تانیثیت:چند بنیادی مباحث
عربی لفظ ’تانیث‘’تانیثیت‘سے مشتق انگریزی متبادل’Feminism‘لاطینی اصطلاح ‘Femina’ کا مترادف ہے۔ معنیٰ ومفہوم تَحرِيکِ نِسواں ، نَظَرِيَہ ،حَقُوقِ نِسواں اور نِسوانِيَت کے ہیں۔ ابتدا1871ًء میں فرنچ میڈیکل ٹکسٹ میں لفظFeminist نسوانیت والے مردوں کے لیے استعمال کیا گیا تھا ۔ مغرب میں تحریک آزادی نسواں حامیوں کو بھی کہا گیا۔بعد میں باقاعدہ لفظ’Feminism‘تحریک ِ نسواں کی اصطلاح بن گیا ۔اور ’حقوق نسواں‘ ، آزادی نسواں‘ یا ’ناری آندولن‘ سے جانی جانے والی تحریک کے بنیادی نظریات میں سیاسی، سماجی، معاشی ، معاشرتی،تعلیمی، اخلاقی اور تہذیبی طور پر دونوں جنس کے لیے مساویانہ حقوق کے ہیں ۔بالخصوص نسائی حقوق سے جڑی تمام فکروں کا مرکب ہے۔ اس تحریک کی خواتین علمبر داروں کے لیے’Womanist’ اصطلاح مستعمل ہے ۔لفظ’ کا ز’بھی تانیثی مسائل کے لیے انہیں ناقدین کےاستعمال میں ہے ۔ اس کے برعکس عورت پسندی’Womanism’ہےجو خواتین میں رجولیت نازَن پسندی’Feminism’ ہے۔ یہ دونوں مختلف مکاتب کی فکریں ہیں۔اس تحریک کا مقصدخواتین کےوہ تمام مسائل جو آنسوؤں سے لیکرمسکراہٹ تک در پیش آتے ہوں۔اس ضمن میں ایلین شو والٹرنے تانیثی تنقید کی چاراہم جہات کی نشاندہی کی’’۱۔حیاتیاتی۲۔لسانیاتی۳۔تحلیلِ نفسی ۴۔کلچرل تنقید۔‘‘لیکنFeminismکی علمبرداربھی اس تحریک کی مناسب اصطلاح یا لفظ کی تلاش میں نظر آتی ہیں۔”تحریک نسواں کی حامی فکر یہ ہیں آخر جب’عورت’کے لیے کس لفظ کا استعمال ہونا چاہیے’ویمن’ کا استعمال تو مسئلہ پیدا کرتا ہےیہ بعض اوقات ‘ویمن'(عورت) استعمال میں ہےاس کا مطلب’تمام خواتین’ نہیں ہوتی۔” ”یہی خیالJudith Event کا بھی ہے ”نہ عورت،نہ مرد۔تحریک نسواں کا ہدفAndrogynous یعنی دونوں کے جنسی امتیازات مٹا کرلفظ جنس(Gender) تمام اختلافات کا بدل یا اَہداف ہے۔موجودہ حقوقِ نسواں کی ناقدین کی اصطلاح Feministہےاورتحریک آزادی نسواں کے لیےFeminismہے۔
’تانیث‘کی تشریح :
خواتین کی جدت پسندی اور اعتدال روی سےسیاسی،سماجی، اخلاقی،تعلیمی اور اقتصادی لحاظ سےجنس کی تخصیص و تشخص کے بر خلاف برابری قائم کرنا ۔ ظلم و استبدادسے آزاد زندگی فراہم کرنا۔ انہیں انسان کی حیثیت دینا تاکہ سماج کو متحرک کر کے رشتوں کے درمیان امتیازات بھی ختم ہو جا سکیں۔ حق تلفیاں اور ان پرہورہےجبر و استحصال کے خلاف ایک مہم چلائی جائے۔ بین الاقوامی سطح پر سماجی و اقتصادی لائحہ عمل وجود میں آئے۔ناروا سلوک،استحصال،جنسی جبر،دہشت،غیر مساوی حقوق،منافقانہ اخلاقی اقدارنیزفرسودہ خاندانی رشتوں کے علاوہ معاشرتی اقتدار تک کی اس قدرآگہی پیدا کرنا کہ اجتماعی شعور بیدار ہوسکے۔’’ووف کا خیال تھا کہ نسائی جدّو جہد کا ایک مقصدمردانہ پن اور نسائیت کے زوجی تضاد کو ڈی کنسٹرکٹDeconstruct) (کیا جائے۔‘‘تاکہ عورت بھی مرد کی طرح اپنی مرضی کے مطابق زندگی کے تمام فیصلے خودکرے۔انہیں اپنی مرضی پر پورااختیارہو۔اس ضمن میں ابولکلام قاسمی نے سیمون دی بوائر کی تصنیف’the Second Sex ‘میں مردوں کے اصول و نفسیاتی فریم ورک کو اس طرح بیان کیا ہے”عورت پیدائشی طورپر ہمارے طے کردہ صفات کی حامل نہیں ہوتی بلکہ پدری معاشرےیاPatriarchal Society میں وہ عورت بنادی جاتی ہے اور رفتہ رفتہ وہ بھی خود کو ان ہی صفات سے متصف سمجھنے لگتی ہے جو مردوں کی طرف سے ان کے ساتھ وابستہ کردی گئی ہیں۔‘‘سیمون نے خواتین کی ذہنی تربیت اسی لیے کی ہے تاکہ وہ پدرانہ سماج کے بر خلاف مردوں کی تنگ ذہنیت کو چیلنج کرسکے۔ عام طورپر مردخواتین کواپنا محکوم ،تابع ،حقیر اور کمزورسمجھ کراس کا حق چھینااورمہمل قرار دیا ہےجس سےوہ جنسی،نفسیاتی،عقلی،طبقاتی اور نسلی بنیاد پراستحصال کی شکارہورہی ہیں۔مرد کے ذہن میں جو نسائی تصویر ہے اس کے برخلاف عورت یہ ثابت کرتی ہے کہ وہ ماں بننے،پرورش و پرداخت اور گھریلو کام تک ہی محدود نہیں ہے۔ فطری طور پردونوں جنس کے درمیان سوائے جسمانی ساخت کے وحدت،قوت،تعقل اورمثبت اوصاف مساوی ہیں۔اس تصور سےجنسی و صنفی شناخت کی تشکیل اور باہمی بیداری پیدا ہو کیوں کہ دونوں نوع انسانی کاحصہ ہے۔ تانیثی فکر ان تمام مروج نظام پر کاری ضرب لگا کر د ونوں جنس کے باہمی شعور کو اجاگر کر تی ہے۔ اس ضمن میں عتیق اللہ رقم طراز ہیں’’تانیثیت کا موقف اُس عورت کوDeconstructکرناہے جو اپنی ذات ہی سے بے خبر نہیں تھی بلکہ اس سماجی تہذیبی منظر نامے سے بھی نا بلد تھی جس کے جبرنے اُسے مجہول حقیقت میں بدل کر رکھ دیا تھا۔‘‘
اگر چہ مرد طاقتور ہے توعورت معاشرے کی بنیادی ضرورتوں کو پورا کرتی ہے۔لیکن انہیں گھریلو کام سونپ دیا گیا ہے ۔ پاک دامنی اورشرم و حیا کو’’ خواتین ثقافت ‘سے جوڑکر انہیں محکوم وتابعدار رکھ کر ان کے جذبات پربھی کنٹرول کیاجاتا ہے۔بیشتر خواتین اپنے وجود کی ناواقفیت سے مردکی ماتحت بن کر مرضی سےغلام ہے۔ملازمت ہو یا کاروبار ہر میدان میں دونوں برابر خدمات انجام دے رہے ہیں ۔ پھر بھی اُنہیں آدھی سے کم اجرت ملتی ہے ۔ہر شعبے میں از سرِنو تقسیم ہوتب ہی وہ خود کفیل بن سکتی ہے۔مرد صرف بیرونی کام کرتے ہیں۔خواتین کے حصے میں گھریلو کام ہیں ۔ جب کہ’عورت عقلی،فکری اور تخلیقی سطح پر کم تر یا کمزور نہیں ہوتی۔ اس کی صلاحیتوں کو ہمیشہ جھٹلایا گیا ہے۔ اسے کبھی مراعات یاماحول ہی میسر نہیں آئےجس کی بنا پر وہ پورے شدومد اور اعتماد کے ساتھ خود کو وقف کر سکے۔‘‘مرد اگروقتی طورپر خواتین کی خدمات سے متفق ہو کر رحم و کرم سے حاکم بنا بھی دیں تو اُن کی تمام تخلیقی صلاحیتو ں کونظر انداز کر تاہے۔
خواتین کےحصےمیں زیادہ تر کام امُور خانہ داری ، منڈی معیشت ،اشتہارات تکےہی محدود ہیں۔ دیگرپیشوں میں بھی ان کی صنف اور جنس متاثر ہوتی ہے۔جس سےان کی پہچان رنڈی،کنٹا،طوائف،کال گرل،منحوس،کنیز،رکھیل،کلموہی،ڈائن،چڑیل،صنفِ نازک،مغلوب وتا بعدار صنف، مجہول کمزور ، ناقص العقل یاکم عقل اورکم فہم کی بن گئی ہے۔یہاں تک کےگالیاں بھی ان سے ہی منسوب ہیں۔ جس کی اعلیٰ مثال ہندو پاک کے علاوہ پنجابی کلچر میں دیکھی جاسکتی ہے۔اس مسخ شدہ تصویر کا سدباب کر نا ہو گا ۔ یہ ان کی ذات پر زیادتی ہے۔وہ تمام کیفیات انہیں دیکھنے سے لیکرسمجھنے تک کے انداز، ان کی سماجی حیثیت ومرتبے کی صحیح پہچان کرنا نیز جنسی تفریق کے شعوری یا غیر شعوری احساسات کو جڑ سے مٹادینا۔
’تانیثیت‘ کی مکمل ایک جامع تشریح ممکن نہیں۔ غالباً یہی رائے آج تک کے قلم کاروں نے پیش کی ہے۔اس صورت میں یہ تسلیم کرلینا چاہیےکہ تانیثیت ایسی تحریک ہے جس میں لڑکی کی پیدائش سے موت تک در پیش ہونے والے مسائل حل کرنےسے متعلق جو کوششیں کی جا رہی ہیں وہی ثانیثیت ہے۔اس کادائرہ بہت وسیع ہےجس میں مذاہب،قوانین،سیاسیات،فلسفے،نفسیات،اخلاقیات،معاشیاتی حقوق اورایسی مثبت سوچ،مدبرانہ تجزیہ ودانشورانہ اسلوب ہے۔جس کے اہداف میں نسائی حق و انصاف کی بالا دستی ،حریت فکر،آزادی اظہار اور معاشرے کو ہر قسم کے استحصال سے بچنے کی ترغیب ہے۔ جوان کی سماجی ،ثقافتی،معاشرتی ،سیاسی ،عمرانی اور ہر طرح کی تخلیقی اقدار و روایات کو مثبت انداز میں بروئے کار لانے کی راہ دکھاتی ہو۔معاشرےکے تمام انسانی کاموں کو مساوی درجہ دینے کی جدتِ فکر ہی تانیثیت ہے۔
تانیثیت کی وجوہات :
خواتین پرصدیوں سےہو رہےظلم وستم جس میں رحم مادرجنین میں لڑکیوں کاقتل ،عصمت دری،چھیڑ چھاڑ، کم عمر ی کی شادی ،عتاب وعذاب کی شکار ،امورخانہ داری ،طلاق ،جسمانی وذہنی اذیتیں، ابتلا ،خاوند سے بیوی پر لعنت ملامت، گالی گلوچ ، ناگفتہ حالت، سسرالی مخالفانہ تنازعات، ظلم و ستم ،استحصال اورزیادتی کے خلاف حقوق کی بات کرنا ۔ اُس معاشرے کے خلاف جنگ ہےجو صنف نازک پر امتیازی روا رکھتا ہو۔ان حالات میں خواتین ایک فرد کی حیثیت سے جذبات ،احساسات اورتخیلات کا اظہار کر سکیں،حقوق کی بازیافت کے لیے برسرپیکار ہوں۔
ابتدا سے ہی خواتین کا مذہبی استحصال۔جاگیردارانہ فرسودہ قوتوں کی سوچ جوجائز حقوق کی بازیابی کو سم قاتل گردانتے ہیں۔’پدر شاہی‘نظام سے سیاسی ، سماجی،اقتصادی، معاشی اور مذہبی ہر شعبہ میں مرد اجارہ داراور معاشرتی بالادستی رکھتا ہے۔ جس سے خواتین کے درمیان تفریق کی گئی اورغلط رسومات کے تحت صرف مذہبی تعلیم دی جانے لگی۔عصری اور اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے سے روکا گیا ۔جس کی بنا پر ان کی اہمیت ہرشعبہ میں کمتر مخلوق اور پسماندہ عنصر اورحیثیت مرد کے زیر نگیں ہے۔انہیں مذہبی روایتوں اور معاشرے کی زنجیروں میں جکڑ دیا جاتا ہے۔ اشیاء کی طرح خریدوفروخت کی جاتی ہے۔ مقابلوں میں جیتی و ہاری جاتی ہیں اوربطورِ ہدیہ دی جاتی ہیں۔ان پرآئے دن انسانیت سوز مظالم وقوع پذیر ہورہے ہیں۔ان حالات سے خواتین کے حق میں زمین سخت اور سورج سوا نیزے پر ہوتا ہے۔
خواتین نکاح،’حق خلع، وراثت،طلاق کے بعد بچوں کی تحویل کے حقوق اور جائیداد کے حصوں سے بے خبررہتی ہیں۔ان تمام مسائل کی راست آگہی کےلیے یورپ میں گزشتہ دوسو بیس سالوں سے سیاسی، سماجی اور ادبی تحریکیں ابھرتی رہی ہیں ۔ مقصد معاشرے میں خواتین کا مقام متعین کرنا اورمرد کی اجارہ داری ختم کرنا ہے۔ان پر ہورہے تمام مظالم کے ردعمل پر ہی تانیثیت کا تصور ظہور پذیر ہوا۔ اس تحریک سے خواتین استقامت کے ساتھ اپنی اثبات چاہتی ہیں۔
پدری سماج میں خواتین:فاتح افواج کےمالِ غنیمت کا اہم حصہ خواتین ہو تی تھیں جس کا بٹوارہ بھی سامان کی طرح ہوتاتھا۔ ان خواتین کی اہمیت گھٹ کر کنیز اور لونڈی کی ہوجاتی تھی۔اس کے بعد مالک جنسی تسکین حاصل کریں یا تحفہ تحائف میں پیش کریں۔جنگ کی فتح کے بعداہم خوش خبری خواتین کی گرفتاری ہوتی تھی۔ خوبصورت خواتین حکمرانوں اور امراء کے حصے میں جاتی تھیں باقی سپاہیوں میں تقسیم کی جاتی تھیں۔ جنگوں میں شکست کے آثار نظر آتےتومرد عزت و آبرواورشرمندگی سے بچنے کی خاطرخودہی اپنی خواتین کا بے رحمی سے قتل کر تےیا زندہ جلا دیتےتھے۔ جنگوںمیں سب سے زیادہ اذیت اور نقصان خواتین ہی اُٹھاتی ہیں۔ڈاکٹر مبارک علی لکھتے ہیں”فاتح افواج سب سے پہلے مفتوح اقوام کی عورتوں کی آبرو ریزی کرتے تھے۔ اور یہ قدیم تاریخی ہی بات نہیں۔ دوسری جنگ عظیم میں روسیوں نے جرمنی خواتین کی اجتماعی آبرو ریزی کی اور سربیا اور بوسنیا کی جنگ میں، سربیا کی فوجیں بوسنیا کی خواتین کی عصمت دری کی۔،، تعجب ہے حکمرانوں سے لے کرعہدے داروں تک غالباً سبھی کی ایسی گھٹیا سوچ بن گئی تھی۔اس کا ایک اورالمیاتی پہلو یہ ہے کہ فاتح افواج مفتوح خواتین کی عصمت دری سے قوتِ رجولیت ومردانگی کا ثبوت دیکر اپنی فتح ثابت کر نے کو فخر سمجھتے تھے ۔ انہیں اس عمل سے عزت و احترام ملتا تھا۔
اگر خواتین کسی طرح سے یہاں بچ بھی جائیں تو قدا مت پسند امراء اپنی خواتین کو قربت اور زیادہ مراعات حاصل کر نے کی غرض سے بادشاہوں کی خدمت میں بطورِتحفہ پیش کرتے تھے ۔اس طرح حکمرانوں کوحرم میں خوبصورت خواتین کو جمع کر نے کا شوق ہوگیاتھا۔جس کی بنا پر اکثر جنگیں ہوتی تھیں۔ ہیلن آف ٹروئےہو یا کلو یٹرا جنگوں کا سبب تک عورت کا حصول بنا۔اس سلسلے کا ایک واقعہ بر طانوی افسر مالکم نے اپنی کتاب’وسطِ ہند کی یادداشتوں، میں لکھاہے۔”راجستھان کی ریاست کی ایک خوب صورت شہزادی کے حصول کے لیے دو راجہ جنگ کے لیے تیار ہو چکے تھے۔ اس پر شہزادی کے باپ کو مصاحبوں نے یہ مشورہ دیا کہ چوں کہ اس جنگ کا باعث شہزادی ہے اس لیے اگر شہزادی کو راستے سے ہٹا دیا جائے تو یہ جنگ اور قتل و غارت گری رک سکتی ہے۔اس مشورے پر عمل کرتے ہوئے شہزادی کو زہر دے کر ماراڈالاگیا۔‘‘ اس کا المیاتی پہلو یہ ہے کہ شہزادی کو دونو ں راجاؤں نے نہیں دیکھا تھا۔خوبصورتی کی بنا پر خاتون کی موت ہو گئی ۔
دانشوروں کی نظر میں تھوڑی بہت عزت عورت کی ہے بھی تو وہ بحثیت ماں ہےکیوں کےاس نے بہادر اور عظیم جیالےمرد پیدا کیے۔ خواتین کا رول اولاد کی پیدائش کے ساتھ ختم ہو جاتا ہے۔ جب کہ بچہ کا ماں سے محبت کرنا فطری ہے پھر بھی باپ کی اطاعت کر تا ہے۔ماں کی محبت غیر مشروط ہو تی ہے۔ لیکن باپ توقع رکھتا ہے مثلاًجانشینی کی آرزوئیں،بدلا،تخت نشینی،جائداد ،شہرت اور بڑھاپے کا سہارا۔ماں اِن تمام اغراض سے بے غرض ہےاورنسلوں کو جاری رکھنے کا وسیلہ بھی ہے۔
قدیم زمانے سے آج تک مرد کم عمر لڑکیوں سے شادی کرتے آئے ہیں۔ اگر عورت مرد سے بڑی ہو تو لوگ تعجب کرتے ہیں۔مرد اور عورت میں ۲۰سے ۲۵ سال تک کے فرق سے رشتے کرتے ہیں جس سے مضر اثرات یہ ظاہر ہوتے ہیں مردخواتین کا ساتھ لمبی عمر تک نہیں دے پاتے اور دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں ۔ ان حالات میں کم عمر بیوہ خواتین دنیا کے کرب سہتے سہتے بعض گھٹ گھٹ کر زندگی گزارتی ہیں باقی کسی غلط پیشے میں مبتلا ہو تی ہیں۔سماج میں بیوہ اور مطلقہ خواتین کی عزت نہیں کی جاتی لیکن مرد ان تمام الزامات سے بری ہیں۔یہودیت اور عیسائیت کے آتے آتے نسائیت بالکل گر گئی تھی۔
”توریت میں شوہر سے کہا گیا ہے کہ وہ اپنی بیوی سے ایسے خطاب کرے جیسے کہ آقا غلام سے اور بادشاہ رعایا سے کرتا ہے۔ شوہر کو یہ اختیار تھا کہ وہ جب چاہے بیوی کو طلاق دے دے ۔مگر عورت کو مرد سے علیحدگی کا کوئی حق نہیں تھا۔ اگر عورت سے بے وفائی ہو جائے تو اسے ایک سنگین جرم سمجھا جاتا تھا۔ اگر اس پر زنا ثابت ہو جاتا تو اسے سنگ سار کر دیا جاتا تھا۔ اگر بچہ نہیں ہو تا تھا تو اس کی ساری ذمےّ داری عورت پر آتی تھی۔باپ کو یہ حق تھا کہ وہ اپنی بیٹی کو فروخت کردے۔یہودی مرد کی یہ دعا ہوا کرتی تھی کہ’خدا تیرا شکر ہے کہ تو نے مجھے عورت نہیں بنایا۔‘‘
مذہبی عقیدے سے مرد کو اور بھی فوقیت ملی جس کی بنا پر وہ خواتین کا حاکم ومجازی خدا بن گیااور اسے یہ احساس بھی ہو گیاکہ وہ آدم ذات سے ہےجس کی تخلیق خدانے پہلے کی پھر حوا کو پیدا کیا۔جہاں مذہب تھوڑی سی افضلیت مرد کو دی اس نےپوری طرح غلط استعمال شروع کیا۔
زمانہ قدیم سے ہی لڑکیوں کےقتل ، اسقاط ِ حمل اوردودھ میں ڈبو کر ہلاک کرنے کا رواج تھا۔ ان تمام دشواریوں سے گزر کر جو لڑکیاں زندہ بچ جاتی تھیں انہیں تنگ مزاج عہدیدار، تجارتی ذہنیت ،بدترین مردانہ ترجیحات کا ملغوبہ مرد گھریلواور نجی ذمہ داریوں میں جکڑ دیتے تھے۔جس کی وجہ سےوہ خاموش، بے زبان،مجبوری اور بے عمل ہو جاتی تھیں۔اس کی اہم وجہ سیاسی و معاشی اقتدارپر مردکا قبضہ ہے۔ان مسائل کے باوجود خواتین نے اپنی انفرادیت کو بر قرار رکھااور صبر و تحمل سے کام لیا توانہیں کچھ وقت کے لیے نہ کے برابرخوش حالی تو ملتی ہےلیکن زندگی کے اتار چڑھاؤ میں بیشترمرد ہی کے حصے میں خوشیاں نصیب ہوتی ہیں ۔ان کے نصیب میں زیادہ تر تباہی و بربادی ہی ہوتی ہے اور آزمائش ان کے ساتھ لگی رہتی ہے۔مثلاً اگر وہ روایات کی پابندی کرے تو اسے نیک کہتے ہیں ورنہ بری۔
جو خواتین جنگ کے بعد گرفتار ہو تی تھیں انہیں محلات میں الگ حرم میں راحت کی غرض سے کنیز کی حیثیت سے رکھا جاتا۔ ہر رات کے انتخاب کے لیےانہیں قطار میں کھڑا کر کے بادشاہ اپنی پسندکی کنیز کورجسٹر میں نام درج کر کہ خواب گاہ میں لے جاتا تھا۔تاکہ حمل ٹھہر جائے تو اندازہ لگا سکےکس کنیزسے لڑکا کب ہونے والا ہے۔جس سے لڑکا ہو اُسے سلطانہ بنا دیا جاتا تھا ۔ورنہ وہ ہمیشہ کے لیے کنیز ہی رہتی تھی۔کنیزوں کی تعداد اس قدر بڑھ گئی تھی کہ حکمراں ایک خاتون کے ساتھ ایک ہی رات گزارتا تھا۔محمد فاتح کے زمانے میں بادشاہ اپنے بھائیوں کو بندقفس میں شہزادوں کو کنیزیں ٍمہیا کر کے قیدرکھا تھا۔اگر کسی کنیز کو حمل ٹہر جائے تو اس کا قتل کر دیا جاتا تھا۔تا کہ ان سے وارث نہ پیدا ہو۔حکمرانوں کے یہاں جتنی کثیر تعداد میں کنیزیں ہوتی تھیں اتنا ہی وہ فخر محسوس کرتے تھے۔’’خلیفہ المتوکل کے پاس چار ہزار کنیزیں تھیں جن سے اس کے جنسی تعلقات تھے۔‘‘اس کے علاو ہ اکبر کا بھائی مرزا عزیز کہا کر تا تھا دولت مند مرد کو چار خواتین رکھنی چاہئیں۔’’ایک عراقی،مصاحب اور گفتگو کے لیے،دوسری خراسانی خانہ داری کے لیے، تیسری بندی ہم بستر کے لیے، چوتھی ماوراء النہری مارپیٹ کے لیے تا کہ دوسروں کو عبرت ہو۔‘‘اس طرح سماج میں خواتین کی حیثیت کم سے کم ترہوتی چلی گئی اور ہندو مذہب میں مرد کی وفات کےبعد ستی ہو کر شوہر کی چتا پر جل کر مرنےکی روایت تھی جو خواتین نہیں جلنا چاہتی انہیں زندگی بھر بیوہ بنکر گزارنا ہوگا۔اکثر اس وقت شادی کے لیے لڑکیاں کم عمر ہوتی تھیں مرد زیادہ عمر کے اس لیے زیادہ تر خواتین اس رسم کے کرب میں مبتلا ہو جاتی تھیں۔ان کی سماجی حیثیت ایک منحوس کی تھی یہ کسی بھی خوشی میں شامل نہیں ہو سکتی تھیں۔اُن کی غذا ئیں بھی مخصوص ہو جاتی تھی جو عام لوگوں سے الگ محدود ہو جاتی تھیں۔ کپڑے صرف سفید رنگ ہی پہن سکتی تھیں۔اس کی وضاحت ڈاکٹر مبارک علی کچھ اس طرح کر تے ہیں:
”مردجب کسی وجہ سے کمزور ہو جائے یا جسمانی طاقت کھو دیں تب وہ اپنی مرضی اپنی عزت و آبرو کے ساتھ بھی سمجھو تا کرنے پر مجبور ہو جاتا تھا تاکہ مرد کی مردانگی اور اس کی اہمیت و افادیت باقی رہے جس کی مثال” پانڈو کسی بددعا کی وجہ سے اپنی بیوی سے جنسی تعلق نہیں رکھ سکتا تھا۔ مگر اسے اولاد کی بھی ضرورت ہے، تو وہ اپنی بیوی کنتی کو یہ مشورہ دیتا ہے کہ وہ کسی دوسرے مرد سے تعلق قائم کر کے اس کے لیے اولاد پیدا کرے، وہ بیوی کو تسلی دیتے ہوئے کہتا ہے کہ”او کنتی! اب میں تم سے اس قدیم رسم کے متعلق کہنا چاہتا ہوں کہ جسے عالی قدر رشیوں نے اخلاق کے تمام ضوابط کے تحت جائز قراردیا ہے۔،،
اسی طرح کی ایک رسم نیوگ کا رواج تھا۔ جس میں اگر شوہر سے اولاد نہ ہو تو غیر مرد سے اولاد پیدا کر سکتی تھی۔ اس طرح بغیر شادی کے بچوں کا پیدا کرنا گناہ نہیں سمجھا جاتاتھا۔بلکہ کبھی اسےدیوی تو کبھی ماتا لکشمی مانا جاتاتھا۔اُنہیں جذبات میں آکر مصر میں حکمراں بنایا گیا ۔’مصر میں قدیم روایت کے تحت تخت کی وارث شاہی خاندان کی عورت ہوا کرتی تھی، اگر چہ وہ وارث تو ہوتی تھی مگر تخت پر مرد ہی بیٹھتا تھا۔ لہٰذا خود کو جائز حکمران ثابت کرنے کے لیے ضروری تھا کہ وہ وارث سے شادی کرے، چاہے وہ اس کی بہن ہی کیوں نہ ہو۔ اس لیے ہر بادشاہ تخت پر بیٹھنے سے پہلے شاہی خاندان کی وارث عورت سے شادی کرتا تھا۔ اس روایت یا قانون کی وجہ سے باپ کو بیٹی، یا بہن سے شادی کرنی پڑتی تھی۔” خواتین کو مختصر خوشیاں حاصل کر نے کے لیے بڑی سے بڑی قربانیاں دینی پڑیں۔ اس کے باوجود انہیں صرف وقتی طورپر نام شہرت اور تخت نشیں ہونے کے سواکچھ نہ ملا۔ اس طرح کے واقعات در اصل دیوما لائی قصوںمیں پائے جاتے تھے۔ایک اور طریقہ شادی کے لیےیہ بھی تھا کہ لڑکی کو زبردستی اغوا کر کے،فاتح بن کر لڑکیوں کو لیجانا ،رقم دے کر شادی کر نااور اگر کوئی کسی لڑکی کی عصمت دری کرے تو اسے زبر دستی اسی سے شادی کر دی جاتی تھی۔
ابتدائی تہذیبوں میں خیال تھا کہ مرنے کے بعد بھی انسانی ضروریات باقی رہتی ہیں اسی لیے وہ ساری سہولیات کو میت کے ساتھ دفن کر دتے تھے۔ اس کی مثال مصر کے فرعون کی ہے۔اس کے میّت کے ساتھ کنیزیں،ملازم اور کھانے پینے کاسامان دفن کر دیا جاتاتھا۔مرد کی اہمیت اس قدر تھی کہ اس کے ساتھ خواتین مذہبی فریضہ مان کردفن ہوجاتی تھیں۔یا ساری زندگی بیوہ بنی رہتیں یادیور سے بچے پیدا کرتیں جسے نیوگ کی رسم کہاجاتاتھا(اس رسم میں دیور کے ساتھ تین لڑکے تک پیدا کرنے کی اجازت تھی)،دھیرے دھیرے بیوہ کی شادی کو ۲۰۰ء میں اس قدر بری نظروں سے دیکھا جانے لگا کہ خواتین ستی ہونے کو ترجیح دینے لگیں۔کیوں کہ ان کے پاس رہبانیت اختیار کرنےیا طوائف بن جانے کہ سوا اور کوئی راستہ نہیں تھا۔اس درد ناک زندگی کے عبس میںتاج محل بنا کر وفاشعار کہلانا عدل نہیں ۔
۲۰۰ء میں بلوغت سے پہلے شادی کا رواج شروع ہو گیا۔اس کی اہم وجہ ماں کی کم عمری میں بیوگی ہے کیوں کہ شوہر کے انتقال کے بعد اس کی پرورش سسرال والے کرتے تھے۔اور یہ تصور کر لیا گیا کہ عورت کے ستی ہونے سے شوہر کے گناہ معاف ہو جائیں گے اور دونوں’نروان، حاصل کر لیں گے۔ دھیرے دھیرے یہ رسم ۷۰۰ ءتک بہت قوی ہوگئی اوراس رسم سے یہ مان لیا گیا کے دونوں کے گناہ معاف ہو جائنگے اورجنت میں ہمیشہ رہائش کرینگے۔ اس کے بعد یہ رسم۱۱۰۰ء تک شمالی ہند اور کشمیر میں مقبول ہو گئی۔یہاں تک کہ بیویوں کے ساتھ کنیزیں بھی ستی ہونے لگی۔ آج کسی بھی قانون یا انسانیت اس کی اجازت نہیں دیتا۔یہ کیسے عقل پر پردہ پڑ گیا تھا۔۱۷۲۴ء میں راجپوتانہ حکمرانوں میں ستی بڑی مستحکم ہو گئی تھی اور اس وقت کی کچھ مثالیں بقول مبارک علی کہ’’مارواڑ کا راجہ اجیت سنگھ مرا تو اس کے ساتھ ۶۴ خواتین ستی ہوگئیں۔بوندی کے راجہ بودھ سنگھ کے ساتھ۸۴ خواتین مریں۔ اس قسم کی مثالیں بھی ملتی ہیں کہ جن میں ۷۰۰ سے لے کر ۴۰۰ تک خواتین بادشاہ کے ساتھ جلیں۔۔۔رانجیت سنگھ کے مرنے پر اس کے چار بیگمات اور سات کنیزیں اس کے ساتھ ستی ہوگئیں۔۔۔شیواجی کے مرنے پر صرف ایک عورت اس کے ساتھ جلی۔‘‘ستی ہونے والی خاتون دلہا کی طرح بن سنور کر باجے و جلوس کے ساتھ برات لیے حسرت بھری نگاہوں سےسب کو دعائیں دیتی ہوئی الوداع کہتی جاتی تھی۔شوہر کی میّت نہ مل نے کی صورت میں یا کسی دوسرے مقام پر انتقال ہونے پر اس کی پگڑی و جوتوں کے ساتھ جل جاتی تھیں۔اس کی نگرانی اس کےعزیز رشتے دار کرتے تھے ۔تاکہ کہیں آگ کی تکلیف سے بھاگنے نہ پائے اسی لیے اسے گڑھے میں ہاتھ پیر باندھ کر ڈال دیا جاتا تھا ۔جہاں مردوں کو زندہ دفن کرنے کارواج تھا وہاں اسے زندہ دفن کر دیا جاتا تھا۔
بیشتر مذاہب میں اچھی بیوی بننے کے لیے ضروری سمجھا جاتاہے کہ لڑکی کےوالدین زندہ ہوں،کم عمر ، ہم ذات اور کنواری ہو۔دولت مندہو ،کرداربہترین ہو،جسمانی طور پر خوبصورت اور جاذب نظرہو مثلاً۔موٹی یا دبلی نہ ہو،بوٹا ساقد ہو،بلوریں بدن جو تتلی کے پروں کی سی نرم گدازاورمائل دلآویزسنگِ مرمر سے تراشا جیسا بلکہ مرمریں اورشراب سے زیادہ نشہ وربادامی رنگ جسم جس پر خوش قسمتی کے نشان ہواورپتلی جلد جس سے نیلی رگیں جھلکتی ہوں۔ چمپئی گلابی گوری رنگت، متناسب جسم جسے دیکھ کرشہوانیت جاگے جیسے چندن سے ثانپ لپٹتا ہو ،بیضوی چہرہ چودھویں کا چاند کی طرح جگمگاتا ہو۔ گفتگو میں شہدکی مٹھاس،آواز میں کوئل کی کوک اوربلبل کا نغمہ ہو،سانسوں میں خوشبوہو۔ گلاب کی پنکھڑیوں جیسے ہونٹ ،دلفریب جادوئی مسکراہٹ جس میں بجلی کی لہر ہو، کان سرخ،ملائم ہو، گردن صراحی داراورمخروطی ہو۔ سیاہ گھنے لہراتی زلفیں گھٹاوں کے مانند ایڈی تک لانبے اور ریشمی ہو نیزہواؤں میں ناگن سے لہرائیں ۔ ہرنی جیسی کجراری و نر گیسی بڑی بڑی غلافی اور جھیل سی گہری نیلی آنکھیں ہو جو ستارے کے مانند جھلملاتے ہو ، کمان ابرو، گھنی اور دراز پلکیں،جٹی بھویں، اور کالی پتلیوں میں شفاف پانی کے چشمے نظر آتے ہوں ۔
کھڑی ستواں ناک،رخسارگلابی ٹماٹر یا سیب جیسے لال شفق بکھر تے ہو، بھرے بھرے قولی لب گلاب کی پنکھڑیوں کی طرح کھل کر مہکتے ہو ۔ دانت انار کے دانوں کی طرح جمے ہواور بجلی کی طرح چمکدار بھی ۔ معصوم چہرہ، سینہ متوازی پہاڑوں کا فراز اورمضحکہ خیز ہو، پیٹھ پر موم کی نرمی اور مخمل جیسی گُد گُدی ہو،ناف جاذبِ نظر ہو، کمر پتلی لچکدار ہو،بانہوں میں بلور ہو،ہاتھ لمبے کلائی نازک،ہتھیلیاں بھری ہوئی نرم مخملی انگلیاں لمبی اورناخن ہلالی ہو، کمر میں ناری کی بیل یا ناگن جیسی لچک ہو(اوپر نیچے کا حصہ پھیلا ہو، کمر سکڑ کر چھوٹی ہو ) کیوں کہ کمر کی خوبصورتی اور پتلا پن ہی مکمل جسم کے حسن کو نکھارتا ہے۔ اسی لیےخوبصورت کمر کی حامل ہو،۔ پیٹ اور کولہوں پر گوشت کی زیادتی نہ ہو،چلن میں مور کاناچ ہواور ہرن کی طرح قلانچیں بھر نے والی ہو،پیر چھوٹے پنجے اور ایڈی (لمبی)کے درمیان کمان اور ملائم ہو،جھکے تو قوس قزخ بن جاتی ہو اور کھڑی ہو تو چمکیلی کلس لگتی ہوجیسےگرجا گھرکی گنبد، مسجدکے مینار کی طرح باوقار نظرآتی ہو، سرو کی طرح لمبا قد ، تہذیب کے رنگ ، مٹی کی خوشبو سے جُڑا پہناوا نرم گفتار ، لہجے میں مٹھاس نازک دوشیزیہی خوبصورتی کا تصور کائنات میں مرکز ثقل ہے ۔
ان تمام فطری خوبیوں اورخصو صیات کی مالک ہو تب ہی شادی کے لائق ہے۔ان خوبیوں کی روشنی میں پرکھنے کی بنیادی وجہ مرد دن بھر کے کاموں سے توانائی کھو دے اورذہنی تھکن محسوس کرے تو عورت اس کمی کو پورا کرے۔جس طرح قربانی کے جانور بغیر عیوب کے پرکھا جاتا ہے اسی طرح شادی کے لیے لڑکی پسند کی جاتی ہے۔اگر غریب گھرانے میں ان اوصاف کی مالک لڑکی ہو بھی تو وہ والدین کی لالچ سے اپنی برادری سےہٹ کر مال داروں کے حصے میں چلی جاتی ہیں۔ چاہے مرد بے جوڑ ہی کیوں نہ ہو۔
شادی کے لیے لڑکی پسند کرنے جانا خواتین کا محبوب مشغلہ ہوتاہے۔ اگر لڑکی پسند نہ آئے تو واپس آکر اسکا اور اس کے گھر والوں کا یہ جس طرح مذاق اڑاتی ہیں،یہ نہیں سوچتیں کہ لڑکی اور اس کے گھر والوں کے دل پر کیا گزرے گی جب انہیں ان باتوں کا علم ہوگا۔ لڑکیاں بے چاری بار بار کی اس رو نمائی سے ذلت محسوس کرتی ہیں اور دل ہی دل میں بد دعائیں دیتی ہیں کہ ان لڑکے والوں نے عورت کو ایک بھینس یا گائے کا درجہ دے دیا ہے ۔جسے جو گاہک جب چاہے آئے ، دیکھے اور چلاجائے۔ لیکن ۔۔۔ حیرت اُس وقت ہوتی ہے جب یہی لڑکی ایک بہن یا ماں کی حیثیت میں بہو دیکھنے جاتی ہے تو ا س کو وہ وقت یاد نہیں رہتا جب دوسرے کبھی اس کا بھی اس کے رنگ ، چال، زبان یا خاندان پرمذاق اڑاتے تھے۔ جو کچھ اس پر گزری تھی وہ بالکل فراموش کردیتی ہے اور بے حِس ہوجاتی ہے۔واپس آکر وہ بھی اسی طرح مذاق اڑاتی ہے جیسے کبھی اس کا اڑایا گیا تھا۔
یہ عمل پدری شاہی نظام کے تحت عمل پذیر ہوا ہے۔ اگر ہم ماضی کا تاریخی تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوگا یہ سلسلہ تا ہنوز ہے۔ اگر خوبصورتی مرد کی تسکین کا ذریعہ ہے تب بھی اس کی اہمیت برخرار نہیں ہے۔مردانہ سماج نے خواتین کو شباب میں فرست کے اوقات گزارنے اورصرف دل جوئی کی چیز سمجھا ہے۔حقائق کی روشنی اور دانشوارون کے دلائل اور کئی شہادتوں سے یہ وضع ہے عورت کائنات کی تنہا خوبصورتی کا واحد حسن اور یکتا جمال ہے۔جسےمرد وں نے پیروں تلے روندھ رہے ہیں۔ اس عمل کی بنیادی وجہ خواتین کی نہ آگہی کی وجہ سے ہو رہی ہیں۔ مرد محض طاقت کے ہتیار سے مرد ہمیشہ سے خواتین پر مسلط ہو رہا ہے۔جس سے خواتین اپنے حقوق کھو رہی ہیں۔ اس کی شخصیت جنسی خواہش کے لیے ایک نرم و نازک اورملائم، گداز چکمیلا جسم کی ہی حیثیت سےاہمیت کی حامل ہے۔
شادی کے سلسلے میں تبدیلی یہ آئی کہ نشاۃ ثانیہ میں جہیز کا مطالبہ اور زیادہ ہو گیا۔جس سے سماج میں خواتین کی اہمیت پست ہو گئی۔جو غریب لڑکیاں جہیز نہیں دے سکتی تھیں وہ نن بن گئیں۔ بیواؤں کو دوسری شادی سے قطعی طور پر منع کر دیا گیا اور شوہرکی یاد میں پوری زندگی گزار دے۔تنگ ماحول میں شوہر کے بغیر زندگی درد ناک ہو جاتی تھی اسی لیے خواتین ستی ہونا پسند کرتی تھیں۔ سوائے ستی ہونے کےکوئی راستہ نہیں تھا۔اگرشریف خاتون کو زبردستی اغوایاآبرو ریزی کر دی جائے توان خواتین کو بھی سماج قبول نہیں کرتا تھا۔
طوائف بننے کی بنیادی وجوہات میں مردوں کے مظالم،روایات،بیوگی، بڑی عمر تک شادی نہ ہونا، بانجھ پن۔ تنہا ہونے کی صورت میں جنسی استحصال کی شکار ہو جاتی تھی ۔ان حالات میں بیشتر خواتین طوائف بن جاتی تھیں اور اپنے بچیوں کی تربیت پانچ سال کی عمر سے ہی رقص، موسیقی،نغمہ نگاری،لکھنا پڑھنا،زبان بیان ، قواعد،ادب،شاعری،فلسفہ،منطق کے اصول،بازی ، شطرنج ،اورمصوری وغیرہ پر دسترس دیتی تھیں تاکہ اُن تمام فنون سے مردوں کی دل جوئی اور گاہکوں کو ذہنی غذا فراہم کرکےداد اور قیمت وصول کرسکے۔ ایسا ہونے بھی لگا لیکن۱۸۵۷ء کے ہنگامے میں ان کی جائداد اور مال و اسباب کو ضبط کر لیا گیا۔جس کے بعد ان کی اہمیت اور گھٹ کرفن کاری سے صرف جنسی کاروبار تک محدود ہو گئی۔آگے چل کر انہیں حکومت کی نگرانی میں سپاہیوں کے استعمال میں رکھا جانے لگا۔
چینی خواتین پر پاک دامنی کا کافی حد تک زور تھا ۔ اس کے برعکس مردوں کا دوسری خواتین سےجنسی تعلقات رکھنا جائز تھا۔ بیوی اولاد کی دیکھ بھال کے لیے ہوتی تھی۔طوائف جنسی تسکین کےلیے۔جاپان میں تو باقاعدہ لڑکیاں خرید کر طوائف بننے کے طور طریقے سیکھا کر دولت مند وں کی جنسی تسکین کے لیےبھیجا جاتاپھر بھی انہیں عیب سے نہیں دیکھا جاتا تھا۔ کیوں کہ وہ خاندان کے لیے قربانی دیتی تھیں۔ اس کے بعد گھریلو خواتین سے زیادہ اہمیت طوائفوں کو ملی ۔کیوں کہ وہ خود کفیل اور با صلاحیت ہو گئی تھیں۔بادشاہی خواتین کو غیر مرد سے تعلق رکھنے کی اجازت نہیں تھی ۔یہا ں تک کہ کبھی کبھی تو شک کی بنیاد پر سخت کار وائی کی جاتی تھی۔ شوہرمرنے کے بعد بھی کسی دوسرے سےشادی یا رشتہ نہیں رکھ سکتی تھی۔ کیوں کہ وہ حکمرانوں کی عزت وآبرو بن جاتی تھی۔ حکومتوں کی تبدیلی کے موقعے پر ہارے ہوئے بادشاہوں کی خواتین کے ساتھ بہت برا سلوک کیا جاتا انہیں اپنی مرضی کے مطابق استعمال کیا جاتا۔ ’ جب یلدرم کو تیمور کے ہاتھوں شکست ہوئی تو اس نے یلدرم اور اس کی بیگم دونوں گرفتار ہوئے، تیمور نے یلدرم کو ایک پنجرے میں قید کیا اور اس کی بیوی کو برہنہ دربار میں ساقی گری پر مجبور کیا۔،اس کے علاوہ بادشاہ کواگر کسی کنیز پر شک بھی ہو جائے تو اس کی سزا یہ تھی بوری میں باندھ کر فاسفورس میں ڈبو دیا جا تا تھا۔ اس کا ایک واقعہ موجود ہے۔”ابراہیم(۱۶۴۰۔۱۶۲۳ء)کے عہد میں پیش آیا۔ اسے بتایا گیا کہ حرم میں یہ افواہ ہے کہ اس کی کوئی کنیز کسی خواجہ سرا کے ساتھ پائی گئی۔اس پر تفتیش شروع ہوئی۔ مگراس کنیز کی شناخت نہیں ہو سکی۔ ابرہیم نے اس کا یہ حل نکالا کہ محل کی ۲۸۰ کنیزوں کو بوریوں میں بند کر کے فاسفورس میں ڈبونے کا حکم دے دیا۔‘‘اتفاق سے جو کنیز اس سزا سےبچ گئی وہ اس حقیقت کو منظرِ عام پر لائی ورنہ پھر حقیقت معدوم ہو جاتی۔آج بھی کئی قبیلوں میں بیٹی کو شادی کے بعد ذات سے باہر کر دیا جاتا ہےاور وہ پرایا دھن کہلاتی ہے ۔کچھ لوگ تو بیٹی کے گھرکا پانی بھی نہیں پیتے۔ ان غیر فطری روایات ومظالم کی وجہہ سے تانیثیت کا تصور ظہور پذیر ہوا۔اس کے علاوہ تعلیمی مسائل بھی بڑے نازک تھے۔انہیں گھر سےنکلنے کی اجازت نہیں تھی۔ کہیں تھوڑی نر می سے کام لیا بھی جاتا تو تعلیم میں دوسرا درجہ تھا۔ سر سید احمد خاں کا بھی نظریہ یہی ہے۔”تم یقین جانو کہ دنیا میں کوئی ایسی قوم نہیں ہے کہ جس میں مردوں کے حالات درست ہونے سے پہلے عورتوں کی حالت درستی ہو گئی ہو۔۔۔۔تمہارے لڑکوں کی تعلیم میں کوشش کی جائے۔جب وہ تعلیم یافتہ ہو جائیں گے تو مقبوضہ حقوق از خود بے مانگے تم کو واپس مل جائیں گے۔‘‘سرسید نے بھی خواتین کو دوسرے درجہ کی حیثیت سے دیکھا ۔حقیقت تو یہ خواتین موقع پاتے ہی مردوں سے بہتر کام کرسکتی ہیں ۔مثلاً سربرہِ مملکت بھی ہوئیں، جنگیں لڑیں،سفارتی فرائض انجام دئے،معاہدے کر کے ملک اور دیگر ممالک کے مسائل حل کرنے میں معاون و مددگار ثابت ہوئی ۔اس کی ایک مثا ل رضیہ سلطانہ ہے۔ التمش نے لڑکوں کی طرح لڑکیوں کی بھی تربیت کی ۔ جس سے لڑکیاں گھوڑسواری،تیر اندازی،شمشیرزنی یہاں تک کہ ہر میدان میں ذہین ا ور با صلاحیت ثابت ہوئی۔ اس کے علاوہ جلیل القدر فرمانروا،عادل،رعیت کی پرداشت خیال رکھا، لشکر کشی اور حملہ آوری کی نہج،سود مندی میں وہ سیاسی، سماجی، اور اخلاقی اعتبار سے زیادہ اہمیت کے حامل تھیں۔نورجہاں مغل سلطنت کے استحکام اور دربار کی شان و شوکت بڑھانے میں بھی مددگار بنی ۔لیکن مرد مسلط معاشرہ اُن کی صلاحیتوں کی مخالفت اور نظر انداز کر تا رہا۔ بقول امیر خسرو”ہر بادشاہ جس کی خواہش یہ ہو کہ اس کا خاندان بر باد نہ ہو اور اس کا ملک تباہ نہ ہو اور اس کا وقار شکوہ قائم رہے اسے چاہیے کہ وہ عورتوں کو ڈھیل نہ دے۔ انہیں صرف اس بات کی اجازت ہونی چاہیے کہ وہ اپنے ملازموں اور ماتحتوں کے بارے میں بات چیت کر سکیں۔‘‘ لیکن تانیثی ناقدین نے ایسے معاشرے کی تشکیل دی جو خواتین کا احترام کرے اوران کے حقوق و صلاحیتوں کی نشا دہی کی۔ یہاں تک کہ ان کے کسی بھی پہلو کونظر انداز نہ کرے۔اُن کے وجود کو تسلیم کرے ۔جس سے وہ سماج میں محفوظ ہو ۔وہ سماج مہذب نہیں جس میں خواتین کا دوسرا درجہ ہواورمرد کے شانہ بہ شانہ نہ چلیں۔جب کہ یہ نصف حصہ خواتین تعلم و تربیت میں مرد سے پیچھے نہیں ہے۔اس کے باوجود انہیں سابقہ روایات میں جکڑ کر رکھنا غیر مناسب ہے۔
چند دانشور خواتین نے مودبانہ اور ملتجیانہ انداز میں نسوانی حقوق کے مسائل کی طرف توجّہ مبذول کی۔ لیکن خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔ اس کے بعد میری وال سٹون کرافٹ نے تانیثی تصنیف شائع کی جس میں جنسی مساوات ،حقوق اور مسائل کی وضاحت کی اورجو مردوں کی بالادستی کے تصوّر کو غیر فطری ثابت کرنے کی کوشش ہے، غلامی کا خاتمہ، نابالغ بچیوّں کی سرپرستی ، جائداد اور اعلیٰ تعلیم میں مساوی حصّہ،سب سے اہم ووٹ کاحق ہے۔ ایک اورتصنیف منڈ برک کی A Vindication of the Right of men(1990) کے جواب میں لکھی گئی ۔ برک نے خواتین کو دوسرے درجہ کی حیثیت سے پیش کیا تھا ۔جب کہ عورت نہ سیکنڈ سیکس ہے نہ ہی حقیر۔ میری وال سٹون کرافٹ برک کی تانیثی تھیوری کو رد کر کے اپنانظریہ پیش کیا ۔یہی خیال عتیق اللہ کا ہے۔ ’’عورت کو محض سامان عیش ماننے سے انکار کیا بلکہ جنسی و صنفی تصوّر تفّوق کو سختی کے ساتھ غیر فطری اور غیر منطقی نیز ایک سماجی دین ٹھہرایا۔ حقوق کے ضمن میں اس کا اصرار مساوات کے اس ڈھانچے پر تھا جسے مرد عورت پر بغیر از تخصیص بلند و پست منطبق کیا جا سکے۔-‘‘یہ دونوں ناقدین کے فہم و ادراک سے یہ واضح ہوتاہے ۔ خواتین پرصدیوں سے ظلم وستم اور استحصال کا سلسلہ جاری ہے ۔ انہیں ہمیشہ مجہول،کمزور، ناقص العقل،پیشہ کے لحاظ سے مرد کے بہ نسبت کم تر سمجھا۔مذہبی،سیاسی اور سماجی سطح پر ہی کیوں نہ ہوان کے درجات میں تفریق کی گئی۔
پدری نظام سےخواتین کے درمیان غیرمساوی تقسیم ہوئی۔ حد تو یہ ہے کہ خواتین کو انسان نہیں بلکہ بعض دفعہ اشیا ءسمجھ کر کنیا دان کیا گیا ہے۔اس کی ایک بہترین مثال بابر جب سمر قند میں قید تھا تو اپنی عزت اور تخت و تاج کے بچاؤ میں۔”اپنی بہن خانزادہ بیگم کو شادی کے لیے شیبا خان کے حوالے کر کے فرار ہو گیا۔ راجپوت حکمرانوں نے اکبر کو شادی کے لیے اپنی لڑکیاں پیش کیں تا کہ وہ مغل خاندان و سلطنت کا حصہ بن کر مراعات حاصل کریں۔، عورت شرط میں جیتی و ہاری جاتی تھی۔کیوں کہ مرد عورت پر ملکیت کے حقوق رکھتا تھا اس کی زندہ مثال”پانڈو کی ہے کہ جنہوں نے دروپدی کو جوئے میں ہا ردیا تھا۔،اس دور میں یہ رسم عام تھی خواتین کو بطور تحفہ یاہد یہ، رشوت میں دی جاتی تھی۔یافروخت کرنے میں کوئی عیب نہیں سمجھاجاتا تھا۔’سلطنت کے گورنر تحفے میں یا ماتحت حکمران خراج میں خواتین بھی مہیا کر تے تھے۔، ہندوستان کی طرح مصر میں بھی سیاسی اغراض سے شاہی خواتین ہویا ماتحتین یا مفتوح حکمران خاندانوں سے شادیاں کی جاتی تھیں۔ اپنی بیٹیوں کو رشوت میں دشمنی مٹانے اور قربت حاصل کرنے کی اغراض سے تحفہ میں دیتے تھے۔ ایک بادشاہ نےدوسرے ماتحت حکمراں کو لکھا’اپنی بیٹی کو بادشاہ کے حضور میں بھیجو جو کہ تمہارا مالک و آقا ہے۔۔۔ میں نےاپنی بیٹی کو بادشاہ کے حضور میں بھیجا ہے جو کہ میراآقا، دیوتا اور سورج خاہے۔،اس سے یہ ثابت ہو تا ہے کہ حکمراں بیٹیوں کو فاتح اور طاقتور بادشاہوں کی خدمت میں بطورتحفہ پیش کرتے تھے۔اس طرح شاہی حرم میں اتنی کثیر تعداد میں خواتین جمع ہو جاتی تھیں کہ ان سب سےجنسی تعلقات تو نہیں رکھتے ہوں گے۔کچھ شہادتوں سےمعلوم ہوتا ہے وہ خواتین کپڑا بنانا،نجی ضرویات کے کام، گھریلو استعمال کی صنعت کا ری اور خود ہی کی آرایش میں مصروف رہتی تھیں۔یہ تمام قربانیاں یہ سمجھ کر سہتی تھیں کہ وہ ملک کے امن میں معاون و مددگار ثابت ہو رہی ہیں۔لیکن یہ تمام قربانیوں کو روایت سمجھ کر قبول کر لیا جاتا تھا۔ مذہبی اعتبار سے جو آج قحبہ گری کو گناہ سمجھا گیا اسی پیشے کو قدیم مذاہب میں نہایت معزز بلکہ مقدس سمجھاجاتاتھا۔ پروہت خوبصورت لڑکیوں کو خرید تے تھے اورلوگ منت مان کر بچیوں کو مندر وں میں چھوڑ جاتے تھے۔کم وقت میں ان کی تعداد اچھی خاصی بڑھ جاتی تھیں ۔ جنہیں رقص و موسیقی میں مہارت ہوتی تھی اور وہ مذہبی معاملات میں حصہ لیتی تھیں۔
پروہتوں نے مذہب کے نام پر عصمت فروشی کو جائز قراردیکر جنسی استحصال کیا ۔آگے چل کر ہر خاتون کم از کم ایک بار غیر مرد کے سپرد ہونا مذہبی فریضہ سمجھ نے لگی۔یہ عقیدہ پیشے کی شکل اختیار کرنے لگا بیسویں صدی کا مشہور فلسفی و ادیب برٹرینڈر سل کےخیال میں”اس قسم کی عورتوں کو جو پروہتوں اور یاتریوں کی تفریح طبع کا سامان بہم پہنچاتی تھیں بڑا معزز سمجھا جاتا تھا۔ہندوستان میں ماضی قریب تک انہیں دیو داسیاں کے معزز لقب سے یاد کرتے رہے ہیں۔آج بھی جنوبی ہند میں سری رگم اور تروپتی کے مندروں میں دیوداسیاں موجود ہیں۔،،دیو داسیوں کے کام سے جومعاوضہ ملتا تھا اسے مندروں کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔یہی دیو داسیاں ہیں جو تاریخ کی پہلی طوائفیں کہلاتی ہیں۔ یہ رسم خواتین کے لیےایسا کاری ضرب ہے جس کا داغ آج تک نہیں مٹ سکا۔کسی فرد کو سامان کی طرح قربان کرنا ۔ مذہب یا قانون کے لیے غیر شائستہ حرکت ہے۔خواتین کا صرف جنس کی بنا پر استحصال کیا جارہا ہے۔مرد مسلط سماج نےنجی خواہشات کی خاطر شرمناک اعمال کیے جو غیر انسانی ہیں۔ ہندو دھرم میں دیوتاؤں کے بُت عریاں ہیں ۔جس سے شہوانی تلذذ اور عصمت فروشی کو فروغ ملا۔بقول وی پی سوری :
”مندروں میں بہت سے دیوتاؤں کے بُت عریاں حالت میں ہیں اور اجنتا وغیرہ کی غاروں میں بنے ہوئے اصنام تو کلیتا ًانسان کی جنسی زندگی کی مصوری کرتے ہیں۔ان کی پرستش کی جاتی ہے جب اتنی ہجان خیز چیزیں عبادت کے لیے منتخب کی جائیں تو عبادت کرنے والوں کا بہک جانا ایک لازمی امر ہے۔۔۔۔جنوبی ہند کے کئی مندروں کے ساتھ اب بھی دیوداسیاں طوائفیت کی زندگی بسر کرتی ہیں اور ان میں سے اکثر آشک اور سوزاک کے باعث انتقال کرجاتی ہیں۔ان لڑکیوں کے ماں باپ ان کی کجروی پر افسوس کرنے کے بجائے اس پر فخر کرتے ہیں۔‘‘
اکثر دیہات میں پنچایتی فیصلے رغبت یا پنچوں کی لالچ کی وجہ سے بِنا سمجھے جذباتی ایک طرفہ ہوتے تھے۔جوخواتین کے حق میں ناسورثابت ہوتے تھے۔ان صبرآزما مشکل آزمائشوں سے گذر نے والی صعوبت زدہ خواتین کے صیغہ سے متعلق سید سخی حسن نقوی لکھتے ہیں ’امبا پالی ایک حسین و جمیل دوشیزہ تھی۔ جب اس کے ساتھ شادی کرنے والے امیدواروں کی تعداد زیادہ ہوگئی اور اس کے باپ کو فیصلہ کرنے میں دشواری ہوئی تو اس نے معاملہ لھچوی گن (پنچایت) کے سامنے رکھا۔ لیکن پنچایت کے اراکین نے امبا پالی کو دیکھ کر یہ فیصلہ کیا کہ امبا پالی چوں کہ’ہیرا، ہے اس لیے اس کا بیاہ کسی کے ساتھ نہ کیا جائے بلکہ اُسے پنچایت کی ملکیت قراردیا جائے اور اس کے حسن و جمال سے پوری پنچایت فیض یاب ہو۔،اس طرح غریب معصوم لڑکیاں مجبوراً فیصلے کی اتباع کرتی ہیں ۔ ساری زندگی بے جوڑ مردوں کی جنسی تسکین کا سبب بنتی رہی۔اس کی اپنی کوئی مرضی شامل نہیں رہتی۔چندر گپت موریہ نے تو بیسواؤ کے دلالوں کی آمدنی پر ٹیکس وصول کیا تھا۔علاوالدین خلجی نے تو ’ان کا بھاو مقرر کردیا تھا اور ایک حکم جاری کیا جس کی روسے مقررہ بھاؤ سے زیادہ رقم وصول کرنا سختی سے ممنو ع قراردیا۔، اس پیشے کو اکبر کی حکومت نے توعام تجارت کی طرح فروغ دیا اور اس کی رہنمائی افسروں کی نگرانی میں کرتے تھے۔بقول ڈاکٹر وی۔پی۔سُوری کہ:
”اس پیشے کو قانونی شکل دینے میں معاون ہوئی۔کیوں کہ یہ پیشہ حکومت کےلیےآمدنی کا ایک ذریعہ تھا۔بقول کنور محمد اشرف کے منتخب التواریخ کے حوالے سے لکھا ہے۔’ دہلی کے بیرونی علاقے میں اس نے عصمت فروش عورتوں کے لیے جُدا گانہ رہاشی مکانات تعمیر کروادیئے تھے۔سب عصمت فروش عورتوں کو وہاں رہنے کا حکم دیا گیا وہاں کے معاملات کی دیکھ بھال کے لیے خصوصی سرکاری افسر مقر کیے گئے۔جو مرد کسی عصمت فروش کے ساتھ شب باشی کرنا چاہتا اس کو اپنی جملہ تفصیلات ایک رجسٹر میں درج کرنی ہوتی تھیں۔اگر کوئی افسر یا سرکاری ملازم کسی باکرہ لڑکی سے ہم بستر ہونا چاہتا تو اسے شہنشاہ سے خصوصی اجازت نامہ حاصل کرنا ہوتا تھا۔ ان قواعد کی خلاف ورزی پر بڑی سخت سزا دی جاتی تھی۔،،
یہ قدیم روایت آج بھی شکل و صورت اور نام بدل کرحکومت کی نگرانی میں پھل پھول رہی ہے۔جس کا اعلیٰ نمونہ ممبئی کے بھینڈی بازار میں کھلے عام پولس تھانے کے آس پاس ہونے والی قحبہ گری ہے۔ چاہے بیسیوں جواز پیش کرلیں۔جنسی استحصال معاشرے کے لیے معیوب فعل ہے۔یہ معصوم طبقئہ اناث مردوں کی غیرذمہ داری کا نتیجہ ہے۔جومہذب سماج کےلیے بدنما کلنک ہے۔ غالب کا خیال خواتین کے حق میں غلط ثابت ہو رہاہے’ رنج سے خُوگر ہو انساں تو مٹ جاتا ہے رنج،یہ کیسارنج ہے؟ ان پراتنی مشکلیں پڑ رہی ہیں کہ آساں نہیں ہوتیں؟۔یہ بھی بہن بیٹی تو کسی کی ماں ہوگی پھر کیوں تماشائی ورونق بازار کی؟۔بنی مسکراہٹ کا سبب تو کبھی کسی برانڈ کا لیبل بس اتنی حقیقت ہے اس کی۔وہ غم کھاکر پیاس آنسوؤں سے بجھاتی ہیں۔پھر بھی ان کے پاس حسب نسب نہیں ہے۔سب کو ایک ہی عزت دیتی ہیں!عادت خراب ہے اس کی مجبوری مگرمردوں نے نہ سمجھا گلے لگا کر، کیوں ہاتھ کسی کے کمر سے سر پر نہیں رکھے جاتے،کوئی تو ہو باپ بھائی ان کا۔کیوں کا بدل ہی تانیثیت ہے۔
تانیثیت کی مختصر تاریخ:مغربی ادب میں تانیثیت کی کئی متضاد تھیوریز وجود میں آئی ہیں۔ آغازامریکہ میں۱۸۴۸ء میں نسائی حقوق اور مسائل سے متعلق پہلی کانفرنس سے ہوا۔ بعد میں مختلف تنظیمیں قائم کی گئیں۔ بنیادی مقاصدنسائی حقوق کی بحالی، سماجی منصب کا تعیّن ۔ اُن کی انفرادیت تسلیم کرنے کی کئی شکلیں سامنے آئیں۔جو تہذیبی،اخلاقی،تعلیمی، معاشی ،اقتصادی حقوق ا ور دیگر مقاصد کو پورا کرنے میں معاون و مددگار ثابت ہوئیں۔
پچھلے دوسوسالوں سے ادبیات عامہ میں تانیثی شعور موجود ہے۔مغربی مفکرین اور قلمکاروں میں واضح نقوش،خواتین کےسیاسی ونظریاتی فلسفے کی بنیاد چند ممتاز خواتین ادیباؤں کے ہاتھوں رکھی گئی۔ جن میں جان سٹوورٹ مِل (John Stuart Mill) نے محکومیِ نسواں‘ کے عنوان سے۱۹۲۹ء کو ایک مضمون اور “On the subject of women” کے نام سے لکھا۔اس کے علاوہ سیمون دی بور (SIMONE ‘de BEAVOIR)، نےthe SECOND SEX میں تانیثیت پر کھل کراظہارِخیال کیا۔گرمین گریئر (Germaine Greer)،جوڈتھ بٹلر (Judith Butler)، ورجینیاوولف،ایچ۔جی۔ویلز ، جولیا کرسٹیوا،ایلی سیزو،ماریاانتونیتا، برونٹیسؔ (Brontes)الزبتھ گاس کیل (Elizabeth Gaskell)،فلورنس نائٹنگیل (Florence Nightingale) وغیرہ شامل ہیں۔اُن کے بعد چارلوٹ یونگ (Charlotte Younge)، دیناہ ملوک کریک (Dinah Malok Craik)، ایلزبتھ لِنٹن (Elizabeth Liynin Linton) اور برناڈ شاہ وغیرہ چند اہم نام ہیں۔
ان تخلیقات میں تانیثی رجحانات ہیں۔جو خواتین کی بازیافت، شناخت، سماجی و سیاسی مرتبے، استحصال ، محکومی و محرومی اور جبرو استبداد اُن تمام معاملات کو وکیلوں کی طرح منطقی اور سائنسی دلائل سے تشریحات پیش کرتے ۔تانیثی رجحان آہستہ آہستہ بین الاقوامی سطح تک پھیل گیا۔تانیثی فکریں اردو ادب میں بھی پہلے سے ریختی،غزل،اور ناول وغیرہ کی شکل میں موجود تھیں۔مغرب میں تانیثیت نے زور پکڑا تو اردو ادب میں بھی متعددخواتین قلم کاروں نے تانیثی فکر کو موضوع بنایا ۔جن کے چند اہم نام اللّہ عارفہ،عصمت چغتائی،قرۃ العین حیدر،فہمیدہ ریاض،پروین شاکر، کشورناہید، شہنازنبی، فرخندہ نسرین، شفیق فاطمہ،ساجدہ زیدی،سارہ شگفتہ،رفیعہ شبنم عابدی،بلقیس ظفیرالحسن،صالحہ عابد حسین،ترنم ریاض اور عنبری رحمٰن قابل ذکر ہیں جنہوں نے خواتین کی نجی زندگی اور سماج میں ان کا صحیح مقام دلانے کے لیے بذریعہ تخلیقات احتجاج کیا ۔’’مثلاً چوتھی صدی عیسوی میں الوارا کی مذہبی تنظیم کی جانب سے جو اعلانات کیے گئے وہ یہ تھے کہ عورت کو لکھنے پڑھنے کی آزادی نہیں ہونی چاہیے اور نہ یہ اجازت کہ ان کے نام سے خطوط آئیں۔‘‘ پھر بھی شروعات میں زنانہ اخبارات یا جرائد میں اپنی پہچان پوشیدہ نام سے لکھتی تھیں جیسےہمشیرہ فلاں۔۔ ۔ہمشیرہ احمد علی، والدہ افضل علی وغیرہ ۔ بعد کےادیباؤں نے کھل کر تانیثی تشخص کے مسئلے کو پیش کیا ۔
ادب میں تانیثیت۔ادب کا تانیثی مطالعہ احتجاج ونعرے بازی کرنے کے بجائےحق و انصاف دینےکا نام ہے۔جو پدری سماج کےاصولوں کا خاتمہ کر کے ایک نئے معاشرے کو پیدا کرتی ہے۔ تانیثیت کے اہم نمونوں میں سماج اور معاشرے میں دبی کچلی و پسی ہوئی خواتین کےردِّ عمل، نفسیات اور سوچ کو ما بعد جدید نے افکار بنا نے کی شروعات کی ۔جو تانیثی مصنفین نے خواتین کے ہر جائز مقاصد کو پورا کرنے میں معاون ثابت ہوئی۔
خواتین اُردو ادب میں تانیثیت کی پہلی واضح آواز رشید جہاں اور عصمت چغتائی سے بلند ہوئی ۔جن کے موضوعات جذبات، کیفیات، نفسیاتی اور ردِّ عمل کے ہیں۔ جو ایک وفادار بیوی، فرماں بردار بیٹی، کسان و مزدور خواتین کے ہتھیلیوں کے چھالے،بدن کےکھرنڈے،لڑکیوں کی کم عمر کی شادیوں کے مضر اثرات ،مردوں کی روایتی وفاداری ،لطیف جذبوں کو صیغہ آواز میں باندھنے کی سعی تھی ۔یہ رجحان عصمت چغتائی پر ہی ختم نہیں ہوتا۔بشریٰ رحمن کے فکشن میں نسائی حقوق کی تفصیلات ملتی ہیں۔قرۃ العین حیدر نے سماجیاتی، ثقافتی اور سیاسی و فلسفیانہ پس منظر میں اپنی تخلیقات رقم کیں۔ ان تخلیقات نے خود بینی اور جہاں بینی کی بہترین عکاسی کی ہے۔ انہوں نےشجرِ ممنوعہ کو ہاتھ لگایا تو کبھی لکشمن ریکھائیں پار کیں۔ یہاں تک کہ شادی بیاہ کے معاملوں میں خواتین کی رضامندی کو بھی موضوع بنایا ۔ہندو پاک تقسیم کے مضر اثرات پرقرۃالعین حیدر،عصمت چغتائی،جمیلہ ہاشمی اور کئی قلم کاروں نے تانیثی فکر کو موضوع بنایا جیلانی بانو کےخیال میں”اس تباہی میں سب سے زیادہ مار’عورت نے سہی ہے۔ کیوں کہ اس ملک میں زمین کی طرح عورت بھی مرد کی ملکیت سمجھی جاتی ہے۔جو بیچی اور خریدی جاسکتی ہے۔پیدا ہونے سے پہلے مارڈالی جاتی ہے۔ شوہر اپنی بیوی کے ساتھ برسوں زندگی گزار نے کے باوجودکسی بھی نا اتفاقی کی بنا پرجب چاہے صرف تین حرف ‘طلاق’ ادا کر کے ساری زندگی اسے دوزخ کی آگ میں جھونکتا ہے۔اسے اپنی پاک دامنی ثابت کرنے کے لیے اگنی پریکشا سے گزرنا پڑتا ہے۔پھر زمین میں سما جانا ہے۔‘‘اس کے ذمہ دار بھی مرد ہی تھے۔خواتین زیادہ تر ہوس کا نشانہ اور کئی طرح کے مظالم کا شکار بنیں جس خاتون سے زنا بالجبر کیا جاتا تھا۔ وہ یہ بھی نہیں جانتی تھی اس کے بچے کا باپ کون ہے۔ایک شریف النفس کے لیے اس سے بڑی سزا کیا ہو گی ؟ دشمن کی اولاد کو اپنے دودھ سے پرورش کرے۔’کرماں والی، یہ کہانی کشمیری لال ذاکر نے لکھی تھی۔جہاں عصمت چغتائی نے غریب،نچلی،بے نور،بوڑھیاں،مہترانیاں،اورغیر رتبہ پسماندہ خواتین کی ذہنی بیداری کی کوشش کی۔جمیلہ ہاشمی نے بھی خواتین کے اس کڑوے کرب کو ظاہر کیا ۔جو آج بھی سماج میں عورتوں کو خرید فروخت کیا جا رہا ہے اور بیجا تعریف کی جاری ہے۔ اس سلسلہ میں ابوالکلام قاسمی لکھتے ہیں۔ ”غزل کی حکمرانی نے تو عورتوں پر تغزل کے دروازے اس طرح بند کئے تھے کہ وہ جانِ غزل تو بن سکتی تھی مگر خود غزل گو نہیں بن سکتی تھی۔‘‘ایسی صورت میں قرۃالعین حیدر نے خواتین کو جذباتی،ذہین اورطاقتور بنا کر پیش کیا جو مردوں کی برابری کر تی ہو۔با شعور صاحب رائے جو عالمی سطح پر ادبی و تاریخی نظر رکھتی ہو ، گھریلو ذمہ داریوں کا بوجھ بھی سہتی ہواور فرسودہ روایتوں کو توڑ کر خود مختاری کا اعلان بھی کرتی ہو۔ایسی بہادر کردار منظرِ عام پر لائی۔
انہیں عناصر کے کردار ہاجرہ مسرور،خدیجہ مستور اور ممتاز شیریں کے افسانوں میں بھی ہیں۔فہمیدہ ریاض نے ازدواجی زندگی کے نازک احساسات و جذباتی پسپائیوں کو تخلیق کا موضوع بنایا۔اس کے علاوہ کشور ناہید، رفیعہ شبنم عابدی ،بلقیس ظفیر الحسن ، پروین شاکر، پروین فنا سید، سفین فاطمہ ،شعریٰ، شہناز نبی، ادا جعفری ،عذرا پروین، ثمینہ، جیلانی بانو، بانوقدسیہ، فرخندہ لودھی، رضیہ فصیح احمد، زاہدہ حنا اور ساجدہ زیدی، زاہدہ زیدی، رُخسانہ جبیں، شبنم عشائی ،صغرا مہدی، عبّاسی بیگم، حسن بیگم، بیگم شاہنواز ، مسز عبدالقادراور نذر سجاد حیدر کے فکشن،شاعری اور ادب کے دیگر اصناف میں تانیثیت کے اہم گوشے نظر آتے ہیں۔ان تخلیق کاروں نے خواتین کے مسائل پر عالمانہ نظر ڈالا۔جہاں تک ہو سکتا تھا ان کی حسّیت،وفاشعاری،پاک دامنی،شرم وحیا،معاش، بھوک، افلاس، پسماندگی ، جہالت ، تشدداور استحصال کی تصویر کھینچی۔تاکہ خواتین کے ساتھ ہونے والے غیر جانب دارانہ مرد مسلط سماج کی تنگ دستی سےراست آگہی ہو سکے۔ مثال کے طور پر صغرا ہمایوں مرزا نے’موہنی‘ناول میں طلاق ، بیواؤں، کی دو بارہ شادی اور پسند کی شادیوں کے مسائل کو موضوع بنایا۔رشید جہاں نے بھی مردوزن کے لیے مروّجہ دو الگ الگ معیار اور تہذیبی اصولوں پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔منجملہخواتین قلم کاروں نےتانیثی فکر کو مرکزی موضوع بنا یا جو نسائی کردار کی عکاسی،حقوق کی پامالی اورجبر واستحصال کے خلاف اندولن ہے۔ان کے بنیادی مقاصد خواتین کی سیاسی، سماجی، معاشی، معاشرتی، سرکاری، خانگی ،ثقافتی، مذہبی،مسلکی اورتعلیمی تمام مسائل کی شعور ی سطح پر بیداری پیدا ہو سکے تاکہ کوئی یہ نہ کہے ” اگلے جنم مُوہے بٹیا نا کیجو جو اب کیے ہو داتا ایسا نہ کیجو”۔؟
تانیثی فکر:
تانیثیت کی باز گشت بین ا لاقوامی سطح پر کام کر رہی ہے۔جن میں خاص فرانس ،برطانیہ ،شمالی امریکہ ،ریاست ہائے متحدہ امریکہ اور کینیڈاوغیرہ میں قابل قدر ادبی خدمات انجام دی جارہی ہیں۔ اُنیسویں صدی میں تانیثیت باقاعدہ مغربی ادب کاایک اہم منفرد حصّہ اورمسلمہ حقیقت کی شکل میں ہمارے سامنےنظرآتی ہے۔اردو ادب کی علم بردار خواتین نے تانیثی جذبات ،تخیلات،احساسات ، انانیت ،خلوص و درد مندی، ایثار،مروت ،محبت ، شگفتگی کا عنصر،اور بے لوث محبت شعاری ، دل پر گزرنے والی ہر بر محل بات ،فی الفور،بلا واسطہ اندازکو الفاظ کے قالب میں ڈھال کر اظہار کی پاکیزگی اور اسلوب کی ندرت کے معجز نما اثرات سے قوت ارادی بڑھادی۔ چاہےوہ کسی بھی پس ماندہ ،غریب اور وسائل سے محروم ملک ہو۔ جہاں اب تک بد قسمتی سے جہالت نے مسلک کی صورت اختیار کر لی ،ایسی جگہوں پر نہ صرف نسائیت بلکہ پوری انسانیت پرعرصہ ءحیات تنگ کر دیا جاتا ہے ۔ مردوں کی بالادستی ، غلبے کے ماحول اور حریت فکر کی شمع فروزاں رکھی۔جبر کے ہر انداز کو مسترد کیا۔مساوی حقوق کےاظہار کو اپنا نصب العین بنایا۔ جس سے ان کی ذہانت،نفاست ،شائستگی ،بے لوث محبت اور نرم و گداز لہجہ۔ ان کے اسلوب کا امتیازی وصف قرار دیا جانے لگااور آنسوؤں کو ہنسی میں بدلنے کا قرینہ پیدا کیا ۔خواتین کی تحریروں میں زیر لب مسکراہٹ ، آنسوؤں کا ضبط ، تضادات ، بے اعتدالیاں اور ہنسنا اس مقصد سے دل برداشتہ ہو کر روناتانیثی مصنفین کی بنیادی فکریں ہیں۔
تانیثی جہات کی دسترس میں انسانیت کے وقار ،سر بلندی کے اہداف، مستحکم ،شخصیت اور قدرتی حسن و خوبی کی لفظی مرقع نگاری، اوصاف حمیدہ ،حسن و خوبی ،دلکشی ، اثر آفرینی کا کرشمہ،جمالیاتی احساس، نزاکت بیان ،جذبوں کی تمازت ،خلوص کی شدت ،بے لوث محبت ،پیمان وفا کی حقیقت اور اصلیت،لہجے کی ندرت ، لب و لہجہ میں ہمیشہ ایک انفرادیت ، ان کی دلچسپیاں ،وابستگیوں اوررعنائیوں سے یہ روزِ روشن کی طرح عیاں ہےاوران کی تحریروں سے حسن نکھر تاہے۔
تانیثیت کے مقاصد:
خواتین کی صلاحیتوں کو نکھارنا۔ فراواں مواقع کی جستجو پیدا کرنا ہے ۔جائز آزادانہ حقوق کی بحالی نسائی خوشحالی اور ترقی کے افق کی مشکلات کو نیست و نابود کرنا۔ ضمیر کی للکار سے جبر کے ایوانوں پر لرزہ طاری کردینے کی صلاحیت سے متمتع کرنا ۔اصل مقصد علم ِبشریات، عمرانیات ،معاشیات،ادب ،فلسفہ ،جغرافیہ ہو یا نفسیات ہرشعبوں میں نسائی حقوق کی مساوات حاصل ہوں ۔تاکہ انسانیت کی توہین ،تذلیل،تضحیک ،بے توقیری کرنے والے و ارزال اور سفہا کے کریہہ چہرے سے نقاب اٹھایا جا سکے۔ایسے ننگ انسانیت وحشیوں کے قبیح کردارسے اہل درد کو آگاہ کرنا۔نسائی اقدار عالیہ کا تحفط اور درخشاں روایات سلامت رہیں۔سماج کے بڑھتے ہوئے جنسی جنوں اور ہیجان کی مسموم فضا کا قلع قمع کرنا۔ اخلاقی بے راہ روی کو مٹا دینا ہی تانیثیت کا اصل مقصد ہے۔
تانیثی تحریک مساوی حقوق کی وکالت کرتی ہے اور حاشیہٗ بردار خواتین کو انصاف دلانا چاہتی ہیں ۔کیوں کہ ہر دور میں خواتین نے قربانیوں کےلیے ہمیشہ مرد کے شانہ با شا نہ ساتھ دیا ۔وہ زندگی کوخوشگوار جینا اور حائل مشکلات کا سد باب چاہتی ہیں۔اس ضمن میں ڈور روتھی پار کرنے Modern Women: The Lost Sex میں رقم طراز ہے’’عورت کہنے کے بجائے صرف انسان کہا جائے۔‘‘تانیثی مسائل کا حل نسائی سوالیہ نعرے بازی سے نہیں مرد کے پرخلوص مفاہمتی رویے سے ہو ۔تانیثیت مرد پر حملہ نہیں مفاہمت کااپروچ ہے۔جس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔نپولین کہتا ہے’’عورت ایک ہاتھ سے بچے کاجھولا جھلاتی ہے تو دوسری ہاتھ سے وہ چاہے تو سارے عالم کاجھولا جھلا سکتی ہے۔‘‘تانیثی ناقدین کا اصل مقصد دنیامیں مختلف ا قسام کے عدم مساوات کا تصور باطل کرنا ہےاورمرد اساس معاشرے میں خواتین کی بے قدری،محرومی اور اس پرعائد کردہ پابندیوں کی آزای ہی تانیثیت کا بنیادی مقصد ہے۔
تانیثیت کے فائدے:
تانیثیت نےخواتین کو مضبوط حوصلے ا ور اعتماد سے آگے بڑھنے کے راستے ہموار کیے۔اخلاقی اوصاف حمیدہ سے نہایت فیاضی اور مساو ی حیثیت و تحفظات میں معاون ثابت ہوئیں۔مژدہ جاں فزا سنایا کہ قید حیات اور بند غم سے دلبرداشتہ ہونے سے حفاظت کی۔عزت و وقار سے زندگی کوخوب سے خوب تر جینے کی جستجو دی۔حوصلہ افضائی اورارتقا کی جانب گامزن رہنا سکھایا۔کامرانی اور مسرت کی کوشش کرنا اوراپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانے کا ہنر سکھایا۔حریت فکر اور آزادی اظہار کی خاطر کسی قربانی سے دریغ نہ ہونے دیا۔ اپنے تخلیقی وجود کا اثبات کرکے جنسی موزوں ارتباط کی جانب توجہ مبذول کی۔خواتین کو سماج میں اہم مقام و مرتبہ حاصل ہوا۔ خوابیدہ صلاحیتوں میں نکھارپیدا ہوا۔ تخلیقی اظہار کر نےکےمواقعے پیدا کرنےکا آغاز ہوا۔ اب وہ پروفیشنل ہےاور ذمہ داری کااحساس رکھتی ہے۔مردوں کی مکاریوں اور سازشوں سے آگاہ ہے۔ وہ اپنے فہم و ادراک سے کام لیتی ہے۔ اس کی اپنی رائے ،نظریہ ہےاور تصورات ہیں۔ یہ لَے تانیثی مصنفین کے یہاں پوری شدت کے ساتھ کارفرما ہے۔ ان کی حیثیت کبھی پست تو کبھی بلندو خفیف ہے۔
خواتین پر مردوں کا سکہ رائج تھا تو انہیں اکثر و بیشتر رعایت میں ہی حوصلہ افزائی کی جاتی تھی۔تانیثی تحریک کے بعد جہاں انہیں کچھ کرنے کے مواقع فراہم ہوئے تو انہوں نے تاریخ بنا ڈالی جس کی قابلِ فخر مثال اردو فکشن میں قرۃالعین حیدر ہے۔آپ بیتی میں بھی صفِ اول نام حمیدہ اختری حسین کا لیا جا سکتا ہے۔ان کے علاوہ دنیا کے ہر شعبے میں خواتین نے اپنے جوہر دکھلائے ہیں۔
اولین خواتین سیاست دانوں میں نوربانو، اینی بسنٹ، سروجینی نائیڈو اور لکشمی پنڈت کے علاوہ وزیرِ اعلیٰ’ سیتا کرپلانی، اپنے عہدے کے ساتھ ساتھ۱۹۴۶ میں مشرقی بنگال کے فسادات سے متاثر ہونے والی خواتین کو بچایا۔نو اکھلی کے فساد میں گاندھی جی کےساتھ اہم خدمات انجام دیں۔ہندوستان کی ایم ۔پی۔(برٹین)’زیر بانو گرورڈ،کو پارلیمنٹ کی پہلی ایشائی خاتون ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ان سے پہلے اس ملک کی خاتون کو برٹش ہاؤس کامس میں جانے کا موقع نہیں ملا۔لڑکیوں اور اقلیتی فرقوں کے حقوق کی خدمات کے لیے انہیں’نہرو شتابدی پُرسکار، دیا گیا۔انہوں نے جرنلزم کورس کیا تھا۔ASHA،تنظیم جو انسانی فلاحی کے کام کرتی ہے۔ اس کی فاؤنڈر بھی رہی اور ایک تصنیفConfession to a Serial womaniser کے نام سےلکھا ۔جس میں ۶۰ ملکوں کی ۳۰۰ خواتین کی خدمات کا ذکر کیا ہے ۔تاکہ دیگر خواتین کی حوصلہ افضائی ہو۔
’ ہنسا مہتا،پہلی وائس چانسلر ،ادیبہ اورمقرّر ہ ہیں۔مجاہدہ آزادی میں کئی بار جیل گئیں۔وزارتِ خارجہ کی ترجمان’نروپماراؤ،کی اہم خدمات سیاسی ہیں ۔راجیو گاندھی کے ساتھ جانے والے وفد میں شامل تھیں۔بھارت چین سفارتی وقف کا رتھیں۔ بھارت کی سفیر رہی ہیں،ہائی کمشنز رہی،چین میں ہندوستان کی سفیر مقرر ہوئیں اور واشنگٹن اور ماسکو کی سفارت کا ر اور وزارتِ خارجہ جو شرقی ایشائی کاموں کی جوائنٹ سیکریڑی بھی رہی ہیں۔اسی طرح ایک اور نام قابل ذکر ہے ۔جو الکشن کمشنر’نیلاستیہ نارائن،نے عہدے کے ساتھ انڈین سیول سروس کا آغاز کیا۔ اتنی بڑی افسر ہونے ساتھ وہ شاعرہ بھی ہیں ۔جن کی۱۵۰ سے زیادہ نظمیں البم کی شکل اختیار کرچکی ہیں اور میوزک بھی دیا ہے۔
کھیلوں کے میدان میں خواتین مواقع فراہم ملتےہی مردوں سے بہترین خدمات انجام دیں۔انگلش چینل پارکرنے والی تیراکی’ آرتی ساھا،کافی عرصے تک ہندوستان کے علاوہ کئی ملکوں کی اول تیراکی رہی۔’ شائنی ولسن، اولمپک سیمی فائنلسٹ رَنر ہے۔اس نے۷۵ سے زیادہ قومی و بین الاقوامی سطح پر چار مرتبہ اولمپک کھیلوں میں حصہ لیکراس ملک کی بہترین نمائندگی کی ۔Asian Track and Field Meets میں ۶ دفعہ کھیل کا مظاہرہ کیا ،جس میں۷ گولڈ،۵سلوراور دو برانز میڈل حاصل کی،SAF ۱۸ گولڈ دو سلور میڈل جیتیں اور ۱۸ برس تک۸۰۰ میٹر دوڑ کی نیشنل چمپئن رہی،پدم شری انعام حاصل کی ۔ اس کے علاوہ کئی اور اعزازات سے نوازی گئی۔’میری کام،ورلڈ چمپئن مُکّے باز ہے۔ جس نے ارجن’پدم شری‘راجیو گاندھی کھیل رتن،لمکا بک آف ریکاڑ سے کھیل رتن ایواڑسThe Northeast Excellence Award حاصل کی،سہارا انڈیا پریوار سے The Sports woman of the Yearکا اعزازملا اورYelo Woman Achiever FCCI Ladies Organizationاعزا زسے نوازا گیا۔’کنجارانی دیوی، گولڈ میڈلسٹ ویٹ لفٹر ہے۔اس نے کھیل جوہر کامن ویلتھ گیمس میں گولڈ میڈل جیتا،شنگھائی میں ایشین ویٹ لفٹنگ چمپئن جیت کر ایک سلور،برانز میڈل حاصل کی۔مانچسٹر میں دو سلو ر میڈل ملے اور دیگر سات ملکوں میں سات سلور میڈلس حاصل کی۔انڈو نیشیا میں ۳ سلور میڈل ملےاس طرح وہ ملکی اور غیر ملکی سطح پر ۵۱ میڈلس حاصل کر چکی ہیں۔اس کےعلاوہ دیگر اعزازات سے بھی نوازی جا چکی ہیں۔سائنا نہوال،’سُپر سیریز وِنر اسٹار شٹلر ہے۲۰۱۰ میں ایک ساتھ۳ انعامات حاصل کرکے ولڈ ٹینس رینکنگ میں ۳ درجہ پر آگئی تھی۔’تیجسونی سانت، ورلڈ چمپئن نشانے باز ہے یہ خطاب اس کو میونخ(جرمنی) میں ملا تھا۔ورلڈ شوٹنگ چمپئن شپ ۵۰ میٹر رائفل پرون کے مظاہرے سے برانز میڈل ملا جو عالمی ریکارڈبن گیا اور کھیلوں کے میدان میں دلی کامن ویلٹھ گیمس میں’کرشنا پونیا، کو ٹریک اینڈ فلڈ گولڈ میڈل وِنر سے نوازا گیا۔اس کی یہ کامیابی اس ملک کو کامن ویلتھ گیمس کی ایتھلیٹکس کیٹگری ۵۲ سال بعد ملی اس کی اصل حقدار کرشنا پونیا ہے۔
آج کی خواتین کھیلوں کے علاوہ ہواؤں میں بھی اپنی پوشدہ صلاحیتوں سےیاد گار تاریخ بنا رہی ہیں۔جس کی مثال’سُمن شرما، جو لڑ اکو جہاز پائلٹ بنی ہندوستان کے علاوہ وہ عالمی سطح کی اولین خاتون ہے۔جس نےRussian MIG-35 جہاز اُڑاکر ایک ہفتے میں ۱۰ بلین ڈالرIAF Fighter Deal حاصل کی۔’وینا سھارن، نےہندوستان کے ’گج راج‘ طیّارہ آئی ۷۶۔ اس ملک کا فضائیہ عظیم طیّارہ ہے۔اُسے چالیس گھنٹے پروازکر کے ریکارڈ قائم کیا اور سونامی کے دوران اہم خدمات انجام دی۔’وحیدہ پرسم، نے سرجن لیفٹیننٹ کمانڈر کی حیثیت سے بہترین خدمات کی۔
خواتین نے نہ صرف طیاروں کی اُڑان بھری بلکہ آفیسر ہو یاادنیٰ ورکرہر روپ میں مرد سے کمتر نہیں ۔ جن میں’پدما بندوپادھیائے، ایئر مارشل کی حیثیت سے اس ملک کی فوج ایئر کوموڈور کا عہدہ سنبھالا ، بھارتی فضائیہ کی سینٹرل میڈیکل اسٹیبلشمنٹ کی کمان رہی،کیرالا کمیشن فار بیک ورڈ کلاسز کی چیئر پرسن رہی،ہیومن رائٹس کمیشن کی ممبر بنائی گئی،بھارت جیوتی ایواڈ سےسرفراز ہوئی اور دیگر اعزاز و انعامات سےبھی نوازی گئی۔اس کی اہم خدمات راجیو گاندھی مرڈر کیس کے ملزموں کی رحم کی درخواست نا منظورہے۔
خواتین کی یہ تمام خدمات آج کی تاریخ ہے۔پھر مرد معاشرہ انہیں مساوی درجہ دینے سے انکار کرتا ہے۔ اس ملک کی تانیثیت کی علمبردار ادیبہ تارابائی شندے کی شکل میں منظرِ عام آئی جس کا نام ’ چوکیلا ایرّ ہے وہ خارجہ سیکریٹری رہی۔اس نے امریکہ کے کوفی عنّان کو دلی میں استقبا ل کرنے کا اہم فریضہ انجام دیااوردیگر ملکوں کے تعلقات ٹھیک کرنے کے فرائض بھی انجام دئے۔
محاصل:
تانیثی شعور سے خواتین اپنی ذات کی شناخت کر رہی ہیں۔تاریکیوں سے نکل کر دیومالائی قصوں سے الگ نئی پہچان بنا رہی ہیں۔بے جا رسومات اور چار دیواری سے آزاد کھلی فضا میں اپنے حق کا لوہا منوارہی ہیں۔پرانی نسائیت کو نئی جہت سے روشناس کرا رہی ہیں۔مردوں کی جو پہچان تھی آج وہی خواتین کی بن رہی ہے۔ انہیں آج بھی سماج میں روایتی قدر حاصل ہے۔جیسے محاوروں، ضرب الامثال، اور لطیفوں کے ذریعے خواتین کا خاص تصور ہے۔اگر کچھ مرد خواتین کی صلاحیتوں سےاتفاق رکھتے ہوں تو انہیں’زن مرید ، کہا جاتا ہے۔صنفِ نازک سمجھ کر جسمانی کمزوریوں پہ توجہ مبذول کیا جاتا ہے۔کسی بھی طرح سے مرد اپنے برابر مقابلے کی شئے ماننے سے منکرہے۔
خواتین کی یہ امیج ادب، فلم، ڈرامہ،شاعری ،آرٹ اور فنون لطیفہ یہاں تک کہ ہر میدان میں صاف نظر آتی ہے۔ پست حیثیت کی بنیادی وجوہات میں کمتر احساسات و خیالات کو دور کیا جائے تو تانیثیت کے مقصد کو حاصل کر سکتی ہیں۔جوتانیثی تصویر ہمارے سامنے ہے۔یہ ہر لحاظ سے اہم ہے کیوں کہ،ظلم و ذیادتی اور مرد کے اقتدار طاقت کے باوجود خواتین نے شکست قبول نہیں کی۔وہ ہر وقت امتحان کے لیے تیار رہی۔گر چےدبایا ،کچلا گیا اس کی پہچان مٹا نے کی حتی الامکان کوشش کی گئی ۔ اس نے اپنی بقاء کی جنگ زندگی کے ہر لمحہ میں لڑتی رہی ۔اس کی مثال وہ خواتین ہیں جنہوں نے بحیثیت سربراہِ مملکت،فوج کے سپہ سالار،ادیبہ و شاعرہ اور فن کار کی حیثیت سےانہوں نے اپنی بات منوالی۔ مرد غالب معاشرہ ہونے کے باوجود ان کی روایات و ماحول میں انہوں نے بڑی خاموشی سےاپنی پہچان بنائی جو آج زندگی کے ہر شعبے میں موجود ہے۔
یہ سچ ہے کہ مشرق سے زیادہ مغرب میں تانیثیت کا غلبہ ہے۔خواتین تیزی سے تانیثی تبدیلی کی طرف بڑھ رہی ہیں ۔ وہ ثقافتی غلامی سے نکل کر آزادہو نے کی ہر ممکن کاوشوں میں لگی ہوئی ہیں۔جیسے اب تک خدا کو بحیثیت مذکر استعمال کیا جاتا ہے۔ اب یہ تانیثی فکر ہے خداکو غیر جانبدار ی سے کہا جائے۔اسی طرح سے چیئر مین کی جگہ چیئر پرسن کا استعمال ہو گیا ہے۔وہ اصطلاحات جو مقبول ہیں انہیں بدلنے کانام ہی تانیثیت ہے۔لیکن آج بھی امریکہ و یورپ میں خواتین کو اُن کے نام سے نہیں مخاطب کیا جاتا۔مثلاً شادی سے پہلےمس ٹامسن تو شادی کے بعدمسرز جانسن کہلاتی ہیں۔اس طرح سے اس کی اپنی پہچان ختم ہوگئی۔
خواتین کے مساویاتی حقوق میں مردوں کی کامیابی چھپی ہے ۔ان کی خوشحالی معاشرے کو نئی توانائی دے گی۔وہ صلاحیتیں جو چاردیواری میں زنداں ہے۔ وہ معاشرے کےسدھارنے میں معاون ثابت ہوں گی۔اسی لیے تانیثیت کی جدو جہد اور فکریں اب ہر گوشے میں شامل ہو رہی ہیں۔خواتین کو ہر شعبے میں حریت ضمیر سے جینے کی آزادی اسلام نے آج سے چودہ سو سال پہلے دیا۔ یکساں مواقع، منصفانہ ماحول،عزت اور تکریم بلند مقام پیدا ہو رہا ہے۔اس سے قبل کسی اور مذہب یاقانون نے نہیں دیا تھا۔ اب یہی آزادی تانیثی فلسفے کی بنیا دی فکرہے۔
ان تمام طرقی پذیر اس کیمات وتجاویز کے باوجوداب بھی خواتین بری طرح سماجی استبداد، قتل مادر جنین، نیلامی،اورجہیز کی بنا پر نظرِآتش ہو رہی ہیں۔ اس کے علاوہ کئی نا انصافیوں کی شکارہورہی ہیں۔منٹو نے ٹھیک ہی کہا تھا:”تم عورت عورت پکارتے ہو، عورت ہے کہاں؟مجھے تو اپنی زندگی میں صرف ایک عورت نظر آئی جو میری ماں تھی۔ خواتین البتہ دیکھی ہیں۔،،اردو ادب سے بھی تانیثاؤں نے مردوں کی عائد کردہ تعریفوں اور اپنے آپ پر خود عاید کردہ ظلم واستبداد کو رد کرتے ہوئے نسائی شناخت وجمالیات کوتانیثی تھیوری کی حیثیت سے تحقیق کے دروازے کھول دِیے۔تاکہ یہ نصف حصہ خواتین اپنے طور پر سونچ وچار کر سکیں ، محسوس کریں،جینے سے مرنے تک کے در پیش آنے والی خواہشات،احساسات اورشعور وادراک کا نام ہی تانیثیت ہے۔ جسےبروئے کار لاتے ہوئے آج کی خواتین اپنے وجود کو منوانا ہے ۔مصائب اورآلام بے مہری سے دوچار ہونے کے باوجود عزم وحوصلے سے آگے بڑھنا ہی تانیثیت ہے ۔تعمیر وترقی اور تہذیبی ارتقاء میں خواتین کا کلیدی رول ہے ۔ جس معاشرے کی خواتین کو سیاسی، سماجی، معاشی اور اخلاقی سطح پر امتیازی سلوک برتا جارہا ہے۔اُن کی توہین ،تضحیک اور تذلیل کی جارہی ہے۔ جو معاشرہ خواتین کی عزت نفس کا خیال نہ رکھے۔اور کمتر دکھانے اورشکست دینے کےلیے ساری توانائیاں اور تخلیقی صلاحیتوں کو صرف کرتا ر ہے۔نتیجہ یہ کہ سیاسی، اقتصادی، تہذیبی وتمدنی ترقی رُک جاتی ہے۔ہمیں ان کے شعور فہم وذکاوت اور ان کی صلاحیتوں کو ایک اہمیت دینی چاہیے۔ گھر کی سالمیت، ازدواجی زندگی، رشتوں کی حفاظت ۔ تاکہ صنف نازک کی زندگی میں تبدیلی لانے کے کا ذریعہ بنے۔ ان کے سماجی رتبہ اور وقار میں اضافہ ہو۔۔ ۔ ’یہ خدا کی مصلحت ہے‘وہ اپنے وجود کی اثبات چاہتی ہے لیکن وہ جنس کی قدر داں بھی ہے۔
حوالہ جات
۔مغنی تبسم،لفظوں سے آگے(تنقیدی مضامین)،تعارف ص۱۲،مکتبہ شعر و حکمت،حیدرآباد،دسمبر۱۹۹۳ء
.”Feminist Theory Today, An Introduction to second wave Feminism ”by Judith- Evans, p.11. Access, at. www.KitaboSunnat.com. On26 Aug.2012.At.2.30.pm.p,82 ”There is forever in feminist thought a problem of what term to apply when speaking of say”women” The use of ”Women”is problematic. I know that there will be times when I say”without meaning”all Women”
۔”Feminist Theory today,An Introduction to second wave Feminism”by Judith Even.p.29۔”Neither man, nor women”
۔مغنی تبسم،لفظوں سے آگے(تنقیدی مضامین)،تعارف ص۱۱،مکتبہ شعر و حکمت،حیدرآباد،دسمبر۱۹۹۳ء
۔ابوالکلام قاسمی،تانیثیت کےمباحث ،ماہنامہ اردو دنیا،فروری۲۰۱۲، نئی دہلی ،ص۲۰
۔عتیق اللہ ،تعصّبات ،ایم ۔آر۔پبلی کیشنز،ص۱۱۳، نئی دہلی،۲۰۰۵
۔ عتیق اللہ پروفیسر ،تانیثیت:ایک سیاقی مطالعہ، ص۳۵،مشمولہ،شبنم آرا،تانیثیت کے مباحث اور اردو ناول، ص۱۴، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی،۲۰۰۸
۔ مبارک علی، ڈاکٹر ،تاریخ اور عورت(چوتھاایڈشن)،ص۔۱۳،ارتقا انسٹی ٹیوٹ آف سوشل سائنسز،کراچی،فروری۲۰۱۰ٗ
۔ میری لوئس جانسین جوریٹ،Sesism،(نیویارک،۱۹۸۲ء)ص ۸۴،مشمولہ ، مبارک علی،ڈاکٹر ،تاریخ اور عورت(چوتھاایڈشن)،ص۱۳۔۱۴،ارتقا انسٹی ٹیوٹ آف سوشل سائنسز،کراچی،فروری۲۰۱۰ٗ
۔ مبارک علی ،ڈاکٹر ،تاریخ اور عورت(چوتھاایڈشن)،ص۔۲۹،ارتقا انسٹی ٹیوٹ آف سوشل سائنسز،کراچی،فروری۲۰۱۰ٗ
۔ ایضاً،ص۔۷۳
۔شاہنواز خان،ماثر الامراء،اردو ترجمہ،جلد اول،لاہور،۱۹۶۸،ص۶۸۴۔
۔ مبارک علی ڈاکٹر ،تاریخ اور عورت(چوتھاایڈشن)،ص۳۶،ارتقا انسٹی ٹیوٹ آف سوشل سائنسز،کراچی،فروری۲۰۱۰ٗ
۔ایضاً،ص۱۳۳
۔، مبارک علی ڈاکٹر، تاریخ اور عورت (چوتھاایڈشن)،ص۱۴۰،ارتقا انسٹی ٹیوٹ آف سوشل سائنسز،کراچی،فروری۲۰۱۰ٗ
۔ مبارک علی ،ڈاکٹر، تاریخ اور عورت (چوتھاایڈشن)،ص۔۵۳۔۵۴،ارتقا انسٹی ٹیوٹ آف سوشل سائنسز،کراچی،فروری۲۰۱۰ٗ
۔ایضاً،ص۵۵
۔سیر سید،خطبات سرسید،حصہ اول(لاہور)ص۔۴۶۶۔۴۶۷
۔منہاج سراج،طبقات ناصری، اردو ترجمہ،(لاہور،۱۹۶۷)ص۸۰۸۔۸۰۷
۔ عتیق اللہ ،ترتیب و انعقاد ،بیسویں صدی میں خواتین اردو ادب،۲۰۰۲ ،دہلی ،موڈرن پبلشنگ ہاؤس،ص۸۷،
۔ مبارک علی ڈاکٹر ،تاریخ اور عورت(چوتھاایڈشن)،ص۔۱۱،ارتقا انسٹی ٹیوٹ آف سوشل سائنسز،کراچی،فروری۲۰۱۰ٗ
۔ ایضاً۔ص۱۴۲
۔ایضاً۔ص۔۵۴
۔برٹرینڈرسل ، عورت:زندگی کا زنداں،مشمولہ،زاہدہ حنا، تخلیق کار پبلشرز،دہلی،۲۰۰۶ ،ص ۲۷
۔ وی ۔پی سُوری، ڈاکٹر ۔اردو فکشن میں طوائف،ادارہ فکرِجدید،نئی دہلی۔۱۹۹۲ ص۴۹
۔ وی ۔پی سُوری، ڈاکٹر ،اردو فکشن میں طوائف،ادارہ فکرِجدید،نئی دہلی۔۱۹۹۲ ص۵۳۔۵۴
۔ ایضاً، ص۵۷
. ایضاً ،ص۵۷۔۵۸
۔ مبارک علی ڈاکٹر ،تاریخ اور عورت(چوتھاایڈشن)،ارتقا انسٹی ٹیوٹ آف سوشل سائنسز،کراچی،فروری۲۰۱۰ٗ، ص۔۴۶
۔ جیلانی بانو ،بیسویں صدی میں خواتین اردو ادب،ترتیب و انعقاد عتیق اللہ ،موڈرن پبلشنگ ہاؤس،دہلی،۲۰۰۲، ص۱۹۔۲۰
۔ ابوالکلام قاسمی ،ایضاً۔ص۶۳
۔ہادی رسوا،ڈائرکٹر،انومالک، فلم’ امراؤ جان ادا’،گیت’اگلے جنم موہے بٹیا’access on11th June13 at 9.41 am http://www.youtube.com/results?search_query=agle+janam+mohe+bitiya+na+kijo+umrao+jaan+full+song
۔سید محمد عقیل، بیسویں صدی میں خواتین اردو ادب،ترتیب و انعقاد عتیق اللہ،موڈرن پبلشنگ ہاؤس،دہلی،۲۰۰۲، ص۳۵
۔نیپو لین، جدید تحریک نسواں اور اسلام ،مشمولہ، ثریا بتول علوی،پروفیسر ،منشورات،ملتان روڈ،لاہور، ص۳۸۰،
سعادت حسن منٹو،مشمولہ،دیویندر اسّر۔ بیسویں صدی میں خواتین اردو ادب،ترتیب و انعقاد عتیق اللہ، ص۴۶،موڈرن پبلشنگ ہاؤس،دہلی،۲۰۰۲
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Jan Nisar Moin
Senior Research Scholar
Deptt. Of Women Education
Maulana Azad National Urdu University
Jannisarmoin1@gmail.com/9394578313
Leave a Reply
2 Comments on "تانیثیت:چند بنیادی مباحث
"
[…] 123. تانیثیت:چند بنیادی مباحث […]
[…] تانیثیت:چند بنیادی مباحث […]