کلام اقبال میں تصور دانش نورانی اور دانش برہانی
عقل آگاہی کا وہ نور ہے جو فہم وادراک کے تمام ارکان ، حو اس، تصورات،فکر، حافظہ پر احاطہ کرکے ان سب کو روشنی سے منور کر دیتی ہے عقل کی موجودگی کو ذہن نشین کر نے کیلئے ضروری ہے کہ انسان عدم غفلت او رعقل کی دوری کی وجہ اپنانے سے آشنا ہو اور بعض اندھے نفسانی خواہشات کا بھی نہ غلام بنا ہو۔ عقل ایک ایسی اصطلاح ہے جس کی ہر علم اور نظریہ کے مطابق خاص تعریفیں کی گئی ہیں شریعت اسلامی میں عقل کو بہت زیادہ مقام حاصل ہے کیونکہ عربی لغت کے مطابق عقل روکنے اور رکاوٹ پیدا کرنے کے معنٰی میں لیا گیا ہے۔(١) اسلامی تصور میں بھی عقل کا استعمال اسی مقصد کیلئے ہوتا ہے
عقل کی اہمیت کو پرکھنے کیلئے عقل کو معیارِ اسلام پر اُترنا ضروری ہے اسلام میں تفکر و تعقل اسلام کے بنیادی ستون میں اور اُن کا عمل دخل عقائد و اخلاق اور اعمال میں ایک جامع اور مرکزی کردار ادا کرتا ہے عقل کی بنیادی کام صحیح اور غلط میں تفریق پیدا کرکے صحیح پر عمل کرنا ہے اس لئے شریعت میں اس بات کی اجازت نہیں ہے کہ عقل کو ماورا شریعت سمجھ کر فیصلہ کیا جائے لہذا آیات قرآن، احادیث رسولۖ غور وفکر اور سوچنے سمجھنے کی دعوت دیتی ہے جیسے تفکر، تذکر، تدبر، تعقل، تعلم اور خرد و عقل ہیں ۔ قرآن کریم میں کلمہ ،علم،اور اس کے مشتقات ٧٧٩بار،ذکر٢٧٤بار، عقل ٤٩بار، فقہ ٢٠ بار، فکر١٨بار، خرد ٦١ بار، اور تدبر ٤ بار آتا ہے۔ عقل کو شاعروں کی حکمت سے بھی تعبیر کیا جاتاہے عقلی معیار اُن کے کلام میں بہت زیادہ اہمہت کا حامل ہے کیونکہ عقل انسانی وجود کو جِلا بخش دیتی ہے۔جو انسان کو تمام مخلوق سے بالا تر کر دیتی ہے یہ عقل ہی کا کمال ہے کہ انسان نے جمادات و نباتات پر دست رس حاصل کی ہے ورنہ شکل سے نہ انسان اور نہ ہی حیوان اپنا مقام حاصل کر سکتا ہے مزید برآں نہ ہی انسانوں اور حیوانوں کے درمیان معیار مقرر کیا جا سکتا ہے عقل عطیات خداوندی ہے جو انسان کو معزز ، مکرم، باعزت اور شعوری وجود کا درجہ عطا کر دیتی ہے جو قوم عقل اور فہم و فراست سے کام لیتی ہے وہ ترقی کے بلند مراتب پر فائز ہو جاتی ہے اُن کے اندر تدبر کا وہ اعلیٰ مقام پیدا ہو جاتا ہے جس کی عملی کاوشوں کے پیچھے دوسری قومیں سر خم تسلیم کرنے پر مجبور ہو جاتی ہیں جن قوموں میں دانشور، مُفکر اور اصلاح کار جنم لیتے ہیں اُن کا مستقبل اظہر من الشمس کی طرح تابناک اور ترقی کی ہر منزل آسان سے حاصل ہو جاتی
ہے فرخندہ بخت قوموں کے مفکر اور اصلاح کا مشعل راہ اور مقصد جاودانی کی طرف رہنمائی کرتے ہیں اُن کے فرجام عظیم بلکہ دوسروں کیلئے مثال بن جاتی ہے۔تواریخ عین شاہد ہے کہ یونان کا خطہ ارض دانشوروں ، فلسفیوں ، عالموں اور سائنسدانوں کے کاوشوں کی بدولت آج بھی مشہور ہے اور انہوں نے عقل کے استعمال سے علم کی یگانیت کو سطح مرتفع تک پہنچانے کی بھر پور کوشش کی۔ دیکھا جائے تو ظہور اسلام سے لے کر ١٢٥٨ء تک مسلمانوں نے بھی ایک جھٹ ہو کر عقلی و نقلی علوم کو آسمانِ اولہ تک لے گئے اور علم کے ہر پہلو پر دست رس حاصل کی بعد ازان جب اُن کے اندر کاہلیت اور علم سے روگردانی کا ضعف پیدا ہوا تو حق شناسی بھی اُن سے مفقود ہو گئی جو اُن کو زوال کی طرف ہانکتی گئی۔
میری نوائے شوق سے شور حریم ذات میں
اگر کج روہیں انجم، آسمان تیرا ہے یا میرا
غلغلہ ہاے الامان بتکدۂ صفات میں
مجھے فکرِ جہاں کیوں ہو ، جہاں تیرا ہے یا میر ا (١)
اس کے بعد مسلمانوں نے علاقائی سطح پر اور اُموی نے اسپین میں اور آلِ عثمان نے خاص کر عقل کا استعمال کر کے علوم انسانیہ کو منزل مقصود تک پہنچانے میں کوئی کسر باقی نہ چھوڑی۔ انہوں نے مذہب سے لے کر سماجیات، اقتصادیات، سیاست اور فلسفہ زندگی کے اصول و ضوابط قائم کئے ان اصولوں کو مغرب ابھی بھی مختلف انداز سے استعمال کرکے فائدہ اُٹھا تا ہے۔ حالات کے کروٹ بدلنے سے اب مسلمانوں کو اَن پڑھ اور غیر مہذب ناموں اور القاب سے نوازہ گیا۔ وسطی دور کے آخری حصہ میں سامراجی قوتوں کے مسلط ہونے کے بعد مسلمانوں نے کما حقہ جدوجہد کی مگر اُنیسویں صدی میں مسلمانوں نے ایک بار پھر اصلاح کاروں کی ایک بڑی تعداد پیدا کی جن میں خاص کر جمال الدین افغانی، شیخ احمد سرہندی شاہ ولی اللہ اور علامہ اقبال و مولانا سید ابو اعلیٰ مودودی قابل ذکر ہیں لیکن برصغیر میں جس فکری جہت نے مسلمانوں کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے وہ علامہ اقبال کی شخصیت ہے اس نے مسلمانوں کے اندر ایک نئی روح پھونکی ہے۔علامہ اقبال کو بحیثیت فلسفی کافی پذیرائی حاصل ہوئی ہے کیونکہ وہ مشرق اور مغرب کے فلسفانہ افکار سے بخوبی واقف تھے ان فلسفوں میں عقل کی حیثیت بہت زیادہ بحث ومباحث کا موضوع بنا رہا اس لئے علامہ اقبال کے کلام میں عقل کے استعمال اس کی ترجیہات اور اس کے مختلف اقسام کا بخوبی وضاحت کی گئی اُن کے فلسفیانہ اصول اور فکر عام عاقبت اندیش فلسفیوں سے کج بحثی سے ماورا ہیں ۔انہوں نے عقل و فہم کو دو خاص حصوں میں تقسیم کرکے اُن پر اپنی واجدانہ اور علمی بصارت سے گفتگو کی اور اُن کی ہر جہت کو حل کرنے کی کوشش کی۔وہ دانش نورانی کو نور الہٰی سے تعبیر کرتے ہیں کیونکہ اُن کیلئے یہی ایک ذریعہ ہے جو ہر شئے کو اُس کی اندورنی خدو خال سے پہچاننے میں کارگر اور موثر ثابت ہوتی ہے یہ انسان کو بشری تقاضوں سے ارفع ترین درجے تک لینے میں اپنا کردار ادا کرتا ہے جہاں انسان حق کے ساتھ تعلق کو مضبوط کر دیتا ہے اس کے بر عکس دانش برہانی ہر شئے کی بیرونی تخلیق اور خصوصیات سے ہم کنار کرکے اُن کے دنیائی لذات سے آشنا کر دیتی ہے جو نفس پرستی تک محدود ہوتی ہے اور جس کا لازمی نتیجہ انسان کو حوس پرست بننے پرمجبور کر دیتی ہے
اک دانش نورانی، اک دانش برہانی ہے
دانش برہانی حیرت کی فراوانی (٢)
دانش برہانی اور دانش نورانی پر انہوں نے واشگاف الفاظ میں اپنی رائے اظہار کی اور اس کی ہرجہت کو کھول کر رکھ دیا وہ دانش نورانی کو وحی کے ساتھ تعبیر کرتے ہوئے اس کے مقصد و فرست ، فہم اور ادراک کو واضح کرتے ہیں جس کی رہنمائی قران کی آیات بینات کر تے ہیں ان آیات کو رسول اللہۖ نے انسانی کامیابی کا ذریعہ بتا کرعلم ودانش کا پہلا درجہ مقرر کیا ہے علامہ اقبال رسول اللہۖ کے اس ارشاد سے بہت زیادہ متاثر تھے ارشاد نبویۖ:
اِتقوفراسة المومن فاِ نہ ینظرُ بنورِ اللہ:مومن کی دانش مندی سے ڈرو، بے شک وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے۔(٣)
علامہ اقبال نے مومن کی دانش مندی کا نقشہ کھینچا اور اس کو فطرت کے عین مطابق قرار دے دیا جو ضمیر کا سودا نہیں کرتی ہے
نگاہ ہو تو بہانے نظارہ کچھ بھی نہیں کہ بیچتی نہیں
فطرت جمال و زیبائی (٤)
دانش نورانی انسان کے اندر نہ ختم ہونے والی روشنی (بصیرت) سما کر قدرتی قوتوں اور آفاقی نظام کا حامل بنا دیتی ہے۔ علم دنیا میں یہ ایسی گھتلیوں کو سلجھا دیتا ہے جسکا تصور سماج نہیں کر سکتا ایسے روحوں کو دیدہ ور ہی پہچا نا جا تا ہے۔
ہزار سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا (٥)
یہ وہ عقلی بصیرت ہی ہے جس کو کوئی دوسرا مشکل سے حاصل کر سکتا ہے ورنہ یورپ میں پڑھنے والے شخص کو زندگی کے مختلف میعارات ہونے چاہیے انہوں نے مدلل انداز میں اسلامی نظام کی توضیع کرتے ہوئے انسانیت کو نظام حقیقی سے روشناس کیا وہ خودحد درجہ اتم اس پر یقین کرتے تھے کہ انسانیت کی فلاح وبہبود، مادی، نسلی اور جغرافیائی حدود کے بجائے روحانی ہے جس شخص کو روحانی بنیاد پر دست رس حاصل ہوگئی وہ دانش نورانی پر عبور حاصل کرکے لا مکان تک رسائی حاصل کر سکتا ہے یہی سوچ عین الفطرت اور انسانی بقاء کی ضامن ہے ایسا شخص کسی غیر حقیقی غیر فطری اور غیر تہذیب سے متا ثر نہیں ہوسکتا ہے یہی وجہ ہے کہ
نگاہ وہ نہیں جو سُرخ و زرد پہچانے نگاہ وہ ہے کہ محتاجِ مہر و ماہ نہیں (٦)
علامہ اقبال یورپی تہذیب و تمدن کو دیکھ کر دل برداشتہ ہو گیا کیونکہ یورپ نے اپنی انسانی حقیقت کھو کر مادہ پرستی کو اپنا مذہب کا روپ دیا جس چیز سے اُن کو مادی فائدہ حاصل ہوتا وہی اُن کی زندگی کا مقصد بن جاتا ہے انہوں نے اخلاقیات کا جنازہ نکالا کرلیا انہوں نے دانش نورانی کی اصلیت کھو دی اور انسان دشمنی اور جنگجوانہ طرز عمل اختیار کیا۔ علامہ اقبال نے جب ان کے اندرون کو جانچا تو اُن کا دبدبہ کھوکھلا نظر آیا جس میں ہوس کی بادشاہی عیاں ہے وہ اُن کے اس غیر فطری طرز عمل سے غیر متزلزل اور بہت کم متاثر ہوئے اس حقیقت کو وہ یوں بیاں کرتے ہیں ۔
خیرہ نہ کر سکا مجھے جلوہ دانش افرنگ سرمہ ہے میری آنکھ کا خاک مدینہ و نجف (٧)
علامہ اقبال نے زندگی کو باری تعالیٰ کے سپرد کیا اور عملاََ دکھا دیا کہ جب انسان اپنے آپ کو اللہ کے نور سے مکف کرتا ہے تو وہ اللہ کا مدد گار اور دوسرے لفظوں میں اللہ کا ہاتھ بن جا تا ہے تو پھر وہ نورِ بصیرت سے دیکھتا ہے اور آنے والے واقعات کو جانچتا ہے اس طرح وہ اعلیٰ مقام پر فائیز ہو جاتا ہے۔
از تو پرسم، گرچہ پُر سیدن و خطا است
سِرّآن جو ہرکہ نامش مصطفٰے است
آدمے یا جوہرے اندر وجود
آنکہ آید گاہے گاہے دروجودہ (٨)
علامہ اقبال کو اس بات پر بہت زیادہ اطمینان تھا کہ انسان جب سچائی اور قلب سلیم کے ساتھ آگے بڑھنے کی جدوجہد کرتا ہے تو دانش نورانی کے باطنی مظہر پوری طرح اور اپنی پوری چمک و دمک کے ساتھ واشگاف ہو جاتے ہیں اس شخص کی ہر ادا یعنی اُس کا سوچ و دھڑکن اطاعت حق ،خدمت انسانیت کیلئے ہمہ وقت تیارہتی ہے وہ اپنے خالق کو اپنے چار سو پاتا ہے اور حق پرستی اُن کے کام کا حاصل ہے اس لئے علامہ اقبال نے اپنے غور و فکر کا مرکز و محور انسانی ذات کو بنا یانہیں بلکہ ان کا مقصد انسان کے عمل کومخاطب کرکے انسانیت کے ارفع درجے تک اُس کو لے جانا ہے اس لئے انہیں ذاتِ انسانی کے ساتھ ابتدا سے کہیں زیادہ دلچسپی تھی آپ کے ہاں فلسفی کو اپنے غور و فکر میں با مقصد ہونا چاہیے جو فلسفی انسان کے قوائے عمل کو مہمیز کرنے کے بجائے قوائے عقلی کوجِلا دینے کی فکرمیں لگ جاتا ہے علامہ کے خیال میں حقائق دین سے بے بہر رہتا ہے خوا وہ مسلم دنیا میں پذیرائی پانے والا رازی ہی کیوں نہ ہو ۔
رازی معنی قرآن چہ پُرسی
ضمیر مابا یا تش دلیل است
خرد آتش فروزو،دل بسوزو
ہمیں تفیرِنمرودو خلیل است(٩)
علوم عقلیہ انسان کو دنیائی آرایش سے آشناس کرتی ہے جب کہ انسانی توازن برقرار رکھنے کیلئے انسان کو لا مکان کے ساتھ جُڑ جانا بہت اہم ہے۔ کا ئنات اس لئے باقی ہے کہ اس میں قوت توازن کاعطیہ موجودہے جوں ہی توازن بگڑ جاتا ہے تو فساد فی الارض پیدا ہو جاتا اس کی اصل وجہ دانش نورانی کے بدلے انسان دانش برہانی کا استعمال زیادہ کرنے لگتا ہے حالانکہ انسان کو فنا فی دنیا کے بجائے فنا فی اللہ کے راز سے بہرا ور ہونا چاہیے اسی لئے علامہ اقبال صحابہ رسولۖ کو مثال بناکر یہ حقیقت واضح کرنا چاہتا ہے کہ اُن کے اندر توازن بر قرار تھا جو دانش نورانی سے حاصل ہو تا ہے انہوں نے اس لئے غیر کو بھی اپنا یا اور حیات زندگی کے فلسفہ کو نورانی بصیرت سے حاصل کیا۔
یہ غازی یہ تیرے پُر اسرار بندے
جنہیں تونے بخشا ہے ذوقِ خدائی
دونیم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا
سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی(١٠)
قرون اُولیٰ کے مسلمانوں نے دانش نورانی سے ہی اپنے نفس پر قابو پالیا تھا اور اُسی کو راہ عمل بنایا اسی وجہ سے وہ اخلاص کے اعلیٰ مراتب پر فایز ہو سکے دانش نورانی مسلمانوں کو حق کی تلقین اور اصلیت سے آگاہ کرتی ہے اس کو عقل کے معیار تک لیجانے کیلئے علامہ اقبال نے گجرات کے ایک مخلص حکمران سلطان مظفر کا قصّہ بیان کرتے ہوئے لکھاہے کہ وہ اپنے گھوڑے سے بے حد محبت کرتا تھا جو میدان جنگ میں بڑے کارنامے انجام دے چکا تھا گھوڑے کو جب بیماری کی وجہ سے دوائی کے ساتھ شراب پلائی گی تو اس نے اس کی سواری ترک کردی کیونکہ گھوڑے کے نفس میں حرام چیز پہنچ گئی اس لئے اُن کو زیادہ تکلیف گھوڑے کی جدائی سے نہیں بلکہ اُن کے اندر حرام شے سے جس نے ایک پاک روح کو پلید کیا ہے دانش نورانی پر یقین کرنے والا شخص کیسے اللہ کی ناراضگی موڑ لیے سکتا ہے۔
چہ باید مرد را طبع بلند ے مشرب نابے
دل گرمے نگاہِ پاک بینے جانِ بیتابے!(١١)
اقبال نے اپنی اعلیٰ تخلیقات کیلئے عبارت ،اشبارات اور ادا کے حسین اور بے مثل پیکر تراشے ہیں انہوں نے دنیا کو خالق کے حقیقی روپ میں دیکھا اقبال کا غیر معمولی طریقہ کار اور عقل سنجیدہ اور عظمت رکھنے والے شخصیت کیلئے بہت بڑا ثبوت ہے وہ ہمیشہ دنیا کو دل کی آنکھوں سے دیکھتا تھا اسی لئے اُن کے دل کی بات زبان پر آجاتی تھی اور اُس کا برملا اظہار کرتے تھے اُن کے طرزعمل، تدبر اور اُن کی دانشمندی اُن کی خدائے واحد سمجھنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے
ترے دریا میں طوفان کیوں نہیں ہے ؟
خودی تیری مسلمان کیوں نہیں ہے؟
عبث ہے شکوۂ تقدیرِ یزداں
تو خود تقدیرِ یزداں کیوں نہیں ہے؟
خرد دیکھے اگر دل کی نگہ سے
جہاں روشن ہے نورِ لَآاِلٰہ سے (١٢)
دانش نورانی کے راز دار یہ فلسفی، سیاسی و سماجی اصلاح کار مغربی نظام کی ہر کڑی کو حقیقت سے دور اور نا آشنا سمجھتے تھے اقبال نے جن غزلوں میں مغرب کی جن معاصی کا ذکر کیا ہے وہی اقبال کے فلسفے کی حاصل ہے انہوں نے مغربیت کو انسان کیلئے نشتر قرار دیا ہے کیونکہ اُن کے فلسفہ سے انسانی نشوونما صحیح ڈھنگ سے نہیں ہوتی ہے علامہ اقبال کا فلسفہ بظاہر مغرب سے نالان ہے در اصل اقبال مغرب کے اخلاقی گروٹوں کی نشاندہی کررہاہے جو دماغی صلاحیتوں سے نابلداور خود غرضانہ طرزعمل سے واسطہ رکھتی ہیں دماغی صلاحیتں انسان کے اندراخلاقی اقدار کا تصور پیدا کرکے صحیح و غلط، حرام و حلال، جائیزوناجائیز اور انصاف و نا انصافی میں تمیز کرنے کی خوبی پیدا کرتاہے اور اخلاقی قدروں سے ہی انسان کے اندر جذبات، احساسات، ہیجانات اور محسوسات پیدا ہوتے ہیں یہی بنیادی وجوہات ہیں جو مغرب یا مغربی تہذیب میں بہت کم پائے جاتے ہیں اس لئے وہ فرماتے ہیں کہ مسلمانوں کی نشاة ثانیہ تقلید مغرب میں نہیں ہے اس سوچ کو فکر اقبال کے مولف خلیفہ عبدالکریم مرحوم اس انداز سے بیان کرتے ہیں اقبال کے ہاں مغربی تہذیب کے متعلق زیادہ تر مخالفانہ تنقید ہی ملتی ہے اور یہ مخالفت اس کے رگ و پے میں اس قدر رچی ہے کہ اپنی اکثر نظموں میں جا بہ جا ضرور اس پر ایک کاری ضرب رسید کر دیتا ہے (١٣)مجموعی طور پر اثر ہوتا ہے کہ اقبال کو مغربی تہذیب میں کوئی خوبی کا پہلو نظر نہیں آتا تھا اس کے اندر اور باہر فساد ہی فساد دکھائی دیتا ہے گویا یہ تمام کارخانہ ابلیس کی تجلی ہے اس کے متعلق اپنی بیزاری اور نفرت کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں ۔
علاج آتش رومی کے سوز میں ترا
ترِی خودی پہ ہے غالب فرنگیوں کا فسوں (١٤)
عاقل تھا مگر عقل کے پیچاک سے آزاد
اور حکمت افرنگ کے فتراک سے آزاد (١٥)
علامہ اقبال کی حکیمانہ بصارت انسان کو ایک عظیم اور عقل مند بنا دیتی ہے حق بات کو جانچنے کیلئے اقبال ہمیشہ اسلام کے بنیادی اصولوں کا سہارا لیتا ہے اور تہذیبی رنگ رلیوں سے بچنا چاہتا ہے اسی لئے جو بات وہ حق سمجھتے تھے کھلے عام کہتے تھے۔
غبارِ راہ کو بخشا گیا ہے ذوقِ جمال
خرد بتا نہیں سکتی کہ مدعا کیا ہے (١٦)
کہتا ہوں وہی بات سمجھتا ہو جسے حق
نے ابلہ مسجد ہوں نہ تہذیب کا فرزانہ (١٧)
انسان نے آج تک اپنے لئے زندگی کا مکمل آئین اور لائحہ عمل مرتب نہ کر سکا اس لئے مغرب کی تہذیبی جارحیت کو عقل کے ترازو میں جانچنا علامہ اقبال کا ایک محققانہ طرز عمل اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ تہذیب مغرب سے بہت نا آمید ہو چکے تھے عقلی علوم جس پر مغرب اپنا آشیانہ کھڑا کر چکا ہے ایک طرف اُسی وہم و گمان کی نئی تصویر ہے جو صدیوں سے انسان کو حق سے محروم کر چکی تھی اور پھر انسان غلامی کے زنجیروں میں جکڑ جاتا ہے اسکے برعکس دانش نورانی کی بنیادی ماخذ وحی الٰہی ہے جو انسانوں کو ایک دوسرے سے تعاون و جذبہ انسانیت کیلئے اُبھارتی ہے وہ فرماتے ہیں ۔
خبر، عقل و خرد کی ناتوائی
نظر، دل کی حیات جاودانی (١٨)
”اس میں کوئی شک نہیں کہ قدیم دنیا جس میں انسان موجودہ حالت کے مقابلے میں ابتدائی دور کی زندگی رکھتا تھا اور کم و بیش وھم و تخیل کا تابع تھا اگر چہ اس نے چند فلسفی مکتب قائم کر لئے تھے لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چائیے کہ قدیم دنیا میں فلسفی نظریات کا قائم کرنا محض فکرو نظر کا کام تھا کیوں کہ اس وقت تک انسان مبہم اورغیر تحقیقی دینی عقائد اور رائج سنتوں اور طریقوں سے آگے نہ بڑھ سکا تھا اور زندگی کے عینی اور حقیقی حالات کے بارے میں کوئی قابل اعتماد نظریہ مہیا نہیں کر سکا تھا (١٩) اقبال کا دانش نورانی کا تصور مکمل طور اُن کے احیاء اسلام اور ان کے بال جبریل کے کلام میں اظہر منِ الشمس ہے وہ حق پرستی کو دین کی ستون اور وحی کو دانش نورانی کاغذا تصور کرتا تھا۔ قدیم زندگی اور جدید دنیا کی زندگی کیلئے پھر رسول اللہۖ ایک میلاپ ہے اسلام اور عقل کا ظہور ایک استقرائی دلیل ہے علامہ اقبال صراحتاََ کہتے ہیں کہ زندگی ثابت اصولوں اور بدلتے رہنے والی فرد کی محتاج ہے اور اسلام میں اجتہاد کا کام اصول پر فروع کا منطبق کرنا ہے اس نئی تہذیب و ثقافت نے عالمی وحدت کی بنیاد اصول توحید پر رکھی ہے اسلام اللہ کے ساتھ وفا دار رہنے کا مطالبہ کرتا ہے نہ کہ بادشاہوں اور استبدادی حکومت کے ساتھ(ص:٢٩١) چونکہ خدا ہی انسانی زندگی میں دانش نورانی کے خزانے کھول کر رکھ دیتا ہے اور انسان کی مثالی طبیعت یعنی خواہش آرزو اور مطلوبہ کمال کی جستجو کی طبعیت سے وفا داری ہے اسلام کے نظر میں باطنی و خارجی تجربہ معرفت کے تین سر چشموں میں سے ایک جس کے بقیہ دوسرے چشمے طبیعت اور تاریخ ہیں ۔
اقبال ذاتی طور پر شدید عرفانی میلان رکھتے ہیں اور معنوی الہامات کے زبردست حامی ہیں قرآن انفس اور آفاق کو علم و معرفت کا سر چشمہ سمجھتا ہے اللہ تعالیٰ داخلی اور خارجی دونوں نشانیاں ظاہر کرتا ہے جوبیرونی تجربے کے لئے بھی ضروری ہے اس لئے انسان کا فرض ہے کہ تجربے کے تمام علامتوں کی معرفت بروئے کار لا کر خداوند جہاں کو پہچانے کی کوشش کرے مگر اقبال کے نزدیک دانش برہانی عقل، حجت، دلیل، برہاں اور منطق ہے یہ انسان کو حالات حاضری کی خبر دیتے ہیں جب کہ اقبال اس کے مقابلے میں معرفت ا لٰہی، یقین محکم، عقیدہ اور قلب سلیم کے صداقت کے قائل ہیں اور اس کے ذرے ذرے سے واقف ہیں ۔
ترے سینے میں دم ہے دل نہیں ہے ترا دم گرمی محفل نہیں ہے
گذر جا عقل سے آگے کہ یہ نور
چراغ راہ ہے منزل نہیں ہے (٢٠)
خرد دیکھے اگر دل کی نگہ سے
جہاں روشن ہے نور لآاِلٰہ سے (٢١)
علامہ اقبال کا خرد کو کم تر سمجھنا اور دل کی نگاہ کو اہمیت دینا ایک فطری بات ہے اُن کے نزدیک دنیا عیش و عشرت، شان و شوکت سے آباد نہیں ہے انسانی ترقی کے یہ ذریعے ہیں نہ کہ مقصد ۔اِن سے زندگی کی بیرونی جاہ و جلال حاصل ہوتی ہے زندگی پُر رونق بن جاتی ہے بلکہ اگر کائنات کو نور بصیرت سے دیکھنا ہو گا تو روحانی نگاہ سے دیکھ کر یہ دنیا ایک وحدت سے گلزار ہے عقل ایک محدود ذریعہ ہے اور حقیقت حال کے بدلے حقیقتِ جلال سے ناآشنا ہے اس لئے اگر مقصد کو حاصل کرنا ہو تو اسباب کو استعمال کرکے عقلی مراحل سے آگے گذر جانا ضروری ہے جہاں سکون قلب حاصل ہو اس سفر کو اگر کوئی چیز انسان کے اندر زندہ رکھ سکتی ہے تو وہ خودی ہے جو انسان کو دکھائی دینے والی چیزوں سے اُٹھا کر خالق تک رسائی پیدا کرتی ہے کیونکہ خودی ایسا آلہ ہے جو انسان کو پستی سے اُٹھا کر عظیم ہستی تک سیر و سپر کراتی ہے۔
خودی کی جلوتوں میں مصطفائی
خودی کی خلوتوں میں کبریائی
زمیں و آسمان و کرسی و عرش
خودی کی زد میں ہے ساری خدائی (٢٢)
اُنھوں نے خودی پر زور اس لئے دیا ہے کہ مسلمان قوم اپنی روایات اور اپنے منصب اور نصب العین پر فخر کرکے اور اپنی ہستی کو پہچانے کی تلقین اور کوشش کریں ۔مغربی تہذیب سے انحراف پر زور دیتے ہوئے انھوں نے مسلمانوں کی خودی کو اُجاگر کرنے کی بھرپور کوشش کی دانش برہانی کا مقلد ظاہری پہلو کو دیکھتا ہے اور مغربی طرز عمل پر اپنے آپ کو ڈھلنے کی کوشش کرتا ہے اس کے برعکس دانش نورانی پر زور دیتے ہوئے وہ مسلمانوں کو اپنے اندر روحانی وفکری انقلاب پیدا کرنے کی تجویز پیش کرتا اس طرح وہ دینا کی امامت کا مقدر بن سکتے ہیں اقبال اگر چہ مغرب کے علم و فن اور ذوق و ایجاد کو زندگی میں لذات کو حاصل کر نے کا ذریعہ مانتے ہیں مگر وہ اُن کے اس مشینی ترقی کو انسانیت کیلئے سمِ قاتل سے تعبیر کرتے ہیں کیونکہ یہ انسانوں کو دنیا پرست بنا دیتے ہیں ایک دوسرے کے خون کے پیاسے بنا دیتے ہیں اقبال کی منزل فرنگ کی مشینی ترقی نہیں بلکہ وہ خود اُن کا حریف تھا اسلئے انہوں نے ”پس چہ باید کرد اے اقوام مشرق” اور جاوید نامہ کے مکالمے رقم کیے اس کے علاوہ، خضرہ اور طلوع اسلام وغیرہ نظموں میں اپنے مقصد کو واضح کر دیتا ہے اسی لئے انہوں نے کہا؛
خرد نے مجھ عطا کی نظر حکیمانہ
سکھائی عشق نے مجھ کو حدیث رِندانہ (٢٣)
خِرد کی ننگ دامانی سے فریاد
تجلی کی فراوانی سے فریاد
آزادی افکار سے ہے اِن کی تباہی رکھتے نہیں جو
فکر و تدبّر کا سلیقہ (٢٤)
علم کی کج روئی اور کج فطرت انسان کی روحانیت پر حجاب بن کر رہ جاتی ہے اور علم کے اصل سے دور کرکے وصل کومحدود کر دیتی ہے۔
نگہ اُلجھی ہوئی ہے رنگ و بو میں !
خرد کھو گئی ہے چار سو میں !
نہ چھوڑے اے دل !فغان صبحگاہی
اماں شاید ملے اللہ ہو میں (٢٥)
عقل برہانی سے انسان دنیا ئی رنگین نظاموں میں مسحور ہو کر رہ گیا ہے اس وجہ سے وہ عقلی دلایل کے متضاد مصروفیات میں کھو جاتا ہے اقبال عقلی دلائل اور عشق نورانی کو متضاد قرار دے کر حکیم سنائی کی روح سے گفتگو کرتے ہوئے دونوں کی فرق سمجھا تے ہوئے فرماتے ہیں کہ بو علی سینا دنیائے آب و گل کے حالات، کیفیات اور نفسیات اور معاملات سے بخوبی آگاہ تھے اُن کا ماننا ہے کہ دل کی باتیں صاحب دل سے حاصل کی جاسکتی ہیں جو دنیا میں ایسے لوگ حق کی جستجو کے متلاشی ہوتے ہیں ۔
دین مجو اندر کتب یے بے خبر
علم و حکمت از کتب دیں از نظر
بے خبر از خستگی ہاے دل است
نیش و نوشی بو علی سینا پہلو (٢٦)
اقبال کے ہاں زیادہ ترجیح عمل کو ہے عمل انسان کے اندرونی خیالات کی رہنمائی کرتی ہے لیکن عمل کا معیار تعلق دل سے ضروری ہے ورنہ انسان کامل نہیں بن سکتا کامل انسان بننے کیلئے اقبال کا تصور عمل وجود پر مدار ہے اور وجودنے جس چیز کو قبول کیا وہ اللہ تعالیٰ کی ذات پرحق ہے اس بات کو سمجھنے کیلئے علامہ اقبال نے ضرب کلیم میں ”ذکرو فکر” کے عنوان سے جو اشعاررقمطراز کئے وہ انسان کی وجود کی پوری طرح رہنمائی کرتے ہیں ۔ہر انسان کی اصل جدوجہد اس کے اندر پنپتی خواہش کے ساتھ منسلک ہے جو انسان کو کامیابی کی راہ پر گامزن کرتی ہے ان ہی خواہشات کے ذریعے یہ مقام فکر کے اعلیٰ ترین بلندیوں کو چھوتی ہے مگر اس جدوجہد کی اصل مقام ذکر ہے جو انسان کو تمام مخلوق سے بلند کرتی ہے اور جس کا مرکز رب اعلیٰ ہے جو ہر چیز کا احاطہ کیے ہوئے فرماتے ہیں ۔
یہ ہیں سب ایک ہی سالک کی جستجو کے مقام
وہ جس کی شان میں آیا علم الاسمائ
مقام ذکر کمالات رومی و عطار
مقام فکر مقالات بو علی سینا
مقام فکر سے پیمائش زبان و مکان
مقام ذکر سے سبحان ربی الاعلیٰ (٢٧)
اقبال نے دانش افرنگ پر مختلف زاویوں سے نظر ڈالی اور واضح طور کہا کہ مغربی فکر و حکمت سے عام انسان اور مسلمان کے دل و دماغ پر جو اثر ہوا ہے وہ حق سے دوری اور خودی سے محرومی ہے اتنا ہی نہیں بلکہ اُن وسیع فلسفیانہ زوایے سے دیکھا جائے تو مسلمانوں کی بدنصیبی اور محرومی میں روز بہ روز اضافہ ہے اس کی بنیادی وجہ مغرب کی فلسفی گذشتہ کسی صدیوں سے اپنی شخصیت کو مجتمع نہیں کر سکا کیونکہ وہ جزویت کا شکار اور انتشار کا مریض بن گیا۔ اقبال عقل انسانی کو خودی کا درس دے کراُس کے احساسات اور جذبات کی قدر دانی اور فراونی چاہتا ہے کیونکہ یہی زندگی کے ہر پہلو کا احاطہ کر سکتی ہے۔ قرآنی آیات پر عقلی تدبّر انسان کو حقانیت سے آگا ہ کر دیتی ہے۔
خودی کے ساز میں ہے عُمر جاوداں کا سراغ خودی کے سوز سے روشن ہیں اُمتوں کے چراغ (٢٨)
دور حاضرمیں انسان مکمل طور روحانی کرب و اضطراب میں ملوث ہو گیا اس کی وجہ فطرت سے بالاتر سوچ جو انسان کے احساسات کی ترجمانی نہیں کرتی ہے۔ ہوس کی سوچ نے انسان کوحق سے محروم کرکے مضطرب اور پریشان کر دیا ہے اقبال جس سوچ کی ترجمانی کرتا ہے وہ افرنگی طریقہ کار سے مکمل اور بالکل برعکس ہے کیونکہ وہ افرنگی زندگی کا دارمدار دانش برہانی سے تعبیر کرتا ہے جو چیزوں کی اصل تک رسائی سے محروم ہے اس لیے وہ اُن کی زندگی اور معیار سوچ سے واقف ہوتے ہوئے بھی بیزارہے اور اُس کو برّملا زندیقی سے تعبیرکرکے ساتھ ساتھ وہ مسلم دنیا کی زبوحالی اور پریشان کن حالات سے بہت غم زدہ بھی تھے اس پشیمانی کی وجہ مسلم دنیا کے وہ عالم یا مُلا ہیں جو دین کو دین ِ فطرت سے اُٹھا کر دین ہوس پرلے کھڑا کرکے اپنا اُلو سیدھا کرنے کیلئے دین کو استعمال کرتے ہیں موجودہ دور میں روحانی تقاضات پورے کیوں نہیں ہوتے ہیں اس کی وجہ دین کو پیٹ کا مسئلہ بنا دیا گیا اور اس کو رسم و رواج تک محدود رکھا گیاجب کہ عقل کا تقاضا ہے کہ وہ ظن وتخمین کی پابند ہوتی ہے (٢٩) اس بات کااُن کو پورا احساس تھا کہ دورِ حاضر میں فقہا اورمُلا رسمی طرزعمل کے شکار ہیں اور اُن کے اندر تخلیقی استعداد اور قوت عمل مفقود ہیں جس کا لازمی نتیجہ ایسے لوگوں کی عقل ذوق نگاہ سے بالکل محروم ہے۔
عقل عیار ہے سو بھیس بدل لیتی ہے
عشق بے چارہ نہ مُلا ہے نہ زاہد نہ حکیم
مردِ خدا کا عمل عشق سے صاحب فروغ
عشق ہے اصلِ حیات، موت ہے اس پر حرام (٣٠)
علامہ اقبال کے سامنے اصل مسئلہ تنگ دامنی سے نکل کر صحرا نشینی اختیار کرنی ہے مگر بدقسمتی سے مسلمانوں نے اپنے سوچ کو محدود کر رکھا ہے اور سلیقہ کو چھوڑ دیا ہے جومتنبی کی حیثیت رکھتا ہے اس کے لئے نفسانی جذبات کاقابہ اور غیر متزلزل سوچ کے حامل ہو ایسا کردار ایک مثالی معاشرہ ہی ادا کر سکتاہے جو مغربی سوچ سے متاثر نہیں ہوتا ہے بلکہ اس سے الگ اور ممتاز ہوتی ہے وہ اعلیٰ خصوصیات کے حامل اور سیاسی، اجتماعی،ثقافتی، معاشی اور دینی معاملات میں ہم آہنگی کے سوچ کی حامل ہے جب تک ایک م مثالی معاشرہ کے اندر ایسی خصوصیات اور صفات نہ پائی جائیں تب تک اسکے اہداف اور خلقت کے اصلی مقاصد کی دستیابی بھی نا ممکن ہے یہ مقاصد تبھی حاصل ہونگے جب قوم کے اعلیٰ طبقہ دینی اور دنیائی علوم پر دست رس پا کر معاشرے کے دوسرے طبقے تک تگدو کریں ۔حالات پر نظر ڈالنے سے یہ حقیقت عیاں ہو جاتی ہے کہ مسلم دنیا کو عقلی علوم پر دست رس نہ کے برابرا حاصل ہے اس کے بر عکس وہ مغربی تحریرات سے استعفادہ کر کے خود غرض بن جاتے ہیں ۔ اس کی بنیادی وجہ مسلمانوں نے دینی علم و حکمت کے وہ خزانے چھوڑ دیے جو اُن کو وراثت میں وحی مطلوب کے ذریعے حاصل ہوئے تھے۔
مجھ کو سکھا دی ہے افرنگ نے زندیقی
اس دور کے مُلا ہیں کیوں ننگ مسلمان (٣١)
عقل کے خلاف اقبال کا اعتراض ہے کہ وہ گرم جذبات،سرور اور جنوں سے خالی ہے حالانکہ خودی کی تقویت کیلئے انہی چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے عقل شک میں پھنس جاتی ہے اور یقین سے کمی ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ مغرب اپنی ساری مادی زندگی کو خوبیوں سے آراستہ ہو کر بھی انسانیت کے عظیم مقصد تک نہیں پہنچ پائی ہے اور خالصتاََ دانش برہانی پر مدار کرکے اپنے خنجر سے خود کشی کی راہ پر گامزن ہے۔
ہے دل کیلئے موت مشینوں کی حکومت
احساس مروت کو کچل دیتے ہیں آلات (٣٢)
ترے دشت و در میں مجب کو وہ جنوں نظر نہ آیا
کہ سکھا سکے خرد کو راہ و رسم کار سازی(٣٣)
مجھے تہذیب حاضر نے عطا کی ہے وہ آزادی
کہ ظاہر میں آزادی ہے باطن میں گرفتاری (٣٤)
اقبال کے نظر میں مغرب جس دوڈ میں لگا ہے وہ دانش نورانی سے محروم اور اخلاقی قدروں سے ماورالنہر ہے اخلاقی قدروں کے فقدان سے ہی مغرب اپنی عمل کے منطقی انجام کو پہنچ جائے گا روحانی زندگی میں جس مقصد حیات کو اپنانے کی ضرورت ہے وہ روحانی اور اخلاقی قدریں ہیں جو انسان کو معیار زندگی کے اعلیٰ مقام تک لئے جا سکتے ہیں اس کے برعکس مغربی اقوام نے عقل پر پوری طرح مدارکرکے تہذیب مغرب کو وہ تمام ظاہری اسباب سے مالامال کر دیا ہے جو انسان کو حق سے محرومی اور اپنے وجود سے نا انصافی کے مترادف ہے اس غیر فطری طرز عمل سے بچنے کیلئے روحانی بصیرت یعنی دانش نورانی کو بروئے کار لانا حد درجہ ضروری ہے کیونکہ عقل ایک عیار شے ہے جو انسان کو دنیائی رنگرلیاں دکھا کر اپنے آپ سے بھی بیگانہ کر دیتی ہے۔
خرد کے پاس خبر کے سوا کچھ اور نہیں تیرا علاج نظر
کے سِوا کچھ اور نہیں
خرد سے راہ رو رو شن بصر ہے
خرد کیا ہے ؟ چراغ رہ گزر ہے (٣٥)
گذر جا عقل سے آگے کہ یہ نور
چراغ راہ ہے منزل نہیں ہے (٣٦)
تصور عقل جس کو اقبال دو خاص حصوں میں منقسم کرکے انسان کو تقدیر یزداں کا دایمی تصور پیش کرتا ہے در حقیقت علامہ اقبال انسان کو اپنی پہچان کراکے اُس کے خالق کے نزدیک لانا چاہتا ہے عقل عیار ہے جب تک یہ نفس کی غلام رہتی ہے اور اُس کی ہر چال واداانسان کو ادراک و فہم اور پہچان حق سے بالا تر کر دیتی ہے اس کے بر عکس جب تک انسان روح کی آواز سنتاہے وہ نفسی خواہشات اور منکرات سے بچ جاتا ہے کیونکہ ُاس کی زندگی کامرکز اُس کا خالق رہتاہے اس لئے رسول اللہ ۖ نے فرمایا ”جس شخص نے اپنے نفس کو پہچان لیا یعنی نفس کے چالوں سے با خبر رہا تو وہ کامیاب ہوگیا اسی خود شناسی کو اقبال نے خودی سے تعبیر کیا ہے دانش نورانی اُس کی مشعل راہ بن جاتی ہے اور زندگی کی حقیقتیں اُس کے سامنے بے نقاب ہو جاتی ہیں اُن کاذہن اس بات کا حد درجہ اتم اس بات پر راضی ہوتا ہے کہ یہ جہاں اُس کیلئے ہے اوروہ اس جہاں کیلئے نہیں ہے وہ اس دنیا کے طاقتوں کو مسخّر کرتا ہے وہ اس کے مادہ کو انسانیت کے بقاء و فلاح و بہبود پر صرف کرنے کی ٹھان لیتا ہے نہ کہ مادہ پرست بن کر دولت کے انبار جمع کر دیتا ہے ۔پروفیسر شفیق الرحمن اِنْ حالات جو ابن آدم کی عقل نورانی سے ٹکراتے ہیں یعنی حق و باطل کے اس معرکہ میں عقل کا غلام بنا کر رکھ دیتی ہے۔
” اگر کوئی شخص اپنے کسی ہم جنس یا کائنات کی کسی دوسری چیز کے آگے جھکتا ہے، کسی چیز کو معبود خیال کرتاہے یا کسی کی خدائی صفات کا حامل گردانْتا ہے تو وہ اپنے آپ کو اصل مقام سے گرِا دیتا ہے اس نے نہ توحید کے رمز کو سمجھا اور نہ خودی کو۔ الغرض عرفانِ ذات، خود آگاہی، ایمان و یقین کی گہرائی، جرأت و شجاعت، عزم و استقلال، ذوق تسخیر اور کائنات کو مسخّر کرکے توحید کا راز آشکارا کرنے والی قوت کا نام خودی ہے”(٣٧)
جب انسان تمام کائنات کا مشاہدہ کرکے اور دنیا کی لذتوں ( یعنی ایسی نفسانی خواہشات کا عادی ہونا جو انسان کو اَ سْفَلَ سٰفِلِیْنَ کے درجے تک لے جاتا ہے )سے کٹ کر صرف ایک خُدا کا ہو کر رہ جاتا ہے تو دانش نورانی کائنات کے تمام راز اس کو واضح کرکے اُس کے دامن میں سمیٹ دیتا ہے وہ دنیا کی ظاہری تن زیبائش سے مغلوب نہیں ہوتا بلکہ وہ اس کے اصرارکو وحدت الہٰی سے منسلک ہو کر سمجھتا ہے وہ خود پسندی سے نکل کر خودی کو اپنا رفیق مانتا ہے۔
خودی سے اس طلسم ِرنگ و بو کو توڑ سکتے ہیں یہی توحیدتھی جس کو نہ تو سمجھا نہ میں سمجھا! (٣٨)
اس لئے یہ کہنا بعید از کلام نہیں ہوگا کہ علامہ اقبال کا تصور خودی قرآنی آیات کی وضاحت ہے اور مکمل ہم آہنگ بھی کیونکہ انسان خود فراموشی کا شکار ہو کر اپنے آپ کو بھول جاتاہے۔
وَلَا تَکُونُوا کَالَّذِیْنَ نَسُوا اللَّہَ فَأَنسَاہُمْ أَنفُسَہُمْ (سورة الحشر: ٩١)
اور ان جیسے نہ ہو جاؤ جو خدا کو بھول بیٹھے تو خدا نے بھی ان کو انہی کے نفسوں سے غافل کر دیا۔
الَّذِیْنَ خَسِرُواْ أَنفُسَہُمْ فَہُمْ لاَ یُؤْمِنُون(سورة الانعام:٢٠)
جنہوں نے اپنے آپ کو خسارے میں ڈال دیا وہ لوگ تو ایمان نہیں لائیں گے۔
خود فراموشی کے زاویہ سے اِن آیات اور علامہ اقبال کے تصور بے خودی کو دیکھا جائے تو یہ بات صاف ہو جاتی ہے دنیا میں جن لوگوں نے خالصتاََ عقل برہانی پر انحصار کرکے اپنے آپ کو مادیت پرستی کے دلدل میں پھنسا دیا اور حق پرستی اور حقیقت پسندی کا پر دہ چاک کرکے دنیا کے چند روزہ زندگی کیلئے ضائع کر دیا۔ خود فراموشی کی بد ترین قسم یہ ہے کہ جب علم و فراست والا انسان بہت سے غیبی قوتوں کا مظہر کرکے بھی منکر حق ہوکرہوس کی دوڈ میں کبھی بھی نفسانی بھوک اور حرص سے نجات حاصل نہیں کر پائے گا اس لئے علامہ اقبال انسان کو چند روزہ دنیا ئی لذت اور اس سے ماورالنہر دیکھنا چاہتا ہے۔
اس مردِ خدا سے کوئی نسبت نہیں تجھ کو
تو بندہ آفاق ہے وہ صاحب آفاق (٣٩)
دل کی نِگاہ یعنی دانش نورانی انسان کو شہنشاہیت اور وِ لایت عطا کر کے اُن کو آزاد فضاؤں کا پروانہ بنا دیتاہے وہ انسانی غلامی کو موت سے تعبیر کرتا ہے جس کا مشاہدہ مغرب کی ترقی پسندی اقوام میں اُن کودیکھائی دیتا ہے۔ تو یہ بات بِلاشک و شبہ صاف ہو جاتی ہے کہ مغرب نے جو ظاہری اسباب پر کنٹرول کیا ہے حقیقت میں یہ وقتی دبدبہ ہے اور اللہ تعالیٰ اُن کو تب تک اِن چیزوں پر مسلط کرکے رکھے گا جب تک مسلمان اقوام اصحابِ رسول اللہۖ کا کردار اختیار نہ کریں ۔ کیونکہ مسلمان دور حاضر میں جو ہاتھ پاؤں مارتا ہے یہ نِگاہ باطلہ سے ہی کرتا ہے وہ بصیرت سے ہر چیز کو بروئے کار لا کرنفسی اور بین الاقوامی غلامی سے نجات حاصل کرناچاہتا ہے مگرحقیقت یہی ہے کہ یہ بندہ حق اصلیت سے ناواقف ہے ابھی اُس کو وہ مقام حاصل نہ ہوا جس کو اقبال نے کہا۔
خدائے لَم یَزَلْ کا دست قدرت تو زبان تو ہے یقین پیدا کر اے غافل کہ مغلوب گماں تو ہے(٤٠)
یہ مقام تب حاصل ہوتا ہے جب اللہ تعالیٰ پر کامل ایمان اور اعتقاد ہوتا ہے اسی یقین و ایمان کے بدولت مومن کو وہ چیزیں ذہن نشین ہوتی ہے جو انسان کو رغبت دنیا سے بے نیاز کردیتی ہے اس لئے جو طریقہ کار ضرورت ہے۔
وہ یقین محکم، عمل پیہم، محبت فاتح عالم
جہادزِ ندگانی میں ہیں یہ مَردوں کی شمشیریں (٤١)
اقبال جس شخص کی تعمیر کرنا چاہتا ہے وہ اس انسان کی بقاء اور فلاح و بہبود کا متحمل ہے اُس کی نظر طایرانہ اور اسوة حسنة پر منحصرہے کیونکہ اقبال انسان کو ارتقا ء کی بالائی منزلوں پر فائیز دیکھنا چاہتا ہے۔ وہ انسان کو محمدیۖ کے نصب العین کا متقاضی دیکھنا چاہتا ہے بعد ازاں جوبھی عمل انسان کرتاہے وہ نورانی بصارت سے بھر پور ہوتی ہے اس کیلئے عمل اور عقل منجملہ کام کرتی ہے اسی من جملہ یا مرکب کو وہ بعد میں ایمان کا نام دیتا ہے جس کا تقاضا یہ ہے انسان مادیت سے ماورالنہر ہو کر معراج کی منزل مقصود دنیا میں ہی حاصل کرتا ہے اور یہ نوارانی بصارت سے عین ممکن ہے نہ کہ دانش برہانی سے کیونکہ دانش برہانی راستہ کی مشعال ہے نہ کہ منزل ۔(٤٢)اقبال کے فلسفہ خودی میں انسان کی فضیلت، استعداد اور صلاحیتوں پر زیادہ زور دیا گیا ہے اُن کے تصور میں عقل کامل کا بہت بڑا کردار ہے جس میں استعداد اور صلاحیتوں کو نکھارنے پر زیادہ اہمیت دی گئی ہے اس کے علاوہ انہوں نے عقلِ سلیم کے ذریعہ خیر و شر کی کشمکش کو پہچاننے کی بڑی تا کید موجود ہے اُن کا ماننا ہے کہ دانش نورانی کے ذریعے جو قوی عنصر پیدا ہوتا ہے وہ حیات جاودانی اور بقائے دوام ہے اقبال کا ماننا ہے کہ یہ چیزیں انسان کو مغربی تعلیم سے حاصل نہیں ہو سکتے ہیں (٤٣) بلکہ اس سے تو مزید خرابیاں پیدا ہو جا تی ہیں علاوہ ازیں اقبال مغرب کے جس طرز سے متا چر تھے وہ اُن کی مسلسل جدوجہد جس کا فقدان مشرق میں زوروں پر ہے حالانکہ اقبال اُن کی مادی ترقی سے مرعوب میں تھے بلکہ وہ اسلامی اصولوں اور قرآں ی احکام پر عمل کرنے اور غیر اخلاقی باتوں سے پر ہیز کرنے کا قائل تھا اُن کی دردمندانہ نظم علیگڈھ کالج کے نام بہت ہی متاثر کن تھی جس میں انہوں نے واشگاف الفاظ میں اظہار خیال کیا ہے
اوروں کا ہے پیام اور میرا پیام اور ہے
عشق کے درد مند کا طرز کلام اور ہے
شمع سحر کہہ گئی، سوز ہے زندگی کا راز
غم کدہ نمود میں ،شرط دوام اور ہے (٤٤)
علامہ اقبال انسان کو روحانی و دنیاوی معراج پر دیکھنا چا ہتا ہے وہ دونوں کو انسانیت کے علم بردار اور ذلت کے رسوائی سے نجات دہندگان کے معیار پر دیکھنا چاہتا ہے وہ نئی یورپی تہذیب جس کی عمر عموماََ تین سو سال گراندتے ہیں ، ایک غیر اخلاقی، غیرفطری اور انسان سوز مادی ترقی کے چنگل کا ایک مُعمّا ہے اس نئے یورپی تہذیب میں اخلاق اور روحانی اقدار کی کوئی اہمیت نہیں ہے اسلئے اُن کے زندگی میں توازن ، اعتدال اور ہم آہنگی قائم نہ رہ سکتی ہے اس پر طنز کرتے ہوئے علامہ اقبال فرماتے ہیں ؛
یورپ میں بہت، روشنی علم و ہنر ہے
حق یہ ہے کہ بے چشمہ حیوان ہے یہ ظلمات
یہ علم ، یہ حکمت، یہ تدبر، یہ حکومت
پیتے ہیں لہو دیتے ہیں تعلیم مساوات(٤٥)
اقبال نے کبھی بھی دانش برہانی کو مکمل چیز تصور نہیں کیا یعنی یہ حقیقت کی پوری طرح ادراک نہیں کر سکتی اس لئے یہ اخذ کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے کہ دراصل ایسا معیار عقل حواس پر مبنی ہے حقیقت تک پہنچنے کیلئے یقینی راستہ نہیں ہے اس کے برعکس زندگی کے تمام جہات کو حیات جاودانی بخشنے کیلئے عقل دانش پر زور دیتا ہے جس کے ذریعہ انسان ہر چیز کی اصل تہہ تک پہنچ سکتا ہے ۔
انسان کی حقیقی قدرو قیمت اور کمال زندگی معرفت الہٰی سے ہی ممکن ہے جس کے راز دانش نورانی سے کھل جاتے ہیں کیونکہ یہ وہ علمی کاوش ہے جو شکل و صورت، بلندی قدر و قامت اور ظاہری جاہ و حشم کو نہیں دیکھتی بلکہ انسان کے اعلیٰ سوچ کو دیکھتی ہے جو ہر چیز کی تہہ تک جا کر اُس کی اصل جہت پہچانتی ہے۔ حضرت علی کے اس ارشاد سے بھی علامہ اقبال کے تصور دانش نورانی کو تقویت حاصل ہوتی ہے کہ ہر شخص کی قیمت اس کی دانش مندی ہے جو حق اور باطل کو پہچانے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔ اقبال نے عقل کو دانش نورانی اور دانش برہانی میں منقسم کرکے یہ وضاحت کی کہ دانش برہانی کو مثلِ خضر اور تفسیر کائنات کے ساتھ تعبیر کیا جب کہ دانش نورانی کو دل کے ساتھ ساتھ اور رب الجلیل کا عرش بریں اور طائرِ سدرہ سے آشناکے ساتھ تعبیر کیا ہے علم کائنات کا تعلق دانش برہانی سے ہے جب کہ فلسفہ علم ، معرفت الہٰی اور معرفت علم کا تعلق دانش نورانی سے ہے اور عقل کی اصل کی وضاحت کرکے ایک اُسلُوبی فرق کوبیان کرتے ہوئے اہل نظر کو دانش نورانی سے تعبیر کرکے اقبال فرماتے ہیں ۔
زندگی کچھ اور شئی ہے علم ہے کچھ اور شئی
زندگی سوزِ جگر ہے، علم ہے سوز دماغ
اہل دانش عام ہیں کم یاب ہیں اہل نظر
کیا تعجب ہے خالی رہ گیا تیرا ایاغ(٤٦)
عقل کو من جملہ لے کر زندگی اور کائنات کے راز واشگاف ہوتے ہیں یہی عقل انسان کو اظہار کبریائی بھی ہے اور خاک کے ڈھیر کو اکسیر بناکر راز داروں میں شامل کر دیتا ہے اس کے برعکس اگر عقلی معیارات کو الگ الگ لیا جائے تو انسان پستی کا شکار ہو جاتا ہے اور گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیتا ہے ایسا انسان بلند ترین مقامات سے گر کر دنیائی دکھاوے کا غلام بن جاتا ہے مغربیت نے ایسے ہی سوچ کو اپنا کر دنیائی حوص اور کم ظرفی کو اپنا مقدر بنا لیا ہے علامہ اقبال ایسے دل کو خطاب کرکے فرماتے ہیں ۔
صبح ازل یہ مجھ سے کہا جبریل نے
جو عقل کا غلام ہو وہ دل نہ کر قبول (٤٧)
عشق ناپیدو خرد مے گزدش صورت مار
عقل کو تابع ِفرمان نظر نہ کر سکا (٤٨)
اُس جُنون سے تجھے تعلیم نے بیگانہ کیا
جو یہ کہتا تھا خرد سے کہ بہانے نہ تراش(٤٩)
عشق ان پیروی عقل خدا داد کرے
آبرو کوچہ جانان میں نے برباد کیا (٥٠)
جس قوم نے عقلی غلامی اختیار کر لی وہ قوم صفہ ہستی سے مٹ گیا کیونکہ اُن پر نہ تو کوئی بھروسہ کر سکتا ہے نہ ہی وہ بھروسے کے لایقٔ ہیں اس لئے علامہ اقبال بڑے واشگاف الفاظ میں غلامی کی تنقید کرتے ہیں ۔
غلامی کیا ہے؟ ذوق حسن و زیبائی سے محرومی
جسے زیبا کہیں آزاد بندے ہے وہی زیبا
بھروسا کر نہیں سکتے غلاموں کی بصیرت پر
کہ دنیا میں فقط مردانِ حُر کی آنکھ سے بینا (٥١)
اصل میں غلامی بے زوق زندگی کا نام ہے اس سے سوچ جنم نہیں لیتی ہے اس کے برعکس عشق زندگی کا سوز ہے جو انسان تعلق الہٰی سے حاصل ہوتا ہے یہ دل و نگاہ کی پاسبانی سے ہی ممکن ہے عشق سے سوز جگر میں فقر و غناء کوئی اہمیت نہیں رکھتے ہیں دانش نورانی کا کام انسان کے اندر عشق پیدا کرنا ہے تاکہ یہ خُدائی لاشریک کی اصلیت کو پہچان سکے جس سے اُن کے اندر اسلام کے بقاء کیلئے کام کرنے کاجذبہ پیدا ہوجائے
عقل و دل و نگاہ کا مرشدِ اوّلیں ہے عشق
عشق نہ ہو تو شرع و دیں بُت کدۂ تصورات (٥٢)
اقبال تمام شُعَرا سے ممتازاس لئے ہیں کہ انہوں نے دینیات اور مذاہب عالم سے مشرق و مغرب کے سر برآوردہ فلسفیوں اور حکما کے افکار و خیالات کا نہایت گہرائی سے مطالعہ کیا ہے انہوں نے بڑی فراخ دِلی اور بے تعصبی سے اعلیٰ خیال اور صالح فکر دنیا کے تمام فلسفیوں اور تہذیب وتمدن سے اخذ کرکے قبول کیے انہوں نے قرآن کو میزان بنا کربڑے ناقدانہ انداز کو اختیار کرکے دانش نورانی کو بر روئے کار لا کر اخذ و قبول اور رد و ترک کا معیاربنالیا۔اسلئے جو اس پرکھ پر کھرا اترا اُسے لے لیا اور جو کھوٹا ثابت ہوا اُس کو رد کیا۔ علامہ اقبال کی اس محققانہ انداز کو بر صغیر کے ایک بڑے مفکر سید ابو اعلیٰ مودودی نے بھی قبول کیا ۔
”اقبال جو کچھ دیکھتے تھے قرآن کی نظر سے دیکھتے تھے اور جو کچھ سوچتے تھے قرآن کے دماغ سے سوچتے تھے۔ انھوں نے سارے نظریات کو اسی کسوٹی پر پرکھا، جسے مطابق قرآن پایا اسے سینے سے لگا لیا جسے خلافِ قرآن پایا اسے ٹھکرادیا”(٥٣)
علامہ اقبال کے مطابق اگر کوئی انسانیت کے بلند ترین مقام پر فائز ہو نا چاہتا ہے تو فرنگیوں کی تقلید کرنا چھوڑ دینا ضروری ہے یعنی اُن کا تمدن جو اخلاق سے بے بہر اور معاشرت انصاف سے محروم اور حکومت اور سیاست بے رحم، اِن تمام سے انحراف بے حد ضروری ہے اُن کا یقین ہے کہ جب عرب قرآن کے غیر معمولی تعلیمات پر انحصار کیا تو اُن کو وہ طاقت حاصل ہوا جس کی بدولت انہوں نے دنیا سے ظلم اور ملوکیت کا خاتمہ کیا، مگر حق سے دوری نے عربوں کے اندر روباہی کے دروازے کھول دیے اور عصر حاضر میں یہ تمام کمزوریاں ، مکاری، عیاری، استعماریت اور استحصال پائی جاتی ہیں اسلئے یہ ضروری ہے کہ انسان کو دانش نورانی پر انحصار کرنا ہوگا تاکہ فکر انسانی ترقی کر پائے اور اسی فکری جدوجہد کو بروئے کار لا کر انسان حبِ الہٰی سے سر شار ہو کر کائنات کے تمام مخلوقات اور مصنوعات پر دست رس حاصل کرے تاکہ اللہ کی عظمت کا نقش دل پر قائم ہو جائے اور کائنات کو مسخر کرنے کی صلاحیت و طاقت پیدا ہو جائے مزیدایسالگتا ہے کہ ہر انسان کی زندگی عقل (فکر) کے مطابق ہر کام انجام دیتی ہے مگرتحقیق سے یہ ثابت ہو اہے کہ انسانی عقل جب جذبات کی غلام ہوجاتی ہے اور اس کے مطابق کام کرتی رہتی ہے توکائنات کی ہر شۓ پر حاوی ہوجاتی ہے کیونکہ جذبات کے قوت کا عالم یہ ہے کہ ہر شۓ کو اپنے اثر کے تابع کرکے رکھ دیتی ہے چاہئے وہ عقل و خرد ہو یا دانش و تفہیم مزید برآں یا اس کے بر عکس وہ دنیائی لذات سے بیکراں ہو کر محبت سے سرشار ہو جاتا ہے۔
بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
عقل ہے محو تماشائے لبِ بام ابھی (٥٤)
نورِ بصیرت انسان کو لامکان تک رسائی عطا کر تی ہے کیونکہ اس کا ماخذ قرآن ہے عقل ایک بدہی چیز ہے ،اقبال فرماتے ہیں جب میں نے امام رازی کا سرمہ اپنی آنکھوں میں ڈالا تو قرآن میں دنیا کے متعلق عواملِ کو پہچانا اور اس کے بر عکس جب میں نے قرآن کو عقل کے بجائے
جب عشق کی نگاہ سے غور کیا تو تمام وہ عوامل حاصل ہونے کے ساتھ ساتھ حقائق سے متعارف ہو گیا جو دستور حیات کے مغز بنانے سے اندھیروں میں بٹکے قوموں کی تقدیر بدلنے کی قوت رکھتے ہیں ۔ علامہ کو یہ یقین محکم تھا کہ دانش برہانی سے زندگی کے مسائل حل ہونے کے بجائے اُلجھتے ہیں اور اس کے ذریعے ہم حقیقت تک نہیں پہنچ پاتے ہیں اور اہمیت کے میدان میں وہ دانش نورانی کو زندگی کا صیغہ راز تصور اورتسلیم کرتے ہیں ۔
عالج ضعفِ یقین ان سے ہو نہیں سکتا
غریب اگر چہ ہیں رازی کے نکتہ ہائے دقیق (٥٥)
اس غیر یقینی صورت حال کو تبدیل کرنے کیلئے حق پرست ہو ناناگزیر ہے کیونکہ جب تک مرد مسلمان عقل اور عشق کو مربوط کرکے آگے نہ بڑھ سکے تو دنیا میں جس پسپائی کے شکار ہیں نجات حاصل کرنا ناممکن ہے اسلئے حالات کو ممکنات میں تبدیل کرنے کیلئے تقلید طرز عمل سے استغفار ہی راہ نجات ہے۔ پست ذہنیت سے نکلنے کا واحد راستہ مغرب کی رچی داستان سے توبہ کرکے اپنے سحر کا خود نویس بن کر اُبھرنا ہے۔مغرب نے اپنی زندگی کا مکمل دار مدار عقل پر چھوڑ دیا حالانکہ اقبال عقل کو پوری طرح رد نہیں کرتا ہے بلکہ اس کوایک حد تک تسلیم کرتا ہے یوں کہیے کہ وہ عقل برہان کو جویائے راہ اور عشق یعنی عقلِ نورانی کو دانائے راہ قرار دیتے ہیں عصر حاضر میں مسلم دنیا عقل برہان سے مرعوب ہیں کیونکہ اُنہوں نے جذبہ سکندارانہ کھو دیا اور نتیجةََ وہ مغرب کے عقلی کاوِشوں سے متاثر ہوئے اسی لئے اقبال مسلمانوں کو جدوجہد کی تعلیم دیناچاہتا ہے کیونکہ وہ ذہنی طورپر غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے۔علامہ اقبال مسلمانوں کو عقل کا غلام نہیں دیکھنا چاہتا ہے بلکہ وہ اُن کو تقدیر ِ یزداں کا شہکار دیکھنا چاہتا ہے مسلم دنیا نے جو پستی کا طرز عمل اختیار کیا ہے۔اس نے اِن کے رگ رگ کو سُن کردیا۔
عبث ہے شکوہ تقدیرِ یزداں
تو خود تقدیرِ یزداں کیوں نہیں ہے؟ (٥٦)
مسلمان جب مغرب کے غیر مذہبی طریقہ کار سے بے حد متا ثر ہوئے اور وہ اپنی دنیا اُسی طرز پر کھڑا کرنا چاہتے ہیں اس قسم کی مرعوبیت کو علامہ اقبال نے انتہائی ذلت اور رسوائی کی سوچ سے تعبیر کیا۔ اقبال زارقطا ر، بڑے افسوس اور برملا اس قسم کی سوچ کے بارے میں کہتے ہیں
خبر نہیں کیا ہے نام اس کا خدا فریبی کہ خود فریبی عمل سے فارغ ہوا مسلماں بنا کے تقدیر کا بہانہ (٥٧)
کاروبارِ خسروی یا راہبی؟
کیا ہے آخر غایتِ دینِ نبیِۖ؟
تجھ پہ روشن ہے ضمیرِ کا ئنات
کس طرح محکم ہو ملت کی حیات(٥٨)
کلام اقبال میں جس گہرائی کو اُجاگر کیا گیا ہے ایسی وضاحت بہت کم مفکروں کے تعلیمات میں ملتا ہے کیونکہ کلام اقبال میں فکر کیگہرائی بہت زیادہ ملتی ہے اقبال کی فکر نے برصغیر کے خاص کر اور مشرق اور مغرب کے بہت سے قلم کاروں کو متا ثر کیا ہے اُن کے کلام میں فلسفہ کی جو گہرائی حاصل ہوتی ہے اُس کے دلنشین اسلوب سے اقوام عالم کے فکری تاریخ کو نیا موڑ ثابت ہوگا اقبال نے عقل کے ہر جہت کو کھول کر رکھ دیا ہے اُن کا تصور عقل انسان کو خودی اور روحانی بصارت سے ہم کنار کر دیتا ہے علاوہ ازیں وہ مغرب کے طرز تعلیم کو جس میں خالص دانش برہانی کا عمل دخل ہے اُن کے تہذیب کیلئے اور اُن کے مقلدوں کیلئے نشتر سے تعبیر کردیتا ہے اقبال اُن کے مشینی ترقی کو کم نگاہی، محدود اور تنگ تخیل کی پیداوار قرار دیتا ہے جو ظاہری چمک دمک کا حامل ہے اس کے برعکس اقبال ترقی کو دانش نورانی کی بصارت سے ممکن قرار دیتا ہے جو روحانی انسانیت کو صداقت کے سوز سے منور کر دیتا ہے اس میں فلسفہ آسمانی کا کردار حامل ہے اقبال کا پیام مشرق کے باشندوں کیلئے اخلاقی قدروں پر منحصر ہے جو دانش نورانی سے ممکن ہے جو ملت کو کامیابی کی منزل تک لے جاسکتا ہے اقبال کے کلام میں ایسی انقلاب کیلئے مثالی افراد کی ضرورت ہے اُن کے اندر خودی کی تکمیل ہو چکی ہوگی۔ ایسا مقام عام فلسفی کو حاصل نہیں ہوتا ہے بلکہ یہ اطاعت اور ضبط نفس کے مراحل طے کرکے نیابت الہٰی کی منزل تک پہنچ جا تا ہے،وہ عقلیت پرستی کے عمل کو انسانیت کیلئے نشتر سمجھتے تھے کیونکہ عقلیت پرستی فرسودہ دماغوں کی پیداوار ہے اس سے انسانوں کے اندر خود غرضی اور رجعت پسندی کی چاشنی لامحلہ پیدا ہو جاتی ہے اس کے برعکس کلام اقبال سے یہ نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ دانش نورانی وحی الہٰی کا حاصل کل ہے اسلئے وحی الہٰی کے جو دیدہ قوانین ہیں انسانیت کو دنیاوی و اُخروی نقصانات سے بچانے کیلئے ایک موثر اور قابل اعتماد ذریعہ ہے کیونکہ قُرون اولہٰ کے مسلمانوں نے دانش نورانی کا استعمال کر کے دنیا کے بہت بڑے طاقتوں کیسر و قیصرہ کو اپنا لوہا منوانے کیلئے مجبور کر دیا اور صدیوں تک اپنا دبدبہ قائم رکھا تو دور حاضر میں بھی ملت اسلامیہ کیلئے دانش نورانی ہی ایک ماخذ ہے جو مسلمانوں کو خُدا کے راز دانوں کے صف میں کھڑا کر سکتی ہے اور یہی ملت اسلامیہ کے لئے راہ نجات بھی ہے
فہرست حوالہ جات
١۔ بال جبریل٥/٢٤٥
٢۔ ایضاََ١٦/٢٥٦
٣۔( ترمذی، بروایت عمرو بن قیس)
٤۔ بال جبریل:٨٧/ ٤٧٣
٥۔بانگ در٢٠٧/٢١٩
(٦) ۔ ایضاََ ١٤٩/٥٣٥
٧۔ بال جبریل: ٣٣/٢٧٣
٨۔علامہ اقبال ،جاوید نامہ مع شرح از یوسف سلیم چشتی، جلد :٢، ص١٣٩
٩۔ کلیات اقبال فارسی، پیام مشرق؛ ص٤٢/٢١٢
١٠۔ بال جبریل: ٨٦/٣٢٦
١١۔ بانگِ درا،حصہ سوم،٢١٠/٢٢٢
١٢۔ ارمغان حجاز:١٧٥/٥٦١
١٣۔ خلیفہ عبد الحکیم: فکر اقبال، بزم اقبال ، لاہور، ٣٢، بال جبریل: ٢٣/٢٦٣
١٤۔بال جبریل: ٢٣/٢٦٣
١٥۔ خلیفہ عبد الرحیم: فکر اقبال، بزم اقبال لاہور، ص.٧
١٦۔ بال جبریل: ١٤٩/٥٥٥
١٧۔ ایضاََ: ١٨/٢٥٨
١٨۔ ایضاََ: ١٦٣/٥٤٩
١٩۔ اقبال اور احیا ء فکر دینی ، کانون نشرپزھشھای اسلامی، ص :٢٤١)
٢٠۔بال جبریل:٦٨/ ٣٠٨
٢١۔ ارمغانِ حجاز: ١٧٥/ ٥٦١
٢٢۔ بال جبریل: ٦٧/ ٣٠٧
٢٣۔ ایضاََ: ٤١/٢٨١
٢٤۔ ایضاََ:١٧٣/٥٥٩
٢٥۔ایضاََ :٦٨/ ٣٠٧
٢٦۔ابو الحسن علی ندوی، نقوش اقبال، لاہور، ٢١٩
٢٧۔ ضرب کلیم:٢٢/٤٠٨
٢٨۔بال جبریل: ٣٣٦/٩٦
٢٩۔ ڈاکٹر ممتاز احمد ، اقبال : شاعر و دانشور، گلو ریئر ڈس پبلیکیشنز، نئی دہلی، ٢٠١٣، ص: ١١٠۔١١١
٣٠۔بال جبریل:٤٩/٢٨٩
٣١۔ ایضاََ: ١٦/٢٥٦
٣٢۔ایضاََ: ٨٧/٣٢٧
٣٣۔ ضرب کلیم: ٦٤/٤٥٠
٣٤۔ بال جبریل: ٣١/٢٧١
٣٥۔ ایضاََ: ٦٤/٣٠٩
٣٦۔ایضاََ: ٦٨/٣٠٨
٣٧۔ ( پروفیسر شفیق الرحمن ، اقبال کا تصور دین، اسلامک بُک فاؤنڈیشن، نئی دہلی،١٩٩٦، ص: ١٠١
٣٨۔ بال جبریل: ١٩/٢٥٩
٣٩۔ ضرب کلیم: ٦٤/٤٥٠
٤٠۔ بانگ درا: ٢٠٨/٢٢٠
٤١۔ ایضاََ: ٢١٠/٢٢٢
٤٢۔ علامہ اقبال، جادید نامہ مع شرح ( مولف پروفیسر یوسف سلیم چستی)، اعتقاد پبلشنگ ھاوس، نئی دھلی،١٩٩٣، ص؛ ٤٠٨
٤٣۔ ڈاکٹر محمد ممتاز،اقبال:شاعر اور دانشور،ص:١٠٢
٤٤۔ بانگ درا:٨٤۔٨٣/٩٦۔٩٥
٤٥۔ ایضاََ:٨٨/٣٢٨
٤٦۔ ضرب کلیم: ٦٨/٤٥٤
٤٧۔ ایضاََ:٦٣/٤٤٩
٤٨۔ ایضاََ:٥٩/٤٤٥
٤٩۔ ایضاََ:٤٥٧/٧١
٥٠۔ ضرب کلیم:٤٧٣/٨٧
٥١۔ بال جبریل:٢١/٢٦١
٥٢۔ایضاََ:٩٣/٣٣٣
٥٣۔ ڈاکٹر ممتاز احمد: اقبال : شاعر اور دانشور، ص: ١٣٠۔١٣١
٥٤۔ محمد اقبال ؛ جاوید نامہ، ص:٦٩٨
٥٥۔ جاوید نامہ: جلد:١،ص:٤٠٩
٥٦۔ ضرب کلیم: ٥٦١/١٧٥
٥٧۔ ارمغان حجاز:١٨٤/٥٧٠
٥٨۔ بال جبریل: ١١٨۔١١٧/٣٥٨۔٣٥٧
………………
ڈاکٹر علی محمد
اسسٹنٹ پروفیسر، شعبہ اسلامک اسٹیڈیز
اسلامک یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی
اونتی پورہ سرینگر کشمیر ١٩٢١٢٢
Leave a Reply
2 Comments on "کلام اقبال میں تصور دانش نورانی اور دانش برہانی
"
[…] 118. کلام اقبال میں تصور دانش نورانی اور دانش برہانی […]
[…] کلام اقبال میں تصور دانش نورانی اور دانش برہانی […]