کبیرداس ایک عظیم دانشورِ
کبیر داس اردو کے شاعر تھے یا ہندی کے یہ بحث ایسے ہی ہے جیسے کہ کبیر داس کے ہندو یا مسلمان ہونے کی بحث، اس کا فیصلہ اس زمانے میں جس طرح کبیر داس کے چاہنے والوں نے کیا تھا اسی طرح آج کے لوگوں کو بھی کرلینا چاہئے۔ دراصل کبرداس کے زمانے میں نہ ہندی تھی نہ اردو، سنسکرت سے اپ بھرنسوں تک کے سفر میں زبان نے جو ترقی کی تھی اس کا اعلی نمونہ ہمیں کبیر کے دوہوں میں ملتا ہے۔ ان کی زبان کا نکھار اور سادہ پن ہی ہے کہ آج کی اردو سے وہ قلی قطب شاہ کی اردو کے مقابلہ میں زیادہ قریب نظر آتی ہے۔ آج بھی ہم گاؤں اور دیہات میں کبرداس کی شاعری کو عوام کی زبان سے سنتے ہیں اور لطف لیتے ہیں۔ اردو کے اہم ناقدین نے کبیر کو اردو کا اہم شاعر شمار کیا ہے۔ مشہور ترقی پسند ناقد سردار جعفری نے پیغمبران سخن کے نام سے ایک کتاب لکھی ہے جس میں وہ میر اور غالب کے ساتھ تیسرا شاعر کبیر ہے۔ اردو شاعری میں کبیر داس کو قلی قطب شاہ سے بھی پہلے نظر آتے ہیں اس لیے کہ پیدائش کے لحاظ سے امیر خسرو کے علاوہ کوئی دوسرا ان سے پہلے نہیں ملتا ہے۔ ہمارے بعض ناقدین اس بات کا بھی اظہار کرتے ہیں کہ اردو ہمیشہ سے اشرافیہ کی زبان رہی ہے اس وجہ سے اس نے بالاتفاق قلی قطب شاہ کو اپنا شاعر تسلیم کرلیا لیکن عوامی شاعر کبیر داس کو اسے اپنا شاعر تسلیم کرنے میں تردد ہوا۔ وہ اسی پس وپیش میں رہے کہ ان کو اردو کا شاعر مانیں یا نہیں۔ یہی معاملہ اردوناقدین نے نظیر اکبرآبادی کے ساتھ بھی کیا۔ ان کو بھی بہت سے ناقد شاعروں میں شمار نہیں کرتے تھے۔ لیکن اب زمانہ بدلا ہے۔ سوچنے کا انداز بدلا ہے۔ اب نظیر اکبرآبادی کو اردو کا ایک الگ دبستان قرار دیا جاتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ عنقریب کبیر داس پر بھی اسی طرح توجہ دی جائے گی اور ان کو اردو کے اولین شعرا میں شمار کیا جائے گا۔
کبیر داس کی پیدائش
کبیر داس کے شاگرد دھرم داس نے ان کی پیدائش اور وفات کی تارخ چھند کی شکل میں بیان کی ہے۔ جس کے مطابق 11 جولائی 1470 میں ان کی پیدائش اور وفات 14 جنوری 1588میں ہوئی اس طرح ان کی کل عمر: 118 سال کے قریب ہوتی ہے۔
کبیر کا زمانہ سکندر لودھی کا زمانہ تھا۔ اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے کبیر کو تین دفعہ ہلاک کرنے کی کوشش کی۔ ایک بار آگ دوسری بار پانی اور تیسری بار ہاتھی سے کچل کر۔ لیکن اس پر مکمل طور پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا۔ سکندر لودھی کے تعلق سے ڈاکٹر تاراچند نے بھی لکھا ہے لیکن انہوں نے لکھا ہے کہ وہ سکندر لودھی کے کہنے پر بنارس سے مگہر آئے تھے۔ انہوں نے کہا تھا کہ بنارس میں تمہاری مخالفت زیادہ ہورہی ہے اور زندگی کا خطرہ ہے اس وجہ سے مگہر چلے جائیں۔ لیکن یہ خیال بھی صحیح نہیں معلوم ہوتا اس لیے کہ ان کی مگہر واپسی سکندر لودھی سے ملاقات کے برسوں بعد اس عقیدہ کو باطل قرار دینے کے لیے تھی کہ کاشی میں مرنے والے کو نجات ملتی ہے۔
کبیر داس کی پیدائش کے بارے میں بیشمار اقوال ملتے ہیں۔ سب سے زیادہ مشہور قول یہ ہیکہ ایک برہمن اپنی بیوہ بیٹی کے ساتھ سوامی رمانند کے پاس آئے۔ سوامی نے بیٹی کو دعا دی کہ تم کو پتر ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ یہ تو بیوہ ہے۔ سوامی نے کہا کہ ہماری بات ہوکر رہے گی۔ جب اس کو بچہ ہوا تو سماج کے ڈر سے انہیں تالات کے کنارے ڈال دیا۔ جہاں ان کو نیرو اور نعیمہ نام کامسلمان جوڑا جو ذات کا جولاہا تھا اٹھا لے گیے اور اپنے یہاں پرورش کی۔ کبیر داس کی پیدائش کے تعلق سے جتنی بھی کہانیاں ہیں اس میں ایک بات مشترک ہے کہ وہ تالاب کے پاس پرکٹ ہوئے۔ دراصل سادھو اپنی اصل کسی پر ظاہر نہیں کرتے تھے۔ اسی وجہ سے کبیر نے اپنے بارے میں کبھی صاف طور پر کچھ نہیں کہا۔ ان کی وفات کے بعد ان کے چاہنے والوں نے ان کے بارے میں بہت ساری باتیں پھیلادیں۔ اس لیے ان کی طرف سے منسوب بہت ساری کرامات کے بارے میں یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ واقعی انہوں نے ہی ان کو اپنی شاعری کے ذریعہ بیان کیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کبیر داس ہمیشہ نام نمود سے دور رہے۔ ان کی ذات سے بہت بعید ہے کہ انہوں نے اپنی کرامات کا ذکر خود کیا ہو۔ ان کے چاہنے والوں نے خود سے شاعری کرکے ان سے منسوب کردیا ہے۔ اس وجہ سے ان کے کلام کا ایک بڑا حصہ مستند نہیں ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ کبیر داس نے خود سے کوئی کتاب نہیں لکھی۔ انہوں نے اپنی زبان میں اپنے شاگردوں کو دوہوں کی شکل میں جوکچھ بیان کیا اس کو انکے شاگردوں نے ان کی وفات کے بعد لکھ دیا۔ ان کی شاعری کی تعدادکے بارے میں پورے وثوق کے ساتھ کچھ نہیں کہا جاسکتا۔
کبیر داس کے زمانے میں بھی لوگ ان سیپوچھا کر تے تھے جس کو بڑی خوبصورتی سے ٹال دیا کرتے تھے۔وہ کہا کرتے تھے۔
جات نہ پوچھوسادھ کی، پوچھ لیجیو گیان
مول کرو تروار کا، دھری رہن دیو میان
کبیر داس کو مشترکہ ہندوستانی سماج ورثہ میں ملا تھا۔ صوفیوں کی محبت اور میل ملاپ سے جو ہندوستانی لوگ مسلمان ہوئے وہ تعداد میں مہاجر مسلمانوں سے زیادہ تھے۔ انہوں نے اپنی سابقہ روایات کو تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ اپنا لیا تھا۔ ان میں سے اکثر غریب لوگ حج کے لیے نہیں جاسکتے تھے اس وجہ سے صوفیوں کی قبروں کی زیارت کے لیے مزار بنالیے۔ مورتی کی جگہ مزار، بھجن کی جگہ قوالی، پرساد کی جگہ تبرک رائج ہوا۔ اس طرح صرف عبادت کی جگہ کو چھوڑ کر ہندومسلم کا کلچر ایک ہوگیا تھا۔
کہا جاتا ہے کہ کبیر کوئی مفکر نہیں تھے اس لیے کہ انہوں نے مختلف مکاتیب فکر کے پہلؤں کا مطالعہ کرنے کے بعد ان سے اپنے اصول ونظریات اخذ کیے تھے۔ اگر اس بنیاد پر انہیں مفکر نہیں تسلیم کرنے سے گریز کیا جائے تو میرا ماننا ہے کہ دنیا میں کوئی بھی مفکر نہیں ہوسکتا اس لیے کہ یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ کوئی دوسروں کے افکار سے خوشہ چینی کے بغیر عالم یا مفکر بن جائے۔
ہندوستانی ادبیات کی تاریخ میں کبیرداس واحد ایسی شخصیت ہیں جن سے ان کے بعد کے تمام مفکر ین کسی نہ کسی حد تک استفادہ کیا ہے۔ تلسی داس کے رام چرتر مانس میں کئی کئی اقتباسات جوں کے توں کبیر کے موجود ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ کبیر توحید کے اور تلسی داس اوتار واد کے قائل تھے۔ سکھ مت اور کبیر کی تعلمیات میں حیرت انگیز مماثلت ہے۔اکبر نے جس دن کو معارف کرانا چاہا تھا وہ دین بھی تقریبا وہی تھا تو کبیر نے اپنے دوہوں میں پیش کیا تھا۔
کبیر ایک مصلح تھے۔ وہ سماج میں برابری دیکھنا چاہتے تھے۔ انہوں نے توحید کے عقیدہ کو اپنایا تھا لیکن ان کا عقیدہ مسلم توحید کے عقیدہ سے مختلف تھا ان کا ماننا تھا کہ مسلمانوں کا خدا صرف انہیں کے لیے ہے۔ غیر مسلموں کا خدا دوسرا ہے۔ اس وجہ سے یہاں بھی دوئی پائی جاتی ہے۔ اس کے لیے وہ رام یا برہم کا لفظ استعمال کرتے ہیں یہ تلسی داس کے رام سے مختلف ہے جو راجہ دسرتھ کے بیٹے تھے۔
ان کے نزدیک اصل انسان کی خوبیان ہیں نہ کہ دوسری ظاہری چیزیں۔ انہوں نے پوری زندگی ظاہر پرستی کے خلاف جہاد کیا۔ ان کے یہ اشعار ہمارے لیے مشعل راہ ہیں۔
سائیں سے سانچا رہو، سائیں سانچ سہائے
بھاویں لمبے بال رکھ بھاویں گھوٹ منڈائے
(مالک سے سچے رہو، مالک کوسچ پسند ہے، پھر چاہے لمبے بال رکھو یا سرمنڈوالو کوئی فرق نہیں پڑتا۔)
پوتھی پڑھ پڑھ جگ مْوا، پنڈت بھیا نہ کوئے
ڈھائی اچھر پریم کے پڑھے تو پنڈت ہوئے
(کتابیں پڑھ پڑھ کر دنیا مرگئی لیکن کوئی پنڈت نہ ہوا، پریم کے ڈھائی حرف جو پڑھ لے وہی پنڈت ہے۔)
کبیر کی شاعری ہمیں انسان دوستی اور انسانیت کی اعلی قدروں کی تعلیم دیتی ہے۔ وہ اپنی بات کو اتنے مدلل انداز میں پیش کرتے ہیں کہ سامنے والا لاجواب ہوجاتا ہے۔
دْربل کو نہ ستائیے جاکی موٹی ہائے
موئی کھال کی سانس سوں سار بھسم ہوجائے
(کمزور کو نہ ستائیے اس لیے کہ اس کی آہ میں بڑی طاقت ہے، جیسے کہ مردہ کھال (لوہار کی بھٹی) سے لوہا بھی بھسم ہوجاتا ہے۔)
دکھ میں سمرن سب کریں سکھ میں کریں نہ کوئے
جو سکھ میں سمرن کرے دکھ کاہے کو ہوئے
موڑ موڑائے ہر ملین سب کوؤ لیے مڑائے
بار بار کے منڈتے بھیڑ نہ بیکنٹھ جائے۔
یہ سارے اشعار یہ بتلاتے ہیں کہ انسان کو اپنے عمل میں سدھار کرنا چاہیے۔ ظاہری لباس اور رہن سہن کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہے۔
نہائے دھوئے کیا بھیا جو من میل نہ جائے
مین سدا جل میں رہے، دھوے باس نہ جائے
(اگر دل کی گندگی نہ دور ہو تو نہانے دھونے سے کیا فائدہ ، مچھلی ہمیشہ پانی میں رہتی ہے لیکن دھونے سے بھی اس کی بو نہیں جاتی)
گرو گوبند دونوں کھلے، کاکے لاگوں پاؤں
بلیہاری گرو آپنا، جن گوبند دیو ملائے
مذکورہ بالا اشعار پر ایک مرتبہ پھر سے ہم غور کرتے ہیں۔ کمزور کو نہ ستاؤ یہ ایک سادہ سی بات تھی، اس کے ساتھ یہ بھی کہا جاسکتا تھا کہ یہ ایک پاپ کا کام ہے۔ لیکن کبیر نے اس کو مدلل کرنے کے لییلوہار کی بھٹی سے تشبیہ دی۔ اس سے بہتر کوئی اور مثال اس کے لیے نہیں ہوسکتی تھی۔
اسی طرح دوسرے شعر میں ان کا یہ کہنا کہ سرمنڈانا کوئی پنیہ کا کام نہیں ہے۔ اس کوئی وہ وید یا قران کے اپدیش سے ثابت کرنے کے بجائے ایک سامنے کی چیز سے مثال دے رہے ہیں کہ بھیڑ کے بال اکثر کاٹے جاتے ہیں۔ اگر واقعی یہ ایک نیک کام ہوتا تو بھیڑ کو جنت میں جانا چاہیے۔
تیسرے شعر میں وہ کہتے ہیں کہ اصل چیز دل کی صفائی ہے۔ اگر دل صاف نہیں تو لاکھ اسنان کرلو کوئی فائدہ نہیں اس کی مثال بھی انہوں ایک ایسی چیز سے دی جو بالکل سامنے کی ہے۔ ہم سب دیکھتے ہیں کہ مچھلی پانی ہی میں رہتی ہے لیکن اس کی باس دھونے کے بعد بھی نہیں جاتی۔
آخری شعر میں کبیر گرو کو گوبند پر ترجیح دیتے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ کوئی کبیر سے اتفاق نہ کرے لیکن دوسرے ہی مصرعہ میں انہوں نے جو دلیل دی ہے اس کا قائل ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔
مذکورہ بحث صرف یہ بتانے کے لیے ہے کہ کبیر داس ایک مصلح ہی نہیں بلکہ ایک مفکر مصلح تھے۔ اگر کوئی یہ کہے کہ ان کی شاعری میں کوئی مربوط فلسفہ نہیں پایا جاتا تو میرا یہ کہنا ہے کہ کبیر کا فلسفہ زندگی کا فلسفہ ہے۔ اور زندگی خود اتنی پیچ دار ہے جس کا کوئی مربوط فلسفہ ہوہی نہیں سکتا۔
سردار جعفری کی زبان میں کبیر داس کی عظمت ہندی بھگتی اور مسلم تصوف کا حسین امتزاج ہے۔
کبیر داس کی شاعری کا مزاج مذہبی ہونے کے باوجود سیکولر تھا۔ انہی کی فکر وفلسفہ کی ترقی یافتہ شکل ہمیں ٹیگور اور اقبال کے یہاں ملتی ہے۔
آج کے اس دور میں جب کچھ لوگ ایک خاص قسم کی تہذیب کو فروغ دینے کی کوشش کررہے ہیں۔ ایسے میں جہاں اپنے ان بزرگوں کی روایات کو زندہ کرنا بہت ضروری ہے جنہوں نے دھرم اور ذات سے اوپر اٹھ کر انسانیت کی اعلی قدروں کی تعلیم دی۔
ایسی بانی بولیے من کا آپا کھوئے
اوروں کو شیتل کرے آپوشیتل ہوئے
***
Leave a Reply
Be the First to Comment!