کلیم عاجز کی ایک غزل
غزل کس کی ہے یہ انداز بے باکانہ کس کا ہے
اسے محفل میں لایا کون یہ دیوانہ کس کا ہے؟
یہ کس کو مل گئی بوتل شراب میر و آتش کی
خرد کے دور میں یہ نعرۂ مستانہ کس کا ہے؟
یہ پھر سے داستانِ عشق رنگیں کس نے کر دی ہے
لہو کا بارگاہِ حسن میں یہ نذرانہ کس ہے؟
کلیجہ کس کا جلتا ہے یہ کیسی آنچ آتی ہے
یہ کس کا ہے غم جاں یہ غم جانانہ کس ہے؟
یہ کیا شئے ٹوٹنے کی مستقل جھنکار آتی ہے
یہ دل کس کا ہے دل سے شغلِ بے دردانہ کس کا ہے؟
ستم ڈھایا ہے کس کافر صنم کی زلف برہم نے
شکستہ آئینہ ٹوٹا ہوا یہ شانہ کس کا ہے؟
لہو کی مے سبو ٹوٹے دلوں کے جام زخموں کے
یہ کس قاتل نے کھلوایا ہے یہ میخانہ کس کا ہے؟
لہو روتے ہی رہنا ہے؟ غزل گاتے ہی رہنا ہے؟
سزا یہ کس نے دی کیا جرم ہے جرمانہ کس کا ہے؟
غزل کے آئینے میں زندگی کس کی جھلکتی ہے؟
غزل خواں سے کوئی پوچھو یہ افسانہ کس کا ہے؟
جی کیا فرمایا؟ عاجز ہند سے تشریف لائے ہیں
وہی تو میں کہوں یہ طرز درویشانہ کس کا ہے؟
سبوئے کہنہ میں صہبائے تازہ اور کس کی ہے
یہ رشک جام جم یہ ٹوٹا ہوا پیمانہ کس کا ہے؟
اسی نے ابتدا کی ہے اسی پر انتہا ہوگی
فقیری میں بھی ایسا لہجۂ شاہانہ کس کا ہے؟
کلیم عاجز کو پہلی مرتبہ میں نے ان کی تحریروں کے ذریعہ سے جانا۔ ایم اے کے دوران ان کے شعری مجموعے ”وہ جو شاعری کا سبب ہوا” میں شامل ان کی زندگی کی درد بھری داستان کو پڑھنے کا شرف حاصل ہوا۔ استاد محترم سرورالہدیٰ صاحب کی زبانی کلیم عاجز کے شعر سنتے رہتے تھے جس کی وجہ سے بہت سے اشعار یاد بھی ہو گئے۔ ویسے بھی کلیم عاجز کی شاعری دلوں میں گھر کر لینے کا ہنر خوب جانتی ہے۔ ان کے کلام میں پائی جانے والی تہہ داری قاری کو ذرا دیر ٹھہر کر سوچنے پر مجبور کرتی ہے اور اپنے سحر سے آزاد بھی نہیں ہونے دیتی۔ ایسا گمان ہوتا ہے کہ زندگی کی سچائیاں اشعار کے قالب میں ڈھل کر ایک مرتبہ پھر سامنے آن کھڑی ہوئی ہیں۔
کلیم عاجز کی اس غزل کا مطالعہ کرنے سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ متکلم کوئی تیسرا شخص ہے جو اس مادی دنیا میں ہونے والے ایسے کاموں پر حیرت کا اظہار کر رہا ہے جس کے ہونے کی امید نہیں کی جا سکتی۔ وہ پوری غزل میں ایک اجنبی کی طرح ہر نئے اور اچھوتے کام پر گفتگو کرتے ہوئے ہر بار ایک ہی سوال پوچھتا ہے کہ یہ کام ”کس کا ہے؟” غزل کی یہ ردیف بھی اپنے اندر معنوی حسن رکھتی ہے۔ غور کرنے پر احساس ہوتا ہے کہ ان تمام کاموں کو انجام دینے والا دراصل خود متکلم ہے لیکن وہ اپنی خود نمائی سے بچنا بھی چاہتا ہے۔
کلیم عاجز کی اس غزل کو پڑھتے ہوئے نظم کا سا احساس ہوتا ہے۔ ان کی اکثر غزلوں میں تسلسل پایا جاتا ہے ۔
غزل کس کی ہے؟ یہ انداز بے باکانہ کس کا ہے
اسے محفل میں لایا کون، یہ دیوانہ کس کا ہے؟
اس غزل کا متکلم کون ہے۔ کیا متکلم سوالیہ انداز قائم کرتے ہوئے خود اپنے متعلق گفتگو کر رہا ہے اور وہ اپنی حیرانی دور کرنے کی غرض سے اپنے سوالات کے جوابات لوگوں سے دریافت کر نا چاہتاہے۔ درج بالا شعر پر غور کریں تو اس میں حیرت کا پہلو بھی شامل نظر آتا ہے۔’انداز بے باکانہ’ کا ٹکڑا مصرع ثانی کے لفظ دیوانہ سے پوری طرح ہم آہنگ ہے۔ ایک دیوانہ ہی اپنی بات بے خوف ہو کر دوسروں کے سامنے رکھ سکتا ہے۔ اس بے باکی کا تعلق غزل کے اسلوب سے ہے۔
تمام شعرا ایک ہی طرز کی شاعری کرنے اور اس میں کمال پیدا کرنے کی خواہش کو بروئے کار لانے میں منہمک ہیں، ایسے میں ایک نیا لب و لہجہ، ایک تازہ آواز تمام لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کر لیتی ہے اور لوگ حیرت کے ساتھ ایک دوسرے سے اس کے متعلق سوال پوچھ رہے ہیں۔ اس حیرت میں کہیں نہ کہیں خوشی کا پہلو بھی شامل نظر آتا ہے۔ ظاہر ہے کہ غزل میں انداز بے باکانہ کی روایت پرانی ہے لیکن کلیم عاجز نے اپنے عہد کے سیاق میں اپنی غزل کے اسلوب کو بظاہر مختلف بتایا ہے۔
شعر کا دوسرا مصرعہ بھی اپنے اندر معنوی تہہ داری رکھتا ہے۔ اس مصرعہ میں متکلم کو دیوانہ کہہ کر مخاطب کیا گیا ہے اور ساتھ ہی اس کے محفل میں آنے کی بات بتائی جا رہی ہے۔ یہاں بھی چند سوالات قائم ہوتے ہیں جن کے جوابات تلاش کیے بغیر شعر کے معنوی حسن تک نہیں پہنچا جا سکتا۔ جس محفل کا ذکر کیا جارہا ہے کیا وہ محفل دیوانوں کی ہے یا متکلم جو دیوانگی کی حالت میں ہے وہ محفل میں چلا آیا ہے۔ وہ خود آیاہے یا اسے کوئی اور محفل میں لے آیا ہے۔ ممکن ہے جس محفل کا ذکر کیا جا رہا ہے اس محفل کے تمام لوگ خود بھی کسی نہ کسی کی نظر کے شکار اور زلف کے اسیر ہوں۔ تو کیا دیوانوں کو اپنے علاوہ کسی دوسرے کا بھی خیال رہتا ہے یا وہ پوری طرح اپنے محبوب کے ہی عشق میں مبتلا ہیں ۔ اس خیال کو فراق گورکھپوری نے اس طرح باندھا ہے
ہوش کی توفیق بھی کب اہل دل کو ہو سکی
عشق میں اپنے کو دیوانہ سمجھ بیٹھے تھے ہم
لیکن کلیم عاجز کا متکلم اپنے عشق کے مراحل میں انتہا کو پہنچ چکا ہے، یہی وجہ ہے کہ دیگر عاشقان حسن بھی اس کی طرف متوجہ ہونے پر مجبور ہو گئے۔ شعر میں ”بے باکانہ انداز” کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔
یہ کس کو مل گئی بوتل شراب میر و آتش کی
خرد کے دور میں یہ نعرۂ مستانہ کس کا ہے؟
آج کا دور مشینی دور ہے۔ لوگ دل سے سوچنے کے بجائے ذہن سے کام لینا بہتر سمجھتے ہیں۔ دل انسان کی خواہشوں کا منبع ہوتا ہے ۔ خواہشوں کی عدم تکمیل انسان کو پریشانیوں میں مبتلا رکھتی ہے۔ دل ہی عشق کی آماجگاہ بھی ہے۔ تو کیا صرف عقل و ذہن کی بات ہی تسلیم کرنی چاہیے؟ ذہن اور دل دونوں انسانی زندگی کا لازمی حصہ ہیں۔ اقبال کا شعر دیکھیے
اچھا ہے دل کے ساتھ رہے پاسبان عقل
لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے
دل کی پاسبانی لازمی ہے، بے جا آزادی مصیبت میں ڈال سکتی ہے لیکن اگر اس کی آزادی سلب کر لی جائے تو پھر انسان کی زندگی بے رنگ و نور ہو جائے گی۔ اسی کے دم سے انسانی زندگی میں چہل پہل نظر آتی ہے۔ اوپر کے شعر میں متکلم بھی اسی جانب اشارہ کر رہا ہے کہ آج کی مادہ پرست دنیا میں نعرۂ مستانہ گویا زمانے کی روش کے خلاف آواز بلند کرنا ہے۔
متکلم نے شراب میر و آتش کا ذکر کیا ہے۔ اس سے مراد عشق و عاشقی کی وہ روایت ہے جس کی ہر زمانے میں اس کی پاسداری کی جاتی رہی۔ شراب میر و آتش دراصل زندگی اور فن کا ایک اسلوب ہے۔ یہ کس کو مل گئی سے واضح ہے کہ جسے یہ شراب ملی ہے وہ اپنے مقدر پر نازاں ہے اور لوگ اس بات پر حیرت زدہ ہیں اس لیے کہ یہ دور تو نعرۂ مستانہ لا متحمل نہیں ہے۔ لفظ خرد نئے زمانے کی جانب اشارہ کر رہا ہے۔ دراصل خرد پر مکمل انحصار کرنا ہی شراب میر و آتش سے دور ہو جانا ہے۔ عقل حیلے اور بہانے بھی تراشتی ہے۔ عشق اپنا خراج بھی وصول کرتا ہے۔ پروانے کو آخر شمع کی محبت میں ، اسی کی آگ میں جل کر اپنی جان کی قربانی دینی پرتی ہے۔ عاشق اپنے معشوق کے ہجر میں تڑپتا اور وصال کی خواہش میں بے چین پھرتا ہے۔ بظاہر تو محسوس ہوتا ہے کہ اگر عشق میں ایسی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے تو پھر خرد کے حیلے اور بہانے بہتر ہیں لیکن یہ بھی دیکھنے کی ضرورت ہے کہ بارگاہِ حسن میں باریابی کے لیے نذرانہ تو دینا ہی پڑتا ہے۔ کلیم عاجز کا درج ذیل شعر اسی جانب اشارہ کر رہا ہے
یہ پھر سے داستان عشق رنگیں کس نے کر دی ہے
لہو کی بارگاہ حسن میں نذرانہ کس کا ہے؟
عشق کی داستان کا رنگین ہونا فطری ہے۔چونکہ داستان عشق رنگین کی گئی ہے اس لیے اس کی رعایت سے دوسرے مصرعے میں لفظ ”لہو” کا استعمال کیا گیا ہے۔ لہو کا رنگ سرخ ہوتا ہے جس سے معشوق کے ظلم کا بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے، خواہ حقیقی معنی میں ہو یا مجازی۔ عشق میں گرفتار عاشق مجنوں کی سی کیفیت میں بھٹکتا رہتا ہے۔ اس پر پھبتیاں بھی کسی جاتی ہیں اور پتھر بھی مارے جاتے ہیں۔ غالب کا شعر ہے
میں نے مجنوں پہ لڑکپن میں اسد
سنگ اٹھایا تھا کہ سر یاد آیا
لیکن عاشق اپنے عمل سے باز نہیں آتا۔ وہ تو عشق کے ہاتھوں مجبور، اپنے محبوب کی ایک نگاہ التفات کے لیے زندہ رہنا چاہتا ہے۔ سب سے قیمتی چیز انسان کے نزدیک اس کی جان ہی ہوتی ہے۔ اسی لیے بارگاہ عشق میںعاشق اپنی جان کا نذرانہ پیش کرتا ہے۔محبوب اور سرخ رنگ میں بھی ایک مطابقت پائی جاتی ہے۔ اس لیے عاشق اپنے محبوب کے عشق میں گرفتار ہوکر پریشان پھرتا رہتا ہے۔ اس شعر میں بھی متکلم نے معشوق کا عشق حاصل کرنے کے لیے اپنی زندگی، سب کچھ محبوب کو نذر کر چکا ہے۔
متکلم کو اس بات پر شدید حیرانی ہے کہ آخر عشق کی داستان کو رنگین کرنے کی جسارت کس نے کی۔ جہاں متکلم اس سوال کو کرتے ہوئے حیرانی کا اظہار کر رہا ہے، وہیں اس نے چپکے سے مصرعے میں ایک لفظ ”رنگین ” بھی رکھ دیا ہے۔ رنگین علامت ہے خوشی کی، رنگ کی، چہل پہل کی۔ عشق کا نتیجہ جو بھی ہو لیکن اسی کی وجہ سے داستان میں ایک رنگ پیدا ہو گیا ہے۔ یہیں پہنچ کر عشق کا یہ پہلو بھی سامنے آتا ہے کہ عشق میں مصیبتیں برداشت کرنا عاشق اپنا فرض سمجھتا ہے۔
کیا عشق کی اس پوری داستان میں صرف عاشق ہی پریشان حال پھرتا ہے یا کبھی معشوق کو بھی کسی طرح کی پریشانی لاحق ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں کلیم عاجز کا شعر دیکھیے
کلیجہ کس کا جلتا ہے یہ کیسی آنچ آتی ہے
یہ کس کا ہے غم جاں یہ غم جانانہ کس کا ہے؟
اس شعر میں جلنے کی رعایت سے آنچ کا خوبصورت استعمال کیا گیا ہے۔ کلیجہ اس قدر جل چکا ہے کہ اب اس میں آگ نہیں بلکہ آنچ کی تیزی اور شدت پائی جاتی ہے۔ یوں بھی کلیجہ سرخ ہوتا ہے لیکن متکلم نے بہت خوصورتی سے کلیجے کی سرخی کو معشوق کے ظلم کا نتیجہ بتایا ہے۔بظاہر تو شعر میں عاشق کے غم اور تڑپ کی داستان بیان کی گئی ہے اور ساتھ ہی عاشق اور اس کے معشوق کے متعلق جاننے کی کوشش بھی کی جا رہی ہے۔ لیکن شعر میں ایک ایہام بھی ہے جس کا احساس شعر کے دوسرے مصرعے سے ہوتا ہے۔ متکلم کو عاشق اور اس کے معشوق کے بارے میں علم ہے ۔ جسے عاشق کا غم اور اس کی تڑپ سمجھا جا رہا ہے دراصل وہ معشوق کی تڑپ ہے، اس کے کلیجے کے جلنے کی آنچ ہے۔ عاشق تو اپنے معشوق کے دیے تحفے پاکر خوش ہے۔ عاشق کو خوش دیکھنا ہی معشوق کو بے چینی میں مبتلا کیے ہوئے ہے۔
اردو شاعری میں معشوق کو ظلم روا رکھنے والا تسلیم کیا جاتا ہے۔ معشوق عاشق پر طرح طرح سے ظلم کرتا ہے اور اس کو بے چینی اور پریشانی میں مبتلا رکھنا معشوق کی فطرت ہے لیکن یہاں معاملہ اس کے برعکس ہے۔ عاشق معشوق کے ظلم کو اپنے لیے خاص سمجھتا ہے اور اس کی محبت سے آزاد نہیں ہونا چاہتا۔ عاشق کا خوش ہونا ہی معشوق کو تکلیف میں مبتلا کر رہا ہے۔ دوسرے مصرعے میں غم جاں دراصل معشوق کے لیے استعمال کیا گیا ہے اور غم جانانہ (مصرعے کی رعایت سے) یعنی غم کا دینے والا عاشق ہے۔ کلیجہ تو عاشق کا جلتا ہے اور لازماً آنچ بھی وہیں سے آئے گی۔ کلیم عاجز نے مصرع ثانی میں غم جاں اور غم جانانہ کو ایک ساتھ استعمال کر کے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ یہ دونوں ایک دوسرے سے مل کر ہی مکمل ہوتے ہیں۔ ایک کے بغیر دوسرے کا کوئی جواز نہیں۔ غم جاں عاشق کے لیے ہے اور غم جانانہ معشوق کے لیے۔ گویا جو غم جاں ہے وہ غم جانانہ بھی ہے۔ اگلا شعر دیکھیے
یہ کیا شئے ٹوٹنے کی مستقل جھنکار آتی ہے
یہ دل کس کا ہے دل سے شغل بے دردانہ کس کا ہے؟
عام طور پر شاعر ی میں لفظ جھنکار زنجیر کی رعایت سے آتا ہے۔۔ شاید کلیم عاجز نے پہلی مرتبہ دل کے ٹوٹنے یا توڑے جانے کے عمل سے اسے وابستہ کیا ہے۔ دل کے ٹوٹنے کی صدا کہاں سے آتی ہے اور اگر آتی بھی ہے تو کون سنتا ہے۔ کلیم عاجز نے پوری اردو کی شعری روایت کو نہ صرف اس شعر میں بروئے کار لا یا ہے بلکہ اس میں ایک اضافہ بھی کیا ہے۔ دل کے ٹوٹنے یا دل کو توڑنے کا ایک سلسلہ سا ہے۔ دل عاشق کا ٹوٹتا ہے۔ متکلم دل اور دل سے شغل بے دردانہ پر حیرت زدہ ہے۔ شغل بے دردانہ کی ترکیب سے معمول کے ایک عمل کی جانب اشارہ ہے۔ شغل بے دردانہ لا عمل معشوق کے لیے ہونا چاہیے مگر شاعر نے اسے واضح نہیں ہونے دیا ہے۔ بظاہر یہ لگتا ہے کہ عاشق خود ہی بے دردی کے اس عمل میں شریک ہے۔ گویا عاشق کے دل کو معشوق نے اپنے ظلم سے بدحال کر رکھا ہے۔
اس شعر میں بھی متکلم اسی جانب اشارہ کر رہا ہے کہ معشوق پریشان ہے۔ عاشق پر مظالم کرنے کے بعد بھی عاشق کو مطمئن دیکھ کر اسے حیرت بھی ہو رہی ہے اور پریشانی بھی۔ دوسرے مصرعے میں معشوق کی رعایت سے لفظ ”دل” آیا ہے۔ اردو شاعری میں دل محبوب کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ متکلم کو اس لیے بھی حیرت ہو رہی ہے کہ یہاں پر عاشق انجانے میں سہی لیکن معشوق پر ظلم کر رہا ہے۔، گرچہ ہوتا اس کے برعکس ہے۔ شعر میں متکلم دل کے ساتھ شغل بے دردانہ کی بات بیان کر رہا ہے۔ شغل کہتے ہیں کام اور مشغلے کو اور یہاں پر مشغلہ دل کے ساتھ ہو رہا ہے وہ بھی ایسا شغل جس میں سفاکی پائی جاتی ہے۔ معشوق نے خود کو پریشانی میں مبتلا کر رکھاہے۔
ستم ڈھایا ہے کس کافر صنم کی زلف برہم نے
شکستہ آئینہ ٹوٹا ہوا یہ شانہ کس کا ہے
بظاہر تو اس شعر میں بھی متکلم معشوق کے ظلم کی داستان ہی سنا رہا ہے۔ ستم ڈھانے کا کام زلف برہم کر رہی ہے۔ لیکن دوسرا مصرعہ یہاں کچھ اور کہانی بیان کر رہا ہے۔ آئینہ کا شکستہ ہونا اور شانہ کا ٹوٹ جانا بزمِ معشوق کی ویرانی کا مرثیہ ہے۔ محفل میں جانے سے پہلے معشوق خود کو سجانے سنوارنے کے لیے ان ہی چیزوں کا استعمال کرتا ہے۔ اسی لیے معشوق کو یہ دونوں چیزیں بہت عزیز بھی رہتی ہیں۔ یہاں متکلم نے آئینے اور شانے کو مرکز میں رکھ کر معشوق کی تباہ حالی بیان کی ہے۔ معشوق کی یہ حالت کو کیوں ہوتی ہے اس کا ذکر اوپر آ چکا ہے ۔ اس شعر کے بین السطور میں یہ بات بھی موجود ہے کہ وہ تمام کام جن کا اوپر ذکر کیا گیا ہے، انجام کو پہنچ چکے ہیں۔ معشوق کی تباہ حالی کا ذمہ دار خود معشوق ہے۔
رند کا شعر ہے
اسی خاطر تو قاتل عاشقاں سے منع کرتے تھے
اکیلے پھر رہے ہو یوسف بے کارواں ہو کر
متکلم اسی بات کی جانب اشارہ کر رہا ہے کہ اگر یوسف بھی ہے تو یوسف جاننے اور ماننے کے لیے کارواں کی ضرورت تو بہرحال رہے گی۔ اگر کارواں کے تمام لوگ، محفل کے تمام عاشق قتل کر دیے جائیں تو معشوق کو معشوق کا رتبہ دینے والا کوئی نہیں رہے گا۔ ایسی صورت میں معشوق کی اہمیت خود اس کی نظروں میں ختم ہو جائے گی۔ شہریار کا ایک شعر دیکھیے
ہم نے تو کوئی بات نکالی نہیں ایسی
وہ زود پشیمان پشیمان سا کیوں ہے
متکلم معشوق سے ہم کلام ہے کہ میں نے کسی سے ذکر نہیں کیا، خواہ تمہارے مظالم ہوں یا محبت کے عہد و پیمان۔ یہاں متکلم کو محبوب کی پشیمانی افسردو تو ضرور کر رہی ہے لیکن متکلم اپنا پہلو صاف کرنے پر زیادہ زور دے رہا ہے۔ کلیم عاجز کے یہاں معاملہ کچھ اور ہے۔ متکلم کہیں نہ کہیں معشوق کو اس بات کا احساس دلانا چاہتا ہے کہ اس ماحول، ان حالات کا ذمہ دار خود معشوق ہے۔ یہاں کی تو ساری محفل ویران ہو چکی ، تمام عاشق راہِ عشق میں کام آ گئے ۔ ان ہی خیالات کو اگلے اشعار میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔
لہو کی مے، سبو ٹوٹے دلوں کے، جام زخموں کے
یہ کس قاتل نے کھلوایا ہے یہ میخانہ کس کا ہے
لہو روتے ہی رہنا ہے ؟ غزل گاتے ہی رہنا ہے
سزا یہ کس نے دی کیا جرم ہے جرمانہ کس کا ہے
ان اشعار کے بعد غزل میں گریز کا شعر بھی ملتا ہے
غزل کے آئینے میں زندگی کس کی جھلکتی ہے؟
غزل خواں سے کوئی پوچھو کہ یہ افسانہ کس کا ہے؟
متکلم معشوق سے مخاطب ہو کر کہہ رہا ہے کہ کیا تمہیں اس بات کا علم ہے کہ غزل میں کس کے دم سے زندگی کے آثار پائے جاتے ہیں۔ یہاں پر غزل کے معنی محفل کے بھی لیے جا سکتے ہیں۔ متکلم یہاں معشوق کو مزید احساس دلانا چاہتا ہے کہ وہ صرف اس وہم میں اپنی زندگی گزار رہا تھا کہ اس کے دم سے محفل میں روشنی ہے۔ اگر وہ ہے تو محفل میں زندگی ہے، رونق ہے لیکن اگر ایسا ہی تھا تو عاشق کے ختم ہو جانے کے بعد محفل میں گہری خاموشی کیوں چھا گئی۔ دراصل معشوق وہم کا شکار تھا۔ محفل میں اصل زندگی تو عاشق کے دم سے تھی جس میں داستانِ عشق کو رنگین کرنے کی ہمت تھی، جو بارگاہ حسن میں اپنے لہو کا نذرانہ پیش کرنے سے قدم پیچھے نہیں ہٹاتا، وہی ہے جس میں نعرۂ مستانہ لگانے کی چاہ بھی تھی اور ہمت بھی۔معشوق کی بزم میں حرارت و توانائی معشوق کے دم سے نہیں بلکہ عاشقوں کے دم سے ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ متکلم معشوق سے مخاطب ہو کر کہہ رہا ہے کہ غزل خواں سے بھی اس کی تصدیق کی جا سکتی ہے کہ افسانے میں مرکزی کردار کا حامل عاشق ہے یا معشوق۔ یہاں پر افسانے کا ”کس کا” ہونا ایک اور معنی میں بھی استعمال ہوا ہے۔ دراصل متکلم اس مصرعے کے ذریعے آنے والے شعر کی راہ ہموار کرنا چاہتا ہے۔ اگلے شعر میں اس غزل کے خالق کا ذکر بڑے ہی خوبصورت انداز میں کیا گیا ہے
جی کیا فرمایا؟ عاجز ہند سے تشریف لائے ہیں
وہی تو میں کہوں یہ طرز درویشانہ کس کا ہے؟
کلیم عاجز کی اس پوری غزل کو شعری تعلّی کا اعلیٰ نمونہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ پوری غزل میں اس کی کارفرمائی ہے۔ لیکن کلیم عاجز نے یہاں بھی دیگر شعرا سے الگ راہ نکالی ہے۔ عموماً شاعر جہاں تعلّی کا استعمال کرتے ہیں وہاں وہ بہت بے باکانہ انداز سے اس کا اظہار کرتے ہیں لیکن کلیم عاجز نے تعلّی کا استعمال تجاہل عارفانہ کے ساتھ انشائیہ لب ولہجہ میں کیا ہے۔ ”کس کا ہے” کی بار بار تکرار پوری غزل میں انشائیہ رنگ پیدا کرتی ہے۔
کلیم عاجز کی غزلوں میں ایک چیز اور ملتی ہے، وہ ہے قدیم روایتوں کو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا۔ وہ باتیں تو عصری تقاضوں کی کرتے ہیں لیکن ان کو بیان کرنے کے لیے کلاسیکی سرمائے سے مدد لیتے ہیں۔ یہی وہ خوبی ہے جو انھیں ہم عصروں میں منفرد مقام عطا کرتی ہے۔
٭٭٭
Leave a Reply
2 Comments on "کلیم عاجز کی ایک غزل
"
[…] کلیم عاجز کی ایک غزل […]
[…] کلیم عاجز کی ایک غزل […]