اردو میں نثری نظم
نام کتاب : اردومیں نثری نظم
نام مصنف وناشر : عبدالسمیع
مطبع : اے ٹوزیڈ پرنٹرس دریا گنج نء دہلی
سن اشاعت : 2014، صفحات : 312
قیمت : 163
مبصر : حسین عیاض
شعبہَ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ،نئی دہلی ، 9990979054
’’اردو میں نثری نظم ‘‘نثری نظم اس کے نظری مباحث آغاز و ارتقاء اور اس کی شعریات کے حوالے سے پہلی با ضابطہ کتاب ہے ۔یہ کتاب بنیادی طور پر عبدالسمیع کے ایم فل کا مقالہ ہے ۔جدید شعری اصناف میں نقادوں کے درمیان شاید نثری نظم ہی سب سے زیادہ بحث کا موضوع رہی ہے ۔ابتدا سے ہی اس کی ہیئت ،صنفی جواز ،اشتقاقی جہت اور اس کے شعری طریقہ کار کو لے کر گفتگو ہوتی رہی ہے ۔اور یہ گفتگو اپنی بعض صورتوں میں خاصی دلچسپ نظر آتی ہے ۔معری ّ نظم اور آزاد نظم کو قبول کرنے کا جواز کسی نہ کسی طور پر تلاش کر لیا گیا لیکن نثری نظم ایک بالکل چونکا دینے والے تجربے کی شکل میں سامنے آئی ،یہ شاعری کے روایتی سانچوں اور عروضی پابندیوں سے آزادی کی پہلی مکمل اور واضح کوشش تھی اس لئے اس کے جواز اور عدم جواز نے ایک بڑا مکالمہ پیدا کیا ۔عبدالسمیع نے اس پورے مکالمے کو ادب و تنقید کے ایک سنجیدہ اور ذہین قاری کے طور پر مطالعے کا حصہ بنایا ہے اور اسے تجزئے کے عمل سے گزار کر صحیح صورتحال کو نشان زد کرنے کی کوشش کی ہے ۔شمیم حنفی نے اس کتاب کے حوالے سے عبدالسمیع کے بارے میں لکھا ہے کہ’’مجھے یہ دیکھ کر حیرت آمیز خوشی ہوئی کہ مواد کی تلاش و ترتیب میں وہ کسی طرح کی سہل پسندی کا شکار نہیں ہوئے ‘‘ عبدالسمیع قرأت کے عمل کے دوران نثری نظم کی شعریات اور دیگر مباحث کے حوالے سے جن نتائج تک پہونچے ہیں ان سے اختلاف تو کیا جا سکتا ہے لیکن جس طرح انہوں نے ایک وسیع تر سیاق میں نثری نظم کے مباحث کو مطالعے کا حصہ بنایا ہے وہ یقینا حیرت میں ڈالتا ہے ۔اس پورے عرصے میں شاید ہی نثری نظم پر کوئی ایسی با معنی گفتگو ہو جس پر عبدالسمیع کی نظر نہ گئی ہو ۔ایک بیدار مغز اور ذہین قاری کے طور پرانہوں نے چیزوں کو پڑھا ہے اور سوالات قائم کئے ہیں ۔نئے لکھنے والوں میں دور تک کوئی ایسی تحریر نہیں ملتی جو اتنے سوالات قائم کرتی ہو ۔نثری نظم کی صنف کو ابھی اتنا عرصہ نہیں ہوا ہے اس لئے اس پر ہونے والی تنقید اور اس کی شعریات کو مرتب کرنے میں ایک طرح کی جلد بازی بھی راہ پا گئی جو بجائے خود خلط مبحث کا سبب بنی ساتھ ہی شعری تصور کے ایک خاص روایتی دباؤ نے اس پورے تنقیدی ڈسکورس میں بڑی الجھنیں پیدا کیں ۔یہ عبدالسمیع کی تنقیدی بصیرت ہی ہے جو اس پوری صورتحال کو سلجھاتی ہوئی ایک نتیجے تک پہونچ جاتی ہے ۔
’’اردو میں نثری نظم ‘‘کو چار ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے ۔باب اول :نثری نظم کے نظری مباحث ،باب دوم :نثری نظم کا آغاز،باب سوم :نثری نظم کی شعریات،باب چہارم :اردو میں نثری نظم ، اس حصے میں نثری نظم کے تاریخی ارتقا کے ساتھ نثری نظم کے ۱۵ شعرا کو بھی مطالعے کا حصہ بنا یا گیا ہے ۔اس طور پر نثری نظم کے تمام مباحث کو یکجا کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔نثری نظم کے نظری مباحث کے تحت نثری نظم کی تعریف نثری نظم کی اشتقاقی جہت نثری نظم کی صنفی نوعیت ،نثری نظم پر چند اعتراضات جیسے ذیلی عنوانا ت قائم کئے گئے ہیں ۔ان میں نثری نظم کی تنقید کا ایک بڑا حصہ سمٹ جاتا ہے ۔عبد السمیع اپنی طرف سے نثری نظم کی کوئی تعریف بنانے کی جلد بازی کا شکار نہیں ہوئے ہیں بلکہ وہ نثری نظم کے ناقدین کی تحریروں کے صحت مند تجزئے سے ہی کسی نتیجے پر پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں ۔نثری نظم کی تعریف تک پہونچنے کیلئے انہوں نے محمد حسن ،شمس الرحمان فاروقی ،گوپی چند نارنگ ،قمر جمیل ،عبدالر شید،اورمبارک احمد کے آراء پر غور کیا ہے۔یہ جملہ عبدالسمیع کے تنقیدی رویے کی نشان دہی کرتا ہے ’’نثری نظم کی تعریف متعین کرنے سے قبل مختلف نقادوں اور ادیبوں کے خیالات کا جانناضروری ہے تاکہ یہ دیکھا جا سکے کہ نثری نظم کو کس نے کس طور پر دیکھنے کی کوشش کی ہے ‘‘ظا ہری طور پر اس سے عبدالسمیع کی کوئی انفرادیت قائم نہیں ہوتی لیکن بیشتر نئے لکھنے والوں کے یہاں یہ بات معذوری کے نتیجے میں سامنے آتی ہے ،وہ دوسروں کے اقتباسات سے ہی اپنی ایک تحریر تشکیل دیتے ہیں اور صحت مند تجزئے کا فقدان بے کیفی اور اکتاہٹ پیدا کرتا ہے ۔عبدالسمیع کی اس کتاب میں موجود تمام مباحث کی پہلی بنیادی خوبی ہی یہ ہے کہ ان کے یہاں اچھے برے کو پہچاننے کا شعور ہے اور یہ شعور اپنی پوری قوت اور آداب کے ساتھ کام کرتا ہے ۔
نثری نظم کی تنقید کا بڑا حصہ اس کی لفظی ترکیب سے متعلق ہے یہاں بنیادی مسئلہ نظم اور نثر کے روایتی تصور سے پیدا ہوا ہے ۔جن لوگوں کے نزدیک نظم اور نثر کا بنیادی فرق وزن اور عروض سے قائم ہوتا ہے انہیں اس نام میں ہی تضاد نظر آتا ہے ۔نثری نظم کی اس جہت پر ناقدین برابر لکھتے رہے ہیں ۔عبدالسمیع نے اس پورے تنقیدی گفتگو کو ایک گہرے تنقیدی شعور کے ساتھ دیکھنے کی کوشش کی ہے ان کے یہ جملے دیکھئے ’’جن لوگوں نے نثری نظم کی ترکیب کو رد کرنے میں غیر معمولی دلچسپی کا مظاہرہ کیا ہے اگر وہ نثری نظم کے متن کو توجہ سے پڑھتے تو صورتحال زیادہ بہتر ہوتی ‘‘عبدالسمیع کا یہ تنقیدی ذہن ہمیں متاثر کرتا ہے اور چیزوں کو ایک بڑے سیاق میں رکھ کر دیکھنے کا حوصلہ دیتا ہے۔ساتھ ہی اپنی بات کہنے اور اختلاف کرنے کا ایک سنبھلا ہوا انداز ان کے یہاں موجود ہے۔نثری نظم کی ترکیب کے سلسلے میں وہ جس نتیجے تک پہونچتے ہیں اس سے ایک بیدار ذہن کا اندازہ ہوتا ہے ۔وہ ناصر عباس نیر کی اس با سے متفق نظر آتے ہیں کہ ’’نام رکھنا ایک ثقافتی عمل ہے جس کا مقصد اجتماعی سطح پر اس شئے کی شناخت کو رائج کرنا ہوتا ہے ‘‘ناصر عباس نیر نثری نظم کے تنقیدی کلامیے کو اشتقاقی قرار دیتے ہیں اور لکھتے ہیں کہ ’’ساری توجہ اس صنف کی اسمیاتی اصل پر مرکوز کی گئی ہے اور اسی سے اس صنف کے شعریاتی اصول دریافت کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔حیرت ہے کہ اس ضمن میں ایک سادہ سی بات فراموش کر دی گئی کہ کسی بھی شئے یا صنف کے نام اور اس کی صفات او ر شعریات میں کوئی لازمی ،منطقی اور فطری رشتہ اکثر نہیں ہوتا‘‘عبدالسمیع کے اس پورے تنقیدی اور تجزیاتی مکالمے میں ایک زندگی ہے اور چیزیں اپنی اصلی صورت میں سامنے آتی ہیں ۔
نثری نظم کے تقریبا تمام مباحث بہت الجھے ہوئے ہیں ،نہ صرف اس کی شعریات اور نظریاتی بحثوں میں بلکہ اردو میں اس کے آغاز اور عالمی تناظر کے حوالے سے بھی ناقدین کے درمیان شدید اختلاف پایا جاتا ہے لیکن عبدالسمیع کی تنقید ہمیں کہیں بھی الجھن کا شکار نہیں ہونے دیتی۔عبدالسمیع نے اردو میں نثری نظم کے مسئلے کو ادبی بنیادوں کے ساتھ نفسیاتی سطح پر بھی دیکھنے کی کوشش کی ہے ۔بیشتر ناقدین اور تخلیق کاروں نے نثری نظم کے تجربے کو انشائے لطیف اور ادب لطیف سے جوڑ کر دیکھا ہے عبدالسمیع اس کی ایک وجہ یہ بھی بتاتے ہیں ـ’’ معاملہ یہ ہے کہ اکثر ناقدین شاعرانہ نثر اور نثری شاعری میں امتیاز نہیں کر سکے ۔نثری نظم اور ادب لطیف میں خلط مبحث کا اہم سبب بھی یہی ہے ‘‘شمس الرحمان فاروقی بھی نثری شاعری کو خطوط غالب ،اورآ زاد کی تحریروں ،سے جوڑ کر دیکھتے ہیں ،عبدالسمیع نے اس موقعے پر لکھا ہے ـ’’ ممکن ہے شمس الر حمان فاروقی نثری نظم کی قدامت پر اتنی اور ایسی گفتگو نہ کرتے اگر ان کے معاصر محمد حسن نے یہ دعوی نہ کیا ہوتا کہ میں ایک نئی صنف شاعری کا تجربہ کر رہا ہوں ‘‘یہی وہ جہت ہے جسے عبدالسمیع نے نفسیاتی سطح سے جوڑ کر دیکھا ہے ۔وہ نثری نظم کے حوالے سے تمام تر انتہا پسندیوں کو نشان زد کرتے جاتے ہیں ۔
اس کتاب کا سب سے توانا حصہ نثری نظم کی شعریات سے متعلق ہے۔ابتدا ہی سے ناقدین نے نثری نظم کی شعریات کی ترتیب وتعین میں دلچسپی لی ہے اور جس کثرت سے نثری نظم کے فنی مباحث پر لکھا گیا ہے جدید نظم کی کسی اور صنف و ہیئت پر ۱تنا نہیں لکھا گیا ۔در اصل نثری نظم نے نظم کے اس بنیادی تصور کو ہی زد پہنچائی تھی جس کا رشتہ بحر وزن اور عروض اور ان سے تشکیل پانے والے شعری آہنگ سے تھا ۔اس انوکھے تجربے نے اختلاف کی شدیدترین صورتیں پیدا کیں۔ہمارے یہاں پہلی بار عبدالسمیع نے با ضابطہ طور پراس پورے تنقیدی ڈسکورس کو سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی ہے ۔اس سلسلے میں ایک خاص بات یہ ہے کہ عبدالسمیع کا تنقیدی ذہن انہیں ہر قسم کی مرعوبیت سے بچاتا ہے ۔وہ صاف طور پر فاروقی کے تصور شعر کو تجزئے کے بعد تضاد کا شکار بتا تے ہیں ۔اس حصے میں نثری نظم کے آہنگ پر جو گفتگو کی گئی ہے وہ پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے ۔البتہ اس جگہ پر محمد حسن کے سلسلے میں عبدالسمیع کا رویہ مناسب نظر نہیں آتا ۔وہ انہیں بچاتے ہوئے چلتے ہیں ،محمد حسن نے نثری نظم پر کئی مضامین لکھے ہیں لیکن اس کی شعری ہیئت ،عرو ض وآہنگ پرکوئی گفتگو نہیں کی حالانکہ نثری نظم کے مباحث میں یہ مسئلہ بنیادی ہے ۔عبدالسمیع ان کی اس کمزوری کو بھی ایک ذمہ دار نقاد کے رویہ سے تعبیر کرتے ہیں ۔کتاب کا آخری حصہ ہندوستان اور پاکستان دونوں شعری منظرناموں کے حوالے سے نثری نظم کی فکری ،موضوعاتی اور فنی صورتحال پر روشنی ڈالتا ہے اس حصہ میں نثری نظم کے ۱۵ تخلیق کاروں کا مطالعہ بھی شامل ہے ۔یہ حصہ پوری طرح مطمئن تو نہیں کرتا لیکن بڑی بات یہ ہے کہ پہلی بار نثری نظم کے متن کواس طور پر پڑھنے کی کوشش کی گئی ہے۔
٭ ٭ ٭
اس مضمون کو پی ڈی ایف میں ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
اردو ریسرچ جرنل (اگست۔اکتوبر 2014)کو مکمل پی ڈی ایف میں ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Leave a Reply
3 Comments on "اردو میں نثری نظم"
[…] اردو میں نثری نظم […]
[…] اردو میں نثری نظم […]