کلیم عاجز کی نظمیں۔ متعدد شخصیات کے حوالے سے

 

پدم شری ڈاکٹر کلیم عاجز طرزِ خاص اور منفرد اسلوب کے حامل ایسے آفاقی شاعر ہیں جنھوں نے میرؔ کی سی زندگی گذاری اور جب سر میں سوداپیدا ہوا اور دل میں تمنا بیدار ہوائی نیز ظاہری وباطنی چمن کی سیر کرنے لگے تو ان کے قلم سے شاعری کا جو چشمہ پھوٹاوہ بھی میرؔ کے بحرِ شاعری کا معلوم ہوا۔ گرچہ بقول کلیم عاجز انھوں نے میرؔ کی پیروی نہیں کی، انھوں نے کسی کی پیروی نہیں کی ،اگر پیروی ان کے مزاج میں ہوتی وہ غالبؔ کی پیروی کرتے۔ پھر بھی وہ کہہ گئے:
اس قدر سوز کہاں اور کسی ساز میں ہے
کون یہ نغمہ سرا میر کے انداز میں ہے
کلیم عاجز کی زندگی جس قدر میرؔ کی زندگی سے مشابہت رکھتی ہے اسی قدر ان کا فن بھی میر کے فن سے اپنا رشتہ ناطا جوڑنے کی کوشش کرتا ہے۔ کلیم عاجز نے اپنی نثر اور نظم دونوں میں میر کا ذکر بہت کیا ہے۔ بہر حال کلیم عاجز ایک الگ طرزِ خاص کے شاعر ہیں:
یہ طرز خاص ہے کوئی کہاں سے لائے گاجو ہم کہیں گے کسی سے کہا نہ جائے گا
کلیم عاجز اپنی منفرد غزلوں اور غزل کے منفرد اسلوب کے باعث بہت مشہور و مقبول ہوئے۔ لیکن ان کی نظمیں بھی بلا کی پر کشش اور دلوں کو مسحور کرنے والی ہیں۔ انھوں نے اپنی غزلوں اور نظموں کے بارے میں لکھا ہے:
’’جو تعارف غزلوں کا ہے وہی نظموں کا بھی ہے۔ غزل اشارے ہیں نظم تفصیل ہے۔ نظم کسی خاص موضوع پر ہے مگر موضوع کی ٹکنک اس میں استعمال نہیں کی گئی ہے۔ بس خون جگر کو محدود نہ کرکے پھیلاد یا گیا ہے۔ غزل میں آپ تشبیہ دیکھتے ہیں۔ نظم میں آپ مکمل تصویر دیکھتے ہیں۔ جن الفاظ چراغ، شمع، درد، لہو سے غزلوں کا طلسم کھلتا ہے انھیں کلیدی الفاظ سے نظموں کا طلسم بھی ٹوٹے گا …..خون جگر کی کارفرمائیاں یہاں بھی ہیں ۔ آپ غزل کا کوئی شعر پڑھ کر آنکھ بند کر لیں گے تو تصور میں ایک مکمل افسانہ یا کہانی کا نقشہ آجائے گا۔ نظموں میں آنکھیں بند کرنے کی ضرورت نہیں رہے گی ۔ واقعات آپ کے سامنے ہوں گے اور الفاظ کے چوکھٹے میں صاف تصویریں آویزاں ہوں گی۔‘‘(کوچہ جاناں جاناں، کلیم عاجز ،عرشی پبلیکشنز انڈیا، اکتوبر ۲۰۰۲، ص:۹۷-۸۷)
کلیم عاجز کی شاعری کا جو ایک طرز خاص ہے اس میں خون جگر کو اولیت حاصل ہے۔ خون جگر اور نہاں خانے کا دردوغم ان کی شاعری کی معراج ہے۔ میرؔ کی طرح کلیم عاجز نے بھی درد وغم کی آپ بیتی کو جگ بیتی بنا یا ہے۔ کلیم عاجز کے دل میں درد ہر طرح کے تھے۔ اسی لیے وہ متعدد اہم شخصیات کی وفات پر دل برداشتہ بھی ہوئے اور دل کے اندر پیدا ہونے والی کشمکش ، تڑپ، حسرت و یاس اور کسک کو الفاظ کے سانچے میں ڈھال کر دل سے باہر نکالنے کی کوشش بھی کی ہے اور اسی کوشش میں انھوں نے کئی نظمیں لکھ ڈالیں۔ ان کی کتاب ’’کوچہ جاناں جاناں‘‘میں یہ نظمیں شامل ہیں۔ یہ کتاب بھی اپنی نوعیت میں عجیب اور منفرد ہے۔ نہ تو مکمل شاعری اور نہ ہی مکمل نثر ہے۔ اس کتاب میں کلیم عاجز نے نعتوں، نظموں اور شخصیات پر لکھی گئی نظموں کو یکجا کیا ہے۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ ہر نعت اور نظم سے قبل اس کا تعارف اور پس منظر بھی بیان کیا ہے جس سے نظم کی تفہیم میں آسانی پیدا ہوتی ہے۔ اسی طرح نعتوں اور نظموں کا مقدمہ بھی الگ الگ تحریر کیا ہے۔ اس کتاب میں جن شخصیات پر نظمیں شامل ہیں جنھیں شخصی مرثیے بھی کہا جاسکتا ہے وہ اہم شخصیات جگر مرادآبادی، مولانا ابواالکلام آزاد، امین احمد مرحوم، فضل حق آزاد، جواہر لال نہرو، سید حسن عسکری، وحشت کلکتوی، سہیل عظیم آبادی، جمیل مظہری، شاد عظیم آبادی وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ان شخصیات پر آپ نے جو نظمیں لکھیں ہیں،در اصل دل کے اندر جو درد اٹھا اسے صفحہ قرطاس پر بکھیر دیا۔ اس کے علاوہ انھوں نے کچھ لوگوں پر فرمائشی نظمیں بھی لکھی ہیں جن میں قاسم صہبا جمیلی، کلیم الدین احمد، خورشید حسن، ٹیگور، منظور حسن اعجازی، ذاکر حسین وغیرہ شامل ہیں۔
دس دس مصرعوں والی تین بند پر مشتمل نظم ’’جگر مرادآبادی کی موت پر‘‘اس کتاب میں شامل پہلا شخصی مرثیہ ہے۔ اس نظم کو پیش کرنے سے قبل ایک طویل تمہید اور پس منظر ہے۔ تمہید میں فلسفیانہ بحث ہے جو تلاشِ حسن، طلبِ حسن، تخلیقِ حسن اور اظہارِ حسن کے اردگرد گھومتی ہے اور پس منظر میں جگر مرادآبادی کی شہرت اور اس دور میں غزل کے مخالفین کی دھمک کے دوران جگرؔ کی رحلت ، ان سب کا ذکر اور پھر تین بند کی نظم جس کی تاثیر دلوں کوجھنجھوڑنے والی ہے۔ اس نظم میں غم کی شدت اور حرارت تیز و تند ہے۔ کلیم عاجز لکھتے ہیں:
اس نظم میں کہیں جگر صاحب کا نام نہیں لیکن اس وقت کے غزل کی مخالفت کا دور ترقی پسند شاعری کا ابھار عظمت اللہ خاں کا مطالبہ غزل کی گردن زدنی کا اور عندلیب شادانی کی مغربی شاعری کی صفات سے سجی ہوئی غزلیہ شاعری، اس ماحول میں عروس غزل کو اپنی پوری نکھار، پوری بہار، پوری سجاوٹ، پوری آرائش، پوری جھنکار کے ساتھ لیے جگر صاحب مشاعروں میں الاپتے پھرتے تھے۔ اس کی آنکھوں کی مستی، زلفوں کی مہک سے خود بھی مست رہتے تھے دوسروں کو بھی مست کرتے پھرتے تھے۔ یکایک عروس غزل کو بے یار و مدگار دشمنوں کے ماحول میں بے سنگار چھوڑ گئے۔ اس کی جوانی ،اس کا شباب، اس کی مستی، اس کا آب و تاب، اس کی شوخی، اس کا حجاب، اس کی آگ، اس کا سہاگ سب برباد ہو گیا۔(کوچہ جاناں جاناں، کلیم عاجز ،عرشی پبلیکشنز انڈیا، اکتوبر ۲۰۰۲، ص:۹۳۱)
مذکورہ بالا اقتباس کے بعد نظم کے آخری بند کے آخری چارشعر ملاحظہ کیجیے جس میں کلیم عاجز نے غزل کے مخالفین کو للکارا بھی ہے :
شمع غزل بجھی جلا پروانۂ غزل
اب ہم ہیں اور لذت افسانۂ غزل
زلف سخن میں کون کرے شانۂ غزل
آئینہ توڑ کر گیا دیوانۂ غزل
اب کیا رہے گی حرمتِ کاشانۂ غزل
بے برہمن ہوا درِ بت خانۂ غزل
جتنے غزل شکن ہیں جہاں ہیں پکار دو
آجاؤ اب کھلی ہوئی گردن ہے ماردو
کلیم عاجز نے مولانا آزاد کو کبھی دیکھا نہیں کبھی سنا نہیں۔ جب مولانا آزاد کا ادبی دور عروج پر تھا اس وقت کلیم عاجز باشعور نہیں تھے جب کلیم عاجز باشعور ہوئے تو مولانا آزاد پوری طرح سیاست میں داخل ہوچکے تھے۔ لہٰذا کلیم عاجز نے ان کو ان کی تحریروں سے جانا جس کا ذکر انھوں نے ’’کوچہ جاناں جاناں‘‘ میں کیا ہے۔ مولانا آزاد کی وفات پر جو تصویر اخبارات میں شائع ہوئی اسی کو دیکھ کر کلیم عاجز کے دل میں جو طوفان برپاہوا اس کو انھوں نے رقم کردیا۔ وہ لکھتے ہیں:
’’جب وہ بستر مرگ پر تھے تو میں ان کے لیے دعائیں کر رہا تھا اور پھر آخر میں اخباروں میں جب ان کے انتقال کی خبر آئی اور خبر میں بستر مرگ کے آخری گھڑیوں کی جو مختصر لفظی تصویر اخبارمیں تھی۔ مولانا کے انتقال کے دوسری ہی صبح میں نے اپنے الفاظ میں منتقل کردی۔ شاید صبح صادق کے وقت مولانا کا سفر آخرت ہوااور اس وقت ان کے آس پاس اردگرد دائیں بائیں اور سرہانے جو لوگ تھے پنڈٹ جواہر لال نہرو اور مولانا حفظ الرحمن مرحوم اور ان کی اندرونی اور چہرے کی جو کیفیت اخبار میں تھی اور ان شخصیتوں کی ظاہری و باطنی کیفیات کی ایک تصویر ذہن میں بنائی اور انھیں الفاظ کے سانچے میں ڈھا ل دیا۔ (کوچہ جاناں جاناں، کلیم عاجز ،عرشی پبلیکشنز انڈیا، اکتوبر ۲۰۰۲، ص:۳۴۱)
مولانا آزاد پر لکھی گئی اس نظم کا ابتدائی بند ملاحظہ کیجیے:
رات کے پچھلے پہر کا وقت ہے
درد دل سوز جگر کا وقت ہے
امتحانِ چشمِ تر کا وقت ہے
کس کے سامان سفر کا وقت ہے؟
ایک عالم جب کہ محو خواب ہے
کون جانے کے لیے بیتاب ہے؟
مسدس میں کہی گئی اس پوری نظم میں کلیم عاجز نے اپنے اور لوگوں کے غم کی ترجمانی کی ہے۔ تصویر دیکھ کر تصویر کشی کی عمدہ مثال ہے۔ یہ بند ملاحظہ ہو:
سرنگوں بیٹھے ہیں احباب چمن
تابِ خاموشی نہ یارائے سخن
روشنی جس کی ہوئی ظلمت شکن
بجھتی جاتی ہے وہ شمع انجمن
اب جدا یہ ہمسفر ہونے کو ہے
قافلہ بے راہ بر ہونے کو ہے
’’امین احمد مرحوم کی موت پر ‘‘ تین بندوں پر مشتمل ایک مختصر سی نظم ہے۔ اس نظم سے قبل دو صفحے کا مختصر تعارف امین احمد مرحوم کا ہے جس میں کلیم عاجز نے ان کی شخصیت اور شبیہہ کی عکاسی کی ہے چونکہ کلیم عاجز امین احمد مرحوم سے متاثر تھے لہٰذا ان کی رحلت کی خبر ملتے ہی برجستہ اپنے خیالات کا اظہار اس نظم کی شکل میں کیا ہے۔ بہت ہی سہل اور آسان الفاظ و تراکیب پر مشتمل یہ نظم برجستگی میں کیا گیا اظہار عقیدت ہے۔
کلیم عاجز نے فضل حق آزاد پر ڈھائی تین گھنٹے کے مختصر سے وقفے میں ایک نظم کہی ہے جوان کے علم وفن کو محیط ہے۔ اس نظم میں فضل حق آزاد کے علم وکمالات اور فکروفن کو اختصار اور جامعیت کے ساتھ سمیٹنے کی کوشش کی گئی ہے۔ایک بندملاحظہ ہو:
نظر حسین تخیل وسیع فکر بلند
مشاہدات کی دنیا نظیرؔ سے دو چند
زبان عروض و قواعد کی ہر طرح پابند
بیاں کچھ ایسا سبک جیسے خوش خرام سمند
ہر اک قدم پہ صفائی کا سادگی کا لحاظ
جنچے تلے ہوئے جملے جنچے تلے الفاظ
فضل حق آزاد پر لکھی گئی اس نظم میں کلیم عاجز نے ان کی خوبیاں بیان کی ہیں اور ایک جگہ غلو سے بھی کام لیا ہے۔ مذکورہ بالا بند کے دوسرے مصرعے میں فضل حق آزاد کے مشاہدات اور قوت مشاہدہ کو نظیر اکبرآبادی سے دو چند بتایا ہے۔ یہ رائے کس حد تک صحیح ہے قابل غور اور محل نظرہے۔ اہل زبان وادب اچھی طرح جانتے ہیں کہ نظیر اکبرآبادی کا اردو ادب میں کیا رتبہ اور کیا مقام ہے ۔ ان کی قوت مشاہدہ کی غماز ان کی نظمیں ہیں جن میں پوری ہندوستانی تہذیب سمٹ آئی ہے۔
کلیم عاجز نے نہرو کا بھی مرثیہ برجستہ لکھا ہے۔ ریڈیو پر خبر سنی، شہر میں ہوٗ کا عالم دیکھا اور مرثیہ کہہ ڈالا۔
دیش کی دنیا کا رکھوالا دل کی دنیا لوٹ گیا
ایسا ساتھی پھر نہ ملے گا جیسا ساتھی چھوٹ گیا
نہرو پر لکھی گئی یہ نظم بھی کلیم عاجز کے دل پر لگی چوٹ کی غماز ہے۔ انھوں نے اس نظم کے تعارف میں لکھا ہے کہ ’’پوری پوری خارجی اور داخلی کیفیت جو میں نے خود محسوس کی اور دیکھی اور سنی وہ میرے قلم سے تقریباً قلم برداشتہ کاغذ پر ڈھل گئی جذبات اس نظم میں صرف ایک بند میں ہیں‘‘:
منزل تک پہنچاکر سب کو کس کا قدم منزل سے اٹھا
موجیں چھاتی پیٹ کے روئیں شور لب ساحل سے اٹھا
آنسو ہر ایک آنکھ سے ٹپکا اور دھواں ہر دل سے اٹھا
پیار کا بندھن کس نے توڑا کون بھری محفل سے اٹھا
آہوں کی آندھی چلتی ہے سنکھ پھنکا ہے نالوں کا
بازو تھر تھر کانپ رہاہے دامن تھامنے والوں کا
کلیم عاجز نے سہیل عظیم آبادی کا مرثیہ میرؔ کی زمین ’’کیا دوانے نے موت پائی ہے‘‘ میں کہا ہے۔ یہ نظم سہل ممتنع کی عمدہ مثال ہے۔ عموماً کلیم عاجز کے تمام مرثیے سادگی وپرکاری کے حامل ہوتے ہیں لیکن اس مرثیہ کی سہل انگاری کچھ زیادہ ہی ہے جس کا مطلع ہے :
غم نے یوں گدگدی لگائی ہے
آنکھ ہر شخص کی بھر آئی ہے
پوری نظم غزل کی ہےئت میں اسی سہل انگاری سے بھری پڑی ہے اورنظم کا اختتام میرؔ کے مقطع پر ہوا ہے۔ دو چار اشعار ملاحظہ ہوں:
آنسؤں کے ہیں قمقمے روشن درد نے انجمن سجائی ہے
آب گنگ و جمن کے سنگم پر آج ہنگامۂ جدائی ہے
پاس جیتے ہو دور مرتے ہو کیا یہی رسم آشنائی ہے
تم نے مر کر پرائی بستی میں
چوٹ اپنوں کو جو لگائی ہے
علامہ جمیل مظہری کی رحلت پر ان کا مرثیہ کلیم عاجز نے انھیں کے مشہور شعر کی زمین میں کہا ہے۔ وہ مشہور شعر اس نظم کا آخری شعر بھی ہے۔ پورے مرثیے میں کہیں بھی جمیل مظہری کے نام کا تذکرہ نہیں اور نہ ہی ان کی طرف اشارہ ہے۔ صرف ایک شخصیت کے علم وکمالات کی پرتیں کھولی جارہی ہیں۔ اس شخصیت کے چلے جانے پر جو غم و اندوہ کی کیفیت کا عالم ہے اس کا بیان ہے اور آخر کے دو شعر کے ذریعے سارا بیان جمیل مظہری کی جانب موڑدیا جاتا ہے۔
جو نام پوچھا اک اجنبی نے کہا یہ بے ساختہ کسی نے جنازہ یہ جارہا ہے جس کا یہ شعر مشہور ہے اسی کا
’’بقدر پیمانۂ تخیل سرور ہر دل میں ہے خودی کا
اگر نہ ہو یہ فریب پیہم تو دم نکل جائے آدمی کا‘‘
کلیم عاجز نے ان شخصیات کے علاوہ اور کئی شخصیتوں پر بھی نظمیں کہی ہیں۔ یوم شاد کے موقع پر شاد عظیم آبادی پر دو نظمیں کہی ہیں۔ اسی طرح پٹنہ یونیورسٹی میں اقبال صدی کے دوران یوم اقبال کے انعقاد کے موقع پر علامہ اقبال پر مولود اقبال کے عنوان سے ایک بہترین طویل نظم کہی تھی۔بالعموم کلیم عاجز کی ان تمام نظموں کا مطالعہ کیا جائے جو کسی شخصیت پر لکھی گئی ہیں تو وہ شخصی مرثیے کی صورت میں ظاہر ہوں گی۔ بالخصوص وہ نظمیں جو انھوں نے خود سے لکھی ہیں۔ جبکہ انھوں نے کئی نظمیں متعدد شخصیات پر فرمائش پر لکھی ہیں۔ اُن نظموں میں وہ بات نہیں جو ان مذکورہ بالا نظموں میں ہے۔ اس مختصرسے مضمون میں کلیم عاجز کی چند نظموں کا مختصراً تجزیہ پیش کیا گیا ہے۔ ان کی نظموں کے تفصیلی تجزیے سے کئی جہتیں اور کئی زاویے ابھر کر سامنے آئیں گے ۔ضرورت ہے کہ ان کی نظمیہ شاعری کا بالاستعیاب مطالعہ کیا جائے جوکسی ایک مضمون میں ممکن نہیں ہے۔ بہر حال کلیم عاجز جس طرح غزل کے ایک منفرد شاعر تسلیم کیے گئے ہیں اسی طرح ان کی نظمیں بھی اپنی الگ شناخت رکھتی ہیں۔یہاں یہ بھی ذکر کردوں کہ کلیم عاجز کی نثر بھی بہت دلچسپ ہوتی ہے۔ ان کی نثر میں شعریت کے لوازمات بھی پائے جاتے ہیں۔ اس کا مشاہدہ اس کتاب ’’کوچہ جاناں جاناں ‘‘ میں بھی کیا جاسکتا ہے۔
*****

Salman Faisal
370/6A Zakir Nagar Okhla
Jamia Nagar New Delhi – 110025
sfaisal11@gmail.com
9891681759
26982601

Leave a Reply

1 Comment on "کلیم عاجز کی نظمیں۔ متعدد شخصیات کے حوالے سے
"

Notify of
avatar
Sort by:   newest | oldest | most voted
trackback

[…] 113.     کلیم عاجز کی نظمیں۔ متعدد شخصیات کے حوالے سے […]

wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.