صنف نازک کا شاعرانہ ذوق (روبینہ میر کی مختصر کہانی اور ان کا کلام

ماں  کی گود بچے کا پہلا مدرسہ ہے۔خوش نصیب ہیں  وہ بیٹیاں  جن کی مائوں  نے انہیں  اچھی تربیت دی اور زیور تعلیم سے ان کی سیرت کو آراستہ کیا۔

زمانہ قدیم میں  لڑکیوں  کی تعلیم پر زیادہ توجہ نہیں  دی جاتی تھی۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں  کے خیالات اور حالات بدلنے لگے۔باشعور والدین نے وقت کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے اپنی بچیوں  کو پڑھا دینا ضروری سمجھا۔روشن دماغ اور علم کی طلب رکھنے والی لڑکیوں  نے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا شروع کی۔ لہذا آج کی عورت نے اپنی قابلیت اور صلاحیت کا لوہا منوالیا ہے۔بے شمار خواتین نے اردو کی خدمت کرتے ہوئے ادب میں  اپنا نام روشن کیا ہے۔کہا جاتا ہے کہ عورت فطرتاََ کہانی گو یا شاعرہ ہوتی ہے۔ ہم نے بھی سن رکھا ہے کہ نانی اور دادی بچوں  کو اچھی اچھی کہانیاں  سنایاں  کرتی تھیں ۔اکثر خواتین بچوں  کو میٹھی میٹھی لوریاں  دے کر سلایاں  کرتی تھیں ۔

”چکی کے گیت اورڈولک کے گیتوں  سے کون واقف نہیں  ہے۔شاید اسی کی ترقی یافتہ شکل داستانیں ،افسانے اور ناول و شاعری ہیں ”۔(ماہنامہ آندھرا پردیش،مارچ ،2008ص ٢٤)

اُس زمانے میں  جبکہ تعلیم نسواں  کا خاطرخواہ رواج نہ تھا خواتین کا کچھ بھی لکھنا لکھانا معیوب سمجھا جاتا تھا اس لیے انہوں  نے کچھ لکھا بھی تو یا وہ صفحہ قرطاس کی زینت نہ بن سکا یا ان کی تحریر کو نہ اہمیت دی جاتی تھی اور نہ حوصلہ افزائی کی جاتی تھی۔لکھنا پڑھنا صرف گھر کی حد تک محدود ہوتا تھا۔لیکن وقت بدلا،زمانہ بدل گیا،حالات بدل گئے اور ہمارے کشمیر میں خواتین نے تعلیمی میدان میں  بڑے بڑے معرکے سر کیے۔ساتھ ہی یہاں  کی خواتین نے ادب (Literature)میں  مقام و کمال حاصل کیا۔شعر گوئی، افسانہ نگاری،ناول نگاری اور صحافت وغیرہ کے ذریعے سے یہاں  کی خواتین نے اردو کی خدمت انجام دے کر سچے دل سے اس کی آبیاری کی۔اس سلسلے میں  کئی اسم گرامی نازو فخر سے لیے جاسکتے ہیں ۔لیکن یہاں  پر راقم السطور کے ذہن میں  ایک نوجواں  شاعرہ روبینہ میر کا تذکرہ مقصود ہے۔

روبینہ میر صوبہ جموں  کے ضلع پونچھ و راجوری سے تعلق رکھتی ہیں  اس جواں  سال شاعرہ نے پونچھ کے ایک سیاحتی مقام چھتہ پانی میں  آنکھ کھولی۔ لیکن ان کا بچپن ضلع راجوری کے گائوں  بہروڑ کھبلاں  میں  گزرا وہ خود کہتی ہیں :

پونچھ میری جنم بھومی اور میرا سسرال ہے

ارض راجوری میرا ماضی بھی ہے اور حال ہے

جسم راجوری ہے میرا  پونچھ میری جان ہے

جسم و جاں  کے واسطے ہر شے میری قربان ہے

روبینہ میر نے ابتدائی تعلیم مقامی گورنمنٹ پرائمری اسکول کھبلاں  میں  حاصل کی،بعد میں  علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے فاصلاتی تعلیم کے ذریعے گریجویشن مکمل کرکے محکمہ تعلیم میں  بحیثیت سرکاری ٹیچر تعینات ہوئی۔روبینہ میر نہایت انکساری سے کہتی ہیں  کہ ان کا ذخیرئہ الفاظ بہت تھوڑا ہے،انہوں  نے قریباََ 700غزلیں  تخلیق کی ہیں  اصل بات یہ ہے کہ یہ کارنامہ صرف تین سالوں  پر محیط ہے (جنوری2012ء سے لے کر جنوری2015ء تک)۔جن میں 100سے زائد غزلیں  یہاں  کے مقامی روزناموں  میں شائع ہوچکی ہیں نیز اس وقت ان کے تین شعری مجموعے زیر طبع ہیں ۔انہوں  نے اپنی شاعری میں  عورت،سیاست اور کشمیر کے نامساعد حالات کو موضوع بنایا ہے۔ان کی شاعری میں  نا آسودگی کی کیفیت،ظلم و جبر کی انتہا نیز اس میں  کہیں  کہیں  جابجا طنز بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔اس لیے وہ کہتی ہیں ؛

ظلم کی چکی میں  جن کے پس رہے ہوں  صبح و شام

عدلِ  فاروقی کا اُن کو  دَور  بتلائے ہم

روبینہ میر کی غزل گوئی میں  شوخی بے ساختگی کا پہلو اس قدر رچا بسا ہے کہ شعر متاثر کن حدوں  کو چھو لیتا ہے۔انہوں  نے کشمیری مزاج،رنگ و آہنگ کو اپنی شاعری میں  مدنظر رکھا ہے۔ان کی شاعری میں  معشوقہ کا ظلم و ستم،دوست کی جفائیں ،رقیب،وفا،جفا وغیرہ کو آسانی کے ساتھ محسوس کیا جاسکتا ہے جیسے ان کے یہ اشعار؛

جو ہمراہ دو پل میرے چل نہ پائے

اسے کیسے لکھوں ،میرا ہمسفر ہے

کٹے کیسے  افسردہ تاروں  کی لَو میں

بہت ہی بیانک رُتوں  کا سفر ہے

روبینہ میر نے اپنی شاعری میں  تجربات،مشاہدات اور نظریات کو کسی قسم کی کوتاہی اور بناء کسی خوف و خطر کے پیش کیا ہے۔وہ کہتی ہیں ؛

سنسنی بے آئینی رشوت ستانی رہزنی

آجکل ہم پر ہیں  یہ احسان تیرے شہر میں

     مبتدی ہونے کے باوجود روبینہ میر ایک ہنر مند صناع کی طرح شعر تخلیق کرتی ہیں  ۔ان کا کہنا ہے کہ شاعری میں  ان کی اپنی کوئی محنت نہیں  ہے بلکہ یہ الہامی ہے۔وہ کبھی متعین موضوع پر شاعری نہیں  لکھتی بلکہ شاعری سے خود موضوع اُبھرتا ہے۔اپنی شاعری میں  اُنہوں  نے دردو غم، شکوے گلے،ظلم و ستم کو خوب بیان کیا ہے۔ ان کا ایک ایک شعر پڑھنے والے کو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے۔راقم نے مقامی روزناموں  میں  شائع ان کی کئی غزلیں  پڑھیں  جن سے بلا شبہ طبیعت سیر ہوئی۔روبینہ میر نے حال ہی میں  راقم کے ساتھ بات کرتے ہوئے اس بات کا انکشاف کیا کہ ”ایک بار مجھے اپنی ایک غزل کے بدلے میں  منہ مانگی رقم کی پیش کش کی گئی تھی لیکن میں  نے اُن سے جواباً کہا کہ میں  اپنے خیالات بیچ نہیں  سکتی اور اگر میں  ایسا کروں  گی تو میرے پاس پھر بچے گا کیا”؟پیش خدمت ہے اُس غزل کے چند اشعار جو ادبی اسکینڈل میں  کسی کی جھوٹی جاگیر ہونے سے بچ گئی؛

جابجا ملنے لگے حیوان  تیرے شہر میں

ڈھونڈ کر بھی نہ ملے انسان تیرے شہر میں

دشت صحرا کی طرح لگتے ہیں  اب یہ گلستان

جب سے خالی ہوگئے گلدان تیرے شہر میں

بستیوں  سے جنگلوں  کی اور ہے  ہجرت ہوئی

کیسے کیسے گھر ہوئے  ویران تیرے  شہر میں

کیا کہیں  کب وہ  کوئی تازہ حکم  صادر کریں

نت نئے دیکھے گئے  فرمان تیرے شہر میں

ا ن کو اپنے  درد سے ہم  آشنا کرتے مگر

لوگ نہ ہوتے اگر انجان  تیرے  شہر میں

روبینہ میر کئی ادبی محفلوں  اور مشاعروں  میں  شامل ہوکر دادِ تحسین حاصل کرچکی ہے۔تین سالوں کے اس مختصر سے قلمی سفر میں  انہوں  نے نمایاں  کام انجام دیا ہے۔ان کی شاعری پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے پاس الفاظ کا وسیع خزانہ موجود ہے۔ان کی ابتدائی کوششیں  ہی اس بات کی غماز ہیں  کہ یہ نو آموز شاعرہ ادبی پرواز میں  بہت اونچا اُڑنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔نیز ا ن کا قلم ادبی کارواں  میں  بڑے انہماک کے ساتھ رواں  دواں  ہے۔اللہ کرے زور قلم اور زیادہ۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ اردو شعرو ادب کے قدردان،محبان،پاسبان آگے آکر ان نوآموز قلم کاروں  کی تہہ دل سے حوصلہ افزائی کریں ۔اس سلسلے میں  صرف زبانی واہ واہ کافی نہیں  ہے بلکہ عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔اردو کے نام پر کھانے اور پینے والوں  کو چاہیے کہ وہ اردو کا رونا رونے کے بجائے نوجوان پود کو اردو ادب کی طرف راغب کریں  جو اردو سے دُور بھاگتے نظر آتے ہیں ۔اُردو زبان و ادب کے بارے میں  مستقبل کے حوالے سے اندیشے اور وسوسے لاحق ہوگئے ہیں  کیونکہ موجودہ تیز رفتار مشینی دَور میں  مقابلہ سخت ہوگیا ہے،نئی پود اُ ردو کے بجائے دوسرے سبجکٹس کی دلدادہ ہے لہذا اُردو محبان کے لیے یہ ایک بڑا چیلنج ہے کہ وہ نئی پود کو اُردو زبان و ادب کی طرف نہ صرف راغب کریں  بلکہ مستقبل کے حوالے سے بھی انہیں  اطمینان دلائیں ۔

فون نمبر: 8125951170

                                                           ای میل: imtiyazwani07@gmail.com

Leave a Reply

2 Comments on " صنف نازک کا شاعرانہ ذوق (روبینہ میر کی مختصر کہانی اور ان کا کلام
"

Notify of
avatar
Sort by:   newest | oldest | most voted
trackback

[…]  صنف نازک کا شاعرانہ ذوق (روبینہ میر کی مختصر کہانی اور … […]

trackback

[…]  صنف نازک کا شاعرانہ ذوق (روبینہ میر کی مختصر کہانی اور … […]

wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.