پرورش لوح و قلم

کتاب کا نام: پرورش لوح و قلم
(عزیز برنی،صحافتی،ملی اور سماجی کارکردگی کے آئنہ میں)
مصنف:مختار احمد فردینؔ ؔ
صفحات: 224 قیمت: 500
سال اشاعت:2014 مطبع:عائش افسیٹ پرنٹرس حیدر آباد
مبصر :ڈاکٹر محمد عبدالعزیز سہیل، maazeez.sohel@gmail.com
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اردو صحافت کا آغاز 1822ء میں جام جہا ں نما سے عمل میں آیا۔اخبار سے متعلق مولانا آزاد کا نظر یہ ہے کہ‘’اخبار دراصل ایک زندہ ہادی ہے جو ہرقسم کی باتوں میں ہدایت کرتاہے، بری باتوں سے تنفر دلاتاہے اور عمدہ باتوں کی طرف مائل کرتاہے۔( مخزن جلد۳ مئی 1902ء فن اخبار نویسی)
اخبار عوام میں شعور بیداری کا یک اہم ذریعہ بھی ہے اور ساتھ ہی سماجی تبدیلیوں کا آئنہ دار بھی ہے۔اردو صحافت کی تاریخ بتاتی ہے کہ صحافت کے سب سے پہلے شہیدصحافی اردو اخبار کے ہی ایک بے باک قائد مولو ی محمد باقر تھے۔اردو صحافت میں مولوی محمد باقر کے بعد بھی کئی اہم اور بے باک شخصیتیں گزری ہیں جن میں قابل ذکر سرسید احمد خاں،مولاناآزاد،مولانا ظفر علی خاں،مولانا حسر ت موہانی،مولانا محمد علی جوہروغیر جب انکا قلم چلتا تو ایک تحریک بپا ہوجاتی تھی۔ان کے لکھنے کا انداز بے باک بے خوف بے لاگ ہوا کرتا تھا۔انکی تحریروں کو لوگ پسند کرتے تھے۔دور حاضر میں بہت کم صحافی ہیں جس کو دنیا پسند کرتی ہو۔دور حاضر میں اپنے اسلاف کی روایات کو زندہ رکھنے والے ایک بے باک صحافی کواردو دنیا عزیز برنی کے نام سے جانتی ہے۔ راشٹریہ سہارا اردو ااخبار میں اپنی بے باک تحریروں سے مشہور اور معتوب ہونے والے اور بعد میں خود کا اخبار عزیز ہند جاری کرنے والے جیالے اردو صحافی عزیز برنی کی صحافتی،ملی اور سماجی خدمات پر ایک تازہ تصنیف کو اردو حلقوں میں سماجی جہد کار مختار احمد فردین نے پیش کیا ہے۔
مختار احمد فردین پیشہ سے ایک بینک ملازم ہیں ۔ساتھ ہی اردو ماس کمیونکیشن سوسائٹی کے روح رواں ہیں ۔انکی پہچان اردو حلقوں میں ایک سماجی جہد کار اور اردو کے مجاہد کی ہے۔ مختار احمد فردین نے حالیہ دنوں اردو میں ڈاکڑیٹ کی تکمیل کی ہے۔ انہوں نے اپنی تحقیق کا موضوع ’’عزیز احمد برنی کی حیات و خدمات‘‘رکھا ہے۔ اس موضوع سے متعلق انکی ایک تازہ تصنیف پرورش لوح وقلم اردو اکیڈیمی آندھراپردیش کے جزوی مالی تعاون سے شائع ہوکر اردو کے منظر نامہ میں پیش ہوچکی ہے۔
پرورش لو ح وقلم،دراصل عزیز برنی کی صحافتی،ملی اور سماجی خدمات کی کارکردگی پر منحصر ہے۔اس کتاب کا انتساب مختار احمد فردین نے اپنے ماں باپ کے نام معنون کیا ہے۔اور لکھا ہے ’’ماں باپ کے بعد پھر ماں با پ کہاں‘‘عموماََ کتاب کا انتساب ایک یا دو سطروں میں پیش کیا جاتا ہے لیکن صاحب تصنیف نے اس انتساب کو جملہ ۵صفحات میں پیش کیا ہے جس میں والدین کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے۔کتاب کا پیش لفظ بعنوان’’مختار احمد فردین فکر و نظر کے آئنہ سے‘‘الحاج عبدالروف ڈائرکٹر دانش گاہ اسلامیہ و چیف ایڈیٹر اطلاع عام آسنسول مغربی بنگال نے رقم کیا ہے۔اور صاحب تصنیف سے متعلق اپنے خیالات کااظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
’’ جناب مختار احمد فردین جو کہ خود اپنی ذات سے ایک انجمن ہیں،جو قوم و ملت،سماج وسوسائٹی،زبان وادب کے تعلق سے مخلصانہ درد و کسک رکھتے ہیں۔جس کااظہار قرطاس و قلم سے گذشتہ تیس سال سے مسلسل کرتے آئے ہیں جو ملک کے بیشتر اخبارات ورسائل کے ذریعہ اپنی سوچ و فکر قوم کو منتقل کرتے ہیں اور اپنی مادری زبان اردو سے عقیدت والفت کاجنون رکھتے ہیں‘‘
زیرہ تبصرہ کتاب میں عرض مصنف کے عنوان سے صاحب کتاب نے اپنی بات پیش کی ہے۔اور عزیز برنی کے شخصی تعارف کو بیان کیا ہے۔زیر تبصرہ کتاب میں 25موضوعات کو شامل کیا گیا ہے جو عزیز برنی کی شخصیت کا مکمل احاط کرتے ہیں۔اس کتا ب کا پہلا عنوان’’ موضوعات اور خیالات
ہے جس میں مختار احمد فردین نے اخبار راشٹر یہ سہارا کے لیے لکھنے والے قلم کاروں کی فہرست بیان کی اور عزیز برنی سے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے’’ان سب پر حاوی جناب عزیز برنی ہیں۔جو راشٹریہ سہارا کے گروپ ایڈیٹر ہیں اور اصلاََ اردو روزنامے اور سہارا میگزین کے روح رواں ہیں۔ جن کی تدبیریں ایک جانب ان رسائل و جرائد دن دونی رات چوگنی ترقی کی طرف لے جاتی ہیں تو دوسری جانب ان کی تحریریں اپنی فکر خیزی اور کرو افروزی کے باعث باربار چھپتی اور پڑھی جاتی ہیں‘‘
اس موضوع کے تحت انہوں نے راشٹر سہاراور عزیز الہند کے معنی بیان کئے اور راشٹر سہارا سے وابستہ ہوکر عزیز برنی نے جو سماجی خدمات کوانجام دیا ہے اس کو بیان کیا ہے۔ ساتھ ہی راشٹریہ سہارا کی خصوصی اشاعتوں بل خصوص امنگ(سنڈے ایڈیشن)حالات حاضرہ پر ’’دستاویز‘‘ودیگر کالموں پر روشنی ڈالی ہے اور اس کو عظیم صحافتی خدمات قرار دیا ہے۔
اس کتاب کادوسرا موضوع’’صحافتی نقطہ فکر‘‘ہے جس کے تحت صاحب کتاب نے اردو صحافت کے فروغ میں غیر مسلموں کا حصہ نول کشور سے رامو جی راو اور سہارا شری تک، کا احاطہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔اس مضمون میں جہاں منشی نول کشور سے متعلق خاصی معلومات فراہم کی گئی ہیں وہیں ماسٹر رام چندر،لالہ لاجپت رائے ،جواہر لال نہرو تک سے متعلق خوب احاطہ کیا گیا ہے۔یہ احاطہ 1822ء سے لیکر1943ء تک کیا گیا ہے ۔فاضل مصنف نے کتاب کے ایکموضوع کی سرخی میں راموجی راواور سہارا شری کا تذکرہ ہے مگرمضمون کے اندر راموجی راوء کا کچھ ذکر ہی نہیں اور نہ ہی آزادی کے بعد کے صحافتی حالات کو بیان کیا گیا ہے۔البتہ سہارا شری اس موضوع کے تحت خوب سراہا گیا ہے ۔ایک اوربات یہ کہ جام جہاں نما کے آغاز کو 27مارچ1922ء بتایا گیا ہے۔ جبکہ 1922کے بجائے1822ء آنا چاہئے تھا۔
اس کتاب کا ایک اہم مضمون’’دس برس سے سو برس‘‘ ہے جس میں روزنامہ راشٹر سہارا کی خصوصیت کو پیش کیا گیا ہے وہیں عزیز برنی کو بے باک صحافی قرار دیا ہے لکھتے ہیں۔’’عزیز برنی وہ مرد مومن ہیں جو بیداری کی حالت میں کھلی آنکھوں سے خواب دیکھتے ہیں اور ان خوابوں کی تعبیر کے لیے مسلسل جہاد کرتے رہنا،ہی عزیز برنی کا عقیدہ اور مذہب ہے ‘‘
اس کتاب میں شامل مضامین میں ’’ زریں دور کا نقیب‘‘ کے عنوان کے تحت پھر اردو صحافت کے ابتداء سے راشٹریہ سہارا کے درمیان 188سالہ فرق کو پیش کیا گیا ہے ساتھ ہی صحافت کے مقاصد کو بیان کیا گیا ہے فیچر نگاری کے فن پر روشنی ڈالی گئی ہے اور بھر پور معلومات فراہم کی گئی ہیں۔ روزنامہ راشٹریہ سہارا کے فیچرز کو مثال کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔پھر ایک مرتبہ فاضل مصنف نے جام جہاں نما کے آغاز کو 1823ء لکھا ہے۔ جب کہ وہ1822ء ہے۔
زیرنظر کتاب میں شامل ایک مضمون’’ ترقی کی نئی منزلیں‘‘ہے جس میں روزنامہ راشٹریہ سہارا کے آغاز 1991ء سے کس طرح ترقی کی منزلیں طئے کی ہے اس کو بیان کیا گیا ہے۔ اور عزیز برنی کے اداریے سے متعلق لکھا گیا ہے’’ اس سلسلے میں عزیز برنی صاحب کے اکثر اداریے قارئین کی ذہنی بیداری کا باعث بنتے ہیں اور ان میں ایسا جوش و خروش بھر دیتے ہیں کہ قاری ان اداریوں کے سحر کی گرفت سے آزاد نہیں ہو پاتے۔وہ اسے بار بار پڑھتے ہیں لیکن ان کی تشنگی دور نہیں ہوتی۔ان اداریوں کا اس اخبار کی ترقی میں اہم رول رہا ہے۔‘‘
زیر تبصرہ کتاب میں دو تین مضامین(امن و اتحادکا یقین،بھارت کا اتہاس) ایسے بھی ملیں گے جس میں فاضل مصنف نے عزیز برنی کی تحریروں کو جوں کا توں اس تصنیف میں شامل کردیا ہے جس سے یہ گماں ہوتا ہے کہ یہ کتاب مرتب کی گئی ہے۔ مختار احمد فردین نے ‘‘مگر ہم محب وطن ہیں‘‘ کے تحت عزیز برنی کی تقریر’’ہندوستانی میڈیااور مسلمان‘‘استفادہ عام کے طور پر پیش کیا ہے اور لکھا ہے’’ عزیز برنی نے ہندوستانی عوام کے سارے مسائل تینوں زبانوں میں اردو ،انگریزی اور ہندی میں ’’داستان ِہند‘‘نامی کتاب میں لکھا ہے جو حقائق پر مبنی ہیں‘‘
اس کتاب کے آخر میں دانشوروں کے تاثرات اور خطوط کے ساتھ ساتھ تصویری جھلکیاں بھی شامل کی گئی ہے جس سے مصنف ہمہ گیر شخصیت اور ان کے اثر و رسوخ کا اندازہ ہوتا ہے۔بہرحال ان اغلاط کو پس پشت ڈالیں تو مختار احمد فردین کی ایک ا چھی کوشش رہی کے انہوں نے اردو صحافت کے موضوع خاص کر اردو صحافت کی دلیر و بے باک شخصیت عزیز برنی کو اپنی تحریروں کے لیئے منتخب کیا اور ایک ضخیم تصنیف رقم کر ڈالی۔اور اردو صحافت کے پیش نظر کافی اہم معلومات بھی فراہم کی ہے۔اردو صحافت میں یہ ایک نئی تحریر کا اضافہ ہے۔ اردو صحافت کے نشیب و فراز اوراردو صحافت میں انقلا ب کی داستان اس تصنیف میں بیان کی گئی ہے جو کہ اردو صحافت سے وابستہ طلبہء اور ریسرچ اسکالر س کے لیے ایک انمو ل کتاب تسلیم کی جائیگی۔ تاکہ اس کتاب کی روشنی میں وہ اپنے تحقیقی سفر کو جاری رکھ سکے۔ میں مختار احمد فردین کو مبارکباد پیش کرتا ہوں کہ انہوں نے محنت سے اس تصنیف کو اردو حلقوں میں متعارف کیا ہے۔ اس کتاب کا اسلوب کافی حد تک ادبی ہے ۔کتاب میں معلومات سے زیادہ واقعات سے متعلق مواد کو پیش کیا گیا ہے۔ امید کے ارددنیا میں صحافتی حلقوں میں اس کتاب کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جائیگا اور اس کتاب کوخوب پذیرائی حاصل ہوگی۔ خوبصورت ٹائٹل 224صفحات پر مشتمل اس تصنیف کی قیمت500روپئے رکھی گئی ہے جو نامناسب ہے کتاب کی قیمت سے متعلق مصنف کا کہنا ہے کہ وہ اس کتاب سے حاصل ہونے والی آمدنی کوضرورت مند طلباء اور صحافیوں پر خرچ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔کتاب ملنے کا پتہ ہدی بک ڈپو پرانی حویلی حیدرآباد یا مختار احمد فردین(مصنف) سے 9849251750 پر رابط کرکے حاصل کی جاسکتا ہے۔
٭٭٭

اس مضمون کو پی ڈی ایف میں پڑھنے/ ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
اردو ریسرچ جرنل (اگست۔اکتوبر 2014)کو مکمل پی ڈی ایف میں ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں۔

Leave a Reply

1 Comment on "پرورش لوح و قلم"

Notify of
avatar
Sort by:   newest | oldest | most voted
wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.