اردو کی نیرنگ خیال شخصیت: ناشر نقوی
اردو زبان و ادب کی تاریخ کا منظر نامہ جب اکیسویں صدی کے حوالے سے سامنے آتاہے تو اس میں ناشر نقوی کا نام نمایاں طور پر ہمارے سامنے اجاگر ہوگا۔ناشر نقوی کی انفرادیت یہ ہے کہ انہوں نے زبان و ادب کے ہر میدان میں اپنی الگ شناخت بنائی۔ بطور استاد اردو زبان کے فروغ کے لیے ان کی نگارشات اور کتابیں یونیورسٹی سطح پر نصا بوں میں شامل ہیں ۔انہیں آج اردو شاعری میں ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ وہ اگرچہ نثر اور نظم کی مختلف اصناف میں مہارت رکھتے ہیں لیکن انکی شاعرانہ شخصیت اتنی تاب ناک اور پُراعتماد ہے کہ دیگر جہات ان کی شاعری کے مطالعے کے دوران محو ہو جاتی ہیں ۔ ان کا ہر شعر اپنے اندر نِرالی دنیا بسائے قاری کو موج آفرینی تک رسائی کراتا ہے۔ ان کی شاعری تجرباتی اور جمالیاتی کیفیت و تاثر کے ساتھ مسرت سے بصیرت تک لے جاتی ہے۔ وہ ایک فطری شاعر ہیں ان کی شاعرانہ خصوصیت کے لیے عمومی انداز اپنائے کوئی خیال پیش کرنا نا مناسب ہی نہیں بلکہ ناانصافی کے مترادف ہوگا۔ ان کی شاعری میں ہررنگ کا نزول موجزن ہے۔ وہ اپنی شاعری میں فطرت کے نظاروں کا لطف اٹھا کر ان میں سرمست ہونے کی آرزو بھی رکھتے ہیں ۔ اور وارداتِ قلب کو لفظوں کے رنگوں سے سنوارنے کی سعی بھی کرتے ہیں ۔ وہ کہیں تصوف کی دنیا میں سرمست نظر آتے ہیں تو کہیں علامتی اظہار کا پیروکار۔ انہوں نے اگرچہ کئی اصناف سخن میں طبع آزمائی کی لیکن بنیادی طور پر ان کی محبوب صنفیں مرثیہ اور غزل رہی ہیں ۔
وہ شاعری کی دنیا میں قدم رکھتے ہی غزل سے ہمکنار ہوکر اسکے سنگ اپنے رنج و غم بانٹنے لگے اور غزل کو معشوقہ بنا بیٹھے جس سے وہ محبت بھی کرتے ہیں ۔ اسے سجاتے سنوارتے بھی ہیں اور اس کے ناز نخرے بھی اٹھاتے ہیں ۔ کہا جاتا ہے کہ اکثر شاعری کی شروعات غمِ عشق یا غمِ جہاں کے درد و قرب سے ہوتی ہے۔ دنیا کے اکثر شاعروں کا گزر باداعاً اسی راستے سے ہوا، خواہ میر ہو یا غالب،فیض ہو یا سردار جعفری، ناشر نقوی کا گزر بھی اس راہ سے پرے نہ رہ سکا۔ اس نے بھی اپنی زندگی میں دردستم کے نشیب و فراض سہے ہیں ، کبھی ہجرت کا ستم توکہیں اپنوں کے کھونے کا غم۔ اس دوران وہ اس آگ کے دریا کا تیراک بھی بن گیا جسے شاعر’ عشق ‘کے نام سے یاد کرتے ہیں ۔
ناشر نقوی نے چھوٹی عمر میں ہی شاعری کرنی شروع کردی۔ یہ کہنا بے جانہ ہوگا کہ شاعری انہیں وراثت میں نصیب ہوئی۔ انہوں نے جس ماحول میں جنم لے کر اپنے لڑکپن کے ڈگمگائے قدموں کو سنبھال سنبھال کر کئی سنگ میل پیچھے چھوڈے، وہ ہر قدم سخن فہمی سے شروع ہو کر سخن وری تک گنج شکر شعر بنتے گئے۔ وہ بچبن ہی سے شاعرانہ محفلوں میں شرکت کرتے تھے۔ خود رقمطراز ہیں :
” امّاں کی گود سے بابا کی انگلی پکڑ کر مجلسوں میں جانے تک مجھے انیس اور دبیر کی بہت سی رباعیاں ازبر ہوچکی تھیں ۔ پانچ برس کی عمر میں انیس و دبیر اور پھر مرثیوں کو تحت اللفظ خوانی کے ساتھ پڑھتے ہوئے مجلسوں کا ذاکر بن گیا۔اسی وابستگی نے مجھے سخن ور بنا دیا۔” ١
گو بچپن ہی سے اردو ادب کے بہت قریب رہنے کی وجہ سے ناشرنقوی کے یہاں ذوقِ جمال بھی نظر آتا ہے اور شوقِ کمال بھی۔ جیسا کہ پہلے ہی ذکر ہوا کہ وہ فطری شاعر ہیں ، انہیں شعر کہنے کے لیے ذہن پر زور دینے کی ضرورت نہیں پڑتی بلکہ کوئی خیال ذہن میں آئے تو لفظ خود بخود زبان پر نمودار ہوجاتے ہیں ۔وہ زبان دان ہی نہیں اہلِ زبان بھی ہیں جس کی خوبصورتی ان کی شاعری میں خوبب چھلکتی ہے اور یہ کہنا بھی مبالغہ آمیزی نہیں ہوسکتی کہ موجودہ دور میں ناشر اپنے آپ میں ایک انجمن سے کم نہیں ۔ وہ شاعر نہیں بلکہ گنج چشمہء شعر ہیں جہاں ہر وقت نتِ نئے خیالوں کی پھواریں پھوٹتی ہیں اور اشعار کا نزول مسلسل ہوتا رہتاہے۔اسی گنج چشمہ سے آج تک کئی کتابوں نے اپنا وجود حاصل کرکے منظرِ عام پر نمودار ہوئیں جن میں شعری ہی نہیں بلکہ نثری تخلیقات بھی شامل ہیں ۔ ان کتابوں میں ”انگنائی” ،”تشنگی”، ”دیدہ وری”،”وسیلہ”،”تحریک آزادی میں اردو کا حصّہ” وغیرہ اردو ادب میں ایک اہم مقام رکھتی ہیں ۔ اعجاز عسکری لکھتے ہیں :
” ناشر نقوی اپنی عمر سے بڑے تجربے رکھنے والے شاعر کا نام ہے ادب اور شاعری کی ریوایت اور فن کو پیش نظر رکھتے ہوئے دریافت کی تلاش کرتے آگے بڑھتے جارہے ہیں ۔اس راہ میں خلوص دل اور لگن ان کی رہنما ہے۔” ٢
وفا کی راہ میں دل کا سپاس رکھ دوں
میں ہر ندی کے کنارے پہ پیاس رکھ دوں
گلاب سرخ تبسم سے دیں گے میرا پتہ
شفق میں اپنا میں خونی لباس رکھ دوں
جہاں دلوں کو اندھیروں کا سامنا ہوگا
وہاں میں اپنے چراغِ حواس رکھ دوں
٭٭٭
کوئی کافر نہ پار سا مجھ میں
صرف آباد ہے دعا مجھ میں
میں تو دیوانگی کا عاشق ہوں
عقل نے زہر بھر دیا مجھ میں
جو بھی ملتا ہے کھوجاتا ہے
آئینہ کون رکھ گیا مجھ میں
پہلے اک شہر تھا کبھی آباد
اب کوئی گھر نہیں رہا مجھ میں
ناشر نقوی ایک ایسی داخلی شخصیت کے مالک ہیں جس میں قدرے مہارت،جسارت،اعتماد،اعتقاد،مرغوبیت اور بصیرت نظر آتی ہے۔ بڑی باغ و بہار طبعیت کے والی۔خارجی صورت پر نظر ڈالیں تو درازقد،گورارنگ،صوفیانہ چال ڈھال، چہرے پہ ہر لمحہ تروتازگی،نفاست پسندی،نوابی انداز اور مخالفین کو لمحوں میں اپنے خلوص،باتوں اور لہجے سے موہ لینے اور متاثر کرنے والا ذہن،رہن سہن اور خوردونوش کا اپنا الگ ذوق وشوق،خوشحال زندگی بسر کرنے کے فن سے واقف،دوستوں و اقارب میں ہردل عزیز۔ان کے دنیاوی سفر کی شروعات ١٥ جولائی ١٩٥٦ء کو ہوئی۔ ان کے والد محترم سید ناظر حسین نقوی ایک زمیندار ہونے کے ساتھ ساتھ معتبر شاعر اور صحافی بھی تھے۔ ناشر نقوی نے ابتدائی تعلیم امروہہ کے مقامی اسکول اور آی۔ایم۔انٹرکالج سے حاصل کی۔ ١٩٧٤ء میں انہو ں نے اپنی شاعری کا آغاز کیا۔
ناشر نقوی ایم۔اے کرنے کے بعد دہلی میں تلاشِ معاش کے لیے ہاتھ پیر مارنے لگے۔ وہیں ان کی ملاقات تمازت شاعرِہند مہدی نظمی سے ہوئی جو ان کے بھی استاد بن گئے۔ ناشر کو شاعری کا شوق تو بچپن سے ہی تھا ،لہذا انہیں نظمی کی صبحت میں رہ کر اصلاحِ شعر میں بہتر مواقع فراہم ہوئے جس کے نتیجے میں ان کے فن میں نکھار پیدا ہوتا گیا۔ ناشر نقوی روزگاری طور پر دہلی اور جواہرلعل نہرو یونیور سٹی سے بھی وابستہ رہے جہاں ان کو ممتاز اردو دانشوروں سے قریب ہونے کا بھی موقہ ملا ۔ پروفیسر محمد حسن ،پروفیسر قمررئیس، پروفیسر اعجازعسکری، پروفیسر تنویر احمد علوی، پروفیسر ممتاز حسین ، پروفیسر مونس رضا وغیرہ انہیں بہت عزیز رکھتے تھے۔ پروفیسرجاوید وشیشٹ کے کہنے پر ناشر نقوی ہریانہ اردو اکادمی کے رکن ہوکر وہاں کے ایدیٹر ہوگئے جہاں انہوں نے اپنی صلاحیتوں کے خوب جوہر دکھائے۔ اسی دوران پنجاب یونیورسٹی چندی گڑھ سے ”اردو کے سکھ شعرائ”موضوع پہ ڈاکٹریٹ کی سند بھی حاصل کی اور کچھ عرصہ بعد ان کا تقرر پنجابی یونیورسٹی کے ”شعبہ فارسی،اردو اور عربی” میں بحیثیت لکچرار ہوا اور آج کل بھی اسی شعبہ میں اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں ۔ کئی سالوں سے اس شعبہ کے پروفیسر اور صدر ہونے کے علاوہ یونیورسٹی کے بابا فرید صوفی سینٹر میں ڈائریکٹر کے عہدے پر بھی فائز ہیں ۔
ناشر نقوی کا مقام آج اس قدر نمایاں ہے کہ وہ نہ صرف ملکی حدود بلکہ بین الاقوامی سطح پر اپنی شاعری اور منفرد لہجے کے حوالے سے پہچان رکھتے ہیں ۔ اس مقام تک پہنچتے پہنچتے انہوں نے نہ جانے کتنے دریا چھانے ۔وہ تنکا تنکا جمع کرکے اپنی شاعری کا خوبصورت محل تیار کرنے میں نہ جانے کتنے پیچ و خم سے گزرے جس کا وہ ذکر کرنا بھی مناسب نہیں سمجھتے۔
خود لکھتے ہیں :
”تیز رفتار زندگی کے سفر میں نہ جانے کتنے اتار چڑھاو آئے ہیں ،زمینداری کا زوال اور غربت کا عروج دونوں میرے سامنے ہیں ۔ نہ جانے کتنی گھاتیں اور سائیں سائیں کرتی حولناک راتیں ہیں جن کے تذکرے کرسکتا ہوں لیکن اِرادتاً انہیں چھوڑ رہا ہوں ۔” ٣
وہ اپنے ان ستم رسیدہ حالات کو یوں اشعار میں چھُپانے کی کوشش کرتے ہیں ۔
رنجشیں چھوڑ دیں سب سے لڑائی چھوڑ دی
کوئی جاناں میں بھلا اب دیکھنے کو کیا بچا
عیب تھا سچ بولنا میں نے برائی چھوڑ دی
سُن رہا ہوں آپ نے بھی اب بے وفائی چھوڑ دی
ناشر نقوی نے جدید لب و لہجہ کی آمیزش اور منفرد اسلوب و انداز میں بامقصد شاعری کی ہے۔ ان کے ہر شعر میں عصری آگاہی اور انسانی زندگی کی عکاسی ملتی ہے۔ یہ شاعری مختلف آوازوں کا سنگم اور سرگم ہے جس میں فطرف پسندی ، حسن پرستی، حرکت، قوت اور توانائی بھی شامل ہے۔ ان کی شاعری بلند آہنگی اور نغمگی سے لبریز ہے جس میں تغزل ، سادگی، شریں زبان،متوازن اندازِ بیان، حالات و واقعات کی تلخی اور زندگی کی سرگرمیوں کا تذکرہ مہذب اور شائستہ انداز میں ملتا ہے۔ وہ لفظوں سے کھیلنے کا ہنر بھی جانتے ہیں ۔ کہیں سادہ اور عام فہم انداز میں الفاظ و تراکیب ،استعاروں ،کنایوں کا استعمال کرتے ہیں تو کہیں ابہام و ایہام گوئی کے علاوہ محاوروں کا محل خوب سجاتے ہیں ۔ انہوں نے فکری سطح پر ایک نیا افق قائم کرکے الفاظوں ، استعاروں اور رموزوں کے متوازن استعمال سے اردو شاعری کا مروجہہ لفظ راش نئے معنوں میں ڈال کر ذہنی کنواس پر پیدا شدہ امیجوں اور پیکروں کی برمحل عکاسی کی ہے۔ وہ اگرچہ کچھ حد تک روایتی شاعری کے ہمراہ بھی اپنے قدم بڑھاتے رہے لیکن روایت سے ہٹ کر نئے خیالات کو نئے انداز میں پیش کرنے کی سعی بھی کی۔ وہ ماضی کی قدروں کے دلدادہ بھی ہیں اور حال کے پُرآشوب زندگی کے ترجمان بھی۔
پروفیسر ممتاز حسین ناشر نقوی کی شاعرانہ عظمت کو یوں قلمبند کرتے ہیں ۔
”ناشر نقوی کی شاعری دور ِحاضر کی عمومی شاعری کے اس رجحان کے عین مطابق ہیں جو روایتی اور فرسودہ اندازِ سخن کو رد کرچکا ہے اور اب لفظوں کے انتخاب نیز نئی ترکیبوں کے اختراع سے ایک نئے جہان معنی میں دریچے و ا کر رہا ہے۔” ٤
ناشر نقوی زمانے کی ضرورت کو سمجھ کر اپنے نئے آہنگ سے عشق و محبت ،جمال و جلال، نفرت و بغاوت اور انتشار جیسی کیفتوں کو فنکارانہ وصف کے ساتھ پیش کرنے کا ہنر رکھتے ہیں ۔ انہیں اپنی شاعری میں روایتی حسن کو ضم کرنی کی صلاحیت بھی ہے اور اپنے محبوب کو نئے انداز سے منوانے کا شرف بھی ۔ وہ فنی روایتوں کی تخلیقی تقلید کو عصری تقاضوں کے مطابق سرانجام دینے کے کوشاں بھی ہیں ۔ ان کی شاعری میں تجربات اور مشاہدات کی عکاسی بھی ہیں اور حیات و کائنات کی آئینہ داری بھی۔ وہ انسانی زندگی کے قریب ہوکر اسے شعری قالب میں ڈال دیتے ہیں جہاں فکر انگیز موضوعات اور چھوٹے چھوٹے تجربات کو چابُک دستی سے منفر انداز میں یوں پیش کرتے ہیں کہ توجہ گیر صورتحال دیدمان ہوتا ہے۔ ان کی شاعری زندہ شاعری کی مشال ہے جہاں شگفتگی بھی ہے اور سوزو گداز کی گہما گہمی بھی ،اور اس ساری شاعری میں جس چیز کی گہرائی ملتی وہ ہے رشتوں کی پامالی، اپنوں سے بچھڑنے اور انہیں کھونے کا غم، حالات کے گرد و غبار میں اپنی پہچان کے گم ہونے کا کرب اور خاندانی رواج کو نبھانے کا جذبہ۔ غرض جو کچھ انہوں نے دیکھا، سہا اور کھویااسی کو لفظوں میں برتا۔
کیوں میری روح بتا تو نے بدن چھوڑ دیا
خود ہی آوارہ ہوئی اپنا وطن چھوڑ دیا
خون ہوتے ہوئے پھولوں کا نہ دیکھا جاتا
میں نے بہتر یہی سمجھا کہ چمن چھوڑ دیا
کیا شکایت کریں بچوں کی کہ جب خود ہم نے
گفتگو چھوڑ دی تہذیب کا فن چھوڑ دیا
٭٭٭
شور مت کرنا ابھی میری غزل کے پیچھے
حسرتیں سوئی ہیں اس تاج محل کے پیچھے
بس یہی سوچ کے میں اپنے بڑھاتا ہوں قدم
روح چلتی ہے بزرگوں کی عمل کے پیچھے
غور کرتا ہوں تو ذائقہ بڑھ جاتا ہے
آندھیاں جھیلی ہیں پڑوں میں پھل کے پیچھے
٭٭٭
خود اپنی ہی حدود کا دائرہ تھا سائباں ہم تھے
نہ جانے رات کتنے تجربات کے درمیاں ہم تھے
عجب انداز کی سوزِش تھی ناشر جھلسے ماضی کے
ملا کرتے تھے شہزادے جہاں وہ داستاں ہم تھے
مرثیہ صنف میں ناشر نقوی اینسایکلوپیڈایا آف مرثیہ کے مطابق موجودہ دور کے اہم مرثیہ نگاروں میں شمار کیے جاتے ہیں ۔ ان کی مرثیوں کی خوبصورتی دیکھ کر مہدی نظمی نے ایک پیشن گوئی کی تھی کہ”مرثیہ کی دنیا میں ان(ناشر نقوی) کا نام انشا اللہ ‘ تاریخ ساز ‘ نام بنے گا” جو آخر کار سچ ثابت ہوئی۔ ناشر نقوی نے آج کے رثائی ادب پہ’دیدہ وری’ ،’وسیلہ’،’لالہ زار صبح’ جیسی انمول کتابین تحریر کی ہیں جن کا ہر مرثیہ مہارت کا نمونہ ہے ۔ ‘لالہ زار صبح’ میں جہاں سات مرثیے شامل ہیں وہیں ‘دیدہ وری’ میں چھے مرثیے قلمبند کیے گئے ہیں ۔ ان میں ہر مرثیہ نئی نشیب ،نئے رجز اور نئے مصائب کو منظرِ عام پر لاتا ہے۔ ناشر نے جہاں ان مرثیوں کو نئے تشبیہوں ،استعاروں اور محاورں سے سجاتا ہے وہیں لفظوں کو بھی نئے معنوں میں بساتا ہے۔ پروفیسر وسیم بریلوی لکھتے ہیں :
”ناشر کا جدید مرثیہ حسنِ عقیدت کا مظہر ہونے کے ساتھ ساتھ آج کی روشن خیالی کو بھی تعمیری جہتوں سے روشناس کرواتا ہے۔ اس میں نہ روایتی سراپا ہے نہ چہرہ، نہ منظر کشی ہے نہ جزبات نگاری،نہ بیان، شہادت ہے نہ بین۔ یہ نیا مرثیہ ہے۔” ٥
یہی آنکھیں اک پیغمبر کی رگِ جاں ہوگئیں
یہی آنکھیں روزنِ دیوارِ زندہ ہو گئیں
٭٭٭
جس نے طبئع قیصری بیمار کردی وہ حسین
جس نے سطحِ زندگی ہموار کردی وہ حسین
جس نے پوری سلطنت مسمار کر دی وہ حسین
جس نے بچوں کی ہنسی تلوار کردی وہ حسین
٭٭٭
دل پہ آرے کی طرح چلتے ہیں تحریر کے بین
بس قلم روک لے ناشر نہ سنا دردِ حسین
سر پہ ڈالے ہوئے ہیں خاک رسولِ الثقلینۖ
پر سئہ اشک دے ہیں فاطمہ زہرا بے چین
ناشر نقوی کا شعری سرمایہ غزلوں اور مرثیوں کے علاوہ نظموں پر بھی مشتمل ہیں ۔ ان کی نظموں میں موضوعاتی تنوع ، فنی ارتقاء ربط و تسلسل اور زبان و بیان کے حسن کے علاوہ ایک نوع کی تازگی کا احساس بھی ہے جو اپنی ایک الگ شناخت رکھتی ہے ان نظموں میں زبان و بیان کا تخلیقی برتائو اپنی طرف خوب متوجہ کرتا ہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ ان نظموں میں نغمگی بھی جھلکتی ہے۔ ان کی ایک غیر مطبوعہ نظم ”ساون” کے چند شعر ملاحظہ فرمائیں :
جب مست ہوا لہراتی ہے
اک بدلی سی چھا جاتی ہے
معصوم فضا سو جاتی ہے
ساون کی گھٹا آجاتی ہے
بے چین بہت ہوجاتا ہوں
یادوں میں کہیں کھو جاتا ہوں
جب ساری دنیا سوتی ہے
اور اشبنم تنہا روتی ہے
اپھولوں کے بدن کو دھوتی ہے
جس پر صدقے ہرموتی ہے
بے چین بہت ہوجاتا ہوں
یادوں میں کہیں کھوجاتا ہوں
ان کی نظمیں غنایت اور ترنم کا وصف اوڑھے ہوئے ہیں ۔ ان کی نظموں میں بھی غزلوں کی طرح رومان اور حقیقت کی دوپ چھائوں موجود ہے جہاں تفکر آمیز تجسس بھی ہے اور تجریدی تصورات بھی۔ وہ فطرت کے ساتھ انسان کی وابستگی کا اظہار کرتے ہیں ۔ وہ بے جان اشیا کو ذی روح محسوس کرکے انہیں زبان عطا کرتے ہیں ۔
گھر میں اجالا کوئی نہیں
پوچھنے والا کوئی نہیں
بھیڑ مین دنیا کی تنہا ہیں
بے وارث ہیں بے شایہ ہیں
زندگی کی ہر ایک دھوپ میں سایہ عورت
خشک دھرتی کے لیے پیار کا دریا عورت
گود میں کتنے ہی آدرشوں کو پلایا ہم نے
کہیں مریم،کہیں سارا کہیں سیتا عورت
٭٭٭
تہذیب و ثقافت کا دھارا یہ پنجاب
صوفی اور سنتوں کا سہارا یہ پنجاب
کس کس کی ہے آنکھ کا تارا یہ پنجاب
پانچ ہے دریا پانچ کا پیارا یہ پنجاب
ڈاکٹر جمشید کمال ناشر نقوی کی شاعری کا کمال یوں بیان کرتے ہیں :
”ناشر نقوی کی شاعری کا کنواس بہت وسیع ہے۔ انکے یہاں مختلف موضوعات پر نظمیں ملتی ہیں ۔وہ اکثر بے جان چیزوں کو اپنا موضوع بنا کر ان میں جان ڈال دیتا ہیں ۔” ٦
ناشر نقوی کی جو تصنیفات ابھی تک منظرِ عام پر آئیں ہیں وہ یوں ہیں :
(١) تشنگی ١٩٧٨ئ۔ (٢) وسیلہ ١٩٨٢ئ۔ (٣) آفاقیت ١٩٨٤ئ۔ (٤) لالہ زار صبح ١٩٨٧ئ۔
(٥)۔ تحریک آزادی میں اردو کاحصہ ١٩٨٧ئ۔ (٦)حالی اور سرزمین حالی(مرتب) ١٩٩٠ئ۔
(٧) ماتا منسا دیوی کا تاریخی مندر ١٩٩٠ئ۔ (٨) بساط فکر (مرتب) ١٩٩٢ئ۔ (٩) اردو ، پنجاب اور سکھ شعراء ١٩٩٩ئ۔
(١٠) مہدی نظمی فن اور شخصیت ٢٠٠٢ء ۔ (١١) ادبی جائزے ٢٠٠٣ئ۔ (١٢) صدائے صوفی(مرتب) ٢٠٠٤ئ۔
(١٣) پنجاب اور اردو افسانہ ٢٠٠٤ئ۔ (١٤)دیدہ وری ٢٠٠٥ئ۔ (١٥)سامانہ اور شہزادئہ امام ٢٠٠٨ئ۔
(١٧) انگنائی ٢٠٠٩ئ۔ (١٨) کلیاتِ فیض(پنجابی) ٢٠٠٩ئ۔ (١٩) جپ جی صاحب (منظوم ترجمہ) ٢٠٠٩ئ۔
ناشر نقوی کی اگلی آنے والی تصنیف ہے”امروہہ کی اعزاداری ”،امید ہے کہ اس تصنیف میں بھی وہی جوش اور تازگی نظر آئے گی جو ناشرکے قلم کو کبھی ٹھہرنے نہیں دیتی ۔
وہ برگ و بارا اُگائے ہیں ہم نے گلشن میں
مسل بھی جائے تو ان سے حنا نکلتی ہے
٭٭٭
اک ایسا زندگی کا ضابطہ تشکیل کر آیا
جو سنگِ ذات تھا میں اس کو سنگِ میل کر آیا
نہ حرف و لفظ ہی رکھے ،نہ ہی صوت و صدا کوئی
بس اک سادے ورق پہ زندگی کی تحلیل کر آیا
٭٭٭
حوالہ جات
١ناشر نقوی، ”وجود کا محاصرہ”،بھاشا وبھاج پنجاب٢٠٠٩، صفہ ٢١
٢ناشر نقوی،”لالہ زارِ صبح” بھارت آفسیت دہلی١٩٨٣،صفہ٩
٣ناشر نقوی،’ ‘وجود کا محاصرہ”،بھاشا وبھاج پنجاب٢٠٠٩، صفہ٢٠
٤ناشر نقوی، ”انگنائی” ایجولیشنل پبلشنگ ہاوس دہلی٢٠٠٩،صفہ١١
٥پرواز ادب،”ناشر نقوی نمبر” بھاشا وبھاج پنجاب ،جولائی٢٠٠٩، صفہ٤٢
٦ایضاً، صفہ٥٣
URDU KI NERENG KHAYAL SHAKSIYET: NASHIR NAQVI
MUDASSIR RASHID RATHER
Research Scholar ,(pursuing Ph.D. Urdu), Punjabi University Patiala,Punjab
Address:- Hakura Anantnag ,P/O: Hakura,
Tehsil: Dooru, Distt.: Anantnag, Jammu & Kashmir 192211.
Mobile No.:- 09517460860,09796715300
E.mail:- mferoz41@gmail.com
Leave a Reply
2 Comments on "اردو کی نیرنگ خیال شخصیت: ناشر نقوی
"
good and healthy work..
[…] اردو کی نیرنگ خیال شخصیت: ناشر نقوی […]