محمد طفیل نے خود ادارت کی یہ دور طویل ترین اور اہم ترین دور ہے۔ طفیل طلوع کے عنوان سے اداریہ لکھتے تھے ۔ اداریہ نویسی کرتے کرتے وہ خود ادیب بن گئے اور خاکہ نگاری کے میدان میں نو مجموعوں کا انبار لگا دیا جو جناب،صاحب،آپ،محترم،مکرم،معظم،مخدومی،محبی اور محو قلم کا بیاں کے نام سے چھپ کر قارئین سے داد تحسین وصول کر چکے ہیں۔
محمد طفیل نے نامساعد حالات میں نقوش کی ادارت مجبورً اختیار کی بقول محمد طفیل۔ ’’جب نقوش ہمکنے اور ٹوں ٹاں کرنے لگا تو اس کی پرورش میرے سپرد ہوئی۔۔۔بیماری سمیت اس وقت اس کی عمر اڑھائی برس ہوگی ۔یہ بہت بڑی ذمہ د اری تھی،میری راتوں کی نینداچٹ گئی،میں سوچتا تھا اتنا خوب صورت اور ہونہار بچہ۔۔۔اگر میری نگرانی میں پنپ نہ سکا تو کتنی جگ ہنسائی ہوگی،میں تو لاجوں مرتا رہامرے مالی حالات زیادہ اچھے نہ تھے مگر میں چاہتا تھا اسے ولایت تک بھیجوں،حوصلے اتنے۔۔۔۔وسائل محدود‘‘ (۴)
چوتھا دور ۔ دسمبر ۱۹۸۶ء جاوید طفیل نے ادارت سنبھالی۔ نقوش کے ۱۴۸ شمارے شائع ہو چکے ہیں اس کی پوری فائل جی سی یو نیورسٹی میں دیکھی جا سکتی ہے۔
نقوش کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ مجلہ کسی ایک دبستان خیال سے وابستہ نہیں بلکہ ہر دبستان خیال کا ادیب و شاعر اس کے صفحات پر اظہار خیال کر سکتا ہے یہ درست ہے کہ نقوش کو کلاسیکی روایات عزیز ہیں لیکن یہ تجدید کا مخالف نہیں لہذا یہ کلاسیکی اورجدید روایات کے درمیان ایک پُل کا کام دیتا ہے کہنے کو نقوش ایک ماہنامہ ہے لیکن ادب کے مختلف موضوعات پر اس کے ضخیم خاص نمبر مستقل کتابوں کی خیثیت رکھتے ہیں ۔غزل نمبر،افسانہ نمبر،مکاتیب نمبر،شخصیات نمبر،طنزومزاح نمبر ،پطرس نمبر،شوکت تھانوی نمبر،منٹو نمبر،میر انیس نمبر،اقبال نمبر،آپ بیتی نمبر۔رسول نمبر ،لاہور نمبر وغیرہ ۔یہ تمام خاص نمبر علم و ادب کے ایسے انمول ذخیرے ہیں جن سے نہ صرف دور حاضر کے ادیب،نقاد اور طالب علم استفادہ کر سکتے ہیں بلکہ ان میں تاریخی اہمیت کے جو بیش قیمت معلومات یک جا کر دی گئی ہیں ان سے آنے والی نسلوں کے لکھنے والے اسکالر تذکرہ نگار اور مورخ بھی مسلسل فیض یاب ہوتے رہیں گے۔یقینا یہ اردو ادب کی ایک عظیم خدمت ہے اور اپنے ان تحقیقی کارناموں کی وجہ سے نقوش کا نام اردو ادب کی تایخ میں ہمیشہ زندہ و تابندہ رہے گا۔ ڈاکٹر عبد السلام خورشید نقوش کے خاص نمبروں کے بارے میں لکھتے ہیں ۔
’’ یہ نمبر اپنے اپنے موضوع پر انسائیکلو پیڈیا کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ان میں ضخامت کو محدود کرنے کی کوئی شعوری کوشش کی جاتی تو ان کی جامعیت میں فرق آجاتا ۔ضخامت اور مواد کے اعتبار سے یہ مستقل تصانیف اور تالیفات کا مقام حاصل کر چکے ہیں جو کام نقوش نے کر دکھایاہے وہ ایک معجزے سے کم نہیں کتاب ،انسائیکلو پیڈیا اور مجلے کو ایک جگہ سمو کر اور اُسے حسن بخش کر نقوش نے مجلاتی صحافت کو چار چاند لگا دیے ہیں ‘‘ (۵)
محمد طفیل نے متعدد سالنامے اور افسانہ نمبر چھاپنے کے بعد نومبر ۱۹۵۷ ء میں دو جلدوں میں مکاتیب نمبر شایع کیا ۔اس نمبر میں ۱۵۵ شخصیات کے ۱۵۵۲ مکاتیب شایع ہوئے ۔اس سے پہلے اتنی بڑی تعداد میں کسی نے خطوط شایع نہیں کیے تھے ۔ اس نمبر کے طلوع میں اپنی مشکلات کے بارے میں وہ لکھتے ہیں ۔’’ میں نے ان خطوط کے لیے کیا کچھ نہیں کیا ۔شہر شہر گھوما ،گھر گھر صدا دی ۔کسی نے میرے شوق کو سینے سے لگایا ۔کسی نے بات بھی نہ پوچھی ۔یوں امید وبیم کے دوراہے پہ چلتا چلتا نیم جان ہوگیا مگر جنو ن میں کمی واقع نہ ہوئی ‘‘(۶) اس نمبر کی ایک خاص بات یہ ہے کہ اس کے جلد اول میں خطوط نگاری اور اس فن کی اہمیت پر غلام رسول مہر، ڈاکٹر سید عبداﷲ ،مالک رام اور محمد عبداﷲ قریشی جیسے بڑے لکھنے والوں کے مضامین نے اس نمبر کو چار چاند لگا دیے ہیں ۔
۱۹۶۸ ء میں نقوش نے خطوط نمبر تین جلدوں میں شائع کیے جس میں ۲۲۵۳ شاعروں ،ادیبوں،افسانہ نگاروں ،نقادوں،مصورں،سیاسی لیڈروں اور مذہبی سکالروں کے خطوط شامل ہیں۔ خطوط کی اہمیت کے بارے میں طفیل نقوش کے طلوع میں لکھتے ہیں ۔’’خطوط صرف ادب و انشا ہی کے آئینہ دور نہیں ہوتے ،بلکہ اس سے علمی ،ادبی ،سماجی ، اور سیاسی تاریخیں بھی مرتب کی جا سکتی ہیں ۔میرا یہ دعوی غلط نہیں ہے اگر آپ نے خطوط کو اس نظر سے دیکھا ،تو آپ کو ان میں بڑا مواد ملے گا ۔اس اعتبار سے مجھے یہ چھوٹا سا دعوی کر لینے دیجئے کہ میری اس کا وش سے سو سالہ علمی، ادبی ،سماجی ،اور سیاسی تاریخ مرتب کی جا سکتی ہے یا مرتب کرنے میں مدد مل سکتی ہے ‘‘ (۷)
خط ادب کی دوسری تحریروں کی طرح کوئی فنی شے نہیں ہوتے لیکن جب ان کے لکھنے والا ایک ادیب یا شاعر ہو تو اس کے شاعرانہ اور ادیبانہ اسلوب کی وجہ سے ایک فنی چیز بن جاتے ہیں اور اُن کا ادب میں شمار ہونے لگتا ہے۔ خطوط میں بالعمو م بیان کی سادگی اور سیدھے سبھاؤ سے بات کہنے کا اسلوب پایا جاتا ہے اور مکتوب نگار شاعرانہ یا ادیبانہ گھماؤ پھراؤ کے انداز و اسلوب کے بجائے صاف طور پر لکھتا ہے ۔ایسے خطوط جو دوستوں اور عزیزوں کو لکھے جاتے ہیں ان میں خط نگار اپنے قلبی احساسات کے ساتھ ساتھ اپنے گرد و پیش کے احوال کھل کر لکھتا ہے یہی وہ خطوط ہوتے ہیں جو بعد میں آنے والوں کے لیے تاریخی اور ثقافتی معلومات کا خزینہ ثابت ہوتے ہیں نقوش کے مکاتیب نمبر اور خطوط نمبر میں ایسے متعدد خطوط ہیں جن میں مکتوب نگار وں نے اپنے عہد کے احوال و کوائف بیان کیے ہیں ایسے خطوط اُن زمانو ں کی تاریخی و معاشرتی معلومات کا بہت عمدہ ماخذ ہیں ۔ نقوش کے تمام خاص نمبر کے شمارے اہم اور نادر مواد پر مشتمل ہیں جواکٹھا نہ ہوتا تو اردو ا دب کا بڑا ضیاع ہوتا ان نمبروں کی ترتیب میں جس ریاضت سے کام لیا گیا ہے ۔ مجلاتی صحافت میں اس کی مثال نہیں ملتی اور اس کا ایک خوشگوار پہلو یہ ہے کہ محقیقین کا کام آسان ہو گیا کیوں کہ انھیں جتنا مآخذ یا مواد نقوش کے خصوصی نمبروں میں ایک جگہ اور اچھی اور مستند صورت میں مل جاتا ہے اتنا بیشمار کتابوں ،دستاویزوں اور فائلوں میں بھی دستیاب نہیں ہو سکتا۔ خط ملاقات کا ایک ذریعہ ہے اور یہ ملاقات کا ذریعہ ہی نہیں بلکہ اپنی مخصوص خصوصیات کی بنا پر اردو ادب کی ایک اہم صنف کی حیثیت رکھتا ہے اس لحاظ سے یہ ایک فن ہے۔ بقول محمد سعید
’’ دستاویزی تحقیق میں سب سے زیادہ اہمیت مکاتیب کی ہوتی ہے ۔یوں تو کسی بھی شخصیت کے گہرے اور تفصیلی ،شخصی و نفسی مطالعے کے لیے سب سے اہم ماخذ اس شخصیت کی خود نوشت ،اس کے مکاتیب اور بعض دیگر دستاویزات ہیں اور نفسیاتی واخلاقی تجزیوں ،نیز تحلیل نفسی کے لیے ان سے زیادہ معاون ومددگار اور قابل اعتبار مواد کوئی دوسرا نہیں ہو سکتا ۔لیکن ان سب میں مکاتیب کی اہمیت وافادیت کو سرفہرست رکھا جا سکتا ہے ‘‘ (۸)
نقوش کے خطوط نمبر و مکاتیب نمبر میں شامل خطوط میں لکھنے والوں نے کہیں تحقیقی گفتگو کی ہے تو کہیں تنقیدی مباحث سامنے آتے ہیں ۔متعدد خطوطط میں املا کے مسائل سامنے آتے ہیں ۔تو کہیں الفاظ کے استعمال اور ان کے مذکر و موئنث کی بحث پر استادانہ رائے کا اظہار سامنے آتا۔کتابوں کے چھپنے کا ذکر ہوتا ہے تو کہیں مقدمے لکھنے کی درخواست نظر آتی ہے ۔کہیں سیروسیاحت کے احوال مزے مزے سے سنائے جاتے ہیں اور کہیں اپنی معاشی تنگ دستی اور بیماری کا احوال پڑھنے کو ملتا ہے ۔شعرا اپنے شاگردوں کی شاعری پر اصلاح کرتے اور افسانہ نگار دوسروں کے افسانوں پر تنقید کرتے اور اپنی رائے کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں ۔اس سے ان شعرا و ادبا کی قابلیت ، ذہانت ،علم دوستی ،ادبی بصیرت ۔جذبہ خدمت ،تنقیدی و تخلیقی قوت کے اظہار ،اپنے اپنے نقطء نظر کی وظاحت اور اپنے موقف پر ڈٹ جانے اور دوسرں کی رائے سے اختلاف کی بیشمار مثالیں سامنے آتیں ہیں ۔نقوش خطوط نمبر میں سب سے زیادہ تعداد میں سرسید احمد خان کے خطوط شایع ہوئے ہیں ۔سرسید ایک خط میں اپنے قائم کردہ کالج جس کی کامیابی اور شہرت کی وجہ سے بہت سے انگریز افسر یہ چاہتے تھے کہ کالج کا انتظام اُن کے ہاتھ آئے ۔اپنے ایک خط میں اس وقت کے ڈائریکٹر پبلک انسٹرکشن کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
’’ہمارے تمام کاموں کے وہ برخلاف تھے۔سبب صرف یہ تھاکہ ان کی خواہش تھی کہ سین ٹیفک سوسائٹی اور مدرستہ العلوم ان کے قبضہ میں ہو۔اور ہم صرف ان کے ہاتھ میں بطور ایک آلہ کے ہوں۔ہم نے نہایت استقلال سے ان کو کسی بات میں دخل دینے نہیں دیا اور خود آپ اور اپنی رائے سے اور پنے مقاصد کے لحاظ سے کام کیااور میں اپنے دوستوں کو کئی دفعہ بطور وصیت کے کہہ چکا ہوں کہ میرے بعد مدرستہ العلوم کا جو کچھ حال ہو سو ہو مگر ایسانہ کرنا کہ قوم کے ہاتھ سے نکل کر اور لوگوں کے قبضہ میں چلا جائے‘‘۔ (۹ )
ایک اور خط میں سرسید گھر کے اندر مہمانوں کی رہائش اور آسائش کے لئے جو سہولتیں فراہم کی گئی ہیں ان کے بارے میں لکھتے ہیں۔
’ ’ میری کوٹھی ظاہراً خوش فضاہے ہمیشہ دو کمرے عمدہ معہ تما م ضروریات متعلقہ کے خالی رہتے ہیں سب چیز تمھارے آرام کی موجود ہے۔خانساماں جو ہوشیار آدمی ہے موجود ہے، گائے میرے ہاں موجود ہے ہر وقت تازہ دودھ موجود ہے، تازہ انڈہ موجو د رہتاہے۔خانساماں نہایت عمدہ سوپ جس قسم کا چاہو بناتاہے۔ وقتِ معین پر جیسی مرضی ہو کھانا تیارموجود ملے گا۔ دو وقتہ ہوا خوری کو گاڑی جوڑی موجود ہے کرایہ پر منگانے کی کچھ ضرورت نہیں ہے۔بعض میرے نہایت دلی دوست خصوصاً مولوی زین العابدین میرے مکان کے نہایت متصل رہتے ہیں۔ آپ ان سے مل کر نہایت خوش ہوں گے اور آپ کا دل خوش رہے گا۔مولوی محمدشبلی صاحب بھی اسی طرح قریب رہتے ہیں مدرسہ میرے مکان سے نہایت قریب ہے۔‘‘ ( ۱۰)
مشہور شاعرامیر مینائی کوچاقو رکھنے کا بہت شوق تھا اچھے چاقو دیکھتے توفوراً خریدتے۔ اپنے ایک شاگر د مختار شاہجہانپوری جو پاکستان ربوہ کے رہنے والے تھے۔ ان کو خط لکھتے ہوئے کہتے ہیں۔
’’ چاقو بڑے چھوٹے دونوں قسم کے مطلوب ہیں۔ چھوٹے ان چاقوؤں سے جن کی نوکیں تر شوانے کو دی تھیں کم نہوں اور بڑے اون سے سوائے ڈیوڑھے ہوں حتی الامکان خوش قطع بھی ہونا چاہے دستے بھی موزوں اور خو ش قطع ہو ں اور تاکید کر کے جلد بنو ائیے ــ۔ ‘‘ (۱۱)
اسی طر ح ایک اور خط میں چاقو ؤ ں کے بارے میں لکھتے ہیں ۔
’’ بالفصل چھ چا قوبنو ائے جائیں اگر پسند آ ئینگے تو اور چاقو بنو انے کی تکلیف دی جائے گی ــ ۔‘‘ (۱۲)
میراجی خود روپے پیسے کے معاملے میں قلاش تھے لیکن دوستوں عزیزوں کی مدد کے لئے ہر وقت تیار رہتے اور دوسروں کی مدد کرنے کا جذبہ پوری سچائی کے ساتھ ان کے اندر موجود تھا۔ یہاں ان کے خطوط سے چند مثالیں پیش کی جاتی ہیں۔ دہلی سے ایک طالب علم کے لئے اپنے دوستوں سے داخلہ فارم منگواتے ہوئے لکھتے ہیں۔
’’دس تاریخ آخری تاریخ ہے اس لئے جلد از جلد کسی نہ کسی طرح خود یونیورسٹی کے آفس میں جا کر اگر کوئی واقفیت نہ ہو تو جنرل پوسٹ آفس سے عظیم صاحب کو لو مطلب یہ کہ جلد فارم بھجواؤ۔‘‘ (۱۳)
اور ساتھ ہی یہ بھی تاکید کرتے ہیں کہ فارم طالب کو اس کے گھر کے پتہ پر بھجوا دیں۔
دہلی میں مشاعر ے میں شرکت کے لئے قیوم کو دعوت نامہ بھیجا گیا لیکن قیوم نے آنے سے انکار کر دیا۔ اس پر ان کو خط لکھ کر سمجھاتے ہیں ۔ اور کہتے ہیں میرا خیال تھا کہ دعوت نامے کے جواب میں آپ مجھ سے ملاقات کے بہانے ہی دہلی آجائیں گے خط میں لکھتے ہیں ۔
’’ اگرچہ ریڈیو والوں نے ان شاعروں کی بجائے جنہوں نے انکار کیا تھا دوسرے شاعر بک کر لئے ہیں مگر میں نے محمود سے کہا ہے کہ قیوم پہلے پیش کردہ کنٹریکٹ پر راضی ہے وہ انتظام کر دیے اگر ضرورت ہوئی تو میں اپنا نام واپس لے لوں گا تاکہ ایک شاعر کی جگہ نکل آئے ۔ تم آنے کے لئے تیار ہو۔‘‘ (۱۴)
اس سے زیادہ عظمت کیا ہوگی کہ ایک ایسا انسان جیسے خود پیسوں کی اشد ضرورت ہے وہ دوست کی خاطر مشاعرے سے اپنا نام کٹوا کر دوست کو شرکت کرنے کا موقعہ دیتا ہے یہی میراجی کی بڑائی ہے۔
جلیل حسن مانک پوری کو قواعد زبان، تذکیر وتانیث، فن عروض اور محاورات کے صحیح استعمال پر مکمل عبور حاصل تھا ۔ لفظ موٹر کی تذکیرو تانیث کے بارے میں لکھتے ہیں ۔
’’دکن میں علی العموم مونث بولتے ہیں اورہماری زبان پر بھی مونث ہی ہے اگر ہندوستان میں مذکر قرار پاگیا ہے تو براہ کرم اس سے مطلع کیجئے قرینہ تو مونث ہی کا ہے کیونکہ تمام گاڑیاں مونث بولی جاتی ہیں۔ حتیٰ کے ریل بھی۔ اور فٹن کو مذکر کہنا بھی ہماری زبان کے خلاف ہے۔ بہر کیف جمہور کا جواستعمال ہو اس سے آگاہ و مستفیض فرمائیے۔‘‘ ( ۱۵)
لفظ عرض اور نذر کرنا کے بارے میں بتاتے ہیں۔
’’ یہ لفظ مونث ہے جیسے ’’ میری عرض‘‘ لیکن عرض کرنا مذکر کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ نذر فی نفسہ مونث ہے۔
جیسے نذر گزار نی گئی۔ نذر قبول ہوئی اور نیاز کے معنی میں نذر مونث ہے۔ جیسے نذر مانی گئی لیکن پیش کرنے ا ور دینے کے معنی میں اس کا استعمال تذکیر کے ساتھ ہوتا ہے‘‘ (۱۶)
حفیظ جالندھری کی ساری زندگی مشکلات میں گزری جن میں مالی مشکلات کی وجہ سے اسے ذہنی نا آسودگی کا سامنا بھی کرنا پڑا ۔ اپنی مالی مشکلات کے بارے میں کہتے ہیں ۔
’’ ۱۹۲۱ میں اردو زبان میں ایک ماہانہ رسالہ اعجاز جاری کیا جس کے سرپرست مولانا گرامی تھے۔ یہ رسالہ پانچ ماہ بعد آخری مالی چرکا دیگر مر گیا اس وقت مایوسی سے حالت دیوانگی تک پہنچ گئی تھی کیونکہ میں نے ایک بہت بڑا مکان فروخت کر دیا تھا والد صاحب کو اطلاع بھی نہیں کی تھی۔ان کو معلوم ہوا تو گھر سے نکال دیا اسی وقت میں ایک بچی کا باپ تھا۔‘‘ (۱۷)
حفیظ اپنے بارے میں کہتے ہیں۔
’’ اب مجھے ادبی اور صحافتی زندگی کا تجربہ ہو چکا تھا اور یہ معلوم ہو گیا تھا کہ پانی کس رخ بہتا ہے اس میدان میں جو کچھ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا آپ بیتی اور جگ بیتی دونوں اس قدر تلخ ہیں کہ اگر بیان کردوں تو ایک آفت برپا ہو جائے۔‘‘ (۱۸)
مولانا عرشی رامپوری پنی بیماریوں کی کثرت کی وجہ سے کچھ عرصہ تک لکھنے لکھا نے کے کاموں سے دور رہے۔ اعصابی تھکن نے سخت پریشان کیا تھا شروع میں یونانی طریقۂ علاج اپنایا مگر افاقہ نہ ہوا تو انگریزی علاج شروع کیا لیکن بہتری کے آثار نظر نہیں آتے تھے تو مجبوراً مالک رام صاحب کو اپنی وصیت کے بارے میں خط میں لکھتے ہیں ۔
’’ ایک بات ازراہِ احتیاط کان میں ڈالے دیتا ہوں میرے عربی و فارسی و اردو مسودے میری عمر بھر کی کمائی ہیں اگر مجھے ان کی اشاعت کی مہلت نہ ملے تو آپ پنساری کے دوکان سے انھیں بچا لینے کی کوشش کرنا ۔ آپ کے علاوہ ان کا دھیان کسی کو بھی نہ ہوگا۔ یہ مسودے حسبِ ذیل کتابوں کے ہیں
(۱) تفسیرِ امام سفیان ثوری
(۲) شواید القرآن الطبری
(۳) حضرت عمر کے خطبات، خطوط اور حکیمانہ اقوال کا مجموعہ
(۴) مکاتیبِ غالب فارسی
(0) دیوانِ غالب اردو (تمام کلام قدیم و جدید)
(1)
(2) ( ۶) اردو زبان اور افغان ‘‘
یہ صرف احتیاطاًلکھ دیا ہے ورنہ اﷲ تعالی کی ذات سے امید یہی ہی کہ انھیں خود مکمل و مرتب کرنے کی مہلت ضرور پاوئں گا‘‘ (۱۹)
جگر مراد آبادی فطرتاً کاہل تھے۔ اور بیماری نے کاہلی کو معراج ترقی تک پہنچنے کا موقع دے دیا۔ اپنی اس عادت کے بارے میں ایک خط میں لکھتے ہیں۔
’’ فطرت کی ستم ظریفی یہ کہ جس حد تک ہنگاموں سے گھبراتا ہوں اور کاہلی کا پورا پورا حق ادا کرنا چاہتا ہوں اسی حدتک مصروف و منہمک بھی رکھا جاتا ہوں۔‘‘ (۲۰)
اسی طرح ایک اورخط میں اپنی کاہلی کے بارے میں لکھتے ہیں۔
’’ امراض وافکار نے مرتبہ کاہلی کو اتنا بلند کر دیا ہے کہ خواص تک کی نگاہیں شاید وہاں نہ پہنچ سکیں۔۔۔مزاجاً کاہل تو واقع ہو ا ہی ہوں لیکن ہنگامہ پسند بھی نہیں اس کے باوجود شدید طور پرمصروف ومنہمک زندگی بسر کرنے کے لئے مجبور’’ فطرتاً کاہل ،عادتاً مریض، ضر ورتاً مصروف۔‘‘ (۲۱)
خطوط میں جوش ملیح آبادی نے وقتاً فوقتاً اپنی تصنیفات کا ذکر کیا ہے کہیں کوئی نئی غزل لکھی ہے تو اس کے اشعار لکھے ہیں اور ایک خط میں ایک طویل نظم لکھنے کا ذکر کیا ہے کہتے ہیں ۔
’’ اس طرف میں نے ایک نہایت طویل نظم شروع کی تھی جس کے ایک ہزار شعر کہہ چکا ہوں لیکن ابھی دو تین ہزار شعر اور کہنا ہے اپنے مرنے کا صرف اس لحاظ سے مجھے غم ہے کہ یہ آخری نظم نا تمام رہ جائے گی ۔‘‘ (۲۲)
جوش کے مرنے کے بعد ان کے بینک کے لاکر میں غیر مطبوعہ نظم تھی جس کے اشعار کی تعداد ایک ہزار تھی شوق لکھنوی مختلف الفاظ اور ان کی اضافت پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
’’پیمان ، ا حسان ،پیکان ،جان اور طوفان ان میں اور مثل ان کے بہت سے الفاظ میں اعلان نون جائز بلکہ اردو میں بہتر ہے لیکن اگر یہ الفاظ اضافت سے مضاف یا مضافالیہ ہوں تو البتہ اعلان کی ترکیب جو مہند ہے صحیح نہ ہو گی کیونکہ فارسی میں اعلان کا وجود نہیں ۔ اگر اضافت اول ہو جیسے پیمان وفا ،طوفان نوح وغیرہ تو یہ لازمی ہے کہ دوسرا لفظ فارسی یا عربی ہو اگر دوسرا لفظ ہندی ہو گا تو اضافت ناجائز ہو جائے گیاور اگر ہندی لفظ اوپر ہے تو اعلان نون ناجائز ہو جائے گا جیسے پانی طوفان یا چاہت جان یا اسی طرح ۔غرض ہندی اور فارسی میں ترکیب اضافی بہر صورت غلط ہے‘‘۔ (۲۳)
صفی لکھنوی کو قطعات تاریخ پر مہارت حاصل تھی۔ کس حرف کے عدد لینے ہیں اور کس حرف کے نہیں ۔اکثر اس بارے میں ان سے سوالات پوچھے جاتے تھے اس کے بارے میں ایک خط میں لکھتے ہیں۔
’’ تاریخ میں ہمیشہ مکتوبی حروف کے عدد لئے جاتے ہیں ملفوظی کے نہیں لیے جاتے۔ ہمزہ کوئی حرف نہیں بلکہ آواز الف متحرک کی علامت ہے کہ جب واو یای یاہائے مختفی پر واقع ہوتا ہے تو اس حرف میں الف متحرک کی آواز پیدا کر دیتا ہے۔ ہمزہ کی طرح مد( ٓ) اور الف خنجری (۱) بھی الف کی علامتیں ہیں حروف میں ان کا شمار نہیں ہے۔ مثلاً اب اور آب ان دونوں لفظوں کے تین ہی عدد شمار ہوں گے یعنی الف ممدودہ کا بھی وہی عدد لیا جائے گا جو محض الف کا دونوں میں کوئی فرق نہیں۔ اسی طرح عیسےٰ اور موسےٰ یا اسحٰق پر جوعلامت بطور الف خنجری بنا دی جاتی ہے اس کا شمار حروف میں نہیں عدد صرف اس حرف کے لئے جائیں گے جن پر یہ علامت واقع ہے۔‘‘ (۲۴)
اسی طرح ایک خط میں لفظ آئی اور آئے کے اعداد کے بارے میں لکھتے ہیں ۔
’’ آئی کے ۲۱ شمار ہوں گے اور آئے کے صرف گیارہ وجہ اس کی یہ ہے کہ آئی میں صرف دو(ی ) ہیں اور آئے میں صرف ایک رسم الخط میں بھی اسی لئے آئی میں ایک ی کا شوشہ اور دوسری (ی) کا دامن یعنی ئی لکھا جاتا ہے۔ آئی میں یائے معروف ہے اور یائے معروف جب کسی لفظ میں الف کے بعد آ ئے گی تو اسی طور سے آئے گی یعنی ( ئی ) کی شکل میں پہلی ی ہمزہ کی آواز دے گی لہذا آئی ، پائی، لائی ، خدائی ان تمام لفظوں کے آخر میں دو (ی) محسوب ہوں گی لیکن آئے کے آخر میں یائے مجہول ہے۔ اور وہ بغیر اشباع فاع کے وزن پر اور اشباع کے ساتھ فعلن کے وزن پر ملفوظ ہوگا بہر حال (ی) واحد ہی رہے گی۔
رسم الخط میں لجالت اشباع اس پر کوئی شوشہ نہیں لگایا جائے گا۔ اس لحاظ سے خواہ آپ یا مجہول پر ہمزہ لکھئیے یا نہ لکھئیے وہ ایک ہی (ے) ہے۔ اور اس کے صرف دس عدد لئے جائیں گے۔ آئے، جائے ، کھائے سب کے آخر میں یائے مجہول واحد ہے مثلاً (یائے صرالنگ نیست) اس میں یائے مجہول بغیر اشباع ہے اور (بجائے بزرگاں بنا ید نشت) اس میں یائے مجہول شباع کے ساتھ ہے لیکن رسم الخط میں اور تاریخ میں واحد (ی) مانی جائے گی کیونکہ یا کسرے کا اشباع ملفوظی ہوتا ہے۔ مکتوبی نہیں ہوتا ۔‘‘ (۲۵)
خطوط میں صرف علمی و اد بی باتیں نہیں ہوتیں بلکہ بعض اوقات دلچسپ واقعات بھی پڑھنے کو ملتے ہیں ۔صفی لکھنوی کے بیٹے ’’برق‘‘ نے لکھنو یونیورسٹی میں ایل ایل بی میں داخلہ لیا تھا۔ لکھنو یونیورسٹی دریا پار پکے پل سے جانا ہوتا تھا۔ بندروں نے ان کو زخمی کرکے عینک چھین لی۔ اس واقع کے بارے میں اپنے خط میں لکھتے ہیں۔
’’ لکھنو یونیورسٹی دریا پار پکے پل سے جانا ہوتا ہے۔ زینے سے چڑھ کر قریب کا رستہ ہے اور سڑک سے ذرا چکر پڑتا ہے۔ اور حاضری سات بجے کی ہے۔ لہذا نزدیک کے راستے سے وہ اکثر نکل جاتے تھے۔ زمینوں کے قریب ایک پختہ گھاٹ ہے جہاں روزانہ ہندو نہایا کرتے ہیں اور وہیں بہت سے بندر چھوٹے بڑے رہا کرتے ہیں جنھیں نہانے والے چنے، گڑ دھانی دیا کرتے ہیں۔ ان بندروں میں ایک بہت عظیم الجثہ ان کا سرغنہ ہے۔ وہ اکثر راہ گیروں سے چھین جھپٹ بھی کر لیا کرتا ہے۔برق جب زینہ طے کرکے سڑک پر پہونچے عینک لگائے ہوئے تھے۔ سڑک پر بہت سے چھوٹے بڑے بند ر جمع تھے ان میں سے اسی سرغنہ بند ر نے عینک لینے کی غرض سے ان پرحملہ کیا اور پشت پر سوار ہو گیا۔ اس وقت چندد ہاتی لٹھ بند سڑک پر آرہے تھے انہوں نے دوڑ کر ہنکایا۔ عینک تک اس کا ہاتھ پہنچنے نہیں پایا لیکن پشت پر شیروانی اس کے پنجے سے چاک ہو گئی اور ناخنوں کی خراش پیٹھ کی جلد پر بھی آگئی۔ عینک بچ گئی کئی روز کے بعد جب عینک لگائے جا رہے تھے اس نے پھر حملہ کر دیا اور پیٹھ پر لد کر عینک پر ہاتھ مار اور چھین لے گیا ۔ بائیں آنکھ کے کوئے کے قریب اس کے ناخن کی خراش بھی آگئی آنکھ بچ گئی عینک ان سے چھین کر خود لگاکے بیٹھا اور جب کچھ دکھائی نہ دیا تو اس کے شیشوں کو زمین پر پٹک کر توڑ ڈالا اور فریم کو ہا تھ سے نوچ نوچ کر دریا میں پھینک دیا۔ ایک اور راہگیر اسی وقت ہاتھ میں رسٹ واچ لگائے آرہے تھے ان پر حملہ آور ہوا، اور ان کی گھڑی چھین کر توڑ ڈالی۔‘‘ (۲۶)
صفی لکھنوی علم موسیقی پر دسترس رکھتے تھے اپنے خط میں اس کے بارے میں مزید لکھتے ہیں ۔
’’بقول ہنودان کے دیوتا نے پہلے چھ راگ یعنی کچھ قسم کی ذھنیں ایجاد کیں جن کے جانچنے سے پتہ چلتا ہے۔ کہ ہر ایک ان میں سے پانچ پانچ سروں سے مرکب ہے۔ مثلاً بھیروں جو راگ صبح کے وقت کاہے اس کے سر یہ ہیں۔ سار،ے،ما ، پا ، دھا، ان میں رے، ما، دھا تین اُترے ہوئے ہیں۔ مگر زمانے کے تغیر وتبدیل سے یہی راگ اب سات سْروں سے گایا جاتا ہے۔ یعنی اس طرح سا، رے ، گا، ما ،پا، دھا، نی گو یا گا اور نی کا اضافہ ہو گیا ہے۔ انہیں ساتوں سروں کی مختلف ترکیب سے چھ قسم کے راگ پیدا ہوتے ہیں جس طرح عمل عروض میں ارکان افاعیل کی تکرار وترکیب سے جو خاص اوزان پیدا ہوتے ہیں۔ ان میں ہر ایک کو بحر کہتے ہیں۔ لہذا یہ چھؤں راگ مختلف سْروں سے ترکیب پا کر بذریعہ الفاظ بے معنی برائے مشق جب الاپے جائیں ۔ اس وقت تک راگ ہیں اور اگر با معنی الفاظ میں یہی دھنیں منتقل کر دی جائیں۔ تو وہی گیت کہہ جاتے ہیں۔ اس لئے راگ اورگیت کے لئے گانے کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ نغمہ چونکہ محض ایک سر ہے۔ زبان اردو میں اس پر گانے کا اطلاق نہیں ہوتا محاورہ اردو میں نغمہ گانا یا سر گانا مستعمل نہیں اس لئے نغمہ گانا قطعاً غلط ہے۔‘‘ (۲۷)
مرزا یگانہ ہندوستان سے پاکستان آتے ہیں اور پاکستان میں ان کو جیل کی ہوا کھانی پڑ جاتی ہے۔ یگانہ اپنے بیٹوں سے ملنے کے لئے عارضی پر مٹ پر کراچی آئے ۔ اور وہاں سے پھر لاہور گئے پرمٹ کی میعاد ختم ہو چکی تھی اور کراچی کے علاوہ کسی دوسرے شہر جانے کی اجازت بھی نہ تھی۔ اس لئے ان کو جیل ہو گئی بعدمیں چند ہندو افسروں کی بھاگ دوڑ کے بعد واپس کراچی سے دہلی بھجوایا گیا اپنے خط میں تفصیلی ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
’’ بات یہ ہے کہ عارضی پر مٹ لے کر چند دنوں کیلئے وہاں ( پاکستان) گیا تھا فقط اپنے لڑکوں کو دیکھنے کے لئے درمیان میں ایسے واقعات پیش آگئے کہ پرمٹ کی مدت گزر گئی ۔ اور اس طرح پاکستان سے واپس آنا بظاہر نا ممکن نظر آتا تھا۔ مگر خدا بھلا کرے د و شریف النفس ہندوؤں کا جنھوں نے نہایت محنت اور ہمدردی کے ساتھ مجھے پرمٹ دلا کر تین گھنٹے کے اندر کراچی سے دہلی پہنچا دیا اور وہاں سے پھر لکھنو آگیا۔ اب میں بڑی خوشی سے مرنے کو تیار ہوں ۔‘‘(۲۸)
یگانہ کو آخری عمر میں بہت سے صدمات اُٹھانے پڑے ،اہل محلہ نے محلہ سے نکال دیا اور بیوی نے گھر سے ، گھر چھوڑ کر ایک چھونپڑی میں رہنے لگے اس بارے میں اپنے بڑے بیٹے آغا جان کو لکھتے ہیں ۔
’’ تمہاری اماں نے مجھے اتنا عاجز کیا کہ میں تنگ ہو کر پروفیسر مسعود حسن خان صاحب کے باغ میں اک حجرے میں ( آگے چھپڑ ڈال کر) جاکر ٹھہر گیا۔ اور ۱۵ جون کو میں مسعود صاحب کے ہاں چلا گیا آخر جولائی سے بارش کی شدت ہونے لگی اور یہاں طبیعت کا یہ حال کہ دو قدم چل نہیں سکتا ۔پیٹ میں سانس نہیں سماتی گھڑی گھڑی نڈھال ہو کر پلنگ پر کروٹیں بدلتا رہتا ہوں ۔ ایک بڈھا نوکر مل گیا جو خبر گیری کرتا تھا مگر جب وہ کھانے پینے کے لئے باہر چلا جاتا تھا تو پھر میں اکیلا رہ جاتا ۔ پھر خدا یاد آجاتا آس پاس کوئی نہیں ۔ جب حالت زیادہ خراب ہو گئی تو پھر میں یہی پہلے مکان میں واپس آگیا۔ تمہاری اماں میری اس چند روزہ زندگی سے اتنی بیزار ہیں کہ میرا ساتھ رہنا انھیں گوارا ہی نہیں۔ تم یہاں کیوں آئے میرے ٹھکانے پر کیوں آئے۔ جب جانتے تھے کہ میں یہاں رہتی تو کیوں آئے ۔ ۔۔۔۔ دوبارہ مجھے اکیلا چھوڑ کر چلی آئیں۔ خیر اب شہر میں سجاد حسین کی بیوی کراچی جانے لگیں تو تمہاری اماں بھی اُٹھ کھڑی ہوئیں اور ہمیشہ کے لئے مجھے تنہا چھوڑ گئیں ۔ اس سن میں ایسے مریض کو اس طرح مارنا چاہا کہ پانی دینے والا بھی نہ ہو ۔ بار بار فرماتی تھیں کہ اب مزہ مل جائے گا تنہائی کا، نہایت کرب وایذا میں ہوں۔ ‘‘ (۲۹)
نقوش کے خطوط نمبر میں مشہور شاعر شاد عارفی اپنی ابتدائی تعلیم ملازمت اور شادی کے بارے میں معلومات دیتے ہوئے لکھتے ہیں۔
’’ میں نے عربی تعلیم صرف ونحو کلام پاک والد سے گھر پر پڑھا۔ فارسی اور اردو کی تعلیم حکیم غلام حیدر عرف عمی میاں صاحب سے حاصل کی اور پھر والد ساحب کی مرضی کے خلاف اپنے ماموں کے ذریعہ انگریزی اسکول میں داخلہ لے لیا۔‘‘ (۳۰)
شادنویں جماعت جیسے ہی پاس کرکے دسویں میں پہنچے تو ان کے والد کا انتقال ہو گیا اور ان کو تعلیم ادھوی چھوڑ کر گھر کا بوجھ سنبھالنا پڑا۔ اور مختلف ملازمتیں کرکے زندگی کی گاڑی چلائی اپنی ملازمتوں کے بارے میں لکھتے ہیں۔
’’ کارخانوں میں ملازمتیں کرتا رہا۔ دو سال فیکٹری میں اکاؤٹنٹ رہا۔ پھر میز پر وڈکٹس میں سپر وائزر رہا۔ پھر ایی او ڈی میں لیجر چیکر ہوا۔ متعدد ملاز متیں کیں اور چھوڑ دیں۔ آخر میں ریاست ختم ہونے سے پانچ سال پہلے رامپورمیں پبلک انفارمیشن آفیسرنے بطو ر خود مجھے بلاکر بڑے اخلاق سے گفتگو کی اور کہا کہ ہم ایک نیم سرکاری پرچہ نکال رہے ہیں تم اس کی ایڈیٹر ی کر لو۔ چنانچہ میں نے وہ ایڈیٹر ی ا ن کے اخلاق سے متاثر ہو کر منظور کر لی۔‘‘ (۳۱)
شاد عارفی نے تقریباً چالیس سال کی عمر میں شادی کی ۔ شاد سے بڑ ے دو بھائی تھے دونوں بھائی شادی کرکے الگ ہو گئے جبکہ ان کی والدہ کے ضعف بصا رت اور بڑھاپے کی وجہ سے مجبورً اشاد کو شادی کرنی پڑے اس سلسلے میں ایک دلچسپ قصہ بیان کیا ہے۔
’’ والدہ صاحبہ نے جن کی عمر ۸۰ سال تھی ۔ ایک روز بھنڈیاں پکائیں بھنڈیاں بنانے کے بعد چاقو بند کرکے چنگیر میں رکھ دیا۔ اورپکاتے وقت نہ تو انھیں یاد رہا اور نہ سوجھا ۔ چنانچہ چاقو بھی بھنڈیوں کے ساتھ پک گیا۔ میں عموماً ٹیوشن کرنے کے بعد ۱۰ بجے رات کو گھر پلٹتا تھا۔ خود ہی کھانا نکا لتا اور خود ہی کھاتا۔ بھنڈیاں جب نکالیں تو چاقو نے رکابی میں گر کر کھٹکا دیا۔ میں نے چونک کر دیکھا کہ یہ کس قسم کی بھنڈی ہوسکتی ہے۔ لالٹین کی بتی اونچی کی تو پتہ چلا کہ چاقو بھی بھنگرا گیا تھا۔ ۔۔۔۔ میں نے سوچا کہ والدہ کی خدمت کے لئے کوئی نہ کو ئی ضروری ہے نوکرانی کو نہ تو محبت ہو گی اور نہ ضرورت کہ میرے پیچھے ان کی حسب منشا کام کرئے۔‘‘ (۳۲)
شاد کو بچپن میں ایک لڑکی سے محبت ہو گئی ان کی یہ محبت گیارہ سال تک رہی پھر اس لڑکی کی شادی ہو گئی۔ ادھر شاد کی حالت دیوانوں کی سی ہو گئی ۔ شادنے اپنے استاد سے جو حکیم بھی تھے اپنی حالت بیان کی انھوں نے پتنگ بازی شروع کرنے کا مشورہ دیا کہ اس میں اپنے آپ کو کھو دو۔ شاد نے پتنگ بازی شروع کر دی اس میں ان کا بڑا نام ہو گیا شاد اپنی پتنگ بازی کے بارے میں لکھتے ہیں۔
’’ میں نے ساڑھے پانچ برس تک اس بری طرح پتنگ بازی کی کہ شہر میں میراشہر ہ ہو گیا لوگ مجھے دیکھنے کو آنے لگے کہ کون سا ماسٹر ہے میں شہر میں ٹیوشنیں کرنے کی وجہ سے ماسٹر بھی مشہور تھا جو اتنا بہتر پتنگ لڑاتا ہے حکیم صاحب کا یہ علاج کا رگر پڑ ا‘‘ (۳۳)
یوں تو بے شمار خطوط آج تک لکھے گئے اور آج بھی لکھے جا رہے ہیں مگر کچھ افراد ایسے ہیں جن کے خطوط کو دنیائے ادب میں اہمیت حاصل ہے اور اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ ان کے خطوط اس صنف کے تمام فنی لوازم پورے کرتے ہیں۔خطوط کی افادیت کا اہم پہلو یہ بھی ہے کہ خطوط سوانح نگاری کے بہترین ماخذ ہوتے ہیں۔ ان میں خط نگار کی شخصیت ماحول، عہد ، تہذیب و معاشرت کے ساتھ اس کی سیرت و کردار ، ذہنی افتاد، رجحانات و میلانات ، محرومیاں وفتوحات دیکھی جا سکتی ہیں پھر چونکہ خطوط ایک طویل عمر تک لکھے جاتے ہیں اسی لیے ان میں متعلقہ شخصیت کے حالات و واقعات کے ساتھ بدلتے تاریخی ارتقا اور تغیرات و تبدلات کو بھی مانا جاتا ہے کسی شاعر یا ادیب کی شخصیت کے مطالعے اور اس کے شعرو فلسفے کے لیے ا س کے خطوط اہم اور بنیادی حیثیت رکھتے ہیں خطوط کی ادبی اور تاریخی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے کیونکہ خطوط میں جا بجا تاریخی واقعات کی طرف اشارے بھی ملتے ہیں جیسے غالب کے خطوط میں غدر کے واقعات کی طرف اشارہ ملتا ہے بلکہ غدر کے ہنگامے ہمارے ذہنوں میں غالب کے اردو خطوط کی وجہ سے زندہ ہیں جب خط میں کسی واقعے کی طرف اشارہ کی جاتا ہے تو اس کی تاریخی حیثیت و اہمیت مسلم ہو جاتی ہے۔ خطوط کے ذریعے سیاسی اور سماجی تاریخ بھی مرتب کی جا سکتی ہے ۔ مکاتیبی ادب کی جب تاریخ لکھی جائے گی تو یہ تاریخ رسالہ نقوش کا ذکر کیے بغیر نامکمل ہوگا۔اگر چہ آج رسالہ نقوش کو بند ہوئے عرصہ ہو چکا ہے لیکن اس کا نام آج بھی اپنے ادبی کارناموں ،خاص نمبروں اور معیاری مواد کی اشاعت کی بدولت زندہ ہے۔
حوالہ جات
۱۔ ڈاکٹر انور سدید ۔پاکستان میں ادبی رسائل کی تاریخ۔اکادمی ادبیات پاکستان اسلام آباد ۔۱۹۹۲ ص۱۳۸
۲۔ایضاً ۔ص ۱۳۸
۳۔ایضاً ۔ص ۱۳۹
۴۔ایضاً ۔ص ۱۳۹
۵ ۔ ڈاکٹر عبد السلام خورشید ۔ مجلاتی صحافت میں نقوش کا مقام مشمولہ نقوش افسانہ نمبر ،شمارہ ۱۱۰ ۔ ادارہ فروغ اردو ، لاہور۱۹۶۸۔ص۱۸
۶۔محمد طفیل ۔ طلوع نقوش مکاتیب نمبر ۔ دارہ فروغ اردو ، لاہور۱۹۵۷۔
۷۔ایضاً
۸۔محمد سعید۔ کچھ ان مکاتیب کے بارے میں مشمولہ تحقیق نامہ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور ۲۰۰۵۔۲۰۰۶ ۔ص۲۷
۹۔ ۔محمد طفیل ۔ نقوش خطوط نمبر جلد اول ۔ دارہ فروغ اردو ، لاہور۱۹۶۸۔ص ۱۰۵
۱۰۔ ایضاً ۔ص ۱۳۱
۱۱۔۔ ا یضاً ۔ص ۳۳۶
۱۲۔ ایضاً ۔ص ۳۳۷
۱۳۔ ایضاً ۔ص ۵۵۰
۱۴۔ ایضاً ۔ص ۵۵۰
۱۵۔۔ ایضاً ۔ص ۳۴۷
۱۶۔۔ ایضاً ۔ص ۳۶۰
۱۷۔۔ ایضاً ۔ص ۳۵۱
۱۸۔۔ ایضاً ۔ص ۳۶۱
۱۹۔ محمد طفیل ۔ نقوش خطوط نمبر جلد سوم ۔ دارہ فروغ اردو ، لاہور۱۹۶۸۔ ص ۱۶۳
۲۰۔ نقوش جلد اول ص ۴۰۶
۲۱۔ایضاً ص ۴۰۷
۲۲۔ایضاً ۔ جلد سوم۔ ص ۳۳۸
۲۳۔ایضاً ۔ جلددوم۔ ص۲۵۲
۲۴۔ایضاً ۔ جلددوم۔ ص۳۸۰
۲۵۔ ا یضاً ۔ جلددوم۔ ص ۳۸۴
۲۶۔ ایضاً ص۳۸۷
۲۷۔ ایضاً ص۳۹۱
۲۸۔ نقوش خطوط نمبر جلد سوم۔ ص ۴۴۹
۲۹۔ایضاً ص۲۵۵
۳۰۔ نقوش خطوط نمبر جلد دوم۔ ص ۵۲۹
۳۱۔ ایضاً ۔ص ۵۲۹
۳۲۔ ایضاً۔ ص ۵۴۱
۳۳۔ ایضاً ص ۵۴۱
..0
Leave a Reply
2 Comments on "مکتوب نگاری اور رسالہ نقوش کا کردار "
[…] مکتوب نگاری اور رسالہ نقوش کا کردار […]
[…] مکتوب نگاری اور رسالہ نقوش کا کردار […]