بزم شبلی، سالانہ
نام مجلہ : بزم شبلی(سالانہ)
ایڈیٹر : ڈاکٹر شباب الدین
ناشر : شبلی نیشنل پوسٹ گریجویٹ کالج، اعظم گڑھ
اشاعت : 2014-15
صفحات : 361
تبصرہ نگار : عائشہ پروین، ریسرچ اسکالر، شعبۂ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی
بزم شبلی، دراصل شبلی نیشنل پوسٹ گریجویٹ کالج(اعظم گڑھ) کا سالانہ ترجمان ہے۔یہ وہی کالج ہے جسے علامہ شبلی نعمانی نے نیشنل اسکول کے نام سے 1883میں قائم کیا تھا۔بعد میں جس کا نام بدل کر شبلی کالج کر دیا گیا۔اس وقت اس کالج کے پرنسپل ڈاکٹر غیاث اسد خاں ہیں ۔جو کہ میگزین کے سرپرست بھی ہیں ۔اور شعبۂ اردو کے صدر ڈاکٹر شباب الدین صاحب ایڈیٹر ہیں ۔ان دونوں حضرات کی کوششوں سے ہی 361صفحات پر مشتمل بزم شبلی کا یہ شمارہ ہمارے ہاتھ میں ہے۔بزم شبلی کے مضمون نگاروں میں سینئر اساتذۂ اکرام، جواں سال قلمکار اور کالج کے ریسرچ اسکالر اور طلبہ و طالبات شامل ہیں ۔بزم شبلی کے ذمہ داروں کی یہ کوشش بھی قابل قدر ہے کہ انھوں نے کالج کے اساتذہ اور طلبہ کے علاوہ بھی منتخب قلمکاروں ، ادیبوں اور شاعروں کو اس میں جگہ دی ہے۔مضامین کا تنوع بھی خوب ہے۔ادب وتنقید اور تحقیق کے علاوہ بعض قرآنی مباحث اور ملی شخصیات کا تعارف بھی شامل ہے۔ بزم شبلی میں تنقیدو تحقیق کے ساتھ تخلیق کے لیے بھی وافر صفحات دئے گئے ہیں ۔اس سے ڈاکٹر شباب الدین صاحب کے ادبی تنوع اور تخلیقیت سے غیر معمولی شغف کا اندازہ کیا جا سکتا ہے ۔
اگر یہ بات سچ ہے کہ اساتذہ کی تربیت میں رہ کر طلبا کو اپنے جوہر دکھانے کا موقع ملتا ہے تو یہ بات اس میگزین میں پوری طرح صادق آتی ہے۔پروفیسر کبیر احمد جائسی، پروفیسر مسعود عالم، پروفیسر ابو سفیان اصلاحی، ڈاکٹر علاء الدین خاں ، ڈاکٹر محی الدین آزاد، ڈاکٹر محمد خالداور ڈاکٹر ایم۔نسیم اعظمی کی نگارشات معیار و اعتبار کی ضامن ہیں ، تو اس سے کہیں زیادہ، تازہ قلمکاروں کی تحریریں اس علمی وراثت کو آگے بڑھانے کی غماز ہیں ۔اس میں شبہ نہیں کہ خطۂ اعظم گڑھ نے تعلیم و تعلم اور علم و ادب کے باب میں جو خدمات انجام دی ہیں ، اس کے ذکر کے لیے ایک دفتر بھی شاید کم ہو۔خوش آئین پہلو یہ ہے کہ کثرت کے باوجود معیار اور اس کے اعتبارکو باقی رکھنے کا ہر آن احساس ان قلمکاروں کو تھا۔ڈاکٹر شباب الدین صاحب نے اس میگزین میں اپنی بات کے تحت کالج کے طلبا اور اساتذہ سے اعظم گڑھ کی تہذیبی، علمی اور ادبی تاریخ کو مستحکم اور عام کرنے پر زور دیا ہے۔
جواں سال قلمکاروں کی نگارشات کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ اردو ادب اور معاصر ادب کے ساتھ ساتھ اردوزبان مذہبی اور ملی شخصیات کا احاطہ کیا ہے۔یہ مضامین ریسرچ اسکالر اور طلبا و طالبات کی وسیع ذہنی افق کا اشاریہ کہے جا سکتے ہیں ۔ اس کے لیے ابو سعد فلاحی، سلمان فیصل، وسیع الرحمن نعمانی، ابو رافع، محمد ناظم،شائستہ خاتون، ثنا ارشد، افروز جہاں ، ضیاء الدین برکاتی، عفت احسان، سلمان احمد، عنب شمیم ،سجل اسرار،تہمینہ صہیب اور شاذمہ ارشاد مبارکباد اور دعا کے مستحق ہیں ۔یہ استحقاق انھیں یوں بھی حاصل ہے کہ ان میں سے بیشتر وہ ہیں جنھیں پہلی بار پکی سیاہی نصیب ہوئی ہے۔اگر انھوں نے اس موقع کا خاطر خواہ فائدہ اٹھایا اور قلمی سرگرمیوں کو برقرار رکھا تو ڈاکٹر شباب الدین صاحب کی بات ، جس کا سطور بالا میں ذکر آچکا ہے ، کو تقویت ملے گی۔
میگزین کا دلآویز حصہ شعروسخن کا باب بھی ہے۔جس میں بزرگ شاعروں کے ساتھ ساتھ کالج کے اساتذہ اور طلبہ کی تخلیقات سے یہ حصہ روشن ہے۔
بزم شبلی کو تاریخی حیثیت حاصل ہے ، اس نے عام شماروں کے ساتھ ساتھ ماضی میں علامہ شبلی نعمانی اور کبیر احمد جائسی پر خصوصی شماروں کا اہتمام کیا۔اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ خاص نمبروں کی اشاعت میں مدیر محترم نے کتنی محنت اور دیدہ ریزی سے کام کیا ہوگا۔اس کا انداز ہ شبلی نمبر میں شامل سعید انصاری کے اس مضمون سے کیا جا سکتا ہے ، جو کتابی شکل میں منظر عام پر آیا تھا۔
ان معروضات کی روشنی میں باور کیا جانا چاہئے کہ طلبا کا یہ میگزین جو ان کی کوششوں کا آئینہ دار ہے،مگر ان کے اساتذہ کی محنت ا ور توجہ سے توقعات سے کہیں زیادہ اہمیت کا حامل ہوگیا۔اس بنیاد پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ بزم شبلی کے قاری کو کہیں سے بھی مایوسی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا؛بلکہ تازہ کار لکھنے والوں کی بڑی تعداد اسے دیکھ کر یقینا خوشی ہوگی۔
Leave a Reply
1 Comment on "بزم شبلی، سالانہ
"
[…] 105.بزم شبلی، سالانہ […]