ابن کنول بحیثیت افسانہ نگار
نام کتاب : ابن کنول بحیثیت افسانہ نگار
مصنف : عزیر احمد
اشاعت: ۲۰۱۴
صفحات : ۱۷۶ قیمت : ۲۵۰
تقسیم کار: کتابی دنیا، ترکمان گیٹ ، دہلی ۔۶
مبصر: سلمان فیصل
اردو افسانے کے معاصر منظر نامے پر سرسری نگاہ ڈالی جائے تو بے شمار افسانہ نگاروں کی ایک طویل فہرست نظر آتی ہے لیکن اس کے باوجود اس میں چند افسانہ نگار اپنی انفرادیت کی بنا پر صف اول میں نظر آتے ہیں۔ انھیں میں ایک اہم نام پروفیسر ابن کنول کا بھی ہے۔ یوں تو پروفیسر ابن کنول دہلی یونیورسٹی کے شعبہ اردو میں درس و تدریس سے وابستہ ہیں لیکن تدریسی خدمات انجام دینے کے ساتھ ساتھ تخلیقی ، تحقیقی اور تنقیدی کاموں میں بھی مصروف رہتے ہیں جس کے نتیجے میں اب تک ان کی ۲۰ کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں۔ ان کتابوں میں افسانوں کے تین مجموعے اور ایک ڈراما شامل ہے۔ ان کے علاوہ ایک مونوگراف، چھ تنقیدی کتابیں اور ۵ کتابیں تحقیق و ترتیب پر مبنی ہیں۔ آپ کی مشہور کتابوں میں ’’بوستان خیال ایک مطالعہ، داستان سے ناول تک، اصناف پارینہ، نظیر اکبر آبادی کی شاعری اور اردو افسانہ‘‘ ہیں۔ آپ کے تین افسانوی مجموعے تیسری دنیا کے لوگ، بند راستے اور خانہ بدوش ہیں۔ پروفیسر ابن کنول تدریس ، تخلیق، تنقیدی اور تحقیقی خدمات کے عوض کئی اعزازات و انعامات سے بھی سرفرازکیے جاچکے ہیں جس میں سرسید ملینیم ایوارڈ براے اردو فکشن، ہریانہ اردو اکادمی کا کنور مہندر سنگھ ایوارڈ برائے ادبی خدمات، دہلی اردو اکادمی کا فکشن ایوارڈ شامل ہیں۔
پیش نظر کتاب ’’ابن کنول بحیثیت افسانہ نگار‘‘ پروفیسر ناصر محمود کمال (ابن کنول) کی علمی و ادبی خدمات کے اعتراف میں ایک مختصر سا خراج عقیدت ہے جسے انھیں کے شاگرد رشید جناب عزیر احمد نے پیش کیا ہے ۔ یہ کتاب چار حصوں پر مشتمل ہے۔ پہلے حصے میں مصنف نے پروفیسر ابن کنول کی سوانح پیش کی ہے۔ پہلے ایک سوانحی خاکہ ہے جس میں ان کے بارے میں ذاتی معلومات کے علاوہ ان کی تعلیم، تصنیفات، تخلیقات، مطبوعہ مضامین اساتذہ اور انعامات و اعزازات کا اشاریہ ہے۔ اس حصے میں پروفیسر ابن کنول کاایک تعارف بھی پیش کیاگیا ہے جس میں ان کی زندگی، زندگی کے ابتدائی ایام، تعلیم ، ملازمت ،شادی اور ادبی نشوونما کے ساتھ ان کی ادبی خدمات کا تذکرہ ہے۔ یہ تعارف مختصر اور جامع ہے جس سے پروفیسر ابن کنول کی شبیہ ہمہ جہت شخصیت کے ساتھ ابھر کر سامنے آجاتی ہے۔
اس کتاب کا دوسرا حصہ ’’ابن کنول بحیثیت افسانہ نگار‘‘ ہے۔ اس حصے میں فاضل مصنف نے ابن کنول کی افسانہ نگاری کا مختلف جہتوں سے مطالعہ پیش کیا ہے۔ مصنف کی نگاہِ نقد ابن کنول کے افسانوں کا مختلف جہات سے جائزہ لیتی ہے۔ عزیر احمد نے آپ کے افسانوں میں داستانوی رنگ و آہنگ تلاش کیے ہیں اور مصنف کے مطابق یہی وہ خصوصیت ہے جو ابن کنول کو اپنے معاصر افسانہ نگاروں میں ممتاز اور ممیز کرتی ہے اور صف اولین کے افسانہ نگاروں میں لاکھڑا کرتی ہے۔ چونکہ ابن کنول نے داستانوں پر تحقیقی کام کیا ہے اور داستانوں کی تہذیبی و ثقافتی اہمیت کو اجاگر کیا ہے اس لیے ان کے افسانوں میں داستانوی رنگ غالب نظر آتا ہے۔ عزیر احمد نے ابن کنول کے مختلف افسانوں کے حوالے اور مختلف ناقدین کی آراء کے مطابق اس داستانوی رنگ و آہنگ پر تفصیل سے گفتگو کی ہے اور افسانوں سے مثالیں پیش کی ہیں۔
فاصل مصنف نے ابن کنول کے افسانوں میں موجود جاگیر دارانہ نظام کی شکست و ریخت کی باز گشت پر بھی سیر حاصل بحث کی ہے۔ چونکہ ابن کنول ایک جاگیردارانہ گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں اورانھوں نے زمیندارانہ نظام کو قریب سے دیکھا ہے۔ اسی لیے ان کے افسانوں میں یہ موضوع خود بخود سرایت کر گیا ہے۔ اس حصے کی قرأت سے معلوم ہوتا ہے کہ ابن کنول نے زمیندارانہ اور جاگیردارانہ نظا م کے صرف ایک پہلو یعنی منفی پہلو کو نہیں پیش کیا ہے بلکہ انھوں نے اپنے افسانوں میں دونوں پہلوؤں کو جگہ دی ہے ۔ بقول مصنف ’’ابن کنول نے زمین داری کے موضوع پر کئی افسانے لکھے ہیں۔ان کے افسانوں میں عام طور پر زمین داری کے خاتمہ کے بعد کے حالات کا بیان ہے۔ عام افسانہ نگاروں کی طرح ان کی نظر صرف عیوب پر نہیں گئی انھوں نے زمین داروں کی مذہبی رواداری، انسان دوستی ، غریبوں کی امداد جیسی ان اچھائیوں پر بھی روشنی ڈالی ہے جن کو نظر انداز کیا جاتا رہا ہے۔‘‘
کتاب کے اس دوسرے حصے میں فرقہ وارانہ فسادات کے موضوع پر لکھے گئے افسانوں کا جائزہ لیاگیا ہے۔ یہ ایسا موضوع ہے جس پربیشتر افسانہ نگاروں نے افسانے تحریر کیے ہیں اور کئی افسانے تو افسانوں کی معراج سمجھے جاتے ہیں۔ اس موضوع پر افسانہ نگاری میں ابن کنول کی انفرادیت بتاتے ہوئے عزیر احمد کہتے ہیں کہ ابن کنول نے فرقہ وارانہ فسادات میں پولس کے گھناؤنے طرز عمل کو اپنے افسانوں میں بے نقاب کیا ہے۔ کئی افسانوں پر بحث کرتے ہوئے عزیر احمد نے کئی مثالیں پیش کی ہیں۔ابن کنول نے اپنے افسانوں میں شہری زندگی کے مسائل کو بھی پیش کیا ہے اور چونکہ وہ خود ایک بڑے شہر میں رہتے ہیں اسی لیے وہ مسائل سے دو چار بھی ہوئے ہوں گے اور قریب سے دیکھا بھی ہوگا ۔اس لیے انھوں نے اپنے افسانوں میں شہری زندگی کے مسائل کو بحسن و خوبی پیش کیا ہے۔ عزیر احمد اس تعلق سے کہتے ہیں کہ بہت ساری ایسی چیزیں جنھیں ہم روز دیکھنے کے عادی ہوتے ہیں ان کے اندر ہمیں کوئی خاص بات نظر نہیں آتی، ابن کنول کا قلم وہاں سے اپنے افسانے کا موضوع تلاش کرلیتا ہے۔ شہری زندگی کے مسائل پر لکھے گئے افسانے اس کے ثبوت کے لیے کافی ہیں۔عزیر احمد نے ابن کنول کے افسانوں میں منظر نگاری پر بھی تفصیل سے گفتگو کی ہے۔
زیر مطالعہ کتاب کا تیسرا حصہ ابن کنول کے منتخب افسانوں کے تجزیاتی مطالعے پر مبنی ہے اس حصے میں نو (۹) افسانوں کا تجزیہ پیش کیا گیا ہے۔ عزیر احمدنے بہت باریک بینی سے تجزیہ کیاہے ۔ عام طور پر تجزیے میں تنقید مفقود ہوتی ہے لیکن عزیر احمد نے تجزیہ بھی تنقیدی انداز میں کیا ہے۔ جن افسانوں کا تجزیہ کیا گیا ہے ان میں لکڑ بگھا زندہ ہے، پہلا آدمی، تیسری لاش، آخری کوشش، ایک گھر کی کہانی، فورتھ کلاس، چھوٹی آپا، خواب اور جیت کسی کی ہار کسی کی شامل ہیں۔ اس کتاب کے چوتھے حصے میں چار منتخب افسانے شامل ہیں۔ (۱)خانہ بدوش (۲) فورتھ کلاس (۳) صرف ایک شب کا فاصلہ (۴) تیسری دنیا کے لوگ۔ یوں تو ان چاروں افسانوں کا ذکر کتاب میں کہیں نہ کہیں ضرور آیا ہے بلکہ پہلے دو افسانے کا تجزیہ بھی شاملِ کتاب ہے۔ لیکن کیا ہی اچھاہوتا ہے کہ اگر صرف ان افسانوں سے انتخاب کتاب میں شامل کیا جاتا ہے جن پر تجزیہ بھی کیا گیا ہے۔ بہر حال مجموعی طور پر یہ کتاب ابن کنول کے افسانوں کو سمجھنے اور ان کو ادب کی کسوٹی پر پرکھنے میں اہم کردار ادا کرے گی۔ نیز ابن کنول کی مختلف الجہات شخصیت کی کئی پرتوں کو کھولنے میں ایک اہم کڑی ثابت ہوگی۔ کتاب کی ظاہری شکل و شباہت اور طباعت بھی خوب ہے۔ امید ہے کہ ادبی حلقوں میں ان کی کاوش کو سراہا جائے گا۔
٭٭٭
اس مضمون کو پی ڈی ایف میں ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
اردو ریسرچ جرنل (اگست۔اکتوبر 2014)کو مکمل پی ڈی ایف میں ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Leave a Reply
1 Comment on "ابن کنول بحیثیت افسانہ نگار"
[…] ابن کنول بحیثیت افسانہ نگار← […]