”تواریخِ راسلس۔ ایک مطالعہ”
اردو زبان و ادب میں ناول کا ورود انگریزی و یورپی ناولوں کے تراجم کے باعث ہوا۔ میر حسن ١٨٣٤ء میں جب انگلستان گئے وہاں انھوں نے انگریزی زبان و ادب سے واقفیت حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ گولڈ اسمتھ کے مشہور ناول ”دی ویکار آف ویکفیلڈ” کے صرف ایک باب کا اردو ترجمہ کیا۔ بعدازاں کلیم الرحمان٭(مترجم کونسل قانون نواب گورنر جنرل بہادر) نے ١٨٨٥ء میں ”دی ویکار آف ویکفیلڈ” کا آزاد ترجمہ ”نیرنگ ِزمانہ” کے نام سے کیا تھا۔ اس کی اشاعت کرنل ایچ۔ایس جیرٹ (Col. H. S. Jrrett) کی اصلاح کے بعد مطبع کاشف الاسرار کلکتہ اور مطبع احمدی کان پور سے ١٨٨٧ء میں ہوئی۔(1) وہ لکھتے ہیں :
”ایک زمانہ اس خیال سے گزر گیا اور ہمیشہ فکر میں رہا کہ کوئی دلچسپ قصہ ترجمہ کے لیے منتخب کروں ۔ کبھی اس خیال نے میرے دل کو پریشان کیا کہ ایسا نہ ہو میں آرزو پسندی کے موافق کسی ناول کا ترجمہ کروں اور اپنے اوقات عزیز کو اس کے نذر کروں ۔ اہلِ نظر میری اس جاں فشانی کی کچھ داد نہ دیں اورنامرغوب تصور تو محنت برباد اور گناہ لازم ٹھہرے۔ اس خیال کی تلافی یوں کرے کہ چندے صبر کیا جائے تاکہ کوئی اور صاحب بھی میرے ہم خیال پیدا ہو جائیں اور اس راستہ میں مجھ سے پہلے قدم رکھیں بہرنوع ہم ان کے پیچھے اپنی سلامت روی کی چال چل نکلیں گے۔ چونکہ اس کو زمانہ ممتد گزر گیا اور کسی نے پہل قدمی نہ کی اور میری دیرینہ خواہش نے میرے دل کو بے چین کیا تب تو میں نے ہرچہ بادا باد کہہ کر ہمت چست کی اور ”ویکار آف ویکفیلڈ” کو ترجمہ کے لیے پسند کر کے اپنے سامنے رکھ لیا۔” (2)
ناول کے دیباچے میں مترجم اُس دور کے ناول نگاری کے شعور اور ترجمے کے قواعد و ضوابط کے حوالے سے لکھتے ہیں :
”۔۔۔میں نے ویکر آف ویکفیلڈ کو ترجمے کے لیے پسند کیا۔ اگر اہلِ ہند اس کو بغور پڑھیں گے اور اس کے محاسن پر نظر کریں گے تو انہیں ناول نویسی کا ڈھنگ آ جائے گا۔ یہ آزاد ترجمہ ہے اصل انگریزی کے الفاظ سے حتی الوسیع رعایت کی گئی ہے جہاں عورتوں کی گفتگو آتی ہے وہاں اہلِ ہند کی نسواں کے محاورات اور روزمرہ کو نگاہ میں رکھا ہے۔” (3)
”بورڈ آف اگزامنرس” کے سیکریٹری کرنل ایچ۔ایس۔جیرٹ نے ”ویکار آف ویکفیلڈ” کے ترجمے کے ضمن میں کہا تھا:
”اس کتاب کو ختم کرو، ہمارے علم و ادب میں اس کی بڑی وقعت ہے اور بجائے خود میں خیال کرتا ہوں کہ اگر اہلِ ہند اس کو بغور پڑھیں گے اور محاسن پر نظر کریں گے تو انہیں ناول نویسی کا ڈھنگ آ جائے گا۔” (4)
ڈاکٹر یوسف سرمست نے کلیم الرحمان کے مذکورہ بالا بیان کی روشنی میں ”دی ویکار آف ویکفیلڈ” کو انگریزی ناول کا پہلا اردو ترجمہ قرار دیا ہے۔ انھیں یہ غلطی کلیم الرحمن کے مذکورہ بالا بیان کی وجہ سے ہوئی۔ حالاں کہ اس سے قبل سید کمال الدین حیدر کا ڈاکٹر سیموئل جانسن کے انگریزی ناول “The History Of Rasselas Prince of Abissinia” کا اردو ترجمہ ١٨٣٩ء میں آگرہ سے شایع ہو چکا تھا۔ ڈاکٹر شہناز شاہین نے ”اردو ناولوں اور افسانوں پر یورپی فکشن کے اثرات (١٨٥٧ء تا ١٩٤٧ئ)” میں ڈاکٹر یوسف سرمست کے مذکورہ بالا خیال کی نفی کی ہے۔(5)
”تواریخِ راسلس” انگریزی ناولوں کے ابتدائی اردو تراجم میں شمار ہوتا ہے۔ یہ ترجمہ ١٨٣٩ء میں آگرہ سے شایع ہوا۔ سید کمال الدین حیدر عرف سید محمد میر لکھنوی نے آگرہ اسکول بک سوسائٹی کے لیے برطانوی مصنف سیموئل جانسن کے ناول “The History of Rasselas Prince of Abissinia”(١٧٥٩ئ) کا اردو ترجمہ ”تواریخِ راسلس” کے عنوان سے کیا۔ دورانِ ترجمہ سید کمال الدین حیدر کے علاوہ پادری جان جیمز مور اور منشی فتح اللہ خان اکبر آبادی قلمی معاون تھے۔ گویا یہ ترجمہ تین افراد کی مشترکہ کاوش کا نتیجہ ہے۔ منشی فتح اللہ اکبر آبادی کے بارے میں معلومات ناپید ہیں ۔ پادری جان جیمز مور آگرہ اسکول بک سوسائٹی کے سیکریٹری تھے۔ وہ ”قوانینِ گورنمنٹ گزٹ” کے مترجم تھے۔
”تواریخِ راسلس” کے حوالے سے ڈاکٹر اشفاق احمد اعظمی لکھتے ہیں :
”ہندوستان میں مغربی تہذیب و تمدن کے بڑھتے ہوئے اثرات کے ساتھ ساتھ مغربی ادیبوں اور شاعروں کے ادبی اور علمی کارناموں سے بھی لوگ روشناس ہوئے۔ ڈاکٹر جانسن اس دور میں انگریزی ادب کی ایک اہم ادبی شخصیت مانا جاتا تھا۔ اس لیے اس کی تصانیف کا ہندوستان میں پہنچ جانا حیرت کی بات نہیں ۔ جانسن کے ناول ”ریسلاس” سے قدیم دہلی کالج کے عروج سے قبل اہلِ علم حضرات واقف ہو چکے تھے۔ یہاں تک کہ اس ناول کو اردو میں ترجمہ کرنے اور تعلیمی نصاب میں شامل کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ انجام کار آگرہ بک سوسائٹی کی ایما پر سید کمال الدین حیدر کی تصحیح اور دیباچہ کے ساتھ گرین وے(W. Green Way) کے چھاپا خانے سے آگرہ میں دسمبر ١٨٣٩ء میں شایع ہوا۔” (6)
ڈاکٹر اشفاق احمد اعظمی کے مذکورہ بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ ”تواریخِ راسلس” کو نصابی ضروریات کی تکمیل کے لیے ترجمہ کیا گیا۔ ١٨٣٩ء میں جب یہ ترجمہ زیورِ طباعت سے آراستہ ہوا تو اس سے قبل انگریز درپردہ اردو زبان و ادب کی ترویج و ترقی کے لیے فورٹ ولیم کالج کلکتہ اور دہلی کالج جیسے ادارے قائم کر چکے تھے۔ ان اداروں میں درس و تدریس کی انجام دہی کے لیے ایسی کتب کی ضرورت تھی جو اردو زبان و ادب کو فنی، ہیئتی اور موضوعاتی اعتبار سے باثروت بنا سکیں چناں چہ اس مقصد کے لیے وسیع پیمانے پر ترجمہ نگاری کا چلن ہوا۔ ”تواریخِ راسلس” اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
”تواریخِ راسلس” اگرچہ ناول کے ابتدائی اردو تراجم میں شمار ہوتا ہے تاہم بیش تر ناقدینِ ادب کے ہاں اردو فکشن کی تاریخ کے اس اہم علمی و ادبی کارنامے کے ضمن میں خاموشی دکھائی دیتی ہے۔ ماسوائے گارساں دتاسی کے جنھوں نے اپنے خطبات میں اس ناول کا صرف نام گنوانے کی حد تک اکتفا کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ افسانوی ادب کی تاریخ میں اردو ناولوں کے تراجم کی روایت میں ”تواریخِ راسلس” پر تنقیدی آراء نہ ہونے کے برابر ہیں ۔ ہندوستان میں اس نایاب ترجمے کو از سرِ نو متعارف و مدون کروانے کا سہرا ڈاکٹر اشفاق احمد اعظمی کے سر ہے جب کہ پاکستان میں محمد سلیم الرحمن نے اسے از سرِ نو متعارف و مدون کروانے کی سعی کی ہے۔ اسی لیے اس ترجمے کے ضمن میں ابتدائی تنقیدی آرا بھی ڈاکٹر اشفاق احمد اعظمی کے توسط سے قارئین تک پہنچتی ہیں ۔ بعدازاں ڈاکٹر شہناز شاہین اور عظیم الشان صدیقی کے ہاں ناول کے اردو تراجم کی تاریخ کے ذکر میں اس ترجمے کے متعلق محض سرسری اظہارِ رائے ملتا ہے۔ محمد سلیم الرحمن نے اس ترجمے کی از سرِ نو ترتیب و تہذیب کرنے کے ساتھ ساتھ ایک سیرحاصل تنقیدی و تحقیقی مقدمہ بھی تحریر کیا جس سے اُردو فکشن کی تاریخ میں اس ترجمے کی ضرورت و اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔
”تواریخِ راسلس” کے جائزے سے قبل مترجم کے سرسری احوال پیشِ نظر ہونا ضروری ہیں تاکہ یہ اندازہ لگایا جا سکے کہ وہ کون سے عوامل تھے جن کے باعث سید کمال الدین حیدر نے فنِ ترجمہ نگاری میں امتیاز پیدا کیا۔ سید کمال الدین حیدر ١٧٩٤ء میں پیدا ہوئے اور ١٨٨١ء میں وفات پائی۔ انگریزی تعلیم کے حصول کے بارے میں واضح معلومات دست یاب نہیں ہیں ۔ انھوں نے سائنسی موضوعات پر متعدد رسائل اور کتب کے انگریزی سے اردو ترجمے کیے جو اب کم یاب یا نایاب ہیں ۔ انگریزی دانی اور سائنسی علوم سے واقفیت کی بناء پر وہ نصیر الدین حیدر کے عہد میں قائم ہونے والے رصدخانے میں ملازم ہوئے۔ رصدخانے کے مہتمم کرنل ولکوکس کے انتقال کے بعد رصدخانے پر کسی کی توجہ نہ ہونے کے باعث تمام عملہ برطرف ہو گیا۔ برطرفی کے بعد سید کمال الدین حیدر کربلا چلے گئے اور ١٨٥٧ء کی جنگ ِآزادی کے بعد جب انگریزی حکومت کی بالادستی دوبارہ قائم ہوئی تو وہ واپس آئے اور حکومت سے پنشن پانے کی درخواست کی جو بالآخر پچاس روپے ماہ وار مقرر ہوئی۔ ترجمہ نگاری میں شہرت پانے کی بہ جائے کمال الدین حیدر ”قیصر التواریخ”(اودھ کے نوابی دور کی دو جلدوں میں تاریخ) کے باعث بہ طور مؤرخ زیادہ مشہور ہوئے۔
”تواریخِ راسلس” کی اولین اشاعت ١٨٣٩ء میں آگرہ سے ہوئی۔ اس اولین اشاعت کے ١٤٤ برس بعد ١٩٨٣ء کے لگ بھگ ڈاکٹر اشفاق احمد اعظمی نے اسے دوبارہ تعارف اور فرہنگ کے ساتھ شایع کیا۔ “The History of Rasselas Prince of Abissinia”کا اصل عنوان “The Choice of Life” تھا؛ بعدازاں اسے موجودہ عنوان سے بدل دیا گیا۔ تواریخِ راسلس کی تصنیف سے دس سال قبل سیموئل جانسن نے “The Vanity of Human Wishes” شایع کیا جس میں ناقابلِ تسخیر دنیاوی جستجوئوں کو موضوع بنایا گیا ہے۔
”تواریخِ راسلس” کی کہانی Voltair کے”Candide” (١٧٥٩ئ) سے مشابہ ہے۔ دونوں ناول نگار ایک ایسے نوجوان کی روداد بیان کرتے ہیں جو اپنے استاد کی معیت میں انسانی مصائب کی جانچ پرکھ کی کوشش کرتا ہے تاکہ سچ کی بنیادوں کو متعین کیا جاسکے اور سچی خوشی کا راز دریافت ہو جائے۔
”تواریخِ راسلس” کی تخلیق کا پس منظر بھی توجہ طلب ہے۔ اس امر کے لیے جانسن کے احوالِ زندگی کا تذکرہ ناگزیر ہے۔ سیموئل جانسن وسطی انگلستان کے ایک چھوٹے سے قصبے ”لچ فیلڈ” میں ١٨ستمبر ١٧٠٩ء کو پیدا ہوا۔ اس کی بینائی بچپن سے کمزور تھی۔ جانسن کے باپ کا تعلق نامی گرامی خاندان سے نہیں تھا تاہم اُس نے پڑھ لکھ کر ایک دُکان کھول لی جس میں وہ کتابیں ، اسٹیشنری، دیواری کاغذ اور پیٹنٹ دوائیں فروخت کرتا تھا۔ قصبے کے سربرآوردہ افراد میں شمار ہونے کے باوجود وہ ہمیشہ مقروض اور پریشان رہا۔ جانسن کی والدہ اچھے خاندان سے ہونے کے باعث اپنے نام و نسب پر فخر کرتی تھی۔ وہ اپنے شوہر کو خود سے کم تر سمجھتی تھی؛ اس لیے میاں بیوی کی آپس میں نہ بنتی تھی۔
جانسن کی یادداشت بچپن سے ہی قابلِ رشک تھی۔ اسی غیرمعمولی ذہانت کی وجہ سے وہ ”لچ فیلڈ” میں مشہور ہوا اور اسے دعوتوں میں بلایا جانے لگا۔ حالات کی ستم ظریفی کے باعث اُسے آکسفورڈ میں صرف ایک سال تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملا۔ والد کا انتقال ہو گیا تو اس نے کچھ عرصہ ایک اسکول میں بہ طور مدرس کام کیا۔ اس کام میں جی نہ لگنے کے باعث اس نے ادبی سرگرمیوں کا باقاعدہ آغاز کیا۔ اس کی پہلی کتاب پرتگیزی پادری Jeronimo Lobo کے فرانسیسی سفرنامے “A Voyage to Abissinia” کا انگریزی ترجمہ تھا۔ اس ترجمے کا اُسے پانچ گنا معاوضہ ملا۔ تلاشِ معاش کے لیے جانسن نے لندن کا رُخ کیا۔ جہاں ایڈورڈکیو نامی ادیب کے رسالہ ”جنٹل مینز میگزین” میں وہ ایڈورڈکیو کا معاون مدیر بن گیا جس کے باعث رسالے کی شہرت بڑھ گئی لیکن کیو کی خصاصت کی وجہ سے جانسن کی غربت میں کمی نہ آ سکی۔
”جامع انگریزی لغت” کا مرتب کرنا جانسن کا نمایاں علمی کام ہے۔ اس بڑے کام کو سر کرنے کے لیے چھے ناشروں کا آپس میں اشتراک ہوا اور انھوں نے جانسن کو لغت مرتب کرنے کے لیے تین سال اور ایک ہزار پانچ سوپچھتر پائونڈ بہ طور معاوضہ دیے۔ طبعی آلکس اور کام کی طوالت کے باعث یہ منصوبہ آٹھ سال کی محنت ِشاقہ کے بعد زیورِ طباعت سے آراستہ ہوا۔ اس سے پہلے اس پائے کی لغت انگریزی زبان میں موجود نہ تھی۔ یہاں سے جانسن کی شہرت کا صحیح معنوں میں آغاز ہوتا ہے۔ جدید لغت سازی کے اعتبار سے یہ کام اگرچہ معیار سے ہٹ کے ہو؛ تاہم اپنے زمانے میں یہ اعلیٰ درجے کا علمی کام شمار ہوا اور آکسفورڈ نے اس کام کے صلے میں اسے ١٧٧٥ء میں ایل ایل ڈی کی ڈگری دی۔
جنوری ١٧٥٩ء میں جانسن کو اپنی ماں کی شدید علالت کی اطلاع ملی۔ وہ پچھلے انیس برس میں ایک دفعہ بھی اپنی ماں سے ملنے نہیں گیا تھا۔ اسی علالت میں اُس کی والدہ کا انتقال ہو گیا۔ جانسن کی غربت ایک بار پھر آڑے آئی لیکن تجہیز و تکفین اور والدہ کے چھوٹے موٹے قرضے اُتارنے کے لیے اُس نے ایک ناشر سے رجوع کیا اور سو پائونڈ کے عوض صرف ایک ہفتے میں ”تواریخِ راسلس” لکھ دیا۔ ناول غیرمعمولی طور پر مقبول ہوا اور جلد ہی اس کے فرانسیسی، جرمن، اطالوی اور ڈچ زبان میں تراجم شایع ہوئے۔
ٹونی مائرزTony Myers) (، “The History of Rasselas Prince of Abissinia” سے متعلق لکھتے ہیں :
“Rasselas is a fable in which Samuel Johnson examines what constitutes a happy life. Give the straitened circumstances in which it was written, it is perhaps un-surprising that it expresses a pessimistic view of human nature.” (7)
١٧٦٢ء میں جانسن کی مالی مشکلات کا مداوا اس طرح ہوا کہ ادبی خدمات کے صلے میں حکومت کی طرف سے اُسے تین سو پائونڈ کی سالانہ پنشن کی پیش کش ہوئی جسے اس نے قبول کر لیا۔ لغت کے علاوہ جانسن نے شیکسپیئر کے ڈراموں کا ایک مستند ایڈیشن مرتب کیا۔ معروف انگریز شعرا کے سوانح اور تنقیدی تعارف لکھنے کا کام بھی جانسن کی شہرت کا باعث بنا۔ یہ کام ١٧٨١ء میں مکمل ہوا۔ ١٣دسمبر ١٧٨٤ء کو جانسن کا انتقال ہوا۔
جانسن کے احوال کے پس منظر میں ”تواریخِ راسلس” کو دیکھا جائے تو یہ محض ایک ہفتے میں قلم برداشتہ لکھا گیا ہے۔ ناول کا پلاٹ خوب گتھا ہوا ہے۔ جو بادشاہِ حبشہ کے ایک شہزادے راسلس کے گرد گھومتا ہے۔ راسلس اپنی بہن نکایا اور اپنے استاد (فلسفی) املاک کے ساتھ خوش گوار زندگی گزارنے کا راز دریافت کرنے نکلتا ہے اور بالآخر اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ خوشی کا حصول کوئی آسان راستہ نہیں ہے؛ اس لیے وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ واپس حبشہ پہنچ جاتا ہے۔
ناول کا آغاز شہنشاہِ حبش کی اُس سرسبز و شاداب گھاٹی سے ہوتا ہے جو اُس نے اپنی اولاد کے رہنے سہنے کے لیے تجویز کی تھی۔ اس گھاٹی کے چاروں طرف بلند و بالا پہاڑوں کا حصار تھا۔ باہر نکلنے کے لیے صرف ایک غار نما راستہ تھا جو ایک بڑے آہنی پھاٹک سے بند تھا۔ یہ پھاٹک صرف شہنشاہ کی آمد پر کھلتا تھا۔ سب شہزادے اور شہزادیاں دن رات عیش و عشرت میں زندگی بسر کر رہے تھے؛ماسوائے راسلس۔ راسلس اس آرام دہ زندگی سے اُکتا کر گھاٹی سے باہر کی دنیا کی دریافت کا خواہاں ہے لیکن باہر جانے کے سب راستے مسدود ہونے کے باعث وہ افسردگی کا شکار ہو جاتا ہے۔ شہزادے کا معلم اس سے افسردگی کا سبب دریافت کرتا ہے اور اُسے سمجھاتا ہے کہ تم اس خوش حالی اور فارغ البالی میں محض اس لیے اُداس ہو کہ تم نے دنیا کے رنج اور مصائب نہیں دیکھے ورنہ تمھیں اس عیش کی قدر ہوتی۔ شہزادہ اپنا مدعا بیان کرتا ہے کہ عیش و عشرت کی قدر جاننے کے لیے وہ دنیا کے رنج اور مصیبتیں دیکھنا چاہتا ہے۔
بالآخر راسلس اپنے معلم املاک اور اپنی بہن نکایا کے ساتھ بہ ہزار جتن گھاٹی سے باہر کی دنیا میں قدم رکھتا ہے۔ راسلس کی سیاحت کی بنیادی وجہ تجسس اور بے اطمینانی تھی۔ وہ متعدد لوگوں سے ملتا ہے۔ بادشاہوں ، امیروں ، غریبوں اور مختلف پیشہ ور افراد سے ملاقات کرنے کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ امیر ہو یا غریب، شاہ ہو یا گدا، کوئی بھی اپنی زندگی سے مطمئن نہیں ہے۔ وہ اور اس کی بہن اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ حقیقی خوشی اور اچھی زندگی محض ایک واہمہ ہے دونوں نے یہ طے کیا کہ وہ جو تجربہ حاصل کرنا چاہتے تھے؛ حاصل کر چکے لہٰذا اب اپنی گھاٹی کو واپس لوٹ جاتے ہیں ۔
یہ ناول بہ ظاہر روکھا پھیکا ہے؛ فکری مباحث کی بہتات ہے اور افسانوی تخیل کی کمی شدت سے محسوس ہوتی ہے جب اصل ناول فکری مباحث کے باعث خشک اور روکھا پھیکا ہے تو اسے ایک ایسی زبان میں ترجمہ کرنا جو نثری ادب کے معاملے میں قریب قریب قلاش تھی، چنداں آسان کام نہیں تھا۔ ١٨٣٩ء میں شایع ہونے والا یہ ترجمہ اغلاط سے مبریٰ نہیں ہو سکتا تھا تاہم انگریزی ادب کے اوّلین تراجم کی صف میں کھڑا ہونے کے باوصف یہ ترجمہ کسی حد تک رعایت کا مستحق بھی ہے۔ پادری جیمز مور پیش لفظ میں لکھتے ہیں :
”جھوٹوں بھی یہ دعویٰ کرنا مقصود نہیں کہ ترجمہ غلطیوں سے مبریٰ ہے یا یہ کہ نقادوں اور عالموں کو اس میں ایسی باتیں زیادہ نظر نہیں آئیں گی جن پر وہ بجا طور پر معترض ہو سکیں ؛ لیکن مجموعی طور پر اسے یوں دیکھا جائے کہ یہ ایک دیسی باشندے کی تصنیف ہے جو اپنے ہم وطنوں کے سامنے مغربی علم کے تقریباً غیرممنون خزائن کو منکشف کرنے کا آرزومند ہے تو، راقم کی رائے میں ، اسے ہر طرح کی مشفقانہ رُو رعایت کا مستحق سمجھنا چاہیے۔” (8)
”تواریخِ راسلس” جس وقت ترجمہ ہو اُس سے قبل داستانوی ادب کا رجحان غالب رہ چکا تھا۔ اردو میں حقیقت پسندانہ فکشن لکھنے کا کوئی تصور ہی موجود نہ تھا طرفہ یہ کہ ناول کی صنف اُردو کے لیے اجنبی تھی۔ ایسی صورت میں اُسے انیسویں صدی کی چوتھی دہائی کی مروجہ اردو میں ڈھالنا آسان کام نہیں تھا۔ یہی وجہ ہے کہ مجموعی طور پر ترجمہ ناہموار اور دقیق ہے البتہ کہیں کہیں نثر رواں دواں ، شستہ اور شگفتہ ہے۔ ایسا صرف اُن مقامات پر ہوا ہے جہاں مترجمین اپنا مطلب صفائی سے ادا کر سکتے تھے۔ آسان اور دقیق دونوں طرح کا ترجمہ بہ طور مثال درجِ ذیل ہے۔ پہلے آسان ترجمے کی مثال دیکھیے:
”انشاء اللہ! وہ وقت بھی آئے گا کہ میں متعدد پرہیزگار اور نازنین لوگوں کے ساتھ ہو کر ان پھولوں کے گل دستے بنائوں گی جن کے درختوں کو اپنے ہاتھ سے لگایا اور آبِ محبت سے سینچا ہو گا؛ اپنے پیارے بھیڑ کے برّوں کو پیار کروں گی، نہروں کے بیچ نسیمِ سحری میں بیٹھی ہووئوں گی، اپنی خادمہ کی کہانیاں ، درختوں کے سائے میں بے فکری سے سنوں گی۔” (9)
”اس سال برسات ایسی شدت سے ہوئی اور اس قدر طغیانی آب کی دیر تک رہی کہ کبھی آگے ایسی نہ ہوئی تھی، گویا کہ پہاڑ کی چوٹیوں پر سے بادل ٹوٹ پڑے اور ہر طرف میدان میں نالے اس شدت سے بہے کہ وہ غار، جس میں اس گھاٹی کا پانی جاتا تھا، کثرت ِآب سے تنگ ہو گیا اور جھیل بھی کناروں تک لب ریز ہو کے بہ نکلی تھی۔ تمام گھاٹی میں ایک سطحِ آب تھا، سوائے اس قطعۂ زمینِ بلند کے جس پر وہ دولت خانہ واقع تھا، اور بعض اور جگہ بھی، جو زمین سے بلند تھی، اور کچھ آنکھ سے نظر نہ آتا تھا۔ غول اور گلوں نے چراگاہ کو چھوڑ دیا تھا۔ حیواناتِ وحشی اور خانگی بھی پہاڑوں میں چلے گئے تھے۔” (10)
دقیق ترجمے کی مثال دیکھیے:
”سبب نیکی اور بدی کے ایسے مختلف اور غیرمقرر ہیں اور اس قدر ایک دوسرے سے الجھے اور وابستہ ہوئے اور طرح طرح کے علاقوں سے متعلق اور ایسے ایسے اتفاقاتِ زمانہ کے پابند ہیں جو بیش تر سے ہرگز نظر نہیں آتے کہ وہ شخص جو اپنی حالت ایسی مستقیم اور بے زوال بنیادوں اور سببوں پر، جو رَد نہیں ہو سکتے ہیں ، مقرر کرے تو چاہیے کہ تحقیق و تلاش اور غور و تامل میں جیے اور مرے۔” (11)
سلیم الرحمن ترجمے کے تعارف میں لکھتے ہیں :
”ترجمے کی خامیوں اور نثر کی ناہمواریوں پر نظر جاتی ہے جو کہیں تو رواں ہے اور کہیں الجھی ہوئی تو یہ کہے بغیر چارہ نہیں رہتا کہ کمال الدین حیدر کو نثر لکھنے کا کوئی خاص سلیقہ نہیں اور ان کی انگریزی دانی بھی معتبر معلوم نہیں ہوتی۔ ان کے شریک ِکار پادری مور کو انگریزی آتی ہو گی مگر اُردو کی شاید اتنی سمجھ نہ ہو۔ اگر سمجھ ہوتی تو ترجمے کی بہت سی فروگزاشتوں کو بڑی آسانی سے دُور کیا جا سکتا تھا۔ منشی فتح اللہ خاں کو انگریزی شاید نہ آتی ہو۔ غرض ان تینوں کی مشترکہ کاوش کو کام یاب قرار نہیں دے سکتے۔” (12)
”تواریخِ راسلس” کے ترجمے کی فنی خوبیوں کی جانچ سے قبل اجمالاً ترجمے کے فنی مباحث کا جاننا بے حد اہم ہے تاکہ یہ اندازہ لگایا جا سکے کہ یہ ترجمہ، ترجمے کے فنی معیار پر کس حد تک پورا اُترتا ہے۔ ترجمے کے فنی مباحث پر نگاہ دوڑائیں تو ہمیں ترجمے کی کئی صورتیں دکھائی دیتی ہیں ۔ ترجمہ، مضمون اور نوعیت کے اعتبار سے جداگانہ اقسام کا حامل ہے۔ بہ لحاظِ مضمون ترجمے کی درجِ ذیل تین اقسام ہیں :
١) معلوماتی تراجم(خالص علمی و سائنسی متون کے تراجم)
٢) تہذیبی تراجم(افسانوی ادب اور ناولوں وغیرہ کے تراجم)
٣) ادبی یا جمالیاتی سطح کے تراجم(ادب بالخصوص شعری تراجم)
ترجمے کی اقسام بہ لحاظِ نوعیت درجِ ذیل ہیں :
١) پابند ترجمہ، ٢)آزاد ترجمہ، ٣)تخلیقی ترجمہ،
٤) ماخوذ ترجمہ
”تواریخِ راسلس” کو فنِ ترجمہ نگاری کے اصولوں پر جانچا جائے تو بہ لحاظِ مضمون اس کا شمار تہذیبی تراجم میں ہوتا ہے۔ نوعیت کے اعتبار سے اسے کسی حد تک تخلیقی ترجمہ کہہ سکتے ہیں ۔ ترجمہ مصنف کے قلب و ذہن کی گہرائیوں میں اُتر کر اس کے خیال کے ابلاغ اور اپنی زبان میں منتقلی کا ایسا عمل ہے جو اصل کے اندازِ ترسیل، طرزِ بیان اور لب و لہجہ کے زیادہ سے زیادہ قریب رہتے ہوئے کیا جائے تاکہ دوسری زبان میں منتقلی کے باوجود اصل کا اندازِ تخاطب اور طرزِ تکلم برقرار رہے۔ ترجمے کا مقصد اختلافِ زبان کے باوجود اصل کا قریب ترین مفہوم ذہن نشین کرانا ہے۔ ڈاکٹر حسن الدین احمد ترجمہ اور ترجمانی کے مابین باریک فرق کے حوالے سے لکھتے ہیں :
”ترجمہ کا کمال یہ ہے کہ وہ نہ صرف اصل عبارت کا درست لفظی ترجمہ ہو بلکہ مصنف کے نظریات، معتقدات، تصورات اور احساسات کی صحیح ترجمانی بھی ہو۔ اصل متن کی روح اِسی طریق سے برقرار رہ سکتی ہے۔ یہی ترجمانی ہے اور یہیں محض لفظی ترجمہ اور ترجمانی کا فرق واضح ہو کر سامنے آتا ہے۔ ترجمانی ترجمے سے دشوار تر اور نازک تر کام ہے۔” (13)
مظفر علی سےّد نے ”فنِ ترجمہ کے اصولی مباحث” میں لکھا ہے کہ ”عربی تعریف کے مطابق ترجمہ ”نقلِ کلام” کو کہتے ہیں ۔ نقلِ مطالب یا نقلِ معانی کو نہیں اور ”نقلِ کلام” کا تقاضا یہی ہے کہ جس زبان میں نقل ہو جائے، اس میں تقریباً ویسا ہی اثر پیدا ہو جیسا اصل زبان میں ہوا تھا اور یہ بھی لازم ہے کہ کلام سے مکالمے کی صورت پیدا ہو ورنہ ترجمے کا ہونا نہ ہونا برابر ہو گا۔” (14)
”تواریخِ راسلس” کے مترجمین کی مشکلات کا اندازہ لگانے کے لیے فنِ ترجمہ کی مشکلات کو بھی پیشِ نظر رکھنا چاہیے۔ ناقدینِ ترجمہ کی اکثریت مترجمین کی اس ناکامی کو اُبھارتی ہے کہ دورانِ ترجمہ فن پارے کی ادبی اور فنی خوبیاں مسخ ہو جاتی ہیں ۔ Eugene Eoyang اپنے مضمون “I Lose Something in the Original” میں ترجمے کو ادبی تخلیق کی اہم قسم قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں :
“۔۔۔Translation does not afford the freedom of original composition, which makes it more confining; but that very restriction provides a focus, a point of concentration, that often prompts a more efficient imagination.” (15)
ترجمے کی خامیوں کو دُور کرنے کی کوشش کی جائے تو ترجمہ(اصل سے) طوالت کا شکار ہو جاتا ہے۔ اچھے ترجمے بالعموم اصل سے طویل ہو جاتے ہیں لیکن یہ کوئی کلیہ نہیں ہے۔ نثری تراجم میں طوالت کا سبب یہ ہے کہ اچھا مترجم اصل متن کے تبادلۂ خیال میں ہر بات بیان کرنا چاہتا ہے۔ وہ اصل تحریر کے پس منظر اور مفہوم کی نوعیت قاری کو آشنا کروانا چاہتا ہے۔ اسی لیے اچھے نثری تراجم بالعموم اصل سے طویل ہو جاتے ہیں ۔ اس طوالت کی کچھ وجوہ بھی ہیں ۔ جن میں سے سب سے اہم استعدادی راستہ (Channel Capacity) ہے؛ جس کا قبول کنندہ زبان اور قابلِ ترجمہ زبان کے درمیان گہرا ربط ہے۔ دو زبانوں کا ثقافتی اختلاف بھی مترجم کے لیے مشکلات کا باعث بنتا ہے۔ E. A. Nida اور C. R. Taber نے بہ ذریعہ اشکال ترجمے کی اس صورت کی وضاحت کی ہے:
“This is certainly true if the language belong to quite different linguistic families and particularly true if the cultures of quite different.” (16)
Language A
M d g Channel Capacity
Language B
M d g Channel Capacity
|
M d g Channel Capacity
|
پہلی صورت میں مترجم ترجمے کی وادیِ خار زار سے پہلو بچا کر گزر سکتا ہے۔ جب کہ دوسری صورت میں قبول کنندہ زبان میں قابلِ ترجمہ زبان کی یا قابلِ ترجمہ زبان میں قبول کنندہ زبان کی ثقافتی پس ماندگی کے باعث مترجم کو جگہ جگہ ٹھوکریں کھانی پڑتی ہیں ۔ ایسی صورت میں ترجمہ ناقص ہو جاتا ہے۔ محمد حسن عسکری اس ضمن میں لکھتے ہیں :
”ہر زبان کی ایک روح، ایک شخصیت کی تشکیل کرنے والی قوتیں اتنی زیادہ ہیں کہ آسانی سے اِن کے نام بھی نہیں گنے جا سکتے۔ جغرافیائی حالات، نسلی مزاج، اس زبان کے بولنے والوں کی تاریخ، ان کا مذہب، ان کے معتقدات، پھر عناصر کا دوسرے پر عمل، ردِّعمل، یہ موٹی موٹی باتیں ہوئیں ۔ ان کے علاوہ جو چیزیں کسی زبان کا مخصوص ذائقہ متعین کرتی ہیں ، انہیں کیا نام دیا جائے۔۔۔” (17)
”ہر رشتے کے کچھ جو ثانوی مرکبات ہوتے ہیں ان کے ترکیبی اجزا ایک جیسے نہیں ہوتے۔ یہیں سے وہ چیز پیدا ہوتی ہے جسے ہم کسی زبان کی روح یا شخصیت کہتے ہیں اور اسی لیے ہر زبان کے اسالیب ِبیان اور ذخیرۂ الفاظ کا ایک حصہ کچھ اِس قسم کا ہوتا ہے جسے کسی دوسری زبان میں منتقل نہیں کیا جا سکتا یا کم سے کم ترجمہ کرتے ہوئے دشواری پیش آتی ہے۔” (18)
عسکری نے بھی قابلِ ترجمہ زبان کے استعدادی راستے کا ذکر کیا ہے۔ جب دو زبانیں مختلف لسانی خاندانوں سے متعلق ہوں گی تو اُن دونوں زبانوں کی ثقافت بھی مختلف ہو گی۔ یہی اختلاف مترجم کے لیے مشکلات کا باعث بنتا ہے۔ اردو اور انگریزی زبان کا لسانی خاندان مختلف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب عسکری فرانسیسی زبان کے انگریزی ترجمے ”مادام بواری” کا اردو ترجمہ کرتے ہیں تو جھنجھلا اُٹھتے ہیں ۔ عسکری دورانِ ترجمہ مترجم کی عملی مشکلات کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
”یوں کرنے کو تو میں نے ”مادام بواری” کا ترجمہ کر دیا ہے۔ لیکن اس ناول میں ایک ٹکڑا ہے، جس میں ہیروئن کی چھتری پر برف گرنے کا منظر پیش کیا گیا ہے۔ اگر اردو کے سارے ادیب مل کر ان آٹھ دس سطروں کو اس طرح ترجمہ کر دیں کہ اصل کا حسن ویسا کا ویسا ہی رہے تو اس دن سے میں اردو کے علاوہ کسی اور زبان کی کتاب کو ہاتھ نہیں لگائوں گا۔” (19)
”۔۔۔لوگوں نے شکایت کی کہ ترجمے کے پہلے صفحے کی عبارت گنجلک ہے۔ مجھے خوشی تو تب ہوتی کہ کوئی صاحب اس جملے کا اچھا ترجمہ کر کے مجھے بھیجتے جسے میں کسی رسالے میں شایع کراتا کہ اردو نثر کے ایک مسئلے کا کچھ تو حل نظر آیا۔۔۔ جملوں کے آہنگ یا پیراگراف کی تعمیر کا معاملہ تو اتنا سخت تھا کہ میں نے بھاری پتھر سمجھا اور چوم کے چھوڑ دیا۔” (20)
”ہمارے نقاد بڑی آسانی سے کہہ دیتے ہیں کہ مغربی ادب میں جتنی اچھی باتیں تھیں وہ سب ہم نے سیکھ لیں اور ہمارا ادب مغربی ادب کے برابر ہو گیا۔ لیکن آپ کسی مغربی کتاب کا ترجمہ کرنے بیٹھیں تو پانچ منٹ میں حقیقت کھل جاتی ہے۔ بشرط یہ کہ آپ یہ جانتے ہوں کہ مصنف لکھتا کس طرح ہے۔ پھر اوپر سے مشکل یہ ہے کہ اگر آپ ترجمہ کے مسائل بھی سمجھ لیں ، اور ان کا کوئی نہ کوئی حل بھی تلاش کرنا چاہیں تو اردو تنقید راستہ روک لیتی ہے، وہ اس طرح کہ اردو میں ترجموں کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ پبلشرز صرف وہی کتاب چھاپتے ہیں جو بک سکیں ، ادھر کتابیں خریدنے والوں کے ذہن کو اردو تنقید نے کمزور کر رکھا ہے۔ اب اگر آپ ترجمے کو تخلیق بنانا چاہیں تو یہ کیسے ممکن ہے؟” (21)
عسکری کے مذکورہ بالا بیانات کا تجزیہ کریں تو اردو زبان کی کم مائیگی کا شدید احساس ہوتا ہے۔ بیسویں صدی کی ستر کی دہائی میں عسکری اردو زبان کی کم مائیگی کا شکوہ کر رہے ہیں تو ”تواریخِ راسلس” کے مترجم سے انیسویں صدی کی چوتھی دہائی میں اعلیٰ درجے کے تخلیقی ترجمے کا تقاضا کرنا بے جا ہے۔ ترجمے کی اس کاوش کو جتنا سراہا جائے کم ہے۔ اس لیے کہ اس ترجمے کی بہ دولت کم از کم اردو زبان و ادب مغربی ناول سے نہ صرف متعارف ہوا بلکہ ”تواریخِ راسلس” کے بعد کئی ناول نگار سامنے آئے جنھوں نے نہ صرف انگریزی بلکہ یورپی اور بنگالی زبان کے ناولوں کے اردو تراجم بھی کیے۔ مثال کے طور پر شیوپرشاد نے ”ہسٹری آف سینڈفورڈ اینڈ مرٹن” کا ترجمہ کیا۔ جو ١٨٥٥ء میں شایع ہوا۔ یہ ترجمہ بھی نصابِ تعلیم میں شامل تھا۔
”تواریخِ راسلس” کو کامیاب ترجمہ قرار نہ دیا جائے تو بھی اردو زبان میں افسانوی ادب کے ابتدائی تراجم میں شمار ہونے کے باعث اسے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ ترجمے کی فنی خامیاں اور مترجمین کی نااہلی اپنی جگہ بجا سہی تاہم مدعائے مطالب کی یہ ادنیٰ سی کاوش لائقِ اعتبار ہے۔ جیمز مور کا یہ کہنا کہ یہ ایک دیسی باشندے کی ایسی تصنیف ہے جو اپنے ہم وطنوں کے لیے مغربی علم کے غیرممنون خزانے منکشف کرنے کا خواہش مند ہے؛ ناقدین کو مشفقانہ رو رعایت برتنے پر مجبور کرتا ہے۔
”تواریخِ راسلس” انگریزی سے اردو ترجمہ ہے لیکن اس ترجمے میں فارسی اور اردو اشعار کی گنجائش کیسے پیدا ہوئی۔ جیمز مور اس حوالے سے لکھتے ہیں :
”۔۔۔اپنے منشی کے بار بار اصرار پر مدیر نے، بیتوں کے پیرائے میں ، چند ایک ضرب الامثال کے اندراج کی اجازت دے دی ہے۔ یہ بات مشرقی مزاج کے لیے کتنی ہی تسلی بخش سہی، اگر مدیر نے ذوق سے کام لیا ہوتا تو انھیں خارج کر دینے کو ترجیح دیتا۔” (22)
بیان سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ جیمزمور ترجمے میں اشعار اور ضرب الامثال کے اضافے کو غیرضروری سمجھتے تھے تاہم مشرقی مزاج کی رو رعایت سے انھیں شامل کر دیا گیا۔ ترجمے میں ایک فارسی اور تین اردو اشعار شامل ہیں ۔ ایک فارسی ضرب المثل بھی ترجمے میں شامل ہے۔ اشعار اور ضرب المثل درجِ ذیل ہیں :
نیشِ عقرب نہ از پئے کینست
مقتضائے طبیعتش اینست(23)
کہا آنکھ اُٹھا کر تو دیکھو ذرا
خدائی میں اس کی ہے کیا کچھ بھرا(24)
چلتی چاکی دیکھ کر دیا کبیرا روئے
دو پاٹن میں آئے کے ثابت رہا نہ کوئے(25)
تواریخ حبش کی ہوئی اب تمام
الٰہی! مرے کام کو دے نظام(26)
ضرب المثل:
زر برسر فولاد نہی نرم شود (سونے کو فولاد پر رکھو تو نرم ہو جاتا ہے)
ترجمے میں اشعار اور ضرب المثل کا استعمال کسی طرح بھی روا نہیں تھا لیکن جس دور میں یہ ترجمہ ہوا اُس وقت ترجمے کے فنی معیارات کی کلّی پابندی روا نہیں رکھی جاتی تھی۔ مغرب میں ترجمہ فنی معیار کے تحت کیا جاتا تھا۔ اسی لیے جیمز مور نے ان اضافوں کو مشرقی مزاج کے کھاتے میں ڈال کر گوارا کیا ہے۔ آخری شعر بالخصوص قابلِ غور ہے۔ یہ شعر مشرقی طرزِ تحریر کا عکاس ہے۔ طباعت سے پہلے جب قلمی کتب کا رواج تھا تو کاتب آغازِ تحریر اور اختتامِ تحریر کو خاص طرح کے جملوں اور اشعار سے آراستہ کرتا تھا۔ جن میں مصنف اور تحریر کی مقبولیت اور کتاب کو مختلف قسم کے کیڑوں سے بچانے کے لیے دعائیں لکھی جاتی تھیں ۔ یہاں بھی حبش کی تاریخ ختم ہونے پر اللہ تعالیٰ کے حضور دعا مانگی گئی ہے کہ مصنف کے کام میں استحکام پیدا ہو۔
ترجمے پر اسلوبیاتی حوالے سے نظر ڈالیں تو ”تواریخِ راسلس” ایسے الفاظ کا حامل ہے جو اب متروک ہو چکے ہیں یا اُن کا املا تبدیل ہو چکا ہے یا پھر وہ اپنی قدیم صورت سے کلیتاً بدل گئے ہیں ۔ تینوں طرح کی مثالیں درجِ ذیل ہیں :
وے
بہ جائے
وہ
ہاپتے
ہانپتے
کونچ
کوچ
بینچا
بیچا
کھان
کان
جھوٹھ موٹھ
جھوٹ موٹ
دود
دودھ
گد
گدھ
پاشاباشا(دونوں طرح)
بادشاہ
فیلسوف
فلسفی
بھوکھا
بھوکا
تڑھپے
تڑپے
سامھنے
سامنے
پاوے
پائے
آوے
آئے
الفاظ کے قدیم املا کے ساتھ ساتھ کچھ الفاظ کا ترجمہ بھی توجہ طلب ہے جیسے Beasts of Prey کا ترجمہ ”شکاری جانوروں ” کیا ہے؛ اصل ترجمہ ”شکار کرنے والے جانور” ہے۔ Beasts of Chase کا ترجمہ”حیواناتِ شکاری” کیا ہے؛ اصل ترجمہ ”شکار ہونے والے جانور” ہیں ۔ ”قاہرہ” کا ترجمہ ”کیرو” کیا ہے۔ Prosperity کا ترجمہ ”سرسبزی” کیا ہے؛ اصل ترجمہ ”خوش حالی” ہے۔ Janissary کا ترجمہ ”جاں نثاروں ” کیا ہے۔ یہ ترکی ترکیب ہے اصل ترجمہ ”نیا لشکر” ہے۔ اسی طرح Dog-starکا ترجمہ ” کلب ستارے” کیا ہے؛ اصل ترجمہ ”شعریٰ” ہے۔ Mechanick Powers یاMechanick Sciences کا ترجمہ ”علم جرثقیل” کیا ہے۔ مشینری کا ترجمہ ”کلکلیں ” کیا ہے۔ اسی طرح بعض الفاظ کا ترجمہ بھی منفرد ہے جس سے اُس دور کی رائج اردو کے اسالیب ِاظہار کا پتہ چلتا ہے۔ یہ اسلوبیاتی اظہار جدید اردو میں متروک ہے تاہم اس ترجمے کی بہ دولت قدیم اردو کے اسلوبیاتی اظہار کا پتہ چلتا ہے۔ امثلا درجِ ذیل ہیں :
قدیم املا جدید املا
ملاقی ہونا ملاقات کرنا
آخرش آخرکار
تحصیل ہو چکنا تحصیل کرنا/حاصل کرنا
ہوووں ہو جائوں
ہووو ہو جائو
سببوں اسباب
علاحدہ علیحدہ
غورکی غور کیا
یہ ترجمہ مشکل ضرور ہے لیکن اُس دور میں اردو زبان میں مناسب ذخیرۂ الفاظ کی کمی کے باعث آسان ترجمہ کرنا ممکن نہیں تھا۔
مجموعی طور پر ”تواریخِ راسلس” مغربی ادب پارے کو دیسی زبان کا لباس پہنانے کی بھرپور سعی ہے۔ ترجمے میں روانی کی کمی ہونے کے باوجود اردو زبان کو ناول کی صنف سے متعارف کروانے میں ”تواریخِ راسلس” کا اہم کردار ہے۔ اردو زبان میں ناول کا باقاعدہ آغاز ١٨٦٩ء میں نذیر احمد کے ”مراة العروس” سے ہوتا ہے۔ ١٨٣٩ء اور ١٨٦٩ء کے درمیان حائل ٣٠ سالہ خلیج کو پاٹنے میں اردو زبان کے افسانوی ادب نے کتنے مراحل طے کیے؛ اردو زبان و ادب کے قارئین اس کا اندازہ بہ خوبی کر سکتے ہیں ۔
حواشی
٭ ڈاکٹر یوسف سرمست نے کلیم الرحمان کو عبدالرحمن لکھا ہے اور ڈاکٹر شہناز شاہین نے ڈاکٹر یوسف سرمست کے تحقیق کردہ پہلے اردو ناول کے مترجم کا نام اور حوالہ بعینہ نقل کر دیا ہے۔
-1 نیرنگِ زمانہ، دیباچہ کلیم الرحمان، ص١، مطبع کاشف اسرار، کلکتہ، ١٨٨٧ئ۔ بہ حوالہ: اردو ناول آغاز و ارتقا(١٨٥٧ء تا ١٩١٤ئ)، عظیم الشان صدیقی، ص٤٨٤، ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس، دہلی، ٢٠٠٨ئ
-2 اردو ناول آغاز و ارتقا(١٨٥٧ء تا ١٩١٤ئ)، عظیم الشان صدیقی، ص٤٨٤
-3 بیسویں صدی میں اردو ناول، یوسف سرمست، ص٦٢، نیشنل بک ڈپو، حیدر آباد، ١٩٧٢ئ
-4 نیرنگ ِزمانہ، ص٣۔ بہ حوالہ: اردو ناول آغاز و ارتقا(١٨٥٧ء تا ١٩١٤ئ)، عظیم الشان صدیقی، ص٤٨٤
-5 اردو ناولوں اور افسانوں پر یورپی فکشن کے اثرات(١٨٥٧ء تا ١٩٤٧ئ)، شہناز شاہین، ڈاکٹر، ص٨٤،٨٥، جے۔کے۔آفسیٹ پریس، دہلی، ٢٠٠١ئ
-6 تواریخ ریسلاس شہزادہ حبش، اشفاق احمد اعظمی، دیباچہ، ص٤١،٤٢۔ بہ حوالہ: اردو ناولوں اور افسانوں پر یورپی فکشن کے اثرات (١٨٥٧ء تا ١٩٤٧ئ)، شہناز شاہین، ڈاکٹر، ص٨٥
7- Literature in English Pre-1914, Tony Myers, P : 235, Hodder Arnold, England, 2005
-8 تواریخِ راسلس، (مترجم)کمال الدین حیدر، سید، (مرتب)سلیم الرحمن، ص١٩، مجلس ترقی ادب، لاہور، جون ٢٠٠٧ئ
-9 ایضاً، ص ٧٩
-10 تواریخِ راسلس، (مترجم) کمال الدین حیدر، سید، (مرتب)سلیم الرحمن، ص٣٩
-11 ایضاً، ص٧١
-12 ایضاً، ص١٥
-13 انگریزی شاعری کے منظوم اردو ترجموں کا تحقیقی و تنقیدی مطالعہ، مطبوعہ مقالہ برائے پی ایچ۔ڈی اردو، حسن الدین احمد، ڈاکٹر، ص١١،١٢، ولا اکیڈمی، حیدرآباد، مئی ١٩٨٤ئ
-14 فنِ ترجمہ کے اصولی مباحث، مظفر علی سید، مشمولہ اردو زبان میں ترجمے کے مسائل۔ روداد سیمینار، (مرتبہ اعجاز راہی)، ص٤١، مقتدرہ قومی زبان، اسلام آباد، ١٩٨٥ئ
15- I Lose Something in the original, Eugene Eoyang, included in Translation of Poetry and Poetic Prose, Proceeding of Noble Symposium 110, Edited by Sture Allen, P: 110, World Scientific Publishing Co Pvt Ltd., Singapore, 1999
16- The Theory and Practice of Translation, E.A.Nida, C.R.Taber, P : 164, E.J. Bill, Leiden, 1969
-17 زبان کی شخصیت اور مزاج، محمد حسن عسکری، مشمولہ مقالات محمد حسن عسکری، جلد دوم،(مرتبہ شیما مجید)، ص٢٠٧، علم و عرفان پبلشرز، لاہور، ٢٠٠١ئ
-18 ایضاً، ص٢٠٩
-19 گر ترجمے سے فائدہ اخفائے حال ہے، محمد حسن عسکری، مشمولہ ستارہ یا بادبان، ص١٤٦، مکتبہ سات رنگ، کراچی، ١٩٦٢ئ
-20 ایضاً، ص١٤٩
-21 ایضاً، ص١٤٦،١٤٧
-22 تواریخِ راسلس، (مترجم) کمال الدین حیدر، سید، (مرتب)سلیم الرحمن،ص١٩
-23 ایضاً، ص٤٦
-24 ایضاً، ص٦٤
-25 ایضاً،ص٧٦
-26 ایضاً، ص١٦٦
…………………
ڈاکٹر زاہرہ نثار
سینیئر مدیر / اسسٹنٹ پروفیسر
شعبۂ اردو دائرہ معارفِ اسلامیہ
علامہ اقبال کیمپس، جامعہ پنجاب لاہور، پاکستان
موبائل نمبر: 0334-4094711
e-mail : zahiranisar6@gmail.com
Title : “Tawarikh-e-Rasalas – A Critical Study”
ضروری نوٹ: ”تواریخِ راسلس۔ ایک مطالعہ” غیرشائع شدہ مضمون ہے اور پہلی بار اشاعت کے لیے اس رسالے میں بھیجا جا رہا ہے۔
Leave a Reply
2 Comments on "”تواریخِ راسلس۔ ایک مطالعہ”
"
[…] ”تواریخِ راسلس۔ ایک مطالعہ” […]
[…] ”تواریخِ راسلس۔ ایک مطالعہ” […]