کلاسیکی شاعری میں احتجاج کی نوعیتِ

احتجاج کی تاریخ بہت قدیم ہے ہر دور میں  احتجاج رہا ہے ہاں  یہ ضرور رہا ہے کہ اس کی نوعیت الگ الگ رہی ہے اور احتجاج کے مقاصد الگ رہے ہیں ۔ احتجاج کے طریقہ کار حربے الگ رہے ہیں ۔ یہ احتجاج سماجی نابرابری کے خلاف رہا ہو یا مذہبی ظاہر داری کے خلاف یا کسی خاص طبقے پہ زیادہ زور دینے کے خلاف یا مذہبی انتہا پسندی کے خلاف یاحقوق انسانی و حکومت کے خلاف معاشی جبر ومعاشی تقسیم کے خلاف اور سیاسی نظام کے خلاف سیاسی بد عنوانیوں  کے خلاف ،پدری نظام کے خلاف جس میں  ایک ہی گھر میں  لڑکوں  اور لڑکیوں  سے دو طرح کے سلوکئے جاتے ہیں  ۔ فہم وادراک کے خلاف یا قلم پر جب پابندی لگائی گئی ہے تو بے انتہا احتجاجی شاعری کی گئی ہے مصنف ہو یا شاعر وہ عام آدمی کے لئے فکر مند رہتا ہے اور جب حکومت یا کسی اور نے عام انسانوں  پہ ظلم ڈھائے تو مصنف اور شاعروں  نے احتجاج کا پرچم ہمیشہ بلند کیا ۔ اور جب کبھی شعرااور مصنفین کی سوچ کو تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی تو کوئی بھی دور حکومت رہی ہو، اس دور کے ہمدرد اور انسانیت دوست لوگوں  نے ہمیشہ احتجاج کا پرچم بلند کیا ۔

احتجاج کی ابتدا کب سے ہوئی ہے یہ کہنا مشکل ہی نہیں  بلکہ نا ممکن ہے لیکن ایسا مانا جاسکتا ہے کہ جب انسانی نظام سامنے آیا ہوگا تو نظام پرست اور نظام میں تبدیلی چاہنے والے لوگ بھی سامنے آئے ہوں  گے کیوں کہ جیسے جیسے زندگی آگے بڑھتی ہے رہنے سہنے کے طریقے اور حالات زندگی طور طریقے اور تہذیب وتمدن میں پہلے سے تبدیلی آتی ہے ان کے سبب سے ہی احتجاج نے جنم لیا ہوگا ہم کسی عہد اور کسی شخص کا نام نہیں  لے سکتے کہ اس دور یا اس شخص سے احتجاج نے جنم لیا۔

ہندوستان کی سب سے قدیم کتاب یا تہذیب وید میں بھی احتجاج ملتا ہے یہ احتجاج ہندوستانی تاریخ میں پہلا لکھا ہوا احتجاج ہے جس کو ہم پڑھ سکتے ہیں  کیوں کہ اس سے پہلے کے حالات کو لکھا نہیں  جا سکا ہے ۔ یہ احتجاج آریہ پرندر کا داس اور دسیوکے خلاف ہے۔ جب آرین ان کے قلعے کو توڑنے کے لئے ان کی پرستش کرتے ہیں ۔ یہ احتجاجی لڑائی زمین پر قبضہ کولے کر اور تہذیب کو لے کر ہے۔ جس میں آریہ داس اور دسیو کو چپٹی ناک والے آریہ تہذیب کو نہ ماننے والے ان کے مذہب سے الگ مذہب کو ماننے والے اور پرستش کرنے والے الگ زبان بولنے والے کہتے ہیں ۔

جب آریہ یہاں  مقیم ہوگئے اور مقامی باشندوں  کو انھوں  نے غلام بنا لیا ہوگا تو یہاں  کے مقامی باشندوں نے احتجاج کیا ۔ شنبوق کا ویدپڑھنا بھی اپنے حق کو حاصل کرنے کے لئے احتجاج تھا۔ احتجاج کی تاریخ بہت قدیم ہے ہردور کے احتجاج کے اپنے طریقے دیکھے جاسکتے ہیں  ۔ اسی صورت حال کا مطالعہ بے شمار دیکھا جاسکتا ہے اور ان کے قول میں  احتجاج رچا اوربسا ہے جب وہ کہتے ہیں کہ غریب اور مظلوم پر ظلم نہ کیا جائے ۔ آج سے قریب ڈھائی ہزار سال قبل مہاتما بدھ اور مہاویر جیسے بھکت منظر عام پر آئے اور بدھ اور جین جیسے مذہب کا وجودمیں آنا اورا ن کی تعلیم برہمنیت کے نظام اقتدار کے خلاف احتجاج ہے ۔ پروفیسر قمر رئیس رقم طراز ہیں :

”ادب کی تخلیق اور محرکات کے بارے میں فلسفے اور نظریے اپنی جگہ ادب کی تاریخ اور عمل پر نظر ڈالیں  تو اس حقیقت سے انکار مشکل ہوگا کہ ادب کا ایک قومی محرک اختلاف اور انحراف کا جذبہ بھی ہے۔”  ١

١  (”ادب میں اختلاف، انحراف اور احتجاج کی معنویت ”   قمر رئیس ،  مرتبہ:ارتضیٰ کریم، ص:٢٠)

مزید آگے لکھتے ہیں :

”حساس ادیب جب اپنے معتبر تجربہ کو اظہار کی شکل دیتا ہے تو گویا وہ ایک اختلافی یا انحرافی عمل سے گزرتا ہے وہ بلا شبہ کسی سماجی یا انسانی صورت حال کے بارے میں اس اعتماد سے اپنی بات کہتا ہے کہ اس میں کچھ نیا ہے اس میں دوسروں  کی سوچ وآگہی سے ہٹ کر کچھ کہاگیا ہے یعنی اس کا تخلیقی تجربی دوسروں  سے اختلاف کا پہلو رکھتا ہے۔ معاصرین کے عام طرز وفکر سے وہ ایک گریز یا انحراف ہے۔ دوسری جانب اس انحرافی رویے میں اکثر احتجاج کا جذبہ اس لئے شامل ہوتا ہے کہ ادیب اپنے ماحول اور معاشرے سے ناآسودہ ہوتا ہے اظہار کے وسیلے سے وہ اپنی نا آسودگی کے اضطراب اور کرب کا اظہار کرکے ایک طرح کا سکون پاتا ہے۔ ادب میں احتجاج اور انحراف کا تیسرا پہلو یہ ہے کہ اس طرح ادیب اپنے وجود کو جتاتا اور اس کا اثبات کرتا ہے۔ انھیں  انفرادی پہچان یا اپنے تہذیبی تشخص کو جستجو کرتا ہے صرف یہی نہیں  اس صورت سے وہ اپنی آزادی اظہار کااعلان کرکے جمہوری عمل کو بھی استحکام بخشتا ہے۔  ٢

٢  (”ادب میں اختلاف، انحراف اور احتجاج کی معنویت ،  قمر رئیس ،مرتبہ: ڈاکٹر ارتضیٰ کریم، ص:)

صوفیوں  اور خانقاہوں  کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ انھوں  نے ہمیشہ انسانی مسائل کو ترجیح دی اورعام انسان کی خدمت کو انھوں  نے خدائی خدمت کا ایک ذریعہ مانا ہے۔ عام انسان غریب اور مفلس میں انھوں نے خدا کا جلوہ دیکھا اس صفت میں منصور حلاج کو اولیت حاصل ہے جس نے اناالحق کا نعرہ بلند کیا اور اپنی موت تک کی پرواہ نہ کی ۔ عہد وسطی میں  کبیر کا نام بہت عزت اور احترام کا حامل ہے جنھوں  نے ظاہر داری کے خلاف ہمیشہ اپنی آواز بلند کی۔ یہاں  صوفیا ئے کرام کے کلام نمونے کے طور پر پیش ہیں جن میں مذہبی ظاہر داری کے خلاف احتجاج ہیں اور عام انسان اور انسانیت کے حق میں انھوں  نے آواز اٹھائی ہے۔ اس موضوع پر بابافرید الدین کا کلام یہ ہے:

تن کے دھونے سے جو ہوتے دل پوک

پیش رو انبیا کے ہوتے غوک

خاک ملنے سے جو خداپائیں

گائے بیلاں  بھی و اصلا ہوجائیں

تردامنی پہ شیخ ہماری نہ جائیو

دامن نچوڑ دیں  تو فرشتے وضو کریں

                                    (درد)

جس مصلے پہ چھڑکیے نہ شراب

اپنے آئین میں  وہ پاک نہیں

                                    (قائم)

ہندوستانی کلاسیکی میں  جو احتجاج و مزاحمت دکھائی پڑتا ہے وہ براہ راست کم ہی ہے ۔یہ احتجاج زیادہ تر ہمیں شہر آشوب کی شکل میں دکھائی پڑتا ہے۔ اسی دور میں  جعفرزٹلی بھی پیدا ہوئے جنھوں  نے اپنی شاعری میں  زیادہ تر احتجاج ہی کیا ہے۔ ان کی شاعری میں عام انسان کی فکر ہمیں  دکھائی پڑتی ہے انھوں نے براہ راست بادشاہ امرا ء و رئوسا اور غلط رسم ورواج کو اپنے احتجاج کا نشانہ بتایا ہے ایک زمانے تک لوگ ان کو شاعر ماننے سے ہی گریز کرتے تھے۔ ان کی شاعری اپنے دور کا شہر آشوب بھی ہے انھوں  نے بادشاہ وقت فرخ سیرکے خلاف احتجاجی اشعار کہے جس کی وجہ سے فرخ سیر نے انھیں  موت کی سزا سنائی جس کا سبب کہتے ہیں  ان کا یہ شعر بنا:

سکہ زد پر گندم وموٹھ و مٹر

بادشاہ تسمہ کش فرخ سیر

جعفر زٹلی نے اپنے وقت میں  ہربادشاہ وآدمی پر ہجو یہ نظم احتجاج کی شکل میں لکھی جس سے وہ اتفاق نہیں  رکھتا تھا ڈاکٹر نورالحسن ہاشمی رقمطراز ہیں :

فرخ سیر نے اس تنقید کے جرم میں  اسے موت کی سزادی”  ٣

٣  (دہلی کا دبستان شاعری ، نورالحسن ہاشمی، ص: ١٢)

”جعفر زٹلی اردو کا پہلا شہید شاعر”شہر آشوب” قرار دیاجاسکتا ہے کیوں  کہ نہ اس سے پہلے اور نہ اس کے بعد کسی شاعر کو حق گوئی و بے باکی کے جرم میں  پھانسی کی سزا ملی۔”  ٤

(شہرآشوب ایک تجزیہ ، ڈاکٹر امیر عارفی۔ص: ٤٧)

اسی دور میں  اور کئی شاعر ہوئے ہیں  جنھوں  نے احتجاجی اشعار کہے ہیں مثلاً مصحفی ، ناسخ وغیرہ کا نام اس سلسلے میں قابل ذکر ہے جنھوں  نے اپنے دور کے حالات کا بخوبی مطالعہ کیااور عمدہ احتجاجی اشعار کہے چند شعر یہاں  پیش ہیں :

اپنے منقاروں  سے خود کہتے تھے پھندا جال کا

طائروں  پر سمر تھا صیاد کے اقبال کا

                                    (مصحفی)

دل ملک آنگریز میں رہنے سے تنگ ہے

رہنا بدن میں روح کا قید فرنگ ہے

                                    (ناسخ)

یہاں  کے قاضی و مفتی ہیں  رشوت خور

یہاں  کے دیکھ لو سب اہل کار ہیں چور

                                    (حاتم)

میر بہت نازک مزاج تھے انھوں  نے کبھی اپنے آپ کو محبوب میں ضم نہیں  کیا محبوب کے ظلم و ستم کو سہا زمانے کے ستم سہے لیکن کبھی ہار تسلیم نہیں  کی یہ ان کی انا کا ہی نتیجہ تھا کہ کبھی ہتھیار نہیں ڈالے بلکہ ہمیشہ احتجاج کیا اور اپنی زندگی کو اپنے مزاج اور پسند سے گزارنے کے لئے ہمیشہ کوشش و جدو جہد کرتے رہے۔

مزہ دکھادیں  گے بے رحمی کا تری صیاد

گراضطراب اسیری نے زیردام لیا

میرے سلیقے سے میری نبھی محبت میں

تمام عمر میں نا کامیوں  سے کام لیا

نظیر اکبرآبادی جیسے عوامی و مقبول شاعراسی دور میں  پیدا ہوئے جنھوں  نے روزمرہ کی چھوٹی سے چھوٹی چیزوں  کو مثلاً رسم ورواج کے طور طریقے اور رہن سہن وغیرہ کو بہت قریب سے دیکھا تھا۔ نظیر کی نظموں  میں زمانے سے اور زمانے کے بنائے ہوئے نظام سے احتجاج ہے گویا وہ ایک عام آدمی کا احتجاج ہے جو نظام سے ہٹ کر سوچنے کو مجبور ہے ان کے فن کا یہ نمونہ”آدمی نامہ” میں  بخوبی دیکھا جاسکتا ہے ۔ نمونے کے طور پر یہ اشعار یہاں  پیش ہیں :

دنیا میں  پادشاہ ہے سوہے وہ بھی آدمی

اور مفلس وگدا ہے سو ہے وہ بھی آدمی

زرداوربے نوا ہے سوہے وہ بھی آدمی

نعمت جو کھا رہا ہے سو ہے وہ بھی آدمی

ٹکڑے جو مانگتا ہے سو ہے وہ بھی آدمی

مرزا محمد رفیع سودا اٹھارہویں  صدی عیسوی کے بہت عظیم شاعر گزرے ہیں  انھوں  نے گھوڑے ہجو لکھی جو بہت زیادہ مقبول ہوئی یہ دراصل صرف گھوڑے کی ہجو نہیں  بلکہ یہ احتجاج ہے کہ موج کاسپاہی کس طرح سے لڑائی کے نام سے ڈرتا ہے اور گھبراتا ہے میدان جنگ میں لڑنا اس کے بس کی بات نہیں ۔ اس میں  انھوں  نے دراصل شہرآشوب کی شکل میں  اس زمانے کے نظام کا مذاق اڑایا ہے کہ فوج کے سپاہی اور جاگیر دار اپنا خرچ نہیں  چلا پارہے ہیں اوراپنے ہتھیار گھوڑے گروی رکھ کراپنا اور اپنے لوگوں  کا خرچ چلا رہے ہیں ۔ اور حکومت کی طرف سے جاری ہوا فرمان بازار میں  ردی کے بھائو بکتا ہے کیونکہ ان کی اب کوئی قدروقیمت نہیں رہ گئی ہے بلکہ وہ ردی کا ایک ٹکڑا رہ گیا ہے اور جب کہ سارا نظام درہم برہم ہوگیا ہے اس موضوع کو سودا نے احتجاج کا نشانہ کچھ یوں  بنایا ہے۔

پڑے جو کام انھیں  تب نکل کے کھائی سے

رکھیں  وہ فوج جو موتی بھری لڑائی سے

پیادے ہیں  سوڈریں  سر منڈاتے نائی سے

سوار گرپڑیں  سوتے میں چارپائی سے

کرے جو خواب میں  گھوڑا کسی کے نیچے الول

یہ جتنے نقدی وجاگیر کے تھے منصبدار

تلاش کرکے ڈھلتی انھوں  نے ہوناچار

ندان قرض میں بنیوں  کے دی سپہر تلوار

گھروں  سے اب جو نکلتے ہیں  لے کے ہتھیار

 بغل کے بیچ تو سونٹا ہے ہاتھ میں کچلول

آخری مغل تاجدار بہادرشاہ ظفر کی پوری زندگی مایوسی و نا امیدی میں  گزری۔ انھوں  نے اپنے دل کی بات اپنے احساسات اور زمانے کے ظلم کو اشعار کی شکل دی ۔ انگریز حکومت کی وجہ سے جو نظام میں  چاروں  طرف کا ماحول بد سے بدتر ہے انھوں  نے اس کے خلاف احتجاج کیا ہے لیکن جو شخص انگریزوں  کی پینشن لیتا تھا اور ایک طرح سے قیدی تھا۔ کھل کر احتجا ج تو نہیں  کر سکتاتھا۔ لیکن اپنی تمنائوں  بے بسی اور مایوسی کو کچھ اس انداز میں بیان کیا ہے کہ ان کی آرزوئیں  ہمارے سامنے آجاتی ہیں ۔

نہ کسی کے آنکھ کا نور ہوں  نہ کسی کے دل کا قرار ہوں

جو کسی کے کام نہ آسکے میں  وہ ایک مشت غبار ہوں

پئے فاتحہ کوئی کیوں  کوئی چارپھول چڑھائے کیوں

کوئی شمع لاکے جلائے کیوں  میں  توبیکسی کا مزار ہوں

مرزا غالب اپنے زمانے کے آئینہ ہیں  انھوں  نے زندگی کے ہر پہلو پر اشعار کہے ہیں  لیکن مصیبت اور پریشانیوں  کے آگے وہ ہتھیار نہیں  ڈالتے بلکہ اس کو چیلنج کے طور پہ لیتے ہیں  اور مقابلہ کرتے ہیں ۔ جس کو دیکھ کر یہ لگتا ہے کہ مصیبت اور پریشانی سے وہ نہیں  بلکہ مصیبت اور پریشانی غالب سے ڈرتی ہے ان کے احتجاج کا طریقہ نمایاں  ہے چند اشعار بطور مثال پیش ہے۔

 عشرت قطرہ ہے دریا میں  فنا ہوجانا

درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہوجانا

رنج سے خوں  گر ہوا انساں  تو مٹ جاتا ہے رنج

مشکلیں  اتنی پڑی مجھ پہ کہ آساں  ہوگئیں

اس دور میں بہت سے اور شاعر ہیں  جنھوں  نے احتجاجی اشعار کہے ہیں  مثلاً آتش مومن اور شاد عظیم آبادی وغیرہ لیکن یہاں  سب کا ذکر کرنا مشکل ہے لیکن اس دور کے اشعار کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں  مرصع سازی سے کام لیا گیا ہے فن جمالیات کو کہیں بھی ہاتھ سے جانے نہیں  دیا گیا ہے اس دو ر کے اشعار میں  احتجاج اتنا سخت نہیں  ہے جتنا کہ بعدکے شاعروں  کے یہاں  ملتا ہے چند اشعار بطور نمونہ یہاں  پیش ہیں :

خودی کا نشہ چڑھا آپ میں  رہا نہ گیا

خدابنے تھے یگانہ مگر بنا نہ گیا

                                    (یگانہ)

تمنائوں  میں  الجھایا گیا ہوں

کھلونے دے کے بہلایا گیا ہوں

                                    (شاد)

خواہش مرگ ہواتنا نہ ستا ورنہ

دل میں  پھر تیرے سوا اور بھی ارماں  ہوں گے

                                    (مومن)

زمین چمن گل کھلاتی ہے کیاکیا

بدلتا ہے رنگ آسماں  کیسے کیسے

                                    (آتش)

٭٭٭

ڈاکٹرالف۔د۔نسیم کے تحقیقی و تنقیدی رجحانات

سید عبدالوحید، لیکچرر، شعبہء علم التعلیم ، یونیورسٹی آف ایجوکیشن ،لاہور

awsyed@hotmail.com, ph: +436889269345

محمد سعید، اسسٹنٹ پروفیسر، شعبۂ اُردو، جی سی یونیورسٹی، لاہور

Abstract

The tradition of research and criticism in Urdu language and literature was influenced by socio-political and literary movements, educational institutions, literary circles and forums, and by distinguished researchers and critics in the history of Urdu literature. Dr. A.D. Naseem is amongst those prominent researchers and critics who had significantly contributed to the field of Urdu research and criticism. This paper explores the styles he introduced through his thought and work in the field.

ڈاکٹرالف۔د۔نسیم ٣٠ نومبر ١٩١٩کو ہوشیار پور میں  پیدا ہوئے اور آ پ کا نام اللہ دتا رکھا گیا ۔بعد ازاں  اے ۔ڈی ۔نسیم اور قلمی نام الف۔د۔نسیم سے مقبول ہوئے چونکہ آپ نے شاعری بھی کی ،چنانچہ نسیم تخلص اختیار کیا۔آ پ نے ابتدائی تعلیم ہوشیار پور سے حاصل کی اور یہیں  سے ایف۔اے کا امتحان پاس کر کے ٹائپ اور شارٹ ہینڈ کے کورس مکمل کیے۔١٩٣٧ سے دس سال تک آ پ ملازمت کی تلاش میں  سرگرداں  رہے اور بعد ازاں  السنہ شرقیہ دلی دروازہ لاہور میں  داخلہ لیااور دو سال کے بعد فارسی زبان میں  منشی فاضل کا امتحان نمایاں  حیثیت سے پاس کیا اور پھر انگریزی کا امتحان دے کر بی۔اے میں  کامیابی کی سند حاصل کی۔ ١٩٤٨ میں  ملک بھر میں  ایم۔اے اردو کی پہلی جماعت کا آغاز یونیورسٹی اورئنٹل کالج لاہور سے ہوا تو پاکستان بھر میں  پہلے ایم۔اے اردو میں  پہلی پوزیشن اور گولڈ میڈل لینے والے بھی پہلے طالب علم قرار پائے۔١٩٥٩ میں  جب وہ لکچرر کے تدریسی عہدے پر فائز تھے تو اردو شاعری کا مذہبی اور فلسفیانہ عنصر کے موضوع پرایک مستند مقالہ لکھااور پی۔ایچ۔ڈی کی ڈگری حاصل کی آ پ ٣١ نومبر ١٩٨١ کو گورنمنٹ کالج ساہیوال سے ریٹائرڈ ہوئے توچند ماہ بعد صادق پبلک سکول میں  ملازمت مل گئی جہاں  دو برس تک تدریس کرنے کے بعد پھر ساہیوال آ گئے اور خانہ نشینی کی زندگی گزارنے لگے ۔٢٢ جولائی ٢٠٠٢ میں  وہ خالق حقیقی سے جا ملے۔

معاصر محققین اور ناقدین میں  ڈاکٹر نسیم اہم مقام رکھتے ہیں ۔ وہ تحقیقی تقاضوں  او ر اصولوں  سے کما حقہ شناساہیں  ۔ انہوں  نے تنقید و تحقیق کے ایسے موضوعات کا انتخاب کیا جن پر اب تک انہی کی چھاپ ہے۔ شعرو ادب کے ہزار ہا گوشے ہیں ا ور ہر گوشے کے سینکڑوں  پہلو ،لیکن انہوں  نے شعرو سخن اور اردوئے قدیم میں  سے ایسے پہلوؤں  کو تحقیق و تنقید کا موضوع بنایا جن سے قدما ،مذہب و تصوف اور فلسفہ کے عناصر جڑے ہوئے ہیں  ۔ یہ ان کی تحقیق و تنقید کا امتیاز بھی ہے اور ان کی انفرادیت بھی ۔

            ان کی متعدد تصانیف میں  سے جن مطبوعہ و غیر مطبوعہ تحقیقی و تنقیدی کتب کا تجزیہ و تعارف اور ان کی روشنی میں  ان کا بطور محقق و نقادجائزہ لیا گیا ہے۔ ان میں  اردوئے قدیم اور چشتی صوفیائ، بارہویں  صدی ہجری میں  دلی کا شاعرانہ ماحول، نور مجسم ، ۖ ،حیات النبی ۖ ، خواجہ میر درد کا تصوف (مقالہ ایم۔ اے۔ اردو)، اردو شاعری کا مذہبی اور فلسفیانہ عنصر (مقالہ ڈاکٹریٹ) ، اردو شاعری کی مذہبی اور صوفیانہ تلمیحات و مصطلحات ، اردو فکشن مشرقی اقدار کی روشنی میں  ، تذکرہ لالہ زار اور خواجہ میر درد کے شاگرد شامل ہیں  ۔ ان کے علاوہ متعدد مطبوعہ ایسے مضامین اور مقالات جو مختلف رسائل و جرائد میں  شائع ہو چکے ہیں  اور تاحال غیرمدون ہیں  ان کا تجزیہ و تعارف بھی شامل تحقیق ہے۔ یہاں  ان کا مجموعی جائز ہ  دیا جارہا ہے۔ تاکہ ڈاکٹر نسیم کی تحقیق و تنقید کا مجموعی تاثر ذہن نشین ہو سکے ۔

ہر شاعر و ادیب اور محقق و نقاد کی طرح ڈاکٹر نسیم کی شخصیت کا عکس ان کی تحقیق و تنقید میں  اس حد تک نظر آتا ہے ۔جس حد تک ان شعبوں  میں  گنجائش ممکن ہے کیونکہ دور جدید میں  تنقید و تحقیق سائنسی خطور پر استوار ہو چکی ہے ۔اور اس میں  محقق و نقاد کی شخصیت منہا کر دی گئی ہے۔ تاہم محقق و نقاد کی دلچسپیوں  میں  کوئی دیوار حائل نہیں  ہو سکتی ۔ اور خاص طور پر تنقید میں  اس کی شخصیت کو اٹوٹ انگ بھی قرار نہیں  دیا جاسکتا۔ یہ کہنا اس حد تک بجا ہے کہ ڈاکٹر نسیم کی شخصیت مذہب و تصوف ، قدیم ادب ، ادبی روایات اور قدما سے لگاؤ کے عناصر سے مملو ہے ۔چنانچہ تحقیقی و تنقیدی موضوعات کے انتخاب اور ان کے مندرجات میں  مزاج کا وہ عکس نظر آتا ہے جو ان کی شخصیت کا خاصہ ہے ۔ ان کا شمار تحقیق و تنقید کے ان قافلہ سالاروں  میں  ہوتا ہے جو ادب میں  کلاسیکی اقدار کا کھوج لگا کر دور حاضر میں  ان کو رواج دینا چاہتے ہیں  تاکہ مشرقی ادب کا تشخص اور وقارقائم رہے اور قدما ء کے تتبع میں  ادب کو معیار اور اعتبار سے روشناس کر سکیں  ۔ چنانچہ ان کی تلاش و تحقیق کا مرکز و محور ادب کے اس ماہتاب کو فروزاں  کرنا ہے جو زمانے کی گرد سے گہنا گیا ہے اور جس کی جلوہ فرمائی اور تابنا کی سے ادبی دنیا منور ہو سکتی ہے ۔

اردو زبان و ادب کی تاریخ بھی ان کی تحقیق و تنقید کا موضوع رہا ہے۔ ان کی تصانیف ” اردو ئے قدیم اور چشتی صوفیاء ” اور ” بارہویں  صدی ہجری میں  دلی کاشاعرانہ ماحول” اسی ذیل میں  آتی ہیں ۔ ان کی غرض و غایت قدیم ادبی اثاثے کا تحفظ ہے ۔ا ن میں  شعرو ادب اور زبان کو ثقافتی و تہذیبی تناطر میں  پیش کیا گیا ہے ۔ کیونکہ ان کی بنیادیں  ہماری تہذیبی اور ثقافتی تاریخ میں  پوشیدہ ہیں ۔چنانچہ وہ برصغیر کی تہذیب و ثقافت میں  غوطہ زن ہو کر اردو زبان و ادب کے وہ گوہر نایاب تلاش کرتے ہیں  جن کی تب و تاب سے آسمان ادب جگمگا اٹھتا ہے ۔ “اردوئے قدیم اور چشتی صوفیا”کو صوفیائے چشت کی لسانی تاریخ یا تحریک کہنا بجا ہو گا۔ اس سے اردو زبان کی جڑیں  اور بنیادیں  برصغیر کے مخصوص تہذیبی و ثقافتی ماحول میں  ڈھونڈنا آسمان ترہو گیا ہے اور تبلیغ اسلام کے سلسلے میں  اسے آلہ کار کے طور پر استعمال کر نے اور ترقی ملنے کے نقطہ نظر سے بھی اس کی تفہیم میں  مدد ملی ہے۔ چنانچہ کتاب کے پیش لفظ میں  افتخار عارف لکھتے ہیں  :

         ” یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ اردو کی لسانی بنیادیں  تہذیبی اور ثقافتی تاریخ میں  پنہاں  ہیں ۔ اور یہ  تاریخ ہمارے دینی ادب اور تصوف کی روایات کے ذریے آگے بڑھتی رہی ہے ۔ اس لیے اس جانب بھی توجہ دینا لازم آتا ہے ۔ اردو زبان کی

نشوو نما میں  چشتی صوفیا کا کردا ر نہایت اہم ہے ۔ انہوں نے برصغیر کے باشندوں  میں  تبلیغ اسلام کے لیے جس زبان کواپنایا وہ یہاں  کی  اس وقت کی عوامی زبان تھی ۔ ان بزرگان دین نے پہلے اس زبان کو خود سیکھا اور پھر اس کے ذریعے تبلیغ کے سلسلے کو آگے بڑھایا ۔” ١

            “اردوئے قدیم اور چشتی صوفیا” میں نسیم ایک ماہر لسانیات کے روپ میں  زبانوں  کی نشوو نما اورافزائش اور ان کے عمل اور رد عمل کو احاطہ تحریر میں  لاتے ہیں  ۔ اور ہندوستان میں  رائج مختلف زبانوں  اور ان کے ادب کے ساتھ ساتھ مقامی اصناف شعرو ادب کا گہرا مطالعہ رکھتے ہیں  ۔  ان کی تحقیق کا خاص پہلو یہ ہے کہ انہوں  نے ان اصناف شعروادب کے اسلامیانے کے عمل کو احسن انداز میں  بیان کیا ہے ۔ اور اس ضمن میں  صوفیا کرام کی کاوشوں  کو تحقیق کی آنکھ سے دیکھا ہے ۔ وہ لکھتے ہیں  :

” ۔۔۔۔انہوں  (صوفیاء ) نے بشن پد کی ظاہر ہیئت کو تو قائم رکھا ۔ اور بعض رموز و علائم بھی وہی رکھے لیکن اس کے باطن میں وشنو کے بجائے خدا اور شرک کے بجائے توحیدسمودی ۔انہوں  نے بش پد کی شعری صورت اور موسیقانہ جسم میں  اسلامی روح پھونک دی۔ ” ٢

            زبان اور لسانی عمل سے متعلق نظریات کے علاوہ صوفیائے چشت کے تذکرہ میں  ان کی تبلیغی کاوشوں  کے توسط سے عمل میں  آنے والی لسانی افزائش کی خدمات کو بیان کیا گیا ۔ لیکن یہاں  ان کی تحقیق بوجوہ عدم توازن کا شکار ہو گئی ہے ۔کیونکہ بعض صوفیائے چشت کے بارے میں  مطلوبہ معلومات میسر نہیں  آسکیں  اور بعض دیگر کے بارے میں  کثیر ماخذات ہاتھ لگے ہیں  ۔ صوفیاکی ہندی دانی کے واقعات پرزو ر زیادہ صرف ہوا ہے ۔ڈاکٹر نسیم نے اپنے تحقیقی نتائج بڑے وثوق سے پیش کیے ہیں  ۔ لیکن جہاں  وہ تحریری شکل کی شہادت مہیا کر نے سے قاصرنظر آتے ہیں  وہاں  وہ تشکیک کا اظہار کرتے ہیں  جیسے خطبہ کے ذریعے تبلیغ کے بیان میں  وہ لکھتے ہیں :

” ….. لیکن اس بات کا قوی امکان ہے کہ انہوں  (صوفیا) نے جمعہ کے اجتماعات یا دوسرے مخصوص جلسوں  میں  زبانیخطبات ضرور دیے ہو ں  گے ۔ اور ان کی زبان اگر مکمل طور پر نہیں  توجزوی طور پر ضرور ہندی آمیز ہوگی ۔” ٣

دلی کو اردو زبان کی جنم بھوی یا ولادت گاہ قرار دینے کا مفروضہ ” بارہویں  صدی ہجری میں  دلی کا شاعرانہ ماحول” لکھتے وقت محقق کے پیش نظر نہیں  تھا۔ لیکن یہ تحقیق دراصل اردو زبان کے اسی مرکز میں  پنپنے والی شعری تحریک کی ایک تاریخ ضرور ہے ۔اس میں  ان کا کردار ایک ادبی تاریخ دان کا ہے ۔ لیکن شاعری کے واقعات کے تذکرہ میں  سن و ماہ کو بیان نہیں  کیا گیا۔ تذکروں  کے مطالعہ کے زیر اثر کہیں  کہیں  رومانوی انداز کی جھلکیاں  بھی نظر آتی ہیں  ۔ اور تخیلاتی پرواز کے چند نمونے بھی موجود ہیں  ۔جو تحقیقی تقاضوں  سے مطابقت نہیں  رکھتے ۔ وہ کہیں  کہیں  کلاسیکی معیار ادب کا دور جدید کے ادب سے موازنہ بھی کرتے ہیں  ۔ وہ تبصرانی انداز بھی اپناتے ہیں  کئی ایک اصناف ادب کا تعارف وارتقاء بھی پیش کیا گیا ہے۔ انہوں  نے تذکروں  کو ماخذات کے طور استعمال کر نے میں  ضرورت سے زیادہ تکیہ کیا ہے۔ اس کی وجہ ایک تو تذکروں  میں  ان کی غیر معمولی دلچسپی نظرا تی ہے اور دوسرا یہ کہ بارہویں  صدی ہجری میں  دلی کے شاعرانہ ماحول کا ذکر کہیں  اور نہیں  ملتا ۔ انہوں  نے اپنی تنقیدی بصیرت سے بھی تاریخ ادب کی قدرو قیمت کو دو چند کر دیا ہے ۔ ڈاکٹرنسیم شعرا کے بارے میں  اپنی رائے دیتے ہوئے لکھتے ہیں  :

” جن قلندر وضع ، رند مشرب ، آزاد منش اور غزل گو شعرا کا ذکر اب تک آچکا ہے ۔یہ پایہ شاعری سے کتنے ہی گرے ہوئے کیوں  نہ ہوں  انہیں  آج ہم بازاری ،سوقیانہ اورغیرثقہ کیوں  نہ کہیں  ۔ لیکن اردو شاعری کی تاریخ میں  ان کی ایک خاص اہمیت ہے۔ “٤

دونوں  کتب میں  اردو زبان و ادب کی بنیادیں  رکھنے والے طبقات مثلاً صوفیائے چشت اور شعراء و ادباء کی خدمات اور کارناموں  کو موضوع تحقیق بنایا گیا ہے ۔ دونوں  میں  تحقیقی معروضیت پائی جاتی ہے ۔ زبان سادہ بھی ہے اور ثقیل بھی ۔دونوں  میں  اردو کو ذریعہ اظہار کے طور پر اپنانے میں  فرق ہے ، صوفیا نے اسے تبلیغی آلہ کار کے طور پر اپنایا جبکہ شعرا ء اور ادباء نے تخلیقی تشفی کے لیے ۔

ڈاکٹر نسیم کی شخصیت مذہبی و دینی رجحانات اور میلانات کا مجموعہ تھی۔ دین و مذہب اور سلوک و تصوف سے ان کو گہری عقیدت تھی ۔انہوں  نے علمی و مذہبی تحقیق کے ذریعے فرقہ واریت کو ختم کر کے ملت اسلامیہ میں  یگانگت پیدا کر نے کی کوشش کی ہے ۔وہ متنازعہ مذہبی قضیات کو عام فہم انداز میں  دلائل کے ساتھ سلجھاتے ہیں ۔ ” نور مجسم ۖ” اور ” حیات النبی ۖ ” ایسی ہی کاوشیں  ہیں  ۔” نور مجسم ۖ” کا موضوع مسئلہ نور و بشر ہے۔ انہوں  نے قرآنی آیات و واقعات، پیغمبروں  کے حالات و سوانح، عملی زندگی اور حیات دنیوی سے بزرگوں  اور اولیا اللہ سے کشف و مراقبہ اور خواب و منام کی مثالیں  اور واقعات اوروز مرہ زندگی سے عام مثالیں  پیش کر کے مسئلہ کا مدلل حل پیش کیا ہے۔ وہ ان واقعات سے استنباط بھی کرتے ہیں  ۔ مصنف کا انداز بیانیہ ہے۔ وہ قاری کو کسی گہرے فلسفہ و منطق سے روشناس نہیں  کراتے بلکہ ان کی ذہنی سطح پر اتر کر اور معیار فکرو نظر کو مد نظر رکھتے ہوئے مسئلہ کے مختلف پہلوؤں  کو روشن کرتے ہیں  ۔ ڈاکٹرنسیم لکھتے ہیں  :

” ہر آمی کی انسانی حیثیت اس کے اند ر کے انسان سے متعین ہوتی ہے اگر اس آدمی کے اند ر کا انسان

کالا ہے تو وہ آدمی شیطان ہے۔ اور اگر اس کے اند ر گورا انسان ہے تو وہ آدمی فرشتہ ہے ” ۔٥

کہیں  کہیں  وہ خطابیہ انداز بھی اختیار کر تے ہیں  لیکن جذباتیت سے گریز کر تے ہیں  ۔ اور قارئین کو ہر لمحہ دعوت فکر دیتے ہیں ۔ تکرار خیال کے نمونے بھی ملتے ہیں  ۔وہ احادیث اور قرآنی آیات کو دہراتے ہیں ۔ یہ تکرار اشعار میں  بھی ہے وہ اپنی بات کی وضاحت میں  اشعار کی مدد بھی لیتے ہیں ۔ ان کا مطالعہ وسیع ہے اور ان کا انداز بیاں  اور طریقہ تعلیم و تبلیغ فطری اور قرآن سے ماخود ہے۔ البتہ آیات کے حوالے میں  کہیں  کہیں وہ آیت کا نمبر درج نہیں  کرتے۔ ” حیات النبی ۖ ” نبی اکرم ۖ کے زندہ و حیات ہونے کے مباحث پر لکھی گئی ہے ۔ اس میں  قرآن و حدیث کے ساتھ ساتھ وحی و الہام اور کشف و وجدان کے حوالوں  سے بھی مدد لی گئی ہے اور حکایات سے استدلال بھی کیا گیا ہے۔ دونوں  تصانیف دو مختلف نزاعی اوراختلافی مسائل پر مبنی ہیں  ۔ چنانچہ طریقہ اظہار میں  بیشتر عناصر مشترک بھی ہیں ۔ انہوں  نے ایک مذہبی سکالر کے روپ میں  تعقل پسندی ، دلیل و منطق اور امثال و استدلال سے قاری کے دل و دماغ کو متاثر کیا ہے اور ایک غیر محسوس انداز میں  اپنی بات کو منوایا ہے ۔

” خواجہ میر درد کا تصوف ” اور ” اردو شاعری کا مذہبی اورفلسفیانہ عنصر ” بالترتیب ایم ۔اے اردو اور ڈاکٹریٹ کے تحقیقی مقالہ جات ہیں  جو سندی مقاصد کے تحت کی گئی غیر مطبوعہ تحقیق کے زمرے میں  آتے ہیں  ۔ موضوعاتی اعتبار سے دونوں  کی سمت ایک ہے ۔دونوں  میں  فکری وسعت اور دائرہ کا رکا فرق ہے ۔ ان میں مذہب و تصوف اور فلسفہ و حکمت کے علاوہ تاریخ ادب اردو اور فارسی و عربی زبان کی شعری روایات کو بھی پیش نظر رکھا ہے اور اردو کی شعری تاریخ میں  بیش قیمت اضافے کیے ہیں  ۔ اور تاریخ شعر میں  کئی نئے امکانات پید ا کیے ہیں  ۔” خواجہ میر درد کا تصوف” میں  تصوف کے ضابطہ علم پر ایک عمومی بحث کی گئی ہے ۔اس کا مقدمہ ایک خود مکتفی تحقیقی مقالہ ہے جس میں  تصوف پر اجمالی بحث و تمحیص ہے۔ وہ مطالعہ درد میں  کئی اضافے کر تے ہیں  ۔ اور غلط فہمیوں  کا ازالہ بھی ۔ خواجہ درد کی متصوفانہ حیثیت کے بارے میں  کئی اہم سوالوں  کے جواب بھی دیے ہیں  ۔ ان کے خیال میں  تصوف ایک وسیع و عمیق موضوع ہے اور یہ اردو شاعری کے رگ و پے میں  سمویا ہوا ہے ۔ ڈاکٹر نسیم اپنے من پسند اندازمیں  لکھتے ہیں  :

 ”  تصوف ایک بحر ذخار ہے کہ جس کی ہر موج اپنی آغوش میں  لاتعداد صدف لیے ہوئے ہے۔ہمارے شعرا نے س کی غواصی سے بکثرت گوہر نکالے ہیں  اور عروس دشمن کوآراستہ کیا ہے ۔کہیں  کہیں  قصائد کی تشبیہوں  میں  موتی پرو دیے ہیں  اور کہیں  مثنویات کے مضامین میں  مینا کار ی کی ہے کہیں  غزلیات کی تنگناؤں  میں  زرو جواہر بکھیرے ہیں  اور کہیں ساقی ناموں  کے شاہراہوں  میں  سونا چاندی بچھا یا ہے۔ کہیں  رباعیات کی چار پھلواری میں  نگینے جڑے ہیں  اور کہیں  دیگر اصناف سخن کی وسعتوں  میں  زرپاشیاں  کی ہیں  “۔٦

انہوں  نے درد کے سوانح اور اس عہد کے سیاسی و سماجی حالات کے علاوہ درد کی شعری اور نثری تصانیف سے ایک سو سات تصوف کے مباحث و مسائل کی وضاحت کی ہے ۔ تصوف کے ضابطے کا شاید ہی کوئی گوشہ ایسا ہو جس کا تذکرہ یہاں  نہ کیا ہو ۔ مقدمہ میں  ان کا بیان عالمانہ ،محققانہ اور سوچ مفکرانہ ہے ۔ یہ مقالہ علم تصوف اور خواجہ میر درد کی صوفیانہ حیثیت پر ایک مبسوط اور اعلیٰ میعار کی حامل تحقیقی کاوش ہے ۔جو شعرو ادب اور علم و عرفان کے میدان میں  اپنی مثال آپ ہے ۔” اردو شاعری کا مذہبی اور فلسفیانہ عنصر ” کی غرض و غایت اردو شاعری کے مذہبی اور فلسفیانہ عنصر سے بحث کر نا ہے ۔ مذہب و فلسفہ اور شاعری پر اس کا اثر بنیادی موضوع ہے ۔ انہوں  نے مذہب و فلسفہ کے بیشتر ضمنی مباحث کا بھی احاطہ کیا ہے۔  وہ اپنے مقالہ میں لکھتے ہیں  :

” اس میں  شک نہیں  کہ جذبہ اور فکر میں  بڑا بعد ہے لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں  کہ ان کی آمیزش ممکن نہیں  ۔ عملی دنیا میں  صوفی اس اجماع کی ایک زندہ مثال ہے۔ یہ اتصال جب ایک شاعر کے ذہن میں  پیدا ہوتا ہے تو وہ فلسفی شاعر کہلاتا ہے اور فکر کوجذبہ و تخیل کا رنگ دے کر پیش کرتا ہے ۔” ٧

چند تمہیدی مباحث” میں  انہوں  نے کوزے میں  دریا کے مصداق مقالے سے متعلق بنیادی امور کی تفصیل دی ہے ۔ مذہب و فلسفہ اور شاعری کے ضمن میں  مشرقی و مغربی مفکرین کے علاوہ قرآن و حدیث اور تاریخ اسلام سے استدلال کیا ہے ۔ مذاہب عالم کو بھی مد نظر رکھا ہے ۔ انہوں  نے اردو شعروادب پر اثر انداز ہونے والی تحریکوں  ، رجحانات ، مذہبی و معاشرتی اور سیاسی حالات و واقعات کے علاوہ فارسی و عربی زبان کی تاریخ و روایت سے بھی مدد لی ہے ۔ شعر ا کے کلام کا انتخاب اور تنقید بھی دی گئی ہے ۔ وہ ہر خیال و تصور کا تاریخی پس منظر بھی دیتے ہیں  ۔ “خواجہ میر درد کا تصوف” اور ” اردو شاعری کا مذہبی و فلسفیانہ ” عنصر ایک تحقیقی تسلسل کی دو کڑیاں  ہیں  ۔ موضوع کے اعتبار سے تصوف کا نقطہ پھیل کر دوسرے مقالے میں  مذہب و فلسفہ کے دائرے میں  بدل جاتا ہے ۔یہی مقالہ آگے چل کر ان کی تحقیقی بصیرت اور مخصوص نظریات و تصورات کا آئینہ دار بنتا ہے ۔ دونوں  مقالوں  سے تصوف و مذہب اور فلسفہ کے تناظر میں  اردو شاعری پر جو کام ہوا ہے اس سے تحقیقی میدان میں  بھی بہت پیش رفت ہو ئی ہے اور اردو شاعری بھی وسعت اور گہرائی سے ہمکنار ہوئی ہے ۔

 اردو شاعری کی مذہبی اور صوفیانہ تلمیحات و مصطلحات، اردو فکش مشرقی اقدار کی روشنی میں  ، تذکرہ لالہ زار اور خواجہ میر درد کے شاگرد ڈاکٹر نسیم کا غیر مطبوعہ تحقیقی اور تنقیدی سرمایہ ہے ۔ جو کتابت کے مراحل میں  ہے ۔” اردو شاعری کی مذہبی اور صوفیانہ تلمیحات ومصطلحات ” اس موضوع پر ایک انسائیکلو پیڈیا کا درجہ رکھتی ہے ۔ یہ کتاب اپنے اند ر دنیائے ادب میں  مستعمل مذہبی و صوفیانہ تلمیحات و مصطلحات کا ایک جہان دیگر سمیٹے ہوئے ہے ۔ جس میں  حضرت آدم  سے نبی آخر الزماں  ۖ تک انبیا ء و پیغمبران سے متعلق تلمیحات اور صحابہ و اولیاء کرام اور آیات و احادیث سے متعلقہ تلمیحات کا وسیع ذخیرہ شامل ہے۔ گویا یہ تصنیف گنجینہ تلمیحات و مصطلحات کا ایک طلسم ہے ۔ جس میں  محقق کا شعرو ادب ، قرآن و اسلام اور مذہب و تصوف کے بارے میں  مطالعہ بہت وسیع ہے ۔ اور مواد کی تنظیم و ترتیب بھی اعلیٰ درجے کی ہے ۔ ” تذکرہ لالہ زار ” مرثیہ گویوں  کا تذکرہ ہے جس میں  بلا امتیاز و تفریق ہر چھوٹا بڑا مرثیہ نگار ایک ہی صف میں  کھڑا نظر آتا ہے ۔ انہوں  نے اس میں  مرثیہ کا تعارف اور اس کی تاریخ و ارتقاء پر روشنی نہیں  ڈالی ۔ اس کا مقصد ان مرثیہ نگاروں  کے سوانح و خدمات کا تذکرہ کرنا ہے جو تاریخ ادب میں  جگہ نہیں  پا سکے ۔ او ر جنہوں  نے روایتی مرثیے یعنی واقعہ کربلا سے متعلق مرثیے لکھے ہیں  ۔ ایسے شاعر جنہوں  نے مرثیہ نما رباعیاں  لکھی ہیں  ۔ ان کا بھی تذکرہ کر دیا گیا ہے اور حضرت علی  اور اہل بیعت کے مناقب گو شعرا کا حال بھی مذکور ہے ۔دلی کی تباہی سے متعلق مرثیے او ر مشہور شخصیات یا اعزہ پر مرثیے لکھنے والوں  کا تذکرہ اس کتاب کے دائرہ سے باہر ہے ۔

ڈاکٹر نسیم نے اردو فکشن پر بھی تحقیق و تنقید کی ہے چنانچہ ناول کے سلسلے میں  فردوس بریں  ، ابن الوقت اور امراؤ جان ادا، داستان کے ضمن میں  فسانہ عجائب اور ڈرامے پر کی گئی تحقیق و تنقید میں  آغا حشر کے ڈرامے اور امانت لکھنوی کا ڈرامہ اندر سبھا شامل ہے ۔ روایتی اور درسی مواد پر مشتمل یہ مقالہ تحقیق و تنقید کا روایتی انداز لیے ہو ئے ہے ۔ اس میں  تحقیقی عنصر کم ہے اور تدوینی رجحان زیادہ۔ انہوں  نے ممتاز نقادوں  کے خیالات کو یکجا کر کے دیکھا ہے اور اپنا نقطہ نظر بھی پیش کیا ہے ۔ مجموعی طور پر اس میں  جدید تحقیق او ر نئے امکانات کے اشارے کم ملتے ہیں  ۔ تاہم ادب کے طالب علموں  کے لیے یہ ایک بیش قیمت اثاثہ ہے ۔ ” خواجہ میرد رد کے شاگرد” جہاں  خواجہ صاحب سے عقیدت کا ایک مظہر ہے۔ وہاں  درد جیسی ایک عہد آفریں  اور رجحان ساز ادبی و صوفیانہ اور مذہبی شخصیت کے سلسلہ فیض کو جاری و ساری دکھانے اور رکھنے کا حسین شاہکار بھی ۔ جس کی مدد سے انہوں  نے یہ ثابت کیا ہے کہ درد ایک مکتبہ فکر ہی نہیں  بلکہ شعرو ادب اور علم و عرفان کا وہ ماہتاب ہے جس کی کرنیں  مستقبل کے تاریک دور کو روشن کر نے کی اہلیت رکھتی ہیں  اور ادب کی یہ کرنیں  خواجہ میر درد کے شاگرد ہیں  ۔ ڈاکٹر نسیم اس کے پیش لفظ میں  لکھتے ہیں :

”خواجہ میر درد کا فیضانِ روحانیت و شعران کے ایسے شاگردوں  کے ذریعے اگلی نسل تک گیا جو ان کے شاگردِ عزیز ہی نہیں  معتقد اور ارادت مند بھی تھے۔ ان میں  میر حسن ثناء اللہ، فراق، ہدایت اللہ ہدایت، میر محمدی بیدار، شاہ محمدی مائل اور خواجہ میر اثر کے نام خصوصی طور پر لیے جا سکتے ہیں ۔”٨

ڈاکٹر نسیم کا یہ غیر مطبوعہ تنقیدی و تحقیقی سرمایہ تذکرہ نگاری، افسانوی ادب ، شعرو تصوف اور علم بدیع میں  تنقید و تحقیق کے نئے رجحانات سے روشناس کراتا ہے ۔ اور شعرو اد ب کومنفرد زاویہ نظر سے دیکھتا ہے ۔

ڈاکٹر نسیم کے غیر مدون تحقیقی اور تنقیدی مقالات وقتاً فوقتاًمختلف رسائل و جرائد میں  شائع ہوتے رہے ۔ان میں  بھی تحقیق و تنقید کے وہ تمام رنگ موجود ہیں  جو ان کی انفرادیت کا مظہر ہیں  ۔ تحقیقی تسلسل کے دوام اور تحقیق تربیت کی انجام دہی میں  ان کا کردار بہت اہم ہے ۔ یہ مقالہ جات مذہبی و ادبی نوعیت کے ہیں  ۔ اور شاعری خصوصاً مثنوی کی صنف، اردو کی ترویج و ترقی، خواجہ میر درد اور دیگر قدماء ، تاریخ ادب اور مذہب و تصوف کے گرد گھومتے ہیں  ۔

” پاکستان میں  اردو کی ترقی “میں وہ لکھتے ہیں  :

“اردو زبا ن کی وسعت اور ترقی کے لیے یہ بات نہایت ضروری ہے کہ ہمارا ملک سیاسی ، تمدنی ، تعلیمی ، صنعتی ، معاشرتی ہر اعتبار سے دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی صف میں  شامل ہو۔ اور تعلیم و تہذیب کی روشنی ہر جگہ پھیل جائے ۔ تاکہ زبان کو بھی زمانہ اور حالات کا ساتھ دینے لے لیے اپنا دامن وسیع سے وسیع کرنا پڑے اور اس طرح یہ نئے نئے  الفاظ ، اصطلاحات اور اسالیب سے مالا مال ہو جائے ۔”٩

ان میں  سے بعض نظریات و خیالات کی جھلک ان کی مطبوعہ تصانیف میں  بھی نظر آتی ہے ۔ مذہبی مضامین نے ان کی ادبی شخصیت کی تعمیرو تشکیل کے لیے بنیادیں  فراہم کی ہیں  ۔ یہ مقالہ جات ان کی آئندہ تحقیق و تنقید کا پیش خیمہ ثابت ہوئے ہیں  ۔ ان میں  وہ ادبی مسلمات سے آغاز کر تے ہیں  اور موضوع کا پس منظر پیش کرتے ہوئے تدریجی طریق پر اس کے تمام پہلوؤں  سے یک بیک پردہ اٹھاتے چلے جاتے ہیں ۔ اورینٹل کالج میگزین اور تاریخ ادبیات مسلمانان پاکستان و ہند میں  شامل مقالے ان کی تحقیقی و تنقیدی بصیرت کی عظمت کا نشان ہیں  ۔ معروضیت کے ساتھ ساتھ تاثراتی اور رومانوی تنقید کے نمونے بھی ان میں  ملتے ہیں  ۔ زبان حسب تحقیق اور موضوع ہے ۔ اور تحقیق کے معیار پر پورا اترتی ہے ۔خواجہ میر درد پر لکھے گئے مقالے تحقیقی لگن،حزم و احتیاط اور عقیدت و احترام کے ترجمان ہیں  ۔ انہی مقالوں  کی مقبولیت سے مطالعہ درد میں  ان کی شناخت کا علم بلند ہوا۔ یہ مضامین اور مقالے تحقیق و تنقید کے شہ پارے ہیں  جن کا اسلوب دلفریب اور دلپذیر ہے۔

ڈاکٹر نسیم کا تعلق تحقیق و تنقید کے اس سکول سے ہے جو ایک طرف تو اسلامی اصولِ تحقیق و تدوین اور مشرقی انداز نقد و نظر اور طریقہ ہائے تحقیق کو سینے سے لگا تا ہے اور دوسری طرف مغربی انداز فکر اور اصول تنقید و تحقیق سے بھی خوشہ چینی کر کے اس باغ کے حسن اور دلکشی کو بڑھاتا ہے۔ وہ بے ہنگم اور بلا مقصد تحقیق سے احتراز کر تے ہیں  ۔ وہ تحقیق و تنقید کی غرض وغایت پہلے جملے ہی میں  عیاں  کردیتے ہیں  اور اس کی حدود کار کا تعین بھی کرتے ہیں  ۔ وہ تحقیق میں  تندہی، لگن او ر حزم و احتیاط سے کام لیتے ہیں  ۔ ان کی زبان قارئین کی علمی سطح، مقصد تحقیق اور موضوع کی نوعیت کے مطابق بدلتی ہے۔ ان کے اسلوب میں  رومانوی ، تاثراتی اور تبصراتی اندازبھی اور علمی اور تحقیقی معروضیت بھی ۔ وہ مستنداور ابتدائی ماخذات سے رجوع کر تے ہیں  ۔ وہ حقائق کو عقل و خرد ، فکر و نظر اور منطق و استدلال کی کسوٹی پر پر کھتے ہیں  اور کم سے کم الفاظ میں  اپنا مطمہ نظر بیان کرتے ہیں  ۔ ان کے ہاں  قیاس آرائی ، تخیل اور جذباتی عمل کا دخل بھی ہے ۔ ان کے تحقیقی و تنقیدی موضوعات تاریخی ، تجزیاتی اور تقابلی نوعیت کے ہیں  ۔ چنانچہ طریقہ تحقیق بھی تاریخی ہے ۔وہ تحقیقی مزاج اور تنقیدی بصیرت سے مالا مال ہیں ۔ انہوں  نے فلسفہ و مذہب ، شعرو سخن ، اردوئے قدیم اور قدما ء میں  سے ان پہلوؤں  اور شخصیات پر تحقیقی کام کیا جن پر ان کی پر وقار شخصیت کی چھاپ لگی ہے ۔ اور تحقیق وتنقید پر یہ کام ان کی پہچان کاذریعہ بن گیا ہے ۔ خاص طور پر مطالعہ درد پر پاکستان میں  جو کام ان کے ہاتھوں  ہوا ،اس کی تعریف بیشتر ناقدین اور محققین نے کی ہے۔

حوالے

١۔ نسیم،الف ۔د۔ ، ڈاکٹر،”اردوے قدیم او ر چشتی صوفیاء ”  ، اسلام آباد : مقتدرہ قومی زبان ، ١٩٩٧ ء ، ص ٤

٢۔  ایصا ، ص ٧٨

٣۔ایصا ، ص ١٠٧

٤۔  نسیم،الف ۔د۔ ، ڈاکٹر،” بارہویں  صدی ہحری میں  دلی کا شاعرانہ ماحول”، لاہور : اردو اکیڈمی (پاکستان) ،١٩٩٩ء ،ص٦٥

 ٥ ۔  نسیم،الف ۔د۔ ، ڈاکٹر،” نور مجسم ۖ “، لاہور :مکتبہ عالیہ، ١٩٩٥ئ،ص٧٦

 ٦۔ نسیم،الف ۔د۔ ، ڈاکٹر،” خواجہ میر درد کا تصوف”،(غیر مطبوعہ مقالہ ایم۔ اے۔ اردو)،مخزونہ: پنجاب یونیورسٹی لائبریری،١٩٥٠ئ، ص ١

٧۔نسیم،الف ۔د۔ ، ڈاکٹر،” اردو شاعری کا مذہبی و فلسفیانہ عنصر” ، (غیر مطبوعہ مقالہ پی ایچ ۔ڈی )،مخزونہ: پنجاب یونیورسٹی لائبریری ،١٩٥٨ئ، ص ٨١

٨۔  نسیم،الف ۔د۔ ، ڈاکٹر،”  خواجہ میر درد کے شاگرد ”  ، غیر مطبوعہ مقالہ ، مملوکہ: ڈاکٹر سعادت سعید ، ص٣

٩۔ نسیم،الف ۔د۔ ، ڈاکٹر، ” پاکستان میں  اردو کی ترقی “،( مقالہ)مشمو لہ” ادب لطیف “، لاہو، اردو نمبر ، ١٩٥٥ء ، ص ٦٨٠

………………

نام ۔   ڈاکٹرمحمداعظم ،  87/76  بختیاری، پرانا کٹرہ الہ آباد۔211002

موبائل: 08127512235

Leave a Reply

1 Comment on "کلاسیکی شاعری میں احتجاج کی نوعیتِ
"

Notify of
avatar
Sort by:   newest | oldest | most voted
trackback

[…] کلاسیکی شاعری میں احتجاج کی نوعیتِ […]

wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.