بی۔ڈی۔کالیہ ہمدم ؔ کا سفر نامہ :’ آبشارِ ادب‘ ایک جائزہ
بی ڈی کالیہ ہمدمؔ ہریانہ کے ان قلم کاروں میں شمار ہوتے ہیں جن کو نظم و نثر دونوں میں یکساں طور پر لکھنے کی قدرت حاصل ہے۔اُردو کے ساتھ ساتھ ہمدمؔ ہندی، پنجابی اور انگریزی زبانوں میں بھی طبع آزمائی کررہے ہیں۔ اردو میں شعری مجموعے’درنایاب‘،’محرابِ فن‘،’اردو ناول ’ کس نام سے پکاروں‘ اور اردو ہندی میں شائع ہونے والی نادر تصنیف ’پرندوں کا عالمی مشاعرہ‘ وغیرہ خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ علمی ،ادبی، ثقافتی اور تہذیبی خدمات کے حوالے سے ہمدمؔ اردو زبان و ادب میں ایک معتبر نام ہے۔اپنے ادبی سفر کو ایک قدم اور آگے بڑھاتے ہوئے انھوں نے حال ہی میں ایک سفر نامہ ’آبشارِ ادب‘ کے نام سے تخلیق کیا ہے جو سفر نامے کی تاریخ میں ایک اضافہ بھی ہے اور بطور سفر نامہ نگار ہمدمؔ پہچان بھی ۔اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ شاعر ہمدمؔ کے باطن میں ایک سیاغ چھپا ہوا ہے۔
سفر نامے کی روایت بہت پرانی ہے۔ جب سفر نامہ ادب کا حصّہ نہیں ہوتا تھا تب بھی سفر نامے لکھے جاتے تھے۔ اردوسفر نامے کی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہوئے ہیں تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ یوسف خاں کمبل پوش کا سفر نامہ ’عجائبات فرنگ‘ اردو کا پہلا سفر نامہ ہے جس کو تاریخِ یوسفی بھی کہا جاتا ہے۔ اس سفر نامہ کا سنِ اشاعت ۱۸۳۷ء ہے۔دوسرا اہم سفرع نامہ متحدہ پنجاب کی جھّجر ریاست(موجودہ ہریانہ) کانواب کریم خاں کا ہے جن کا سفر نامہ لندن’سیاحت نامہ‘ کے نام سے ۱۸۳۹ء میں تحریر ہوا تھا۔ متحدہ پنجاب کے اس علاقہ میں مولوی محمد جعفر تھانیسری کا سفر نامہ تواریخ عجیب ،غلام الثقلین پانی پتی کا سفر نامہ و روزنامچہء سیاحت اور خواجہ احمد عباس کا مسافر کی ڈائری وغیرہ سفر نامے منظر عام پر آئے۔ ہریانہ کے وجود میں آنے کے بعد یہاں کے سفر ناموں میں جوہرکرنالی کا سفر نامہ سفر ہے شرط،مہندر پرتاپ چاندؔ کا ’یاد سب ہے ذرا ذرا‘ وغیرہ شمار کئے جاسکتے ہیں۔ اس سلسلے کی ایک کڑی بی ڈی ہمدمؔ کا سفر نامہ ’آبشارِ ادب ‘ ہے۔ سائنسی ترقی اور سفر کے تیز ترین ذرائع کے سبب سب آج کے دور میں سفر کرنا آسان بھی ہے اور وقت بھی کم درکا رہے۔ اس روشنی میں عہد حاضر کو سفر نامہ کا زریں عہد بھی کہا جاسکتا ہے۔ اس کا بین ثبوت گذشتہ تقریباً پچاس سال میں متعددسفر ناموں کا وجود میں آنا ہے۔
انسانی حیات کے لئے سفر ایک ایسی حرارت بخش غذا ہے جو انسان کے جسم کو تحریک اور دل و دماغ کو تازگی بخشتی ہے۔ سفر نامے سے متعلق خالد محمود لکھتے ہیں:
’’سفر کے وسیلے سے مسافر کی شخصیت میں ہواؤں کی پاکیزگی اور لطافت، پھولوں کا حسن اور نزاکت، پرندوں کا حوصلہ اور بلند پروازی، پہاڑوں کی بلندی اورعظمت، سمندروں کی گہرائی اور وسعت کے چراغ روشن ہو جاتے ہیں۔‘‘ (اُردو سفر ناموں کا تنقیدی مطالعہ،خالد محمود ،صفحہ ۲۱)
ہمدمؔ کا سفر نامہ ’آبشارِ ادب‘ حالیہ امریکہ اور انگلینڈ کے ۲۰۰۹ء کے سفر کی روداد ہے جس میں انھوں نے ان ملکوں کے مختلف مقامات کا ذکر اپنے اسلوب، اندازِ بیان اور ندرت و جدت کے ساتھ پیش کیا ہے۔ سفر نامہ کسی مخصوص تکنیک یا اصول کا پابند نہیں بلکہ سفر نامہ نگار کا مزاج اور تحریری برتاؤ ہی سفر نامے کا اصول اور تکنیک ہے۔اپنے ایک مضمون آبشارِ ادب کی ترنم ریزیاں میں ڈاکٹر سلطان انجم لکھتے ہیں:
’’یہ سفر نامہ محض سفر نامہ ہی نہیں بلکہ اردو مشاعروں کی ایک مستحسن روایت یعنی مشاعرے یا شعری محفل میں پڑھے گئے کلام کو گلدستہ کی صورت میں محفوظ کرلینے کی بھی تجدید ہے۔‘‘
(مضمون آبشارِ ادب کی ترنم ریزیاں، ڈاکٹر سلطان انجم، تعمیر ہریانہ اکتوبر نومبر ۲۰۱۳ء ، صفحہ ۳۱)
مصنفِ کتاب کا مقصد جہاں امریکہ اور انگلینڈ کے مختلف مقامات کی سیر کرنا تھا وہاں انھوں نے ا ن کی تاریک کو بیان کرتے ہوئے ان مقامات پراقامت پذیر اردو شخصیات سے ملاقات اور ان سے ادبی گفتگو کوبھی شامل کیاہے اور وہاں پر مقیم اہم اردو شعراء کا کلام بھی نقل کیا ہے۔
ادبی سفر کے حوالے سے بات کی جائے تو ان میں سیمیناروں، مشاعروں اور نشستوں میں شرکت مقصود ہوتی ہے۔ ادبی سفر سے جہاں ادب کی معتبر اور نامور شخصیات سے ملاقاتوں کا فخر حاصل ہوتا ہے اور ان سے رابطہ بڑھتا ہے وہیں تجربات میں گہرائی اور گیرائی پیدا ہوتی ہے۔ سفر نانہ نگاردورانِ سفر یا واپسی پر اپنے ذاتی تجربات و مشاہدات اورتاثرات و احساسات کو ترتیب دے کر جو تحریر رقم کرتا ہے وہی سفر نامہ ہوتا ہے وہ اپنے دل و جذبات اور احساسات کی آنکھ سے اشیاء کو دیکھتا پرکھتا ہے اور پھر اپنی رائے قائم کرکے اس کو بیان کرتا ہے۔ اس لیے کہا جاسکتا ہے کہ سفر نامہ تجربات و مشاہدات کے علاوہ سیاح کے اپنے احساسات و تاثرات کا آئینہ بھی ہوتا ہے۔’ آبشارِ ادب‘میں ہمدمؔ نے ادبیت کے ایسے ذرائع اختیار کئے ہیں جن سے سفر نامے کی کشش میں اضافہ بھی ہوا ہے اور ان کا شگفتہ ادبی اسلوب بھی نمایاں طور پر نظر آتا ہے جو سفر نامے کے مقصد کو پورا کرتا ہے۔ مرزا حامد بیگ لکھتے ہیں:
’’سو طے پایا کہ اس کے لئے شگفتہ اور سبک اندازِ تحریر مناسب ہے لیکن نہ اتنا کہ پھکڑ بازی کے حدود کو چھونے لگے۔‘‘ (اُردو سفر نامے کی مختصر تاریخ ،ڈاکٹر مرزا حامد بیگ، صفحہ ۱۴)
’آبشارِ ادب‘ کے باب اول میں امریکہ کا ادبی سفر نامہ پیش کیا گیا ہے جو امریکہ میں قیام پذیر برصغیر کے ادیبوں شاعروں کے فکرو فن اور زبان و ادب کے منظر نامے کو پیش کرتا ہے۔ تلاشِ معاش کے سلسلے میں غیر ممالک میں ہجرت کے بعد مقیم اردو ادیبوں کی ادبی کاوشوں اور پروازِ تخیل سے روشناس کرایا ہے۔ ڈاکٹر رحمان اختر لکھتے ہیں:
’’مہجری ادب پر اپنے خیالات کا اظہار اس سفر نامے کی اہم خوبی ہے…..ارشادات میں مختلف دانشوروں اور ادیبوں کے تاثرات کو شامل کیا گیا ہے جو ہمدم ؔ کی ہمہ جہت شخصیت کا احاطہ کرتے ہیں۔‘‘ (تبصرہ ’آبشارِ ادب‘پروازِ ادب ،جنوری فروری ۲۰۱۴ء، صفحہ ۸۴)
امریکہ کے سفر کا ذکر کرتے ہوئے ہمدمؔ نے وہاں کی جغرافیائی معلومات فراہم کراتے ہوئے فضا، ماحول اور مناظر کا نقشہ کھینچا ہے:
’’قدرت کے مناظر کتنے خوبصورت ہیں ،عالیشان ہیں کرم فرما ہیں یہاں آکر اس حقیقت سے آشنا ہونا ایک نہایت خوبصورت آبشار کہا جاسکتا ہے۔‘‘
(آبشارِادب، بی ڈی کالیہ ہمدمؔ ، صفحہ ۴۰)
ہمدمؔ نیاگرا آبشار کے حسن اور کشش کو اشعار میں پرونے کے لیے خود کو بیتاب محسوس کررہا تھا اور ایک طویل غزل کہہ دی اس طرح ان کا سیاحت کے ساتھ ساتھ ادبی سفر بھی آگے بڑھتا رہا۔ نیاگرا آبشار کی خوبصورتی سے متاثر ہو کر لکھتے ہیں:
’’ایسے لگ رہا تھا جیسے وقت کچھ لمحات کے لیے رک گیا ہو……….منظر اور نظر کا آمنا سامنا ہو رہا ہو۔ خوبصورتی، حسن اور جلوہ نظر کو شکست دے کر ذہن و تصور کے آرپار ہو چکا ہے۔ کیا دلکش منظر ہے اور کیا کیف و سرور کا عالم ۔ اب ہم ، ہم نہیں رہے حُسنِ قدرت میں مکمل طور پر کھویا ہوا محسوس کررہے ہیں۔‘‘
(آبشارِ ادب، بی ڈی کالیہ ہمدمؔ ، صفحہ ۸۵)
نیویارک شہر کے تاریخی پہلوؤں کو بیان کرتے ہیں۔ لبرٹی بت(Statue of Liberty) کو دیکھ کر ہمدمؔ کے تاثرات ایک محب الوطن کے جذبات کا برملا اظہار ہیں:
’’یہ مجسمہ دنیا کو آزادی کا پیغام دیتا ہے…………..اب آسمان میں اڑتے ہوئے پرندوں سے پوچھئے آپ ان شہیدون کی روحوں سے سوال کیجیے جو اپنے ہم وطنوں کی آزادی دلوانے کے لیے بے لوث اپنی جان پر کھیل گئے اپنے تمام دکھ سکھ عیش و آرام ، لذتیں وطن کی خاطر قربان ہوگئے مجھے یہ شعر بے ساختہ یاد آرہا ہے
عشق و آزادی بہارِ زیست کا سامان ہے
عشق میری جان آزادی میرا ایمان ہے
عشق پر قربان کردوں اپنی ساری زندگی
لیکن آزادی پہ میرا عشق بھی قربان ہے
(آبشارِ ادب، بی ڈی کالیہ ہمدمؔ ، صفحہ ۵۵)
اس پس منظر میں ہمدمؔ نے دنیا بھر کے مجبور، مقہور، محکوم اور مظلوم انسانوں کے درد کو بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس ادبی سفر میں ہمدمؔ نے امریکی معاشرے کے رہن سہن ، بودو باش اور طرزِ معاشرت کو بھی نہایت گہرائی سے دیکھا جانچا اور پرکھا ہے۔ وہاں کی صنعت ، روز مرہ زندگی کی جھلکیاں بھی نظر آتی ہیں۔ سفر نامے کا کردار خود سفر نامہ نگار کی ذات ہے اور اس سفر نامے میں ہمدمؔ نے ظاہر سے باطن کی طرف سفر کیا ہے۔ سفر نامہ اور تاریخی کتب بہت زیادہ احتیاط اور غیر جانب داری کا مطالعہ کرتی ہیں۔ ہمدمؔ نے اس بات کا خیال رکھا ہے اور غیر جانب داری کی روشن مثال قائم کردی ہے ۔ہمدمؔ ایک نظریہ اور ادبی شعور رکھتے ہیں جس کا مظاہرہ بخوبی اس سفر نامہ میں انھوں نے کیا ہے۔ سفر نامے کی کامیابی سے متعلق انور سدید لکھتے ہیں:
’’اس میں مکمل کامیابی اس وقت ہوتی ہے جب سفر نامہ نگار ادب کے جملہ تقاضوں سے پوری طرح بخوبی واقف ہو اور مشاہدے کو تخلیقی انداز میں پیش کرنے کی قوت رکھتا ہو۔‘‘ (اردو ادب میں سفر نامہ، ڈاکٹر انور سدید، صفحہ ۵۹)
شاعری کے ساتھ ساتھ زبان و ادب پر جو گفتگو ہوتی تھی اس کے علاوہ اقبال حیدر سے تبادلہء خیالات اور نور امروہی کے ریڈیو شو بھی شامل ہیں۔ ڈیلس کی ادبی انجمن’ گہوارۂ ادب‘جو اردو زبان و ادب کی انجمن ہے اس کی نشستوں کا ذکر بھی ہے۔ یہ نشستیں جاوید انصاری ، مسعودقا ضی وغیرہ کی سرپرستی میں منعقد ہوتی تھیں۔ ہمدم ؔ اپنے بہت سے ادبی دوستوں سے ملتے ہیں اور ان کی تخلیقات کا جائزہ بھی لیتے ہیں اور یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ اردو، پنجابی، ہندی کے شاعر دنیا کے کسی بھی خطّے میں قیام پذیر ہوں ان کی سوچ میں زیادہ اختلاف نہیں ہوتا۔ ان ادیبوں کے ادبی مراکز انتہائی غیر ادبی ماحول میں بھی شعرو ادب کی شمع روشن کئے ہوئے ہیں۔ عرماف مرتضی کے شعری مجموعہ ’تصورات مکالمات‘ میں دنیا کے تقریباً ۳۳ مشہور معروف شاعروں کے کلام پر خوبصورت تبصرہ ہے ان میں سے چند شعراء کا ذکر اس سفر نامہ میں ہمدمؔ نے پیش کرنے کی کوشش کی ہے:
’’میں نے اردو زبان و ادب پ کُھل کر اپنے خیالات کا اظہار کیا اور غیر ممالک میں بسے اردو دانوں اور پرستاروں، خدمت گذاروں کا دل سے شکریہ ادا کیا کہ انھوں نے اس زبان کو فقط زندہ رکھنے کے لیے ہی نہیں بلکہ سلیقہ زندگی اور تخلیقِ ادب کے لیے جو تعاون دیا ہے وہ قابلِ ستائش ہے اور قابلِ داد ہے۔‘‘
(آبشارِ ادب، بی ڈی کالیہ ہمدم ؔ ، صفحہ ۱۸۲)
سفر نامہ امریکہ میں ہمدمؔ نے یہاں کے چند شعراء حضرات کے کلام کا نمونہء بھی پیش کیا ہے جن میں محمد حنیف اخگر ؔ ملیح آبادی ، یونس اعجازؔ ، طارقؔ ہاشمی، انورؔ امروہوی، عالم اثرؔ ،نادرؔ درانی، عامرؔ سلمان اور جاویدؔ انصاری وغیرہ کے نام اہم ہیں۔ سفر نامہ کے دوسرے باب میں انگلینڈ اور امریکہ کا دوسرا سفر شامل ہیں۔ جس میں انگلینڈ میں منعقد ہوئے مشاعروں اور ادبی محفلوں کو جگہ دی گئی ہے۔ یہاں کے شاعروں ادیبوں کا انتخاب اور ان کی اپنے آبائی وطن سے والہانہ محبت کو پیش کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر سلطان انجم کے مطابق:
’’آبشارِ ادب کے باب دوم یعنی انگلینڈ اور امریکہ کا ’دوسرا ادبی سفر‘ میں بھی شعری بزم آرائیوں اردو پنجابی اور ہندی شاعروں کا ذکر، ان کے کلام کی خوبیاں، خامیاں بیان ہوئی ہیں۔‘‘ (مضمون آبشارِ ادب کی ترنم ریزیاں، ڈاکٹر سلطان انجم، تعمیر ہریانہ اکتوبر نومبر ۲۰۱۳ء ، صفحہ ۳۶)
سفر نامہ نگاری لازماً ایک تخلیقی تجربہ ہے اس کا اطلاق ان ہی معنوں میں ہوتا ہے جو تخلیقی تجربے سے وابستہ کئے جاتے ہیں ۔سفر نامہ نگار جو کچھ دیکھتا ہے، جس مقام سے گذرتا ہے اس کی ساری خوشبوئیں اس کے ساری باطنی رنگ اور کیفیات کو سفر نامہ میں سمیٹ لیتا ہے۔ آبشارِ ادب میں بی ڈی کالیہ ہمدمؔ نے ادبی محفلوں کی طرف توجہ مرکوز کی ہے۔ ان کی زبان و بیان ،خیالات و اقعات سے مطابقت رکھتی ہے جو سفر نامے کے مجموعی تاثرات اور حیرت انگیز اضافے کے لئے ایک ضروری چیز ہے۔ زبان و بیان سے متعلق وحید قریشی لکھتے ہیں:
’’سفر نامہ نگار لفظوں کے حوالے سے اپنے باطن میں چھپی ہوئی حقیقتوں کا انکشاف کرتا اور داخل میں وارد ہونے والے ہر تجربہ کو لفظوں کی مدد سے جانچتا اور پرکھتا ہے۔ ان تجربات کو محسوس کی سطح پر لانے کے لئے لسانیاتی پیکر ایک نئی کشفی حالت میں دو چار ہوتے ہیں۔‘‘ (تبصرہ ’اے آبرودِ گنگا‘ وحید قریشی، ’معاصر‘ صفحہ ۵۹۹)
انگلینڈ کے شعراء کرام میں ناظرؔ فاروقی، نصیرؔ احمد بٹ، رخسانہ شاہینؔ ، خالدؔ یوسف، مظفر احمد مظفرؔ ، گلزار سنگھ امرتؔ ، عظمٰی صدیقی، نرگس جمالؔ اور آنند راج وغیرہ کا کلام شاملِ سفر نامہ ہے۔ بقول رضا الرحمان عاکف:
’’غرض یہ کہ انگلینڈ اور امریکہ کے خوبصورت مقامات کی ادبی سیاحت اور وہاں کے ادبی تناظر میں تحریر شدہ اس کتاب کا زیورِ طباعت سے مزین ہونا، یقیناًاردو ادب کے ادبی سرمایہ میں گرانقد اضافے کا باعث ہوا ہے۔‘‘ (تبصرہ آبشارِ ادب، اردو دنیا جولائی ۲۰۱۴ء، صفحہ ۷۹)
اس سفر کے دوران ہمدمؔ کو اپنے فرزند منیش کالیہ کی مرگِ ناگیانی کی روح فرسا خبر ملی اور ان کو یہ سفر ناتمام چھوڑ کر وطن واپس آنا پڑا۔ لیکن رخصت ہوتے وقت مصنف کی کیفیت کا اندازہ کیجئے:
’’میں امریکہ اور لندن میں گذارے لمحوں کو ایک ایک کرکے یاد کررہا تھا۔ نیاگرا آبشار بالکل مقابل یادوں کے لمحات کا آبشار میرے تصورات میں ابھرآیا تھا اور میں ان ادبی واقعات اور شعراء و ادباء سے ملاقات اور گفتگو کی قوسِ قزح کے رنگ بے حد لطف عطا کررہے تھے میرے سفر کے ساتھ ساتھ یہ آبشارِ ادب بھی مسلسل چلتا رہا……….یہ ختم ہونے والا سلسلہ ہی نہیں ہے۔
یہ زمین چلتی رہے یہ آسماں چلتا رہے
یہ سفر چلتا رہے یہ کارواں چلتا رہے
جس قلم کی نوک پر ہیں چاند سورج کہکشاں
بس اسی کی رہنمائی میں جہاں چلتا رہے
مجموعی طور پر کہا جاسکتا ہے کہ سفر نامہ ’آبشار، ادب‘ میں ہمدمؔ نے امریکہ اور انگلینڈ کے مقامات ، قدرتی منظر کشی کو اس خوبی سے پیش کیا ہے کہ معلوم ہوتا ہے کہ قاری ان کے سفر میں ہم سفر ہے۔ یہ سفر نامہ کئی معنوں میں اہمیت کا حامل ہے اس کو پڑھنے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ مہجری ادب زمین اور کلچر کی تبدیلی کے باوجود بھی اپنی مادری زمین و زبان سے کس قدر لگاؤ اور حب الوطنی کا جذبہ رکھتا ہے۔ اس سفر نامے کی تخلیق کرکے ہمدمؔ نے اُردو ادب کو ایک قیمتی اثاثہ عطا کیا ہے۔ در حقیقت انھوں نے انگلینڈ اور امریکہ کے سفر کو اپنی تخلیقی توانائی سے دیدہ زیب بنا دیا ہے۔ اس سفر نامہ کا اہم وصف اس کا ادبی حسن ہے۔ ادبی چاشنی آبشارِ ادب کا جزوِ خاص ہے۔ اس سفر نامے کی تخلیق نے ہمدمؔ کی خود اعتمادی میں اضافہ بھی کیا ہے خیالات میں بلندی، سخن میں دلنوازی بھی پیدا ہوئی ہے۔ جو کسی اور ذریعے سے ممکن نہیں۔ لیکن کہیں کہیں ہمدمؔ نے اس قدر طوالت سے کام لیا ہے کہ قاری کو بوریت اور جھنجھلاہٹ کا احساس ہونے لگتا ہے۔ پھر بھی سفر نامہ آبشارِ ادب اردو میں سفر نامہ کے باب میں اہم اضافہ ہے۔
***کتابیات
مصنف کا نام کتاب کا نام
بی۔ڈی۔کالیہ ہمدمؔ آبشارِ ادب
ڈاکٹر مرزا حامد بیگ اُردو سفر نامے کی مختصر تاریخ
ڈاکٹرقدسیہ قریشی اردو سفر نامے انیسویں صدی میں
ڈاکٹر انور سدیدؔ اردو ادب میں سفر نامہ
عظیم الحق جنیدی اردو ادب کی تاریخ
رسائل
* ماہنامہ’ پرواز ادب ‘پٹیالہ جنوری فروری ۲۰۱۴ء،
* ماہنامہ’ اردو دنیا‘نئی دہلی جولائی ۲۰۱۴ء
ماہنامہ’ تعمیر ہریانہ‘چنڈیگڑھ اکتوبر نومبر ۲۰۱۳ء
ماہنامہ’معاصر‘
سفر نامے کی روایت بہت پرانی ہے۔ جب سفر نامہ ادب کا حصّہ نہیں ہوتا تھا تب بھی سفر نامے لکھے جاتے تھے۔ اردوسفر نامے کی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہوئے ہیں تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ یوسف خاں کمبل پوش کا سفر نامہ ’عجائبات فرنگ‘ اردو کا پہلا سفر نامہ ہے جس کو تاریخِ یوسفی بھی کہا جاتا ہے۔ اس سفر نامہ کا سنِ اشاعت ۱۸۳۷ء ہے۔دوسرا اہم سفرع نامہ متحدہ پنجاب کی جھّجر ریاست(موجودہ ہریانہ) کانواب کریم خاں کا ہے جن کا سفر نامہ لندن’سیاحت نامہ‘ کے نام سے ۱۸۳۹ء میں تحریر ہوا تھا۔ متحدہ پنجاب کے اس علاقہ میں مولوی محمد جعفر تھانیسری کا سفر نامہ تواریخ عجیب ،غلام الثقلین پانی پتی کا سفر نامہ و روزنامچہء سیاحت اور خواجہ احمد عباس کا مسافر کی ڈائری وغیرہ سفر نامے منظر عام پر آئے۔ ہریانہ کے وجود میں آنے کے بعد یہاں کے سفر ناموں میں جوہرکرنالی کا سفر نامہ سفر ہے شرط،مہندر پرتاپ چاندؔ کا ’یاد سب ہے ذرا ذرا‘ وغیرہ شمار کئے جاسکتے ہیں۔ اس سلسلے کی ایک کڑی بی ڈی ہمدمؔ کا سفر نامہ ’آبشارِ ادب ‘ ہے۔ سائنسی ترقی اور سفر کے تیز ترین ذرائع کے سبب سب آج کے دور میں سفر کرنا آسان بھی ہے اور وقت بھی کم درکا رہے۔ اس روشنی میں عہد حاضر کو سفر نامہ کا زریں عہد بھی کہا جاسکتا ہے۔ اس کا بین ثبوت گذشتہ تقریباً پچاس سال میں متعددسفر ناموں کا وجود میں آنا ہے۔
انسانی حیات کے لئے سفر ایک ایسی حرارت بخش غذا ہے جو انسان کے جسم کو تحریک اور دل و دماغ کو تازگی بخشتی ہے۔ سفر نامے سے متعلق خالد محمود لکھتے ہیں:
’’سفر کے وسیلے سے مسافر کی شخصیت میں ہواؤں کی پاکیزگی اور لطافت، پھولوں کا حسن اور نزاکت، پرندوں کا حوصلہ اور بلند پروازی، پہاڑوں کی بلندی اورعظمت، سمندروں کی گہرائی اور وسعت کے چراغ روشن ہو جاتے ہیں۔‘‘ (اُردو سفر ناموں کا تنقیدی مطالعہ،خالد محمود ،صفحہ ۲۱)
ہمدمؔ کا سفر نامہ ’آبشارِ ادب‘ حالیہ امریکہ اور انگلینڈ کے ۲۰۰۹ء کے سفر کی روداد ہے جس میں انھوں نے ان ملکوں کے مختلف مقامات کا ذکر اپنے اسلوب، اندازِ بیان اور ندرت و جدت کے ساتھ پیش کیا ہے۔ سفر نامہ کسی مخصوص تکنیک یا اصول کا پابند نہیں بلکہ سفر نامہ نگار کا مزاج اور تحریری برتاؤ ہی سفر نامے کا اصول اور تکنیک ہے۔اپنے ایک مضمون آبشارِ ادب کی ترنم ریزیاں میں ڈاکٹر سلطان انجم لکھتے ہیں:
’’یہ سفر نامہ محض سفر نامہ ہی نہیں بلکہ اردو مشاعروں کی ایک مستحسن روایت یعنی مشاعرے یا شعری محفل میں پڑھے گئے کلام کو گلدستہ کی صورت میں محفوظ کرلینے کی بھی تجدید ہے۔‘‘
(مضمون آبشارِ ادب کی ترنم ریزیاں، ڈاکٹر سلطان انجم، تعمیر ہریانہ اکتوبر نومبر ۲۰۱۳ء ، صفحہ ۳۱)
مصنفِ کتاب کا مقصد جہاں امریکہ اور انگلینڈ کے مختلف مقامات کی سیر کرنا تھا وہاں انھوں نے ا ن کی تاریک کو بیان کرتے ہوئے ان مقامات پراقامت پذیر اردو شخصیات سے ملاقات اور ان سے ادبی گفتگو کوبھی شامل کیاہے اور وہاں پر مقیم اہم اردو شعراء کا کلام بھی نقل کیا ہے۔
ادبی سفر کے حوالے سے بات کی جائے تو ان میں سیمیناروں، مشاعروں اور نشستوں میں شرکت مقصود ہوتی ہے۔ ادبی سفر سے جہاں ادب کی معتبر اور نامور شخصیات سے ملاقاتوں کا فخر حاصل ہوتا ہے اور ان سے رابطہ بڑھتا ہے وہیں تجربات میں گہرائی اور گیرائی پیدا ہوتی ہے۔ سفر نانہ نگاردورانِ سفر یا واپسی پر اپنے ذاتی تجربات و مشاہدات اورتاثرات و احساسات کو ترتیب دے کر جو تحریر رقم کرتا ہے وہی سفر نامہ ہوتا ہے وہ اپنے دل و جذبات اور احساسات کی آنکھ سے اشیاء کو دیکھتا پرکھتا ہے اور پھر اپنی رائے قائم کرکے اس کو بیان کرتا ہے۔ اس لیے کہا جاسکتا ہے کہ سفر نامہ تجربات و مشاہدات کے علاوہ سیاح کے اپنے احساسات و تاثرات کا آئینہ بھی ہوتا ہے۔’ آبشارِ ادب‘میں ہمدمؔ نے ادبیت کے ایسے ذرائع اختیار کئے ہیں جن سے سفر نامے کی کشش میں اضافہ بھی ہوا ہے اور ان کا شگفتہ ادبی اسلوب بھی نمایاں طور پر نظر آتا ہے جو سفر نامے کے مقصد کو پورا کرتا ہے۔ مرزا حامد بیگ لکھتے ہیں:
’’سو طے پایا کہ اس کے لئے شگفتہ اور سبک اندازِ تحریر مناسب ہے لیکن نہ اتنا کہ پھکڑ بازی کے حدود کو چھونے لگے۔‘‘ (اُردو سفر نامے کی مختصر تاریخ ،ڈاکٹر مرزا حامد بیگ، صفحہ ۱۴)
’آبشارِ ادب‘ کے باب اول میں امریکہ کا ادبی سفر نامہ پیش کیا گیا ہے جو امریکہ میں قیام پذیر برصغیر کے ادیبوں شاعروں کے فکرو فن اور زبان و ادب کے منظر نامے کو پیش کرتا ہے۔ تلاشِ معاش کے سلسلے میں غیر ممالک میں ہجرت کے بعد مقیم اردو ادیبوں کی ادبی کاوشوں اور پروازِ تخیل سے روشناس کرایا ہے۔ ڈاکٹر رحمان اختر لکھتے ہیں:
’’مہجری ادب پر اپنے خیالات کا اظہار اس سفر نامے کی اہم خوبی ہے…..ارشادات میں مختلف دانشوروں اور ادیبوں کے تاثرات کو شامل کیا گیا ہے جو ہمدم ؔ کی ہمہ جہت شخصیت کا احاطہ کرتے ہیں۔‘‘ (تبصرہ ’آبشارِ ادب‘پروازِ ادب ،جنوری فروری ۲۰۱۴ء، صفحہ ۸۴)
امریکہ کے سفر کا ذکر کرتے ہوئے ہمدمؔ نے وہاں کی جغرافیائی معلومات فراہم کراتے ہوئے فضا، ماحول اور مناظر کا نقشہ کھینچا ہے:
’’قدرت کے مناظر کتنے خوبصورت ہیں ،عالیشان ہیں کرم فرما ہیں یہاں آکر اس حقیقت سے آشنا ہونا ایک نہایت خوبصورت آبشار کہا جاسکتا ہے۔‘‘
(آبشارِادب، بی ڈی کالیہ ہمدمؔ ، صفحہ ۴۰)
ہمدمؔ نیاگرا آبشار کے حسن اور کشش کو اشعار میں پرونے کے لیے خود کو بیتاب محسوس کررہا تھا اور ایک طویل غزل کہہ دی اس طرح ان کا سیاحت کے ساتھ ساتھ ادبی سفر بھی آگے بڑھتا رہا۔ نیاگرا آبشار کی خوبصورتی سے متاثر ہو کر لکھتے ہیں:
’’ایسے لگ رہا تھا جیسے وقت کچھ لمحات کے لیے رک گیا ہو……….منظر اور نظر کا آمنا سامنا ہو رہا ہو۔ خوبصورتی، حسن اور جلوہ نظر کو شکست دے کر ذہن و تصور کے آرپار ہو چکا ہے۔ کیا دلکش منظر ہے اور کیا کیف و سرور کا عالم ۔ اب ہم ، ہم نہیں رہے حُسنِ قدرت میں مکمل طور پر کھویا ہوا محسوس کررہے ہیں۔‘‘
(آبشارِ ادب، بی ڈی کالیہ ہمدمؔ ، صفحہ ۸۵)
نیویارک شہر کے تاریخی پہلوؤں کو بیان کرتے ہیں۔ لبرٹی بت(Statue of Liberty) کو دیکھ کر ہمدمؔ کے تاثرات ایک محب الوطن کے جذبات کا برملا اظہار ہیں:
’’یہ مجسمہ دنیا کو آزادی کا پیغام دیتا ہے…………..اب آسمان میں اڑتے ہوئے پرندوں سے پوچھئے آپ ان شہیدون کی روحوں سے سوال کیجیے جو اپنے ہم وطنوں کی آزادی دلوانے کے لیے بے لوث اپنی جان پر کھیل گئے اپنے تمام دکھ سکھ عیش و آرام ، لذتیں وطن کی خاطر قربان ہوگئے مجھے یہ شعر بے ساختہ یاد آرہا ہے
عشق و آزادی بہارِ زیست کا سامان ہے
عشق میری جان آزادی میرا ایمان ہے
عشق پر قربان کردوں اپنی ساری زندگی
لیکن آزادی پہ میرا عشق بھی قربان ہے
(آبشارِ ادب، بی ڈی کالیہ ہمدمؔ ، صفحہ ۵۵)
اس پس منظر میں ہمدمؔ نے دنیا بھر کے مجبور، مقہور، محکوم اور مظلوم انسانوں کے درد کو بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس ادبی سفر میں ہمدمؔ نے امریکی معاشرے کے رہن سہن ، بودو باش اور طرزِ معاشرت کو بھی نہایت گہرائی سے دیکھا جانچا اور پرکھا ہے۔ وہاں کی صنعت ، روز مرہ زندگی کی جھلکیاں بھی نظر آتی ہیں۔ سفر نامے کا کردار خود سفر نامہ نگار کی ذات ہے اور اس سفر نامے میں ہمدمؔ نے ظاہر سے باطن کی طرف سفر کیا ہے۔ سفر نامہ اور تاریخی کتب بہت زیادہ احتیاط اور غیر جانب داری کا مطالعہ کرتی ہیں۔ ہمدمؔ نے اس بات کا خیال رکھا ہے اور غیر جانب داری کی روشن مثال قائم کردی ہے ۔ہمدمؔ ایک نظریہ اور ادبی شعور رکھتے ہیں جس کا مظاہرہ بخوبی اس سفر نامہ میں انھوں نے کیا ہے۔ سفر نامے کی کامیابی سے متعلق انور سدید لکھتے ہیں:
’’اس میں مکمل کامیابی اس وقت ہوتی ہے جب سفر نامہ نگار ادب کے جملہ تقاضوں سے پوری طرح بخوبی واقف ہو اور مشاہدے کو تخلیقی انداز میں پیش کرنے کی قوت رکھتا ہو۔‘‘ (اردو ادب میں سفر نامہ، ڈاکٹر انور سدید، صفحہ ۵۹)
شاعری کے ساتھ ساتھ زبان و ادب پر جو گفتگو ہوتی تھی اس کے علاوہ اقبال حیدر سے تبادلہء خیالات اور نور امروہی کے ریڈیو شو بھی شامل ہیں۔ ڈیلس کی ادبی انجمن’ گہوارۂ ادب‘جو اردو زبان و ادب کی انجمن ہے اس کی نشستوں کا ذکر بھی ہے۔ یہ نشستیں جاوید انصاری ، مسعودقا ضی وغیرہ کی سرپرستی میں منعقد ہوتی تھیں۔ ہمدم ؔ اپنے بہت سے ادبی دوستوں سے ملتے ہیں اور ان کی تخلیقات کا جائزہ بھی لیتے ہیں اور یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ اردو، پنجابی، ہندی کے شاعر دنیا کے کسی بھی خطّے میں قیام پذیر ہوں ان کی سوچ میں زیادہ اختلاف نہیں ہوتا۔ ان ادیبوں کے ادبی مراکز انتہائی غیر ادبی ماحول میں بھی شعرو ادب کی شمع روشن کئے ہوئے ہیں۔ عرماف مرتضی کے شعری مجموعہ ’تصورات مکالمات‘ میں دنیا کے تقریباً ۳۳ مشہور معروف شاعروں کے کلام پر خوبصورت تبصرہ ہے ان میں سے چند شعراء کا ذکر اس سفر نامہ میں ہمدمؔ نے پیش کرنے کی کوشش کی ہے:
’’میں نے اردو زبان و ادب پ کُھل کر اپنے خیالات کا اظہار کیا اور غیر ممالک میں بسے اردو دانوں اور پرستاروں، خدمت گذاروں کا دل سے شکریہ ادا کیا کہ انھوں نے اس زبان کو فقط زندہ رکھنے کے لیے ہی نہیں بلکہ سلیقہ زندگی اور تخلیقِ ادب کے لیے جو تعاون دیا ہے وہ قابلِ ستائش ہے اور قابلِ داد ہے۔‘‘
(آبشارِ ادب، بی ڈی کالیہ ہمدم ؔ ، صفحہ ۱۸۲)
سفر نامہ امریکہ میں ہمدمؔ نے یہاں کے چند شعراء حضرات کے کلام کا نمونہء بھی پیش کیا ہے جن میں محمد حنیف اخگر ؔ ملیح آبادی ، یونس اعجازؔ ، طارقؔ ہاشمی، انورؔ امروہوی، عالم اثرؔ ،نادرؔ درانی، عامرؔ سلمان اور جاویدؔ انصاری وغیرہ کے نام اہم ہیں۔ سفر نامہ کے دوسرے باب میں انگلینڈ اور امریکہ کا دوسرا سفر شامل ہیں۔ جس میں انگلینڈ میں منعقد ہوئے مشاعروں اور ادبی محفلوں کو جگہ دی گئی ہے۔ یہاں کے شاعروں ادیبوں کا انتخاب اور ان کی اپنے آبائی وطن سے والہانہ محبت کو پیش کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر سلطان انجم کے مطابق:
’’آبشارِ ادب کے باب دوم یعنی انگلینڈ اور امریکہ کا ’دوسرا ادبی سفر‘ میں بھی شعری بزم آرائیوں اردو پنجابی اور ہندی شاعروں کا ذکر، ان کے کلام کی خوبیاں، خامیاں بیان ہوئی ہیں۔‘‘ (مضمون آبشارِ ادب کی ترنم ریزیاں، ڈاکٹر سلطان انجم، تعمیر ہریانہ اکتوبر نومبر ۲۰۱۳ء ، صفحہ ۳۶)
سفر نامہ نگاری لازماً ایک تخلیقی تجربہ ہے اس کا اطلاق ان ہی معنوں میں ہوتا ہے جو تخلیقی تجربے سے وابستہ کئے جاتے ہیں ۔سفر نامہ نگار جو کچھ دیکھتا ہے، جس مقام سے گذرتا ہے اس کی ساری خوشبوئیں اس کے ساری باطنی رنگ اور کیفیات کو سفر نامہ میں سمیٹ لیتا ہے۔ آبشارِ ادب میں بی ڈی کالیہ ہمدمؔ نے ادبی محفلوں کی طرف توجہ مرکوز کی ہے۔ ان کی زبان و بیان ،خیالات و اقعات سے مطابقت رکھتی ہے جو سفر نامے کے مجموعی تاثرات اور حیرت انگیز اضافے کے لئے ایک ضروری چیز ہے۔ زبان و بیان سے متعلق وحید قریشی لکھتے ہیں:
’’سفر نامہ نگار لفظوں کے حوالے سے اپنے باطن میں چھپی ہوئی حقیقتوں کا انکشاف کرتا اور داخل میں وارد ہونے والے ہر تجربہ کو لفظوں کی مدد سے جانچتا اور پرکھتا ہے۔ ان تجربات کو محسوس کی سطح پر لانے کے لئے لسانیاتی پیکر ایک نئی کشفی حالت میں دو چار ہوتے ہیں۔‘‘ (تبصرہ ’اے آبرودِ گنگا‘ وحید قریشی، ’معاصر‘ صفحہ ۵۹۹)
انگلینڈ کے شعراء کرام میں ناظرؔ فاروقی، نصیرؔ احمد بٹ، رخسانہ شاہینؔ ، خالدؔ یوسف، مظفر احمد مظفرؔ ، گلزار سنگھ امرتؔ ، عظمٰی صدیقی، نرگس جمالؔ اور آنند راج وغیرہ کا کلام شاملِ سفر نامہ ہے۔ بقول رضا الرحمان عاکف:
’’غرض یہ کہ انگلینڈ اور امریکہ کے خوبصورت مقامات کی ادبی سیاحت اور وہاں کے ادبی تناظر میں تحریر شدہ اس کتاب کا زیورِ طباعت سے مزین ہونا، یقیناًاردو ادب کے ادبی سرمایہ میں گرانقد اضافے کا باعث ہوا ہے۔‘‘ (تبصرہ آبشارِ ادب، اردو دنیا جولائی ۲۰۱۴ء، صفحہ ۷۹)
اس سفر کے دوران ہمدمؔ کو اپنے فرزند منیش کالیہ کی مرگِ ناگیانی کی روح فرسا خبر ملی اور ان کو یہ سفر ناتمام چھوڑ کر وطن واپس آنا پڑا۔ لیکن رخصت ہوتے وقت مصنف کی کیفیت کا اندازہ کیجئے:
’’میں امریکہ اور لندن میں گذارے لمحوں کو ایک ایک کرکے یاد کررہا تھا۔ نیاگرا آبشار بالکل مقابل یادوں کے لمحات کا آبشار میرے تصورات میں ابھرآیا تھا اور میں ان ادبی واقعات اور شعراء و ادباء سے ملاقات اور گفتگو کی قوسِ قزح کے رنگ بے حد لطف عطا کررہے تھے میرے سفر کے ساتھ ساتھ یہ آبشارِ ادب بھی مسلسل چلتا رہا……….یہ ختم ہونے والا سلسلہ ہی نہیں ہے۔
یہ زمین چلتی رہے یہ آسماں چلتا رہے
یہ سفر چلتا رہے یہ کارواں چلتا رہے
جس قلم کی نوک پر ہیں چاند سورج کہکشاں
بس اسی کی رہنمائی میں جہاں چلتا رہے
مجموعی طور پر کہا جاسکتا ہے کہ سفر نامہ ’آبشار، ادب‘ میں ہمدمؔ نے امریکہ اور انگلینڈ کے مقامات ، قدرتی منظر کشی کو اس خوبی سے پیش کیا ہے کہ معلوم ہوتا ہے کہ قاری ان کے سفر میں ہم سفر ہے۔ یہ سفر نامہ کئی معنوں میں اہمیت کا حامل ہے اس کو پڑھنے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ مہجری ادب زمین اور کلچر کی تبدیلی کے باوجود بھی اپنی مادری زمین و زبان سے کس قدر لگاؤ اور حب الوطنی کا جذبہ رکھتا ہے۔ اس سفر نامے کی تخلیق کرکے ہمدمؔ نے اُردو ادب کو ایک قیمتی اثاثہ عطا کیا ہے۔ در حقیقت انھوں نے انگلینڈ اور امریکہ کے سفر کو اپنی تخلیقی توانائی سے دیدہ زیب بنا دیا ہے۔ اس سفر نامہ کا اہم وصف اس کا ادبی حسن ہے۔ ادبی چاشنی آبشارِ ادب کا جزوِ خاص ہے۔ اس سفر نامے کی تخلیق نے ہمدمؔ کی خود اعتمادی میں اضافہ بھی کیا ہے خیالات میں بلندی، سخن میں دلنوازی بھی پیدا ہوئی ہے۔ جو کسی اور ذریعے سے ممکن نہیں۔ لیکن کہیں کہیں ہمدمؔ نے اس قدر طوالت سے کام لیا ہے کہ قاری کو بوریت اور جھنجھلاہٹ کا احساس ہونے لگتا ہے۔ پھر بھی سفر نامہ آبشارِ ادب اردو میں سفر نامہ کے باب میں اہم اضافہ ہے۔
***کتابیات
مصنف کا نام کتاب کا نام
بی۔ڈی۔کالیہ ہمدمؔ آبشارِ ادب
ڈاکٹر مرزا حامد بیگ اُردو سفر نامے کی مختصر تاریخ
ڈاکٹرقدسیہ قریشی اردو سفر نامے انیسویں صدی میں
ڈاکٹر انور سدیدؔ اردو ادب میں سفر نامہ
عظیم الحق جنیدی اردو ادب کی تاریخ
رسائل
* ماہنامہ’ پرواز ادب ‘پٹیالہ جنوری فروری ۲۰۱۴ء،
* ماہنامہ’ اردو دنیا‘نئی دہلی جولائی ۲۰۱۴ء
ماہنامہ’ تعمیر ہریانہ‘چنڈیگڑھ اکتوبر نومبر ۲۰۱۳ء
ماہنامہ’معاصر‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر رحمان اخترؔ
اسسٹینٹ پروفیسر
شعبۂ فارسی اردو،پنجابی یونیورسٹی پٹیالہ
ای ۔میل: rehmanmlk@yahoo.com
فون نمبر: 9876028734
B.D.Kalia Humdam Ka Safar Nama: ‘Aabshaar e Adab’ Ek Jaiza
اسسٹینٹ پروفیسر
شعبۂ فارسی اردو،پنجابی یونیورسٹی پٹیالہ
ای ۔میل: rehmanmlk@yahoo.com
فون نمبر: 9876028734
B.D.Kalia Humdam Ka Safar Nama: ‘Aabshaar e Adab’ Ek Jaiza
Leave a Reply
2 Comments on "بی۔ڈی۔کالیہ ہمدم ؔ کا سفر نامہ :’ آبشارِ ادب‘ ایک جائزہ
"
[…] […]
[…] […]