انسانی قدروں کا علم بردار: کبیر داس
ہندوستان برسوں سے مختلف مذاہب و مسالک کے ماننے والوں کا مسکن رہا ہے اس ملک میں انسانی قدروں یعنی امن و محبت، اخوت و بھائی چارگی عدم تشدد اور انسانیت کا درس مختلف مذاہب کے ذریعہ دیا جاتا رہا ہے۔ کوئی بھی مذہب نفرت و حقارت، اختلاف و انتشار، تشدد اور غیر انسانی اعمال کی تلقین نہیں کرتا۔
اس دنیا میں جب جب ظلم و زیادتی عام ہوئی انسانیت اور انسان دوستی ختم ہوئی۔ تب تب اوپر والے نے لوگوں کی رہنمائی کے لئے مفکر اور مصلح بھیجے ۔ کہیں اور نہ جاکر ہندوستان اور اس کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو ہمیں بہت سے ایسے بزرگ نظر آئیں گے جنہوں نے قوم کی اصلاح کے لئے خود کو وقف کردیا۔ اپنی زندگی کا تمام تر حصہ ملک وملت کی خدمت میں صرف کیا۔ اپنے اقوال و اعمال اور افعال سے سماجی تعصب، تنگ نظری، مذہبی، لسانی اور علاقائی تفریق کو مٹا دیا۔ ہندوستان کو خوبصورت ہندوستان بنانے اور اس ملک میں سماجی ہم آہنگی قائم کرنے میں صوفیوں، رشیوں ، منیوں کا خاص رول رہا ہے۔ اس ضمن میں خواجہ معین الدین چشتی، حضرت نظام الدین اولیاء، امیر خسرو، کبیر اور گرونانک وغیرہ کا نام بطور خاص لیا جاسکتا ہے۔ آج کا ہندوستان اور آج کے ہندوستان کا ماحول اور اس کے حالات ناگفتہ بہ ہیں۔ ہر چہار جانب خلفشار ، مذہبی، لسانی اور علاقائی نفرت ، مسلکی اور مذہبی عدم رواداری کا دور دورہ ہے لوگ رقابت اور عداوت و نفرت کے شکار ہیں ، ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہیں اور انسانیت کو بالائے طاق رکھ کر حیوانیت پر آمادہ ہیں۔ جب حالات ایسے پر خطر ہو جائیں تو ضروری ہوجاتا ہے کہ ایسے بزرگوں کے احوال ، ان کی زندگی کے نشیب و فراز اور ان کے پیغامات اور اخلاق و کردار کو عام کیا جائے۔
ہمارے بزرگوں نے اپنی تعلیمات اور تخلیقات کے ذریعے سماجی ہم آہنگی اور گنگا جمنی تہذیب کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا۔ انہوں نے انسانیت اور محبت کا درس دیا۔ سماجی ہم آہنگی کے فروغ میں نمایاں کردار ادا کرنے والے کبیر داس کے سلسلے میں تاریخ نگار اس بات پر متفق ہیں کہ کبیر بنارس کے لہر تارا میں ۸۹۳۱ء میں پیدا ہوئے اور ۰۲۱؍ سال کی طویل عمر پاکر ۸۱۵۱ء میں انتقال کیا۔ کہا جاتا ہے کہ کبیر ایک بیوہ برہمنی اور لاپتہ باپ کی اولاد تھے۔ایک روایت یہ بھی ہے کہ رامانند ایک برہمن بھکت کی بیوہ نے کبیر کو پیدا کرتے ہی لہرتارا تالاب کے کنارے چھوڑ دیا۔ کبیر کی پرورش نورالدین عرف نیرو اور اس کی بیوی نعیمہ عرف نیمانے کی۔ نیرو اور نیماکا تعلق ایک مفلس اور پسماندہ گھرانے سے تھا۔ کبیر کابچپن اور جوانی نامساعد حالات میں بسر ہوئی۔ زندگی کے ابتدائی دنوں میں کبیر بنائی کے کاموں میں نیرو کی مدد کرتے اور بنے ہوئے کپڑوں کو بازار میں لے جاکر فروخت کرتے تھے۔
کبیر بچپن ہی سے رامانند سے بہت متاثر تھے۔ نو عمری ہی میں رامانند کے مرید اور شاگرد بننا چاہتے تھے۔ کبیر اور سوامی راما نند سے متعلق ایک واقعہ بہت ہی مشہور ہے کہ کبیر ایک رات گنگا گھاٹ کے کنارے سیڑھیوں پر لیٹے ہوئے تھے کہ سوامی رامانند کا گزر ہوا۔ سیڑھیوں سے اترتے ہوئے رامانند جی کا پیر اندھیرے میں کبیر پر پڑا اور ان کے منہ سے بے اختیار نکلا بیٹا رام نام کہہ۔ اسی وقت کبیر نے اس کو گرو منتر مان لیا اور انہیں اپنا استاد سمجھنے لگے۔ کبیر کے رام اور رحیم میں کوئی فرق نہیں۔ کبیر کے رام دشرتھ کے رام سے الگ ہیں۔ کبیر نے رامانند جی کے علاوہ شیخ تقی سے بھی استفادہ کیا ہے۔
اگر کبیر کی ازدواجی زندگی پر غور کیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ کبیر کے دو اولاد ایک بیٹا کمال اور ایک بیٹی کمالی تھی۔ان کی دو بیویاں تھیں۔ جن میں سے ایک بیوی گھریلو اور سنجیدہ تھی اور دوسری بیوی دھنیا بہت ہی شوخ و چنچل تھی۔ بہر کیف کبیر کی پرورش ایک پسماندہ اور متوسط طبقے کے مسلمان گھرانے میں ہوتی ہے۔ ہوش سنبھالتے ہی محبت، انسانیت ، مساوات اور باہم یگانگت کا درس لیتے ہیں۔
عشق اور انسانیت کو بطور مذہب قبول کرتے ہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ عشق و محبت اور انسانیت ہی وہ طاقت ہے جو اختلاف و انتشار باہمی تعصب اور بغض و عناد کا خاتمہ کرسکتی ہے۔ چنانچہ سماجی آہنگی، آپسی بھائی چارے اور انسانیت کے در س کو اپنا نصب العین بناکر سماج میں پھیلی ہوئی برائیوں ، کبر و غرور ، نمود نمائش ، ذات پات اور اونچ نیچ جیسی بیماریوں کا خاتمہ کرنا چاہا۔ کبیر نے ان لایعنی برائیوں کو ختم کرنے کے لئے شاعری کا سہارا لیا۔ ان کے نزدیک اولاد آدم اللہ کے بندے ہیں۔ کسی کو حقیر اور معمولی نہیں سمجھنا چاہئے۔ کبیر کو غیر انسانی اعمال، ذات پات اور اعلیٰ و ادنیٰ کے مابین تفریق پسند نہیں۔ انہیں مسجد ومندر سے کوئی پریشانی نہیں ہے بلکہ وہ ان مذہبی عبادت گاہوں کے غلط استعمال سے پریشان ہیں۔ انہیں کسی سے کوئی بھی تکلیف و پریشانی نہیں۔ وہ انسانیت کے علم بردار ہیں۔ چنانچہ کہتے ہیں:
کبرا کھڑا بجار میں مانگے سب کی کھیر
نہ کاہو سے دوستی نہ کاہو سے بیر
کبیر انسانیت اور خود شناسی کا درس دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اے لوگو! تمہارا خدا اور تمہارا معبود پورب و پچھم ، مسجد و مندر اور کعبہ و کیلاش میں نہیں ملے گا۔ تم اسے کہاں تلاش کررہے ہو وہ تو تمہارے پاس تمہارے شہ رگ سے بھی قریب ہے۔ تم اپنے اندر جھانک کر دیکھو وہ تمہیں تمہارے اندر دکھائی دے گا۔ وہ ہم سب میں بستا ہے۔ پروفیسر صغیر افراہیم اپنے ایک مضمون میں کبیر کی شخصیت کی عکاسی اس طرح کرتے ہیں۔
’’کبیر نے اپنے کلام میں اس کا بار بار اعتراف کیا ہے کہ نہ میں آستک ہوں نہ ناستک، نہ مسلمان ہوں نہ ہندو، نہ میں نوکر ہوں نہ مالک، نہ میں قید میں ہوں نہ آزاد، نہ میں کسی سے الگ ہوں اور نہ کسی جیسا، میں تو فقط پانچ اجزاء ، آگ ، پانی ، مٹی، ہوا اور آکاش کا بنا۔
ہواایک پتلا ہوں۔ جس کے اندر روح کہیں کھیل رہی ہے اور اس کھیل میں سب کچھ کیا دھرا اپنے اعمال کا ہے یہ نکتہ جو سمجھ گیا وہی سچا اور نیک انسان ہے۔‘‘
کبیر چاہتے ہیں کہ انسان کا دل صاف ستھرا ہو اور باطن پاک صاف ، انسان کا دل انسانیت سے لبریز ہو۔ ان کے نزدیک خارجی اور ظاہری چیزوں کی کچھ خاص اہمیت نہیں۔ اگر من کا میل دور نہ ہو تو نہانے دھونے سے کیا فائدہ ۔ مچھلی تو ہمیشہ پانی میں رہتی مگر پانی سے دھونے سے بھی اس کو بو نہیں جاتی۔ چنانچہ کہتے ہیں:
نہائے دھوئے کِیا بھیا جو من میل نہ جائے
مینن سدا جل میں رہے دھوئے باس نہ جائے
کبیر دوسروں کی مدد کرکے خوشی محسوس کرتے ہیں خود کے لئے دست سوال دراز کرنے میں عار سمجھتے ہیں مگر دوسروں کے فائدے کے لئے دست سوال پھیلانے میں انہیں کوئی شرم نہیں آتی ہے۔
مرجاؤں مانگوں نہیں، اپنے تن کے کاج
پر مارتھ کے کار نے موہن نہ آئے لاج
پروفیسر شافع قدوائی اپنے ایک مضمون ’’انسانیت کے فروغ میں امیر خسرو اور کبیر کی خدمات‘‘ میں امیر خسرو اور کبیر کی شعری عظمت اور ان کی شاعری کے امتیازات پر یوں روشنی ڈالتے ہیں:
’’مذہب کے خارجی مظاہر کے تئیں دونوں فن کار اپنے شدید رد عمل کا اظہار کرتے ہیں اور یہی ان کی شاعری کا مرکزی حوالہ بھی ہے۔ فروعی اختلافات کو باہمی موانست کی راہ میں حارج نہ ہونے دینے کی یہ دونوں تلقین کرتے ہیں اور رواداری، احترام آدمیت، بے تعصبی، غیر جانبداری ، حق پرستی اور ناانصافی اور استحصال کی مختلف شکلوں کے خلاف پرزور احتجاج کی ترویج ان کی شاعری کا مابہ الامتیاز عنصر ہے۔ وحدت انسانی کو مذہب کی خارجی پیروی کبھی پارہ پارہ نہیں کرسکتی۔‘‘
اس اقتباس کے بعد کبیر کے چند اشعار دیکھئے:
وید قرآن کتیبا نانا بھات برکھانی
ہندو ترک جین اَرُو جوگی ایکل کاہوں نہ جانی
دُئ جگدیش کہاں تے آتے کہاں کون بھرمایا
اللہ رام کریم کیشو حضرت دھرایا
گہنا ایک کنک تے گہنا تامے بھاؤ نہ دوجا
کَہَن کھَنَن کو دُئ کر دھاتے ایک نماز ایک پوجا
ان اشعار میں کبیر کہتے ہیں کہ دنیا کے دو مالک کہاں سے آئے۔ یہ بتاؤ کہ تم کو کس نے دھوکا دیا یا غلط فہمی میں مبتلا کیا۔ ایک ہی ذات کے مختلف نام اللہ، رام ، کریم ، کیشو ، ہری اور حضرت وغیرہ رکھ لئے۔ اس میں کوئی شبہہ نہیں کہ گہنہ ایک ہی سونے سے بنتا ہے ۔ کہنے سننے کو دو باتیں قائم کر لیں کہ ایک نماز پڑھتا ہے اور دوسرا پوجا کرتا ہے۔ وہی مہا دیو ہے اور وہی محمد۔اسی کو برھمی کہتے ہیں اور اسی کو آدم۔ جب ایک ہی زمین پر رہتے ہیں تو کوئی مسلمان اور کوئی ہندو کہاں کا ہے۔ کوئی وید پڑھتا ہے اور کوئی قرآن۔ کوئی مولانا ہے تو کوئی پنڈت۔ طرح طرح کے نام رکھوائے ہیں مگر اس ایک ہی دھات کے برتن۔
کبیر نے اپنی شاعری میں اس طرح کی باتیں کئی بار دھرائی ہیں۔ ان کا مسلک اور مذہب محبت اور انسانیت ہے۔ انہوں نے مشابہت اور مفاہمت کی راہ تلاش کی۔ اختلاف و انتشار کو کم کیا۔ زمین پر پائی جانے والی چیزوں سے محبت کرنے انسانوں سے محبت کے ساتھ ساتھ چرند و پرند سے بھی محبت کی تلقین کی ہے۔ محبت کی تلقین کرتے ہوئے انہوں نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ڈھائی اکشر پریم کا پڑھنے والا بڑے بڑے پنڈتوں پر بھی بھاری ہے۔ شعر ملاحظہ کریں:
پوتھی پڑھی پڑھی جگ موا، پنڈت بھیا نہ کوئے
ڈھائی آکھر پریم کا، پڑے سو پنڈت ہوئے
عقیدے کے اعتبار سے کبیر اسلام کے فلسفہ وحدانیت کے بڑی حد تک قائل نظر آتے ہیں چنانچہ کہتے ہیں:
جاکے منہ ماتھا نہیں، نہیں ہے روپک روپ
جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ سرد ھڑ اور چہرے جیسے جسمانی اعضاء اور وضع قطع سے بری ہے ایک جگہ کہتے ہیں کہ میرا مالک تو وہی ہے جو پیدائش اور موت سے معریٰ ہے میں اپنے محبوب پر نثار ہوں جو سبھی کا خالق ہے ۔ مزید کہتے ہیں :
ایک کہوں تو ہے نہیں دو کہوں تو گار
ہے جیسا تیسا رہے کہے کبیر وچار
کبیر پڑھے لکھے نہیں تھے اس لئے انھوں نے بہت سی سنی ہوئی باتوں پر یقین کرلیا جس کی بنا ء پر ان سے کئی جگہ چوک بھی ہوئی اور غیر دانستہ طور پر ایک عقیدے پر چوٹ بھی کردی۔
جب مؤذن حی علی الصلاۃ اور حی علی الفلاح کہتا ہے تو اس کا مطلب یہی ہوتا کہ وہ خدا کے بندوں کو بتارہا کہ نماز کا وقت ہوگیا آؤ نماز اور کامیابی کی طرف۔ مؤذن خدا کے بندوں کو آواز دیتا ہے نہ کہ خدا کو۔ تعلیم یافتہ نہ ہونے کی وجہ سے کبیر کہتے ہیں:
کانکڑ ، پاتھر، جوڑ کے مسجد لیو چنائے
تاچڑھ ملا بانگ دے، بہرا بھیا خدائے
یعنی کنکڑ پتھر سے ایک مسجد تعمیر کی گئی اور اس پر ایک ملا جاکر بانگ دے رہا ہے (اذان کہہ رہا ہے) تو کیا خدا بہرا ہے جو بانگ دینے کی ضرورت پڑرہی ہے۔ اس زمانے کے ہندو کلچر کے بارے میں کہتے ہیں:
پاہن پوج ہر ملے تو میں پوجوں پہاڑ
تاکہ یہ چاکی بھلی پیس کھائے سنسار
مطلب یہ ہے کہ اگر پتھر کو پوجنے سے بھگوان مل سکتا ہے تو ایک چھوٹا سا پتھر کیا میں پہاڑ کو چل کر پوجوں۔ اس پوجے جانے والے پتھرسے بہتر پتھر کی وہ چکی ہے جس میں گیہوں پیس کر ساری دنیا اپنا پیٹ پالتی ہے۔ اس شعر میں ایک مذہب پر طنز کے ساتھ ایک اہم مسئلے یعنی غریبوں کے پیٹ بھرنے ، غربت اور اسے دور کرنے کی طرف اشارہ کیا ہے۔ پیش کئے گئے ان دو اشعار کی روشنی میں یہ کہنا پڑتا ہے کہ اگر کبیر پڑھے لکھے ہوتے تو شاید ایسی بات نہ کہتے۔
کبیر ایسے شاعر ہیں جنہوں نے ایک خاص مقصد کے تحت شاعری کی۔ انہوں نے اپنی بات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچایا۔ اگر کبیر کے کلا م کا لسانی مطالعہ کیا جائے تو اس میں پوربی، پنجابی، راجستھانی، عربی اور فارسی الفاظ کا استعمال خوب نظر آئے گا۔ کبیر کے کلام میں اس طرح کے لفظوں کا استعمال یہ شہادت دیتا ہے کہ کبیر ان زبانوں اور بولیوں کے عالم تھے۔ کبیر کے دوہوں کو پنجابی، پوربی، کھڑی اور ہریانوی زبانوں کا سنگم کہا جاتا ہے۔ نیز یہ بھی کہا جاتا ہے کہ کبیر برج ہندی، مارواڑی اور پنجابی کے بول چال کے الفاظ سے ہی کام چلا لیتے ہیں۔
اس ضمن میں پروفیسر مجیب رضوی رقمطراز ہیں:
’’کبیر داس کا کوئی ایک رنگ نہیں۔ ان کا کوئی ایک آہنگ نہیں۔ وہ جس سے مخاطب ہوتے ہیں اس کی اصطلاحات میں بات کرتے ہیں۔ بھاشا کے جس علاقے میں پہنچتے ہیں اس کی آب وہوا میں سانس لیتے ہیں۔ اسی وجہ سے ان کے کلام میں بھاشا کا ہر رنگ نظر آتا ہے اور اس میں بسی ہر طرح کی خوشبو سے ذہن معطر ہوتا ہے۔‘‘
آج پورے ہندوستان میں فرقہ پرستی اور دہشت گری جیسی خطرناک چیز متعدی بیماری کی طرح پھیل رہی ہے۔ ذات پات اور مذہب و مسلک کے نام پر سیاسی بازی گری کی جارہی ہے۔ انسان سے انسانیت ختم ہوتی جارہی ہے۔ جب حالات ایسے ہو جائیں تو خواجہ معین الدین چشتی، نظام الدین اولیاء، امیر خسرو، شنکر آچاریہ، تیاگ راج، سوامی رامانند، رابندر ناتھ ٹیگور، گرونانک اور کبیر داس وغیرہ کی اہمیت و افادیت مزید بڑھ جاتی ہے۔ ان بزرگوں کے پیغامات اور تعلیمات ہی صحیح سمت لے جاسکتی ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان بزرگوں کی تعلیما ت کو عام کرنے کے ساتھ ان کے پیغامات کو عملی جامہ پہنایا جائے۔
Leave a Reply
1 Comment on "انسانی قدروں کا علم بردار: کبیر داس
"
[…] انسانی قدروں کا علم بردار: کبیر داس […]