آزادی کا المیہ اور کلیم عاجز کی شاعریِ

کلیم عاجز

کلیم عاجز


کلیم احمد عاجز (11؍اکتوبر 1924تا 15؍فروری2015)کا شمار دور حاضر کے ان کلاسیکی غزل گو شعرا میں ہوتا ہے جنھوں نے زبان و بیان، رنگ و آہنگ اور معنی و مفاہیم کے اعتبار سے کلاسیکیت کو اس کے پورے لوازمات کے ساتھ اپنے یہاں برتنے کی کوشش کی ہے۔ انھیں بنیادی طور پر درد وغم اور حزن و یاس کا شاعر تسلیم کیا جاتا ہے ، لیکن اس کے باوجود ان کے یہاں زندگی گزارنے کے مثبت پہلو باآسانی تلاش کیے جاسکتے ہیں۔یوں تو انھوں نے آزادی سے پہلے اپنے طالب علمی کے زمانے میں ہی اشعار کہنے شروع کردیے تھے لیکن ان کی شاعری کے محرکات کی طرف جب نگاہ ڈالی جاتی ہے تو احساس ہوتا ہے کہ 1946میں بہار میں ہونے والے فسادات نے ان کے قلب و جگر کو بے حد متاثر کیا۔ واقعہ یہ ہے کہ اس فساد میں ان کی والدہ، چھوٹی بہن اور تقریباً بائیس رشتہ داروں کو شہید کردیا گیا۔جس کی کسک وہ زندگی کے آخری ایام تک محسوس کرتے رہے۔اسی جاں سوز حادثے نے ان کی شاعری کو ایک نئی روح اور نیا پیکر عطا کیا ، لیکن بقول کلیم عاجز’’میں نے ہی اس واقعہ کو شاعری بنا ڈالا۔‘‘ واقعہ کو شاعری بنانے کی بات اگر من و عن تسلیم کرلی جائے تو میرؔ کا یہ شعر ان پر حرف بہ حرف صادق آئے گا ؂
مجھ کو شاعر نہ کہو میرؔ کہ صاحب میں نے
درد و غم کتنے کیے جمع تو دیوان کیا
ان کی شاعری کے متعلق وہاب اشرفی لکھتے ہیں:
’’….. کلیم عاجز کا تجربہ بھوگا ہوا ہے، برتا ہوا ہے، ایک آگ کے دریا کو پار کرنے کا تجربہ ہے جس عمل میں چہرہ تو سلامت رہا لیکن دل کباب ہوگیا۔ عاجز نے شاید یہ دعا مانگی ہوگی ؂
کانٹا وہ دے کہ جس کی کھٹک لازوال ہو
یارب وہ درد جس کی کسک لازوال ہو‘‘1؂
کلیم عاجز نے باقاعدگی کے ساتھ جس زمانے میں اپنی شاعری کا آغاز کیااس وقت تک ہندوستان دو حصوں میں تقسیم ہوچکا تھا۔ آزادی جس کا خواب یقیناًوہ بچپن سے دیکھ رہے ہوں گے ایک ایسی شکل میں سامنے آئی کہ ان کا حساس دل پاش پاش ہوگیا اور وہ یہ کہنے پر مجبورہوئے ؂
بڑی طلب تھی بڑا انتظار دیکھو تو
بہار لائی ہے کیسی بہار دیکھو تو
یہ کیا ہوا کہ سلامت نہیں کوئی دامن
چمن میں پھول کھلے ہیں کہ خار دیکھو تو
اگر بہار چمن تم اسی کو کہتے ہو
تو اس طرح کی بہار چمن سے کیا ہوگا
اسی خیال کو فیض احمد فیض نے یوں پیش کیا تھا ؂
یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں
تقسیم سے پہلے حصول آزادی کا جوش ، ملک کے لیے کچھ کر گزرنے کا جذبہ، انگریزوں کو ملک بدر کرنے کی خواہش ، ہندو مسلم اتحاد پر فخر یہ تمام چیزیں ایسی تھیں جس پر بجا طور پر ہندوستانی ناز کرسکتے تھے۔ لیکن ملک کے خود غرض رہنماؤں اور انگریزوں کی حکمت عملی نے سارے شیرازے ادھیڑ کر رکھ دیے۔ہندوستانیوں نے حصول آزادی کے لیے جان، مال، وقت ہر ایک شئے کی قربانی دی، فقط اس لیے کہ آج پیش کی جانے والی قربانیاں کل ضرور رنگ لائیں گی ۔ یہ احساس کلیم عاجز کے ذہن و دل میں بھی پوری طرح موجزن تھاکہتے ہیں ؂
آتی نہیں آج تو کل آئے گی بہار
غنچہ خزاں کا غم نہ کرو مسکرائے جاؤ
ہم ہیں اگر تو خون جگر کی کمی نہیں
جتنے چراغ بزم میں چاہو جلائے جاؤ
یہ بھی ہے اک سامان دل بستگی
کچھ تماشائے دار و رسن چاہیے
لیکن افسوس آزادی کے نام پر انگریزوں نے ملک کو اس انداز سے تقسیم کیا کہ آج تک یہ دونوں ممالک ایک دوسرے سے بر سر پیکار ہیں۔ یہ آزادی کیا تھی؟ خود غرض رہنماؤں کے درمیان ایک سمجھوتہ تھا جس نے ہزاروں گھر خاکستر کرڈالے، بے شمار بچے یتیم اور عورتیں بیوہ ہوگئیں، ململ اور کم خواب پہننے والے بوریوں کے محتاج ہوگئے اور ہندوستان دو ٹکڑوں میں تقسیم ہوکر آزاد ہوگیا۔ اس آزادی نے عوام سے کیا چھینا کلیم عاجز کی زبانی ملاحظہ فرمائیں ؂
یہ پکار سارے چمن میں تھی وہ سحر ہوئی وہ سحر ہوئی
مرے آشیاں سے دھواں اٹھا تو مجھے بھی اس کی خبر ہوئی
اسی خیال کو دوسری جگہ اس انداز سے باندھا ہے ؂
ہم جو گلشن میں تھے بہار نہ تھی
جب بہار آئی آشیاں نہ رہا
انسان پوری زندگی اپنے آشیاں کو خوب سے خوب تر بنانے میں منہمک رہتا ہے تاکہ وہ اپنی باقی ماندہ زندگی چین و عافیت کے ساتھ گزار سکے۔ مگر کسی حادثے یا سانحے کی وجہ سے اس کا آشیاں جل کر خاک ہوجائے تو پھر وہ کیوں کر آرائش و آسائش کی تمنا کرسکتا ہے۔یہی حال حصول آزادی کے بعد مسلمانوں کا ہوا۔ ان کی عزت، آبرو، املاک و جائداد لوٹ لی گئیں، انھیں باغی اور غدار جیسے القاب سے نوازا گیا، حتیٰ کہ آزادی کی خاطرمسلمانوں کے ذریعہ دی جانے والی قربانیوں کو یکسر فراموش کر کے اسے طاق نسیاں کردیا گیا۔ہر اعتبار سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ ہندوستان میں مسلمانوں کے لیے اب کوئی جگہ نہیں۔ لہٰذا بہ خوشی یا جبراً انھیں یہ ملک چھوڑ کر جانا پڑے گا۔ فضا میں بازگشت کرنے والی ان آوازوں نے کلیم عاجز کو خون کے آنسو رونے پر مجبور کردیا۔ لہٰذا وہ مسلمانوں کے ذریعہ دی جانے والی قربانیوں اور حب الوطنی کے جوش میں تڑپ کر کہہ اٹھے ؂
ہم اسی گلی کی ہیں خاک سے، یہیں خاک اپنی ملائیں گے نہ بلائے آپ کے آئے ہیں، نہ نکالے آپ کے جائیں گے
عزیز کیوں نہ ہو خاک وطن مجھ کو
یہ میرے ساتھ مرے پیرہن میں آئی ہے
بے گانہ کہو، غیر کہو، اجنبی کہو
اپنوں میں تھا شمار ابھی کل کی بات ہے
کوئی اس طرح بھی بدلتا ہے چتون
تمھیں دوست تھے کل تمھیں آج دشمن
جسے زخم دل ہم دکھانے گئے
وہی ہاتھ میں لے کے پتھر اٹھا
ان ہی خیالات کی عکاسی کرتے ہوئے کنہیا لال کپور کلیم عاجز کی شاعری کے متعلق لکھتے ہیں:
’’بعض اوقات طنزاتنا شدید ہوجاتا ہے کہ شعر، شعر نہیں رہتا ، تازیانہ بن جاتا ہے۔‘‘
اس چمن میں کیا یہی دستور ہے
پھول کے تم مستحق، پتھر کے ہم‘‘ 2؂
کلیم عاجز کو اپنے وطن سے اس قدر محبت تھی کہ وہ اس کی تہذیب، روایت، کلچر کے ساتھ گلیوں، شاہراہوں، چھتوں اور آس پاس بکھری دیگر اشیا کو بھی عزیز رکھتے تھے۔ ان تمام باتوں کا ذکر بڑی تفصیل کے ساتھ انھوں نے اپنے شعری مجموعہ مع خود نوشت’’وہ جو شاعری کا سبب ہوا‘‘ کے پیش لفظ میں کیا ہے۔ انھیں اس سرزمین کی کیاکیا چیزیں عزیز تھیں خود ان ہی زبانی ملاحظہ فرمائیں:
’’…میں نے اس دنیا کی ہر چیز سے پیار کیا… اپنے گھر کے لوگوں سے، اپنے اڑوس پڑوس کے لوگوں سے، اپنی بستی سے، اپنے ماحول سے، اپنے ارد گرد کی ہواؤں سے، اپنی روایت سے، تہذیب سے، زندگی کی جانی پہچانی قدروں سے، اپنے گھر کے درودیوار سے، چھتوں سے، زمین سے آسمان سے۔‘‘ 3؂
درج بالا اقتباس کے مطالعہ سے یہ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ان کے قلب میں وطن عزیز کے لیے کس قدر الفت و محبت پوشیدہ تھی۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جس شخص کا دل حب وطن کے جذبے سے اس درجہ متاثر ہو کیا وہ تقسیم کے نام پراس سرزمین کو چھوڑ سکتا ہے؟ اکثریت کی طرف سے روا رکھے جانے والے مظالم کو خاموشی سے برداشت کرسکتا ہے؟ یا انسانیت کو بالائے طاق رکھ کر اپنے مفاد کی خاطر دوسروں کو نقصان پہنچا سکتا ہے؟ جہاں تک میں سمجھتا ہوں ہرگز نہیں اور کلیم عاجز نے بھی یہی کیا۔دنیا کی حرص و طمع ان کی نگاہ میں ہمیشہ ہیچ رہی ۔ وہ انسانیت کو ہی اپنا اولین فرض تصور کرتے تھے۔ اپنا سفر نامہ ’’ایک دیس اک بدیسی‘‘ میں ایک جگہ لکھتے ہیں:
’’…آپ شاعر ہیں، نقاد ہیں، محقق ہیں، افسانہ نگار ہیں ، ناول نویس ہیں، فنکار ہیں۔ لیکن اس سے پہلے آپ آدمی ہیں انسان ہیں؟۔انسان ہونا بہت بڑا آرٹ ہے، بہت بڑا فن ہے۔‘‘ 4؂
بہرحال آزادی سے پہلے جو ملک اخوت و بھائی چارگی کا بے مثل نمونہ تھا وہ آزادی کے بعد نفرت و حقارت اور بغض و عداوات کی فضا سے معمور ہوگیا۔ہندوستان جسے جنت نشاں اور نہ جانے کن کن ناموں سے یاد کیا جاتا رہا ہے ویرانے میں تبدیل ہوگئی۔ہندوؤں کو یہ خبط کہ مسلمانوں کو نکال باہر کیا جائے اور مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد اس پر بہ ضد کہ وہ کسی بھی صورت ملک کو خیر باد نہیں کہہ سکتے۔ایسی حالت میں دونوں فرقوں کے درمیان ٹکراؤ اورقتل و غارت عام سی بات تھی۔ ان تمام واقعات اور حادثات کو کلیم عاجز نے کس خوبصورتی سے اشعار کا جامہ پہنایا ہے ملاحظہ فرمائیں ؂
کوئی گلشن بھی نہ تھا میرے گلستاں کا جواب
اب سنا ہے اس سے بڑھ کر کوئی ویرانہ نہیں
ابھی تو خون کا سیندور ہی لگایا ہے
ابھی کرے ہے وہ کیا کیا سنگار دیکھو تو
کلیم عاجز کی شاعری میں درد و غم اور حزن و یاس کے ساتھ طنز کا پہلو بھی اپنے شباب پر نظر آتا ہے۔ابتدائی دور میں باقاعدہ سیاست سے تعلق خاطرنہ ہونے کے باوجوداس کے ہر پہلو پر ان کی گہری نگاہ تھی۔رہنماؤں کی خود غرضی، چاپلوسی اور دوغلے پالیسی سے وہ کماحقہ واقف تھے۔ ڈاکٹر نعیم راہی ان کی سیاسی بصیرت کے حوالے سے لکھتے ہیں:
’’…کلیم عاجز سیاسی آدمی نہیں ہیں۔ ان کی شاعری میں سیاسی رنگ ضرور ہوتا ہے لیکن وہ عمل سیاست سے بہت دور ہیں… یہ چالاکی، عیاری، مکاری ان کے سادہ لوح طبیعت کے منافی ہے… لیکن(وہ) سیاست کے حسن و قبح سے اس کی تمام تر نزاکت، پیچیدگی، لوچ، گیرہ گیری اور ستم شعاری سے واقف ہیں۔‘‘ 5؂
آزادی سے پہلے یا آزادی کے بعد ان سیاسی رہنماؤں نے اپنی مطلب براری کے لیے عوام کو حسین خواب دکھا کر جس انداز سے اپنا الّو سیدھا کیا ہے وہ تاریخ کے اوراق سے پوشیدہ نہیں۔ایسے سیاسی رہنماؤں پر کلیم عاجز کا طنز قابل غور ہے ؂
یہ عقل والے اسی طرح سے ہمیں فریب کمال دیں گے
جنوں کے دامن سے پھول چن کر خرد کے دامن میں ڈال دیں گے
میرے ہی لہو پر گزر اوقات کرو ہو
مجھ سے ہی امیروں کی طرح بات کرو ہو
لالہ و گل پر جو گزری ہے گزرنے دیجئے
آپ کو تو مہرباں لطف بہار آ ہی گیا
تم صاحب دستار قبا جب سے ہوئے ہو
دیوانہ اسی دن سے مرا نام پڑا ہے
نہ وہ محفل جمی ساقی نہ پھر وہ دور جام آیا
ترے ہاتھوں میں جب سے میکدہ کا انتظام آیا
آخری الذکر دونوں اشعار میں انھوں نے ان تمام رہنمایان قوم کو طنز کا نشانہ بنایا ہے جو تقسیم کے بعد کسی منصب پر فائز ہوئے۔آزادی کے نام پر برپا کی جانے والی اس فرقہ پرستی کی لڑائی میں ہزاروں گھر تباہ ہوئے جس میں کلیم عاجز کا خاندان بھی شامل تھا۔ اس حادثے نے انھیں اس درجہ متاثر کیا کہ اپنے غم کو غلط کرنے کے لیے انھیں شاعری کا لباس زیب تن کرنا پڑا۔
کلیم عاجز کو ایسے سیاسی رہنماؤں سے جوفقط اپنے مفاد کی خاطر عوام کے سامنے ہاتھ جوڑے کھڑے ہوں ، سخت نفرت تھی۔بارہا یہ منظر دیکھا گیا ہے کہ جب ووٹ کا وقت قریب آتا ہے تو ہر رہنما، امرا تا شرفا اور عقلا تا جہلا تک کے سامنے ہاتھ جوڑے اپنی کامیابی کی بھیک مانگ رہا ہوتا ہے۔اس دوران عوام سے بڑے بڑے وعدے کیے جاتے ہیں، انھیں سنہرے خواب دکھائے جاتے ہیں۔ غرض ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے سارے دیرینہ خواب الیکشن کے بعد پورے ہوجائیں گے ۔ لیکن افسوس نتائج کے بعد وہ سارے وعدے اور خواب باطل قرار پاتے ہیں اور زندگی (دوسرے الیکشن تک) اسی معمول پر رواں دواں ہوجاتی ہے ۔ اس ضمن میں کلیم عاجز کاطنز ملاحظہ فرمائیں ؂
یوں تو ہمیں منھ پھیر کے دیکھو بھی نہیں ہو
جب وقت پڑے ہے تو مدارات کرو ہو
دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو
اور جب کوئی مرد مومن اس ناانصافی کے خلاف آواز بلند کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اس پرسیاسی جماعتوں یا حکومت کی جانب سے طرح طرح کے الزامات عائد کیے جاتے ہیں، سماج میں اس کی شخصیت کو مجروح کرنے کی مقدور بھر کوشش کی جاتی ہے، حتیٰ کہ بات نہ بننے کی صورت میں دیوانہ قرار دے کر اس کی باتیں رد کردی جاتی ہیں ؂
بَکنے بھی دو عاجزؔ کو جو بولے ہے بَکے ہے
دیوانہ ہے، دیوانے سے کیا بات کرو ہو
حاصل کلام یہ کہ کلیم عاجز نے اپنی شاعری میں محض درد و غم اور حزن و یاس کا نوحہ نہیں پڑھا بلکہ آزادی سے پہلے اور اس کے بعد کے سیاسی، سماجی، معاشی، اقتصادی، تہذیبی اور مذہبی حالات کی بھر پور عکاسی بھی کی ہے۔ان کی شاعری میں تقسیم کا کرب بھی محسوس ہوتا ہے اور مسلمانوں پر ڈھائے گئے مظالم کا درد بھی،انگریزوں کی بربریت کے ساتھ فرقہ پرستی کی بو باس بھی بدرجہ اتم موجود ہے۔ ملک کی تقسیم یا آزادی کے حوالے سے ان کی شاعری میں پایا جانے والا کرب فقط ذاتی نہیں بلکہ اس میں ان تمام لوگوں کے درد و غم اور بے بسی ولاچاری کا نوحہ پیش کیا گیا ہے جنھوں نے آزادی کے نام پر اپنا ملک، اپنی ملکیت، اپنے عزیز و اقارب وغیرہ کو تہہ و بالا یا برباد ہوتے ہوئے دیکھا۔لہٰذا ان عوامل کی روشنی میں ان کی شاعری کو آزادی کا مرثیہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔
***
حواشی:
1: (کلیم عاجز کی غزل گوئی، از ڈاکٹر نعیم الدین، پیش لفظ، ص۔7، طباعت: انصاری آفیسٹ الہٰ آباد، 2007)
2: (وہ جو شاعری کا سبب ہوا، کلیم عاجز،مضمون: ’کون یہ نغمہ سرا میر کے انداز میں ہے‘ از کنہیا لال کپور، ص۔57)
3: (وہ جو شاعری کا سبب ہوا، از کلیم عاجز ، پیش لفظ، ص۔86، مطبوعہ: بزم کاف پٹنہ، جنوری 1976)
4: (ایک دیس اک بدیسی، از کلیم احمد عاجز، ص۔ج،مطبوعہ: فوٹو آفسٹ پرنٹرز،تال بگان لین ، کلکتہ،1981)
5: (کلیم عاجز کی غزل گوئی،ص۔108)
***

Md. Sajid Zaki Fahmi
Project Fellow
Department Of Urdu
Jamia Millia Islamia
New Delhi-110025
Mob: +91 9990121625
Email: sajidzakifahmi@gmail.com

Leave a Reply

1 Comment on "آزادی کا المیہ اور کلیم عاجز کی شاعریِ
"

Notify of
avatar
Sort by:   newest | oldest | most voted
trackback

[…] 110.     آزادی کا المیہ اور کلیم عاجز کی شاعریِ […]

wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.