*امداد امام اثر کی غزل گوئی: ایک مختصر جائزہ

محمد مقیم خان٭

امداد امام اثر بحیثیت مصنف ’کاشف الحقائق‘ زیادہ معروف ہیں۔ ایسے لوگ چند ہی ہوں گے جو انھیں بحیثیت شاعر بھی جانتے ہوں۔ اثر نے کل ۰۳۲ غزلیں کہی ہیں۔ اس مضمون میں اثر کی شاعری ہی گفتگو کا مرکز ہے، بالخصوص ناسخ اور اثر کے درمیان اشتراک و اتحاد کے پہلو دریافت کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ مطالعے کی اس سمت کا بنیادی سبب وہ طرز خاص ہے جس کے ڈانڈے کلام ناسخ سے ملتے ہیں اور اس طرز کا بار اٹھانے والے اثر غالباً آخری شاعر ہیں۔ طرز ناسخ کی پیروی کے سبب اثر کو قدیم طرز کا آخری شاعر بھی کہا جاسکتا ہے۔
اثر کے کلام کا مطالعہ کرنے پر یہ بات کافی حد تک واضح ہوجاتی ہے کہ امداد امام اثر کی شاعری پر ناسخ کا رنگ بہت گہرا ہے۔ انھوں نے ناسخ کے کلام کا بغور مطالعہ بھی کیا تھا۔ شیخ ناسخ کی عظمت کو امداد امام اثر نے کس طرح خراج تحسین دیا ہے : ؂
شرح غم سے مثل ناسخؔ اے اثرؔ
’’ہوگیا ہے نامہ بر کو بار خط‘‘
اثر کے شعر کا مصرعۂ ثانی دراصل ناسخ کا مصرع ہے۔ ناسخ کا شعر ہے ؂
لکھتے لکھتے بڑھ گیا ہے اس قدر
ہوگیا ہے نامہ بر کو بار خط
دونوں ہی اشعار مضمون کی سطح پر متحد ہیں۔ اثر کے شعر میں شرح غم کی قطعیت شعر کو محدود کردیتی ہے اس وجہ سے لطف بھی کم ہوگیا ہے۔ ممکن ہے کسی کو یہ خیال گذرے کہ شرح غم کی شمولیت سے اثر کے شعر میں واردات قلبیہ کا بیان ہوا ہے۔ لیکن غور کرنے کی بات ہے کہ شعر ناسخ کے متکلم نے ایسا کیا لکھ دیا کہ خط طویل ہوگیا اور خط کی طوالت نامہ بر کو بار ہوگئی ہے۔ کیا لکھ دیا ہے؟ شرح غم، گلے شکوے، سوال وصل یا وصل کے بعد کی سرشاری؟ ناسخ کا شعر اپنے اسی ابہام کی وجہ سے قاری کی فکر کو مہمیز کرتا ہے۔ ’شرح غم‘ میں وہ بات نہیں جو ’لکھتے لکھتے بڑھ گیا‘میں ہے اور ’اس قدر‘ کی تاکید سے خط کے بار ہونے کا جواز مزید مستحکم ہوجاتا ہے۔ ’اے اثر‘، ’اس قدر‘ کا نعم البدل نہیں بن سکا۔ کیوں کہ اثر نے ناسخ کے مصرع کی تضمین کی ہے لہٰذا اصولاً نام ظاہر کردیا ہے۔ لیکن یہ ’مثل ناسخ‘ کا محل ہے ہی نہیں۔ مثل کے ساتھ یہ ترکیب بالکل بے محل آئی ہے۔ تضمین کے شعر دیگر شعرا کے یہاں کس طرح روبہ عمل ہیں ملاحظہ کیجیے ؂
اغیار کی جو سعی سے بالفرض جاؤں میں
واﷲ ہو نگاہ میں مثل سقر بہشت
مجھ کو نواے بلبل شیراز یاد ہے
کیا لکھنؤ کے منھ نہ کروں ہو اگر بہشت
حقا کہ با عقوبت دوزخ برابر است
رفتن بپاے مردی ہمسایہ در بہشت
ناسخ
غالبؔ اپنا یہ عقیدہ ہے بقول ناسخؔ
آپ بے بہرہ ہے جو معتقد میرؔ نہیں
غالب
درویش ہر کجا کہ شب آمد سراے اوست
تو نے سنا نہیں ہے یہ مصرع مگر کہیں
خواجہ میر درد
گل رخوں سے نہ مل امدادؔ بقول ناسخؔ
داغ حسرت کے سوا خاک نہ حاصل ہوگا
امداد علی امداد رامپوری
جگر پہ نقش ہے مصرع یہ مصحفیؔ کا رندؔ
لٹکتے ہیں تری ہیکل کے تا کمر تعویذ
‹امداد امام اثر کی شاعری کلاسیکی روایت کی ایسی پیروی کا نام ہے جو محض تتبع ہے اور اس میں معنوی وسعت اور خیال کی ندرت والے اشعار شاذ ہی ملیں گے۔ کلام کے بیشتر حصے میں متقدمین کے مضامین کو کل الفاظ یا بعض الفاظ کے تغیر سے ترتیب کی تبدیلی، مضمون پورا لے کر الفاظ کا تغیر یا متقدمین کے مضمون کو بالکل الٹ دینے کا عمل پایا جاتا ہے۔
امداد امام اثر، میر اور غالب کے تخلیقی ذہن سے اپنے تعلق کا اظہار کرتے ہیں۔ وہ غالب شیریں سخن کے پاؤں بھی دھو کر پیتے ہیں اور جوش عقیدت سے میر کی خدمت میں غزل لے جانے کی حسرت بھی کرتے ہیں۔ لیکن ناسخ کی طباعی اور خلاقی کا بے حد معترف ہونے کے باوجود اپنی تخلیقیت پر ناسخیت کے اثر انداز ہونے کا اعتراف نہیں کرتے۔ حالاں کہ دیوان امداد امام اثر کا سرسری مطالعہ بھی یہ باور کردایتا ہے کہ اثر کے تخلیقی سرچشموں کا سراغ ناسخیت میں ملتا ہے۔ اثر اور ناسخ کے جو اشعار آئندہ سطور میں پیش کیے جارہے ہیں وہ سرسری مطالعے ہی کا نتیجہ ہیں۔ اس بات کی صراحت نہایت ضروری ہے کہ اثر کے اشعار کا متن حال ہی میں غالب انسٹی ٹیوٹ سے شائع شدہ ’’دیوان امداد امام اثر‘‘ سے ماخوذ ہے۔ اس دیوان کے مدون ڈاکٹر سرور الہدیٰ ہیں۔ اس مضمون میں اشعار کی تعداد بہت زیادہ ہوگئی ہے لیکن اس سے اثر کی تخلیقیت اور طرز کا بخوبی اندازہ ہوجائے گا اور میرے موقف کی صراحت بھی ہوجائے گی۔
تصور ہے دمِ گریہ جو تیرے روے خنداں کا
مری آنکھیں دکھاتی ہیں تماشا برق و باراں کا
(اثر)

چمکنابرق کا لازم پڑا ہے ابرباراں میں
تصور چاہیے رونے میں اس کے روے خنداں کا
ناسخ)

اثر کے شعر میں برق کے تماشے اور روے خنداں میں وہ مناسبت قائم نہیں ہوتی جو ناسخ کے شعر میں ہے۔ عاشق کی آنکھیں باراں کا تماشا تو دکھا سکتی ہیں لیکن برق کا تماشا نہیں دکھا سکتیں۔ اسی غزل میں اثر کا ایک اور شعر ہے ؂
مری آنکھوں نے دیکھی ہے بہار اس گل کے کوچے کی
مبارک ہو تجھے زاہد نظارہ باغ رضواں کا
ناسخ کا شعر دیکھیں ؂
تصور مجھ کو ہے بیت الحزن میں کوے جاناں کا
جہنم میں خیال آیا ہے گویا باغ رضواں کا
دونوں اشعار میں کوے جاناں کو جنت سے تشبیہہ دی گئی ہے۔اثر کے شعر میں کوے جاناں کو باغ رضواں پر فوقیت حاصل ہے۔ اس کے برعکس ناسخ کے شعر میں کوے جاناں کی اہمیت دہ چند ہے کیوں کہ متکلم کا بیت الحزن ، جہنم آسا ہے لہٰذا اس تکلیف دہ صورت میں کوے جاناں کے تصور سے جو راحت نصیب ہورہی ہے وہ جنت کے علاوہ کہیں اور نہیں مل سکتی۔ اہم بات یہ ہے کہ ناسخ کے شعر میں کوے جاناں کا تصور ہی باغ رضواں ہے۔ اثر کی اسی غزل کا ایک اور شعر ہے ؂
فلک آئینہ داری جور مہرویاں کی کرتا ہے
شفق ہے عکس خوں آلودہ رخسار شہیداں کا
ناسخ کا شعر ہے ؂
شفق سمجھا ہے اس کو ایک عالم واے بیدردی
فلک کو گر بگولا جالگا خاک شہیداں کا
یہاں بھی اثر کے شعر میں ’مہرویاں‘ کی تخصیص سے شعر محدود ہوگیا ہے۔ اثر نے شفق کو رخسار شہیداں کا عکس خوں آلودہ کہا ہے مگر ناسخ نے شفق کو خاک شہیداں کا بگولا کہا ہے۔ غور کیا جائے تو شفق کو خاک شہیداں کے بگولے سے تشبیہہ نہیں دی ہے بلکہ ایک حقیقت کو رد کر کے شاعرانہ تخیل کی صداقت قائم کی ہے۔ شفق کو واہمہ قرار دیا ہے۔ اس طرح شفق خاک شہیداں کا استعارہ بنتے بنتے رہ گیا ہے۔ لیکن یہ آئندہ کے لیے بطور استعارہ بھی استعمال کیے جانے کے امکان کو پیدا کرتا ہے۔ بگولا کہنے سے خاک شہیداں کا جو پیکر بنا ہے اسے تخلیقی قوت باصرہ ہی دیکھ سکتی ہے۔ ناسخ کا ایک شعر ہے ؂
بسکہ تھا ہر ایک مجھ کشتے کا باطن میں رقیب
خلق کے نوحے میں ہے عالم مبارک باد کا
اثر نے بھی اسی مضمون کا مقطع کہا ہے ؂
مبتلاے غم بہت تھا مر گیا شاید اثرؔ
شور ہے اغیار کے گھر میں مبارک باد کا
ناسخ کے شعر میں خلق کے نوحے میں مبارک باد کی دلیل نے نص کی حیثیت اختیار کرلی ہے اور ناسخ کے تخیل پر دال ہوگئی ہے۔ اس شعر کا کینوس وسیع ہے اور ایک کائناتی حقیقت کا رمز ہے۔ اس کے برعکس اثر کے پہلے مصرع کا دوسرے مصرع سے وہ ربط نہیں جو ناسخ کے شعر کا اختصاص ہے۔ اغیار کے گھر میں مبارک باد کے شور کی دلیل ’مبتلاے غم‘ کی موت نہیں بن سکتی۔ مبتلاے غم سے مراد اگر محض عشق لیا جائے تو بات بن سکتی ہے ورنہ معشوق کی بے التفاتی سے عاشق کا مبتلاے غم رہنا بھی اغیار کے لیے خوشی کا باعث ہے۔ غم ایک داخلی کیفیت ضرور ہے لیکن اثر کا شعر موثر داخلیت کے وصف سے عاری ہے۔ اثر کی ایک غزل کا مطلع دیکھیں ؂
فتنہ زا اس سے جو تیرا گیسوے پر خم ہوا
دست شانہ اے مسیحا پنجۂ مریم ہوا
پنجۂ مریم کی ترکیب ناسخ کے یہاں بھی آئی ہے، ملاحظہ کیجیے ؂
پاؤں میں اس پاک دامن کے تصدق سے نجات
جس کی پابوسی کو پیدا پنجۂ مریم ہوا
ناسخ اور اثر کے اشعار مختلف الموضوع ہیں۔ ناسخ کے شعر کی فنی خوبیاں عیاں ہیں۔ اثر کے شعر میں پنجۂ مریم معشوق کی بزرگی اور فضیلت کا اظہار بھی کرتا ہے۔ پنجۂ مریم ایک قسم گھاس ہوتی ہے جس پر حضرت مریمؑ نے حضرت عیسیؑ کو جننے کے وقت پنجہ مارا تھا اس وقت سے مذکورہ گھاس بہ شکل پنجہ ہوگئی۔ نور اللغات اور مہذب اللغات میں درج ہے کہ پنجۂ مریم کو پانی میں بھگو کر حاملہ عورت کے پاس رکھنے سے بچہ جننے میں آسانی ہوتی ہے۔ اثر کا مضمون اسی بنیادی نکتے سے نکلا ہے۔ غور و خاص اور لغات کے مطالعے کے باوجود شعر کی گرہ نہیں کھل رہی تھی۔ استاد محترم احمد محفوظ نے توجہ دلائی کہ شعر میں کلیدی لفظ ’زا‘ ہے اور معنی یہ ہوئے کہ معشوق نے جب دست شانہ سے اپنے بال سنوارے اور گرہیں کھل گئیں تب گیسو پُر فتن ہوگئے۔ یعنی معشوق کے ہاتھوں میں پنجۂ مریم سا اثر ہے جس کے سبب گیسوؤں نے دھڑا دھڑ فتنے پیدا کرنا شروع کردیا۔ اسی مضمون پر ذوق کا شعر بھی عمدہ ہے ؂
اس زلف فتنہ زا کے لیے اے مسیح دم
کچھ دست شانہ پنجۂ مریم سے کم نہیں
ذوق کے شعر میں دونوں ہی باتیں ہیں یعنی زلف بھی فتنہ زا ہے اور دست شانہ میں پنجۂ مریم کا اثر بھی ہے۔ غور کرنے کی بات ہے کہ بال سنوارنے پر کیا قیامت ہوگی۔ ناسخ کے شعر میں مریم اور پاک دامنی کے تعلق کی وجہ سے تلمیحی خصوصیت پیدا ہوگئی ہے۔ پنجہ کی رعایت سے پابوسی کا لفظ بھی خوب ہے۔ یہ شعر منقبت کا معلوم ہوتا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ پنجۂ مریم کی اس روایت کا بیان ہو جو اوپر درج کی گئی ہے۔ ناسخ کا اور ایک شعر ملاحظہ کیجیے ؂
بوسے لیتی ہے ترے بالے کی مچھلی اے صنم
ہے ہمارے دل میں عالم ماہی بے آب کا
اثر لکھتے ہیں ؂
گر ترے بالے کی مچھلی کا پڑے دریا میں عکس
موج میں ہوجائے عالم ماہی بے آب کا
«اثر کا شعر بالے کی مچھلی کی تعریف میں ہے۔ یہ شعر سراسر خارجی بیان پر مبنی ہے اور کسی بیرونی منظر کی عکاسی کرتا ہے جب کہ ناسخ کا شعر رعایتوں اور مناسبتوں کے علاوہ عشقیہ روایت سے بھی مربوط ہے۔ ایک خاص قسم کی جذباتی اور نفسانی کیفیت بھی موجود ہے۔ اثر کے شعر میں بالے کی مچھلی، دریا، موج اور ماہی بے آب کی رعایتیں خوب ہیں۔ اثر کہیں کہیں الفاظ کی معمولی تبدیلی سے خیال ہی بدل دیتے اور ایک الگ مضمون بنانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ مثال کے طور پر ذیل کے اشعار ملاحظہ کیجئے ؂
تصور ہر گھڑی رہتا ہے کس لیلیٰ شمائل کا

کہ اپنے دل کا پردہ بن گیا ہے پردہ محمل کا
نشانہ ہوگیا ہے ناوک مژگان قاتل کا

نہ کیوں کر طائر دل میں ہو عالم مرغ بسمل کا
لکھوں گر وصف تیغ ابروے خوں خوار قاتل کا

دکھاے طائر مضموں تڑپنا مرغ بسمل کا
فریب اے دل نہ کھانا باتوں ہی باتوں میں ]قاتل کا[

اثر اس کے لب شیریں میں ہے زہر ہلاہل کا
آخری شعر کے پہلے مصرع کی صورت نسخے میں ’’ فریب اے دل نہ کھانا باتوں ہی باتوں میں اے قاتل‘‘ ہے۔ کتابت کی صریح غلطی ہے کیوں کہ یہاں ’’اے قاتل‘‘ کا محل نہیں ہے لہٰذا قیاسی تصحیح قوسین میں درج کی گئی ہے۔ قیاسی تصحیح کو تقویت اس بات سے بھی ملتی ہے کہ آخری الذکر شعر اثر کی غزل کا پانچواں مطلع معلوم ہوتا ہے۔ درج بالا اشعار کے مقابل ناسخ کے درج ذیل اشعار ملاحظہ کیجیے ؂
پس جمازۂ لیلی یہ کہتا ہے جرس دل کا
ہمارا پردۂ غفلت ہی بس پردہ ہے محمل کا
پڑا عکس آب جو میں خنجر ابروے قاتل کا
دکھائے گا ابھی ہر گل تڑپنا مرغ بسمل کا
رقم کرتا ہوں مضموں خنجر ابروے قاتل کا
صریر کلک نالہ ہے گلوے مرغ بسمل کا
لب ساقی کے بوسوں کی گزک ہو گر نہ اے ناسخؔ
شراب زندگی میں ہے مزہ زہر ہلاہل کا
پہلے شعر میں اثر نے دل کو محمل کہا ہے کیوں کہ لیلیٰ شمائل کا تصور دل میں ہے۔ اپنی تمام تر رعایتوں اور مناسبتوں کے باوصف یہ کامیاب شعر ہے لیکن پہلے مصرع میں ’کس‘ کا محل میری سمجھ میں نہیں آیا۔ کیوں کہ دل کے پردے کو محمل کا پردہ کہنے کا جواز لیلیٰ شمائل سے مل جاتا ہے اور اس عمل میں ’کس‘ کا کوئی تعاون نہیں ہے۔ اثر کے آخری شعر کا مضمون ناسخ کے آخری شعر کے مضمون کی ضد ضرور ہے لیکن کوئی قابل ذکر لطافت قائم نہیں ہوئی کیوں کہ وضاحت بیان زیادہ ہے۔ ناسخ کے یہاں رندانہ رسومیات کا استعمال کر کے عشقیہ مضمون رقم ہوا ہے۔ ناسخ اور اثر کے مزید اشعار دیکھیں ؂
مر گیا ہوں دیکھ کر جلوہ رخ پر نور کا
میری لوح قبر کو زیبا ہے پتھر طور کا
ناسخ)

جب خیال آیا صنم تیرے رخ پرنور کا
میرے دل پہ شک ہوا موسیٰ کو شمع طور کا
(اثر)

میرے سینے پر بتوں کی سرد مہری سے ہے داغ
مشک سے بد تر ہے پھاہا مرہم کافور کا
سوزش اپنے داغ میں بھی ہے برنگ آفتاب
چاہیے جراح مرہم صبح کے کافور کا
ناسخ)
ہے یہ نقشہ آتش غم سے دل محرور کا
جل اٹھا پھاہا جو رکھا داغ پر کافور کا
(اثر)
’کافور‘ کے قافیے میں ذوق نے بھی بڑا عمدہ شعر کہا ہے ؂
تفتہ دل وہ ہوں کہ میرے داغ سوزاں کے لیے
گرمی مرہم سے اڑ جائے اثر کافور کا
(ذوق)
اثر کا شعر ہے ؂
بستر غم پر یہ نقشہ ہے ترے رنجور کا
پاؤں پھیلانا بھی اب اس کو سفر ہے دور کا
ناسخ نے اسی ردیف کو اس طرح باندھا ہے ؂
ہوگی طے راہ عدم کیوں کر کہ مجھ کو ضعف سے
اس کے منھ تک ہاتھ لے جانا سفر ہے دور کا
اثر کی ایک ہی غزل کے چند اشعار درج ذیل ہیں ؂
اس پری کا ہو رہا ہوں کس قدر میں محو یاد
اپنے دل میں آنہیں سکتا تصور حور کا
بعد مردن بھی رہے گا اے صنم تیرا خیال
نالۂ ناقوس ہوگا مجھ کو نالہ صور کا
عقد پرویں پر نہ ہو اے آسماں تو محو ناز
یہ تو خوشہ ہے کسی کے باغ کے انگور کا
اسی ردیف اور قافیے میں ناسخ کے اشعار ہیں ؂
اس پری کے چہرے کو تشبیہہ کس سے دیجیے
جس کا ہر نقش قدم دکھلائے نقشہ حور کا
دفن کردو کوے قاتل میں مجھے تا ہو نہ حشر
ورنہ نالوں پر یقیں مردوں کو ہوگا صور کا
اس قدر مشرب میں وسعت رکھتے ہیں ہم مے پرست
اپنے گلشن میں فلک ایک خوشہ ہے انگور کا
دھوپ کی ردیف میں اثر کا شعر ہے ؂
سائے سے جو اس رخ کے ہم آغوش ہوئی دھوپ
شرمندہ ہوئی ایسی کہ رو پوش ہوئی دھوپ
اسی مضمون کو ناسخ نے اپنے انداز میں باندھا ہے۔ ملاحظہ کیجیے ؂
کس قدر پر نور ہے سایہ مرے محبوب کا
چاندنی کی کیا حقیقت ہے کہ شرماتی ہے دھوپ
صبح کے قوافی کے ساتھ امداد امام اثر کے اشعار ملاحظہ کیجیے ؂
ہجر کی شب کیا ستم انگیز ہے تاخیر صبح
بھیج اے دل لشکر نالہ پۓ تعزیر صبح
فرقت دلبر میں کیا خوں ریز ہے تنویر صبح
ہر شعاع مہر روشن ہے مجھے اک تیر صبح
ہے شفق خون شب وصل غریباں کی دلیل
ہر کرن مہر درخشاں کی ہے اک شمشیر صبح
صبح کے قوافی میں ناسخ کے اشعار ملاحظہ کیجیے ؂
آج جو اتنی شب فرقت میں ہے تاخیر صبح
پنجۂ خورشید محشر ہے گریباں گیر صبح
وصل کی شب ہوچکی چمکی ہے تیغ آفتاب
قتل اب مجھ کو کرے گی ہائے یہ شمشیر صبح
فرقت محبوب میں ہے ماہ نو شمشیر شام
ہے ہماری جان کو خط شعاعی تیر صبح
ذیل میں چند اور مثالیں درج کی جاتی ہیں۔
کیا سمائے گی نظر میں باغ رضواں کی بہار
ہم کہاں جائیں الٰہی کوے جاناں دیکھ کر
(اثر)
موت سے ڈرتا نہیں لیکن یہ آتا ہے خیال
کیا بھلا جنت کو دیکھوں کوے جاناں دیکھ کر
ناسخ)
وصل کی شب میں ہے یوں مرغ سحر کی آواز
جس طرح ہو ملک الموت کے پر کی آواز
فصل گل یاد دلاتا ہے خزاں کا موسم
حسرت انگیز ہے اوراق شجر کی آواز
(اثر)
فصل گل میں ہے غنا مرغ سحر کی آواز
ساز مطرب سی ہے اوراق شجر کی آواز
جب کہ بے نامۂ محبوب کبوتر آیا
مجھ کو آئی ملک الموت کے پر کی آواز
ناسخ)
اثر کے دوسرے شعر کا مضمون ناسخ کے پہلے شعر کے مضمون کی ضد ہے۔ اثر کے شعر کا متکلم خزاں سے روبرو ہے اور اوراق شجر کی آواز محسوس کررہا ہے جبکہ ناسخ کے شعر کا متکلم فصل گل سے لطف اندوز ہورہا ہے۔ خزاں کے موسم میں زمین پر سوکھے پتے بکھرے ہوتے ہیں۔ کسی سبب سے پتوں میں ہونے والی ہلچل سے پیدا ہونے والی آواز میں حسرت انگیزی محسوس کرنا اور فصل گل کے نشاط اور چہچہے کو یاد کرنا عمدہ خیال ہے۔ اثر نے ناسخ کے مضمون پر عمدہ مضمون نکالا ہے۔ البتہ اثر کے پہلے شعر میں وہ حسن نہیں جو ناسخ کے دوسرے شعر میں ہے۔ مرغ سحر کی آواز اور ملک الموت کے پر کی آواز میں کوئی علاقہ نہیں۔ حالاں کہ اثر نے ناسخ کے مضمون پر نیا مضمون بنانے کی کوشش ضرور کی ہے مگر ناکام۔ ناسخ کے شعر میں کبوتر کے پر کی آواز کو ملک الموت کے پر کی آواز کے مشابہ قرار دیا گیا ہے۔
میں ہوں آزار کش اک شعلہ رو کی سرد مہری کا
تپ غم سے بدن پاتا ہے آسائش زمستاں میں
(اثر)
بتوں کی سرد مہری میں نہ کیوں کر داغ ہو سینہ
سروکار آگ سے ہوتا ہے ایام زمستاں میں
ناسخ)
میں سمجھتا ہوں کہ اثر کا یہ شعر بھی ناکام ہے۔ ’آزارکش‘ کا ’آسائش‘ سے کوئی علاقہ نہیں ہے اور زمستان میں تپ غم سے بدن کا راحت پانا سطحی رعایت ہے۔ ناسخ کے دوسرے مصرع میں بڑی ٹھوس دلیل ہے اور پہلے مصرع میں ٹھوس شاعرانہ حقیقت۔ اسی قسم کے مزید اشعار ملاحظہ فرمائیں ؂
الٰہی عمر گزری ہے ہواے کوے جاناں میں
رہے گی روح کیوں کر بعد مردن باغ رضواں میں
(اثر)
عبث ہے اے دل پر داغ ارادہ کوے جاناں کا
گذر طاؤس کا ممکن نہیں ہے باغ رضواں میں
ناسخ)
ہمیں تو چھوڑ کر گریاں کہاں اے یار جاتا ہے
نکلتا ہے کوئی گھر سے بھی باہر جوش باراں میں
(اثر)
مجھے روتے جو دیکھا ہوگیا روپوش غصے سے
کہ پنہاں جس طرح خورشید ہوجاتا ہے باراں میں
ناسخ)
ہو عکس زلف یار جو ظرف شراب میں
بال آئے رشک سے قدح آفتاب میں
(اثر)
عکس اس کی زلف کا نہیں جام شراب میں
بال آتے ہیں نظر قدح آفتاب میں
ناسخ)
محو حیرت کس قدر اپنا دل محزوں ہوا
بن گیا آنسو کا قطرہ چشم تر میں آئینہ
(اثر)
اشک کا قطرہ جو ٹپکے پیش جاناں کیا مجال
بن گیا سیلاب اپنی چشم تر میں آئینہ
ناسخ)
ہے وہ مسیح دم مری لیلیٰ جو قم کہے
مجنوں کفن کو پھاڑ کے نکلے مزار سے
(اثر)
ناسخؔ یہ وہ غزل ہے جنوں زا کہ سنتے ہی
سودا کفن کو پھاڑ کے نکلے مزار سے
ناسخ)
ہم خاک ہوکے کوچۂ جاناں میں رہ گئے
مرنے کے بعد بھی نہ ٹلے کوے یار سے
(اثر)
نقش وجود محو ہوا مثل نقش پا
نکلے نہ بعد مرگ بھی ہم کوے یار سے
ناسخ)
»اثر نے شیخ ناسخ کے بعض مصرعوں کو اپنے چند اشعار کے ثانی مصرعوں میں تقریباً جوں کا توں رہنے دیا ہے۔ یہ عمل تضمین کہلاتا ہے۔ تضمین کا اصول یہ ہے کہ جس شاعر کا مصرع یا پورا شعر کلام میں باندھا جاتا ہے اس کا نام بھی ظاہر کردیا جائے۔ اثر نے شعر میں ایسا کوئی قرینہ بھی نہیں رکھا ہے کہ ناسخ کے مصرعوں کو اثر کا مصرع نہ سمجھا جائے۔ تضمین کرتے وقت ایسا عمل اس وقت روا رکھا جاتا ہے جب ماخوذ مصرع یا شعر بہت مشہور ہو۔ امداد امام اثر اور شیخ امام بخش ناسخ کے مقابل اشعار درج ذیل ہیں ؂
کن رہا از دست نا مرداں مرا
الغیاث اے شاہ مرداں الغیاث
(اثر)
تنگ نامردوں کے جوروں سے ہوں میں
الغیاث اے شاہ مرداں الغیاث
ناسخ)
قہر دشمن سے سوا ہوتا ہے سوزاں داغ عشق
شمع کو کرتا ہے روشن تر ستم گلگیر کا
(اثر)
پہنچے ہم آتش زبانوں کو ضرر دشمن سے کیا
شمع کو کرتا ہے روشن تر ستم گل گیر کا
ناسخ)
ہر روش پر کبک و قمری نے بچھا رکھے ہیں دل
پاؤں رکھ گلشن میں او سرو خراماں دیکھ کر
(اثر)
طبع اول میں اثر کے درج بالا شعر کا مصرع ثانی ’’پاؤں رکھنا باغ میں سرو خراماں دیکھ کر‘‘ تھا۔ ناسخ کا شعر ملاحظہ کیجیے ؂
بچھ رہے ہیں برگ گل کوئی رگ گل چبھ نہ جائے
پاؤں رکھ گلشن میں اے سرو خراماں دیکھ کر
اثر کا شعر روایتی تشبیہات و استعارات سے مزین ہونے کے باوجود روایت کو پیش کرنے میں ناکام ہوگیا ہے۔ مضمون غالباً یہی نکلے گا کہ معشوق کے عاشقوں میں کبک و قمری بھی شامل ہیں یعنی ہر ایک معشوق پر نثار ہے۔ اثر معشوق کی فطرت میں ظلم و ستم کے عنصر کو سنبھال نہیں سکے اور دونوں مصرعوں میں وہ ربط نہیں جو ناسخ کے یہاں ہے۔بھلا سرو خراماں گلشن میں پاؤں کیوں سنبھل کر رکھے گا!! ناسخ کے یہاں مضمون معشوق کی نزاکت کا ہے۔ معشوق کی چال کے تعلق سے ایک شعرِ فارسی ’عرفی‘ اور ایک شعرِ اردو میر کا ملاحظہ کیجیے ؂
آہستہ خرام بلکہ مخرام
زیر قدمت ہزار جان است
جانیں ہیں فرش رہ تری مت حال حال چل
اے رشک حور آدمیوں کی سی چال چل
“عرفی کا شعر بلا کا ہے۔ لیکن میر کی صناعی نے جو کمال دکھایا ہے وہ بھی کم نہیں۔ ناسخ نے رگ گل کی ترکیب لا کر سنبھالا لیا اور مضمون نیا پیدا کیا۔ ممکن ہے عرفی اور میر کے شعر ناسخ کے علم میں رہے ہوں اور اثر ان تینوں اشعار سے واقف رہے ہوں۔ ناسخ کے شعر سے واقفیت کا ثبوت تو خود اثر کا شعر دے رہا ہے۔ اصولاً اثر کا شعر مذموم اور پست ہے۔
علاوہ ازیں اثر کے کچھ اشعار بہ تغیر الفاظ ناسخ کے مضمون سے حیرت انگیز یکسانیت رکھتے ہیں۔ ایسے چند اشعار درج ذیل ہیں ؂
ہے دلیل مرگ انساں کو سفیدی بال کی
اے اثرؔ معلوم ہے انجام جوے شیر کا
(اثر)
ہے دلیل مرگ انساں واقعی موے سفید
کوہ کن کی موت تھی انجام جوے شیر کا
ناسخ)
جاں گسل ہے درد ہجراں الغیاث
اے دواے درد منداں الغیاث
(اثر)
ہے جدائی دشمن جاں الغیاث
الغیاث اے وصل جاناں الغیاث
ناسخ)
’وصل جاناں‘ سے مدد طلب کرنے کا جواب ’دواے درد منداں‘ نہیں ہوسکتا اگرچہ ہجر کے ماروں کی دوا ’وصل جاناں‘ کے سوا کچھ اور نہیں۔
عارض گردوں پہ اک خال سیہ بن جائے ماہ
دیکھ لے چہرہ اگر میری شب دیجور کا
(اثر)
کیا اثر میری سیہ بختی کے آگے نور کا
ماہ ہے ایک خال رخسارہ شب دیجور کا
ناسخ)
کلاسیکی غزلوں میں اکثر آنسوؤں کو سیماب سے تشبیہہ دی گئی ہے اسی مناسبت سے ناسخ نے ایک شعر میں چشم گریاں کو معدن سیماب کہا ہے۔ ناسخ کا شعر ملاحظہ کیجیے ؂
جس حسیں کو دیکھتا ہوں میں ابل آتے ہیں اشک
میری آنکھوں میں ہے عالم معدن سیماب کا
اثر کا شعر ہے ؂
جوشش غم میں چلے آتے ہیں بے تابانہ اشک
چشم گریاں میں ہے عالم معدن سیماب کا
ذیل میں اثر کا ایک شعر درج ہے ؂
غیر اچھا ہزار بار اچھا
خیر ہم ہیں برے بھلا صاحب
اسی مضمون پر مومن نے مطلع کہا ہے ؂
ہے یہ بندہ ہی بے وفا صاحب
غیر اور تم بھلے بھلا صاحب
اثر نے صریر کلک کی ترکیب سے شاعرانہ تعلی کا مضمون عمدگی سے نکالا ہے ۔ شعر درج ذیل ہے ؂
کیوں نہ ہوجائے بپا بزمِ سخن میں شور حشر
کام لیتے ہیں صریر کلک سے ہم صور کا
ذوق نے بھی اس مضمون کو بڑی صفائی سے باندھا ہے اور سچ تو یہ ہے کہ ذوق کی بندشِ مضمون اثر کے شعر سے بہتر ہے۔ ذوق کا شعر دیکھیں ؂
گر لکھوں مضمون اپنے نالۂ پر شور کا
لوں صریر خامہ سے میں کام بانگ صور کا
اثر اور ذوق کے چند اور اشعار کا مطالعہ بھی دلچسپ ہوگا۔ اثر کے دو شعر ذیل میں درج ہیں ؂
جب سے سوداے زلف یار ہوا
نہ ہوئی خاطر پریشاں جمع
اے اثرؔ گو رہی پریشانی
ہوگیا تو بھی اپنا دیواں جمع
ذوق کہتے ہیں ؂
ذوقؔ کیوں کر ہو اپنا دیواں جمع
کہ نہیں خاطر پریشاں جمع
اثر کا شعر ہے ؂
کھینچوں جو گرم نالے ترے قد کی یاد میں
قمری بھی جل کے خاک ہو سرو چمن کے ساتھ
ذوق کہتے ہیں ؂
یاد آگیا تیرا قد رعنا جو باغ میں
کیا کیا لپٹ کے روے ہیں سرو چمن کے ساتھ
اثر کا شعر ہے ؂
دست جنوں کو شغل پس مرگ اے اثرؔ
ہوگا کفن کے ساتھ جو ہے پیرہن کے ساتھ
ذوق کہتے ہیں ؂
دست جنوں نہ دے تجھے ناخن خدا کہ تو
ٹکڑے اڑا دے تن کے مرے پیرہن کے ساتھ
اثر کی ایک غزل ’حسن کی جنس خریدار لیے پھرتی ہے‘ آتش کی زمین ’حسرت جلوۂ دیدار لیے پھرتی ہے‘ میں ہے۔اس غزل کے حوالے سے ڈاکٹر سرورالہدیٰ نے ’دیوان امداد امام اثر‘ کے مقدمے میں لکھا ہے کہ عبدالسلام ندوی نے اثر کی نثری تصنیف ’فسانۂ ہمت‘ کے لیے تقریظ لکھی تھی۔ اس تقریظ میں عبدالسلام ندوی نے اثر کی مذکورہ غزل کو آتش کی غزل کے مقابل رکھ کر دیکھا ہے۔ عبدالسلام ندوی کے نزدیک اثر نے آتش کے بعض مضامین کو لے کر ترقی دی ہے۔ اثر کی غزل انیس اشعار اور آتش کی غزل تیرہ اشعار پر مشتمل ہے۔ عبدالسلام ندوی کے نزدیک اثر نے آتش کے جن مضامین کو لے کر ترقی دی ہے وہ درج ذیل ہیں۔
آتش کا مطلع ہے ؂
حسرت جلوۂ دیدار لیے پھرتی ہے
پیش روزن پس دیوار لیے پھرتی ہے
عبدالسلام ندوی کے نزدیک دوسرا مصرع نہایت برجستہ تھا لیکن پہلے مصرع میں ترقی کی گنجائش تھی۔ لہٰذا اثر نے اس کی ترقی یافتہ شکل ذیل کے مطابق پیش کی ہے ؂
دربدر حسرت دلدار لیے پھرتی ہے
سر ہر کوچہ و بازار لیے پھرتی ہے
عبدالسلام ندوی نے یہ نہیں بتایا کہ دوسرے مصرع میں ترقی کی گنجائش کہاں اور کیوں ہے۔ اگر لفظ جلوہ کی شمولیت عبدالسلام ندوی کی ناپسندیدگی کی وجہ ہے تو بے دلیل ہے۔ یہ غلط فہمی اس لیے پیدا ہوئی کہ جلوہ اور دیدار کو ہم معنی لفظ سمجھ لیا گیا۔ جلوہ اور دیدار ہم معنی لفظ ضرور ہیں لیکن دیدار کے معنی چہرہ، رخ، منھ، دیکھنا، دید اور بینائی بھی ہیں۔ علامہ اقبال نے دیدار کو عشق و محبت کے معنی میں بھی استعمال کیا ہے ’کور را بینندہ از دیدار کن (جاوید نامہ)‘۔ جلوہ بمعنی نظارہ، نمائش آتا ہے۔ معشوق کے چہرے کی ایسی تابانی کو بھی جلوہ کہتے ہیں جس پر عاشق کی نظر نہ ٹھہرے۔ اقبال نے اسے دلکشی کے معنی میں بھی استعمال کیا ہے ’فکر من از جلوہ اش مسحور گشت (اسرار خودی)‘۔ جلوہ اور دیدار کے اب تک جو معنی درج کیے گئے ہیں انھی کی روشنی میں خواجہ آتش کی ترکیب کو جواز مل جاتا ہے۔ لیکن آتش کے شعر کے حوالے سے اہم بات یہ ہے کہ شاعری میں تنہا ’جلوہ‘ بھی جلوۂ الٰہی کے معنی میں مستعمل ہے۔ طور سینا پر موسیٰؑ کو دیدار کرایا جانا تھا لہٰذا جو جلوہ رونما ہوا وہ ’دیدار کا جلوہ‘ تھا۔ یہ تناظر آتش کی ترکیب ’حسرت جلوۂ دیدار‘ کی علویت کو ظاہر کرتا ہے۔ بندش کی چستی، مضمون کی پیش کش اور معنی کی سطح پر آتش کا شعر اثر کے شعر سے بہت بلند ہے۔ آتش کے شعر میں جو شان و شکوہ اور وجاہت ہے وہ اثر برقرار نہیں رکھ سکے۔ اس بات کا احساس غالباً اثر کو بھی تھا جس کے ازالہ کی کوشش انھوں نے مقطع میں کی ؂
حسرت دید اثرؔ حضرت آتشؔ کی طرح
پیش روزن پس دیوار لیے پھرتی ہے
لیکن اب بھی ’حسرت جلوۂ دیدار‘ والی شان پیدا نہیں ہوئی۔ ’جلوۂ دیدار‘ کی ترکیب سے ناسخ نے بھی بڑا عمدہ شعر کہا ہے ؂
بغیر جلوۂ دیدار آنکھیں جلتی ہیں
شرر ہیں لخت جگر کاہ ہر پلک ہم کو
آتش کی غزل کا تیسرا شعر ہے ؂
دیکھنے دیتی نہیں اس کو مجھے بے ہوشی
ساتھ کیا اپنے یہ دیوار لیے پھرتی ہے
عبدالسلام ندوی کا کہنا ہے کہ اثر نے آتش کے مندرجہ بالا شعر کو ایک ترقی یافتہ صورت میں بدل دیا ہے۔ اثر کی غزل کا ساتواں شعر ہے ؂
دشت میں قیس کو کیا آئے نظر جب لیلےٰ
ساتھ میں گرد کی دیوار لیے پھرتی ہے
اثر کا شعر خبریہ ہے جس میں ناقۂ لیلیٰ کی رفتار سے اٹھنے والی دھول کو گرد کی دیوار کہا گیا ہے۔ آتش کا شعر ہمہ جہت ہے اور اثر کا شعر اس کی ایک جہت ہے ترقی یافتہ صورت نہیں۔ حیرت ہے کہ عبدالسلام ندوی نے الفاظ کے تغیر سے تشکیل پانے والے ایک محدود شعر کو ترقی یافتہ صورت کن بنیادوں پر کہہ دیا۔ دشت، قیس، لیلیٰ اور گرد کی دیوار میں مناسبتیں ضرور ہیں لیکن ان عناصر کی وجہ سے اثر کا شعر آتش کے شعر پر فوقیت نہیں رکھتا۔ آتش کے پہلے مصرع میں خبر ہے لیکن دوسرے مصرع کا لہجہ انشائیہ ہے جس میں ’کیا‘ کی برجستگی لاجواب ہے۔ آتش کا دسواں شعر ہے ؂
در یار آئے ٹھکانے لگے مٹی میری
دوش پر اپنے صبا بار لیے پھرتی ہے
اس شعر کے بارے میں عبدالسلام ندوی نے بس اتنا ہی کہا ہے کہ اثر نے اس میں تبدیلی کی ہے ؂
گل سے کیوں کہہ نہیں دیتی ہے پیام بلبل
اپنے سر باد صبا بار لیے پھرتی ہے
شاعری میں صبا پیغام رسانی کا کام بھی کرتی ہے اس مناسبت سے صبا کی آوارگی کی علت، گل کے لیے بلبل کا پیام ہے۔ گل، پیام، بلبل اور صبا کو ایک دوسرے سے جو علاقہ ہے اس سے شعر میں خوبی پیدا ہوگئی ہے۔ آتش کے شعر میں نہ ہی یہ رعایتیں اور مناسبتیں ہیں اور نہ وہ مضمون جو اثر کے شعر میں ہے۔ اس کے باوجود آتش کا شعر زیادہ بہتر ہے اور صبا کی رعایت سے پیغام رسانی، گل اور بلبل کے انسلاکات لازم نہیں ہیں۔ صبا کے اور بھی کام ہیں اس لیے آتش کی ’صبا‘ کو میر کے درج ذیل شعر سے منسلک کر کے سمجھنا چاہیے ؂
آوارگان عشق کا پوچھا جو میں نشاں
مشت غبار لے کے صبا نے اڑا دیا
آتش کا بارھواں شعر ہے ؂
سایہ ساں حسن کے ہمراہ ہے عشق بے باک
ساتھ یہ جنس خریدار لیے پھرتی ہے
­عبدالسلام ندوی کہتے ہیں کہ اثر نے اسے مطلع کر کے بہت بلند کردیا ہے۔ اثر کا مطلع ہے ؂
حسن کی جنس خریدار لیے پھرتی ہے
ساتھ بازار کا بازار لیے پھرتی ہے
یہاں بھی عبدالسلام ندوی نے بلندی کی وجہ نہیں بتائی۔ کسی مضمون کو محض مطلع میں برت لینے سے بلندی نہیں آجاتی۔ دونوں اشعار کے مضامین مشترک ہیں لیکن آتش کے شعر میں برجستگی اور بندش کی چستی و درستی زیادہ ہے جس کی وجہ سے آتش کا شعر برتر ہے۔ اثر کے دونوں مصرعوں میں اس معیار کا ربط بھی نہیں جو آتش کے یہاں ہے۔ عبدالسلام ندوی کے بیانات تاثرات سے آگے نہیں بڑھ پاتے اور تقریظ محض ہیں۔ اگر صرف مطلعوں کی بلندی اور مطلع ہی سے متوجہ کرلینے والی خصوصیت کی بات کی جائے تب بھی میدان آتش ہی کے ہاتھ ہے۔ اثر کے مطلع پر گفتگو ہوگئی ہے، گفتگو آتش کے مطلع پر بھی ہوچکی ہے لیکن شعر کا اعادہ ضروری ہے ؂
حسرت جلوۂ دیدار لیے پھرتی ہے
پیش روزن پس دیوار لیے پھرتی ہے
تعجب ہے کہ امداد امام اثر ’کاشف الحقائق‘ میں جس خارجیت کو مطعون ٹھہراتے ہیں اور غزل کی سالمیت کے لیے مضر سمجھتے ہیں وہی خارجی آہنگ اثر کی اس غزل کے بیشتر اشعار میں موجود ہے۔ جب کہ آتش کی اس غزل میں مجموعی آہنگ داخلیت کا ہے اور آتش کی عمدہ غزلوں میں اس غزل کا انتخاب کیا جائے گا۔ اثر کی اسی غزل کا ایک شعر دیکھیں ؂
ساتھ دنیا کا نہیں طالب دنیا دیتے
اپنے کتوں کو یہ مردار لیے پھرتی ہے
اسی قافیے اور ردیف میں ذوق کا شعر بھی عمدہ ہے ؂
سب کو دنیا کی ہوس خوار لیے پھرتی ہے
کون پھرتا ہے یہ مردار لیے پھرتی ہے
حضرت امیر خسرو ’دیباچۂ غرۃ الکمال‘ (اردو میں ترجمہ لطیف اﷲ نے ناظم آباد، کراچی سے کیا ہے۔)میں شاعری کی ضمن میں شاگرد کی تین قسمیں بتاتے ہیں۔ شاگرد اشارت، شاگرد عبارت اور شاگرد غارت۔ شاگرد اشارت یہ ہے کہ شاگرد استاد کے سامنے اپنے کلام کو پیش کرے تا کہ استاد کی اصلاح سے اپنی خامیوں کو دور کر کے مشکلات کلام سے واقفیت حاصل کرلے۔ شاگرد عبارت یہ ہے کہ شاگرد صاحب کمال کی روش کا تتبع اختیار کرتا ہے اور جو لفظ و معنی استاد کی عبارت میں دیکھتا ہے اسے اپنے کلام کے لیے نمونہ بنالیتا ہے۔ امداد امام اثر کے کلام کا مطالعہ کرنے پر یہ خیال جاگزیں ہوتا ہے کہ اثر شاگردوں کی اسی دوسری قسم سے تعلق رکھتے ہیں۔ کیوں کہ اثر نے صرف میر اور غالب ہی نہیں بعض دوسرے اساتذۂ کلام کی روش کا بھی تتبع کیا ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اثر کی مرغوب ترین روش ’خیال بندی‘ ہے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اثر ان اساتذۂ کلام کے شاگرد تو تھے نہیں پھر انھیں شاگرد عبارت کس طرح کہا جاسکتا ہے۔ امیر خسرو بتاتے ہیں کہ ایسا شخص چوں کہ طرز کی پیروی کرتا ہے یعنی دوسرے کی طرز کا متبع ہے لہٰذا ’شاگرد طرز‘ کہلائے گا۔ نیز خسرو یہ بھی فرماتے ہیں کہ ایسی صورت میں وہ شخص استاد کہلائے گا جو صاحب طرز ہے۔ ولی، میر اور غالب سے عقیدت کا اظہار کرنا اور ان باکمال شعرا کے رنگ میں شعر گوئی کا دعویٰ کرنا اردو غزل کی تہذیبی روایت کا مظہر ہے۔ امداد امام اثر بھی اس تہذیب سے اپنی وابستگی کا اعلان کرتے ہیں۔ مثلاً ؂
تم ہی نہیں ہو میرؔ اثرؔ اس دیار کے
راسخؔ بھی میر وقت کبھی تھے بہار کے
کیوں کر مزا نہ قند مکرر کا دے کلام
دھو کر پئے ہیں غالب شیریں سخن کے پاؤں
کہتے ہیں یوں تو صاحب دیواں مگر اثرؔ
کوئی غزل سرا نہ ہوا میرؔ کا جواب
اسی طور پر اثر کی ذہنی ہم آہنگی یا تخلیقی جڑیں غالب کے یہاں بھی تلاش کی جاسکتی ہیں۔ غالب سے اثر کی وابستگی کا جائزہ ’دیوان امداد امام اثر‘ کے مرتب اور مقدمہ نگار محترم سرورالہدی نے بڑی خوش اسلوبی سے لیا ہے۔ اس مقدمے سے کلام اثر کے تعین قدر میں خاطر خواہ مدد ملتی ہے۔ اس بات کا ذکر بھی دلچسپ ہوگا کہ ’کاشف الحقائق‘ میں اثر نے ناسخ کے یہاں تشبیہوں اور غالب کے یہاں استعاروں کی کثرت کے ساتھ ساتھ غالب کی طول طویل فارسی تراکیب سے بھی بیزاری کا اظہار کیا ہے۔ اثر جب شعر کہتے ہیں تو خود بھی اسی جال میں الجھ جاتے ہیں یہ الگ بات ہے کہ مبالغے کی اس شدت کو قائم نہیں رکھ پاتے جو ناسخ اور غالب کا امتیاز ہے۔ ممکن ہے اثر یہ کام شعوری طور پر کرتے ہوں۔ سردست اس بات کی مثال بھی دیکھ لینا بہتر ہوگا۔ غالب کہتے ہیں ؂
میں نے روکا رات غالب کو، وگرنہ دیکھتے
اس کے سیل گریہ میں گردوں کف سیلاب تھا
’کف سیلاب‘ کو اثر نے جس طرح برتا ہے، ذیل میں درج ہے ؂
کچھ نہ پوچھو اے اثر طوفان رنج ہجر یار
جوشش گریہ سے بستر اک کف سیلاب تھا
غالب دہلوی کے بارے میں اثر نے جو کچھ لکھا ہے اور جس طور پر لکھا ہے، درک میں نہیں آتا۔ خدایا یہ شاعری کی تنقید ہے یا دیوانگی۔ ایک داخلی نقاد اپنے کائنات کے درون میں ہی گم ہے۔ ایک بات کہتے ہیں اور اگلے ہی پل اس پر خاک ڈالتے ہیں۔ عجب جذب و مستی میں لکھتے ہیں:
حقیقت یہ ہے کہ غالب کی غزل سرائی میں میر کی جھلک نمایاں ہے۔ لاریب واردات قلبیہ اور امور ذہنیہ کے مضامین میں غالب قریب قریب میر صاحب کے پرتاثیری کے ساتھ باندھ جاتے ہیں۔ مگر حالت یہ ہے کہ ان کے مختصر دیوان میں بہت کم شعر ہیں جو میر صاحب کی سادگی کلام کا لطف دکھاتے ہیں۔ زیادہ حصہ ان کے کلام کا استعارات سے بھرا ہوا ہے۔ اضافتوں کی وہ بھرمار ہے کہ بعض وقت جی گھبرا اٹھتا ہے۔ کہ الٰہی اضافتوں کا سلسلہ کب ختم ہوگا۔ الفاظ فارسی کی وہ کثرت دیکھی جاتی ہے کہ یہ نہیں معلوم ہوتا کہ اردو کے اشعار زیر نظر ہیں یا فارسی کے ان باتوں کے علاوہ کبھی کبھی اغلاق مضامین کا وہ عالم دکھائی دیتا ہے کہ ادراک اپنے فعل میں قاصر ہونے لگتا ہے۔ بلاشبہ ان کے ایسے کلام کوئی لطف غزلیت نہیں رکھتے۔ اگر ان کے دیوان کا کوئی انتخاب جدید کیا تو لازم ہے کہ ایسے ایسے متعلق اشعار خارج از دیوان کردیے جائیں۔‘‘
(کاشف الحقائق، امداد امام اثر، قومی کونسل فروغ اردو زبان نئی دہلی، دوسرا ایڈیشن ۸۹۹۱، ص: ۵۳۴)
درج بالا اقتباس پر ناظرین بنظر انصاف غور فرمائیں تو غالب کے دیوان میں کیا بچے گا؟ جب کہ دیوان غالب مع نسخۂ حمیدیہ کچھ ضخیم نہیں۔ یہ بیان نقاد کی آمریت کا مظہر ہے۔ انفرادی ذوق کیسے مغالطے قائم کرتا ہے درج بالا اقتباس سے عیاں ہوجاتا ہے۔ اثر کا درج بالا بیان یہ سوال پیدا کرتا ہے کہ کسی قاری کے انفرادی ذوق پر کس حد تک اعتماد کیا جاسکتا ہے؟ یہ بات ٹھیک ہے کہ نامانوس الفاظ کا استعمال اور غلو یعنی مبالغہ کی وہ قسم جس میں دعویٰ از روے عقل اور از روے عادت دونوں ہی صورتوں میں محال ہو کلام میں ممدوح نہیں۔ لیکن یہ قاعدہ اکثری ہے کلی نہیں۔ کلام غالب اس دعوے کی بین دلیل ہے۔
’کاشف الحقائق‘ میں غالب کے حوالے سے لکھا ہے کہ مرزا غالب اور مومن خان مومن نے اوائل شعر گوئی میں ناسخ کے رنگ کو اپنانے کی کوشش کی اور اسی رنگ میں مشق سخن بھی کرتے رہے۔ بعد میں مومن نے وہی رنگ اپنا لیا جو مومن کا اپنا رنگ ہے اور غالب نے میر کے رنگ کو اپنا لیا۔ ظاہر ہے غالب کے اس بیان سے اسی حد تک اتفاق کیا جاسکتا ہے کہ کلام میر چوں کہ بت ہزار شیوہ ہے لہٰذا اس میں وہ رنگ یعنی ’خیال بندی‘ بھی ہے جسے غالب نے اپنایا۔ اس جزوی مماثلت کے علاوہ غالب کو میر سے کچھ علاقہ نہیں۔ اسی طرح امدام امام اثر غزل کے دائرے کو محدود کرنے اور واردات قلبیہ؍داخلیت پر اصرار کے باوجود سب سے زیادہ ناسخ ہی کے قریب ہیں۔ لیکن اثر اپنے تخلیقی رشتے کو میر و غالب اور راسخ عظیم آبادی سے منسلک کر کے دیکھتے ہیں۔ اس تحریر میں پیش کردہ اشعار اگرچہ قوافی و ردیف کے اعتبار سے مشترک ہیں اور مضمون بھی بیش تر اشعار کا ایک ہی ہے، اثر کے اکثر اشعار میں نہ زبان کی ندرت نظر آتی ہے اور نہ ہی بیان اور معنی کی سطح پر کسی قسم کی تازگی کا احساس ہوتا ہے۔ مجموعی طور پر اثر خارجی مضامین بھی کامیابی کے ساتھ نہیں پیش کرسکے، داخلی رنگ تو بعید ہے۔

MOHD. MUKEEM
A-10, BATLA HOUSE CHOWK
JAMIA NAGAR, OKHLA
NEW DELHI, 110025

اس مضمون کو پی ڈی ایف میں ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
اردو ریسرچ جرنل (اگست۔اکتوبر 2014)کو مکمل پی ڈی ایف میں ڈاؤن لوڈ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
نوٹ: اردو ریسرچ جرنل کی کسی بھی بھی تحریر کو بغیر اجازت نقل نہ کریں۔ (مدیر)

Leave a Reply

1 Comment on "*امداد امام اثر کی غزل گوئی: ایک مختصر جائزہ"

Notify of
avatar
Sort by:   newest | oldest | most voted
trackback

[…]  امداد امام اثر کی غزل گوئی: ایک مختصر جائزہ […]

wpDiscuz
Please wait...

Subscribe to our newsletter

Want to be notified when our article is published? Enter your email address and name below to be the first to know.