یادوں  کی برات   “یا ”   خوابوں  کی سوغات

 یادوں   کی برات  جوش ملیع  آبادی کی لکھی ہوئی  ایک  صغیم مگر دلچسپ خود نوشت سوانخ عمری ہے۔  یہ کتاب  اُردو  میں  تقریبا تمام  سوانح  عمریوں  پر سبقت رکھتی ہے۔  اور  اُردو ادب میں  سنگ میل کی حثیت رکھتی ہے۔ کتاب کی دلچسپی اس لحاظ سے  زیادہ ہے۔  کیونکہ جوش نے اپنی خوبیوں  کے ساتھ  ساتھ اپنی کمزوریوں  ،کوتاہیوں ،  گمراہیوں  ،  آوارگیوں  ، سرکشیوں  ،  معاشقوں  اور گناہوں  پر سیر بحث حاصل کی ہے۔ کتاب کا حُسن  اس بات میں   بھی پوشیدہ ہے کہ  مُصنف  اپنے زوال آمادہ خاندان  اور معاشرے پر سے پردہ اُٹھانے میں   کوئی کسر باقی نہیں  چھوڑتے ہیں ۔  کتاب کے جس پہلو پر  لوگ زیادہ زور  یا  ترجیح دیتے ہیں   وہ مصنف کے معاشقے یا ہجرت پاکستان کی ستم  ظریفی ہے۔ لیکن  ایک اور موضوع بھی ہے جن سے یہ کتاب بھری پڑ ہے اور جن سے یہ کتاب  زیادہ جاذب  نظر  بنتی ہے وہ ہے مصنف  کے خواب۔

یادوں  کی برات  کتاب  میں  مصنف   بار بار خوابوں  کی  دنیا  کی سیر کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ اور یہ خواب جوش کی زندگی میں   مختلف مشکلوں  اورمراحل رہنمائی  کا کام  انجام دیتے ہیں ۔ یوں  تو خواب دیکھنا انسان کی جبلت  ہے۔یہ انسان کے لئے وحی کا کام انجام دیتے ہیں ۔  اور ان کے اندر باریک پیغام چُھپاٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍ ہوتاہے۔  گو کہ خواب دیکھنا پیغمرانہ  خصلت ہے اور دُنیا  کا  ہر باہوش انسان  اچھے خواب دینے کا متمنی ہوتا ہے لیکن  دلچسپ بات ہے ہے کی کتاب میں  مصنف تب خواب دیکھتا  جب اُسے کوئی بڑا مسلہ درپیش آتا ہے۔ جسکی  وجہ سے کتاب میں  زبردست کشمکش پیدا ہوتی ہے۔

کتاب کا مطالعہ کرکے ہمین اس بات کا  علم ہوتا  ہے کی اکثر موقعوں  پر جب منصف  دلدل میں  پھنس جاتے ہیں  تو وہ خوابوں  کا سہارا لیکر مسائل کا حل ڈھونڈ لیتے ہیں   جسکی وجہ سے قاری مصنف  کے ساتھ ہمدردی کرنے پر مجبور  ہو جاتا ہے۔ اور بعض اوقات ان کے دکھ میں  بربر شریک ہوتا ہے۔ آئیے جوش  کے ان خوابوں  میں  شریک ہوکر ان کی زندگی کے مسا ئل ، ان کے حل، جد و جہد اور ان کی روحانیت سے محظوظ ہو جاتے ہیں ۔

جوش ملیع آبادی بچپن میں  سُنی تھے اور اُن کا خاندان  بھی کٹر سُنی تھا۔ اس خاندان میں  جوش کی دادی کے بغیر کوئی ایسا فرد نہ تھا جو مسلکی طور پر سُنی نہ تھا۔ جوان ہو کر جوش شیعہ مسلک کے پیروکار بن جاتے ہیں ۔ جوش اس مسلک کے لئے دل و جان  دینے کے لئے آمادہ ہوئے۔ اس رئیس خاندان  میں  اس کی اس سرکشی کو سب سے بڑا گناہ تصور کیا جانے لگا۔ اور حسب توقع مصنف کو اپنے  گھر والوں  کے ساتھ ٹکراو کا سامنا ہوتا ہے۔ بات یہاں  تک پہنچتی ہے کہ مصنف  کو تمام جائیداد سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے۔ خود مصنف  اس پورے واقع کو یادوں  کی برات میں  اس طرح تصنیف کرتے  ہیں ۔”  جب میرے باپ کے کان تک یہ خبر پہنچ ی ہ میں  مقبرہ جناب عالیہ کے جشن تبرا میں  بھی شریک ہوا تھا تو یہ بات ان کو نہایت ناگوار گزری، انھوں  نے میری پھپی زاد بھائی امیر حسن معرفت سے یہ پیغام بیجھا کہ میں   تبرا ترک دوں  ، انھوں  نے کہا، مانموں  نے فرمایا ہے کہ جہاں   تک حُب آل رسول ۖ کا تعلق ہے میں  اس کو جزو ایمان ہی نہیں ، اصل ایمان سمجھتا اور رسول اللہۖ  کے بعد حضرت علی  کو سب سے افضل مانتا ہوں ۔ لیکن اس کے باوجود اصحاب ثلاثہ پر سب و شتم کو برداشت نہیں  کرسکتا۔ اس لئے کہ اس فعل بد سے فقط خلفاء ہی کی توہین نہیں  ہوتی بلکہ یہ رسالت مآب ۖ کے فیضان صحبت پر بھی آنچ آتی ہے۔  اور جب میں  تبرے سے دست بردار  ہونے پر آمادہ نہ ہوا تو میرے باپ نے وصیت نامے کی رو سے مجھ کو جائے داد سے محروم فرما کر، فقط سو روپے ماہانہ  کا گذارہ دار بنا دیا”۔

یعنیٰ سُنی مسلک کو ترک کرنے اور شیعہ مسلک اپنانے پر جوش کی زندگی اجیر ن بن جاتی ہے۔ اسے اپنے بھی ٹھکراتے ہیں  اور غیر بھی۔ لیکن اسمیں  بھی کوئی دورائے نہیں  ہے  کہ مصنف  مذہبی امورات میں  کافی  لاعلم معلوم ہوئے ہیں ۔  جناب جوش دینی معاملات میں  بہت زیادہ  نا بلد شخصیت کا نام ہے۔ مذہب جیسے ٹھوس، نازک اور حساس  امورات پر  بھی جوش  اپنے دلائل کے توسط سے اپنے نظریات قائم کرلیتے ہیں ۔جو مذہب کے ساتھ زیادتی ہے۔ مصنف  مذکورہ کتاب میں  جھوٹ اور زنا  جیس بدعتوں  پراپنی  رائے زنی کرکے بہت حد تک چھوٹ دیتے ہوئے نظر آتے ہیں  جسکا مذہب متقاضی نہیں  ہے، بہر کیف جو بھی ہو ہمارا مقصد  جوش کے مسلک پرستی کو قطعی چھیڑنا نہیں  ہے اور نہ ہی مذہب پر بحث کرنا ہمارا نصب العین ہے۔ بلکہ  ہمارا کام وہ پہلو تلاش کرنا ہے جس کی رو سے جوش اپنے مصائب سے نجات پاتے ہیں ۔ ذرا دیکھئے کس  خوش اسلوبی سے جوش ملیع آبادی اپنے آپ کو ایک خواب کے ذریعے سے اس مسلک پرستی کے جھنجھٹ سے دامن چُھڑا دیتے ہیں ۔

 “اس محرم الارث ہو جانے کے کوئی چھ سات مہینے کے بعد ایک روز دوپہر کے وقت جب کہ شدید گرمی پڑ رہی تھی اور میں  کڑہ ابو تراب خان لکھنو کے مکان کے ایک ٹھنڈے کمرے میں  لیٹا ہوا تھا کہ میں  نے اللہ سے باتیں  کرنا شروع کردیں ۔ میں  نے کہا  کہ سنتا ہوں  کہ اللہ میاں  جب کوئی ایک قدم اُٹھاتا ہے تو تم اس کی جانب سو قدم بڑھ آتے ہو لیکن میرے ساتھ تمہارا معاملہ اس کے برعکس ہے۔ میں  تمہاری طرف بڑھتا ہوں  اور تم  ہو کی ٹس سے مس ہی نہیں  ہوتے ہو۔ تمہیں  خوش کرنے کے لئے میں  نے اپنے باپ کو ناخوش کردیا۔ جائے داد سے محروم ہو گیا اور تم مجھ سے یہ بتاتے ہی نہیں  ہو کہ  میں  راہ راست پر ہوں  کہ گمراہ ہوگیا ہوں ۔ ارے اللہ میاں  کچھ تو منھ سے بولو سر سے کھیلو۔ دل ہی دل میں   یہ باتیں  کرے کرتے سوگیا”۔

            “سوتے ہی خواب دیکھا  کہ صبح  کی گلابی روشنی پھیلی ہوئی ہے۔  آسمان  سے سونا  برس رہا ہے۔ اور میں  کسی سواری  پر بیٹھا ایسی راہ سے  گزر رہا ہوں   جس کے دونوں  طرف بڑے بڑے  گھنے اور شاداب درخت نسیم سحر سے جھوم رہے ہیں ۔ اور ہزاروں  چڑیاں  ان کی شاخوں  پر بیٹھی چہچہارہی ہیں ۔  کہ مشرق کی طرف سے ایک جلوس بڑے تزک و  احتشام کے ساتھ نمودار ہوا۔ میری نظریں  اس جلوس پرجم کر رہ گئیں ۔ اور جب وہ قریب آگیا  تو رئیس جلوس کی  چہرے کی تاب تاک  دیکھ کر  میرے  دل پر اس قدر اثر پڑا  کہ میں  اپنی سواری سے کود پڑا اور جھک کر سلام کیا رئیس جلوس نے میری طرف  آنکھیں  اُٹھائیں ، اُن کی آنکھوں  سے کرنیں  قظار در قطار نکلیں   جو میرے دل میں پیوست  ہو گیئں  اور وہ مسکرا کر میرے سلام کا جواب  دیتے ہوئے ایک سمت مڑ گئے۔ ابھی میں  سوچ ہی رہا تھا کہ یہ کیسی غیرمعمولی مقناطیسی  شخصیت تھی  کہ بے جانے پہچانے  اس نے مجھے اس قدر متاثر کردیا کہ اتنے میں  ایک دوسرا جلوس نمودار ہوا اور اس عجیب صاحب جلوس کا  بھی مجھ پر  ویسا ہی اثر پڑا  اور وہ بھی میرے سلام کا مسکرا کر جواب دیتا ہوا ، اُسی طرف روانہ ہو گیا جس طرف پہلا جلوس مڑ گیا تھا”۔

            “جب دونوں  جلوس نگاہوں  سے اوجھل ہوگئے تو میں   یہ بات سوچنے لگا کہ میں  ان سے کیسے متعارف ہوسکتا ہوں  ؟  اور کیوں  نہ اُدھر مڑ جاوں   یہ دونوں  جلوس مڑ گئے ہیں  کہ دفعتہََ میری پشت پر کسی نے ہاتھ ماری، میں  اچھل گیا ۔ اور مڑ کر دیکھا کہ ایک نورانی چہرے کے بزرگ میری طرف دیکھ کے مسکرا رہے ہیں ۔  میں  نے پوچھا، آپ کون ہے؟  انہوں  انے کہا ابوذر غفاری  میں  نے سلام کرکے ان کے ہاتھ چوم لئے اور ان  کے روبرو سر جھکایا۔ انہوں  نے کہا سر اُٹھاو  یہ سر جھکنے کے لئے نہیں  بنا ہے میں  تم کو مبارک باد دیتا ہوں   کہ تم کو سرور کونین  محمد رسول اللہۖ اور ان کے جانشین مشکل کشا علی ابن ابو طالب کی زیارت کا شرف حاصل ہوا ہے”۔

            “یہ سن کر  میرے دل میں  فخر کے پھوراے چھوٹنے لگے  اور آنکھوں   سے مسرت کے آنسو برسنے لگے اور میں  نے پوچھا میں  اپنے رسولۖ  اور امام  کو ڈھونڈھنے کدھر جاوں ؟  انہوں  نے درختوں  کے ایک جھنڈ  کی طرف انگلی اٹھا کر کہا۔ دیکھ وہ جو  مسجد کا مینارہ نظر آرہا ہے ، اسی طرف چلے جاو  اللہ کا جواب  تمہارا انتظار کر رہا ہے۔ یہ کہہ کر  وہ غائب ہو گئے دھڑکتے دل کے ساتھ  اُدھر  روانہ ہو گیا ۔ اور جب مسجد کے دروازے کی پہلی سیڈھی پر میں  نے قدم رکھا  تو یہ دیکھا کی رسول اللہ ۖ  وہاں  چبوترے کے کنارے آستین چڑ ھائے بیٹھے  اور علی مرتضیٰ پانی کا ظرف ان کے پاس رکھ رہے ہیں ۔ میری آہٹ سن کر  رسول اللہ ۖ  نے حضرت علی   سے کچھ ارشاد فرمایا(جسے میں  سُن نہیں  سکا )۔  رسالت مآبۖ  کا ارشاد  سُن کر  وہ  میری طرف اس طرح  چلے جیسے مژدہ سُنانے والا چلتا ہے۔  آہستہ آہستہ  قدم اُٹھاتے وہ میرے پاس  تشریف  لائے اور میرے سر پر ہات  رکھ دیا اور ارشاد فرمایا جو ہم سے محبت کرتا ہے نہ اس کی دنیا خراب ہوتی  ہے نہ عقبٰی جاو بلندیاں  تمہارا انتظار  کر رہی ہیں ۔  یہ خواب دیکھ کر میری آنکھیں  کھل گئیں “۔

اگر چہ ایک طرف  اپنے خواب کے توسط سے جوش  اپنے مسلک کا  دلچسپ اور قابل یقین دل تصور کر لیتے ہیں  تو دوسری طرف  مصنف  اس خواب  کے بعد وہ دلیل  بھی  پیش کرتے ہیں  جس کی رو سے نہ صرف  اس کا والد  اسے جائیداد  کا وارث قرار دیتا ہے بلکہ اظہار ہمدردی بھی کرتا ہے  ذرا آپ بھی محفوظ ہو جائیں ۔

“یہ خواب دیکھ کر  میری آنکھ کھل گئی۔ آنکھوں  سے  آنسوں  کے چشمے پھوٹ  نکلے اور دل  بلیوں  اچھلنے لگا۔ کہ ابو خالق نے آکر کہا :۔ منجھے بھائی، میاں  بلا رہے ہیں  ، میں   دھڑکتے دل کو سنبھال  کر اُٹھا  جلدی جلدی منہ دھویا اپنے باپ کے روبرو جاکر کھڑا ہو گیا ۔ میرے باپ کچھ لکھنے مین مشغول تھے قلم روک کر انہوں  نے میری طرف نگاہ اُٹھائی ان کی بڑھی بڑھی غلابی  آنکھوں  میں  آنسو بھرے ہوئے تھے۔ مجھ سے ارشاد فرمایا بیٹھ جاو:۔ میں  بیٹھ گیا  اور پھر لکھنے لگا۔ میں  حیران ہو گیا  کہ یہ معاملہ کیا ہے ان  کا قلم بڑی تیزی اور انتہائی ولولے کے ساتھ دس پندرہ منٹ  تک چلتا رہا  اور جب عبارت مکمل ہوگئی تو انہوں  نے ارشاد فرمایا  کہ بیٹا یہ جائداد  ایسی کم بخت چیز  ہے کہ اسے حاصل کرنے کے لئے  بھائی بھائی کا گلا کاٹ کے رکھ دیتا ہے۔ میں  نے تم کو جائداد سے محروم کردیا  اور میں  نے دیکھا کہ تیرے ماتھے پر شکن تک نہیں  آئی اور تیری اطاعت شعاری میں  بھی  یک سر مو فرق  نہیں  آیا۔ یہ  دوسرا وصیت نامہ ہے جس کے رو سے  میری جائداد میں تجھ کو پورا حق مل جائے گا۔ تو بڑے کردار کا آدمی ہے اس کردار کا آدمی اگر یہودی یا محبوسی بھی ہو جائے پھر بھی وہ  اس امر کا مستحق ہے کہ اس کو سر آنکھوں  پر جگہ دی جائے۔ یہ کہہ کر میرے باپ پر رقت طاری ہو گئی اور دھندلی آواز میں  فرمایا بیٹا میں  تیرے کردار کے سامنے سر جھکاتا ہوں ۔  میرے منھہ سے  دفعتاََ چینخ نکل گئی، ارے میرے باپ کتنا بڑا آدم ہے اور جھپٹ کر میں   نے ان کے دونوں  جوتے اُٹھا کر  سر پر رکھ  لئے۔  سر سے اُتر کر سینے سے لگا لئے۔ پھر باپ کے قدموں   سے منہ رگڑ نے لگا اور میرے باپ نے مجھے چھاتی سے لگا لیا اور خود بھی رونے لگا ۔

 اسطرح  ایک خواب  جوش  کی تمام پریشانیوں  کا قلع قمع کر دیتا ہے۔ اس خواب کے کچھ عرصے بعد جوش ایک اور خواب دیکھتے ہیں   لیکن اب کی بار یہ  خواب جوش  کی زندگی میں  آگ لگاتا ہے۔ اس  خواب سے پہلے جوش ایک روحانی خیال سے بھی گزرتے ہیں ۔  اس خواب و خیال نے جوش کو زندگی بھر رُلا کے رکھ دیا ۔ہوتا کچھ یوں  ہے:۔

 کافی عرصہ بعد جوش  اپنے والد کے انتقال حوالے سے ایک خواب دیکھتے ہیں ۔ انگریزی میں  کہتے ہیں  “Forth  coming events cost thier shadows before”  یہ قول  یادوں  کی برات پر صادق آتا ہے والد کے انتقال پر مصنف ایک  خوف ناک پیش بینی  کرتے ہیں ۔ شاعر اپنے بھائی اور دوست کے ہمراہ آگرہ میں  مقیم ہوتے ہیں  کہ اتنے میں  اُن کے والد اُن سے ملنے آتے ہیں ۔  اسے آگے کیا ہوتا ہے آپ بھی ملاحظہ کیجئے

”  اسی اثنا میں  میرے باپ  جب  ہم لوگوں  کو دیکھنے کے لئے آگرے  تشریف لائے  اور تین چار دن قیام فرما کر لکھنو جانے لگے  تو ہم لوگ آگرہ سٹی تک انہیں  رخصت کرنے گئے۔ اور جب وہ گاڑی میں  بیٹھ گئے  اور گاڑی رینگنے لگی  تو دفعتہََ میرے دل سے یہ  صدا آئی کہ میاں  کو جی بھر کے دیکھ لو  اب انہیں  کھبی  نہین دیکھ سکو گے۔ یہ خیال آتے ہی  میرا سر چکرانے لگا ، اور دل تھام کر  ایک قریب کے بینچ پر بیٹھ گیا ، رئیس اور ابرار گھبرا گئے ۔ نو روز دوڑتا  گیا اور پانی لے آیا۔ مین نے پانی کے دو گھونٹ  پیے، اچھونگ گیا ، ابرار نے میرے پیٹ پر گونسسے مارے  اور رئیس میرا منہ اور گلا  سہلانے لگا ۔ اُچھو سے تو نجات مل گئی ، لیکن اس خیال سے جو کانٹا  چھبو دیا تھا دل سے نہیں  نکلا ۔ رئیس  اور ابرار نے پوچھا ،  یہ کیا ماجرا ہے، میں  نے اصل بات نہے بتائی ، حمال دیا”۔

            “اس واقعے کے بعد میں  اُداس اُداس رہنے لگا ۔ اور  اس کے چھ سات دن کے بعد  میں  نے خواب دیکھا  کی میرے باپ کی لاش محمد علی چچا  کی موٹر میں  لکھنو  سے ملیع آباد جارہی ہے۔

             میرا دل زور زور اس  قدر سے دھڑکا  کہ آنکھ کھل گئی ۔ آنسووں  سے لبریز انکھوں  سے میں  نے گھڑی دیکھی ۔ صبح  کے چار بج رہے تھے۔  میں  نیچے آیا ابرار اور ر ئیس  کو  جگایا ، ابرار سے کہا تم پہلے ہی گاڑی سے لکھنو چلے جاو اور میاں  کی خیریت سے بذریعہ تار مطلع کرو”۔

            “دوسرے دن تار آگیا  میرے باپ کے انتقال کا۔ تار بجلی کی طرح مجھ پر گرا۔ چینخیں  مار مار کر میں  رونے لگا”۔

آگے جاکے جوش اس خواب کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں  کہ جسطرح سے  انھوں  نے  خواب دیکھا  تھا عین اُسی طرح اس کے والد  کا انتقال  ہو گیا تھا۔

ان دو خوابوں  کے بعد تلاش معاش  کے سلسلے میں   جب مصنف  بے حد پریشان ہو جاتے ہیں  تو ان کی بیوی کے آنکھوں  میں  آنسوں  آجاتے ہیں  اور بعد میں  جوش بھی  بے حد مغموم  ہو جاتے ہیں ۔ بچوں  کی فکر میں  دونوں  میاں  بیوی جب پریشان ہو جاتے ہیں  تو آگے کا حال خود بزبان جوش ملیع آبادی ”   بیوی نے ڈھارس بندھائی  میرا دل اور بھی مغموم ہو گیا۔او ر دوسرے کمرے میں  آکر  اپنے ببچوں کے مستقبل پر غور کرنے لگا۔ اتنے میں  خدا جانے یکا یک کیا لہر آئی میں  نعت کہنے لگا

اے کہ تیرے جلال سے ہل گئی بزم کافری

 رعشہء خوف بن گیا ، رقص بیانِ آزری

نعت کہہ کر کھانا کھایا اور بستر پر دراز ہو کر لحف اوڑ ھ لیا۔ نعت سر میں  گونجنے لگی ۔ بیوی کے خراٹوں  نے میرے پپوٹے بوجھل کردیئے۔ فاران کی ہواوں   نے لوری دی۔ اور دو چار کروٹیں  بدل کر سو گیا۔

سو گیا، تو پچھلے پہر ایک ا نوکھا خواب دیکھا ۔ سچا خواب یا میرے  تصورات کا گرداب، میں   کیا فیصلہ کروں ۔ یہ دُنیا بڑی حیرت ناک و پُر اسرار ہے۔

ہاں  کو یہ خواب دیکھا  کہ ایک تابناک چہرے کے مرد  بزرگ میرے سامنے کھڑے ہوئے ہیں  اور  چاندان کا طواف کررہا ہے۔  میں  نے ان کی طرف نگاہ اٹھائی، آنکھوں  میں  کھیر گی آئی، بار بار میں  نے آنکھیں  ملیں  غور سے ان کو دیکھا۔ پل بھر میں  حافظ جگمگا اٹھا،  میں  پہچان کر ان کے قدموں  میں  گر گیا اور منھ ملنے لگا ان کے نعلین پر۔  انھوں  نے ہاتھوں  کا سہارا دیکر مجھ کو اُٹھایا  میں  نے روتے ہوئے  پوچھا کیا آپ میرے وہی رسول ۖ ہیں   جنھوں  نے اپنا دیدار لڑکپن میں  مجھے دکھا دیا تھا۔ یہ سُن کر وہ مسکرائے اور ارشاد فرمایا،  ہاں  میں  وہی تمہارا پہلے خواب کا محمد ۖ  ہوں ۔ یہ سنتے ہی میں  ان کے قدموں  پر گر کر  اور ان کی تعلین پر  منھ رگڑ رگڑ کر رونے لگا

میرے محمد ۖ  نے فرمایا،  اُنھوں  نے کہا  تم ہنسنے کے لئے بنے ہو، روتے کیوں  ہو۔ اور یہ کہتے ہی میری پائینی کی جانب اشارہ کرکے  حکم دیا  کہ تم اس شخص کے پاس  چلے جاو۔ میں  نے اُدھر نگاہ اُٹھائی تو دیکھا کہ ایک بادشاہ سر جھکائے اور ہاتھ باندھے کھڑا ہوا ہے، میں  نے کہا اے میرے رسولۖ ، یہ کون ہے؟ انھوں  نے ارشاد فرمایا یہ نظام دکن ہے ، تم کو دس برس تک  اس کے زیر سایہ رہنا ہے۔  یہ سُن کر  میرا دل یکا یک اس طرح دھڑکنے لگا کہ اس کے خربات پیہم سے میری آنکھ کھل گئی اور روتے روتے میری ہچکیاں  ، بند ہوگیں “۔

جوش ملیع آبادی لکھتے ہیں  کہ روتے روتے جب میں  نے اپنی آنکھیں  کھولیں   تو ہر طرف خوشبو ہی خوشبو تھی۔ آگے جاکر مصنف لکھتے ہیں  کہ جیسا  میں  نے خواب میں  دیکھا  تھا   با لکل ویسا ہی ہو گیا  اور مُجھے برابر دس سال دکن میں   گزارنے پڑے۔ اسی  قسم کا اور ایک واقع ملاحظہ ہو:۔

دھول پور میں  جب جوش ملیع آّبادی اپنے ایک دوست روپ سنگھ کے ہاں  ٹھرے ہوئے تھے اور یہ اُمید تھی کہ مہاراجہ دھول پور انھیں  اچھی سی نوکری دیں  گے۔ ملازمت کی اُمید میں  جوش مسلسل تین مہینوں  تک انتظار کرتے ہیں ۔ اور انھیں  کف افسوس کے سوا کچھ اور نہیں  ملتا۔ جب جوش تنگ آ جاتے ہیں  تو خود بزبان جوش   ہر بار  انھوں  نے ملازمت کا وعدہ کیا تھا  لیکن ایفاء کی نوعیت نہیں  آئی، جب اس گومگو میں  دو تین مہینے گزر گئے تو مجھے تشویش ہونے لگی کہ آخر ماجرا کیا ہے۔

“اُسی اثنا میں  خواب دیکھا  کہ مولوی احمد امین صاحب فرما رہے ہیں ۔ کہ مہاراجہ سے کوئی اُمید نہ رکھئیے۔ آپ رند پاک باطن ہیں  وہ بگلا بھگت۔ صبح  ایک تار آئے گا ، اس پر عمل  کیجئے گا ۔ میں  نے بیدار ہوتے ہی روپ  سنگھ کو یہ خواب سنا دیا۔ انھوں  نے کہا  یہ خواب تو ایسا ہے کہ اسکے سچے جھو ٹے ہونے کا تو  آج ہی پتہ چل جائے گا ۔ اس کے کوئی دو گھنٹے کے بعد ، جب ہم لوگ ناشتے سے فارغ  ہوکر گپ شپ کر رہے تھے کہ مہاراجہ کے پرایئویٹ سیکرٹری آّگئے  اور مجھ سے کہا  میں  آپ سے تخلیے میں  باتیں  کرنا چا ہتا ہوں  ۔ اور جب میں  ان کو دوسرے کمرے میں  لے گیا  تو انھوں  نے  کہا سرکار فرماتے ہیں  کہ میرا  اور جوش صاحب کا معاملہ تو ایسا ہے جیسا درخت اور چھال کا ہوتا ہے۔  اگر وہ یہاں  سے چلے گئے تو میں  بے بکل کا درخت ہو جاوں  گا۔ میں  جوش صاحب کو ایک اچھا سا عہدہ دینا چا ہتا ہوں  مگر دو شرطیں  ہیں   ایک تو وہ شراب ترک کردیں   اور دوسری یہ ہے کہ روپ سنگھ سے ملنا چھوڈ دیں ۔ میں  نے کہا مہاراجہ سے جاکر کہہ دیجیے کہ انہوں  نے میری ذات کے ساتھ جس یگا ینگی کا اظہار کیا  ہے میں  اس کا تہہ دل سے شکرگذار ہوں ۔ لیکن اس کے باوجود  نہ تو میں  شراب ہی ترک کردوں  گا  اور نہ ہی روپ سنگھ کی محبت سے دستبردار ہوں  گا”۔

گو کہ ایک بار پھر جوش کو غیبی  خبر نے آگاہ کرکے بڑی مصیبت سے آزار کرا دیا۔ کھبی ایک خواب مصنف کو مذہب کا راز بتلاتا ہے۔ تو کھبی  تو ایک خواب ہے مصنف کو  والد کے داغ مفارقت کی منحوس  خبر دلاتا ہے  اور کھبی ایک خواب جوش کو تلاش روزگار میں  امداد فرہم کرتا ہے۔

ان تمام چیزوں  سے پرے ایک اور دلچسپ  واقعہ  بھی سُن لیجئے۔ جوش  سیاست یعنیٰ جدوجہد  آزادی میں  حصہ لینا چاہتے ہیں  اور  دلچسپ بات یہ ہے یہاں  بھی انھیں   ایک خواب کے زریعہ سے ہی صیح رہنمائی ہوتی ہے۔  شروع شروع میں   ان کے ذہن میں  طرح طرح کے خدشات جنم لیتے ہیں ۔  ایسے میں  شاعر انقلاب ایک بار پھر تذبذب کا شکا ر ہو جاتے ہیں ۔ اور حسبِ روایت اس بار بھی مصنف  کو اس تذبذب سے ایک خواب ہی نکا لتے ہیں ۔

“یہ واقع غالباََ ١٩١٨ء کا ہے کہ سب سے پہلے محمدمستقیم نے مجھ کو گاندھی جی کی شخصیت اور تحریک آزادی سے آگاہ کرکے کانگریس  کے سالانہ  اجلاس میں  شریک  ہونے کے واسطے احمد آباد  بیجھا تھا۔ شام کے وقت احمد آباد پہنچا ایک خیمے میں  جاکر ٹہھر گیا تھکا ماندہ تھا۔ کھانا کھا کر سو گیا ، پچھلے پہر یہ خواب دیکھ ہی رہا تھا   کہ میں  تختہ سلیمان  پر بیٹھا  اُڑ رہا ہوں   کہ میرا خیمہ  تانوں  سے گونجنے لگا ۔ آنکھ کھل گئی، گھڑی دیکھی  سوا چار کا وقت تھا ، خیمے کا پردہ اُلٹ کر باہر آگیا۔

 باہر آتے  ہی دیکھا کہ میرے خیموں  کے شہر پر  ، سلونی سی گلابی روشنی برس رہی ہے۔ اور سینکڑوں  زہرہ جمال گجراتی لڑکیاں  ، پیلی پیلی کمروں  میں  سُرخ سُرخ  پٹیاں  باندھے اور ہاتھوں  میں  شمعیں  اُٹھاتے قومی ترانہ گا رہی ہیں  اور پوری  دُنیا  چھما چھم ناچ رہی ہے”

یہاں  پہ ان خوابوں  کے علاوہ  کچھ اور بھی خواب  کتاب   ” یادوں  کی برات ”  میں  درج ہیں  لیکن ان کا ذکر غیر ضروری ہے۔  مذکورہ بالا خوابوں  میں  کتنی حقیقت  اور کتنی ملاوٹ  ہے وثوق کے ساتھ کچھ کہا نہیں  جا سکتا۔  البتہ کتاب کو دلچسپ اور جاذب نظر بنانے میں   علاوہ ازیں  کتاب کی حلاو ت  برقرار رکھنے  میں  یہ خواب بار آور ثابت ہوتے ہیں  اگر چہ مصنف نے کافی حد تک مبالغہ آرائی سے بھی کام لیا ہے لیکن  ہمیں   بہرحال  اسکے روحانی پہلووں   کو بھی نظر انداز نہیں  کرنا چاہیے۔ قابل شک بات یہ ہے کہ  جب مصنف کسی خطرناک دلدل میں  پھنس جاتے ہیں  تو کیونکر عین اسی وقت ایک خواب اسکے تمام مسائل کا  گلا گھونٹ دیتا ہے؟ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ جب مصنف پریشان ہوجاتا ہے تو قاری اظہار ہمدردی  کر بیٹھتا ہے۔ جب مصنف خواب دیکھنے لگتا ہے تو قاری کشمکش کا شکار ہو جاتا ہے۔ اور جب مصنف  مسلوں  کا حل  لے آتا ہے تو قاری کے آنکھوں  میں  خوشی کے آنسوں  آجاتے ہے۔

یقینا” ََ یادوں  کی برات” کے خواب  کتاب کے حسن کو دوام بخشتے ہیں  ان خوابوں  کی وجہ سے کتاب پر رونق   اور پر کشش بن جاتی ہیں  ۔ اور نہ صرف اس کتاب کے معاشقے ،  خاکے ، ہجرت پاکستان  اسکی دلچسپی میں  چار چاند لگاتے ہیں  بلکہ اس کتاب کے خواب  جو جوش ملیع آبادی نے وقتاََ فوقتاََ دیکھے ہیں  بھی اس کتاب کو ایک اعلیٰ مقام عطا کرتے ہیں  ۔

             محسن  مقبول

لیکچرار اُردو ، گورنمنٹ ڈگری کالج سوگام (لولاب)

            کپوارہ کشمیر

رابطہ نمبر :  9622532666

ای میل آئی ڈی:mohasinurdu@gmail.com

Leave a Reply

1 Comment on " یادوں  کی برات   “یا ”   خوابوں  کی سوغات
"

Notify of
avatar
Sort by:   newest | oldest | most voted
trackback

[…] 120.     یادوں  کی برات   “یا ”   خوابوں  کی سوغات […]

wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.